مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے
کہ ‘‘اُردُو کو تو جیسے نظر لگ گئی ہے’’ ۔ یہ زبان کہ جس کا تخم اعجازِ حجاز اور
تمدنِ فارس کی دین ہے، سرزمینِ ہند کی مٹی اِس کو ایسی راس آئی کہ ڈیڑھ دو صدیوں
میں اُردُو کی دھوم چار دانگِ عالم میں پھیل گئی۔ برِ صغیرکے ایک لشکری لہجے سے
ایک مہذب زبان تک کا سفر جتنی تیزی سے اردو نے طے کیا شاید ہی کسی اور زبان نے طے
کیا ہو گا۔
انگریز سرکار کا ایک مجسٹریٹ
میرزا نوشہ کے پاس حاضر ہوا کہ اُن سے اردو سیکھے اور روزمرہ پیشہ ورانہ مصروفیات
میں ہندوستان کے لوگوں کی زبان سمجھنے بولنے کے قابل ہو سکے، میرزا نے اُس کو یہ
کہہ کر چلتا کر دیا:’ میاں، لوگوں کی زبان سیکھنی ہے تو جاؤ کسی گھسیارے سے سیکھو،
میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں‘۔ بہ ظاہر چھوٹا سا یہ واقعہ اس امر کی نشاندہی
کرتا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں اردو مختلف لہجوں میں رواج پا چکی تھی۔دلی اور
لکھنؤ کے لہجوں کا نمایاں فرق اور دونوں کی گیرائی تب بھی معروف تھی۔
پنجابی کی معروف کہاوت ہے: ’’بولی
تے بوٹے، دونہاں نوں مٹی چاہی دی اے‘‘ ۔ ہر زندہ زبان کے پیچھے ایک تہذیب ہوتی ہے،
اردو برصغیر کی تہذیب میں پھوٹی اور پھلی پھولی، مقامی لہجوں بولیوں، پراکرتوں سے
بھی اثرات قبول کئے اور اپنے تہذیبی ورثہ فارسی اور عربی سے بھی اکتساب کیا، اور
دنیا میں متعارف ہوئی۔ رہی وہ نظر لگنے کی بات؛ تو یہ دور بیسویں صدی کے آخری ربع
سے شروع ہوتا ہے اور ہنوز جاری ہے۔ اس کے سیاسی سماجی، مذہبی، لسانی، معاشی اور
دیگر عوامل پر گفتگو کسی اور موقع پر اٹھائے رکھتے ہیں۔ دورِ حاضر کی تیز رفتاری،
سماجی شکست و ریخت، مذہب سے بے گانگی، روایات سے بغاوت، مفادات کی چشمک اورسہل
پسندی فنونِ لطیفہ میں انحطاط کا باعث بنی۔ فنی باریکیوں اور جمالیات کو کارِ بے
کار سمجھا جانے لگا۔ اردو میں نام نہاد نثری نظم، آزاد غزل اور ہزل جیسی چیزیں
سامنے آئیں۔ ظاہری چمک دمک، خالی خولی لفاظی، اور کچھ نہ کرکے اہلِ علم و فن
کہلوانے کا منفی رویہ پنپنے لگا۔ یہاں تک کہ فی زمانہ اپنی اصل سے بے گانہ، روایت
سے بیزار، دوسروں کی نقالی کا دل دادہ طبقہ اردو کو اس کی مبادیات یعنی فارسی اور
عربی کے اثرات سے ’’پاک‘‘ کرنے پر مصر ہے۔
گزشتہ دنوں ایک دوست نے بڑے
دکھ کے ساتھ کہا کہ مثنوی مر رہی ہے۔ رباعی کو، لوگ باگ تو کیا اہل قلم کی اکثریت
نے فراموش کردیا ہے۔ بہ ایں ہمہ گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر سرگرمِ عمل کچھ دوستوں کی
انفرادی کوششوں سے رباعی کے اوزان کی تفہیم کے کچھ نئے طریقے اور انداز سامنے آئے
ہیں۔ رو بہ انحطاط لسانی تہذیبی ادبی پیش منظر میں ایسے دوستوں کی کاوشیں خوش آئند
ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں کوئی باک
نہیں کہ عام شعراء کے لئے تو رباعی لکھنا ثریا کو چھُونا ہے ہی، مشاق شعراء بھی
اسے مشکل گردانتے ہیں۔ عمومی مشاہدے کے مطابق رباعی کے اوزان کی تفہیم کی طرف موثر
پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک بڑی وجہ علم عروض کی دقیق اصطلاحات اور اوزان کی
تخریج کا مروجہ زحافاتی طریقہ ہے۔ اس ضمن میں جن دوستوں کی کاوشوں کی طرف اوپر
اشارہ کیا گیا ہے، وہ دورِ جدید کے سہل انگار ذہنوں کے لئے نسبتاً آسان فہم ہیں۔
امید کی جا سکتی ہے کہ تفہیم کی یہ کاوشیں باروَر ہوں گی۔ رباعی کے اوزان کو دقیق
الحصول کہنا قطعاً درست نہیں، ہاں البتہ یہ ’غیرمانوس‘ کے زمرے میں رکھے جا سکتے
ہیں۔
قاضی عطاء الرحمٰن کی رباعیوں
پر مشتمل تازہ آمدہ کتاب ’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘ نہ صرف اردو کی شعری روایت کی
علمی اور فنی بازیافت کے سفر میں ایک بہت سنجیدہ قدم ہے، بلکہ چکا چوند کی چلچلاتی
دھوپ میں ایک توانا میگھ سندیس بھی ہے ۔ قاضی صاحب سے میرے پہلے تعارف کا باعث یہی
خوشبو میں نہاتے رنگ ہیں۔ کتاب کی ورق گردانی کے دوران مجھ پر کھلا کہ قاضی صاحب
کی دو کتابیں ’’دعائیں سوکھ رہی ہیں‘‘ ( نظمیں)، اور ’’خواب بھر روشنی‘‘ (غزلیں)
زیرِ ترتیب ہیں۔ وہ اپنی اس عالی ہمتی پر داد کے مستحق ہیں کہ صاحبِ کتاب شاعر کی
حیثیت سے ان کا اولین تعارف رباعی کے حوالے سے ہو رہا ہے۔
اس سے قبل صرف رباعیوں پر
مشتمل کوئی کتاب، جوماضی قریب میں منظر پر آئی ہو، میرے علم میں نہیں۔ قاضی صاحب
کی وہ رباعی یہاں نقل کرتا ہوں جس سے انہوں نے کتاب کا نام کشید کیا ہے:۔
ہر سمت وہ خوشبو میں نہاتے ہوئے رنگ
اترے ہیں فلک سے جھلملاتے ہوئے رنگ
پھر موجِ ہوا میگھ سندیسہ لائی
پھر نکلے زمیں سے مسکراتے ہوئے رنگ
ادب کی زمین میں عرصہ بعد
پھوٹنے والے ان رنگوں، اور فضا میں برسات کا پیغام لانے والی اِن ہواؤں سے مستفیض
ہونے کے لئے اِس کتاب کا ورق بہ ورق مطالعہ کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ رباعی کے چوبیس
مخصوص اوزان ہیں، اور اِس کے چاروں مصرعے، انفرادی طور پر ان چوبیس میں سے بلا
امتیاز کسی بھی وزن پر ہو سکتے ہیں۔ پہلا، دوسرا اور تیسرا مصرع ہم قافیہ ہوتے
ہیں، ردیف اختیاری معاملہ ہے۔ ایک رباعی میں کوئی ایک مضمون مکمل بیان کرنا ہوتا
ہے۔ یوں، رباعی لکھنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں رہ جاتا۔
افتخار عارف نے کہا ہے: ’’شاید
گزشتہ چند برسوں میں صرف رباعیوں پر مشتمل کسی نوجوان شاعر کی یہ پہلی کتاب ہے۔ ان
رباعیوں میں جمالیاتی تنوع بھی ہے اور موضوعاتی رنگارنگی بھی۔ عروض میرا موضوع
نہیں ہے۔ تھوڑی بہت آہنگ کی شدھ بدھ کی گواہی پر کہہ سکتا ہوں کہ فنی اعتبار سے
بھی یہ کتاب آپ کو مطالعے پر متوجہ کرتی ہے۔ نوجوان شاعر عطاء الرحمٰن قاضی کی یہ
خوبصورت کوشش نئی نسل کے دوسرے شعراء کو رباعی کہنے پر مائل کر سکے تو یہ بھی ایک
بڑی کامیابی ہو گی۔ اختصار و آہنگ کی دل کش و دل نواز فضا میں نمود کرنے والی یہ
صنفِ شعر اگر رواج پا جائے تو یہ کسی بڑے ادبی کارنامے سے کم نہیں ہو گا‘‘۔
ڈاکٹر قاضی عابد کی آراء کتاب کی
تفہیم و تنقید میں بہت معاونت کر رہی ہیں؛ لکھتے ہیں:۔
* قاضی
عطا کی یہ رباعیاں ان کے تخلیقی مزاج کی گواہی دے رہی ہیں۔ انہوں نے رباعی کے
موضوعات میں بھی (جو کم و بیش نظری سطح پر متعین ہیں) ایک سچے اور کھرے فنکار کے
طور پر بے حد تنوع سے کام لیا ہے اور رباعی کے اندر مابعدالطبیعیات سے ابھرا ہوا
ایک ایک اخلاقی نظام ترتیب دیا ہے جو اپنے ارد گرد سے بھی رشتہ جوڑے ہوئے ہے اور
نئی نئی نکتہ آفرینی بھی کرتا نظر آتا ہے۔
*قاضی
عطا کے ہاں مناظرِ فطرت کی تصویر گری میں داستانوی اور اساطیری حوالے بھی دکھائی
دیتے ہیں۔
*ان
رباعیوں میں جہاں ایک اخلاقی طرزِ احساس نظر آتا ہے وہیں پر وہ عشق کے تجربے کی
مختلف جہات کو بھی اپنے تخلیقی عمل یا حصہ بناتے نظر آتے ہیں۔
*ان کی
یہ رباعیاں بے حد فنی امکانات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
*قاضی
عطا رباعی کی روایت میں ایک نمایاں اضافہ ہیں۔
قاضی عطا الرحمن کی لفظیات،
مضامین، اسلوب اور اندازِ نگارش اُن کی رباعی کو دورِ جدید کے رجحانات سے ہم آہنگ
کر دیتے ہیں۔ وہ رباعی کی جملہ پابندیوں کو نبھاتے ہوئے مضمون بندی اور مضمون
آفرینی کے آج کے تقاضوں کو نہ صرف بہ طریقِ احسن پُورا کرتے ہیں بلکہ عربی اور فارسی
پر مبنی تراکیب، استعارات، اور علامات کے موجود سرمائے میں مقامی زبانوں کو کمال
ملائمت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے رباعی کے قاری کو بھی کچھ کہہ گزرنے کا حوصلہ
دیتے ہیں۔ اظہار کی تازہ کاری ملاحظہ ہو:۔
لفظوں کو ادائے کہکشانی دے دے
دریائے تکلم کو روانی دے دے
کچھ اور نہیں مانگتا میں در سے ترے
مجھ کو مرے ہونے کی نشانی دے دے
مدت سے جو تھا بند وہ دروازہ کھلا
چمکا سرِ بطحا گلِ مہتاب ایسا
اندھیر ہی اندھیر تھا تا حدِ نظر
آپ ﷺ آئے تو ہر سمت اجالا پھیلا
دل ہے کہ سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں
نشہ وہ چڑھا ہے کہ اترتا ہی نہیں
دیکھا ہے ترے حسن کا پرتو جب سے
آنکھوں میں کوئی نقش ٹھہرتا ہی نہیں
آج کے سہل پسند رویے کے پیش
منظر میں قاضی صاحب کے ہاں رباعی جیسی صنف میں لفظیات کی رنگا رنگی، ردائف و قوافی
کی بوقلمونیاں قابل تحسین ہیں۔ استادانہ چابک دستی کے ساتھ ساتھ موضوع سے انصاف
کرنے کی مثالیں دیکھئے:۔
کھلتا نہیں راز، لاکھ کِیجے توجیہ
اک اور بھی عالم ہے ورائے تشبیہ
کہتا ہے سکوتِ ارتفاعِ نشّہ
دو گام ذرا، سیرِ فضائے تنزیہ
ہر جامِ نشاط، واژگوں ہے، یوں ہے
خاموش، طلسمِ ارغنوں ہے، یوں ہے
بیدِ مجنوں کے سلسلوں میں پیچاں
جو دل ہے سو پابندِ جنوں ہے، یوں ہے
تھی وہ جو ازل سے بے قراری نہ گئی
تصویرِ مہِ حسن اُتاری نہ گئی
مشّاطگئ بادِ بہاری معلوم!
ہم سے بھی تری زلف سنواری نہ گئی
قاضی صاحب کی رباعیوں میں
زبان، مضمون، اسلوب اور دیگر فنیات کے حوالے سے، بیک وقت ایک سے زیادہ خصائص پائے
جاتے ہیں۔ ’’خوشبو میں نہاتے رنگ‘‘ کا عمیق مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام رباعیات
انتخاب ہیں۔ کہیں کہیں تو ایسی بے ساختگی پائی جاتی ہے گویا یہ رباعی نہیں، مرصع
نثر کا کوئی ٹکڑا رہا ہو:۔
اے نغمۂ بے تاب، ذرا اور چمک
اے شعلۂ نا یاب، ذرا اور چمک
بس جائے رگ و پے میں غمِ عشق کی لَو
اے درد کے مہتاب، ذرا اور چمک
تلووں کو نہ بیٹھے ہوئے سہلائیے گا
دیوار کے سائے سے نکل آیئے گا
آنکھوں سے اتاریے گا دل میں اپنے
کچھ اُس کا سراغ اگر کہیں پایئے گا
قاضی صاحب کی رباعیاں اس
اعتبار سے بھی ہمہ گیر ہیں کہ ان کا فکری وجود، اسلوبِ گفتار، لفظیات، معنوی فضا
اور فنی پیراہن ایک دوسرے کو حسن بخشتے ہیں۔اِن میں سے کسی ایک سے بھی صرفِ نظر
ممکن نہیں۔میرے نزدیک مندرجہ ذیل رباعی اُن کے اسلوب کے ساتھ اِس کتاب کے مشمولات
کی بھی آئینہ.دارہے:۔
ہو نکہتِ گل جیسے پَوَن میں شامل
خوشبوئے دہن ہوئی سخن میں شامل
ورنہ یہ چمک کہاں تھی پہناوے میں
ہے رنگِ بدن بھی پیرہن میں شامل
*******
محمد یعقوب آسی ۱۳ فروری ۲۰۱۱ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں