جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

ناراض ہوائیں ۔۔ ریڈیو ڈراما





ناراض ہوائیں
تحریر:  محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان



کردار اور صدا کار

پہلا لڑکا:
(15، 20 برس کا لڑکا)
ریاض شاہد (بحرین)
دوسرا لڑکا:
(15، 20 برس کا لڑکا)
ڈاکٹر احمد طلال آصف (لاہور)
پکارنے والا:
(پختہ عمر کا کراری آواز والا شخص)
شوکت علی ناز (دوحہ)
چھیدُو:
(30، 35 برس کا صحت مند شخص)
ڈاکٹر محمد آصف مغل (میاں والی)
موجو:
(40، 45 برس کا نشے باز آدمی)
ریاض شاہد (بحرین)
سرفراز:
(20، 25 برس کا صحت مند جوان)
ڈاکٹر صغیر اسلم (کینڈا)
نادر:
(25، 30 برس کا مہذب شخص)
حبیب الرحمٰن مشتاق (گلگت)
ڈاکٹر:
(عمر : 30، 35 برس )
خالق داد امید (پشاور)
شمو:
(20، 22 برس کی نوجوان بیوہ)
الماس شبی (امریکا)
جنتے:
(55، 60 برس کی گرتی ہو صحت والی خاتون)
لیلیٰ رانا (لاہور)
چاچا رفیق:
(60 برس کا بوڑھا، بیمار سا شخص)
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا)


صدا بندی: الماس شبی، خالق داد امید
ہدایات: الماس شبی
پیش کش: پنج ریڈیو، اَل پاسو، یو ایس اے


(1)
سہ پہر کا وقت، گاؤں کے ساتھ باہر کا منظر، ایک درخت کی چھاؤں میں
اس منظر کے کردار: پہلا لڑکا، دوسرا لڑکا، چاچا  رفیق
فصلوں اور درختوں سے گزرتی تیز ہوا کی سیٹیاں، بھینسوں کے ڈکرانے اور بکریوں کے ممیانے کی ملی جلی آوازیں جو کبھی بلند ہو جاتی ہیں اور کبھی مدھم،  ایک عمر رسیدہ شخص کے کھانسنے کی آواز۔

پہلا لڑکا: دھوپ آ گئی ہے یار، اس ککری کا سایہ بھی تو اتنا سا ہے۔
دوسرا لڑکا: تھوڑا سا ادھر کھسک جاتے ہیں۔
پہلا لڑکا: چل یار، چال چل، چھوڑ چھاؤں کو! تو جل نہیں جائے گا۔
دوسرا لڑکا: یہ لے حکم کی دکی! (پتہ پھینکنے کی آواز) اب تیری باری ہے۔
پہلا لڑکا: اے ! یہ لے پھر! رَنگ!
پہلا لڑکا: وہ، اُدھر دیکھو اوئے، وہ ڈنگوری والا بابا ۔۔۔ ۔
دوسرا لڑکا: وہ جو کھیت سے نکلا ہے، وہ چاچا رفیق ہے۔
پہلا لڑکا: اوئے پتے سمیٹ اوئے، چاچا کیا کہے گا، تاش کھیل رہے ہیں۔
چاچا رفیق کے کھانسنے کی آواز
دوسرا لڑکا: سلام! چاچا!
چاچارفیق: وعلیکم السلام! کیسے ہو بھئی؟ کیا ہو رہا ہے؟
پہلا لڑکا: کچھ نہیں چاچا، بیٹھے ہیں گپ لگ رہی ہے۔
چاچا رفیق: اچھا ہے! مل جل کر رہا کرو بچو! اور بڑوں سے دعائیں لیا کرو ۔
ہولے ہولے دور جاتے قدموں کی تھپ تھپ


(02)
سہ پہر کا وقت، گاؤں کی ایک گلی میں
اس منظر کے کردار: چاچا  رفیق، شمو، سرفراز

چاچا رفیق: (خود کلامی کے انداز میں) مٹی، گَرد! یہ سڑک، یہ سڑک بھی تو اب گرد کی پٹی لگتی ہے (کھانستا ہے) چوتھا برس لگ گیا، شمو کو بیوہ ہوئے! اب تک نہیں سنبھل پائی میری بچی۔ اس کی زندگی میں صرف وہی ہفتہ دس دن تھے خوشیوں کے؟ اللہ! وہ دونوں کتنے خوش تھے! مگر، یہ سُوکھا! یہ سُوکھا نہ پڑتا تو شاید سرفراز نہ مرتا۔ پر کیسے نہ جاتا وہ،  وہ شمو پُتر کے ترلے، یوں ہی بس! میں نے سن لئے تھے۔ (ٹھنڈی سانس لیتا ہے) ہاں! سننا پڑتا ہے، دیکھنا پڑتا ہے، سہنا پڑتا ہے۔

گھڑی کی ٹِک ٹِک کی آواز
فلیش بیک
وقت کا تعین ضروری نہیں، ایک گھر کا صحن

شمو: دیکھ سرفراز! مجھے ڈر لگتا ہے، نہ جا! جانا ہی ہے تو مجھے بھی ساتھ لے جا۔ بہت وسوسے بھرے ہیں میرے دل میں! سرفو! تو نہ جا! ہم فاقے کر لیں گے مگر ۔۔۔ میرے ہاتھوں کو دیکھ سرفو!
سرفراز: کیا ہوا ہے تیرے ہاتھوں کو؟ اچھے بھلے تو ہیں! اور یہ مہندی! ۔۔۔
شمو: تیرے لئے لگائی تھی سکھیوں نے، ڈولی والے دن! تجھے پسند آئی نا، تو اس کی لشک بڑھ گئی۔ تو کیوں جاتا ہے سرفراز مجھے اکیلی چھوڑ جائے گا۔ (لوچ دار آواز میں) ابھی تو دس دن بھی نہیں ہوئے۔
سرفراز: (ٹھہرے ہوئے لہجے میں) بانْوری ہو رہی ہو شمو! جانے کو کس کٹھور کا جی چاہتا ہے پر مجھے جانا ہے۔ یہاں تو کھیتوں میں فصلیں نہیں دھول اگتی ہے۔ شہر جاتا ہوں، کچھ دال روٹی کا بھی تو کرنا ہے! تو میرے ساتھ جائے گی، ہاں!
شمو: (مسرت آمیز حیرت کے ساتھ) سچی!؟ سچی، سرفراز! تو مجھے ساتھ لے جائے گا؟ (بے تابی کے ساتھ) کب جانا ہے؟ میں تیار ہو جاؤں؟ پر، سرفو! اماں اور ابا؟ وہ اُن کو روٹی کون پکا کے دے گا؟ کپڑے کون دھوئے گا۔
سرفراز: کل جانا ہے۔ تو اس طرح کر! آدھی میرے ساتھ چل اور آدھی یہاں رہ، اماں بابا کو بھی تو تیری ضرورت ہے۔
شمو: کیا؟! میں نہیں سمجھی تو کیا بجھارت ڈال رہا ہے۔
سرفراز: سیدھی سی بات ہے جھلئے! تیرا دل میرے ساتھ اور تو؟ اماں بابا کے ساتھ۔ یہاں تو اب مزدوری بھی نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے نا، اس پاپی پیٹ کے لئے! یوں سمجھ کہ آج بارش ہوئی اور کل میں آیا۔
شمو: پر کون جانے بارش کب ہو گی! اور ہو گی بھی کہ نہیں ہو گی (ٹھنڈی سانس بھرتی ہے)۔
سرفراز: ہَوکے کیوں بھر رہی ہے شمو! لا، ذرا اپنے ہاتھ تو مجھے دے۔
شمو: (محبت اور شکایت کے ملے جلے لہجے میں) کیا کرتا ہے! چھوڑ مجھے! کوئی دیکھ لے گا، کوئی سن لے گا، نہ کر!۔
(دونوں ہنستے ہیں پس منظر میں گھنٹیوں کی آوازیں آنے لگتی ہیں اور ہنسی ان میں تحلیل ہو جاتی ہے۔)

فلیش بیک ختم
گھڑی کی ٹِک ٹِک کی آواز

چاچا رفیق: (خود کلامی کا سلسلہ جاری رہتا ہے) اور وہ چلا گیا۔ مگر اگلے ہی دن لوٹ آیا،  ایک کٹی پھٹی لاش کی صورت میں! سڑک پر کام کرتے میں کوئی ٹرک اس کو کچل گیا تھا۔ (رونے پیٹنے اور بَین کرنے کی آوازیں جیسے کہیں دور سے آ رہی ہوں، چاچا رفیق کی آوازوں کو دبا دیتی ہیں اور پھر مدہم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہیں۔ چاچا کی خود کلامی جاری رہتی ہے) پھر میری بچی کو چپ لگ گئی تھی۔



(03)
رات کا وقت، گھر کا ایک کمرہ
اس منظر کے کردار: جنتے، چاچا  رفیق، شمو

رات کی خاموشی، جھینگروں کی آوازیں مسلسل آ رہی ہیں؛ بیچ میں کہیں کہیں کسی ڈھور ڈنگر کے گلے میں بندھی گھنٹی کی ہلکی سی آواز آتی ہے یا پھر کسی الو کی گمبھیر "اُوووو" اور پھر جھینگروں کی آوازیں


جنتے: یہ روتی کیوں نہیں ہے! شمو کے ابا، اِس کو رلا! جیسے بھی رلا سکتا ہے! مجھ سے اس کی چُپ نہیں سہی جاتی۔ دل پھٹ جائے گا اس کا نہیں روئے گی تو۔
چاچا رفیق: ٹھیک کہتی ہے تو، پر تو اس کی ماں ہے، جنتے! ماں سے بہتر کون جان سکتا ہے بیٹی کو! بیٹا ہوتا تو ۔۔ (ٹھنڈی سانس بھرتا ہے) ۔ دَس دِن کا سہاگ  اور پھر بیوہ! تجھے پتہ ہے نا! یہ تین برس ، مجھے تیس برس اور بوڑھا کر گئے ہیں۔
جنتے: بارش بھی تو نہیں ہو رہی۔ شاید! مینہ برسے تو اس کی چپ ٹوٹ جائے۔
(تیز ہوا کی سیٹیاں سی بجتی ہیں اور اور دور کہیں بادل گرجنے کی آواز آتی ہے)
شمو: اماں! اماں! بادل گرجنے کی آواز! سنی تو نے! وہ، وہ آتا ہو گا۔ ۔۔ اماں میرے کپڑوں کا رنگ کیسا ہے اماں!
جنتے: سُوہا رنگ ہے بیٹی! مہندی سے بھی گاڑھا، جیسا سرخ جوڑا ہوتا ہے۔
شمو: نہیں اماں! سُوہا جوڑا ایسا نہیں ہوتا، یہ تو کالا رنگ ہے۔ سوہا ایسا نہیں ہوتا، یہ کالا ہے، کالا ۔۔
جنتے: نہیں بیٹی! اندھیرا ہے نا، رات ہے! اس لئے تجھے کالا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ہے سُوہا رنگ۔
(بادل گرجنے کی آواز جیسے نزدیک سے آتی ہے)
شمو: ہاں، اماں! رات ہے نا، اندھیرا ہے۔ اندھیرا ہی تو ہے! اماں! بادل گرج رہے ہیں۔ پر پتہ نہیں! بارش کب ہو گی!؟
 چاچا رفیق: سو جا میری بیٹی، بارش ہو گی! ضرور ہو گی۔ کبھی تو ہو گی ہی، تو سو جا میری بچی!
جنتے: میں کہتی ہوں رُلا، اِس کو! اور تو سُلا رہا ہے! پھیکے! رُلا اِس کو! ایک چپیڑ ہی مار دے!
چاچا رفیق: میں کیسے رُلاؤں اس کو، بھاگاں والئے! تو ماں ہے نا اس کی! تو اس کو سمجھتی ہے کیسے روئے گی یہ! تو کر کچھ۔
جنتے: میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ میں کیا کروں، ربا!
(ہواؤں کی سرسراہٹ بڑھ کر سیٹیوں کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ پھر ہولے ہولے خاموشی چھا جاتی ہے)



(04)
دن کا وقت، گاؤں کی ایک گلی میں
اس منظر کے کردار: نادر، چاچا  رفیق، شمو

نادر: السلام علیکم چاچا!
چاچا رفیق: و علیکم السلام، کیسے ہو نادر؟
نادر: ٹھیک ہوں چاچا، آپ کی صحت کیسی ہے؟
چاچا رفیق:  ٹھیک ہے،  (کھوکھلی ہنسی ہنستے ہوئے) جیسی اس عمر میں ہونی چاہئے۔ سناؤ، سلامتے بہن کا کیا حال ہے؟
نادر: ماں جی ٹھیک ہیں چاچا، بخار رہتا ہے ان کو بس۔
چاچا رفیق: ابھی کل پرسوں آئی تھیں ہمارے گھر۔
نادر: ہاں چاچا، مگر اُن کو بھائی چھیدے کی وجہ سے ۔۔۔۔
چاچا رقیق: کیا ہوا چھیدے کو، بھلا چنگا تو ہے وہ!
نادر: وہ تو بھلا چنگا ہے چاچا، پر اس کی وجہ سے ماں دکھی ہیں۔ آپ کو تو اُس کے۔۔ ۔ پتہ ہی ہے آپ کو۔
چاچا رفیق: ہاں، نورے بھائی کو اللہ بخشے ، اس کے مرنے پر چھیدا چوکیدار بنا، پر  ۔ خیر،  پتہ ہے مجھے۔ وہ برا آدمی نہیں ہے۔ مگر ۔۔۔  وہ موجو ملنگ ہے قبرستان کا چوکیدار۔
نادر: میں کیا کروں چاچا، مجھے تو خود شرم آتی ہے۔ کاش میں چھیدے کا بھائی نہ ہوتا!
چاچا رفیق: ایسے نہیں کہتے یار! وہ موجو کی یاری چھوڑ دے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔
نادر: چاچا، وہ! وہ باجی! ڈسپنسری سے نکلی ہے ابھی، دوائی ہے شاید اس کے پاس کوئی؟ لال رنگ کی شیشی میں۔
چاچا رفیق: (بلند آواز میں) شمو! شمو پتر! یہ کیا ہے؟
شمو: دوائی ہے ابا! اماں کے لئے لائی ہوں، اماں بیمار ہے نا!
چاچا رفیق: (ٹھہرے ہوئے لہجے میں)  دوائی دے جا کر ماں کو! شاباش! میں آ رہا ہوں۔
شمو: ابا! وہ ڈاکٹر کہتا تھاٹھیک ہو جائے گی۔ پر، ابا! وہ ڈاکٹر تو خود بھی پاگل ہے۔ کہتا ہے: اس گاؤں کی ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں، ان کو میرے پاس پکڑ کر لاؤ، ان کا علاج کروں گا۔ (ایک مجنونانہ قہقہہ) ابا! ہوائیں بھی بھلا کسی کے قابو آتی ہیں؟ کہتا ہے: میں ہواؤں کا علاج کروں گا۔ ابا! یہ ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں؟ کیا ہُوا ہے ہواؤں کو؟ یہ بارش کیوں نہیں لاتیں؟ ابا! بتا، نا ... ابا! بارش کب ہو گی؟ (چیختے ہوئے) اماں! ابّا آ گیا ہے، اب دیکھوں گی تو کیسے دوائی نہیں پیتی، اماں! ابا آ گیا ہے۔ (اس کی آواز دور ہوتی جاتی ہے)۔
نادر: چاچا! آپ باجی کا علاج کروائیں یہ ٹھیک ہو جائے گی۔ یہ جو نیا ڈاکٹر آیا ہے نا، بہت سیانا ہے۔ ویسے بھی اچھا آدمی ہے۔ آپ اس سے مشورہ کریں، باجی ٹھیک ہو جائے گی۔ جب سے یہ ڈاکٹر آیا ہے نا، چاچا! لوگ دَم جھاڑے کی بجائے دوا دارُو کرانے لگے ہیں اور موجو ملنگ بھی بہت بل کھا رہا ہے۔ اس کے جھنڈے کی کمائی گھٹ گئی ہے۔ اور وہ، میرا بھائی!
چاچا رفیق: ہاں نادر پتر! ڈاکٹر واقعی اچھا آدمی ہے، پر یہ دنیا؟ اللہ خیر کرے یہ دنیا اچھے بندوں کو جَرتی نہیں۔



(05)
شام کا وقت، گاؤں کی ڈسپنسری میں
اس منظر کے کردار: شمو، نادر، ڈاکٹر

پرندوں کا متواتر شور

ڈاکٹر: آؤ! شمو بیٹا، آؤ! طبیعت کیسی ہے تمہاری؟
شمو: (لہجے میں نمایاں گھبراہٹ کے ساتھ) ڈاکٹر باؤ! بھاگ جا یہاں سے!لال آندھی آئے گی! جا، تُو بھاگ جا! تو ڈاکٹر ہے نا! پر، تو ہواؤں کا علاج نہیں کر سکتا۔ ہوائیں تجھ سے ناراض ہیں۔ ہاں باؤ! لال آندھی! لال سوہی آندھی آئے گی۔ تو ڈاکٹر ہے نا، پر تُو بھی تو پاگل ہے۔ کبھی کسی نے ہوا کو بھی پکڑا ہے؟ تو بھی نہیں پکڑ سکے گا، اور  وہ لال آندھی تو آئے گی!جا، تو بھاگ جا! ہائے وے رباّ! پتہ نہیں بارش کب ہو گی۔
نادر: سلام ڈاکٹر صاحب!
ڈاکٹر: آؤ! آؤ نادر! کیسے ہو!
نادر: چلی گئی! بے چاری۔ پر ڈاکٹر صاحب! یہ پاگل نہیں ہے! لوگ غلط کہتے ہیں۔ اس کی باتیں ڈرا دیتی ہیں۔ اس کا علاج ہے کوئی؟
ڈاکٹر: ٹھیک کہتے ہو نادر۔ اس کے ذہن پر بہت کچھ مسلط ہے۔ شادی کے ہفتے عشرے میں بیوہ ہونے کا غم، بوڑھے والدین کی بے چارگی، ادھر معاشرے میں پھیلتا زہر، اوپر سے قحط۔ بارش کب ہو گی؛ یہ گرہ کھولنی بہت مشکل ہے۔ اس کا میاں جو کہہ گیا تھا کہ آج بارش ہوئی اور کل میں آیا؛ میں اس کو مایوسی نہیں کہتا، مگر۔۔
نادر: جی ڈاکٹر صاحب، میں سمجھ رہا ہوں۔
ڈاکٹر: اس نے اپنے گرد ایک بہت سخت خول چڑھا لیا ہے۔ اس کا علاج ہے!! کہ یہ روئے! اور اتنا روئے کہ بکھر جائے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس کی ماں چاہتی ہے کوئی اس کو رلا دے۔ یہ مامتا بھی عجیب شے  ہے! ایک ماں اپنی بیٹی کو کیسے رلا سکتی ہے! مگر جانتی ہے کہ اس کا علاج یہی ہے۔ ایسا نہ ہوا تو یہ سچ مچ پاگل ہو جائے گی۔ اور اگر یہ رو پڑی تو، ایسا نہ ہو اس کی ماں اسے دیکھ کر مر جائے!
نادر: جی، ڈاکٹر صاحب، ٹھیک کہا۔
ڈاکٹر: اور اس کا باپ! وہ فولادی اعصاب کا مالک ہے؛ سب یہی کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں۔ اس بوڑھے کی ہمت اور حوصلے کے پیچھے اسی کمزور، بیمار اور بے بس بڑھیا کی ذات ہے۔ وہ اسی کی محبتوں کی ہوا میں سانس لے رہا ہے، اور اسی کے مد و جذر سے توانائی پا رہا ہے۔
نادر: ایک بات کہوں؟ آپ مجھے ڈاکٹر سے زیادہ کچھ لگ رہے ہیں! بہت سوچتے ہیں آپ اس کے بارے میں؟
ڈاکٹر: کہہ سکتے ہو! مگر پتہ نہیں! خیر ،  لگتا ہے یہ گاؤں کے حالات کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے، مگر بیان نہیں کر پاتی۔ انسان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو تو ایسا بھی ہو جاتا ہے۔  ہے نا؟
نادر: بارش کب ہو گی اور لال آندھی؟ ان کا کیا مطلب ہے ڈاکٹر صاحب؟
ڈاکٹر: کوئی واقفِ حال بتا سکتا ہے، نادر!
نادر: ہوائیں بیمار ہونا، کیا ہوا؟ وہ اکثر کہتی ہے یہ ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں۔
ڈاکٹر: مجھے لگتا ہے نادر! کہ ان بیمار اور ناراض ہواؤں کا رخ میری طرف ہے۔ سرخ آندھی کا خوف اب ختم ہونا چاہئے۔ ہوا ئیں لاکھ بیمار سہی، مجھے ان کا علاج کرنا ہے!بارش؟ ۔۔  بارش جانے کب ہو گی!  ہو گی بھی تو کیسی ہو گی! کچھ تو ہو رہے گا۔۔لال آندھی؟ دیکھا جائے گا! خیر، چھوڑو، نادر! کوئی اور بات کرو ۔




(06)

سہ پہر کا وقت، گاؤں کے ساتھ باہر کا منظر، ایک درخت کی چھاؤں میں
اس منظر کے کردار: پہلا لڑکا، دوسرا لڑکا، چاچا  رفیق

بیلوں گایوں کے ڈکرانے کی آوازیں، کووں کی کائیں کائیں،  سناٹے کی سائیں سائیں، اور ان سب پر حاوی گھڑی کی ٹک ٹک آواز

پہلا لڑکا: تو روند مارتا ہے اوئے؟
دوسرا لڑکا: کس نے روند مارا ہے، جھوٹ بکتا ہے تو!
پہلا لڑکا: کسے کہہ رہا ہے؟ مجھے؟ میں جھوٹ بک رہا ہوں؟ اوئے میں تیری ۔۔۔۔
دوسرا لڑکا: چل اوئے بدمعاشی بند کر! آیا ہے بڑا پھنے خان! پتہ پھینک!
پہلا لڑکا: اوئے ! وہ ۔۔۔ چاچا  ۔۔۔ چاچا آ  رہا ہے۔
دوسرا لڑکا: تو پھر؟ ہم کیا کریں؟ آنے دے۔ چل پتہ سٹ!
دوسری آواز: ہاں (ہنستا ہے)۔
چاچا رفیق: (خود کلامی کے انداز میں) سب کچھ ٹوٹ رہا ہے، میرے ربا! ہوا ہی بیمار ہو گئی ہے۔ یہ دو تین برس میں ہوا بدل گئی! تیریاں تو جانے مالکا! پہلے تو ایسا نہیں  تھا، رب رحم کرے۔ سانس کے ساتھ بھی مٹی چڑھنے لگی ہے۔ (اس کی آواز مدھم ہوتی جاتی ہے)۔




(07)
رات کا وقت، گاؤں کے قبرستان میں
اس منظر کے کردار: موجو، چھیدو

جھینگروں کی آواز، ہوا کی سرسراہٹ کو گمبھیر بنائی ہوئی الو کی ہُوک، اور گیدڑوں کے بولنے کی اکا دکا آوازیں

موجو: (نشہ میں ڈوبے ہوئے لہجے میں) موجاں! موجاں ای موجاں! جھنڈے دیاں موجاں ۔۔۔
چھیدو: اوئے ناما نیما! تو نے پھر دھتورا چڑھا لیا ہے۔ اپنے آپ میں نہیں ہے تو، موجو!
موجو: ابھی تو دھتورا پیا ہے، ابھی مجھے اس چوزے کا خون پینا ہے۔ دیکھ لینا تو چھیدے!
چھیدو: گھُوکی کچھ زیادہ ہی چڑھ گئی ہے، تیرے مغز کو، بدبختا! مت ماری گئی ہے تیری! ہے نا!؟
موجو: بھونک مت اوئے! میں تجھ سے زیادہ ہوش میں ہوں۔ وہ دو روپے کا لال شربت دیتا ہے، میرا دو سو  روپے کا چڑھاوا مارا جاتا ہے۔ دھتورا بھی نشہ نہیں دیتا اب تو!
چھیدو: کوئی ایک نشہ کرتا ہے تو؟ پوڈر، گولی، ٹھرا جو گند ملا چڑھا لیا!
موجو: سیل بند بوتل تیرا باپ لا کے دے گا مجھے؟ اگر وہ دو روپے کا شربت لوگوں کے دکھ کاٹتا رہا۔ مسل کے رکھ دوں گا اس چوزے کو۔ (مکروہ ہنسی ہنستا ہے) تو ساتھ دیتا ہے میرا کہ نہیں؟ چوکیدارا تیرا کام ہے۔
چھیدا: کیا بکواس کر رہا ہے تو! گندے آدمی۔
موجو: اے، او! تو حاجی ہے نا بڑا؟ بول میرا ساتھ دے گا کہ  ۔۔  (دونوں مل کر ہنستے ہیں)




(08)
رات کا وقت، گھر کے ایک کمرے میں
اس منظر کے کردار: جنتے، چاچا  رفیق، شمو، پکارنے والا

جھینگروں کی آواز تیز ہو جاتی ہے، ہوا کی سرسراہٹ  سیٹیوں میں بدل جاتی ہے۔  گمبھیر بنائی ہوئی الو کی ہُوک، اور گیدڑوں کے بولنے کی اکا دکا آوازیں بڑھ جاتی ہیں۔  اور پھر یک دم خاموشی چھا جاتی ہے۔

جنتے: (بخار زدہ آواز میں) تو میرے سرہانے کیوں بیٹھا ہے، پھیکے؟ رات آدھی تو گزر گئی ہو گی۔
چاچا رفیق: ہاں، آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ دئے میں تیل ختم ہو گیا تھا، اور ڈالا ہے۔ تو ہونگ رہی تھی نا، اس لئے چپکے سے تیرے سرہانے آ بیٹھا۔ تیرا ماتھا تپ رہا تھا، اب کچھ کم ہے تپش۔ جنتے! تجھے پانی دوں؟
جنتے: لا اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دے، رہنے دے پانی۔ (حیرت اور پریشانی کا تاثر دیتے ہوئے) وے پھیکے!تیرا تو اپنا وجود تپ رہا ہے! کیا ہوا ہے تجھے؟
چاچا رفیق: سو جا بھاگاں والئے، سو جا! مجھے کیا ہو گا اب۔ مجھے تو تیری فکر ہے۔
جنتے: ہولے بول پھیکے! شمو کی شاید ابھی آنکھ لگی ہے۔ شکر ہے، اسے کچھ نیند آ جاتی ہے۔نہیں تو! (ٹھنڈی سانس بھرتی ہے) مجھے پتہ ہے پھیکے! ان تین برسوں میں تجھ پر کیا کیا بیت گئی ہے۔ خیر چھوڑ! سو جا، جاکے اپنی چارپائی پر۔ میرا بخار اتر رہا ہے اب۔
چاچا رفیق: اچھا سو جاتا ہوں، پہلے تو سو جا۔ رات کو بھی تو نہیں سوئی تھی۔
جنتے: میری بچی، بے چاری۔ سوتے سے ایک دم جاگ اٹھتی ہے جیسے ڈر گئی ہو اور پھر وہی اماں بارش کب ہو گی۔ میں کیا بتاؤں اس کو؟ اس کا سرفو تو آنے سے رہا۔ اس کی دل دھرتی تو بنجر ہو گئی ہے۔ لاکھ بارشیں ہوں اسے کیا!
چاچا رفیق: دوائی پی لی تو نے؟ جنتے!نہیں پی ہو گی، جانتا ہوں میں۔
جنتے: یہ؟ لال شربت؟ نہیں تو! جی نہیں کرتا پھیکے۔
شمو: (ہڑبڑا کر) اماں! اماں ! تو نے دوائی نہیں پی؟ ابا! تو نے بھی نہیں پلائی؟
جنتے: تو جاگ رہی ہے؟ میں سمجھی تو سو گئی ہے۔ چل تیرا دل رکھنے کو پی لیتی ہوں۔
ذرا دیر کو خاموشی چھا جاتی ہے، ہوا کی سرسراہٹ اور جھینگروں کی کبھی تیز کبھی مدھم  آوازیں خاموشی کو قائم نہیں رہنے دیتیں۔
باہر ایک دم بہت سارے کتے بھونکتے ہیں اور کوئی بلند آواز سے پکارتا ہے۔
پکارنے والا: مار دیا! مار دیا! کسی نے ڈاکٹر کا خون کر دیا! گاؤں والو! کسی نے ڈاکٹر کو مار دیا۔
آواز دور چلی جاتی ہے۔
شمو: ہوئے ابا! ابا! (چیختے ہوئے) لال آندھی لے اڑی ڈاکٹر باؤ کو، لے اڑی نا!  میں نے کہا تھا اس سے! میں نے کہا تھا کہ تو بھاگ جا، وہ نہیں بھاگا (اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے)۔
جنتے: شمو! شمو بیٹے ! کیا ہوا، میری بچی رو رہی ہے! پھیکے چپ کرا، اسے! میرا کلیجہ کٹ رہا ہے! چپ کرو میری بچی!
چاچا رفیق: رو نے دے اس کو بھاگ وانے، رونے دے! خود ہی تو کہتی تھی اس کو رلائے کوئی! وہ ڈاکٹر باؤ، وہ رُلا گیا اِسے۔ بڑی مہنگی قیمت چکائی ہے اس نے! دعا دے اس کو  (اُس کی آواز بھرا جاتی ہے)  جو مر کر تیری بیٹی کو زندگی دے گیا۔(وہ تینوں دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں)۔

ان کے رونے کی آواز جھینگروں کی آواز میں دب جاتی ہے، دور سےکتوں کے بھونکنے کی آوازیں آتی ہیں
جھینگروں کی آوازیں تیز تر ہوتی جاتی ہیں، ہوا کی سرسراہٹ سیٹیوں میں بدل جاتی ہے۔

اختتام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تحریر: محمد یعقوب آسیؔ  (ٹیکسلا) پاکستان ۔۔ جمعرات: 8 ۔ اکتوبر 2015ء
ریکارڈنگ (سکائپ کانفرنس موڈ سے): 22، 23، 24  اکتوبر 2015ء

6 تبصرے:

  1. بہت عمدہ - رڈیائی ڈرامے کو پھرسے توجہ ملنی چاہیے اس سماعتی آلے سے سننے والے بہت کچھ سیکھتے ہیں - یہ داستان گوئی کی روایت اورتاریخ کا تسلسل بھی ہے -

    جواب دیںحذف کریں
  2. جوابات
    1. ڈراما سنئے گا ۔ منگل 10 نومبر 2015ء پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ بجے۔

      حذف کریں
  3. آڈیو کلپ یہاں میسر ہے۔۔۔۔۔۔۔
    https://www.dropbox.com/s/r52jrwzzbynixws/Naraaz%20Hawaen%20-%20Drama%205R%20USA%20-%20final.mp3?dl=0

    جواب دیںحذف کریں