اتوار، 24 مارچ، 2019

باتیں ”اطمینان“ کی





باتیں ”اطمینان“ کی


اصل: اِطمِئنان (اولین ہمزہ بصورت الف اور دونوں نون کے بیچ کا الف مادہ میں شامل نہیں)۔
حروفِ مادہ : ط م ء ن ن
اِ ف عِ عْ ل ا ل یا اِ ف عِ نْ ل ا ل ۔ یہاں نون حروفِ اصلی میں شامل ہے، نہ کہ زوائِد میں۔
شعر کے وزن میں اس کے ہمزہ (حرفِ مادہ) کو گرانا سوائے بدذوقی کے کچھ اور نہیں۔
طمانِیَّت درست نہیں (غلط العام کے حساب میں چل جائے تو چل جائے)۔
درست اسم طمانِیْنَت (طَ مَءْ نِ ی نَ ت) ہے، میم کی فتحہ کے سبب ہمزہ مجزوم بدل کر الف بن گیا۔
اِطْمِینان (اِطْ مِ ءْ ن ا ن): میم کی کسرہ کے سبب ہمزہ مجزوم بدل کر یائے معروف بن گیا۔
مُطْمَئِنّ:اس میں نون مضاعف ہے، یعنی دونوں نون حرفِ اصلی ہیں۔ نون تاکیدی کا تو یہاں شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ 
تَطْمَئِنّ میں بھی نون مضاعف ہے۔
اعراب (آخری حرف کی حرکت) نہ لکھنے کی وجہ؟ اعراب جملے میں اسم کی نشست کے مطابق بدل جاتا ہے۔

اردو محاورے میں:
اِطمنان کوئی شے نہیں۔ اطمینان ہوتا ہے یا نصیب ہوتا ہے، سکون آتا ہے، خوف آتا ہے، ڈر لگتا ہے، غصہ آتا ہے۔
آواز آتی ہے یا اٹھتی ہے، شور ہوتا ہے یا مچتا ہے، سمجھ آتی ہے یا نہیں آتی، بات سمجھ میں آتی ہے یا نہیں آتی۔
وحشت ہوتی ہے، تسلی رکھی بھی جاتی ہے، کی بھی جاتی ہے، مواقع الگ ہوتے ہیں؛ وغیرہ۔
٭٭٭٭٭
جمعۃ المبارک:  ۲۲۔ مارچ ۲۰۱۹ء