منگل، 27 اکتوبر، 2015

بہت رستہ پڑا ہے




بہت رستہ پڑا ہے

زاہدہ رئیس راجیؔ کا اولین شعری مجموعہ ’’خواب گھروندا‘‘ ... ایک مطالعہ
*****


ذات کے ادراک میں راجیؔ کہاں تک آ گئی
ورنہ شاید زاہدہؔ سے شاعری ممکن نہ تھی

شعر کوئی کی طرف اولین احساس شاید یہی ذات کا ادراک ہے، جو متنوع مراحل سے گزرتا ہوا اظہار تک پہنچتا ہے۔ یہ اظہار قاری اور شاعر کے مابین ایک رشتہ قائم کرتا ہے، حرف کا رشتہ۔ ادراک سے اظہار تک کا سفر اپنی ہی نوعیت کا سفر ہے کہ مسافر کا پہلا قدم مکمل بے سر و سامانی کے عالم میں اٹھتا ہے اور وہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، اس سفر کی دھول، تھکن، آبلے، ولولے، شوق، حوصلے، اس کے لئے زادِ راہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ میں نے اس بات کو کچھ یوں بیان کرنے کی کوشش کی ہے: 
چلو، آؤ چلتے ہیں بے ساز و ساماں
قلم کا سفر، خود ہی زادِ سفر ہے

میں زاہدہ رئیس راجیؔ کو اُس کے اسی زادِ راہ کے حوالے سے جانتا ہوں۔ مناسب تر الفاظ میں میرے پاس اس کے تعارف کا ثانوی ذریعہ وہ بہت مختصر تعارف ہے جو اس نے میرے استفسار پر پیش کیا، تاہم اساسی ذریعہ اس کا یہ ’’خواب گھروندا‘‘ ہے جس کی طرف اس کا سفر جاری ہے۔ وہ اسی زادِ راہ کی بات کرتے ہوئے کہتی ہے: ’’ادب کی کون سی صنف میں کب لکھنا ہے اور کیا لکھنا ہے اس کا فیصلہ خود بہ خود ہوتا چلا گیا‘‘۔ ایک تخلیقی ذہن کے پروان چڑھنے میں یہ رویہ بہت ممد ثابت ہوتا ہے کہ صنفی یا موضعاتی حوالے سے خود پر کوئی پابندی نہ لگائی جائے، ادب کی اَقدار کا پاس بہر حال کرنا ہوتا ہے اور انہیں اقدار کے منسلک رہ کر اپنی شناخت حاصل کرنا حرف کے سفر میں اہم کامیابی ہوتی ہے۔ یہ کہنا تو خیر مشکل ہے کہ زاہدہ نے اردو شعر میں اپنی شناخت بنا لی ہے۔ اس کا یہ اولین شعری مجموعہ دیکھ کر یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ شناخت کی منزل اس سے بہت دور نہیں ہے، تاہم اس کو ابھی بہت محنت کرنی ہو گی۔ میں ادریس آزاد سے متفق ہوں کہ: ’’اس کے اندر محنت کا عنصر کم ہے، البتہ ہ یہ ضرور جانتی ہے کہ پامال ہوئے بغیر کوئی راستہ منزل تک نہیں جا سکتا‘‘۔ فاضل مضمون نگار میرے منہ کی بات مجھ سے بہتر انداز میں کہہ گئے کہ: ’’زاہدہ کو بھی ہر شاعر بلکہ ہر انسان کی طرح ہمیشہ پہلے سے بہتر ہونے کی نہ صرف طلب ہے بلکہ ضرورت بھی ہے‘‘۔ قلم اور خاص طور پر شعر میرے نزدیک اکتسابی چیز نہیں، کوئی شخص یا تو شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ ہم کسی غیرشاعر کو شاعر نہیں بنا سکتے، ایک کمزور شاعر محنت کر کے اچھا شاعر بن سکتا ہے۔ زیرِنظر کتاب میں معدودے چند فرگزاشتیں ہیں جو غالباً بلوچی اور اردو تلفظ اور تذکیر و تانیث کے فرق کا شاخسانہ ہیں یا پھر کتابت کی اغلاط رہی ہوں گی۔ بہ این ہمہ زاہدہ کا شمار کمزور شاعروں میں نہیں ہوتا، بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ رہا کرتی ہے۔ بالفاظِ دیگر شعر کا سفر جاری رہتا ہے اور اس میں ہر اگلا قدم نیا زادِ راہ فراہم کرتا ہے۔ 

شعر کہنا کسی مفرد احساس یا عمل سے تکمیل پذیر نہیں ہوا کرتا۔ اس میں شاعر کی شخصیت کے جملہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں؛ اس اضافے کے ساتھ کہ حرف کی آبیاری خونِ جگر سے کرنی ہوتی ہے۔ پروفیسر انور مسعود نے ایک طویل گفتگو کے دوران بہت پتے کی بات بتائی کہ انسان ایسی سادہ چیز بھی نہیں کہ ہم اس کا سالٹ انالیسس کر کے بتا سکیں کہ اس میں غصہ اتنا ہے، حساسیت اتنی ہے، شعور اتنا ہے، محبت اتنی ہے، نفرت اتنی ہے، ہم دردی اتنی ہے، خلوص اتنا ہے؛ وغیرہ۔ لہٰذا ہم شعر کا تجزیہ بھی ان خطوط پر نہیں کر سکتے، ہمیں اس سے بالاتر اور زیادہ فطری پیمانے درکار ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے معتبر پیمانہ شعری روایت ہے، جس میں یہ سارے عناصر اور مذہب، نظریات، عقائد، معاشرتی پس منظر اور پیش منظر، اندازِ فکر، ترجیحات، تمنائیں، مقاصد، ولولے، خدشات اور انسانی مابعدالطبیعیات شامل ہوتی ہیں۔ 

زاہدہ رئیس راجیؔ کی شخصیت کا مجھے بہت تھوڑا اندازہ ہے۔ اس کا معروضی خاکہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس کے آباء و اجداد ایک شاندار بلوچی تہذیب کے مقتدر قبیلے سے ہیں، جو امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں اس سفید پوش طبقے میں ڈھل گئے ہیں جو اپنی شاندار تہذیبی روایات کو بہر طور عزیز رکھتا ہے۔ زاہدہ کے گھر میں بلوچی بولی جاتی ہے۔ طرزِ معاشرت وہی رئیسی بلوچوں کا ہے، تاہم نصف صدی کے لگ بھگ کراچی شہر میں بود و باش کے اثرات سے انکار بھی ممکن نہیں۔ اس کا اثر زاہدہ کی لفظیات پر بھی پڑا ہے۔ اس کی مادری زبان کا رجحان اردو کی نسبت فارسی کی طرف زیادہ ہے، اور اس کی رسمی تعلیم بھی سائنسی علوم کی ہے، جہاں انگریزی سکہ چلتا ہے۔ 

اس تناظر میں زاہدہ کے یہ الفاظ بہت قیمتی ہو جاتے ہیں: ’’نثر سے ابتدائی سفر طے کرتے کرتے جب چودہ سال کی عمر میں اچانک اردو شعر گوئی کی دنیا میں پہلا قدم رکھا تو پیچھے ماسوائے ایک چیلنج کو قبول کرنے کے کوئی خاص وجہ تو نہیں تھی، لیکن پہلی شعری تخلیق کے پہلے مصرع ’’کتابِ شاعری میں درد کی دنیا بسی ہے کیوں‘‘ نے اندر کی شاعرہ کے بارے میں روزِ اول سے ہی پیش گوئی کر دی تھی کہ اس کے آگے کی منزلیں آسان نہیں ہیں‘‘۔ اس کے بعد زاہدہ نے کچھ مرحلے گِنوائے ہیں اور ناقدین کے اختیار کردہ متنوع بلکہ بسا اوقات متصادم معیارات کا شکوہ بھی کیا ہے۔ یہ امر اس کے ادبی سفر کی تفہیم میں اچھی خاصی مدد دیتا ہے۔

ہمیں جو کچھ اپنے بزرگوں سے حاصل ہوتا ہے وہ صرف مال و منال نہیں ہوتا، بلکہ حقیقی وراثت اقدار ہوتی ہیں، جو غیر محسوس طریقے پر ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں۔ زاہدہ کا دامن ان اقدارِ پر وقار سے بھرا ہوا ہے۔

اس کے شعروں میں جہاں متانت غالب عنصر کے طور پر جھلکتی ہے، وہیں اعتماد اور شخصی وقار بھی رچا بسا ہے۔ اس نے عورت کی نمائندگی شاید اس انداز میں نہیں کی جیسی ہمیں دیگر بعض شاعرات کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے نسائیت اپنی پوری قوت کے ساتھ جلوہ گر ہے تاہم ایک فرق کے ساتھ، جس کی مثال یوں سمجھئے کہ وہ بڑی ساری چادر میں لپٹی ہونے کے باوجود اپنی چال ڈھال سے ایسی خاتون دکھائی دیتی ہے، جو بہت سنبھل سنبھل کر قدم اٹھا رہی ہو۔ بہ این ہمہ اس کی ذات میں چھپا ہوا کوئی بہت ہی گہرا اور بہت ہی ذاتی دکھ اپنے ہونے کا پتہ دے جاتا ہے، جسے وہ اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور شاید کسی کو ہمراز بھی نہیں بنانا چاہتی۔ اس کوشش میں اس کے اشعار میں کرب اور تلخی کی کیفیت شامل ہو جاتی ہے۔ اس نے زندگی کی پہلی سانس اب سے کوئی پینتیس برس پہلے یہیں کراچی میں لی۔ تب کراچی یقیناً ویسا نہیں تھا جیسا اب ہے۔یہ اس کا دوسرا کرب ہے۔ اگرچہ اس نے کراچی کی فضا کے بارے میں براہِ راست بہت کم شعر کہے ہیں تاہم اس کی شاعری میں یہ کرب بھی اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے۔ معاشرتی معاشی اخلاقی اور ثقافتی شکست و ریخت سے اٹے اس راستے پر زاہدہ اپنی خود اعتمادی، برداشت اور تنہائی کو ساتھ لئے زندگی کے سفر پر رواں ہے۔
ہواؤں کا سفر ہلکا نہیں تھا
مگر آنچل کبھی ڈھلکا نہیں تھا

دیکھ لو راجیؔ خدا کے نور سے
شب کی آنکھوں میں ضیا کا راستہ

جب دل سے دعائیں اٹھتی ہیں
ملتی ہیں دوا کی تاثیریں

فطرت نے اسے لفظ کے ساتھ تعلق کی نعمتِ بیش بہا عطا کی، جس کا مختصر احوال ہم کتاب میں شامل اس کی خود نوشت میں دیکھ چکے ہیں۔ لفظ کی یہ متاع ساتھ لئے اس نے اپنے خارج سے داخل کی طرف سفر کی پہلی منزل سر کر لی ہے۔ ابھی اس کو اپنے داخل کی بھول بھلیوں میں بھی ایک طویل تر سفر درپیش ہے، جس کی تکمیل کے بعد اپنے داخل کو ساتھ لئے، اپنے خارج کی طرف آ کر اسے اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہونا ہے۔
کہاں منزل؟ ابھی تو
بہت رستہ پڑا ہے

جہاں رستہ بہت ہے وہیں اس کے پاس قابلِ قدر زادِ راہ بھی ہے جس میں سب سے قیمتی شے راستوں کے پیچ و خم کا ادراک ہے۔ اس کے پاس اعتماد اور عزم کی سواریاں بھی ہیں اور دعاؤں کا توشہ بھی ہے۔ تلخ تجربوں کے کانٹے بھی اسے درپیش ہیں اور خدشات کی دھول بھی اس کے سر پر اڑ رہی ہے۔ گزرے ہوئے سفر نے اسے دکھوں کی ٹیس بھی دی ہے، اور تھکن بھی۔ بہ این ہمہ اس کی جاگتی آنکھوں کے خواب ہیں جو اس کو روایات کے تپتے صحرا کے اس پار دکھائی دیتے ایک ننھے سے گھروندے کی طرف کشاں کشاں لئے جاتے ہیں۔
ان دِکھے خواب کی تعبیر لیے پھرتی ہے
جانے کس راہ پہ تقدیر لیے پھرتی ہے
روٹھ کر کیا گئی خوشی ہم سے
پھر ملاقات عمر بھر نہ ہوئی

زاہدہ کے اشعار میں مجھے اس کا ایک ایسا دکھ جھلکتا دکھائی دیا، جسے اس نے شاید کسی کے ساتھ بھی سانجھا نہیں کیا۔ ایک ایسا کرب جو اس کے اپنے نام کی معنویت سے متصادم ہوتا ہے تو اس کی سوچوں کو ایک تعمیری تخلیقی رخ دے جاتا ہے۔
نہ کوئی خواب ہے باقی نہ ہی خیال کوئی
بکھر گیا ہے مرا خواب زار آنکھوں میں

وہ بھی ماتم کناں ہوا راجیؔ 
جس نے کاٹے تھے میرے سارے پر

اپنے مابین کوئی تیسرا آیا ہی نہ تھا
فاصلہ بیچ کا پھر حد سے بڑھایا کس نے؟

اس غزل کا ایک مصرع ’’میں کہ پتھر تھی مجھے شیشہ بنایا کس نے‘‘ بہت سے ان دیکھے خوابوں کی کہانی سنا جاتا ہے۔ خود سے لڑتے لڑتے جب وہ بکھرنے لگتی ہے تو پکار اٹھتی ہے۔
تم نہ مانو گے کبھی اپنی خطائیں لیکن
کبھی فرصت میں مری بات پہ سوچا کرنا

تم چلے جاؤ، پلٹ کر نہیں دیکھیں تم کو
شرط یہ ہے کہ خیالوں سے نہ گزرا کرنا

زاہدہ رئیس راجیؔ کی شاعری اس کے مضبوط امکانات کی نقیب ہے۔ اس جملے کے ساتھ میری بات، مکمل ہوتی ہے۔ اس کی یہ دو مختصر نظمیں پڑھئے۔

آڑ
جسے تم چاہ کہتے ہو
انا سے ماورا شے ہے
مگر اتنا سمجھنے میں
انا ہی آڑ ہے ہم دم

استفسار
مرے اندر ٹٹولو گے
پلندہ دل کا کھولو گے
تو اِن آنکھوں کے رستے سے
خموشی چیخ اٹھے گی
فقط اک بات پوچھے گی
لبوں سے لفظ چھینو گے
تو آخر کون بولے گا؟
*****
تحریر: محمد یعقوب آسیؔ ... اتوار 25 مئی 2014ء ۔




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں