تائے فارسی، دالِ فارسی
فارسی مصادر میں،جہاں علامتِ مصدر ”تن“ سے پہلے
دو حرف ساکن واقع ہوتے ہیں، فعل ماضی کا پہلا صیغہ (مثال کے طور پر): فروختن سے
فروخت، اندوختن سے اندوخت، شناختن سے شناخت، آویختن سے آویخت، کاشتن سے کاشت،
تافتن سے تافت، برخاستن سے برخاست، گزاشتن سے گزاشت ؛ و علیٰ ہٰذا القیاس؛ ان کے
آخر میں تین ساکن حروف ہیں؛ پہلا حرفِ علت (ا، و، ی) دوسراحرف (ف، س، ش، خ) تیسرا
حرف (ت): فروخت، اندوخت، شناخت، آویخت، کاشت، تافت، گزاشت ۔ یہ صورتیں اردو
میں بھی عام مستعمل ہیں اور ان میں کبھی کوئی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوا، نہ شعر میں
نہ نثر میں۔ شعر میں اتنا ہوا کہ تیسرا ساکن حرف ت تقطیع سے گر گیا۔ میں نے اپنی
سہولت کے لئے اس کو تائے فارسی کا نام دے لیا ہے۔
گزاشتن اور گزشتن کے
ہجوں پر دو رائیں پائی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ ان میں ”ذال“ ہے نہ کہ ”زے“۔ اقبال نے
گذشت، گذر وغیرہ لکھا ہے؛ اردو میں ”پذیرائی“ معرف ہے اور یہ کہ اس کا مصدر
”پذیرفتن“ ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ فارسی میں ذال (حرفِ ہجاء) سرے سے موجود ہی
نہیں؛ کوئی کلمہ کہاں سے بنے گا! علمائے فارسی یہ بھی کہتے ہیں کہ گذاشتن (مضارع:
گذارَد) کا معنی ہے: ترک کر دینا، چھوڑ دینا، گزر جانا، ماضی کا حصہ بن جانا؛
مثلاً بگزار (چھوڑ دے) بگزر (نکل جا)، گزشت، گزشتہ، گزارہ، گزران۔ہمارے ہاں مصدر
گزاشتن (مضارع: گزارد) سے ایک متوازی معنی ”پیش کرنا، ادا کرنا“ بھی لیا جاتا ہے
جیسے: عبادت گزار، تہجد گزار، گزارش (بمعنی درخواست)، عرض گزار۔ ایک بحث میں ایک
صاحب کا کہنا یہ بھی تھا کہ نماز گزار (نماز کا تارک) ہے اور نماز گذار (پکا
نمازی) ہے۔ اس طرح تو بات خاصی الجھ جاتی ہے۔
اہلِ قواعد کا کہنا یہ بھی ہے کہ عبادت گذار،
گذارش کا اصل مصدر گذاشتن نہیں گذاردن ہے؛ بمعنی پیش کرنا (مضارِع: گُذارَد)۔
دورانِ مطالعہ ایک مصدر گُزِیردَن (چارہ کرنا، کوشش کرنا گزارہ کرنا) نظر سے گزرا
(مضارع: گُزِیرَد)، (گزیر: جس سے نکلا جا سکے، جس کے بغیر کام چل جائے)؛ اس سے
ترکیب نافیہ ”ناگزیر “ اردو میں بہت معروف ہے معنی: جس کے بغیر گزارہ نہ ہو۔
یہاں مجھ جیسے کم علم کو یہاں (ذال، زے سے قطع
نظر) ایک نیا مسئلہ درپیش ہے۔ یہ تو ویسی ہی صورت بن گئی جیسے شروع میں پیش کئے
گئے مصادر کے ساتھ ہے: تیسرا ساکن ”ت“، جسے اس فقیر نے اپنی سہولت کے لئے تائے
فارسی کہہ لیا۔ اِن دونوں مصادر میں فعل ماضی کیا ہیں؟ قاعدے کے مطابق: گزاردن سے
گزارد (ا، ر، د: تینوں ساکن)؟ اور گزیردن سے گزیرد (ی، ر، د: تینوں ساکن)؟ ۔ تو
کیا تائے فارسی سے ملتا جلتا کوئی ”دالِ فارسی“ بھی موجود یا ممکن ہے؟ یا ماضی میں
کبھی موجود رہا ہو، پھر متروک ہو گیا؟
اس گزارش کے ساتھ کہ ممکن ہے میں ایک سے زیادہ
مغالطوں کا شکار ہوں؛ اہلِ علم سے ہمدردانہ راہنمائی کا طالب ہوں۔
فقط: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
ہفتہ 28 جولائی 2018ء