جمعرات، 31 مارچ، 2016

احساس کا پُتلا ۔ پروفیسر انور مسعود





احساس کا پُتلا

پروفیسر انور مسعود سے ایک غیر رسمی انٹرویو
گورنمنٹ کالج (لائبریری) سٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی ۳۱؍ جنوری ۱۹۹۰ء صبح دس بجے
انٹرویو پینل : محمد یعقوب آسیؔ ، محمد احمد، محمد یوسف ثانی، آفتاب رانا

()
نوٹ: یہ انٹرویو آڈیو کیسٹ پر ریکارڈ کیا گیاتھا اور اس کا خلاصہ یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ، ٹیکسلا کے سالانہ مجلہ ’’شاہِین‘‘ (مئی ۱۹۹۰ء) میں شائع ہوا، جسے آفتاب رانا نے لکھا تھا۔ حلقۂ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کے ماہانہ خبرنامہ’’کاوش‘‘ کے قارئین کے لئے میں نے اسے آڈیوکیسٹ سن کر دوبارہ لکھا ۔ یہ انٹرویو کاوش میں (فروری ۱۹۹۹ء سے مئی ۱۹۹۹ء تک) سلسلہ وار شائع ہوا۔
()

پروفیسر انور مسعود کا نام اردو اور پنجابی مزاحیہ ادب میں ایک حوالے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔نہ صرف آپ کے قطعات زبان زدِ عام ہیں بلکہ طویل پنجابی نظمیں ’’انار کلی دیاں شاناں‘‘ ’’جہلم دے پُل تے‘‘ ’’اج کی پکائیے ‘‘اور ’’تندور تے‘‘خواص اور عوام میں یکساں طور پر مقبول ہیں۔ پروفیسر صاحب کی مادری زبان پنجابی ہے جب کہ آپ کی خاتونِ خانہ کا تعلق اتر پردیش کے ایک اردو بولنے والے خاندان سے ہے۔آپ نے اردو، پنجابی اور فارسی میں شاعری کی ہے۔ طنز و مزاح میں آپ کے کلام کو بلا مبالغہ سند کا درجہ حاصل ہے۔ پروفیسر صاحب کا بات کرنے کا انداز کچھ ایسا ہے کہ وہ ایک بات کرتے کرتے دوسری بات شروع کر دیتے ہیں اور پھر پہلی بات کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس طرح سامع کی دل چسپی تو قائم رہتی ہے تاہم بعض مقامات پر قاری کو الجھن ہو سکتی ہے۔ آپ گفتگو کے دوران اردو، پنجابی، انگریزی، فارسی تمام زبانیں اس روانی سے آپس میں ملا دیتے ہیں کہ کہ فوری طور پر اس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا اور کسی طرح کی اجنبیت بھی پیدا نہیں ہوتی۔ انٹرویو سے پہلے آپ سے غیر رسمی بات چیت ہو رہی تھی کہ آفتاب رانا نے ایک سوال کر کے باقاعدہ انٹرویو کا آغاز کر دیا۔ اس طرح یہ انٹرویو کسی تمہیدی تقریر یا رسمی تعارف کے بغیر شروع ہو گیا۔

()
آفتاب رانا: یہ جو شاعری ہوتی ہے، اس کا موضوع بڑا وسیع ہوتا ہے اور وہ جو اقبال نے یا غالب نے شاعری کی ہے، اور اقبالؔ نے کہا ہے کہ
ع سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
اب یہ دیرینہ مسئلہ ہے کہ کائنات حرکت میں ہے یا غیر حرکت میں۔ اس مسئلے کو موضوع بنایا ہے انہوں نے شاعری میں۔ توکیا مزاحیہ شاعر جو ہے، وہ اس طرح کے بڑے بڑے مسئلوں کو ڈِس کَسdiscuss کر سکتا ہے؟

پروفیسر انور مسعود: بڑا اچھا سوال ہے آپ کا، یہی سب کہا کرتے ہیں۔ انٹرویو دینے والا یہی کہا کرتا ہے، بڑا اچھا سوال ہے آپ کا ... پہلے ہم لفظ مزاح پر بات کرتے ہیں۔ ..اس میں ایک نقطہ ڈال دیجئے ۔

محمد یعقوب آسیؔ : مزاج

پروفیسر انور مسعود:ہاں، مزاج ۔ بیشتر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے سوال کے اندر ہی جواب چھپا ہوتا ہے، وہ ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ اب جیسے آپ نے مزاج کہہ دیا تو یہ بات مزاج کی بن گئی۔ ہر وہ شخص مزاح نگار ہے جس کے اندر مزاح موجود ہے، مزاج ہے جس کا! دیکھیں دنیا میں کہاں شاعری نہیں ہے! ساری دنیا میں شاعری پھیلی ہوئی ہے، یہاں تک کہ ... دیکھئے ... نالی میں پانی جا رہا ہے۔ اب یہ کوئی موضوع تو نہیں ہے۔ نالی میں گندا پانی جا رہا ہے اور ایک آدمی اس میں جھاڑو دے رہا ہے، یہ کوئی ٹارگٹ target نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ کی نظر شاعرانہ ہے، آپ کے پیچھے مجید امجد ہے تو، وہ کہتا ہے ... کہ:
گلی کے موڑ پر نالی میں پانی
تڑپتا تلملاتا جا رہا ہے
زدِ جاروب کھاتا جا رہا ہے
وہی مجبورئ افتادِ مقصد
جو اُس کی کاہشِ رفتار میں ہے
مرے ہر گامِ نا ہموار میں ہے
تو، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نظر اگر شاعرانہ ہے تو ہر جگہ شاعری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کا مزاج مزاحیہ ہے تو ہر جگہ مزاح موجود ہے۔ دنیا کے بڑے مسائل میں بھی مزاح موجود ہے۔ آپ زندگی میں کوئی ناہمواری دیکھتے ہیں، کوئی ایسی چیز جو اپنی صحت سے ہٹی ہوئی ہے، صراطِ مسقیم سے بھٹک گئی ہے، تو وہاں، وہ ایک مزاحیہ سیچوایشن situation ہے۔ مثلاً یہ دیکھئے، ہمارے ہاں سنجیدہ ترین صنف جو ہے ادب کی، وہ ہے غزل۔ اس میں مزاح موجود ہے۔ غزل میں مزاح موجود ہے! اقبال جیسا سنجیدہ شاعر جو ہے، بانگِ درا میں .. اس کا .. مزاحیہ حصہ موجود ہے۔ عالیؔ صاحب رات دوہے پڑھ رہے تھے، وہ کیا کہہ گئی کہ ، بھیّا کہہ گئی نار ...
چھَیلابن کے نکلے تھے اور بھیّا کہہ گئی نار
اس میں مزاح موجود ہے ... مزاح ہر جگہ موجود ہے .. اس کے ساتھ ساتھ دیکھئے، اکبر الٰہ آبادی نے کوئی غیر سنجیدہ مضامین چھیڑے ہیں؟ تہذیب اور یورپ Europe ، یورپ کی تہذیب سے اسے ایک نفرت ہے۔ اسے اپنی قدریں عزیز ہیں، یہ کتنا بڑا المیہ ہے، کتنا بڑا مسئلہ ہے اور اُس نے اِس کوچھیڑا ہے۔ تو، میں سمجھتا ہوں کہ مزاج ہونا چاہئے اور پھر آدمی ہر بات اس رنگ میں کہہ سکتا ہے
ع ڈاروِن بولا بُوزنہ ہوں میں
ہیں جی! تو یہ جو ہے ارتقاء کا مسئلہ، مزاح میں آیا ہے۔ کتنا دیرینہ اوراہم مسئلہ ہے ڈاروِن Darwin کا! دیرینہ مسئلہ اس لئے کہ اسے رومی نے بھی چھیڑا ہے۔ رومی نے تو اس سے بہت پہلے کہہ دیا ہے بلکہ بہت سے ایسے مسئلے ہیں جو آئن سٹائن Ein Stein نے بیان کئے ہیں یا نیوٹن Newton نے بیان کئے ہیں رومی کے ہاں وہ ہمیں ملتے ہیں۔ بات اصل میں مزاج کی ہے۔ مثلاً اقبال ... کتنی بڑی بات ہے، انسان پر طنز کر رہا ہے۔ کہتا ہے کہ شیطان خدا کے پاس گیا اور اس نے شکایت کی:
اے خداوندِ صواب و ناصواب
من شدم از صحبتِ آدم خراب
اے اچھائی اور برائی کے خدا! میں تے چنگا بھلا ہوندا ساں ، مینوں تے ایس بندے دی صحبت نے خراب کیتا اے، شیطان کہہ رہا ہے! کتنی عظیم بات چھیڑی ہے!تو، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ انسان مزاح میں معمولی بات بھی کر سکتاہے اور غیر معمولی بات بھی کر سکتا ہے۔

آفتاب رانا: آپ نے بھی تجربات کئے ہیں؟ بڑے بڑے مسائل جو ہیں، ان کو ڈِسکَسdiscuss کرنے کی کوشش کی ہے؟

پروفیسر انور مسعود: جی، میں بتاتا ہوں۔ دیکھئے جی، بات یہ ہے کہ اس دور میں مزاح میں ویرائٹی variety آ گئی ہے۔ بہت ویرائٹی آ گئی ہے! ایک زمانہ تھا، جب مزاح جو ہے وہ بعض اوقات تین چار موضوعات تک محدود تھا۔ یا تو فیشن پہ نظمیں لکھی جاتی تھیں، یا مہنگائی پر، یا بیوی پر۔ اب یہ ہے کہ ابھی، میں آپ کو بتاؤں! آج بیان آپ نے پڑھا ہے، یہ لیٹسٹ latest بات ہے، روس نے کہا ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں اٹھایا گیا تو ہم اسے پھر ویٹو veto کر دیں گے۔ یہ آج کا مسئلہ ہے، تو، تمہاری بھینس کیسے ہے؟ میں اپنا قطعہ سنا رہا ہوں:
تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اس لاٹھی کی زدمیں جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے ؟
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
اب دیکھئے نا، کتنا سنگین ، کتنا سنجیدہ اور بین الاقوامی مسئلہ ہے، میں مزاح میں لایا ہوں۔ اس لئے بنیادی بات وہی ہے، اگر آپ کے اندر مزاح موجود ہے، ہیں جی! وہ مکئی کا دانہ* بننے کی آپ کے اندرصلاحیت ہے! اچھا، ایک اور بات، اُتنا مزاح عظیم ہو گا جتنا اس کے پیچھے غم عظیم ہوگا۔ جتنا دکھ عظیم ہو گا، کیونکہ دکھ کے بغیر نہیں مزاح پیدا ہوتا!اصلی جو ہے سرچشمہ مزاح کا، درد مندی ہے۔ اب مزاح اور طنز میں فرق سمجھ لیجئے۔ مزاح میں صرف ایک تفریحی پہلو ہے، لیکن طنزوہ ہے، جب مزاح کی ڈائریکشن direction بنتی ہے ،آدمی کے ذہن میں کوئی سمت ہوتی ہے۔ مَیں اسے آسان لفظوں میں کہوں، جب اس کا نقطۂ نظر اخلاقی اور اصلاحی ہوتا ہے تو اس وقت طنز ہوتی ہے۔ مجھ سے پوچھئے عام لوگ یہ کہتے ہیں، ممتاز مفتی صاحب، اگلے دن انہوں نے کہا کہ جی انور مسعود ہمارا بڑا اچھا شاعر تھا لیکن کیا ہے، طنز میں پڑ گیا ہے۔ میں نے قراٰن مجید کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس میں مجھے محسوس ہوا ہے۔ مجھے مزاح کی مثال بہت کم ملی ہے لیکن طنزکی مثال ملی ہے۔’ وہ لوگ جو ضدی ہیں، حقیقت کو قبول نہیں کرتے‘، قراٰن نے کہا ہے وَ بَشّرْھِمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمِ (انہیں عذابِ الیم کی خوشخبری سنا دو!) یہ طنز کا پیرایۂ اظہار ہے، اور .. .. دردمندی نہ ہو نا، تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے بس، مزاح کیا وہ کھوکھلا پن سا ہوتا ہے۔

آفتاب رانا: سٹوڈیو2- میں بھی آپ سے سوال پوچھا گیا تھا۔ آپ نے اس کا جواب نہیں دیا تھا، منّو بھائی نے دیا تھا کہ مزاحیہ شاعر جو ہوتا ہے وہ مسائل کو موضوع بناتا ہے۔ ان مسائل کا ایک طرح سے مذاق اڑاتا ہے اور خاموش ہو جاتا ہے۔ تو کیا یہ صورتِ حال ایک لا تعلقی کو جنم نہیں دیتی؟ کہ آپ نے ہنس لیا اور چپ ہو کے بیٹھ گئے۔

پروفیسر انور مسعود: میں سمجھتا ہوں کہ جتنے بھی جواب دئے گئے تھے ، مجھے لوگوں نے کہا ہے کہ آپ کا جواب بہتر تھا۔ میں نے یہ عرض کیا تھا کہ .. ایسا مزاح بھی ہو سکتا ہے جو آپ کے اندر پست قسم کے جذبات پیدا کرے، ایسا مزاح بھی ہو سکتا ہے جو آپ کے اندر اونچے خیالات پیدا کرے اور آپ کے جذبات کی اچھی طرح سے تطہیر کر کے آپ کو اچھا انسان بنائے۔ سو، میں اُن سے اتفاق نہیں کرتا۔ وہی بات آ جاتی ہے کہ ...دیکھئے، اقبال نے فنونِ لطیفہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا بلکہ خود فنِ لطیف (شعر) کا اتنا بڑا ہنرِزیبا اس کے پاس ہے۔ اتنا بڑا ہنر ہے اس کے پاس! وہ خود کہتا ہے، مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کی طرح، لیکن اس سے بڑا شاعر تو صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ وہ بھی کہتا کہتا ہے ، مصوّری پرتنقید کر رہا ہے۔ مثلاً ایک تصویر اس نے دیکھی، اس نے کہا:
ع:   کُودَکے بَر گردنِ بابائے پِیر
یہ کیا تصویر بنائی ہے کہ ایک بچہ ایک بوڑھے آدمی کے کندھے پر بیٹھا ہے۔ بچہ بھی کمزور ہے، بوڑھا بھی کمزور ہے۔ اقبال کو یہ تصویر پسند نہیں آسکتی۔ اُسے کیسے پسند آئے؟ کمزوری کی تصویر بنا دی آپ نے! وہ تو قوت کو مانتا ہے جس کا وہ ایک سمبل symbol ہے، اس طرح جیسے ، وہ، ایک تشخیص کرتا ہے اور تمیز کرتا ہے کہ فنون ایسے جو ہیں .. میرؔ کے شعر کو اس نے فارسی میں ڈھال دیا، وہ ہے نا کہ:
ع:  تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
تو اس نے فارسی میں یہ کہا کہ بری شاعری کی جب وہ مثال دیتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’شیونِ اُو از دیدۂ ہمسایہ خواب شُصت‘‘ کہ اس کے رونے سے ہمسائے کی نیند جاتی رہی، تو، یہ کوئی شاعری ہے؟ اسی طرح مزاح کی بھی درجہ بندی ہے، اس کی بھی اقسام ہیں۔ اونچے درجے کا مزاح بھی ہوتا ہے ۔ آپ نہیں کہہ سکتے کہ اکبرؔ کا مزاح پست درجے کا ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو سرسیّد سے بھی آگے نظر تھی اس کی! وہ دیکھ رہا تھا کہ ہماری جو ہے، کورپٹcorrupt ہو رہی ہیں ویلیوز values ... مشرق کی ویلیوز کورپٹ ہو رہی ہیں، تو، اس لئے اس نے ہمارے اندر ایک جذبہ بیدار کیا ہے اپنی ویلیوز سے محبت کرنے کا۔ مزاح سے کام لیا ہے اس نے۔

محمد احمد: یہ مزاح جو ہے، اِم بیلینس imbalance ، غیر متوازن کیفیت، کنٹراسٹcontrast ان چیزوں سے پیدا کیا جا سکتا ہے کہ لوگ ان پر قہقہہ لگانے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو طنز بیسیکلی basically ایک بالکل علیحدہ سی بات ہے۔ یہ الگ بات کہ وہ ہمیشہ مزاح کے ساتھ جڑ کر آئی ہے۔ ان کا جو امتزاج ہے، وہ ان دونوں کی مخالف ڈائریکشنdirection کو بیلینس کرنے لے لئے یہ کیا جاتاہے اور یہ اچھا لگتا ہے۔ طنز کڑوی چیز ہے، مزاح میٹھی چیزہے۔ ان کا تعلق اس کے علاوہ بھی کوئی ہے کیا؟

پروفیسر انور مسعود: بات یہ ہے کہ طنز صرف طنز اگر ہو اس میں مزاح نہ ہو تو وہ ایسے ہے جیسے آدمی کسی پر حملہ کردے، ڈانگ کڈھ مارے۔ کوئی بھی کڑوی دوا نہیں کھاتا یار! اس کے لئے، شوگر کوٹڈ پلزsugar coated pills ہونے چاہئیں! اچھا، سعدی کتنا بڑا معلمِ اخلاق ہے، بہت بڑا ریفارمرreformer ہے اور اس کے ہاں مزاح موجود ہے۔ دو ہی صورتیں ہیں۔ آپ جب کڑوی چیز پیش کریں تو .. .. فنکار کا منصب ہے کہ اسے حسین بنائے۔ جمال فطرت کی بڑی ضرورت ہے۔ انسان خوبصورت بنایا گیا ہے اور خوبصورتی سے محبت اس کے دل میں ہے۔ فنِ لطیف یہی ہے یعنی تخلیقِ حسن۔ اور مزاح نگار جو ہے اگر وہ صرف طنز کا خیال رکھے گا اور اس میں مزاح شامل نہ کرے گا تو لوگوں کے اندر بیزاری پیدا ہو گی۔اور اگر آپ اس میں مزاح آمیز کریں تو وہی بات آپ کی جو ان کے خلاف جا رہی ہے اس پر وہ خود ہنسیں گے۔ اور ... بہتر مزاح وہ ہے، بہتر طنز وہ ہے کہ ہنسیں نہیں بلکہ بعد میں رو بھی پڑیں اور اپنا محاسبہ بھی کریں۔ مثلاً میں نے ایک قطعہ لکھا، قطعہ پڑھا وہاں جا کے حویلیاں ۔ تو میں نے جب قطعہ پڑھا تو ایک آدمی اٹھ کے ایک دم نکل گیا باہر، جویں شُوٹ مار کے نکل جاندا اے باھر، تو بعد میں میری ملاقات ہوئی اس سے، میں نے کہا: بھائی آپ کیوں اُٹھ کے آ گئے؟ کہنے لگا: جو آپ نے پڑھ دیا تھا اس کے بعد میرے اندر کچھ سننے کی تاب نہیں تھی۔ اور وہ قطعہ کیا تھا، میں آپ کو بتاؤں .. کہ:
کس طرح کا احساسِ زیاں تھا کہ ہُوا گُم
کس طرح کا احساسِ زیاں ہے کہ بچا ہے
ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے
اک لَونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے
تو، اس میں اگر مزاح کا عنصر نہ ہوتا تو بات ایسی ہی تھی۔ سنئے! بیلینس کرنے کے لئے، بڑا اچھا لفظ آپ نے کہا کہ اس میں ایک توازن، ایک تعادل ، اس میں ایک اعتدال پیدا کرنے کے لئے۔ .. ...

محمد احمد: مزاح جس طرح پیدا کیا جاتا ہے، اس کے مختلف عناصر کہا جا سکتا ہے ان چیزوں کو، جیسے کنٹراسٹcontrast، متوازن، غیر متوازن کیفیت، اب تو طنز بھی اس میں شامل ہے۔ اس کی حقیقت جو ہے کوئی زمانی سی نہیں ہے؟ جن چیزوں پر ہم آج ہنستے ہیں، شام کو نہیں ہنستے، جن چیزوں کو آج دو دفعہ ہم نے سن لیا اس کو گھنٹے بعد جب سنیں گے، نہیں ہنسیں گے۔ اس لحاظ سے پرانا مزاح جو ہے اس کی کیفیت کیا ہے؟ کیا وہ ایک ہسٹریhistory سی نہیں بن گیا؟ مزاح کی ایوولیوشنevolution میں تو اس کا پوائنٹpoint ہے مگر آج ہم اس کو مزاح اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس پر آج قہقہہ نہیں لگتا، تو اس اعتبار سے... 

پروفیسر انور مسعود: اصل میں یہ جو بات آپ نے کی ہے، وہ لفظ جو اس کے لئے استعمال ہوتا ہے، وہ ہے ’’حربے‘‘۔ کہ آپ مزاح پیدا کرنے کے لئے کون سے حربے استعمال کرتے ہیں، ٹیکنیکtechnique جسے کہتے ہیں۔ اس کا ایک حربہ پیروڈیparody ہے، یہ ویسٹwest سے آیا ہے بلکہ ویسٹ سے کیا آیا ہے ہمارے ہاں مشرق میں بہت پرانا موجود ہے۔ اس کے بعد لفظی بازی گری ہے، وہ بھی ایک حربہ ہے، پھر مبالغہ ہے، وہ بھی ایک حربہ ہے، مثلاً یہ کہ اگر کسی آدمی کی ایک چیز بہت نمایاں ہو تو اس کو مزید نمایاں کریں جیسے کارٹونcartoon ، یہ وہی حربہ ہے۔ وہ عربی شاعر تھا ایک، اس کا دوست تھا جس کی ناک بہت لمبی تھی، تو وہ اسے کہا کرتا تھا اَلسَّلامُ عَلَیْکُمَا تم دونوں پر سلام ہو، یعنی اس کی ناک کو بھی الگ شخصیت بنا دیا۔یہ وہ بات ہے کہ قیامت تک جتنے سال بھی گزر گئے، اس پر آپ ہنسیں گے۔ میں آپ کے جواب کی طرف آتا ہوں ۔ پرانی سیچوایشنsituation جو سیچوایشن ختم ہو جاتی ہے، اس پر لکھا ہوا شعر بھی ضائع ہو جاتا ہے اور زندگی میں بعض قدریں دوامی ہیں، بعض باتیں بہت اہم ہیں جو انسان کے ساتھ ہمیشہ ہیں : اس کی بھوک ہے، اس کی پیاس ہے، اس کی محبت ہے، اس کی نفرتیں ہیں، اس کے دُکھ ہیں، جو مزاح ان سے پھوٹے گا اس کی قدر دوامی ہو گی! ہنگامی مسائل پر پیدا ہونے والا..مثلاً کوئی ایک واقعہ ہے، میں نے وزیر کے ایک واقعے پر قطعہ لکھا ہے، وہ چھپا تھا اخبار میں، وہ اگالدان والا۔ وہ وزیر کا بیان آیا تھا کہ میں وزارت پر تھوکتا ہوں، تو، میں نے کہا کہ:
کبھی تو مثلِ قلم دان تھا یہی منصب
سلام کرتے تھے سب لوگ اس کی عظمت کو
یہ انقلاب تو دیکھو کہ خود جنابِ وزیر
اگال دان سمجھنے لگے وزارت کو
اب یہ واقعہ صرف ہنگامی ہے اور اس قطعے کی اہمیت بھی ہنگامی ہے۔لیکن یہ ہے کہ کچھ ہماری جدید تہذیب کی باتیں ہیں جیسے آج دروازے پُلpull اور پُشpush دیکھے ہیں آپ نے، پہلے نہیں ہوتے تھے ایسے دروازے۔ ضمیر جعفری نے کہا ہے کہ:
اُن کا دروازہ تھا مُجھ سے بھی سوا مشتاقِ دید
میں نے باہر کھولنا چاہا تو وہ اندر کھُلا
زندگی کے خارج میں جو تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اس سے متعلق مزاح ہوتا ہے! اس میں ایک تاثیر ملتی ہے۔ اور پرانی باتوں میں بعض دوامی قدریں لٹریچرliterature میں بھی ہیں، محبت کا مضمون ہے، وہ آفاقی ہے، وہ عالمگیر ہے، وہ زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ تو، کوشش آپ کو یہ کرنی چاہئے، ہمارے فن کار کو، کہ ہمارا کس سے مقابلہ ہے؟ ہمارا مقابلہ یہ ہے ہم اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں اور ہمارے سامنے ٹائمtime اور ہماری کشتی ہو رہی ہے۔ اب، جو زیادہ سے زیادہ ٹائم کوشکست دے سکتا ہے، وہ بڑا شاعر ہے۔اسی لئے اقبالؔ ، اقبالؔ بڑا شاعر ہے! جب اقبال کی برسی منائی گئی صد سالہ تقریبات، سن ستتّر میں ،تو میں نے پنجابی کا ایک شعر کہا، کہ:
صدی سمندر جد تک ڈِگسن، ورھے ورھے دیاں ندیاں
سن ستتّر(۷۷) تے اِک پاسے، ساریاں تیریاں صدیاں
حافظؔ آج بھی زندہ ہے، سعدیؔ آج بھی زندہ ہے، اقبالؔ آج بھی زندہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوامی عناصر کو اپنانا چاہئے، وہ دیرپا ہوتے ہیں اور باقی ہنگامی سی چیزیں ہیں جیسے مجیدؔ لاہوری۔ ہیں جی! انہوں نے سیاست کو اپنا موضوع بنا لیا۔ سیچوایشنل situational  شاعری ہے، جب سیچوایشن مر گئی، شعر مر گیا۔ آپ حیران ہوں گے سن کے، کہ علامہ مشرقی شاعر بھی تھے! میری ان سے ملاقات ہوئی، میں آپ سے چھوٹی عمر کا تھا جب ان سے ملا۔ انہوں نے کہا: میں نے جیل میں تین کتابیں لکھی ہیں شاعری کی، دیکھوں گا ہندوستان میں کون ماں کا پُوت ہے جو ان کا جواب لکھتا ہے! اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ علامہ مشرقی بعد میں فوت ہوئے، ان کی شاعری پہلے مر گئی۔ جمالی نہیں ہے، وہ تو حساب کا آدمی تھا!

آفتاب رانا: ایسا تو نہیں کہ وہ نصیحت کر رہے ہیں معاشرے کو؟

پروفیسر انور مسعود: ہاں ہاں! ناصحانہ پن بھی ہے لیکن وہ خشک ناصحانہ پن ہے۔ ایسا مولوی نہیں گوارا ہوتا، ہیں جی! دیکھئے ایک بات ہے! ایک مولوی صاحب وعظ کر رہے تھے۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے دنیا میں جو چیز بنائی گئی ہے، بہترین ہے! جناب، وہ منبر کے نیچے ایک کُبڑا بیٹھا ہوا تھا۔ بات ختم کر کے چلے تو اُس نے کہا: مولانا، یہ آپ نے کیا فرما دیا ہے کہ اللہ نے ہر چیز اچھی بنائی ہے؟ ذرا میری طرف تو توجہ فرمائیے۔ مولوی نے کہا: قسمے خدا دی اِس توں بہتر کُبّا بن ای نہیں سکدا !

محمد احمد: مزاح کے مقاصد، جیسے کوئی کہتا ہے یہ بالکل ہنسنے کے لئے ہے، مذاق اڑا دیتے ہیں اور اصلاحی ہے تو اس میں طنز بھی شامل ہے، ڈائریکشنل directional ہو جاتا ہے۔ آپ کی نظر میں اس کے کون سے مقاصد ہیں؟ آپ نے طنز تو بہت لکھی ہے اس میں مزاح شامل کر کے لیکن اس کے ساتھ اور بھی مقاصد ہیں جن کو آپ آئیڈیلideal سمجھتے ہیں اور جب مزاح لکھنے بیٹھتے ہیں تو وہ آپ کے سامنے ہوتے ہیں؟

پروفیسر انور مسعود: اصل میں آپ نے بحث چھیڑ دی ہے، فن برائے فن یا فن برائے زندگی۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے! تو میں اس کا .. فن برائے فن کا .. اس حد تک ضرور قائل ہوں، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کہ اس سے مسرّت حاصل ہو۔ ایک تفریحی عنصر، جو آپ کی تھکن کو اتار دے، آپ کو زندگی میں تازہ دم کر دے۔ قُرآنِ مجید میں حسن کی تعریف آئی ہے کہ جب اُن سے کہا گیا کہ گائے ذبح کرو اس کا یہ رنگ ہو، بسنتی رنگ ہو اس کا، ہیں جی! اور ساتھ آیا ہے، آیت آئی ہے تَسُرُّالنَّاظِرِیْنَ دیکھنے والوں کو مسرت بخشے۔ فن کا یہ بہت بڑا منصب ہے۔ تو گویا قرآن نے بتایا کہ جمال وہ ہے جو انسان کومسرت بخشتا ہے۔ اور اگر جناب وہ ڈائریکشنل ہو تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ، بہت اچھی بات ہے وہ تو۔ سُنئے آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی! سنّتِ الٰہی یہی ہے کہ آدمی کوئی بے مقصد کام نہ کرے، مقصود کوئی ہونا چاہئے! تو میرا مقصد یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں، میں دیکھتا ہوں، کہ:
اجڑا سا وہ نگر، کہ ہڑپّہ ہے جس کا نام
اُس قریۂ شکستہ و شہرِ خراب سے
عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی
کلچر نکل پڑا ہے ٹنوں کے حساب سے
تو، میں تو اس کی مقصدیت کا قائل ہوں۔

آفتاب رانا : معاشرے کی قدریں جو زوال پذیر ہیں، نوجوانوں کی خاص طور پر۔ اس حوالے سے آپ کا ایک قطعہ تھا .. .. . .

پروفیسر انور مسعود : ہاں ہاں، اس کا نام تھا ’’دھواں‘‘:
تبصرے ہوں گے مرے عہد پہ کیسے کیسے
ایک مخلوق تھی میراثِ رواں چھوڑ گئی
پھونکتی رہتی تھی پٹرول بھی تمباکو بھی
ہائے کیا نسل تھی دنیا میں دھواں چھوڑ گئی

محمد احمد: یہ جو مزاح ہے، اب اسی پر سوالات ہو رہے ہیں تو یہ موضوع ختم کر لیا جائے۔ یہ کہ اس کے پیچھے غم ہوتا ہے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بندے کو غم تو ہوتا ہے، لیکن جو مزاح وہ لکھتا ہے اس کا پہلو اور موضوع وہ نہیں ہوتا جو کہ اس غم کا ہوتا ہے۔ یہاں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ غم ایک ایسا جذبہ تھا جس کا ردّ عمل مزاح ہے، اس کے متعلق آپ فرمانا چاہیں۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ جس کے متعلق، فرض کریں وزارت، ہمیں آج کل تلخیاں ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، تو اسی پر طنز بھی ہو جاتی ہے ، اس کا موضوع تو وہی ہوا جس کا ہمیں غم ہے۔ لیکن کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں غم کوئی شدید ہے، بہت عجیب قسم کا لیکن جو ہم لکھنے بیٹھتے ہیں تو اس کی صورت ہی کوئی اور ہوتی ہے، اس کا موضوع ہی کوئی اور ہوتا ہے۔ تو کیا یہ کوئی رد عمل ہے اس جذبے کے خلاف؟ مطلب یہ کہ غم کے بعد جو جذبہ ابھرتا ہے، وہ مزاح کا ابھرتا ہے یا کوئی اور بات ہے؟

پروفیسر انور مسعود: ہاں یہ کہہ سکتے ہیں آپ۔ یہ ایک قسم کا ری ایکشن reaction ضرور ہے، عکس العمل کہوں گا میں اسے۔ یہ عکس العمل ہے۔ دیکھئے، کئی قسم کے ردِ عمل ہو سکتے ہیں، ایک آدمی کسی چیز کو دیکھ کر تیوری چڑھا سکتا ہے، ایک آدمی کسی چیز کو دیکھ کر رو سکتا ہے تو ایک آدمی زہرخند بھی ہو سکتا ہے، زہریلی ہنسی بھی ہنس سکتا ہے اور ایک آدمی تعمیری ہنسی بھی ہنس سکتا ہے۔ یہ سارے ری ایکشن ہی تو ہیں، سوچیں ہیں تو ری ایکشن، کوئی بھی فن ہے وہ ری ایکشن تو ہے۔

محمد احمد: پیر صاحب کے متعلق آپ نے کچھ لکھا تھا .. .

پروفیسر انور مسعود: پیر فضل حسین صاحب؟

محمد احمد: جی ہاں، پہلی کتاب میں وہ شامل ہے۔ پہلے ہی، اس میں شروع کی جو نظم ہے، پتہ چلتا ہے کہ آپ نے ہمیشہ طنز لکھی ہے، ہمیشہ چوٹیں کی ہیں، اس کے پیچھے کیا غم ہے؟ یا یہ سراپا ردّ عمل ہے غم کوئی نہیں ہے؟ آپ کو وراثت میں ردِّ عمل ہی ملا کہ غم بھی ملا جس کے جواب میں آپ نے مزاح لکھا؟

پروفیسر انور مسعود: دیکھئے، بات یہ ہے کہ شاعری کوئی جیومیٹری geometry نہیں ہے، کوئی میتھے میٹکسmathematics نہیں ہے اور نہ اس کے اندر اتنی تفریق کی جا سکتی ہے کہ یہ وہ ہے اور یہ وہ ہے، جیسے وہ سالٹ انیلے سس salt analysis کرتے ہیں آپ۔ تو اس کا سالٹ انیلے سس نہیں ہو سکتا۔ نہ، نہ! اس میں تو یہ ہے کہ کئی رَویں شامل ہو سکتی ہیں، وہ سب کچھ ہے۔ وہ ہے، وہ ہے، یہاں اس کی مقدار کتنی ہے، یہاں اس کو تول نہیں سکتے آپ۔ ابھی ہمارے پاس کوئی ایسی لیباریٹری laboratory نہیں کہ ہم یہ تولیں کہ اس میں ری ایکشن کتنا ہے اور اس میں غم کتنا ہے ...تو بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ساری چیزیں ملی جلی ہیں، مل جل کے ایک مرکب سا بن جاتا ہے۔

محمد احمد: سر، اس میں نفسیات بھی تو شامل ہوتی ہے اس لحاظ سے انیلے سس کرنا تھوڑا آسان نہیں ہو چکا، شخصیت کا؟

پروفیسر انور مسعود: ہاں، یہ ٹھیک ہے، لیکن یار! اب آدمی اتنی ایزیeasy چیز بھی نہیں ہے۔ ابھی کہاں نفسیات نے دعویٰ کیا ہے کہ آدمی پورا دریافت ہو چکا ہے۔ پورا نہیں دریافت ہوا ابھی، تو میں نہیں کہہ سکتا کہ کتنا ہے؟ اس میں ریشوratio نہیں بیان کی جا سکتی۔ آپ کا سوال بہت ریاضیاتی ہے۔
یوسف ثانیؔ : اچھا جی، آپ کی دو کتابیں آ چکی ہیں۔ آپ کا ان دونوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تقابلی جائزہ تھوڑا سا۔

پروفیسر انور مسعود: یہ، اصل میں، میلا اکھیاں دا کتاب جو ہے، وہ تو بی اے کے نصاب میں شامل ہے دو یونیورسٹیوں میں آپشنل optional ۔ یہ بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں اور پنجاب یونیورسٹی میں اس کی کچھ نظمیں شامل ہیں اور اللہ نے اس کو بڑی پاپولیرٹی popularity دی۔ پانچ ایڈیشن اس کے لگ گئے ہیں اور اب چھٹا ایڈیشن آنے والا ہے....

آفتاب رانا: نام کے ساتھ ساتھ دام بھی کما رہے ہیں آپ شاعری سے۔

پروفیسر انور مسعود: نہیں! شاعر، اصل میں، اسبغول تے کجھ نہ پھرول۔ زیادہ، پتہ ہے کماتا کون ہے؟ دکاندار۔ دیکھیں جی، پبلشر نے کتاب چھاپنی ہے، دکاندار نے بیچنی ہے۔ جس نے کسٹمر کو دینی ہے۔ اس کا کوئی حصہ نہیں، شعر اس نے نہیں لکھے، اس نے چھاپی نہیں لیکن اس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ یہ استحصال کہہ لیں یا کچھ کہہ لیں۔ سب سے کم جس کو ملتا ہے، وہ شاعر ہے۔

محمد احمد: آپ کا شاعری کے علاوہ مشغلہ کیا ہے، وہ جو آپ کرتے ہوں اکثر۔

پروفیسر انور مسعود: بس یہی یار، شعر ہی سمجھ لیں۔ کوئی ایسا خاص مشغلہ نہیں۔ کھیلوں سے مجھے کوئی دل چسپی نہیں۔ کسی زمانے میں گُلّی ڈنڈا کھیلا۔ ہاکی پسند ہے۔ البتہ یہ ہے مجھے سب سے جو اچھا لگتا ہے کہ فرصت ہو تو کوئی کتاب ہو: کتابے و گوشۂ چمنے! کوئی اچھی کتاب اور اچھی خوشبو، یہ دو چیزیں مجھے پسند ہیں۔ یہ تھوڑا ہے مشغلہ؟ شعر سے عہدہ برآ ہونا کوئی آسان ہے؟

آفتاب رانا: بات پنجابی شاعری کی ہوئی تھی، آپ کی جو شاعری ہے پنجابی کی، اس میں بہت سے الفاظ بڑے عوامی قسم کے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آپ نے اس دَور میں جب کہ لوگ پنجابی چھوڑ رہے ہیں، آپ نے اتنے مشکل الفاظ استعمال کئے جو، میرا خیال ہے، پنجاب میں بھی کم ہی سمجھے جاتے ہیں۔ اس میں اچھے اچھے الفاظ بھی ہیں۔ وہ جو تندور ہے یا ساس بہو کا جھگڑا ہے ، تو، اتنی عوامیّت کی وجہ کیا ہے؟

پروفیسر انور مسعود: بھئی یہ انہی کے ... وہ سمجھتے ہیں ہماری بات! انہیں کچھ اجنبیّت نظر نہیں آتی، وہ بات جو ہے انہیں کچھ ایسا لگتا ہے کہ وہ جو ہم بیان کرتے ہیں وہی میں نے جو آپ سے کہا تھا کہ میں نے ہونٹوں سے لے کر کانوں کو واپس کر دی ہے۔

یوسف ثانیؔ : آپ گاؤں سے شہر میں آئے۔ اس کے علاوہ آپ نے اردو پنجابی دو مختلف زبانوں میں لکھا، سنجیدہ بھی اور مزاحیہ بھی۔ آپ لکھتے اردو میں اور پنجابی میں ہیں اور آپ پروفیسر ہیں فارسی کے۔ یہ تضادات، ان کو آپ کیسے سنبھالتے ہیں؟

پروفیسر انور مسعود: پہلی بات تو یہ ہے کہ میں گاؤں سے نہیں آیا، میں شہر کا رہنے والا ہوں۔ دوسرا یہ ہے کہ میری بیوی جو ہے، وہ اردو سپیکنگ ہے۔ اور میرے بچوں کی مادری زبان اردو ہے۔ ہر زبان کا ایک لیول level ہے ، ہر لیول پر مجھے زبان عزیز ہے۔ پنجابی میری مادری زبان ہے۔ اردو میری قومی زبان ہے، فارسی میری تہذیبی زبان ہے اور عربی میری دینی زبان ہے! انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ ہر زبان کا ایک مقام ہے اس اعتبار سے مجھے عزیز ہے۔
ہاں، مجھے اردو ہے پنجابی سے بھی بڑھ کر عزیز
شکر ہے انورؔ مری سوچیں علاقائی نہیں

یوسف ثانیؔ : آپ ماشاء اللہ ایک استاد بھی ہیں۔ استاد اور شاگرد کے موجودہ تعلقات، ان کے درمیان کمیونیکیشن communication کچھ زیادہ ہونی چاہئے اور آج کل جو حالات چل رہے ہیں، اُن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

پروفیسر انور مسعود: دیکھئے جی! اس دَور میں استاد کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ جو شاگرد ہے وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھتا ہے، وہ نعیم بخاری کو دیکھتا ہے، وہ طارق عزیز کو دیکھتا ہے، وہ ڈرامے دیکھتا ہے، وہ فلمیں دیکھتا ہے، وہ عظمیٰ گیلانی کو دیکھتا ہے، وہ عابد علی عابدؔ کو دیکھتا ہے۔ تو، اب اس کو وہاں سے کھینچ کے لانا ہے۔ چیلنج ہے، بہت بڑا چیلنج! اور لڑکا اگر اس ڈرامے کو چھوڑ کر انور مسعود کے لیکچر میں آ جائے اور وہاں نہ جائے تووہ کامیاب لیکچرر ہے، نہیں تو نہیں ہے! یہ ہے میرا، باقی لڑکے اس طرح ہیں، لڑکے بہت اچھے ہیں لڑکے آج بھی با ادب ہیں۔ ٹیچر کوئی مطمئن کرنے والا بھی تو ہو، نا! میں لڑکوں کو برا کہہ دوں، یہ بات نہیں ہے۔ ساتواں پیریڈ میرا ہوتا ہے۔ لڑکے بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کے پیریڈ کے لئے بیٹھے ہیں۔ کیوں بیٹھے ہیں؟ ایک تو میں نے فاصلہ زیادہ نہیں بڑھایا، ’’جا، جا، جا، جا!‘‘ یہ نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ میرا مستقبل بیٹھا ہوا ہے۔ یہ میرا پاکستان ہے، یہ میرا سرمایہ ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کی ٹیچنگ teaching بھی ایک ... میں نے اسے ایسے ہی نہیں اپنایا۔ میں نے کہا تھا پبلک سروس کمیشن مجھے نہیں نا سیلیکٹselect کرتا، تے میں مُنڈے لَے کے مسیت چو بہہ جاں گا۔ مجھے پڑھانے کا اتنا شوق تھا۔ ورنہ اتنا پڑھا کے تو لوگ بور ہو جاتے ہیں۔ اک کلاس اچ جانا، مصیبت پَے جاندی اے۔مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی ہے جب میں کلاس میں لیکچر دے رہا ہوتا ہوں۔ حافظؔ کا ایک شعر ہے:
حافظؔ درونِ مے کدہ دارد قرارہا
کَالطَّیْرِ فِی الْحَدِیْقَۃِ وَاللَّیْثِ فِی الْعَجَمِ
جیسے باغ میں پرندہ ہوتا ہے، جیسے جنگل میں شیر ہوتا ہے تو ایسے میں کلاس میں ہوتا ہوں۔ بالکل ایسے اور میں لڑکوں کو منع نہیں کرتا کسی بات سے، سوال کرنے سے، میں انہیں پہلے دن کہہ دیتا ہوں دیکھو، سوال کرو! میں نے اپنے اساتذہ سے یہی سیکھا ہے۔ جب آپ کوئی ایسا سوال کریں گے کہ جس کا جواب مجھے نہیں آئے گا میں صاف کہہ دوں گا۔ سارا کچھ تو کسی کو بھی نہیں آتا، یار! سیدھی سی بات ہے، مجھے نہیں آتا بھائی، میں آپ کا ممنون ہوں مجھے آپ نے ایک ایسی بات دی جس کو میں ڈھونڈوں گا۔ تو، میں شکریہ ادا کرتا ہوں سوال کرنے والے کا۔ اس لئے میں ایسا ماحول رکھتا ہوں۔ سٹوڈنٹ آج بھی اچھا ہے، ٹیچر کو چاہئے اسے مطمئن کرے!

یوسف ثانیؔ : کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں آپ، طالبِ علم کو؟

پروفیسر انور مسعود: میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ عام طور پر طلبا کی توجہ آج کل وہ پڑھائی کی طرف ویسی نہیں رہی جیسی کبھی ہوا کرتی تھی۔ اصل میں، اصل مصیبت یہ ہے کہ ہمارے ہاں پرائرٹیز priorities بدل گئی ہیں۔ جو چیز زیادہ اہم نہیں ہے اس کو ہم اہم سمجھتے ہیں، جو چیز اہم ہے اس کو اہم نہیں سمجھتے۔ طلبا کے لئے یہی ہے کہ، جس کام کے لئے، مقصد جو ہے، آپ کالج میں کیوں داخل ہوئے، والدین نے آپ کو کیوں بھیجا ہے، ان کا پیسہ آپ کا وقت، سب کچھ خرچ ہو رہا ہے، ایک خاص مقصد کے لئے ، تو اس کی طرف توجہ دیں! اور پیغام؟ پیغام کوئی مشکل نہیں ہوتے۔ دیکھئے! زندگی میں سچائیاں بڑی آسان ہیں، بہت آسان۔ یہ کوئی مشکل بات ہے؟ بھائی جھوٹ نہ بولو۔ قرآن نے تو انہیں معروف کہا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے۔اصل بات عمل کرنا ہے، اصل بات ہے کہ آپ ان پر عمل کریں۔ اگر اثر ہوتا ہے تو ٹھیک ہے۔ ہمارے پروفیسر صاحب کہا کرتے تھے: میں سمجھاتا ہوں اگر سمجھ میں آ جائے آپ کو، تو اچھی بات ہے نہیں تو اور بھی اچھی بات ہے۔ یہ ہے کہ اپنی جو ڈیوٹی ہے، فرضِ منصبی ہے، اس کی طرف توجہ کریں۔

محمد یعقوب آسیؔ : یہ گفتگو باقاعدہ طور پر ختم کرتے ہیں۔ پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ڈھیروں، کہ انہوں نے بہت سارا وقت دیا اور جتنے ہمارے سوالوں کے جوابات سے نوازا، اور میرا خیال ہے ذاتی طور پر کہ پروفیسر صاحب کو خوشی ہوئی ہو گی یہ سوالات سن کر۔

پروفیسر انور مسعود: ہاں، بالکل اچھا، میں یہ کہہ دیتا ہوں۔بھئی مجھے بہت خوشی ہوئی اور اچھا بھئی، وعلیکم الشکریہ۔ (قہقہہ)

محمد یعقوب آسیؔ : تو ... اختتامی بات یہ ہے کہ:
ہس ہس جردے تتیاں ریتاں دھن مکئی دے دانے
جیوں جیوں بھانبڑ مچدا جاوے بندے جان مکھانے
طنز اور مزاح لکھنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے .... شکریہ!
()



جمعرات، 24 مارچ، 2016

اب کیا ہوا؟





اب کیا ہوا؟


لالہ مصری خان پر حسبِ معمول بے زاری طاری تھی۔ ہم نے رسماً پوچھ لیا کہ اب کیا ہوا۔ وہ تو گویا بھرے بیٹھے تھے۔ کہنے لگے: "یارا، یہ لوگ غریب محنت کشوں کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کو ذرا خیال نہیں آتا! یارا، تم کسی غریب کی مدد نہیں کر سکتے تو اس کا مذاق تو نہ اڑاؤ!" ہمارے استفسار پر لالہ مصری خان نے یہ چھوٹا سا واقعہ سنایا۔
۔۔۔
ایک پٹھان پھیری والا آتا ہے یہاں، سائیکل پر پھرا کرتا ہے۔ سوکھی روٹیاں، ٹین ڈبہ، کچرا خریدتا ہے۔ چارے چوکر والے کو اور کباڑ والےکو بیچ کر اپنی دیہاڑی کماتا ہے جیسی بھی ہو۔ ابھی کچھ دیر پہلے نوری صاحب نے اس سے پوچھا "سوکھی روٹیاں کس بھاؤ لیتے ہو، اور بیچتے کس بھاؤ ہو"۔
جواب ملا: "بیس روپے کلو لیتا ہوں اور چارے چوکر والے کو پچیس روپے کلو بیچتا ہوں"۔
نوری صاحب نے فتویٰ دیا: "پانچ روپے کلو پیچھے منافع! پانچ کلو کے پیچھے پچیس روپے کماتے ہو۔ یہ تو سود ہے بچے، اتنا منافع!؟"
پھیری والے نے خاصی برداشت کا مظاہرہ کیا: "آپ کیا سمجھتے ہو بابا، پچیس روپے بہت ہے؟"
"ہاں تو، بہت ہے نا! اور ٹین ڈبے سے بھی کچھ تو کماتے ہو گے" یہ کہا اور نوری صاحب گھر کے اندر چلے گئے۔ پھیری والے نے اپنے ساری بیزاری ہم پر انڈیل دی۔ وہ کہہ رہا تھا۔ "اس بابے کو دیکھو! میں گلی گلی پھرتا ہوں، سوکھی روٹیاں، ٹین ڈبا اکٹھا کرتا ہوں۔ سارا دن جان مارتا ہوں۔ اور یہ لوگ! نہ لینا نہ دینا باتیں بناتے ہیں، مجھے کہتا ہے یہ سود ہے"۔ وہ اور بھی بہت کچھ کہتا رہا۔ کسی غریب محنت کش کا مذاق اڑایا جائے گا تو وہ کہے گا ہی۔
ہم نے اس سے کہا: "بات سنو بچے! تم لوگ جو ہو نا، گلی گلی پھر کر رزق ڈھونڈنے والے، تمہیں دل بڑا رکھنا چاہئے۔ یہ باتیں بنانے والے لوگ چھوٹے دل والے ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں کی پروا نہ کیا کرو"۔ اس نے سلام کیا اور سائیکل پر سوار ہو گیا۔
۔۔۔
لالہ مصری خان واقعہ سنا چکے تو ہمیں محسوس ہوا کہ ساری بے زاری ہم پر سوار ہو گئی ہے۔ لالہ ہماری طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے پوچھ رہے ہوں: اب کیا ہوا؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرِ احمر کے قلم سے



حضر در سفر





حضر در سفر


اپنی نوعیت کا انوکھا سفر ہے یہ! اپنی ذات کی تلاش اور جستجو کا یہ سفر ہوتا ہی تب ہے جب اللہ کی ذات سے منظوری کا عندیہ مل جاتا ہے۔ کچھ کچھ تو مسافر پر بھی منحصر ہے کہ وہ اس سفر میں کیا لے کر جاتا ہے اور بہ توفیقِ الٰہی کیا لے کر لوٹتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں عارضی قیام گاہ(ہوٹل) سے اللہ کے گھر تک کا سفر قدموں کی گنتی میں بہت مناسب تھا۔ اتنا مناسب کہ میرے بوڑھے گھٹنے میرے جسم کو اٹھا کر بہ سہولت پہنچ جاتے تھے۔ ہاں اس تھوڑے سے فاصلے کے اندر کتنے سفر تھے اور ہر سفر کے اندر پھر کتنے سفر تھے، اور ہیں؛ ان کی پیمائش کے لئے زمان و مکان کے مروجہ پیمانے نہیں چلتے۔ وہ عالم ہی الگ ہے! ہر قدم پر یوں لگتا ہے کہ ابھی کوئی کہہ دے گا: ’’الم اقل لک انک لن تستطیع معی صبرا‘‘!؟ وہاں تو مسئلہ صبر کا درپیش ہوا تھا، وہ بھی اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کو! یہاں تو خبر کا مسئلہ بھی ہے، اور اپنی اوقات کا بھی۔ جہاں فرشتے بھی یہی عرض کر پاتے ہوں کہ ’’سبحانک لا علم لنا الا ما علّمتنا‘‘، وہاں میری کیا مجال اور کیا حیثیت!۔

بہ این ہمہ امن والے شہر میں امن والے گھر کی طرف بے سروسامانی کا یہ سفر دو سفید چادروں میں شروع ہوا۔ گلی سے سڑک تک چند قدم چلا تو مکہ ٹاور (المعروف ’’بڑی گھڑی‘‘) کی سوئیاں اتنی سامنے اور واضح تھیں کہ ان کا خاموش پیغام سنا جا سکتا تھا: ’’بہت دیر سے آئے ہو! پھر بھی چلو، آ تو گئے ہو! کوشش کرو بامراد واپس جاؤ! یہاں سے نامراد جاتا ہی وہ ہے جو کوئی مراد رکھتا ہی نہ ہو۔ ادب ملحوظ رہے! تم حدودِ حرم میں بھی ہو اور احرام میں بھی!‘‘ ایسے میں گردن کے تناؤ کا کیا کام؟ نظریں جھک گئیں اور پتہ نہیں اندر کہاں سے دو چشمے جاری ہو گئے۔ لبیک! اللھم لبیک!

چلتے چلتے کبوتروں کی مانوس سی غٹرغوں کا ہلکا سا شور سنائی دیا تو نگاہیں اٹھا کر دیکھا۔ اس جگہ کو عوامی زبان میں ’’کبوتروں والا پل‘‘ کہا جاتا ہے۔ سڑک پر اتنے لوگ تھے کہ سر ہی سر دکھائی دے رہے تھے! سارے پیدل! سواریاں اگر کسی کی تھیں بھی تو سڑک کے ساتھ ساتھ ایک طرف کھڑی تھیں۔ اس پورے منظر میں سب سے منفرد چیز سرمئی دھاریوں والے وہ کبوتر تھے جو بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں سڑک کے بیچوں بیچ موجود تھے۔ ان میں سے کچھ ٹھمک ٹھمک چل پھر رہے تھے، کچھ سڑک پر ڈھیروں کے حساب سے پڑا دانا چگنے میں مگن تھے۔ ان معصوم پرندوں کو سڑک کر چلتے ہزاروں انسانوں کی بھی کوئی پروا نہیں تھی۔ کبھی ایک آدھ کبوتر اپنی جگہ سے اٹھتا، چند فٹ کی مختصر سی اڑان بھرتا اور دوسرے کبوتروں میں شامل ہو جاتا۔ میں نے ایک بلی بھی دیکھی جو مزے سے کبوتروں کے بیچ ٹہل رہی تھی اور لگتا نہیں تھا کہ وہ شکار کے لئے آئی ہو گی۔ ’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا کی اور امن والے اس شہر کی!‘‘ خوف تو دور کی بات وہاں تو کھٹکا تک نہیں تھا۔

مجھے اپنے کانوں کے غاروں کی گہرائی سے بھی آگے ایک مہربان اور پریقین آواز کی گونج سنائی دی: ’’لا تحزن! ان اللہ معنا!‘‘۔ اللہ اکبر! کائنات کا بہترین انسان ، اسوۂ حسنہ کی سند کا حامل، اللہ کا محبوب ترین بندہ؛ اور اس کے ساتھ ’’دو میں سے دوسرا‘‘ جو یثرب کو مدینہ بنانے کے سفرپر نکلے تھے! ان کے لئے مکڑی نے غار کے منہ پر جالا ایسے تن دیا تھا، جیسے عرصے سے کوئی اس غار کے دہانے تک نہ پہنچا ہو۔ کبوتر نے گھونسلہ بنا لیا تھا، اور اتنے سکون سے بیٹھا تھا کہ اس نے ان بہترین انسانوں کا پیچھا کرنے والوں کو بھی نظر انداز کر دیا، اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں۔ تو یہ کبوتر کسی سے کیوں خائف ہوں گے بھلا! لبیک اللھم لبیک! لبیک لا شریک لک لبیک! ان الحمد والنعمۃ لک و الملک! لا شریک لک۔

اللہ کے گھر کی طرف سفر، اللہ کے گھر میں حاضری کے اس کو سفر کہئے گا، یا حضر کہئے گا؟ یہ حضر بھی ہے سفر بھی ہے اور یہی سفر میں حضر بھی ہے۔ لبیک! اللھم لبیک! میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں۔ یہ قلب و روح کے ساتھ اپنے معبودِ حقیقی کے دربار میں حاضری کا سفر ہے۔ اللہ کریم جس کی حاضری کو شرفِ قبولیت بخش دے۔ یا اللہ میں حاضر ہوں، مجھے قبول فرما لے اور مجھ سے کوئی ایسا کام لے لے، جو تجھے محبوب ہو، کہ کل بھی میری حاضری لگ جائے۔ آمین!

محمد یعقوب آسیؔ
جمعہ المبارک 19؍ فروری 2016ء


میں کھو چکا ہوں




میں کھو چکا ہوں

ہاں، ریاض شاہد صاحب! آپ نے ٹھیک کہا! میں ایک دم خاموش ہو گیا ہوں ... شاید گم ہو گیا ہوں یا شاید گم ہو جانا چاہتا ہوں۔ لوگ سفر کرتے ہیں کسی کی تلاش میں؛ اپنی تلاش میں؟ مال و زر کی تلاش میں؟ یا اس کی تلاش میں جو سامنے رہ کر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ مگر میرا سفر کچھ الٹ ہو گیا! میں کھو جانا چاہتا تھا، اور میں کھو چکا ہوں۔
ظاہر کی آنکھ سے دیکھ کر بتانا کچھ مشکل نہیں ہو گا۔ وہ بھی بدھ کا دن تھا جب سویرے سویرے ایک سفر شروع ہوا، اور وہ بھی بدھ کا دن تھاجب رات گئے وہ سفر تھم گیا۔تکمیل پذیر ہونا یا ختم ہونا بات ہی مختلف ہے، چودہ دن ہوتے ہی کیا ہیں! اور ہاں آج بھی بدھ کا دن ہے۔ سحری کا وقت ہو رہا ہے۔ بدنی طور پر سفر سے واپسی کو ایک ہفتہ بیت گیا، مگر مجھے نہیں لگ رہا کہ میں واپس آ گیا ہوں۔ میں گم ہونا چاہتا تھا، سو گم ہو چکا ہوں۔ واپسی کا راستہ ہے کہاں؟ مجھے تو دکھائی نہیں دے رہا اور ہے نا عجیب بات! کہ مجھے واپسی کے راستے کی تلاش بھی نہیں۔ حشر کے میدان سے بھی کبھی کوئی واپس آیا ہے؟ آنا بھی چاہے تو آئے کیوں کر؟ اور کدھر!
وہ شاید آخری منظر تھا جب میں نے خود کو ایک بسیط کالی چادر کے سامنے کھڑا دیکھا تھا اور پھر اس چادر نے میرے گرد و پیش کو اپنی نِگھی تاریکی میں لپیٹ لیا تھا، جیسے میں رحمِ مادر میں ہوں۔ جہاں اچھلتا ہوا پانی کا قطرہ پناہ حاصل کرتا ہے اور اس پناہ کے ڈانڈے عالمِ ارواح سے جا ملتے ہیں۔ تحفظ کا ایسا احساس وہیں ہو سکتا ہے! جہاں اندھیرے میں تخلیق کا عمل واقع ہوتا ہے، جہاں زندگی پھوٹتی ہے۔ اور میں اپنے ہونے کو محسوس کرنے لگتا ہوں۔
بدن کی اپنی ضرورتیں ہیں۔ ساٹھ، باسٹھ برس پرانی ہڈیوں کو تھکنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے! تھک گئی ہوں گی مگر وہ چیز جو اِن بوڑھی ہڈیوں کو اٹھائے پھرتی ہے وہ ہنوز حرکت میں ہے۔ ہڈیوں اور گوشت پوست کے جسم کو اِس حدید و حجر کی وادی میں واپس اترے ایک ہفتہ ہو گیا، مگر وہ کالی چادر مجھے پتہ نہیں کہاں کہاں اڑاتی پھر رہی ہے! سب سفید ہی سفید دکھائی دیتا ہے! سر کے بالوں سے لے کر کفن نما دو اَن سلی سفید چادریں اسی کالی چادر کی پناہ میں اڑ رہی ہیں۔
میں اپنے پیاروں کی آوازیں سنتا ہوں مگر جواب نہیں دے پاتا کہ حشر کے میدان کا تو اپنا شور ایسا ہے جہاں ساری آوازیں دب جاتی ہیں۔ فرق ہے تو ایک کالی چادر کا جو میرے بائیں طرف بھاگتی پھیلتی جا رہی ہے۔ حشر سامانیوں کا سفر جاری رہتا ہے، مجھے پناہ کی تلاش ہوتی ہے تو وہ چادر مجھے یوں چھپا لیتی ہے جیسے کبھی ماں کے پیٹ نے چھپا لیا تھا۔ یہاں سے نکلنے کو کس کا جی چاہے گا!
محمد یعقوب آسیؔ .......... بدھ 10؍ فروری 2016ء


من من کے پاؤں





من من کے پاؤں

(۱) 
’’لبیک اللّٰھم لبیک‘‘ اور .... پھر زبان کانپ گئی، لفظ کھو گئے! حاضری؟ اور وہ بھی اللہ کے حضور! ایسی ہوتی ہے، حاضری؟ بدن کو کفن کی طرح سفید چادروں میں لپیٹ لینے سے کیا ساری کالک دھل جاتی ہے؟ شاید ہاں، شاید نہیں! مگر ... یہاں شاید اور مگر کی گنجائش ہی کہاں ہوتی ہے! یہی شاید اور مگر ہی تو حضوری کو حجاب بنا دیتے ہیں۔ بدن اور وجود کا احساس کتنی بڑی رکاوٹ ہے! اے اللہ میں حاضر ہوں! اگر میں حاضر ہوں تو پھر میں کیوں ہوں!؟ حاضری میں میرا بدن کیا کر رہا ہے! اور کیوں؟ کس لئے؟ یہ پاؤں، من من کے پاؤں مجھے ہلنے نہیں دے رہے۔ میرے اللہ! مجھے سر تا پا دھڑکن بنا دے اور میرا وجود میرے اشکوں میں تحلیل کر دے! پھر شاید میں لبیک کہہ سکوں۔
یہ قیامت ہی تو ہے! حشر کا عالم اس سے کیا مختلف ہو گا؟ ایک بسیط خلا جس میں سر ہی سر ہیں، آنکھیں ہی آنکھیں ہیں، اشک ہی اشک ہیں، دھڑکنیں ہی دھڑکنیں ہیں۔ رنگ و نسل، عمر اور طبقہ کہاں سے در آئے گا، یہاں تو صنف بھی صنف نہیں رہتی۔ یہاں ہوش کسے ہوتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ ٹکرا کر گزرا ہے یا گزری ہے! یا میں کسی کالے گورے عربی عجمی مرد سے جا ٹکرایا ہوں یا کسی عورت سے! کچھ پتہ ہی نہیں رہتا۔ بس ایک چادر باقی رہ جاتی ہے۔ گہرے سیاہ رنگ کی چمکتی دمکتی اور دل میں اترتی، روح پر چھاؤں بن کر پھیلتی ہوئی ایک بسیط چادر، جو میرے بائیں طرف تنی ہے اور میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے، اور بس! حاضری تو تب ہو کہ میں نہ رہوں، صرف وہ چادر رہ جائے۔ پھر ممکن ہے میری صدا بھی بسیط ہو جائے۔ لبیک کی کاف تک کا فاصلہ جتنا طویل ہو جائے حاضری بھی اتنی ہی طویل اور عمیق ہو جائے! مجھے، میرے جسم اور میری روح کو اپنے اندر سمو لے تب میرے اندر سے ایک پکار اٹھے! لب بَے .... ک۔ لاشریک لک!
یہ تو محشر بھی نہیں ہے! کچھ اور ہے۔ محشر میں تو سنتے ہیں کہ شور ہو گا ایسا شور کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے گی۔ نفسی! نفسی! نفسی! مگر نہیں یہاں کبھی کبھی ایک بھنبھناہٹ سی ابھرتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ بہت ساری آوازیں ’’لبیک‘‘ کہنے کی کوشش میں گھٹ کر رہ گئی ہیں۔جیسے آواز کو بھی پاؤں لگ گئے ہوں، من من کے پاؤں! میری آواز اِن پاؤں کے بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش میں بلند ہو جاتی ہے۔ اور ’’لب بے ... ...‘‘ کاف تک پہنچنے سے پہلے ایک پکار میں بدل جاتی ہے۔ دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتی ہیں، من من کے پاؤں اشکوں کے سمندر میں بہہ جاتے ہیں۔ وہی حشر کا سماں؟ کہ ہر کوئی اپنے اپنے پسینے میں ڈوب رہا ہے! میری پکار بھی اس میں ڈوب کر ہچکی بن جاتی ہے۔ لبیک کہنے کے لئے لام، با، یا، کاف کی ضرورت نہیں رہتی! لبیک اللّٰھم لبیک!

(۲)
کائنات کے سارے رنگ سیاہ چادر میں پناہ گزین ہو جاتے ہیں اور مجھے شکمِ مادر کی صورت اپنی پناہ میں لے لیتے ہیں۔ جہاں نہ کوئی خوف ہوتا ہے، نہ تاریکی ڈراتی ہے، نہ آنکھیں ویران ہوتی ہیں بلکہ ایک سرمدی سکون اور خودفراموشی ہوتی ہے جو مجھے دنیا جہان کے غم و آلام سے محفوظ اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں زندگی پھوٹتی ہے۔ دعائیں لہو میں دوڑتی اور دل میں دھڑکتی ہیں، بے چینیاں آنکھوں میں بھی ٹک نہیں پاتیں توآبِ نمکیں کی صورت جسم سے نکل بھاگتی ہیں۔ ہم کلامی اور خود کلامی کا امتیاز ختم ہو جاتا ہے بلکہ کلام ہی نہیں بچتا۔ کس کس نے کیا کہا کہا تھا! میرے لئے غلافِ کعبہ سے لپٹ کر دعا کیجئے گا؛ میری بچی ذرا سی بلند آواز سن کر ڈر جاتی ہے، اس کے لئے سکونِ قلب مانگئے گا؛ درخواست کیجئے گا کہ مجھے بھی بلا لیا جائے؛ میرے لئے مال و دولت میں برکات کی دعا کیجئے گا۔ سب کا کہا بجا! سب کی خواہشات کا خلوص تسلیم مگر .... صدا کہاں سے آئے، لفظ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں کہ اللہ! میرے چاہنے والوں کی مشکلات کو بھی آسان فرما دے؛ میرے احباب کو بھی سکونِ قلب سے نواز اور اُن کو بھی جسمانی طور پر حاضری کا شرف عطا فرما۔ لبیک! ان الحمد، و النعمت لک والملک؛ تیرا ایک ایک بندہ جہاں بھی ہے تیری نظر میں ہے اور تیرے کرم کی پناہ میں ہے۔
مگر، بندہ جو ٹھہرا! اکرام اور شرف کا سودائی، تیرا مہمان بننے کی خواہش کے ساتھ جیتا ہے۔ کم مایہ انسان کی اس آرزو کو کیا کہئے کہ اللہ کو اپنا میزبان دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب خود کو تیرے گھر میں پاتا ہے تو اس کی زبان گنگ ہو جاتی ہے! یہ بھی تو قیامت ہے! جب ایک ایک عضو بولے گا اور زبان کو تالا لگا دیا جائے گا۔ اللہ اکبر! مجھ جیسے بے مایہ شخص کو بھی یہ تجربہ ہوا کہ سوچ کا خانہ تک خالی ہو گیا۔ اللہ کریما! اس خلا میں جو اچھی بات جو اچھا خیال جو اچھا جذبہ بھر دے، تیری عنایت ہے۔ لفظ بھی تو خود ہی عطا کرے گا۔ نہیں بھی کرے گا تو تجھے لفظوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اللہ کریما! سب کی ایک ایک آرزو، ایک ایک تمنا تیرے سامنے کھلی ہے۔ ہر ایک کی ہر وہ آرزو پوری کردے جو آرزو کرنے والے کے حق میں اچھی ہے، آرزو مند کو اتنا ادراک کہاں کہ کیا مانگنا ہے! وہ تو ہر آرزو کی تکمیل چاہے گا، یہ تو ہی جانتا ہے کہ نادان بچے کی طرح کون اپنی ہی آرزو کے ہاتھوں انگلیاں کٹوا بیٹھے! میرے مالک کبھی مجھے میرے حوالے نہ کرنا۔ یا حی یا قیوم برحمتک استغیث!

(۳)
میں کیوں ہوں؟ کس لئے ہوں! یہ بھی تیری مشیت ہے۔ تو کہ ایک خفیہ خزانہ تھا، مگر خود پر عیاں تھا۔ شجر حجر، نباتات و اشجار، چاند سورج ستارے سیارے، ہوائیں فضائیں، حشرات و وحوش، انعام و مواشی، اور وہ ہر ہر شے جو تیرے ایک حرفِ کن کا کرشمہ ہے تجھے جانتی پہچانتی تھی۔ پر تیری مشیت اور مرضی تو کچھ اور تھی۔ تو نے چاہا کہ کوئی تجھے اپنی آزاد خواہش کے تحت پہچانے اور مانے جب کہ اسے ماننے نہ ماننے کا اختیار بھی ہو اور ادراک بھی ہو! تونے ذی شعور مخلوقات کو پیدا فرمایا اور مجھے (انسان کو) احسنِ تقویم کے مقام پر فائز کیا۔ مجھے یہ جو تو نے قفسِ عنصری میں محدود کر دیا ہے یہ بھی تیری عنایت ہے، نہیں تو پتہ نہیں میرا کیا بنتا!
اپنا پنجرہ اپنے کندھوں پر اٹھائے تیرے گھر کی دہلیز پر پہنچتا ہوں تو ایک عظیم الشان دیوار سامنے آ جاتی ہے سیاہ غلاف میں لپٹی ہوئی بلند و بالا عمارت کے گردا گرد ہزاروں لاکھوں سر ہیں جو میرے سامنے دائیں طرف سرک رہے ہیں۔سیاہ رنگ کی چادر کے اوپر کی طرف ایک پٹی میں سنہرے حروف جگمگا رہے ہیں۔ لبیک! ہاں لبیک! اور پھر؟ لبیک! تیرا جلال حاوی ہو جاتا ہے! مجھے تو کچھ کہنا تھا! اپنے رب سے مکالمہ کرنا تھا! کیا کہوں! یا اللہ کیا کہوں۔ میری نگاہیں تو چادر میں گڑی ہیں اور لفظ شاید کوئی ترتیب پا ہی نہیں سکے، اور پا بھی سکے ہیں تو دل سے حلقوم تک کے راستے میں کہیں کھو گئے ہیں۔ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے اور لبیک سے اگلے الفاظ ہونٹوں کی بجائے آنکھوں سے ابل پڑتے ہیں۔ میرے سامنے چادر پھیلی ہوئی ہے۔ پردہ! انسانی آنکھ میں تیرے نظارے کی ہوس تو ہے پر تاب نہیں ہے۔ میں کیا، میری اوقات کیا! وہ جلیل القدر عصا بردار پیغمبر جسے یعقوب کے بگڑے ہوئے بیٹوں کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا تھا اسے بھی تو تجھے دیکھنے کی تڑپ تھی! ایسی تڑپ کہ مجھے اس کا ہزارواں لاکھواں حصہ بھی نہیں ملا ہو گا۔ اس عزمِ مجسم سے ارشاد ہوا تھا: تو مجھے نہیں دیکھ پائے گا! میں کیا! میری حیثیت کیا! تیرے گھر پر لپٹی کالی چادر میرا پردہ رکھ لیتی ہے، اور میرے دیکھتے دیکھتے چہار جانب یوں پھیل جاتی ہے کہ نہ کہیں کوئی افق باقی رہتا ہے نہ کوئی منظر، میرے بے نطق الفاظ ہیں، بے ترتیب دھڑکنیں ہیں اور بے محابا بہتے ہوئے اشک ہیں۔ اللّٰھم اہدنی فی من ہدیت! و عافنی فی من عافیت! و تولّنی فی من تولّیت! و بارک لی فی ما اعطیت! و قنی شر ماقضیت! و انّہٗ لا یذلّ من والیت! و لا یعزّ من عادیت! استغفرک و اتوب الیک! تبارکت ربنا و تعالیت! میرے مالک تو مجھے عطا کر دے۔میں ایسا فقیر ہوں کہ تو مجھے جو بھی عطا کرے میں اس پر شکرگزار ہوں۔ میں بخشش کا طالب ہوں اور تیرے در پر آن پڑا ہوں۔ میرے اللہ میں تیرے گھر کی دہلیز پر کھڑا ہوں اور میرے پاؤں من من کے ہو گئے ہیں۔
تیرے جلال کی قسم مجھے کھڑا ہونا محال ہے، تیرا ایسا دبدبہ ہے کہ جی میں آتی ہے بھاگ جاؤں! مگر کہاں؟ اے میرے مولا! میں تجھ سے بھاگ کر تیری طرف آتا ہوں۔ اور میرا سر بھی ہزاروں لاکھوں سروں کے اس قافلے کا حصہ بن جاتا ہے جومیرے سامنے میرے دائیں طرف کو سرک رہا ہے۔ میں چل پڑتا ہوں، مگر نہیں! میں کہاں چل پڑتا ہوں! میری نگاہیں تیری پھیلتی ہوئی چادر میں کسی غیر مرئی نقطے کی تلاش میں ہیں۔ چادر پھیل رہی ہے! طواف کا دائرہ بھی پھیل رہا ہے۔ سروں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ میرے من من کے پاؤں حرکت کرنے لگتے ہیں، آنسوؤں کی رفتار اور مقدار بڑھنے لگتی ہے، دھڑکنیں سینے کی بجائے کانوں میں گونجتی ہیں۔ اور پھر میں تیری بے پایاں رحمتوں کی پناہ میں آ جاتا ہوں۔

ایک نامکمل تحریر ۔۔۔ از محمد یعقوب آسی
11 فروری 2016ء