منگل، 27 اکتوبر، 2015

برگد کی چھاؤں میں ۔۔


برگد کی چھاؤں میں

سید علی مطہر اشعر کے ساتھ ایک غیر رسمی گفتگو کا احوال، جس کے کچھ اقتباسات اشعر صاحب کے اعزاز میں منعقدہ تقریب مؤرخہ ۱۳؍ دسمبر ۱۹۹۵ء میں پیش کئے


کہا جاتا ہے کہ برگد کے نیچے کوئی اور پودا پروان نہیں چڑھتا۔ یہ وہ درخت ہے جو سارا سال اپنے پرانے پتے جھاڑتا رہتا ہے اور نئی کونپلیں جوان ہو کر ان کی جگہ لیتی رہتی ہیں۔ اس کی گھنی چھاؤں میں عجیب لطف ہے۔ ہاڑھ کی گرمی ہو، چلچلاتی دھوپ ہو تو جان ایک عجیب بے کلی کا شکار ہوتی ہے، ایسے میں برگد کی چھاؤں مل جائے تو دھوپ اور گرمی کے احساس کے ساتھ ساتھ بہت سے تفکرات بھی ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔
شعوری طور پر مجھے نہیں معلوم کہ علی مطہر اشعر کی ذات سے برگد کی کیا رعایت بنتی ہے۔ مگر خود اشعر صاحب کے حکم کی تعمیل میں کہ نوکِ قلم پر جو آئے اس کو سپردِ قرطاس کر ڈالو، میں نے ان کو برگد سے تشبیہ دے ڈالی ہے اور یہ تشبیہ کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ میرے نزدیک برگد، اور خاص طور پر بوڑھا برگد وہ درخت ہے جو موسم کی تمام تلخیاں اپنی جان پر جھیلتا ہے اور چلچلاتی بے رحم دھوپ کی ایک کرن بھی اپنی پناہ میں آنے والے تک نہیں پہنچنے دیتا۔ یہی نہیں، وہ اپنے سایہ نشین کو غمِ دوراں کے ساتھ غمِ جاناں سے بھی بے گانہ کر دیتا ہے، اپنے چوڑے پتوں سے تالیاں بجاتا ہے، اپنی گھنی شاخوں سے گزرتی ہوا کی سیٹی بجاتا ہے جو سکون، شانتی اور احساسِ تحفظ کی وہ لوری بن جاتا ہے کہ ہاڑھ کی گرمی کا مارا بھی مزے کی نیند لے لیتا ہے۔ گویا برگد ماں بھی ہے، باپ بھی ہے، محافظ بھی اور دوست بھی! اشعر صاحب کی یہی خوبیاں ہیں جن کی بنا پر وہ مجھے یہاں کے معاشرتی اور ادبی ماحول میں ایک بوڑھے برگد کی صورت نعمتِ غیر مترقبہ دکھائی دیتے ہیں۔
اشعر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی، جہاں بھی ہوئی انہیں ہمیشہ ملن سار، شفیق، مہربان اور حوصلہ بخش دوست کی صورت میں دیکھا۔ وقت اور زمانے کی سختیاں ان پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوئیں کہ وہ سراپا نرمی بن گے۔ انہوں نے کبھی کسی کو برے لفظوں سے یاد نہیں کیا، کبھی کسی کی برائی نہیں کی اور خودنمائی کا جذبہ تو ان میں شاید ہے ہی نہیں۔ اسی لئے میرے جیسا شخص بھی بالجہر انہیں ’’اشعر بھائی‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے کی جرأت کر لیتا ہے اور جواب میں وہ ہمیشہ بڑے بھائی سے زیادہ شفقت سے نوازتے ہیں۔
ابھی پچھلے دنوں (۱۹۹۵ء کے اواخر میں) حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا نے اشعر صاحب کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا پروگرام طے کیا اور حلقہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے یہ ذمہ داری مجھ پر آئی کہ اشعر صاحب سے نہ صرف نظام الاوقات طے کروں بلکہ ان کا کلام حاصل کروں اور ایسی معلومات بھی جو اُن کے حوالے سے مضامین اور گفتگو ترتیب دینے میں معاون ہو سکیں۔ اس فرض کی تکمیل کے لئے شہزاد عادل، طارق بصیر اور میں جمعہ ۱۷؍ نومبر ۱۹۹۵ء کو ان کے ہاں حاضر ہوئے۔
اشعر صاحب سے تعلقات کی نوعیت چونکہ ’’عمومی‘‘ سے قدرے ہٹ کر ہے اس لئے رسمی تکلفات میں پڑے بغیر ان سے ہوئی بات چیت میں اپنے قارئین و سامعین کو شامل کرتا ہوں۔ کچھ باتیں میں نے پوچھیں، کچھ شہزاد عادل نے اور کچھ طارق بصیر نے اور کچھ اشعر صاحب نے خود بتائیں۔ 

میں نے پوچھا: اشعر صاحب! اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں، کہاں پیدا ہوئے، کب پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم اور اس وقت کے حالات کے بارے میں۔ اشعر صاحب نے بتایا: میری پیدائش ۱۹۳۷ء کی ہے۔ شکارپور (بھارت) میں پیدا ہوا، دوسری عالمی جنگ ہوئی تو میں بچہ تھا، مجھے کچھ پتہ نہیں۔ پھر پاکستان بنا، اس وقت میں پرائمری سکول میں تھا، وہیں شکارپور میں ہی، اور ۱۹۵۱ء میں میرے بزرگ پاکستان آئے میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں شاعرِ مشرق کی دوربین ٓنکھیں ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک مادرِ وطن کا واضح تصور دے کر بند ہو گئی تھیں، اور اس تصویر کی عملی تشکیل کا دور تھا۔ قائد اعظم کی جہدِ عظیمت افرزو ززوروں پر تھی۔ یوں اشعر صاحب نے ایک قوم کو بکھرتے اور ایک کو تشکیل پاتے دیکھا؛ ایک ملک کو تقسیم ہوتے اور ایک کو طلوع ہوتے پایا۔ اشعر صاحب نے بتایا: ہم گھر والے تو پاکستان آ گئے اور والد صاحب ادھر ہی رک گئے وہ ۱۹۵۸ء میں آئے۔ اتفاق دیکھئے کہ یہ ایوب خان کے مارشل لاء کا دور تھا۔ 
اس تناظر میں بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ اشعر صاحب کا لڑکپن بھی اسی سیاسی منظر میں گزرا جس میں وہ عالمِ بالا سے عالمِ دنیا میں آئے تھے۔ اندازہ کر لیجئے کہ ایک بچہ جو آگے چل کر ایک مستند اہلِ قلم بننے والا تھا، وہ جب ایسے حالات کا مشاہدہ اور تجربہ بچپن سے کرنے لگے جس میں انسان انسان نہ رہا ہو درندہ بن گیا ہو، جہاں قافلے لٹتے ہوں، جہاں بیٹیاں اغوا ہوتی ہوں، جہاں عزت اور ناموس کے الفاظ اپنے معانی کھو چکے ہوں، وہ بچہ کیسے شدید احساسات کے ساتھ جوان ہوا ہو گا۔
طارق بصیر نے پوچھا: آپ واہ میں کیسے آئے؟ کہا: حالات کچھ بھی ہوں، پیٹ روٹی مانگتا ہے، جسم کو لباس چاہئے اور افراد کو گھر۔ میں واہ فیکٹری میں بھرتی ہوا تھا، اور میٹرک کا امتحان دیا، پھر فاضل کیا، پھر انٹر، اور پھر .. بس! رسمی تعلیم کا سلسلہ گو رک گیا مگر اشعر صاحب کے اندر جو ایک تلمیذ براجمان تھا وہ علم حاصل کرتا رہا اور اب تک اسی جوش اور جذبے سے تحصیلِ شعور و ادراک میں مشغول ہے۔ شہزاد عادل نے پوچھ ہی لیا: ادب اور شعر کی طرف آپ کیسے آ گئے، اس حوالے سے کوئی خاندانی پس منظر؟ اشعر صاحب نے بتایا: والد گرامی فارسی، عربی، اردو اور انگریزی کے جید عالم تھے، میرے سسرال میں بڑے معروف لوگ ہیں۔ رئیس امروہوی، نسیم امروہوی، جون ایلیا کے ناموں سے ایک زمانہ آشنا ہے۔
خانوادۂ سادات کے اس حساس فرزند کو عزتِ سادات کا پاس بھی ہمیشہ رہا ہے اور ناموسِ قرطاس و قلم کا بھی۔ آج اشعر صاحب کا نام ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔ اپنے سکول کا زمانہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: میرا ایک ہندو ساتھی تھا (نام ذہن میں نہیں آ رہا)، ہم کلاس میں اکٹھے بیٹھا کرتے تھے اور کلاس سے باہر بھی اکٹھے رہا کرتے۔ طبیعت موزوں تھی، ایک مصرع وہ کہتا دوسرا میں کہتا۔ ۱۹۵۵ء کی بات ہے، میں نے والد صاحب کو اپنی ایک تصویر بھیجی۔ وہ ان دنوں بھارت میں تھے جب کہ میں ادھر آ گیا تھا۔ تصویر کے پیچھے میں نے شعر لکھا:
عجیب بات ہے دورِ شباب میں اشعر
مصیبتوں کا زمانہ شباب پر آیا
اشعر صاحب واہ فیکٹری کے عملے میں شامل ہوئے تو کچھ عرصہ تک ان کا شاعر ہونا کم کم لوگوں کے علم میں رہا۔ اپنے قریبی دوستوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا: ایک صفدر خان تھا، وہ پٹھان تھا اور ایک رضا تھا جس کا تعلق لکھنؤ سے تھا اور میں؛ ہم اکٹھے رہا کرتے تھے، اکٹھے ادھر ادھر نکلتے۔ ان دنوں تپش برنی، کمال کاس گنجوی اور دیگر شعرا یہاں جمع ہوتے تھے، عام طور پر مشاعرہ ہوتا تھا۔ شاہد نصیر کے ساتھ نشست ہوتی تھی جو کہ ناصر کاظمی، احمد فراز اور محسن احسان کے استاد تھے۔ ہوا یوں کہ ہم تینوں یعنی صفدر، رضا اور میں ایک دن اس مشاعرے میں چلے گئے، تو ... اس میں مصرع طرح میرؔ کا ایک مصرعِ اول تھا:
ع: خوب دریافت جو کیا ہم نے
غزلیں سنیں، اور اگلے مشاعرے میں اس پر غزل کہہ کر سنا دی۔ وہ لوگ کہنے لگے تم اچھا کہتے ہو، آیا کرو۔ اس طرح میرا یہاں مشاعروں میں آنا جانا ہوا۔ یہ ۱۹۵۶، ۱۹۵۷ء کی بات ہے۔ پھر راز مراد آبادی یہاں آئے، انہوں نے ’’واہ کاریگر‘‘ جاری کیا تو میری شاعری اس میں چھپی۔
میں نے پوچھا آپ نے کتنا کچھ لکھا ہے اور کس کس صنف میں؟ تو کہا: میں نے بہت لکھا ہے اور کم و بیش ہز صنف میں طبع آزمائی کی ہے غزل، نعت، منقبت، سوز، سلام، نظم اور نثر بھی جس میں زیادہ تر تنقیدی مضامین ہیں اور تبصرے اور افسانے بھی۔ افسانوں پر مجھے راز مراد آبادی نے لگایا اور میں نے کوئی چالیس پچاس افسانے لکھے وہ سب ’’واہ کاریگر‘‘ میں چھپے، میرے پاس تو ان کا ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ اس استفسار پر کہ یہ ریکارڈ کہاں ہو گا، انہوں نے کہا: پاشا راز نے اس سلسلے میں کچھ تحقیقی کام کیا ہے انہوں نے مقالہ لکھا تھا، ہو سکتا ہے ان کے پاس ہو۔
میرے اس سوال پر کہ: تب سے اب تک واہ میں کئی ادبی تنظمیں بنیں اور ٹوٹیں، آپ خاص طور پر کسی نتظیم سے وابستہ رہے؟ کہنے لگے: نہیں، خاص طور پر تو نہیں، البتہ میں ان سب کے اجلاسوں میں شامل ہوتا رہا ہوں۔ اشعر صاحب نے فانوس، بزمِ رنگ و آہنگ، مجلسِ ادب اور صریرِ خامہ کا نام لیا۔ حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا ۱۹۸۴ء میں کاوش صاحب کے ہاتھوں قیام پذیر ہوئی، اشعر صاحب نے ہمیشہ ان لوگوں کی دعوت پر شرکت کی۔
میں نے پوچھا: دورِ حاضر کی شاعری اور دیگر اصنافِ ادب کے متعلق کچھ کہئے۔ کہنے لگے: ادب میں بالعموم اور شاعری میں بالخصوص اس وقت تین طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو روایت پر سختی سے پابند ہیں اور کسی طرح کی تبدیلی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ طرحی مشاعرہ اس کی مثال ہے۔ دوسرے وہ ہیں جو روایت کی چنداں پروانہیں کرتے اور براہ راست بات کرتے ہیں۔ مثلاً اختر عثمان کہتا ہے کہ اگر وہ مجھے روٹی نہیں دیتا تو میں پتھر اٹھا لوں گا، اور تیسرا ان کے بین بین ہے جو روایت اور جدت کو ساتھ لے کر چلتا ہے جیسے آپ ہیں (اشارہ میری طرف تھا)۔
طارق بصیر نے کہا: اپنے اس وقت کے قریبی حلقوں کے اہلِ قلم کے بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں؟ اشعر صاحب نے رؤف امیر سے بات شروع کی: رؤف امیر جدید لہجے کا شاعر ہے اور ابھی اپنی تاریخ بنا رہا ہے۔ اس نے اپنے حوالے سے صحیح شاعری کی ہے۔ جو لوگ رؤف امیر کو جانتے ہیں ان کے علم میں یہ بات ہو گی کہ وہ اپنے خاندان کا پہلا پڑھا لکھا شخص ہے۔ آج ہم اسے جو بھی کہیں وہ مستقبل کا ایک بہترین شاعر ہے۔ اختر عثمان اور اختر شاد نئے لہجے کے شاعر ہیں۔
جدید رویوں کے حوالے سے بات ماہئے کی اردو میں آمد پر ہوئی تو اشعر صاحب نے اس موضوع پر دو تازہ آمدہ کتابوں کا حوالہ دیا اور کہا: نثار ترابی کی کتاب ’’گلاب زخموں کے‘‘ اور آلِ عمران کی ’’موسم روٹھ گئے‘‘ دونوں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ نثار ترابی کے ہاں فکر زیادہ گہری ہے اور آلِ عمران کے ہاں زبان زیادہ مضبوط ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ دونوں میں کون بہتر ہے۔ 
ماہیا اور ہائیکو؛ ماہیا تو پنجابی سے آیا ہے، ہائیکو باہر سے آئی ہے کیا خاص طور پر ہائیکو کا جواز ہے؟ اس پر علی مطہر اشعر صاحب نے کہا: میں ماہیا اور ہائیکو میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔ دونوں میں فوری احساسات کو شعر میں ڈھالنے کا عنصر نمایاں ہے ۔ دونوں اپنی اپنی تہذیبوں کے اندر ہزاروں سالوں سے موجود ہیں تاہم ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہائیکو ہم تک براہِ راست نہیں پہنچی بلکہ انگریزی کے توسط سے پہنچی ہے۔ اُس میں اپنی زمین کے حوالے سے سورج، چٹان، پھول، سمندر اور سمندر سے متعلقہ تمام بڑی علامتیں مثلاً مینڈک بڑی قوت کے ساتھ آئی ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ماہئے میں زمین جنگل، دریا، پہاڑ، سرسوں، کوا، چاندی، بادل، زیورات وغیرہ۔ البتہ ایک خاص فرق ہے ہماری برصغیر کی شاعری اور باہر کی شاعری میں! یہاں ہم نے اوزان مقرر کر لئے ہیں اور ان کی پابندی کرتے ہیں جب کہ باہر ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں ردھم یعنی موسیقیت کی بنیاد پر سب کچھ چلتا ہے اور اوزان کا وہ تصور بالکل نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ اشعر صاحب نے کہا: احمد فراز کی شاعری کی مقبولیت کی بڑی وجہ اس کی موسیقیت ہے ورنہ اس میں گیرائی مفقود ہے۔ احمد نریم قاسمی اور منیر نیازی بلاشبہ بڑے شاعر ہیں اور ڈاکٹر وزیر آغا بھی جو صرف شاعر ہی نہیں؛ محقق، تاریخ دان، نقاد اور جانے کیا کچھ ہیں۔ انہوں نے پچاس کے قریب کتابیں لکھی ہیں۔ انشائیہ کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک مسلمہ مقام ہے۔
شہزاد عادل کے اس سوال پر کہ آج کے ابھرتے ہوئے شعراء، مثلاً امجد شہزاد، عصمت حنیف، یعقوب آسی، عارف سیمابی اور دوسرے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، اشعر صاحب نے کہا: آپ لوگوں کے بارے میں میرے احساسات کیا ہیں اور میں آپ لوگوں کا اعتراف کس طرح کرتا ہوں، سنئے:
کچھ اس طرح نئے لہجوں سے استفادہ کیا
کہ ہم نے دل کا درِ نیم وا کشادہ کیا
وہ سال خوردہ صداؤں کی بازگشت میں تھی
سو ہم نے لوحِ سماعت کو پھر سے سادہ کیا
اسے یہ دکھ بھی رہا صبر کے مراحل میں
کہ شورِ گریہ سلاسل نے کچھ زیادہ کیا
عجیب نقش بنائے تھے ریگِ صحرا نے
ہوا نے راہ نوردوں کو خوش لبادہ کیا
میں تو آپ لوگوں کے جذبات، شوق، محنت اور صلاحیتوں کا معترف ہوں۔اہلِ قلم نے ہر زمانے میں عصری تقاضوں کو نبھایا ہے اور حالات و واقعات کی تبدیلیوں کو محسوس کیا ہے اور اپنے منصب کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی شاعر نے کسی ادیب نے اہم تاریخی واقعے پر کچھ لکھا (جب سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے) اور بعد کے حالات نے اسے مایوس کیا تو خود اس نے نہ صرف اس بات کو محسوس کیا بلکہ یہ بھی محسوس کیا کہ اُس وقت میں نے وہ سب کچھ کیوں لکھا۔ دیکھئے تاریخ لکھوائی جاتی ہے۔ حکام تاریخ دانوں سے اپنی مرضی کے مطابق لکھواتے رہے۔ مثلاً اورنگ زیب کے بارے میں تاریخ کچھ اور کہتی ہے جب کہ حقائق کچھ اور تھے۔ شاعروں نے البتہ ہر زمانے میں سچ بولا ہے (ماسوائے چند ایک کے) اور یاد رکھئے کہ کسی بھی دور کی تاریخ اس دور کی عصری شاعری میں ملا کرتی ہے۔
شاعری کے محرکات میں ایک اہم محرک مشاہدہ ہے۔ اشعر صاحب نے کہا کہ شاعر اپنے اردگرد کے مناظر سے بہت سے چونکا دینے والے مواقع پنی گرفت میں لیتا ہے اور اس پر شعر موزوں کرتا ہے۔ یہ عمل اپنے تجربات کو عمومیت عطا کرنا ہے۔ میں نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں ایک بھکارن کو دیکھا جس کا چھوٹا سا بچہ اس کے پاس بیٹھا تھا اور وہ اس کا کرتہ جو جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا اپنے سامنے پھیلائے، ہاتھ میں سوئی لئے بیٹھی تھی، کبھی ایک جگہ ٹانکا لگاتی تو کبھی دوسری جگہ۔ وہاں سے تحریک ہوتی تو میں نے شعر کہا:
مقامِ فکر ہے سوزن بدست ماں کے لئے
رفو طلب ہے پسر کا لباسِ صد پارہ
اسی طرح یہ بھی مشاہدے کے اشعار ہیں:
گھر کے سب لوگ گراں گوش سمجھتے ہیں مجھے
سنتا رہتا ہوں بڑے غور سے سب کی باتیں
اپنے ماں باپ کی ہر بات سناتا ہے مجھے
میرے کانوں میں وہ کرتا ہے غضب کی باتیں
وہ مری بات کبھی غور سے سنتا ہی نہیں
کیسے سمجھاؤں اسے حد ادب کی باتیں
مشاعرے کی روایت اور اس کی اہمیت کے بارے میں انہوں نے کہا: مشاعرہ بہت قدیم روایت ہے۔ عربوں سے اس کی ابتدا ہوئی۔ شاعری عربوں کی گھٹی میں پڑی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا عرب ہو جو سخن گو نہ ہو۔ مجھ سے مخاطب ہوئے: آپ نے لکھا ہے غنائیہ یونانی سے آیا ہے۔ نہیں! غنائیہ یونانی سے نہیں عربی سے آیا ہے۔ یونان عربوں سے شاعری میں بہت پیچھے تھا البتہ وہاں دوسرے علوم تھے، مثلاً: طب، فلسفہ، ریاضی، نجوم وغیرہ اور دوسری خاص بات کہ عربوں کی یاد داشت بہت ہے۔ وہ فی البدیہہ کہتے اور اسے یاد کر لیتے تھے۔ کئی لوگوں کو دوسرے شعرا کے سینکڑوں اشعار یاد ہوتے۔ ان کا حافظہ بہت مضبوط تھا جیسے اونٹ کا کینہ مشہور ہے کہ اپنے دشمن کو سالوں بعد بھی پہچان لیتا ہے اور انتقام لیتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اونٹ کی حیثیت وہاں بنیادی ہے بلکہ ان کی تہذیب کا سرچشمہ ہے۔ ایک بات ضمناً کرتا چلوں؛ اسی حکمت کے تحت بعض جانوروں کو حرام قرار دیا گیا کہ ان کی جبلت میں بڑی رذالت ہے مثلاً کتا۔ تہذیب کے حوالے سے بات کریں تو خوراک، زمین اور اس کے شدائد کا انسانی خصائل و عادات سے بہت گہرا تعلق ہے۔بات مشاعرے کی ہو رہی تھی؛ وہاں چوپال جمتی تھی اور لوگ مصرعوں پر شعر کہا کرتے تھے۔ اپنے قبیلوں کے جوانوں اور سرداروں کے قصیدے پڑھے جاتے اور دوسروں کی ہجو کہی جاتی۔ بعض اوقات تو تلواریں نکل آتی تھیں اور قتل ہو جایا کرتے تھے۔ زبان پر انہیں اتنا فخر تھا کہ دوسروں کو عجمی کہا کرتے۔ پھر آہستہ آہستہ عربوں نے ایرانی تہذیب کو اور ایرانیوں نے عربی تہذیب کو قبول کیا اور فارسی وہ واحد زبان ہے جسے عربوں نے قبول کیا ہے۔ 
اشعر صاحب کہتے ہیں: برصغیر پاک و ہند کی موجودہ شاعری بڑی حد تک ان عیش پرست اور خوشامد پسند سلاطین کی مرہونِ منت ہے جو قصیدے لکھوایا کرتے تھے اور ان کے دربار میں رسائی کا ایک مؤثر ذریعہ قصیدہ تھا۔ کئی شعراء موتیوں میں تول دئے گئے اور کئی بے چارے ایک مصرعے پر سر ہار گئے۔ بعد میں اَوَدھ کے نوابوں نے شاعری کی کفالت کی اور شعراء کے وظیفے مقرر کئے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے مشاعرہ ایک باقاعدہ مکتب اور روایت کی حیثیت حاصل کر چکا تھا۔ مشاہیر کے ہاں آپ دیکھتے ہیں کہ ایک ہی زمین میں بہت سی غزلیں ملتی ہیں اور کئی کئی شعراء کی ملتی ہیں۔ طرحی مشاعرے کی وجہ سے لوگوں میں ذوق پیدا ہوا کیوں کہ ایسی نشستوں میں مسابقت کا عنصر اجاگر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رثائی ادب (مرثیہ گوئی) نے اردو کو بہت کچھ دیا ہے۔
پھر انگریز آیا تو موضوعات تبدیل ہوئے۔ غلامی، غربت، تذلیل کے خلاف رد عمل ہوا اور انقلابی شاعری ہونے لگی۔ یوں مشاعرے نہ صرف چلتے رہے بلکہ ان میں جان پیدا ہو گئی اور پہلے کے مشاعروں کے برعکس جہاں صرف شعراء شرکت کیا کرتے تھے وہاں دوسرے لوگ بھی مشاعروں میں آنے لگے۔ نظیر اکبر آبادی، اکبر الہ آبادی، حالی، اقبال؛ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انقلاب اور ردِ عمل کی شاعری کی ہے۔ انداز سب کا اپنا اپنا ہے۔ نظیر کی شاعری کا لہجہ عوامی ہے اور ادب میں شاید پہلی بار روٹی، بنجارہ اور بیل گاڑی کا ذکر آیا ہے۔ پھر اکبر الہ آبادی ہے، وہ سرکاری آدمی تھا اور پڑھا لکھا تھا، اس کے ہاں بڑی گہری طنز ملتی ہے، اس کی نظر بہت گہری ہے۔ حالی کا انداز ناصحانہ ہے اور اقبال! وہ تو اپنے قاری کو ڈراتا اور جوش دلاتا ہے۔ 
ضمناً اقبال کا ایک دل چسپ واقعہ سنئے۔ اقبال کو ایک دفعہ لکھنؤ میں مدعو کیا گیا۔ ریلوے سٹیشن پر جو لوگ ان کا استقبال کرنے کے لئے گئے وہ اقبال کو پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ لباس اور دیگر شناختوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے ایک صاحب نے پوچھا: آپ اقبال ہیں؟ کہا: ہاں جی۔ انہوں نے کہا: بجا ارشاد! آپ اقبال ہی ہیں۔ اقبال کی سمجھ میں یہ قصہ نہیں آیا کہنے لگے: بھائی معاملہ کیا ہے؟ آپ نے خود ہی پوچھا اور خود ہی تصدیق کر دی۔ وہ صاحب کہنے لگے: ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ ’’ہاں جی‘‘ کہیں گے، ’’جی ہاں‘‘ نہیں کہیں گے۔
اشعر صاحب نے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے کہا: تحریکِ پاکستان اور آزادی کے حوالے سے ادب میں نئے رجحانات آئے اور ادیب واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک وہ جو روایت سے ذرہ بھر بھی ہٹنے کو تیار نہیں تھے، دوسرے ترقی پسند کہلائے؛ ان میں میرا جی، ابنِ انشا، اختر حسین جعفری، منٹو، عصمت چغتائی کے نام آتے ہیں۔ پہلے جو بات میں نے کی تھی انحراف کی، وہ بات تحریکِ پاکستان کے حوالے سے بھی صادق آتی ہے۔ پہلے پہل گنے چنے لوگ ہوتے ہیں اور پھر دوسرے لوگ بھی ان کا ساتھ دینے لگتے ہیں۔ یہاں پھر ایک بات نکلتی ہے۔ دیکھئے! ملکی استحکام کے لحاظ سے منفی رویوں نے مثبت شاعری کو جنم دیا ہے۔ پھر یہ ہے کہ تبدیلی آتی ہے مجموعی طور پر بھی اور شخصی طور پر بھی، مجھے خود محسوس ہوتا ہے کہ میری آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی شاعری اور آج کی شاعری میں مزاج کا فرق ہے۔
طارق بصیر نے دوستوں کی حالیہ آمدہ کتابوں؛رؤف امیر کی ’’درِ نیم وا‘‘، یعقوب آسی کی ’’فاعلات‘‘ اور اختر عثمان کے دو شعری مجموعوں پر اشعر صاحب سے رائے طلب کی۔ اشعر صاحب نے کہا: رؤف امیر اور اختر عثمان دونوں کے ہاں اپنا پس منظر اور اپنی ذات کا پرتو نظر آتا ہے۔ نور بجنوری کی ایک کتاب آئی مگر دوستوں نے کہا یہ کتاب بیس تیس سال پہلے آتی تو ٹھیک تھا کونکہ اس عرصے میں نور بجنوری سے مستفیض ہونے والوں کی کتابیں آ گئی ہیں۔ یعقوب آسی صاحب کی ’’فاعلات‘‘ کے حوالے سے میں صرف اتنا کہاں گا کہ جس طرح شاعری میں جدت آئی ہے اسی طرح عروض میں بھی وقت کے ساتھ چلنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو شاعر خود عروضیا ہو وہ موضوعات کے حوالے سے اتنا مستحکم نہیں ہوتا:
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
نوکِ قلم پر جو آتا ہے کہہ دیجئے، لکھ ڈالئے بعد میں عروضی ضرورتیں پوری کرتے رہئے مگر تخیل کے دھارے کو مت روکئے! میں نے کہا: یہ جو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کتابیں آتی ہیں کیا یہ محض گنتی میں اضافہ ہیں یا ان کا کوئی فائدہ یا جواز بھی ہے؟ تو انہوں نے جمیل الدین عالی کا یہ قول دہرایا کہ ’’شاعری انسان کی فطرت ہے ہر شخص اپنے اپنے انداز میں شاعری کرتا ہے‘‘۔ میں کہتا ہوں امان اللہ کے افسانوں میں شاعری ہے۔ اگر آپ کتاب لاتے ہیں اور کتاب میں واقعی کچھ ہے تو ہزاروں کیا لاکھوں کتابوں میں آپ کی کاوش ممتاز نظر آئے گی۔
کیا آپ بھی کسی شاعر سے متاثر ہیں؟ اس کے جواب میں اشعر صاحب نے کہا: انیس ؔ کو میں تیرہ سال کی عمر سے پڑھ رہا ہوں۔ انیس اور دبیر یہ دونوں میرے ذہن پر وارد ہوئے ہیں۔ پھر یہ ہے کہ شاعری میں غم کا عنصر اور فکری تحریک ہو تو وہ مزا دیتی ہے۔ صرف غم یا صرف احتجاج نہیں، غم اور دکھ کے تدارک کی فکر بھی ملے تو اور اچھی بات ہے۔ غزل کو سنوارنے میں شاعر کے بعد غزل کو گانے والے کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
ان سے کہا گیا کہ ذاتی واردات کے حوالے سے اپنے کچھ اشعار اور ان کا پس منظر بتائیں تو انہوں نے مندرجہ ذیل اشعار سنائے اور ان کا پس منظر بھی بتایا۔ اِن اشعار کی مضبوطی اور ہمہ گیری کے پیشِ نظر یہ ضروری محسوس نہیں ہوتا کہ ہر شعر کی وجہ نزول بھی بیان کی جائے، اشعار بذتِ خود کافی و شافی ہیں:
مٹی کا کھلونا بھی میسر نہیں آیا
میں اس کی خوشی لے کے کبھی گھر نہیں آیا
ہاتھ اگر پھیلائیے تو گھر کی دیواریں بجیں
اک ذرا سیدھی کمر کیجے تو چھت سے سر لگے
وہ سربلند ہے میری گلی کے بچوں میں
وہ جس کے ہاتھ میں مٹی کا اک کھلونا ہے
یہ روشنی کا تکدر ہے ان کے چہروں پر
چراغ بجھتے ہی دونوں کو ایک ہوتا ہے

چراغ کو تو بجھنا ہے۔ رات کا اندھیرا صبح کے اجالے میں بدلتا ہے تو خوشی ہوتی ہے اور چراغ کی لو بجھتی ہے تو دکھ ہوتا ہے، اس کے باوجود چراغ کو تو بجھنا ہے۔ دعا ہے کہ ہماری سوچوں میں روشنی جگانے والا یہ چراغ دیر تک روشن رہے اور بجھنے سے پہلے کئی اور چراغ روشن کر جائے۔ آمین!
محمد یعقوب آسی ... ۱۸؍ نومبر ۱۹۹۵ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں