پیر، 25 جولائی، 2016

مہکتی بولیاں





مہکتی بولیاں

بولی پنجابی  لوک شاعری کی بہت قدیم اور مقبول صنف ہے۔ اس کا صرف ایک مصرع ہوتا ہے، جس کا ایک مخصوص وزن ہے۔ اس وزن سے ہٹ جائے تو اس کو بولی  نہیں کہا جا سکتا۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ صنف پنجاب میں زمانہ قدیم سے مقبول ہے۔  پنجاب کی مٹی میں گندھی ہوئی اور سرسوں کی مہک سے لدی اور ہوئی یہ صنف اپنے اندر نہ صرف بے پناہ ثقافتی رچاؤ رکھتی ہے بلکہ کومل جذبات کے اظہار کا ایک خوبصورت وسیلہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر:
لے جا چھلیاں بھنا لئیں دانے، مترا دور دیا
ٹانگا آ گیا کچہریوں خالی، سجناں نوں قید بول گئی
جوگی اتر پہاڑوں آیا، چرخے دی گھوک سن کے
یار چھڈیا گلی دا پھیرا، پنجاں دے تویت بدلے

گزشتہ دہائی کے دوران وطنِ عزیز کی علاقائی زبانوں کی اصناف میں اردو شاعری کا رجحان کھل کر سامنے آیا ہے۔ ان تجربوں میں ماہیا، کافی اور دوہا، جو پنجابی سے آئی ہیں، نمایاں ہیں۔ یہ خیال بھی گزشتہ دہائی میں پنپا کہ پنجابی لوک شاعری کی قدیم صنف بولی  کو اردو میں لایا جائے۔ بولی میں، چونکہ، ایک خاص لے میں رہتے ہوئے، ایک مصرعے میں خیال مکمل کرنا ہوتا ہے، لہٰذا یہ اظہار میں جامعیت کی متقاضی صنف، اختصار کی بہت عمدہ مثال ہے۔ 

فن کے حوالے سے بولی کی پوری چال چوبیس ماتراؤں کی ہوتی ہے۔ پہلے چرن میں چودہ ماترائیں ہوتی ہیں، پھروسرام جو بالعموم خالی ہوتا ہے۔تاہم اس میں دو ماتراؤں تک کی گنجائش ہے۔ دوسرے چرن میں دس ماترائیں ہوتی ہیں۔ لوک بولی کے پہلے چرن کے شروع میں لگھو آئے یا گورو، چرن کا اختتام گورو پر ہوتا ہے۔ بولی کا حسن یہ ہے کہ وسرام پر مضمون کاپہلا حصہ مکمل ہو جائے۔یعنی اظہار کے اعتبار سے بولی کا پہلا چرن بیت کے پہلے مصرعے کی طرح ہو اور دوسرا دوسرے مصرعے کی طرح؛ دونوں چرن مل کر ایک مضمون مکمل کریں۔ گائیکی کے تقاضوں سے قطع نظر، وسرام خالی ہو تو اچھا تاثر دیتا ہے بشرطے کہ پہلے چرن کے آخری لگھو کو کھینچ کر پڑھا جا سکے۔ 

اردو عروض میں اس کا قریب ترین وزن فعلن (چھ بار) یعنی بارہ سبب کے برابر بنتا ہے۔ تاہم اس میں دو تین باتوں کو دھیان میں  رکھنا ہو گا:  
۔(1) معنی اور بُنَت دونوں اعتبار سے بولی کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ سات سبب کا ہے۔ اس میں شعر کے مصرعے کی طرح مضمون کا ایک حصہ آتا ہے۔ دوسرا حصہ پانچ سبب کا ہے، معانی کے اعتبار سے اس کو شعر کا دوسرا مصرع سمجھ لیا جائے۔ 
۔(2) ہر حصہ سبب خفیف (ہجائے بلند) پر ختم ہو گا۔ عروض میں وسرام کی گنجائش نہیں ہے، اس کو حذف کر دیا گیا ہے۔  
۔(3) بولی میں حرکات و سکنات کی ترتیب میں سخت پابندی لازم نہیں۔ تاہم  ایک سے زیادہ سبب ثقیل (دو سے زیادہ ہجائے کوتاہ) متواتر نہ آئیں۔  بولی کا اختتام سبب خفیف پر ہونا چاہئے۔

 جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے، جیسے پہلے کہا جا چکا، بولی  پنجاب کی دھرتی سے پھوٹی ہے۔ اس میں موضوع کوئی بھی ہو پنجاب کی ’’رہتل‘‘ کا عنصر غالب رہتا ہے۔ چھلیاں، کھلیان، دانے، مکئی، ٹانگا، کچہری، قید، جوگی، گھوک، چرخہ، پھیرے، تویت، پتن، دریا، کھیتی، ہل، پنجالی، واہن، کھال بنے، بیڑی، پگ، گوری، سَک، سُرمہ، مَجھ، گاں، ساگ، سرہوں، اچار، امبیاں، کھٹے،مکھن، دُدھ، کھُوئی، ٹاہلی، بیری، توت، تیلی، نتھ، مندری، اور ایسے بے شمار دیگر ثقافتی مظاہرہیں جو بولی کا تانا بانا بناتے ہیں۔ چند مثالیں اور دیکھئے:
نتھ والی نے بھنا لئے گوڈے، تیلی والی کھال ٹپ گئی
کچی ٹٹ گئی جنھاں دی یاری، پتناں تے رون کھڑیاں
نہ جا چھڈ کے دیس دوآبہ، امبیاں نوں ترسیں گی
میرے یار نوں مندا نہ بولیں، میری بھانویں گت پٹ لے

لوک صنفِ شعر کو ’’لوک‘‘ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ایک تو اس کے اولین شاعر کا نام حتمی طور پر معلوم نہیں ہوتا دوسرے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کی وجہ سے اور کچھ مقامی لہجوں کے زیرِ اثر، مقبول فن پاروں میں لفظی سطح پر بھی فرق آ جاتا ہے؛ کہیں کم کہیں زیادہ۔ ایک اہم فرق وسرام کے خالی یا پر ہونے کا بھی ہوتا ہے۔ کسی گلوکار نے بھی اگر گائیکی کی سہولت کے لئے پر کر دیا تو وہ صورت بھی چل نکلی۔ لہٰذا اس میں لفظی فرق کی بحث پر غلط یا صحیح کا فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر منقولہ بالا چاروں بولیوں کی مندرجہ ذیل عبارت بھی یکساں طور پر مقبول ہو سکتی ہے:
نتھ والی نے بھنا لئے گوڈے، تے تیلی والی کھال ٹپ گئی
کچی ٹٹ گئی جنہاں دی یاری، اوہ پتناں تے رون کھڑیاں
ناں جا چھڈ کے دیس دوآبہ،نی امبیاں نوں ترسیں گی
میرے یار نوں مندا نہ بولیں،تے میری بھانویں گت پٹ لے

’’لوک شاعری کرنا‘‘ بڑی عجیب سی اصطلاح ہو گی، پہلے بیان ہو چکا کہ وہاں شاعر عام طور پر معلوم نہیں ہوتا۔ جب کہ میں اگر بولی تخلیق کرتا ہوں تو میرا نام بھی اس کے ساتھ چلے گا۔ اس لئے یوں کہنا مناسب تر ہو گا کہ میں نے لوک شاعری کے تتبع میں کچھ بولیاں کہنے کی کوشش کی ہے ( اگر حسنِ اتفاق سے میری کوشش کو لوک کی حیثیت حاصل ہو جائے تو یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہو گا)۔ بولی کے فطری مزاج کے تحت میری طبع زاد بولیوں کے مضامین بھی زمین اور تہذیب سے جڑے ہوئے ہوں گے، تاہم جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے شاعر اپنے گردو پیش سے بھی بے گانہ نہیں رہ سکتا۔ سو، میری کہی ہوئی بولیوں میں کچھ مضامین روایت سے کسی قدر ہٹے ہوئے بھی آئے ہیں۔ بہ این ہمہ میری کوشش رہی ہے کہ ان کا اسلوب روایت سے جڑا ہوا ہو اور تشبیہات و استعارات زمین سے پھوٹتے ہوئے محسوس ہوں؛ ملاحظہ فرمائیے۔
پھل جھڑ گئے کریڑی نال سڑ گئے، ٹہنیاں تے کنڈے رہ گئے
ساڈے وَیریاں نال یارانے، وِیراں وچ وَیر وَڈھواں
اسیں ویچ گھراں دے بوہے، گلی چ گواچے پھردے
اج سورج لہندیوں چڑھیا، تے برفاں چ اگ لگ گئی
میرا سہمیا شہر کراچی، سمندراں چوں سپ نکلے
بوسنیا چ بُسکن بچڑے، تے مانواں دیاں نینداں اڈیاں
کندھاں چیچنیا دیاں چیکن، دھرتی نے دھاڑاں ماریاں
موت پنڈ دیاں گلیاں چ نچدی، حویلیاں چ واجے وجدے
تیرے پیڑ کلیجے اٹھدی، تے ویکھدا میں، کِویں ہسدوں
چنی لاہ دے چنار دیے نارے، نی اج تیرے وِیر مر گئے
اک ماراں مارے گجھیاں، تے رون وی نہ دیوے چندرا
جس منگویں عینک لائی، اوہ دوجیاں نوں راہ دَسدا
کیہ دسیے انکھ دے قصے، جے سر اتوں پگ ڈگ پئے
ہن میرے لک نوں آوے، اوہ پہلوں میری بانہہ بھن کے
موت بوہے اگے بھنگڑا پاوے، حویلی چ دھمالاں پیندیاں
میری گندل ورگی وینی ویکھیں وے کتے توڑ نہ دئیں

پروفیسر انور مسعود نے ۱۹۹۰ء میں ایک انٹرویو میں مشورہ دیا تھا کہ یہ پنجابی لوک شاعری کی سوغات ہے، اس میں آپ ایک سطر میں پوری نظم بیان کر جاتے ہیں۔ اس صنف کو اردو میں لانا چاہئے۔اکثر اصناف کے ساتھ یہ ہوا کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے پر ان میں وہ اصل ثقافتی رچاؤ کم ہو گیا؛ اردو ماہئے مثال ہمارے سامنے ہے۔ عین ممکن ہے کہ بولی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو، تاہم میں نے پنجابی کی اس مقبول صنف کو اردو کا جامۂ اظہار دینے کی ابتدائی مشق کے طور پر کچھ بولیاں کہیں جو ماہنامہ ’’کاوش‘‘ ٹیکسلا (اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں شائع ہوئیں۔ میری اولین کاوش ہونے کی وجہ سے مضامین اور خیال کی گہرائی اور گیرائی شاید وہ نہ رہی ہو گی جو اصل یعنی لوک پنجابی بولی میں پائی جاتی ہے۔ تاہم میری ارادی کوشش تھی کہ موضوعات اور اسلوب روایتی رہیں تاکہ ایک دم اجنبیت کا احساس پیدا نہ ہو (کہ زبان بدلی تو مضامین بھی جاتے رہے)۔ 
دل کا ہے کھیل انوکھا دونوں ہارتے ہیں
دو آنسو، اک رومال، اک شیشی خوشبو کی
اک تیری یاد کا ساون، اک رومال ترا
کہیں دور کوئی کرلایا، آدھی رات گئے
پھر پھول کھلے زخموں کے، درد بہار آئی
شبِ تار فراق کی آئی، اشکوں کے دیپ جلیں
اک ہجر کا مارا تڑپا، دھرتی کانپ اٹھی
اک تارا دل میں ٹُوٹا، زخمی اشک ہوئے
من ساون گھِر گھِر برسا، روح نہال ہوئی
یادیں الّھڑ مٹیاریں، کیسی دیواریں
ترے شہر کے رستے پکّے، کچّا پیار ترا
وہ سانجھ سمے کی سرسوں، یہ دل کولھو میں
کہیں دور کوئی کرلایا، دھرتی کانپ اٹھی
دل جھل مل آنسو جگنو، تارے انگیارے
اک بیٹی ماں سے بچھڑی، رو دی شہنائی
سپنے میں جو تو نہیں آیا، نندیا روٹھ گئی
بیلے میں چلی پُروائی، میٹھی تانوں کی
پھر یاد کسی کی آئی، جیسے پُروائی
میں نے ہجر کی تان جو چھیڑی، بانسری رونے لگی

دوستوں سے بے تکلفی اور فکری سانجھ کی بدولت کچھ شگفتہ نگاری بھی در آیا کرتی ہے۔ اسے آپ چاہیں تو ’’تجربہ‘‘ قرار دے دیں، مگر میرے نزدیک یہ افتادِ طبع کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ چند نمونے پیش کرکے اپنی گزارشات کا اختتام کرتا ہوں:
دے کے کال کرن دا لارا، ترنجاں چ جٹی رُجھ گئی
جٹ بنیاں تے پھردا بڈورا، ہتھ چ موبائل پھڑ کے
جیہڑے پنڈ نوں نہ جانا ہووے، اوہدا کاہنوں راہ پچھنا

شذرہ:
اس مضمون میں ماہنامہ ’’کاوش‘‘ ٹیکسلا(اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں شائع شدہ مضمون کے کم و بیش سارے مندرجات آ گئے ہیں۔ طبع زاد اردو بولیاں میری اردو نظم کی کتاب ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘ (اشاعت ۲۰۱۵ء) میں، اور پنجابی بولیاں میری پنجابی شاعری کی کتاب ’’پنڈا پیر دھرُوئی جاندے‘‘ میں شامل ہیں۔

محمد یعقوب آسیؔ .... سوموار: ۲۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء


جمعہ، 15 جولائی، 2016

اصطلاحات کی اردو میں تحویل






اصطلاحات کی اردو میں تحویل


ایک توجہ طلب بات! کہ ہم کسی  لفظ کو کیوں بدلنا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے سہولت کے لئے اور اس لئے کہ اپنے انفرادی علمی میدان کے مطابق ہر شخص ان الفاظ، اصطلاحات اور اسماء کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور سمجھا سکے۔ اب اگر میں انگریزی کا ایک مشکل لفظ نکال کر اس کی جگہ فارسی یا عربی کا اتنا ہی مشکل لفظ ڈال دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تراجم آسان تر ہونے چاہئیں۔ اس میں ادبیت اور تراکیب سازی کا اہتمام قطعاً ضروری نہیں۔ ہمارے اصطلاح ساز کے ہاں کچھ رابطہ الفاظ (کا، کے، کی، اور، پر، میں، سے؛ وغیرہ) پتہ نہیں کیوں ناپسندیدہ ہیں۔ یا ہم عربی اور فارسی ترکیب سازی کا جو ماحول ادب کی زبان میں دیکھتے ہیں وہی بازار اور لیبارٹری میں بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اصطلاحات سازی میں اردوئے معلیٰ یا مسجع زبان کی بجائے تفہیم، بلاغت اور ادائیگی کی سہولت کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے۔

زبان تو زندگی کے سارے میدانوں کے لئے ہوتی ہے اور ہر علمی میدان کی طرح عملی شعبوں کی لفظیات بھی اپنی اپنی ہوتی ہیں۔ جمالیات، قواعدِ لسان، صرف و نحو، ترصیع و تسجیع کی اہمیت بالکل بجا، مگر اپنے میدان میں! اصطلاحات کی تحویل میں ہمیں اپنے لوگوں کو زبان دان نہیں بنانا ان کے لئے آسانی پیدا کرنی ہے اور ان کے شعبوں کو زبان دینی ہے؛ زبان دانی کا شعبہ الگ ہے۔ اپنے اپنے شوق، رجحانات اور ترجیحات پر ہر فرد کو آزادانہ فیصلے اور مزید طلبِ علم کا اختیار حاصل ہے۔ 

روزمرہ کی زبان کے طور پر اصطلاحات اور تراجم میں اگر ہم ایسی تفصیلات میں پڑ جائیں مثال کے طور پر "ربڑ ایک درخت کا نام بھی ہے، غلیل میں لگنے والی فیتی بھی ربڑ ہوتی ہے۔ شیشوں کے درمیان اور رگڑ کو روکنے کے لئے بھی ربڑ ہوتی ہے، ان سب میں لفظی سطح پر بھی فرق ہونا چاہے"۔ میرا نہیں خیال کہ یوں ہم کوئی آسانی بہم پہنچائیں گے۔ اپنے اپنے فیلڈ کے لحاظ سے ایک ہی لفظ متعدد مفاہیم بھی رکھ سکتا ہے۔ ایک دو مثالیں: ۔۔ گوڈا ۔۔ مستری کا اپنا ہے، پہلوان کا اپنا ہے، ہڈی جوڑ والے کا اپنا ہے، ٹھنڈی کُٹ کا اپنا ہے، حتیٰ کہ چاند کا گوڈا اپنا ہے۔ ۔۔ ہانڈی ۔۔ مستری کی اپنی ہے، باورچی کی اپنی ہے، عطار کی اپنی ہے، خمیر اٹھانے والے کی اپنی ہے، انجینئر کی اپنی ہے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا، نہ ہانڈی کا نہ گوڈے کا۔ ایسے الفاظ رائج کیجئے۔ عوام بھی سمجھتے ہیں، خواص بھی سمجھتے ہیں اور کم و بیش ہر متعلقہ شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس ہانڈی یا کوڈے کی بات ہو رہی ہے۔

اطباء مولی کے نمک کو مولی کا نمک کیوں نہیں لکھتے، جوہرِ بادنجان  ہی کیوں لکھتے ہیں؟   ہومیو پیتھی والوں سے کوئی پوچھے کہ (AquaTurmerika) ہی کیوں، ہلدی کا پانی کیوں نہیں؟ عام خوردنی نمک جو بازار میں 10 روپے کلو ملتا ہے میڈیکل سٹور پر وہ 500 روپے کا 50 گرام کیسے ہو جاتا ہے؟ اس کا ایک اجنبی سا نام جو کسی جناتی زبان میں لکھا ہوتا ہے اور بس! وہ انگریزی بھی نہیں ہوتی! 

ایک زمانے میں ہمیں جنرک ناموں کا دورہ بھی پڑا تھا۔ ڈیٹول ساٹھ برس پہلے بھی اسی نام سے  معروف تھا، آج بھی اسی نام سے معروف تھا۔ دورے کے زمانے میں اسے جو نام تفویض کیا گیا وہ کم از کم ایسا ضرور تھا کہ اسے استعمال کرنے کی نوبت نہیں آتی تھی، جرثومے بھی نام سنتے ہی مرگِ مفاجات کا شکار ہو جاتے ہوں گے! اس فقیر کی طرف سے یادِ ماضی کا ایک تحفہ سمجھ لیجئے! وہ تھا: diiodohydrooxychloroxylenol ۔ کہئے کیسا لگا! 


ع: میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند



محمد یعقوب آسیؔ

جمعہ 15 جولائی، 2016ء