منگل، 30 جون، 2015

ہمزاتِ ہمزہ


ہمزاتِ ہمزہ

بات ہو رہی تھی ہمزہ کی۔ ہمزہ کہاں آئے گا، یاے کہاں آئے گا، لئے کئے جئے دئے درست ہیں یا لیے کیے جیے دیے؛ آؤ جاؤ تاؤ داؤ ہو گا یا آئو جائو تائو دائو یا پھر آوو جاو و اور تاو داو۔ یہاں تک کہ دو صاحبان کو تو باضابطہ تاؤ آ گیا۔ شور استناد کا بھی تھا: اعتبار رشید حسن خان کا ہے، نہیں صاحب! نارنگ کا ہے، جی نہیں مولوی عبدالحق کا ہے۔ ایک تیسرا پہلو لغات کا نکل آیا؛ ایک نوراللغات کو سند مانتا ہے، دوسرا کہتا ہے وہ تو صدی ڈیڑھ صدی پہلے کی ہے، زبان تو حنوط نہیں ہو گئی۔ ایک نے کہا کہ زبان زندہ چیز ہے اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں دوسرے نے کہا اپنی بلا سے تبدیلیاں جتنی بھی آئیں اصل یوں ہے تو یوں ہی رہے گا۔ صاحب! فی زمانہ یہ لفظ یوں نہیں یوں رائج ہے؛ ہوا کرے جناب جو غلط ہے وہ غلط ہے چاہے سارے اس کو اپنا لیں۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

ہم بھی کسی نہ کسی انداز میں اس بحث میں شامل تھے۔ بحث نے ایسا طول پکڑا کہ شیطان کی آنت بھی کوتاہ لگنے لگی، سیدھی سادی باتوں سے جلیبی کے ایسے لچھے بننے لگے کہ پتہ ہی نہ چلے اس بے منہ کی نلی میں شیرہ کیوں کر ڈالا گیا۔ مذاکرہ پہلے مناظرہ اور پھر ملاکڑا بنا اور جب ہمیں لگا کہ اب یہ مباہلہ بننے کو ہے  تو ہم اس میدان کو چھوڑ بھاگے۔ وہ الگ بات کہ بھاگتے میں بھی ہمارے کان ان دو پہلوانوں کی چیخم دھاڑ پر لگے ہوئے تھے جو اسی زور و شور سے ایک دوجے کی نفی کر رہے تھے۔ ہمیں یاد ہے ایک پہلوان کہہ رہے تھے: میں اس کو بدعت سمجھ کر برداشت کر لیتا ہوں۔ دوسرے نے کہا تھا:  زبان میں بدعات عین کارِ خیر ہے اور زبان کی ترقی میں بدعات کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ اس پر ایک مولانا بہت چیں بہ جبیں ہوئے کہ یہاں بھی بدعت کی وکالت ہو رہی ہے۔

مولانا کی بات کچھ غلط بھی نہ تھی، وہ الگ بات کہ موصوف بدعت کا طعنہ دینے کو میدان غلط منتخب کر بیٹھے۔ زبان و بیان اور علوم الاشیاء میں بدعات عین صواب ہوتی ہیں۔ کہ یہ بدعتیں نہ ہوتیں تو انسان آج بھی غاروں کا مکین ہوتا، پتھر سے خرگوش مارتا اور کچے کو چیر پھاڑ کر ہڑپ کر لیتا، غوں غاں کی اشاراتی زبان سے کام لیتا اور ہم  آپ یوں ہزاروں لاکھوں میل دور بیٹھ کر ایک دوجے سے ہم کلام نہ ہو رہے ہوتے۔

ہمزات و بدعات جہاں زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں وہ اللہ اور بندے کا تعلق ہے۔ اس تعلق میں رخنہ اندازی کے لئے شیطان ذہنی سطح پر ہمزات پیدا کرتا ہے اور اس کی عملی صورت بدعات ہوتی ہیں: یعنی  وہ کام جن کو نہ اللہ کریم نے دین قرار دیا اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کچھ کیا نہ اس کا حکم دیا۔ مگر بعد والوں نے انہیں ایسے اختیار کیا کہ وہ دین و ایمان کا حصہ اور عقیدہ بن گئیں۔ یہیں پر بس نہیں! نوبت بہ این جا رسید کہ جو اِن بدعات کو اپنے ایمان کا حصہ نہیں مانتا اس کو اِسلام ہی سے خارج قرار دے دیا۔

بات بہت صاف اور سادہ ہے۔ کوئی سوا لاکھ لوگوں کے روبرو اللہ کا نبی اعلان کرتا ہے کہ : میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک اللہ کا قرآن ہے اور ایک میرا طریقہ ہے، ان پر جمے رہو گے تو کبھی نہیں بھٹکو گے۔ ادھر اللہ کا قرآن نازل ہو جاتا ہے : الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً۔ نبی کے کہے کئے پر یہ سند پہلے سے موجود ہے کہ: ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ۔  کلام اللہ اور فرمودات رسالت مآب کی روشنی میں ضابطہ بن جاتا ہے کہ عقیدہ اور ایمان قرآن سے لیا جائے گا اور طریق و سنت اعمال و افعال نبی سے لئے جائیں گے، کسی تیسرے کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ پنجابی کی معروف کہاوت ہے: ’’تیجا رَلیا، تے جھُگا گَلیا‘‘۔ فساد پھیلتا ہی اس تیسرے کو ملانے سے ہے۔ اولین تیسرا تو ابلیس ہے، وہی جو ہمزات پیدا کرتا ہے اور نئی نئی باتیں نئے نئے عقائد اختراع کرنے پر اکساتا ہے۔

ایمان اردو ادب نہیں ہے کہ یار لوگ ہمزات و بدعات کی متنوع صورتوں میں کسی کو صواب اور کسی کو ناصواب  قرار دے لیں۔ الفاظ کے معانی کا تعین ان کے وسیع تر سیاق و سباق سے ہوتا ہے، ہوا کرے! لزومِ اولین یہ ہے کہ آپ کی چھڑی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔ جب ہم نے مان لیا کہ اسلام دین (ضابطۂ حیات) ہے تو اصولی طور پر مان لیا کہ زندگی کا کوئی عمل، کوئی قول، کوئی فعل، کوئی نظریہ، کوئی عقیدہ، کوئی ذوق، کوئی دل چسپی، کوئی تفریح، کوئی ادب، کوئی نظام؛ اس ضابطے سے باہر اور ماوریٰ نہیں ہو گا۔ غلطی ہو جانا، کمی کوتاہی رہ جانا، اس کی تلافی اور سچائی کی طرف واپسی انسانی فطرت میں شامل ہے اور اسلام نے اس پر بھی تعلیم کر دیا کہ کب کہاں کیا کرنا ہے۔ اس لئے کہ اسلام کل ہے جزو نہیں ہے؛ لسانیات اور ادب جزو ہے کل نہیں ہے۔ اسلام اللہ کا دیا ہوا ضابطہ ہے، زبان اللہ کی دی ہوئی نعمت ہے۔ نعمت سے درونِ حدود جیسے چاہوفائدہ اٹھاؤ؛ ضابطہ وہی رہے گا! ان کے لئے بھی جو اس فقیر کی باتوں سے متفق ہیں اور ان کے لئے بھی جو متفق نہیں۔
*******************
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ یکم جولائی ۲۰۱۵ ء

اتوار، 28 جون، 2015

اوراقِ پریشاں ۔








اوراقِ پریشاں
ملک جعفر خان اعوان مرحوم کی غیر مطبوعہ شاعری کا مختصر مطالعہ




غم ہائے زندگی سے ملے زندگی کے راز
اک عمر مشکلوں میں گزاری تو کیا ہوا
چند آنسو ہیں چند یادیں ہیں
عمر بھر کی یہی کمائی ہے

ڈاکٹر رفعت اقبال صاحب کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو سے میں نے اخذ کیا کہ ملک جعفر خان اعوان کو دو سانسوں کے تار سے جڑے رہنا کبھی سہل نہیں رہا۔ انسانی زندگی گونا گوں حوادث سے عبارت ہے۔ شکست و ریخت، رنج و الم اور حزن و ملال ہی نہیں جو زندگی کو امتحان بنا دیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خواہشیں، آرزوئیں، امیدیں بھی درد بن جاتی ہیں اور دل و جان عجیب اضطراب و اضطرار سے دو چار ہوتے ہیں۔ 
یہ دو سانسوں کا جینا کس قدر مشکل بنایا ہے
کہاں کی خاکِ مضطر سے ہمارا دل بنایا ہے
شہزاد عادل

بچپن میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، جیسے تیسے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا اور اردو فاضل کر کے مدرس بن گئے۔ جب بزرگ سر پر نہ رہیں تو انسان فطری طور پر اپنے ہوتوں سوتوں کی طرف دیکھتا ہے۔ جعفر ملک کو ادھر سے کوئی ڈھارس تو کیا ملتی، الٹے کچوکے ملے۔ فنکارانہ حساسیت ان کے کلام میں کچھ یوں جھلکتی ہے: 
میں فنکار افلاس کا مارا میری کیا اوقات
جوں توں کر کے دن کٹتا ہے، ایسے تیسے رات
میں نے ہواؤں میں بوئے تے آشاؤں کے پیڑ
میرے دل تو دیکھ رہا ہے میرے خالی ہاتھ

وہ تو یوں کہئے کہ فطرت نے جعفر ملک کو اظہار کے سلیقے سے نوازا اور وہ اپنی وارداتِ جسم و جان کو لفظ میں ڈھال کر کسی قدر ہلکا پن محسوس کر لیتے ہوں گے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ اظہارِ ذات کے لئے بھی ان کو فرضی ناموں کا سہارا لینا پڑا۔ 
جن پہ سنگِ ملامت کی بارش ہوئی
ایک میں ہی نہیں اور بھی لوگ ہیں

فرضی ناموں سے شائع ہونے والے فن پاروں کو کھوج نکالنا تحقیق کار کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ یوں میں ڈاکٹر رفعت اقبال کی لگن اور محنت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کو ایک اور مشکل بھی درپیش رہی ہے۔ جعفر ملک کی ادبی سرگرمیاں، ادبی حلقوں میں آنا جانا یقیناً بہت محدود رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں لب و عارض اور خال و خد کا تذکرہ خال خال ملتا ہے۔اور اس میں بھی تلخئِ ایام در آئی ہے۔ 
جاگ اٹھی ہیں سلگتی یادیں
گفتگو کس کے بیاں تک پہنچی
پہلے شکوہ تھا صرف آپ کی ذات سے
اب کبھی آپ ہیں اور کبھی لوگ ہیں
پل رہی ہے جو آرزو دل میں
سوچتا ہوں زباں نہ ہو جائے
شاخِ نازک پہ آشیانہ مرا
کاوشِ رائیگاں نہ ہو جائے
دنیا کو چھوڑ چھاڑ ترے پاس آئے تھے
مدت ہوئی ہے تجھ سے بھی دل ہے اٹھا ہوا

جب غمِ روزگار کے کانٹے اور اپنے خون کے رشتوں کے نشتر ہر تارِ جاں کو زخمی کر رہے ہوں تو شیخ سعدی کے اس شعر کا کرب تازہ ہو جاتا ہے کہ: 
چناں قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاران فراموش کردند عشق

بہ این ہمہ وارداتِ قلب؛ سید علی مطہر اشعر کے الفاظ میں ’’تعلقِ خاطر‘‘؛ کی اپنی ایک حیثیت ہے اور یہ تعلق اظہار چاہتا ہے۔ ایسے میں حالات کا مارا ہوا دلِ زار بے اختیار چیخ اٹھتا ہے کہ: 
چھین لے مجھ سے مرا عشق زمانے کی طرح
یا درِ حُسن سے پُرکیف صدا دے مجھ کو

بات ادبی حلقوں میں آنے جانے کی ہو رہی تھی۔ مجھے یہ کہنے میں کبھی کوئی باک نہیں رہا کہ اظہار کی تربیت میں یہ حلقے جامعات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جعفر ملک کو غمِ نانِ جوین نے ان جامعات سے کسبِ فیض کی بہت کم مہلت دی۔لہٰذا ادب کا نازک ذوق رکھنے والا قاری شاید اس طور سرشارنہ ہو سکے جس طور وہ کسی بڑے شاعر کا کلام پڑھ کر ہوتا ہے، تاہم ان کے اندر کا شاعر اتنا مضبوط ضرور ہے کہ اس کے قاری کو کسی رد و کد سے دوچار نہیں ہونا پڑتا۔ جعفر ملک کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی اور ان کی شاعری طاقِ نسیاں کا حصہ بن چکی ہوتی اگر ڈاکٹر رفعت اقبال اپنی شاگردانہ ذمہ داری کو پورا کرنے کا بیڑا نہ اٹھا لیتے۔ انہوں نے اپنے اسکول کے استاد کا کلام کہاں کہاں سے کس طرح جمع کیا مجھے اس کا اندازہ تو نہیں تاہم میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ محنت اگر اردو ادب کو سو پچاس یادگار شعر بھی دان کر دے تو یہ کم نہیں ہے۔ جعفر ملک کے کچھ یاد رہ جانے والے شعر نقل کر رہا ہوں۔ 
غم کی آندھی، درد کے جھکڑ، ساون تیری یاد
طوفانوں میں دیپ جلائیں ہم دیوانے لوگ
پتا ٹوٹے تو زنداں میں رو رو کاٹیں رات
پھول کھلے تو جشن منائیں ہم دیوانے لوگ
پا برہنہ تھے سروں پر بھی کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح تو دشت میں کوئی کبھی آیا نہ تھا
تو بھی الجھ رہا تھا اُدھر آسمان سے
میں بھی گھرا ہوا تھا اِدھر ناخداؤں میں
جبر کا حبس ہے مگر ہم لوگ
تان کر سوئے رات بھر ہم لوگ
بپھری ہوئی موجیں رہیں آمادۂ طوفاں
ٹھہرے ہوئے پانی کو بہت پاسِ ادب ہے
بزمِ جفا میں ذکرِ تہی دامنی نہ چھیڑ
اک غم ہے اور وہ بھی کسی کا دیا ہوا
گل فسردہ روش روش ویراں
کس ادا سے بہار آئی ہے

اپنے تمام ذاتی رنج و آلام اور محرومیوں کے باوجود جعفر خان اپنی ذات تک محدود ہو کر نہیں رہ گئے نلکہ انہوں نے گرد و پیش میں بگڑتے ہوئے منظر نامے کو مادی اور انسانی دونوں سطحوں پر دیکھا ہے اور اس کا اظہار بھی بہت دل زدگی کے ساتھ کیا ہے۔
آج ان کو بھی فضائے شہرِ شب راس آ گئی
جان دیتے تھے جو کل تک صبح کے آثار پر
ڈھولک کی تھاپ کوئی نہ ٹپے کا کوئی بول
پوچھیں تو آج کس سے پتہ اپنے گاؤں کا
رُت کچھ اس انداز سے بدلی کہ رونا آ گیا
گلشنوں میں راستے، کھیتوں میں گھر اُگنے لگے
درد کے سورج نے جعفرہم کو بخشی وہ ضیا
ادھ کھلی آنکھوں میں خوابوں کے نگر اُگنے لگے

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سختیاں انسان کو تھکا دیتی ہیں اور اس کی ہمتیں کمزور پڑنے لگتی ہیں۔ جعفر ملک کو انسانی کمزوریوں اور شورشوں دونوں کا بخوبی ادراک ہے اور وہ اس میں اپنے قاری کو بھی مؤثر طور پر شریک کرتے ہیں۔ اس مؤثر شرکت کے لئے شاعر اور قاری دونوں کا حقیقت شناس ہونا بہت لازم ہے۔ ان کا انہتر سالہ زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ ان کے قاری تک کچھ اس بے قراری کے ساتھ پہنچتا ہے کہ وہ لفظوں کی تڑپ اور تلخی کو کما حقہ محسوس کر سکے۔
اب ذرا بیٹھ کے رو لیتے ہیں
اتنی فرصت بھی کہاں تھی پہلے
پانی مری رگوں میں رواں ہے بجائے خون
محنت نے میرے جسم سے چکنائی چھین لی
زندگی سے فرار ممکن ہے
تیرے غم سے فرار، ناممکن
جلتے ہیں اپنی سوچ کے دوزخ میں رات دن
ہم سے زیادہ کون ہمارا عدو ہوا
جعفرہمیں نے کوئی توجہ نہ دی کبھی
اس زندگی کے ورنہ تقاضے ہزار تھے

جعفر ملک کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب وہ اپنی عمر بھی کی تگ و دو کو لاحاصل خیال کرتے ہیں۔
کوئی منزل نہ منزل کا نشاں ہے
غبارِ کارواں ہے اور میں ہوں
منزلیں میری حدِ ادراک سے بھی دور تھیں
تیرے نقشِ پا کو منزل کا نشاں سمجھا تھا میں
تاہم انہیں اتنا اطمینان ضرور ہے کہ:
ساحل کا شور بحر کی موجوں میں کھو گیا
طوفان کام کر گیا اپنی صداؤں کا
ہم اجڑ جائیں کہ آباد رہیں
تیری تقدیر بنا دی ہم نے

اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے جعفر ملک کی غزل اور نظم دونوں اردو کی شعری روایت سے مضبوطی کے ساتھ منسلک ہیں اور روایت کا سفر جاری ہے۔ چند ایک نظمیں جو مجھ تک پہنچی ہیں وہ بھی پابند نظمیں ہیں اور غزلیہ انداز میں ہیں۔ ان کی شاعری میں اپنی زمین اور تہذیب کا رچاؤ پایا جاتا ہے۔ وسعتِ مطالعہ، شعری وجدان، قوتِ مشاہدہ اور تجزیہ، اسلوب کی سادگی، انشا پردازی، مضمون بندی، مضمون آفرینی، فکری تازگی اور قاری کے ساتھ سانجھ ان کی غزلوں کا خاصہ ہیں۔ انہوں نے جیتی جاگتی شاعری کی ہے جو کہیں بھی جمود کا شکار نہیں ہوتی۔ چند مزید اشعار ملاحظہ ہوں:
غم کے ماروں نے یہ سوچا اکثر
فصلِ گل تھی کہ خزاں تھی پہلے
جب اڑا کر لے چلی آندھی بدن کی راکھ بھی
میں تمہارے شہر میں آیا گیا پھرتا رہا
یہ دریا کہہ رہا تھا تشنگاں سے
مجھے، آقا! بڑی شرمندگی ہے
الجھنوں کا بیان کیا کیجے
ایک ممکن ہزار ناممکن
مسکراتی گنگناتی زندگی ہوتی اگر
مسکرانے والے لوگو! مسکراتے ہم ضرور
***
محمد یعقوب آسی 6  مئی 2014ء

(جملہ حوالہ جات: ڈاکٹر رفعت اقبال خان، اسلام آباد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر کے کوائف
ملک جعفر خان اعوان ولدِ سردار محمد اسلم خان
پیدائش:  18جولائی 1933ء (موضع ناڑا، تحصیل جنڈ)، ضلع اٹک
تعلیم: میٹرک ، فاضل اردو
پیشہ: تدریس (سکول کی سطح پر)
بڑے مسائل: بچپن میں والد کی وفات، اہل خاندان کا برا سلوک، مشکل مالی حالات
آغازِ شاعری: ۱۹۵۸ ... فرضی ناموں سے لکھتے رہے
رکنیت: حلقۂ ادب اٹک، مجلسِ ادب اٹک 
شعری مجموعہ: ندارد
ماخوذ از: ’’اٹک کے اہلِ قلم‘‘ مرتبہ: ارشد محمود ناشاد ( جون 2000ء)، پنجابی ادبی سنگت اٹک 
وفات: 17  جنوری 2002ء 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


تھا وہ اک یعقوب آسی ۔(9)۔



تھا وہ اک یعقوب آسی



ایک دن عین دوپہر کے وقت، دفتر سے چھٹی کے فوراً بعد سوچا کہ سودا سلف لے آؤں پھر کچھ دیر آرام کروں گا۔ مشرقی گیٹ پر ایک ’’بزرگ جوان‘‘ سے ملاقات ہو گئی۔ چہرے بشرے سے کوئی ساٹھ کے پیٹے میں لگتے تھے؛ خشخشی داڑھی اور بھاری مونچھیں، چوڑا اور پر رعب چہرہ، سر پر ایک بڑا سا سفید رنگ کا پگڑ، سفید کرتا اور تہ بند، پاؤں میں گول سروں والا کھسہ، کندھے پر دو ڈھائی فٹ کی سوٹی (ڈنڈا) جس کے سرے پر ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی۔ مجھے روکا اور اپنے مخصوص لہجے میں پوچھا: یہیں رہتے ہو؟ کہا: ہاں، بولے: میں کرم الٰہی نوں ملنا اے۔ میں سوچنے لگا کہ یہ کون صاحب ہیں، کرم الٰہی۔ بزرگ بولے: وڈا ماشٹر لگا ہوئیا اے؛ میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹر کرم الٰہی درانی، وائس چانسلر کا پوچھ رہے ہیں۔ بہت کم لوگوں کو ان کے پورے نام کا علم تھا۔ 

میں نے ان کو راستہ سمجھاتے ہوئے بتایا کہ یہاں ان کو کرم الٰہی کے نام سے کوئی نہیں جانتا۔ اور یہ بھی کہ وہاں ان کے باہر والے دروازے پر ایک کیبن بنا ہوا ہے جس میں ایک وردی والا بندہ بیٹھا ہو گا، اس سے کہیں کہ وڈے صاحب سے ملنا ہے۔ انہوں نے ’’ہلا!‘‘ کہا اور ہم اپنی اپنی راہ پر ہو لئے۔ اگلے دن وہ واپس جا رہے تھے کہ مجھ سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور مصافحہ کر کے رخصت ہو گئے۔

 ڈاکٹر درانی صاحب بہت تھوڑا عرصہ (تقریباً ڈیڑھ سال) تک یہاں رہے، ان کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے ایک سول انجینئر ڈاکٹر محمد شریف بھٹی صاحب یہاں وائس چانسلر بن کر آئے۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب کا تعلق اوکاڑا سے ہے۔ ان کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگی وہ پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے اور جہاں تک ممکن ہوتا، دفتر ہو، گھر ہو، میٹنگ میں ہوں؛ پنجابی میں بات کرتے (پروٹوکول وغیرہ کی بات دوسری ہے)۔

 ڈاکٹر بھٹی صاحب نے پہلی تبدیلی یہ کی کہ رجسٹرار کی ذمہ داری یہاں کے ایک پروفیسر مختار حسین ساحر صاحب کو تفویض کر دی۔ ساحر صاحب کی شخصیت میں کچھ ساحرانہ چیز ضرور تھی، جس کا مجھے تجربہ تب ہوا جب وہ میرے باس بن کر آن بیٹھے۔ ان کا تعلق کھیوڑا سے ہے۔  وہ اردو بول رہے ہوں، انگریزی بول رہے ہوں یا پنجابی؛ ان کا لہجہ کھیوڑے کی خوش گوارنمکینی لئے ہوئے ہوتا ہے۔ سگریٹ ان کا ٹریڈ مارک کہا جاتا ہے؛ خود کہتے ہیں: میں چالیس سے پچاس سگریٹ روزانہ پیتا ہوں۔ ایک بار کسی کے کہنے پر کہ آپ جب اتنے سگریٹ پیتے ہیں تو ایک ایک ڈبی کر کے منگوانے کی بجائے پورا ڈنڈا (دس ڈبیاں اکٹھی) منگوا لیا کریں؛ وہ لے آئے۔ اگلے دن کہنے لگے: نہیں یار، ایہ نہیں ٹھیک میں راتیں تِن ڈبیاں (ساٹھ سگریٹ) پی گیا۔ سونے اور کھانے پینے کے اوقات کے علاوہ وہ ہوتے ہیں اور سگریٹ ہوتا ہے۔ لیکچر تھیٹر کا ایک گھنٹہ یا کوئی میٹنگ وغیرہ جس میں وی آئی پی شریک ہوں ان پر صرف اس ایک لحاظ سے بھاری گزرا کرتا ہے۔ سادہ مزاج اتنے ہیں کہ ان کے پاس سگریٹ ختم ہو گئے ہوتے تو اپنے چپراسی سے مانگ لیتے۔ اور جب منگواتے تو ایک ڈبی اسے ویسے ہی دے دیتے۔
  
دیگر بہت سے نئے شعبوں میں ایک اے اینڈ آر برانچ تھی (اکیڈمک اینڈ ریگولیشنز)۔ جس کی منظوری ہو چکی تھی مگر کام شروع نہیں ہوا تھا۔ ساحر صاحب نے یہ شعبہ مجھ پر ڈال دیا اور انتظامی امور میں بھی میری ذمہ داریاں اول اول تو برقرار رہیں پھر کم ہوتی چلی گئیں۔ میری برانچ کی بنیادی ذمہ داری تھی: یونیورسٹی کے قواعد اور قوانین کا مطالعہ اور ان میں ترامیم وغیرہ کی سفارش کرنا، تعلیمی معاملات میں باہمی رابطہ، یونیورسٹی کے مختلف اداروں مثلاً سیلیکشن بورڈ، اکیڈمک کونسل، سنڈیکیٹ کے اجلاسوں کی تیاری، انعقاد اور ان کے فیصلوں پر عمل درآمد، سرکاری اداروں محکمہ تعلیم پنجاب، وزارت تعلیم وفاق اور دیگر یونیورسٹیوں اور اداروں کے درمیان روابط اور تعاون، پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے ملنے والے سوالوں کے جوابات، یونیسکو اور دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں سے معاملات؛ وغیرہ۔ خاص مشکل کام تھا، تاہم کرنا تھا! سو، چل سو چل۔ ہوتے ہوتے سب کچھ ہوتا چلا گیا تو یونیورسٹی کے پراسپیکٹس اور دیگر مطبوعات کا کام بھی مجھے سونپ دیا گیا۔

اس میں دو چیزیں نمایاں طور پر واقع ہوئیں۔ اول تو یہ کہ میرے پاس فراغت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ دن کے علاوہ شام کو بلکہ رات گئے تک کسی بھی وقت وی سی صاحب کی طرف سے ’’آسی صاحب حاضر ہوں!‘‘ کا بلاوا آ سکتا تھا۔ دوم یہ کہ اتنی ساری ذمہ داریوں نے جہاں اعلٰی انتظامیہ میں میرا اعتماد بنایا وہیں میرے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی اور بڑھتی چلی گئی۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب کا ایک بہت ہی خاص فلسفہ تھا جس کا اعلان بھی وہ وقتاً فوقتاً کیا کرتے کہ ’’جو کام جلدی کرنا ہو، وہ کسی ایسے شخص پر ڈال دو جس کے پاس پہلے ہی بہت کام ہے‘‘ اور اس پر خود ہی ہنسا بھی کرتے۔ میں نے ایک دن کہہ دیا: سر، اوہ تے کم نوں مگروں لاہن دی کرے گا، جیہو جیہا اوہ ہووے۔ بولے: نہیں، اوہنوں کم دی عادت ہوئی ہوندی اے، اوہ وگاڑے گا نہیں پئی پھر میرے تے ای آنا اے! اوہ ٹھیک کم کرے گا تے اپنے دوجے کماں پاروں چھیتی کر کے جان چھڈائے گا۔ میں نہ رہ سکا، کہا: سر، تے اوہ رانجھے؟ اوہ ویہلے ٹیٹنے مارن نوں؟ بولے نہیں ویہلے کیوں! اونہاں نوں کوئی ایہو جیہا کم دیو جیہڑا اوہناں دی سرکاری حیثیت توں تھلے دا ہووے۔ ویکھو ٹھیک ہوندے نیں کہ نہیں! جھاڑ جھمب دی لوڑ کیہ اے!

ڈاکٹر بھٹی صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے ماتحتوں کی عزتِ نفس کا بہت پاس کیا کرتے تھے۔ پروفیسر عبدالوہاب خان کی طرح تو نہیں البتہ خاصے متحمل مزاج تھے۔ میں نے ان کو غصے کی حالت میں بہت کم دیکھا۔ کسی کی ’’مرمت‘‘ مقصود ہوتی تو طنز اور مزاح کا انداز اختیار کرتے، حتی الامکان کسی کے خلاف تحریری کارروائی کی نوبت نہ آنے دیتے۔ کہا کرتے تھے کہ آپ کی فائل میں لکھا ہوا ایک ایک جملہ آپ کے ریٹائر ہو جانے کے بعد بھی آپ کے ساتھ رہتا ہے، کوشش کریں کہ آپ کی فائل صاف رہے۔ انہیں معلوم تھا کہ کس دفتر یا تعلیمی شعبے میں کس شخص کے ذمے کیا کام لگایا گیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ کون شخص کتنا اہل ہے، اور اس کے رجحانات کیا ہیں۔ خصوصی ذمہ داریوں کی تقسیم میں وہ اسی بات کو بنیاد بناتے تھے۔ انتظامیہ کے چار بڑے شعبوں: امورِ ملازمت، امتحانات، مالیات اور امورِ طلبا میں سیکنڈ لائن افسروں پر کڑی نظر رکھتے۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے: ’’آسی صاحب، کدی کوئی خبر شبرای دے دیا کرو‘‘۔ عرض کیا: ’’تہانوں پتہ اے سر، نہ میرا ایہ مزاج اے تے نہ میرے کول ٹائم اے، اُنج وی تہاڈے کول ہور تھوڑے لوکی نہیں خبراں دین والے؟‘‘۔ ہنس کر خاموش ہو رہے۔

اپنے محسنوں میں ایک ملک صاحب اور ایک کھوکھر صاحب بھی تھے، مجھ سے پہلے سرکاری طور پر بزرگ قرار پائے۔ بارے یہ تینوں وی سی آفس میں طلب کئے گئے تھے، جب میری بھیجی ہوئی ایک فائل پیش کی گئی تھی، اس میں کچھ غلطی تھی۔ ڈاکٹر بھٹی صاحب نے اپنی عادت کے مطابق کہا: ’’اوہ، غلطی ہو گئی! بلاؤ آسی صاحب نوں!‘‘ میرے محسن بھلا اس موقع کو کیسے جانے دیتے، فوراً تبصرہ فرمایا: ’’کم کردا ای کوئی نہیں دھیان نال، مگروں لاہن تے ہوئے نیں وڈے ذمہ دار‘‘۔ میں حاضر ہوا تو وی سی صاحب نے کہا: ’’آسی صاحب، غلطی کر گئے او۔‘‘ ’’ہو سکدی اے سر، میں پھر دیکھ لیندا آں‘‘۔ اس پر اُن کا جملہ ریکارڈ رکھنے کے قابل ہے۔ کہنے لگے: ’’ہاں، یار! اک بندہ کم کردا اے، اوہ غلطی وی کرے گا۔ تے جنہے کم ای نہیں کرنا، اس نے غلطی وی کیہ کرنی اے!! ہیں جی، ملک صاحب؟ کھوکھر صاحب تسیں کیہ کہندے او؟ ۔۔۔ تسیں جاؤ جی آسی صاحب، میں فائل پڑھ کے بھجوا دیاں گا‘‘۔ بعد میں پتہ چلا کہ ٹائپنگ کی ایک دو غلطیاں تھیں، اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اہم اور کریٹیکل معاملات میں وہ فائل بھیجنے والے افسران کو پہلے طلب کر لیتے اور کیس پڑھنے کے ساتھ ساتھ کئی کئی سوال کیا کرتے، مطمئن ہوتے تو دستخط کرتے نہیں تو فائل واپس کر دیتے۔

ستمبر کے دن تھے۔ دن کو قدرے تپش ہوتی اور رات کو ٹھنڈک ہو جاتی۔ کوئی ساڑھے نو بجے کا عمل ہو گا، میں نیم خوابیدگی کے عالم میں بستر میں دبکا ہوا تھا، گھر والی بچوں شاید کچن میں برتن دھو رہی تھی، فون کی گھنٹی میں نے بھی ہلکی سی سنی ضرور! اور ۔۔۔ گھر والی نے مجھے جگایا کہ: کوئی شریف صاحب ہیں، بات کرنا چاہ رہے ہیں، کہہ رہے ہیں ’’میں شریف بول رہا ہوں‘‘۔ میں اٹھا، فون سنا، ڈاکٹر محمد شریف بھٹی وائس چانسلر صاحب لائن پر تھے: ’’ستے پئے سو؟ جاگ گئے او تے پھر آ جاؤ ذرا‘‘۔ ان کی رہائش بھی قریب ہی (سامنے والے گھر کے پچھواڑے) تھی ۔ میں سکیورٹی گارڈ سے علیک سلیک کر رہا تھا کہ اندر سے آواز آئی: ’’آ جاؤ!!‘‘ 
بھٹی صاحب بازوؤں والی بنیان اور دھوتی پہنے ہوئے، ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک بڑا سا مگ تھامے، گھر کے لان میں ٹہل رہے تھے۔ کہنے لگے: ’’کافی پی رہیا آں، پیو گے؟ ہور بنواواں؟‘‘ 
کہا:’’نہیں جی رہن دیو، انج وی میں کافی دا عادی نہیں آں‘‘۔ لان میں لوہے کی آرام کرسیاں بچھی تھیں۔
 ’’ٹھہرو میں بیٹھک کھلوانا آں‘‘۔
 ’’جے کوئی لمی گل اے تے کھلوا لئو نہیں تے ایتھے ای ٹھیک اے‘‘ ۔
’’چلو ٹھیک اے‘‘ وہیں کرسیوں پر بیٹھ گئے، سنڈیکیٹ کی آنے والی میٹنگ کے انتظامات اور ایجنڈے کے حوالے سے گفتگو ہوئی جو بہت طویل تو نہیں تھی، مگر خاصا وقت لے گئی۔

ایک اور شام، مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے لوٹے تو میرے دروازے کی گھنٹی بجا دی۔ میں باہر نکلا، کہنے لگے: آؤ ذرا! میں ان کے ساتھ ہو لیا، اور وہیں گلی میں ٹہلتے ہوئے کچھ پیشہ ورانہ امور پر باتیں ہوتی رہیں۔ باتوں باتوں میں ہم ان کے گھر کے دروازے تک چلے گئے۔ باہر کھڑے تھے کہ دو نوجوان لڑکے پاس سے گزرے، انہوں نے سلام کہا، ہم نے جواب دیا، لڑکے چلے گئے تو پوچھنے لگے: ’’کون نیں ایہ؟ کیہ کردے نیں؟‘‘ میں نے بتایا کہ یہ ہمارے سٹاف ممبروں کے برخوردار ہیں اور انہوں نے ایف ایس سی کا امتحان دیا ہوا ہے۔ بولے: ’’ایہ شلوار قمیض والا مینوں کچھ بدتمیز لگا اے، دوجا ٹھیک اے! ایہ کیہدا پتر اے شلوار قمیض والا؟‘‘ میں نے اس کے والد صاحب کا نام بتایا۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے:’’پھر ٹھیک اے‘‘۔ ان کا مشاہدہ بہت درست تھا، وہ لڑکا واقعی بدتمیز واقع ہوا تھا۔

بہت بعد کی بات ہے میں دوبارہ شعبہ امتحانات میں جا چکا تھا (بہ حیثیت ڈپٹی کنٹرولر)۔ ہمارے ایک اور ساتھی کا بیٹا انجینئرنگ کا طالب علم تھا، ایک دن کسی کام سے میرے دفتر میں آیا ’’چاچا جی السلام علیکم‘‘ کام کی بات کی چلا گیا۔ کوئی سال بھر بعد اتفاق سے سرِ راہ مل گیا تو ’’سر، السلام علیکم‘‘ میں نے سوچا کچھ تبدیلی آ گئی ہے۔ کچھ مہینوں بعد پھر ملا تو: ’’آسی صاحب، السلام علیکم‘‘۔ میں نے سوچا اب کے کوئی اس کی ٹھکائی کرے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ کچھ ہی دنوں میں طلبا کا آپس میں جھگڑا ہوا اور کچھ لڑکوں نے اس کی دھنائی کر دی۔ کچھ دن ہسپتال میں بھی رہا، پھر ایک دن میرے دفتر میں آیا تو: ’’چاچا جی السلام علیکم‘‘۔ نوجوانوں کے رویوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اپنا رنگ تو دکھاتی ہیں نا!

اس سے آگے؟ سرنوشت کا سلسلہ موقوف
خبر لو ساکنانِ رہگزر کی
کہیں گردِ سفر باقی نہیں ہے


تھا وہ اک یعقوب آسی ۔(8)۔


تھا وہ اک یعقوب آسی

شعبہ امتحانات میں میرے انچارج کیمسٹری کے ایک استاد محمود اختر صاحب ہوا کرتے تھے جن کو افسر انچارج امتحانات کی اضافی ذمہ داری دی گئی تھی۔ یوں کالج کے اس شعبے غریبڑے شعبے میں ریگولر افسر میں ہی تھا، باقی جونیئر سٹاف تھا۔ (محمود اختر صاحب دمِ تحریر کنٹرولر امتحانات کے فرائض انجام دے رہے ہیں، ان کا شخصی ذکر بعد میں آئے گا) ۔
کالج کی حیثیت سے ہم لوگوں کا کام تھا: امتحان لینا، رزلٹ تیار کرنا، کنٹرولر امتحانات (یو ای ٹی لاہور) سے اس کی منظوری حاصل کرنا اور نتائج کا اعلان کرنا۔ یہ دو لفظی کام ’’امتحان لینا‘‘ سٹاف کے لئے ہر چھ ماہ بعد زندگی کا امتحان دینے والی بات تھی۔ اس کا تو خیر کوئی گلہ نہیں کیا جا سکتا، اپنا کام جو ٹھہرا۔ ’’گل پیا ڈھول وجانا پیندا اے‘‘، نالے آپ گل پایا سی کسے نے منتاں تے نہیں سی کیتیاں نا!۔ کنٹرولر صاحب کبھی خود ٹیکسلا چلے آتے، کبھی اپنے عملے سے دو تین سینئر اور تجربہ کار لوگوں کو بھیج دیتے اور کبھی مجھے سارے پلندے اٹھا کر لاہور جانا ہوتا۔

ڈاکٹر علوی صاحب جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا افسر سے زیادہ بزرگ تھے۔ اپنے عملے کے ساتھ بھی’’ بزرگانہ سختی‘‘ سے پیش آتے۔ کبھی کسی چھوٹی سی بات پر گوشمالی کر دیتے اور کبھی اچھی بھلی غلطی کو نظرانداز کر دیتے۔ انضباطی کارروائی کی کبھی نوبت نہ آتی۔ اپنے سٹاف سے بزرگانہ توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے، سو بعض مواقع پر وہ ناراض ہونے کی بجائے ’’رُوٹھ جاتے‘‘۔
ایک دن کوئی بارہ بجے کے لگ بھگ مجھے طلب کیا اور کہا: ’’تازہ امتحانات کا ریکارڈ لے کر تیار ہو جاؤ، دو بجے تم میرے ساتھ لاہور جا رہے ہو‘‘۔
متعلقہ ریکارڈ الگ کرنے، ترتیب لگانے اور پَیک کرنے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ ریکارڈ کو پارک میں کھڑی ان کی کار کے پاس رکھا ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب آگئے۔ ’’ہاں بھئی! تیار؟‘‘
’’جی، تیار!‘‘
’’چلتے ہیں بسم اللہ‘‘۔ کیمپس سے نکل گئے تو بولے: ’’کھانا کھا آئے ہو؟‘‘۔
کہا: ’’نہیں سر، ٹائم ہی نہیں تھا، راستے میں کہیں کھا لیں گے‘‘۔
 ’’دیکھو! میرے کمرے میں صرف میرا کھانا رکھا ہو گا، وہ ایک آدمی کے لئے کافی ہوتا ہے، اپنا بندوبست تمہیں خود کرنا ہو گا‘‘۔
 ’’جی، میں نے کہا نا راستے میں کہیں کھا لیں گے‘‘۔
ان کی رہائش ایک اور ادارے کے ہاسٹل میں تھی، کمرے میں پہنچے، کھانا میز پر رکھا تھا۔ بولے ’’آؤ شامل ہو جاؤ‘‘۔
 ’’نہیں سر، شکریہ! میں راستے میں کھا لوں گا‘‘۔
 ’’ناراض ہو گئے ہو؟ آؤ شامل ہو جاؤ!‘‘ دو اسم با مسمٰی پھلکیاں تھیں، اور ایک پیالی میں گوشت کا سالن، ذرا سا شوربہ اور دو بوٹیاں۔ ’’یہ لو، ایک روٹی تمہاری، ایک میری، ایک بوٹی تمہاری ایک میری!‘‘۔
 نہ کوئی تکلف نہ تردد، نہ کوئی افسری نہ ماتحتی! ایک بزرگ ایک برخوردار، اور بس! یہ ضرور تھا کہ میں نے ان کے سامنے کبھی سگرٹ نوشی نہیں کی، ڈر نہیں تھا، حیا آتی تھی۔

لاہور تک جی ٹی روڈ پر پانچ چھ گھنٹے کا سفر تھا، ان دنوں ابھی موٹر وے نہیں بنی تھی۔ راستے میں ادھر ادھر کی کچھ سرکاری، کچھ ذاتی ملی جلی گفتگو چلتی رہی۔ گفتگو تو ساری پنجابی میں ہوئی (وہ بھی پنجابی بولنے میں سہولت محسوس کرتے تھے اور میں بھی) تاہم اپنے دوستوں کے لئے اردو میں مرتب کر رہا ہوں۔ اسی گفتگو سے دو حصے ملاحظہ ہوں:
۔۔
’’یہ بتاؤ کہ تمہاری احسان سے کیوں نہیں بنتی؟‘‘
’’میری تو بنتی ہے، ان کی نہیں بنتی‘‘
’’کیوں‘‘
’’یہ آپ انہی سے پوچھ لیجئے گا‘‘
’’تم کچھ نہیں بتاؤ گے؟‘‘
’’نہیں، مناسب نہیں ہے! ان کی اپنی سوچ ہے میری اپنی ہے۔ میں نے کبھی آپ کے پاس ان کی کوئی شکایت کی؟‘‘
’’نہیں کی نا، تبھی تو پوچھ رہا ہوں!‘‘
’’چھوڑئیے سر، کوئی اور بات کیجئے‘‘
۔۔
شاہدرہ کے قریب پہنچے تو میں نے کہا: ’’مجھے بتی چوک میں اتار دیجئے گا‘‘
’’کیوں، کہاں جاؤ گے؟‘‘
’’میں اوکاڑا جاؤں گا‘‘
’’اور تمہارا ریکارڈ؟‘‘
’’گاڑی میں پڑا ہے نا، صبح آپ بھی یونیورسٹی (انجینئرنگ یونیورسٹی، لاہور) آئیں گے، میں بھی پہنچ جاؤں گا۔‘‘
’’یہاں کسی ہوٹل میں رات گزار لو۔‘‘
’’نہیں سر، کمرے کا کرایہ اور بس کا کرایہ تقریباً برابر ہیں۔ وہاں بہن کے ہاں جاؤں گا، اور کوشش کروں گا کہ آٹھ بجے تک یونیورسٹی پہنچ جاؤں‘‘
’’دیکھ لو یار، دیر ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ہو نے کو تو ایکسیڈنٹ بھی ہو سکتا ہے، بہرحال میں پہنچ جاؤں گا ان شاء اللہ۔‘‘
’’اگر تمہیں دیر ہو جائے تو نگار شاہ کے دفتر سے اپنا ریکارڈ اٹھا لینا‘‘۔
’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، سر۔ مجھے وہیں تو کام کرنا ہے، نگار شاہ کو پہلے چیک کرانا ہے‘‘
۔۔۔
  
وقت گزرتا رہا، زندگی کی شیرینیاں اللہ کے فضل و کرم سے بڑھتی چلی گئیں اور تلخیاں خاصی کم ہو گئیں۔ تاہم یہ زندگی کا اہم جزو تو ہیں نا، سو اِن کا ہونا ایک اعتبار سے شیرینیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اللہ کریم جس کو شکر کرنے کی جتنی توفیق عطا فرمائے۔ ’’احسان صاحب‘‘ جیسی شخصیات کم و بیش ہر دفتر میں پائی جاتی ہیں، احسان ایک الگ چیز ہے۔

یونیورسٹی کالج آف انجینئرنگ ٹیکسلا در اصل ایک حصہ یا سب کیمپس تھا یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کا، اور کالج کے پرنسپل کا مرتبہ تعلیمی معاملات میں ڈِین آف فیکلٹی کے برابر تھا، جب کہ انتظامی امور میں وہ براہِ راست یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو جواب دِہ تھے۔ اساتذہ کی بھرتی میں وہ ڈین کی حیثیت سے اپنی سفارشات وی سی صاحب کو پیش کرتے جو عام طور پر منظور کر لی جاتیں۔ انتظامی افسروں کی تعیناتی کا سارا دفتری عمل یونیورسٹی کے رجسٹرار صاحب کیا کرتے۔ سیلیکشن بورڈ کی سفارش پر وی سی صاحب یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ کے ایماء پر تعیناتی کا حکم جاری کر دیتے جو بعد میں عام طور پر منظور کر لیا جاتا۔

کالج کو اسسٹنٹ رجسٹرار (سیکشن آفیسر کے برابر) کی ایک نئی پوسٹ مہیا کی گئی تو کوٹہ کے مطابق کالج کے ملازمین سے درخواستیں طلب کی گئیں۔ ظاہر ہے میں نے بھی درخواست داخل کر دی۔ میرے ایک محسن جو اُس وقت ایڈمن افسر (برابر: آفس سپرنٹنڈنٹ) واحد افسر تھے جو مجھ سے سینئر تھے مگر ان کی رسمی تعلیم مقررہ درجہ کی نہیں تھی۔ ایک طویل چکربازی کا حاصل یہ ہوا کہ موصوف نے پہلے تو مجھے ورغلایا کہ یہاں پروموشن ملنی چاہئے اور از خود ملنی چاہئے وغیرہ، پھر میرے دیگر ساتھی افسران کو میرے خلاف اکسایا اور اس بات پر تیار کیا کہ مجھے انٹرویو کے لئے جانے سے روکا جائے۔ اس ’’خیرسگالی‘‘ وفد کے سربراہ ہم لوگوں کی اپنی ایسو سی ایشن کے صدر تھے، اللہ کریم ان کو غریقِ رحمت کرے۔ وفد سے مذاکرات ناکام ہو گئے تو میں انٹرویو کال کی تعمیل میں اگلے دن سیلیکشن بورڈ کے سامنے حاضر ہو گیا۔

کوئی ایک مہینے کی رسمی کارروائی کے بعد مجھے تقرری کا پروانہ مل گیا۔ اس وقت تک ڈاکٹر علوی صاحب اور ان کے بعد ایک پروفیسر منظور صاحب ریٹائر ہو چکے تھے اور پرنسپل کے عہدے پر ہمارے ہی کالج کے ایک سینئر پروفیسر صاحب متمکن تھے۔ میرے محسنوں نے پرنسپل صاحب کو کسی طور قائل کر لیا کہ اس شخص کی تقرری کالج نے نہیں یونیورسٹی نے کی ہے، سو، یہ جائیں اور رجسٹرار صاحب کو جا کر رپورٹ کریں۔ پرنسپل صاحب نے یہی بات مجھے بطور ہدایت کے فرما دی تاہم زبانی۔ میں نے عرض کیا کہ جناب یہی بات مجھے تحریری طور پر عنائت کر دیں تا کہ میں رجسٹرار صاحب کو پیش کر سکوں یا رجسٹرار صاحب کے نام ایک خط لکھ دیں اور اس کی نقل مجھے فراہم کر دیں۔ ظاہر ہے یہ نہ ہونا تھا نہ ہوا، میری جائننگ البتہ دو تین ہفتے تک کھٹائی میں پڑی رہی۔ ایک دن خود پرنسپل صاحب نے بتایا یہ آج شام کو رجسٹرار صاحب یہاں آ رہے ہیں، اپنی فائل لے آئیے گا، ان سے ہدایت لئے لیتے ہیں۔ رجسٹرار صاحب نے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا کہ جناب جائننگ نہ لینے کی کوئی وجہ موجود نہیں تو یہ تاخیر کیوں ہوئی؟ پرنسپل صاحب نے اسی وقت میری تقرری کے خط کے مطابق میری جائننگ قبول کر لی۔

چلئے اپنی نوعیت کا ایک اور تجربہ سہی۔ بعد ازاں جلد ہی کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ اور کالج کا سارا عملہ نوزائیدہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا کا عملہ قرار پایا۔ بعد کو ایک اصطلاح بھی چلی کہ یہ سٹاف یونیورسٹی کو میکے سے ملا ہے۔ تعلیمی اداروں کے انتظامی امور سے تعلق رکھنے والے احباب کے لئے ’’مدر یونیورسٹی‘‘ اور ’’مدر کیمپس‘‘ کی اصطلاحات اجنبی نہیں ہیں۔

یونیورسٹی بنی تو کچھ نئے انتظامی شعبے بھی بنے جو کالج میں ضروری نہیں ہوتے۔ کچھ شعبوں کو ذیلی شعبوں میں تقسیم کیا گیا اور ملازمین کو ایک سے دوسرے شعبوں میں ٹرانسفر کیا گیا، یہ ایک بالکل منطقی امر تھا۔ مجھے شعبہ امتحانات سے اٹھا کر انتظامی امور کے شعبے میں بھیج دیا گیا۔ یوں میں پھر ایک بار مرکزی انتظامی دھارے میں شامل ہو گیا۔ لاہور سے ایک پروفیسر صاحب ڈیپوٹیشن پر یہاں آئے اور ان کو اس نوزائیدہ یونیورسٹی کے اولین رجسٹرار کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی اور یوں وہ میرے امیڈیٹ باس بن گئے۔

یہاں ایک اور خشک سی بات ہو جائے کہ اس کی اہمیت بعد کے معاملات میں بہت ہے۔ ہمارے اولین رجسٹرار صاحب چونکہ باہر سے آئے تھے، اس لئے یہاں کے امور اور ماحول میں وہ پہلے تو خود کو اجنبی محسوس کرتے رہے، پھر کچھ کچھ مانوس ہوئے تو ان کے ذہن میں یہ چیز بیٹھ گئی کہ جو کام رعب داب سے نکل سکتا ہے وہ تحمل مزاجی سے نہیں نکل سکتا۔ ان کی بات اپنی جگہ درست بھی ہو تو یہ ضرور ہوتا ہے کہ رعب داب کے ماحول میں کوئی بھی شخص آگے بڑھ کر کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا، اس پر ڈالنی پڑتی ہے اور کام کی رفتار جو بھی رہے کام کی کوالٹی ضرور متاثر ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے یہاں کم و بیش سارا عملہ کوئی دو دہائیوں سے مل کر کام کر رہا تھا، اس لئے بہت سارے افسران اور سٹاف ایک دوسرے کے مزاج آشنا بھی تھے اور اعتماد کی ایک اچھی فضا بنی ہوئی تھی۔ میری اپنی بات نہیں، عام طور پر رجسٹرار صاحب کے اس رویے پر بد دلی کی فضا پیدا ہونے لگی تو موصوف نے ایک اور نظریہ بنا لیا کہ ’’ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘ جو یقیناً ایک غیر مثبت سوچ تھی۔

ایک موقع پر میرا کام شاید ان کی توقع کے مطابق نہیں تھا، خاصے چیں بہ جبیں ہوئے اور کہنے لگے:’’آسی صاحب! آپ کا قصور نہیں ہے، ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘۔ میرے دو تین ہم منصب لوگ اور بھی موجود تھے۔ میں نے جبراً ہنستے ہوئے کہا: ’’نہیں سر! باہر سے آ جاتے ہیں‘‘۔

بارے یوں بھی ہوا کہ میں نے ایک فائل پیش کی۔ صاحب نے وہی جملہ کہا: کہ ’’ٹیکسلا والے سب بے ایمان ہیں‘‘ اور فائل پوری قوت سے دفتر کے ایک کونے کی طرف پھینک دی۔ ایک دو لوگ اور بھی موجود تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولا اور میں ۔۔ میں فوراً دفتر سے باہر نکل گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے پرانے ساتھی چوہدری مشتاق صاحب نے وہ فائل سمیٹ سماٹ کر صاحب کو پیش کی اور انہوں نے اسی آفس نوٹ کو (جسے پڑھ کر اپنا محبوب تبصرہ ارشاد فرمایا تھا اور فائل اڑا کر پھینکی تھی) منظور فرما دیا۔ کوئی گھنٹے ڈیڑھ بعد ان کا غصہ فرو ہوا تو مجھے طلب کیا اور رسمی طور پر معذرت کی (نہ بھی کرتے تو کیا تھا)۔ میں نے جواب میں اتنا کہا کہ ’’آپ کہنے کو جو مرضی کہہ دیتے، فائل کو یوں پھینکنا میرے اور آپ کے دونوں کے وقار کے منافی تھا‘‘۔ اس کے بعد میں نے ان کے عمومی رویے میں واضح تبدیلی محسوس کی اور پھر ہمارے مابین اعتماد کی بہت عمدہ فضا بن گئی۔ 


سالانہ خفیہ رپورٹیں لکھنے کا موقع آیا تو مجھے کہنے لگے: میرے عملے کی رپورٹیں بھی آپ لکھ دیں۔ واللہ اعلم یہ اعتماد تھا یا کوئی امتحان تھا یا کیا تھا، بہر حال میں نے معذرت کر لی اور کہا کہ قاعدے کے مطابق وہ آپ کا سٹاف (تین لوگ : ایک سٹینو، ایک کلرک، ایک چپراسی) ہے ان کی رپورٹوں پر صرف اور صرف آپ کے دستخط ہو سکتے ہیں۔ کہنے لگے اچھا ٹھیک ہے آپ لکھ دیں میں دستخط کر دوں گا۔ اب میرے پاس فرار کا راستہ نہیں تھا، سو میں نے ان تینوں لوگو کی خفیہ رپورٹیں کچھ پنسل سے لکھ دیں اور رجسٹرار صاحب کے پاس لے گیا۔ کہنے لگے ٹھیک لکھا ہے اس کو پکا کر دیں۔ عرض کیا: پکا آپ کریں گے۔ وہ ہنس پڑے اور کچی پنسل کے لکھے کے اوپر بال پوائنٹ پین سے لکھ کر دستخط کر دئے۔ ایک اور امتحان یا شاید سوال برائے سوال؟ میں اس کی نوعیت کو نہیں سمجھ رہا تھا، بہر حال۔ کہنے لگے : آپ کو کیسے اندازہ تھا کہ میں اسی طرح کی رپورٹ لکھوں گا۔ عرض کیا: مجھے آپ کے لکھنے یا اندازے سے کیا غرض! میں نے تو اس مفروضے کے تحت لکھا ہے کہ یہ تینوں میرے ماتحت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔