ہمزاتِ
ہمزہ
بات ہو رہی تھی ہمزہ کی۔
ہمزہ کہاں آئے گا، یاے کہاں آئے گا، لئے کئے جئے دئے درست ہیں یا لیے کیے جیے دیے؛
آؤ جاؤ تاؤ داؤ ہو گا یا آئو جائو تائو دائو یا پھر آوو جاو و اور تاو داو۔ یہاں
تک کہ دو صاحبان کو تو باضابطہ تاؤ آ گیا۔ شور استناد کا بھی تھا: اعتبار رشید حسن
خان کا ہے، نہیں صاحب! نارنگ کا ہے، جی نہیں مولوی عبدالحق کا ہے۔ ایک تیسرا پہلو
لغات کا نکل آیا؛ ایک نوراللغات کو سند مانتا ہے، دوسرا کہتا ہے وہ تو صدی ڈیڑھ
صدی پہلے کی ہے، زبان تو حنوط نہیں ہو گئی۔ ایک نے کہا کہ زبان زندہ چیز ہے اس میں
تبدیلیاں آتی رہتی ہیں دوسرے نے کہا اپنی بلا سے تبدیلیاں جتنی بھی آئیں اصل یوں
ہے تو یوں ہی رہے گا۔ صاحب! فی زمانہ یہ لفظ یوں نہیں یوں رائج ہے؛ ہوا کرے جناب جو
غلط ہے وہ غلط ہے چاہے سارے اس کو اپنا لیں۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔
ہم بھی کسی نہ کسی انداز
میں اس بحث میں شامل تھے۔ بحث نے ایسا طول پکڑا کہ شیطان کی آنت بھی کوتاہ لگنے
لگی، سیدھی سادی باتوں سے جلیبی کے ایسے لچھے بننے لگے کہ پتہ ہی نہ چلے اس بے منہ کی نلی میں شیرہ کیوں
کر ڈالا گیا۔ مذاکرہ پہلے مناظرہ اور پھر ملاکڑا بنا اور جب ہمیں لگا کہ اب یہ
مباہلہ بننے کو ہے تو ہم اس میدان کو چھوڑ
بھاگے۔ وہ الگ بات کہ بھاگتے میں بھی ہمارے کان ان دو پہلوانوں کی چیخم دھاڑ پر
لگے ہوئے تھے جو اسی زور و شور سے ایک دوجے کی نفی کر رہے تھے۔ ہمیں یاد ہے ایک پہلوان
کہہ رہے تھے: میں اس کو بدعت سمجھ کر برداشت کر لیتا ہوں۔ دوسرے نے کہا تھا: زبان
میں بدعات عین کارِ خیر ہے اور زبان کی ترقی میں بدعات کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔
اس پر ایک مولانا بہت چیں بہ جبیں ہوئے کہ یہاں بھی بدعت کی وکالت ہو رہی ہے۔
مولانا کی بات کچھ غلط
بھی نہ تھی، وہ الگ بات کہ موصوف بدعت کا طعنہ دینے کو میدان غلط منتخب کر بیٹھے۔
زبان و بیان اور علوم الاشیاء میں بدعات عین صواب ہوتی ہیں۔ کہ یہ بدعتیں نہ ہوتیں
تو انسان آج بھی غاروں کا مکین ہوتا، پتھر سے خرگوش مارتا اور کچے کو چیر پھاڑ کر
ہڑپ کر لیتا، غوں غاں کی اشاراتی زبان سے کام لیتا اور ہم آپ یوں ہزاروں لاکھوں میل دور بیٹھ کر ایک دوجے سے ہم کلام نہ
ہو رہے ہوتے۔
ہمزات و بدعات جہاں زہرِ
قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں وہ اللہ اور بندے کا تعلق ہے۔ اس تعلق میں رخنہ اندازی کے
لئے شیطان ذہنی سطح پر ہمزات پیدا کرتا ہے اور اس کی عملی صورت بدعات ہوتی ہیں: یعنی وہ
کام جن کو نہ اللہ کریم نے دین قرار دیا اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا
کچھ کیا نہ اس کا حکم دیا۔ مگر بعد والوں نے انہیں ایسے اختیار کیا کہ وہ دین و
ایمان کا حصہ اور عقیدہ بن گئیں۔ یہیں پر بس نہیں! نوبت بہ این جا رسید کہ جو اِن
بدعات کو اپنے ایمان کا حصہ نہیں مانتا اس کو اِسلام ہی سے خارج قرار دے دیا۔
بات بہت صاف اور سادہ ہے۔ کوئی سوا لاکھ
لوگوں کے روبرو اللہ کا نبی اعلان کرتا ہے کہ : میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا
رہا ہوں، ایک اللہ کا قرآن ہے اور ایک میرا طریقہ ہے، ان پر جمے رہو گے تو کبھی
نہیں بھٹکو گے۔ ادھر اللہ کا قرآن نازل ہو جاتا ہے : الیوم اکملت لکم دینکم و
اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً۔ نبی کے کہے کئے پر یہ سند پہلے سے
موجود ہے کہ: ما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ۔ کلام اللہ اور فرمودات رسالت مآب کی روشنی میں
ضابطہ بن جاتا ہے کہ عقیدہ اور ایمان قرآن سے لیا جائے گا اور طریق و سنت اعمال و
افعال نبی سے لئے جائیں گے، کسی تیسرے کی نہ ضرورت ہے نہ گنجائش۔ پنجابی کی معروف
کہاوت ہے: ’’تیجا رَلیا، تے جھُگا گَلیا‘‘۔ فساد پھیلتا ہی اس تیسرے کو ملانے سے ہے۔
اولین تیسرا تو ابلیس ہے، وہی جو ہمزات پیدا کرتا ہے اور نئی نئی باتیں نئے نئے
عقائد اختراع کرنے پر اکساتا ہے۔
ایمان اردو ادب نہیں ہے
کہ یار لوگ ہمزات و بدعات کی متنوع صورتوں میں کسی کو صواب اور کسی کو ناصواب قرار
دے لیں۔ الفاظ کے معانی کا تعین ان کے وسیع تر سیاق و سباق سے ہوتا ہے، ہوا کرے! لزومِ
اولین یہ ہے کہ آپ کی چھڑی کی حد وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔
جب ہم نے مان لیا کہ اسلام دین (ضابطۂ
حیات) ہے تو اصولی طور پر مان لیا کہ زندگی کا کوئی عمل، کوئی قول، کوئی فعل، کوئی
نظریہ، کوئی عقیدہ، کوئی ذوق، کوئی دل چسپی، کوئی تفریح، کوئی ادب، کوئی نظام؛ اس
ضابطے سے باہر اور ماوریٰ نہیں ہو گا۔ غلطی ہو جانا، کمی کوتاہی رہ جانا، اس کی
تلافی اور سچائی کی طرف واپسی انسانی فطرت میں شامل ہے اور اسلام نے اس پر بھی
تعلیم کر دیا کہ کب کہاں کیا کرنا ہے۔ اس لئے کہ اسلام کل ہے جزو نہیں ہے؛ لسانیات
اور ادب جزو ہے کل نہیں ہے۔ اسلام اللہ کا دیا ہوا ضابطہ ہے، زبان اللہ کی دی ہوئی
نعمت ہے۔ نعمت سے درونِ حدود جیسے چاہوفائدہ اٹھاؤ؛ ضابطہ وہی رہے گا! ان کے لئے
بھی جو اس فقیر کی باتوں سے متفق ہیں اور ان کے لئے بھی جو متفق نہیں۔
*******************
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ یکم
جولائی ۲۰۱۵ ء