منگل، 29 اگست، 2017

شاید کہ ترے دل میں ۔ ۔ ۔ ۔



شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات


کچھ باتیں شاعری پر مائل دوستوں کے لئے



۔1۔ قاری سمجھ رہا ہو کہ شاعر کہنا کیا چاہ رہا ہے اور شاعر اپنی بات ٹھیک طور پر بیان نہ کر پائے، اسے عجزِ بیان کہتے ہیں۔
۔2۔ شاعر نے کچھ کہنا چاہا مگر الفاظ اپنے مضمون کے موافق نہ لا سکا، بات اس کے دل میں رہ گئی، قاری کبھی کچھ گمان کرتا ہے کبھی کچھ، اسے کہا جاتا ہے: معانی در بطنِ شاعر۔
۔3۔ ابہام اس سے مختلف اور خاصی متنازع چیز ہے۔ میں بہر حال ابہام کے حق میں نہیں، خواہ اسے کوئی نام دے دیا جائے۔
۔4۔ شعر اور نثر میں یہی فرق نہیں کہ یہاں وزن قافیہ ردیف ہے جو نثر میں نہیں ہے۔ جمالیات بہت اہم رویہ ہے۔ کسی اظہار کو خوبصورت کیسے بنایا جائے۔ اگر کلام میں حسن نہ ہو تو شعر، شعر نہیں کہلا سکتا۔
۔5۔ ملائمت عام طور پر تمام شعری اصناف میں اور غزل میں خاص طور پر ملحوظ رہنی چاہئے۔ کھردرا پن نہ ہو؛ نہ مضمون میں نہ الفاظ میں نہ صوتیات میں اور نہ لفظیات میں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں لفظ غزل کے لئے موزوں نہیں مثلاً بکواس، اس کی وجہ اسی ملائمت کا نہ ہونا ہے۔ اسی لفظ کو لائیے، اور یوں لائیے کہ اس کا کھردرا پن محسوس نہ ہو، تب مزا ہے۔
۔6۔ ایک بات کو محض بیان کر دینا شاعری نہیں ہے۔ شعر میں شاعر اور قاری کی سانجھ محسوساتی سطح پر بننی چاہئے۔ یہ سانجھ واقعہ نگاری کی بجائے جذبات نگاری سے قوت پاتی ہے۔
۔7۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آپ یا تو شاعر ہیں یا نہیں ہیں۔ محنت آپ کو صرف تب نکھار سکتی ہے اگر آپ شاعر ہیں۔ اگر آپ شاعر نہیں ہیں تو قافیہ بندی اور کلامِ منظوم آپ کو شاعر نہیں بنا سکتا۔
۔8۔ شعر یا بیت کے دو مصرعے دراصل ایک مضمون کے دو حصے ہوتے ہیں۔ مضمون دونوں کو مل کر مکمل کرنا ہوتا ہے۔ جہاں ایسا نہ ہو سکے اس کو اصطلاح میں "دولخت" کہتے ہیں۔ شعر کا اچھا قاری جتنی کوفت دو لخت میں محسوس کرتا ہے شاید ہی اتنی کہیں اور کرتا ہو گا۔
۔9۔ زبان، محاورہ، ضرب الامثال، معنویت، ترکیب، قواعد اور املاء ۔ ان میں غلطی ہو گئی تو شعر اپنی موت آپ مر گیا۔ آپ کا قاری بھی آپ کی مدد نہیں کر سکے گا۔د
۔10۔ لفظ اور تراکیب اختراع کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے، اور کسی لفظ کو نئے معانی دینا مشکل تر۔ آپ ایک لفظ یا ترکیب کو اپنے لئے رواج سے ہٹ کر معانی دیتے ہیں تو قاری آپ سے کٹ سکتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات کٹ جاتا ہے۔ کہتے رہئے، جو چاہے کہتے رہئے، خود ہی پڑھئے اور خوش ہو لیجئے۔ اگر آپ قاری سے کچھ سانجھ بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو رواج کے ساتھ چلنا ہو گا۔ وہ مرحلہ بہت دور ہے جب لوگ آپ کے پیچھے چلیں گے۔
ع: میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند (اقبال)


محمد یعقوب آسی ۔۔۔  منگل 29 اگست 2017ء 

اتوار، 27 اگست، 2017

اردو میں پنجابی









اردو میں پنجابی: ایک سوال کے جواب میں



سوال:  کیا پنجابی کے الفاظ اردو میں استعمال نہیں کیے جا سکتے؟ اور اگر کیے جا سکتے ہیں تو رد و قبول کا کوئی متفقہ اصول ہے یا نہیں؟

جواب:
۔1۔ ایک اردو ہی کی بات نہیں، دنیا کی ہر زبان نے دوسری زبانوں سے الفاظ، محاورے، مصادر، ضرب الامثال، اور کسی نہ کسی حد تک قواعد بھی لئے اور قبول کیے ہیں۔ چیمبرز انگلش ڈکشنری 1979 ایڈیشن میں 90 کے قریب ان زبانوں کی فہرست شامل ہے جن کے الفاظ اور تراکیب انگریزی میں آئے اور کہیں بعینہٖ اور کہیں کچھ رد و بدل کے ساتھ رائج ہو گئے۔ اردو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس میں 17 زبانوں کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ظاہر ہے پنجابی بھی شامل ہے۔

۔2۔ جہاں رسم الخط مواقف ہو، مثلاً اردو کے ساتھ پشتو، پنجابی، سندھی، فارسی، عربی، کھوار، وغیرہ وہاں راجح یہ ہے کہ الفاظ کی ساخت ممکنہ حد تک ان کی اپنی زبان کے مطابق رکھی جائے۔ جہاں رسم الخط بدل جاتا ہے، مثلاً اردو کے مقابل جینی، جاپانی، انگریزی، فرانسیسی، تامل، ملیالم، بنگالی، سنسکرت، دیگر بھاشائیں اور پراکرتیں؛ وہاں الفاظ کے ہجوں کا تعین ان کی صوتیت سے مطابقت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ 

۔3۔ اردو اور پنجابی دونوں میں جملے کی ساخت (ترتیبِ نحوی اور محاورات) کا مطالعہ کیجئے۔ بات پوری طرح کھل جاتی ہے۔ اردو نے جملے کی ساخت پنجابی سے لی ہے، یعنی پنجابی اردو کی ماں ہے۔ پنجابی کی ایک خاص بات اس کے دو رسم الخط ہیں۔ شاہ مکھی (فارسی سے ماخوذ) اور گورمکھی (دیوناگری سے ماخوذ)۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت (پنجابی بولنے والوں میں سے) 10 کروڑ سے زیادہ لوگ شاہ مکھی سے اور تقریباً 3 کروڑ لوگ گورمکھی سے مانوس ہیں۔ اردو کو فارسی رسم الخط ملنا بالکل فطری بات ہے۔

۔4۔ پنجابی کے اپنے کتنے ہی لہجے ہیں جنہیں اصطلاح کی زبان میں "بولیاں" کہا جاتا ہے۔ کہ جناب ہر 12 کوس پر "بولی" بدل جاتی ہے۔ یوں پنجابی کی مختلف بولیوں سے وابستہ لوگوں کو ٹھیک ٹھیک اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اردو اسماء و افعال میں پنجابی سے کتنے آئے ہیں۔ جملے کی ساخت دیکھیں تو وہ ساری پنجابی ہے۔ املاء و ہجاء میں بھی کوئی بہت نمایاں فرق نہیں ہے۔ عمومی مثال کے طور پر: کا، کے، کی ۔ دا، دے، دی ؛ جاتا، جاندا؛ کھاتا، کھاندا؛ سوتا، سوندا؛ وغیرہ  کو باہم بدل دیں، اردو سے پنجابی اور پنجابی سے اردو بن جاتی ہے۔ 

۔5۔ پنجابی کے مزید الفاظ جو میں یا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو میں رائج نہیں ہیں، وہ بھی کہیں نہ کہیں مل سکتے ہیں (لغاتیں حفظ کرنے کی چیز نہیں، حوالے کی چیز ہیں)۔ تہذیبی اثرات کے تحت ماں اور بیٹی کے مزاج میں جو تھوڑا سا فرق واقع ہوا ہے، اس کا اکرام کرتے ہوئے آپ اردو میں پنجابی اور دیگر مقامی زبانوں کے الفاظ بھی لا سکتے ہیں (سلیقہ مندی آپ کا ذمہ ہے!)۔ اس میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اردو میں ترقی ہو گی۔

۔6۔ اصول ۔ زبان میں ملائمت اور جمالیات کی سطح جس قدر بلند ہو گی، قاری اور سامع کو اسی قدر متوجہ اور مائل کرے گی۔ زبانوں کے ملنے میں بھی یہی ملائمت بنیاد ہونی چاہئے کہ ایک خوش ذوق اور بالغ النظر شخص کو اس میں اجنبیت محسوس نہ ہو۔ ایک مہذب اور تعلیم یافتہ شخص کو اپنے شائستہ مزاج، خوش مذاق دوستوں میں بیٹھ کیسی زبان بولنی چاہئے۔ یہی اصول ہے، یہی انشا پردازی ہے، یہی زبان کا حسن ہے۔
٭٭٭٭٭



محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
اتوار 27  اگست 2017ء


ہفتہ، 5 اگست، 2017

تاثراتی تنقید: کیا، کیوں، کیسے


تاثراتی تنقید: کیا، کیوں، کیسے


اَدَب اور تنقید یقیناً بہت وسیع میدان ہے۔ اس کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے لئے علمِ تنقید اور اس کے شعبوں کا پورا علم ہونا لازمی ہے۔ عام طور پر ہمارے خوش ذوق قارئین بھی اور ہمارے ادباء و شعراء بھی علمِ تنقید پر عبور نہیں رکھتے۔ شعر کہنا، ادبی نثر لکھنا، شعر و ادب سے حظ اٹھانا، اس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا اور اس کا اظہار کرنا، وغیرہ؛ ان امور میں قاری یا لکھاری کا ایک ماہر و مشاق تنقید نگار ہونا یقیناً مفید ہے تاہم ایسا بھی نہیں کہ اگر ہم یہ مہارت نہیں رکھتے تو شعر نہ کہہ سکیں نہ نثر لکھ سکیں یا کسی فن پارے سے لطف اندوز نہ ہو سکیں۔ اس کے لئے آپ کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اچھا ادبی ذوق تو ظاہر ہے آپ کی تخلیقی صلاحیت کا جزو قرار پاتا ہے؛مطالعہ آپ کا بہترین معاون ہوتا ہے، اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات دہرانے کی قطعی ضرورت نہیں کہ آپ تخلیق کار بن ہی نہیں سکتے جب تک آپ عمدہ ادبی ذوق نہ رکھتے ہوں یا زبان و بیان کے معاملات اور تقاضوں سے مانوس نہ ہوں۔ آپ کی تحریر، وہ نظم ہو، نثر ہو، کچھ بھی ہو؛ اس کے اولین ناقد آپ خود ہیں۔ اس کا اپنی استعداد کے مطابق تنقیدی جائزہ لینا اور اس میں پائے جانے والے اسقام کو دور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ ابلاغ یعنی لکھاری اور قاری کی فکری اور معنوی سانجھ میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے آپ بطور تخلیق کار بھی شامل ہیں اور بطور قاری بھی، بطور ناقد بھی۔ فکر و عقیدہ کو منہا نہیں کیا جا سکتا، یہ پہلو جہاں ایک تخلیق کار کی شخصیت اور ذات کا حصہ ہے، وہاں ایک قاری کی شخصیت اور ذات کا حصہ بھی ہے۔ موافقت اور عدم موافقت کی اہمیت بھی مسلمہ ہے۔

ایک قاری کی حیثیت سے آپ ایک قلم کار سے کیا توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ اس میں کچھ آپ کی خواہشات اور توقعات کا بھی حصہ ہے اور کچھ فنکار  کے فکر و فن سے وابستہ ان حقائق کا بھی جو آپ کے علم میں ہیں، یا جیسا آپ اس کو پاتے ہیں۔ آپ خود کو ایک لکھاری کے اندازِ فکر و اظہار، اسلوب، جمالیات، پیغام، محسوسات،  اور دیگر عناصر سے جس قدر زیادہ مانوس ہوں گے، ابلاغ اور حظ کی سطح بھی اتنی ہی بلند ہو گی۔

انسیت  یا عدم انسیت کی اس سطح کے زیرِ اثر، زبان و بیان کے تقاضوں اور اسلوب کی رعایت سے، اپنے مطالعے اور ذوق کی تسکین کے زاویے سے، ادب کی معروف روایات کی روشنی میں آپ ایک فن پارے کو کیسا پاتے ہیں؟ اور اس کو اپنے مطالعے میں شامل ادب میں کیا مقام دیتے ہیں؟ یہ بھی نقد و نظر کی ایک صورت ہے۔ ادبی تنقیدی محفلوں میں ہونے والی گفتگو جس میں سے اکثر حسبِ موقع ہوا کرتی ہے، اس کو عرفِ عام میں تاثراتی تنقید کا نام دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر اور کسی ایک کمرے میں جمع ہو کر کی گئی گفتگو میں بہت کچھ مشترک، اور بہت کچھ کسی قدر مختلف ہوتا ہے۔ تاہم نقد و نظر کے انداز میں مجموعی طور پر بہت زیادہ بُعد نہیں ہوتا۔ اس میں لکھاری (اپنے فن پارے کے تناظر میں) اور قاری (اپنی شخصیت کے مذکورہ پہلوؤں کی روشنی میں) شامل ہوتے ہیں۔

ایک بہت عام سا سوال ہے کہ تاثراتی تنقید میں حصہ لینے والا ایک قاری (ناقد) کیا کہے گا ، کس بنیاد پر کہے گا، اور کس انداز میں کہے گا۔  اس کا جواب چنداں مشکل نہیں ہے۔ آپ ادب کا ذوق رکھتے  ہیں، آپ کا مطالعہ بھی ہے جو ظاہر ہے کہ زیرِ نظر فن پارے تک محدود نہیں، زبان و بیان سے بھی آپ کو شغف ہے، صنائع بدائع اور اسلوبیات پر بھی آپ کی کوئی نہ کوئی پسند نا پسند موجود ہے اور یہ سارا کچھ آپ کی ذات کا حصہ ہے۔ آپ کچھ بھی پڑھتے ہیں تو آپ کے اندر کا یہ قاری آپ سے کچھ کہتا ہے۔ مثلاً: اس فن پارے میں فلاں بات اچھی لگ رہی ہے (کیوں؟)، فلاں بات اچھی نہیں لگ رہی (کیوں؟)، زبان کی یا املاء کی غلطی ہے (کیا؟ اور درست کیا ہے)، علامات کا نظام درست نہیں ہے (کیسا ہونا چاہئے؟)، نفسِ مضمون سے انصاف نہیں ہو سکا (کیسے؟)، فلاں بات بہت اچھوتی ہے (بیان بھی ہو جائے)، فلاں جگہ بہتری کی گنجائش ہے (کمی کیا ہے؟)، فلاں جگہ ابہام ہے (مثلاً؟)، فلاں خوبی بہت نمایاں ہے (بیان بھی ہو جائے)، فلاں مصرع یا شعر وزن سے خارج ہے (تقطیع؟)؛ وغیرہ ، وغیرہ۔ یہ سارے تاثرات آپ کے ہیں اور ان کے محرکات (قوسین میں مندرج) بھی آپ کے علم میں ہیں۔ ان کو بیان کر دیجئے، آپ نے اپنے حصے کا اچھا خاصا کام کر لیا۔

یاد رہے کہ جس طرح ایک فن پارے میں اس کا لکھاری اپنی پوری شخصیت کے ساتھ موجود ہوتا ہے، اسی طرح اپنی تنقیدی گفتگو میں آپ اپنی پوری شخصیت کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ دو شخصیتوں کا صد بہ صد متماثل ہونا بعید از قیاس ہے۔ لہٰذا آپ اپنے قاری سے ایسی کوئی توقع وابستہ نہیں کر سکتے کہ وہ ہو بہو آپ کی نمائندگی کرے۔ فکری اور نظری طور پر بھی اور اسلوبیاتی حوالے سے بھی آپ اپنے سے مختلف ایک شخص کا مطالعہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کی ترجیحات اپنی ہیں، آپ کی اپنی ہیں۔ مزید یہ کہ تخلیق کار نے موضوع یا مضمون کو کس انداز میں دیکھا ہے؛ کتنا پھیلایا ہے؛  اس کے اپنے محددات ہیں۔ اندازِ اظہار ہر شخص کا اپنا اپنا ہوتا ہے۔ ایسی باتوں پر گرفت کرنا، قبول یا رد کرنا تنقید کا نہیں مباحثے، مذاکرے اور مکالمے کا منصب ہے۔ ۔ مذکورہ پہلو صحافتی تنقید کہلا سکتے ہیں؛ وہ میدان ہی الگ ہے۔

تنقید نگاری میں آپ کا انداز لکھاری کو لتاڑنے یا فن پارے کے بخیے ادھیڑنے والا نہیں ہونا چاہئے۔ اس نے آپ کو چیلنج نہیں کیا بلکہ ایک فن پارے پر آپ سے مشورہ طلب کیا ہے۔ مشورہ دیجئے، لہجہ دھیما رکھئے، دلیل کے ساتھ بات کیجئے، اور ممکنہ حد تک جامع بات کیجئے۔ خوبی کو خوبی مانئے اور خامی یا فروگزاشت کی نشان دہی بھی کیجئے۔ اس سےآپ کی بات کا وزن بھی بڑھے گا اور تاثیر بھی۔ آپ کسی فن پارے پر بات کر رہے ہیں، اور کبھی ایسا ہو چکا ہے کہ کسی اور جگہ کسی اور موقع پر ایک فنی نکتے پر آپ ایک کا اظہار کر چکے ہیں، یہاں اس فن پارے پر بھی ویسا ہی مؤقف اختیار کریں۔  کون یاد رکھے کہ کہاں کس فن پارے پر میں نے کس نکتے پر کیا کہا تھا؟ سچ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو یاد نہیں رکھنا پڑتا۔ یعنی خود آپ کو صادق الرائے ہونا پڑے گا۔  اگر آپ اپنے کسی سابقہ مؤقف سے ہٹ چکے ہوں تو اس کا برملا اظہار کر دیجئے۔ اس سے آپ کا اعتبار بڑھے گا اور آپ کی رائے وقیع تر قرار پائے گی۔ یہاں آپ کا مقصد دوسرے کو قائل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنا مؤقف بیان کر دینا ہوتا ہے۔ لمبے چوڑے کتابی حوالے اور سندیں پیش کرنے کا موقع بھی کم کم ہی ہوا کرتا ہے۔ اور اکثر و بیش تر وہی باتیں دہرائی جاتی ہیں جو ادبی محافل میں بہت زیرِ بحث رہتی ہوں۔ کچھ باتیں جو ایک ناقد یا تخلیق کار کے علم میں نہ ہوں وہ دوسروں کی باتوں سے پا جاتا ہے۔ اور اپنی معلومات کی اصلاح کر سکتا ہے۔ اس طرح فن کار اور ناقد دونوں کے لئے سیکھنے کے بہت مواقع میسر ہوتے ہیں۔ بحث و تمحیص سے اجتناب ایک اچھا رویہ ہے۔ گفتگو کسی شعری فن پارے پر ہو رہی ہو تو اس میں مصرعے اور شعر کہہ کر دینے کا رجحان بھی دیکھا گیا ہے تاہم ہمارے نزدیک یہ مستحن عمل نہیں۔ آپ کا شاعر اگر نوآموز ہے تو بھی صاحبانِ علم وفن کو چاہئے اس کے حاضر کلام میں کوتاہیوں وغیرہ کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری کے لئے تجاویز فراہم کر دیں۔ آپ اگر اس کو شعر اور مصرعے کہہ کر دے دیتے ہیں تو اسے خود فریبی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوا؛ وہ آپ کے کہے ہوئے شعروں کو اپنا سمجھ کر خوش ہوتا رہے گا۔

یہ جو اکثر سننے میں آتا ہے  کہ: "شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا اور آپ ایک برے شاعر کو تو اچھا شاعر بنا سکتے ہیں، ایک غیر شاعر کو شاعر نہیں بنا سکتے"؛ یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا اطلاق ادب کی دیگر اصناف کے حوالے سے بھی ہوتا ہے۔ یہ تخلیقی صلاحیتیں بہت حد تک وہبی ہوتی ہیں، ان کو نکھارنا سنوارنا البتہ انسان کی اپنی محنت اور لگن پر منحصر ہے۔ میرے مشاہدے میں کچھ ایسے دوست بھی آئے جن میں شعر و ادب کی طرف میلان اور تخلیقی صلاحیتیں بہت تھیں مگر وہ یا تو حالات کی چکی میں پس گئے یا انہیں موافق ماحول نہ ملا اور ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو گئیں۔ میرے لڑکپن کے ایک ساتھی علم دین عرف ڈھولااس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔ ان کا مفصل ذکر کسی اور وقت پر اٹھا رکھتا ہوں۔ ایسے دوست بھی ہیں جو طبعاً شاعر نہیں تھے، انہوں نے زبان و بیان اور علم کے زور پر اشعار اور مصرعے موزوں کرنا تو سیکھ لیا،  مگر اپنی ان کوششوں کو ادب نہیں بنا سکے، وقت نے ان کو بھلا دیا۔

ناقد سے وابستہ اپنی توقعات کو ہم نے مناسب تفصیل میں دیکھ لیا۔ کچھ ذمہ داریاں لکھاری کی بھی ہیں جو اپنا کوئی فن پارہ نقد و نظر کے لئے پیش کرتا ہے۔ ایک قلم کار کو اپنے الفاظ بہت پیارے ہوتے ہیں، شاید اسی لئے تخلیق کو اس کی معنوی اولاد کہا جاتا ہے۔ وہ توقع رکھتا ہے کہ اس کی معنوی اولاد کو پسند کیا جائے، بلکہ ویسا ہی پیار بھی دیا جائے جو وہ خود محسوس کر رہا ہے۔ عملاً ایسا ہونا ضروری نہیں، کہ ناقد کے اپنے معیارات ہیں، اور وہ آپ کے لکھے کو ان معیارات پر جانچے گا۔ ایک لکھاری کی حیثیت سے آپ اپنے ناقد سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے آپ کو بھی ایک متوازن رویہ اپنانا ہو گا۔ کوئی چیز جب آپ تنقید کے لئے پیش کرتے ہیں تو آپ اپنے قارئین اور ناقدین کو اس پر سنگ باری کی دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ سو، اب پھولوں کے ساتھ پتھر بھی تو آئیں گے؛ ان کو برداشت بھی کیجئے۔ ورنہ اپنی کوئی چیز بحث کے لئے پیش ہی نہ کیجئے۔ ایک رویہ یہ بھی ہے کہ "صاحب میں نے شعر اپنی تسکین کے لئے کہا ہے، قاری کو اس پر چیں بہ جبیں ہونے کا کیا حق ہے؟ " اگر واقعی ایسی بات ہے تو آپ نے شعر کہہ لیا، اس کو پڑھا، گایا، تسکین پا لی، اسے کسی پبلک میڈیا پر لانے یا شائع کرنے کی کیا ضرورت تھی! ایک بات پبلک میں جائے گی تو اس پر باتیں بھی ہوں گی، اچھی یا بری، آپ کے لئے قابلِ قبول یا ناقابلِ قبول کا سوال بعد کا ہے۔ سو، اپنے ذہن کو کھلا رکھئے۔ آپ کا قاری بھی ادب کا قاری ہے اس کو اہمیت دیجئے، وہ آپ کو بہت کچھ سکھا بھی سکتا ہے۔

اپنے قاری اور ناقد سے یہ توقع کبھی نہ رکھئے کہ وہ آپ کا ذہن پڑھ کر آپ کی خوشنودی کو پیشِ نظر رکھ کر ہی بات کرے گا۔ وہ اپنی رائے میں آزاد ہے۔ ادھر آپ بھی تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے اپنے فن پارے کے اولین ناقد ہیں اور جیسا پہلے ذکر ہو چکا اپنی تخلیق پر ایک ہمدردانہ رائے رکھتے ہیں۔ سو، یہ لازم ہو جاتا ہے کہ آپ اپنی رائے کو اپنے قاری اور ناقد کی رائے کی روشنی میں دیکھیں نہ کہ اُس کی رائے کو اپنی رائے کی روشنی میں۔ ایک قاری اگر کہیں ارادی طور پر آپ کی نفی کر رہا ہے یا اپنی بات کو مدلل انداز میں پیش نہیں کر رہا تو آپ کو بھی اس کا پتہ چل جائے گا کیونکہ آپ خود بھی اپنے ناقد ہیں۔ اس کے ساتھ الجھئے نہیں ۔ اپنے فن پارے کے دفاع میں اپنے دلائل لانے سے کہیں بہتر ہے کہ آپ دیگر ناقدوں کی آراء کا انتظار کریں۔ کوئی دوسرا آپ کے حق میں بات کرے تو اس کی بات آپ کی اپنی بات سے زیادہ قیمتی ہے۔ یاد رہے کہ آپ کو اپنے قاری کا امتحان نہیں لینا، اپنا امتحان دینا ہے۔

تاثراتی تنقید اگرچہ بہت زیادہ عمیق اور دقیق نہیں ہوتی اور نہ اس میں طویل مباحث ہوتے ہیں، تاہم یہ تربیت ضرور کرتی ہے۔ فن اور فن پارے کو نکھارنے سنوارنے کے طریقوں کے علاوہ ہم تنقید کرنے کا سلیقہ بھی سیکھتے ہیں۔ ہر دو طرف شرط خلوص ہے۔ اور ادبی اقدار سے آپ کا تلوث بھی، چاہے آپ لکھاری ہوں یا قاری۔ ہمیں اپنے فن پارے کے لئے اور اس پر اظہارِ رائے میں دونوں میں مخلص ہونا پڑے گا اور محنت بھی کرنی پڑے گی؛ یہی آخری بات ہے۔


محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
ہفتہ 5۔ اگست 2017ء