غوّاصِ شوق
(پروفیسر امجد اقبال کی
تحقیقی تصنیف ’’گلِ صحرا۔ آغا ضیا‘‘ کا مطالعہ)
*******
در د کے دریا میں غوطہ زن
ہوا غوّاصِ شوق
موج خود کشتی بنی گرداب
چپو کر دئے
آغا ضیا کو موضوعِ تحقیق
بنانے کا محرک کیا تھا؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر امجد اقبال نے کہا: ’’میں نے
آغا ضیا کا ایک شعر پڑھا تھا، بس‘‘۔ یہ بات ہے اتور ۲۳؍ جنوری ۲۰۱۱ء کی، حلقہ تخلیق ادب ٹیکسلا کا خصوصی اجلاس، تقریبِ تقسیم جس میں
ایک تو امجد اقبال کی کتاب تھی ’’گلِ صحرا ۔ آغا ضیا‘‘ (تحقیق) اور دوسری اسد
محمود خان کی ’’درشک‘‘ (افسانے)۔ احباب جمع تھے، کوئی اور صاحب آ گئے اور بات کسی
اور طرف مڑ گئی، سو میں یہ نہیں پوچھ پایا کہ وہ شعر کون سا تھا۔ رات کو کتاب لے
کے بیٹھا تو آغا ضیا کے کتنے ہی ایسے اشعار سامنے آ گئے جو کسی بھی اہل نظر کو
غواصی پر آمادہ کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ
کے مطابق بیسویں صدی کا ربع ثانی آغا صدیق حسن ضیا کے شعری عروج کا زمانہ تھا۔ وہ
ادبی قافلے کے محض ایک رکن نہیں تھے، قافلہ سالار تھے۔ اپنے زمانے نے انہوں نے بہت
شہرت پائی اور کئی ایک حاسد بھی پائے۔ تیس پینتیس برس کی عمر میں داعئ اجل کو لبیک
کہا۔ ان کے شاگردِ رشید عزیز ملک نے ان کی زندگی کے کچھ گوشے اور کلام کا کچھ حصہ
محفوظ کیا مگر مجموعی طور پر آغا ضیا کو فراموش کر دیا گیا۔آغا مرحوم کے اوصافِ
کلام کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے: ’’وہ شعلۂ مستعجل تھے مگر جب تک رہے فضا
انھی کے وجود سے دمکتی رہی۔ وہ صوفی بھی تھے اور فلسفی بھی۔ انھوں نے فکر کی
گہرائی اور دل کی رمزیت کو مثنوی کے پیکر میں ڈھال کر شعر و فلسفہ کو نئے ذائقوں
اور رنگوں سے آشنا کیا۔ ان کی مثنویاں فکر و فن کے اعتبار سے ادبیات کا شہ کار
ہیں۔ آغا ضیا فکرِ اقبال سے متأثر بھی تھے اور اس کے مقلد بھی۔ ان کی مثنویوں کو فکرِ
اقبال کی توسیعی صورت قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا۔‘‘ (صفحہ ۹)
پروفیسر امجد اقبال نے
آغا ضیا کا دونوں حوالوں سے مطالعہ کیا ہے، اور آغا مرحوم کے زمانۂ حیات میں
راولپنڈی کے ادبی ماحول کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے۔ انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں
خطۂ پوٹھوہار کی قدیم تاریخ کوبھی مختصراً بیان کر دیا ہے۔ کتاب کی ایک بہت خاص
بات یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی تحقیقی نگاہ صرف آغا ضیا تک محدود نہیں بلکہ انہوں
نے مقدمہ میں مذکور اہل قلم کے (جہاں مناسب اور ممکن ہوا ) تعارف، سوانح، حالات،
تصانیف کا تذکرہ وغیرہ بھی حواشی میں مختصراً بیان کر دیے ہیں اور اُن کا نمونۂ
کلام بھی شامل کر دیا ہے۔ جدید تحقیقی طریقہ کے اطلاق کی یہ بہت خوبصورت مثال ہے،
کہ قاری کو موضوع کے ساتھ ساتھ متعلقاتِ موضوع سے بھی مستفید ہونے کا موقع ملتا
ہے۔ راولپنڈی کے اس دور کے ادبی منظر نامے کے حوالے سے کچھ شخصیات کے نام اور چیدہ
چیدہ مندرجات نقل کرتا ہوں۔
افضل پرویز (پ: ۱۵؍ مارچ ۱۹۱۵) تصانیف: بن پھلواری، ککراں نی چھاں، کہندا سائیں، چٹھیاں، غم روزگار
کے، چینی کی شادی، لوک تھیٹر، پاکستان کے سنگیت ساز
عزیز ملک (پ: ۶؍ ستمبر ۱۹۱۶، ف:۴؍ جون ۱۹۹۹)تصانیف: راول دیس،
پوٹھوہار، بلالِ حبشی، خونِ حسین، کارواں
کرم حیدری (پ: ۱۳؍ اگست ۱۹۱۵، ف: ۳۰؍ جنوری ۱۹۹۴) تصانیف: سرزمینِ پوٹھوہار، داستانِ مری، پوٹھوہاری گیت، دوشِ فردا،
حکمتِ بیدار
شاکر اٹکی (پ:۱۱۰۷ھ سے۱۱۱۲ھ کے لگ بھگ) فارسی اور
اردو کے شاعر تھے، فارسی دیوان شائع ہوا۔
ڈاکٹر جمیل جالبی (پ: ۱۲؍ جون ۱۹۲۹) تصانیف: تاریخ ادب اردو، اور ۳۰ سے زائد علمی ادبی تحقیقی کتب، علمی ادبی، تعلیمی، انتظامی خدمات
ملک پیلو۔ چکوال کا گاؤں مہرو پیلو اسی نے بسایا تھا۔تصانیف: مرزا
صاحباں۔
میاں محمد بخش۔ تصانیف: قصہ سوہنی مہینوال، قصہ مرزا صاحباں، قصہ
شیریں فرہاد، سیف الملوک
موہن سنگھ (پ: ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۰۵، ف: ۳؍ مئی ۱۹۸۷) تصانیف: ساوے پتر، چار ہنجو، ادھ واٹے، کچ سچ، آوازاں، وڈا ویلا،
جندرے
سائیں احمد علی پشاوری (ف: ۱۶؍ اپریل ۱۹۳۷) پنجابی کے شاعر، پیر فضل گجراتی اور اللہ داد چنگی کے استاد تھے۔
بردا پشاوری (پ: ۱۸۲۷، ف: ۱۸۹۷)۔ سی حرفی
غلام نبی کامل (پ: ۱۸۸۰، ف: ۱۹۵۵) تصانیف: تحفہ مستری محمد قاضی، تعمیرِ جدید
عبدالعزیز فطرت(پ: ۵؍جنوری ۱۹۰۵، ف: ۱۵؍ اکتوبر ۱۹۶۷) بزمِ ادب، بزمِ سخن، انجمن ترقئ اردو راولپنڈی کے روحِ رواں تھے۔
انہیں شاعرِ پوٹھوہار اور بابائے پوٹھوہار بھی کہا جاتا ہے۔
حاجی سرمدی (پ: ۱۸۵۰، ف: ۱۹۴۹) چیمبرز انگلش ڈکشنری کا اردو ترجمہ کیا۔
عطا حسین کلیم (۱۵؍ فروری ۱۹۱۷، ف: ۱۹۹۸) تصانیف: کوئے شوق، بلتستان
آغا ضیا کا مختصر سوانحی
خاکہ جو میں نے ’’گل صحرا‘‘ سے اخذ کیا ہے، احباب کی دل چسپی کے لئے پیش کر رہا
ہوں۔
آغا ضیا (پورا نام: آغا محمد صدیق حسن ضیاؔ قادری) وزیر آباد کے ایک
کھاتے پیتے گھرانے میں ۱۹۱۱ء میں پیدا ہوئے، ان کے والد سلسلۂ معاش میں سہارن پور سے وزیرآباد
منتقل ہوئے، ریلوے میں گارڈ رہے اور ملازمت کے بعد ڈھوک رتہ امرال (راولپنڈی)
منتقل ہو گئے۔ آغا ضیا نے ابتدائی تعلیم وزیرآباد میں پائی اور میٹرک کا امتحان
راولپنڈی سے پاس کیا۔ آغا ضیا بچپن سے تخلیقی ذہن رکھتے تھے، میٹرک میں پہنچے تو
ان کے پاس معتد بہ شعری تخلیقات تھیں۔ ایف ایس سی کے لئے اسلامیہ کالج لاہور میں
داخلہ لیا، مضطر میرٹھی سے ملاقات ہوئی اور اُن کے شاگرد ہو رہے۔ استاد نے ان کا
پورا دیوان قلمزد کر دیا تو آغا نے حقِّ شاگردی ادا کرتے ہوئے اسے تلف کر دیا۔
مضطر میرٹھی کی محافل میں شاعری کے رموز سے آگاہی پائی اور انہیں جذب کر لیا۔ کالج
کے مشاعروں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ ایک مشاعرے میں سر عبدالقادر نے کہا: ’’اس
نوجوان کے قالب میں غالب کی روح کارفرما ہے‘‘۔ لاہور میں قیام کے دوران مولانا
مضطر میرٹھی کے ہمراہ سہارن پور گئے تو حضرت یار محمد سہارن پوری کے ہاتھ پر بیعت
کی۔ نامساعد حالات کے باعث لاہور سے مراجعت کی اور راولپنڈی کی ادبی محافل میں شرکت
کرنے لگے۔ راولپنڈی میں ان کی اولین شناخت ڈرامہ نگاری کے حوالے سے تھی۔ ان کے
لکھے ہوئے ڈرامے ان کی زندگی میں گم ہو گئے تھے، جس کا انہیں عمر بھر قلق رہا۔
انہوں نے فلمی گیت بھی لکھے۔ راولپنڈی میں آمد کے بعد آغا ضیا یہاں کی ادبی دنیا
میں بہت فعال رہے اور اپنی نظموں کے حوالے سے خاص طور پر شہرت پائی۔ عبدالحمید عدم
راولپنڈی میں وارد ہوئے تو یہاں ادبی گروہ بندی کا آغاز ہو گیا۔ اس صورت حال سے
نمٹنے کے لئے شعراء کو غزل سے نظم کی طرف مائل کرنے کا سلسلہ چلا، ایک موضوع دے
دیا جاتا جس پر نظم کہنی ہوتی تھی۔ آغا صاحب نے ’’شاعر کا نصب العین‘‘ کے زیر
عنوان ایک سو اسی اشعار کی نظم کہی اور حفیظ جالندھری کے زیرِ صدارت مشاعرے میں
تحت اللفظ پیش کی۔ بہ ایں ہمہ ان کا دل اس فضا اور معاصرانہ چشمک سے اچاٹ ہونے
لگا، رفتہ رفتہ کنارہ کش ہوتے گئے اور ۱۹۳۵ء کے بعد مشاعروں میں جانا ترک کر دیا۔نامساعد معاشی حالات اور دیگر
مسائل نے آغا ضیا کی ذہنی فکری اور جسمانی حالت ابتر کر دی، وہ اکثر بیمار رہنے
لگے اور اسی عالم میں چونتیس برس کی عمر پا کر گویا عالمِ جوانی میں۲۷؍ مارچ ۱۹۴۵ء کو وفات پائی۔ آغا ضیا
کے نقوشِ حیات کی تلاش میں پروفیسر امجد اقبال نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔تاہم
اُن کی عائلی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا، انہوں نے گھر بسایا یا نہیں؟
بسایا تو کیا رہا؟ یا موت نے مہلت ہی نہیں دی یا مفلسی نے اجازت نہیں دی؟ وغیرہ۔
جیسا کہ اوپر اجمالاً ذکر
ہو چکا، پروفیسر امجد اقبال نے اس دور کے ایسے اہل قلم کے بھی مختصر حالات اس کتاب
میں شامل کر دئے ہیں جو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر آغا صاحب سے نسبت رکھتے
تھے۔ یہاں ہمیں کچھ دل چسپ معلومات بھی حاصل ہوتی ہیں، اور کچھ شعرا کا نمونۂ کلام
بھی۔ مثال کے طور پر:
* عزیز ملک (۱۹۱۶۔۱۹۹۹)
کے داد مولوی ہدایت اللہ
نے قرآنِ پاک کا اولین پنجابی ترجمہ کیا۔
* شاہ مراد خان پوری (متوفی ۱۱۱۴ھ) اردو پنجابی اور فارسی تینوں زبانوں کے شاعر تھے۔
* چکوال کا گاؤں مہرو پیلو، ملک پیلو نے بسایا تھا اور اسی کے نام سے
موسوم ہے۔
* ساوے پتر اور دیگر پنجابی شعری مجموعوں کے خالق موہن سنگھ (۱۹۰۵۔۱۹۷۸) کی جنم بھومی راولپنڈی
ہے۔
ماں ورگا گھن چھانواں بوٹا مینوں نظر نہ آئے
جس توں لے کے چھاں ادھاری رب نے سورگ بنائے
باقی کل جہان دے بوٹے جڑ سکیاں مرجھاندے
اے پر پھلاں دے مرجھایاں ایہ بوٹا سک جائے
* رجب علی جوہر (۱۸۶۸۔۱۹۴۸)
پنجابی، اردو، فارسی،
کشمیری اور پشتو میں شعر کہتے تھے۔
ب: بحر نبوت دی صدف وچوں بے بہا اک در یتیم آیا
واللیل گیسو، والشمس چہرہ لے کے قدرت تو طبعِ سلیم
آیا
گیا زلزلہ پا قرار، اس دے زیرِ قدم جو عرش برین
آیا
پا کے رنگ کریم دے رنگ وچوں جوہرؔ کہندا رسول کریم
آیا
* محمد علی خان نامی (۱۸۵۰۔۱۹۶۲)
کو اِس خطے کا پہلا نعت
گو شاعر کہا جاتا ہے۔
اگر خوفِ خدا دل میں بشر رکھے تو اچھا ہے
مسافر پاس کچھ زادِ سفر رکھے تو اچھا ہے
چمک گوہر کی گم ہو جائے تو قطرہ ہے پانی کا
بشر قائم اگر شانِ بشر رکھے تو اچھا ہے
* پیر فضل گجراتی، اللہ داد چنگی اور عبدالکریم ہمسرؔ سائیں احمد علی
پشاوری کے شاگرد تھے۔
میں ہسناں واں ایس گل ولوں مینوں ویکھ مخلوق پئی
ہسدی اے
لوکی وسدے تے میں ویران ہوناں گل ایہ کوئی میرے وس
دی اے
جنہوں ڈھونڈناں اوہ تے لبھدا نہیں باقی کھیڈ سب
کوڑ ہوس دی اے
سائیاںؔ لکھت پیشانی دی پیش آ گئی جو میں ویکھ
رہیاں اوہ پئی دَسدی اے
* بردا ؔ پشاوری (۱۸۲۷۔۱۸۹۷)
نے راولپنڈی جیل میں قید
کے حالات سی حرفی (۱۸۸۵ء) میں لکھے۔
ک: کسے دے رب نہ پیش پاوے جیل خانہ ہے دنیا دی قرض
داری
اک ظلم وچھوڑا ہے یار والا، دوجا پیر پیادہ تے
منزل بھاری
برے دن نہ بری اولاد ہووے، برے پت دی کرے نہ
انتظاری
برداؔ کہے اصیل دا قول ایہو، مر جائے نہ نیچ دی
کرے یاری
* عبدالکریم ہمسرؔ
کھوتا کھوتیاں وچ شمار ہوندا
زریں طوق سنگ نہ شکل خر بدلے
ہمسرؔ کدی نہیں اس دے نشان چھپدے
شجرہ بھانویں کمینہ بشر بدلے
* قاضی سراج الدین احمد (۱۸۶۷۔۱۹۲۵)
سر سید احمد خان کے قریبی
ساتھی تھے۔ پہلی جنگِ عظیم میں انگریز سرکار کی طرف سے ’خان بہادر‘ کا خطاب ملا۔
* عطا محمد طاہرؔ (۱۸۹۵۔۱۹۵۳)
بزمِ ادب راولپنڈی کے
ناظم، اور متحرک ادبی شخصیت تھے۔
میں بھی کہسار کی ندی کی طرح ہوں طاہرؔ
نغمہ سنسان چٹانوں کو سنا جاتا ہوں
کر دئے دل پر نقوشِ غیر فانی مرتسم
ہے تصور بھی مصور آپ کی تصویر کا
* عبدالعزیز فطرتؔ بزمِ ادب، بزمِ سخن اور انجمن ترقئ اردو کے روحِ
رواں تھے اور علاقے میں اردو شاعری کے محرک تھے۔ انہیں شاعرِ پوٹھوہار اور بابائے
پوٹھوہار بھی کہا جاتا ہے۔
غنچے کا جواب ہو گیا ہے
دل کھل کے گلاب ہو گیا ہے
مرنا بھی نہیں ہے اپنے بس میں
جینا بھی عذاب ہو گیا ہے
* پروفیسر محمد اعظم (متوفی ۱۹۵۴ء)۔
مرے قول و فعل میں فرق ہو کبھی آج تک تو ہوا نہیں
جو کہا نہیں وہ کیا نہیں جو کیا نہیں وہ کہا نہیں
* خدا بخش اظہرؔ (پ ۱۹۰۱) عطا محمد طاہرؔ کے ہم عصر تھے۔ راولپنڈی سے
لاہورگئے تو ’زمیندار‘ اخبار سے منسلک ہو گئے۔
رو کشِ آئینہ آخر ہو گیا ان کا جمال
کیا مرا دل عکسِ روئے یار کے قابل نہ تھا
کیا پوچھتے ہو عالمِ دنیائے ہست و بود
اک خواب ہے جو دیدۂ عبرت نگر میں ہے
آغا ضیا کے شعری ورثے کی
بازیافت کے لئے پروفیسر امجد اقبال کو یقیناًکڑے کوسوں کا سفر کرنا پڑا ہے۔ اس سفر
کا کچھ احوال انہوں نے کلامِ آغا ضیا پر بحث میں ذکر بھی کیا ہے۔ شاعر، شعر اور
بلند پایہ شاعری سے پروفیسر صاحب اس بات کے متقاضی ہیں کہ بقول سید علی مطہر اشعرؔ
(ع) بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے۔ لکھتے ہیں:
’’اعلیٰ اور بلند شاعری کے اوصاف میں سے چند ایک یہ ہیں کہ وہ بعید
از فہم نہ ہو اور قارئین کے دل و دماغ پر ایسی کیفیت کی تصویریں کھینچ دے جیس کہ
آئے دن ہم پر گزرتی رہتی ہیں۔ ایسی شاعری کی تخلیق کے لیے لازمی ہے کہ شاعر کے
جذبات، احساسات اور خیالات، ایک عام آدمی کے جذبات، احساست اور خیالات سے کہیں
تیز، قوی، لطیف اور گہرے ہوں۔ جیسے جوالامکھی سے اٹھتے ہوئے شعلے میں معمولی سرخ
آگ سے کئی گنا زیادہ روشنی اور گرمی ہوتی ہے۔ دوسرا، شاعر کی فطرت سریع الحس اور
قوی الجذب ہو۔ ایک معمولی واقعہ، ایک ادنیٰ منظر اسے متاثر کرنے اور اپنے اندرونی
جذبات کے اظہار پر مجبور کرنے کے لئے کافی ہو۔ شاعری مشاہدات، احساسات اور جذبات
کی الفاظ میں مصوری ہے۔ خیالات اور قلبی جذبات کی تخلیق کا دار و مدار شاعر کے
روزمرہ کے مشاہدات، ذہنی تجربات اور مطالعۂ فطرتِ انسانی پر ہے۔ .... سادگی، اصلیت
اور جوش؛ شعر کے بنیادی اور ضروری اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ تشبیہ اور
استعارہ کے مناسب استعمال سے شعر میں روانی، سلاست، رنگینی، شعریت اور تاثیر بھی
پیدا ہو جاتی ہے۔ معیاری شاعری کی بہترین کسوٹی یہ ہے کہ اس کے مطالعہ سے انسانی
مسرت میں اضافہ ہو، سماجی برائیاں دور ہوں، زندگی کے مقاصد بلند ہو اور وہ پیچیدہ
روحانی اور مادی مسائل، جن سے انسانیت ہمیشہ دو چار رہتی ہے، حل ہوتے نظر آئیں۔‘‘
(صفحہ ۳۱۔۳۲)
صاحبِ کتاب نے آغا ضیا کا
کلام یک جا کرنے اور اس کی چھان پھٹک میں بلا شبہ نہ صرف بہت محنت کی ہے بلکہ جو
کچھ دستیاب ہو سکا اس کی تدوین میں جدید تحقیقی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بہت
احتیاط اور عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں : ’’یہ بات یقین سے کہی
جا سکتی ہے کہ آغا ضیا کا سب سے زیادہ دست یاب کلام اس کتاب کی زینت ہے اور میرے
لیے یہ بات اعزاز سے کم نہیں کہ میں نے اس گم نام شاعر کے کلام کو کتابی صورت میں
اردو کی ادبی تاریخ کے حوالے کر دیا ہے جس سے آنے والا زبان و ادب کے طالب علموں
کو بیسویں صدی کی دوسری تیسری اور چوتھی دہائی کی پنڈی کی شعری روایت اور اسالیب
کے تعین میں ضرور مدد ملے گی۔‘‘ (صفحہ ۳۷)۔ پروفیسر صاحب کے اس ارشاد کی روشنی میں اولین ضرورت اس امر کی ہے
کہ آغا ضیا کے کلام پر تفصیل سے بات کی جائے، اور اِس کے فکری اور فنی محاسن کو
اجاگر کیا جائے۔ ذیل میں اپنی طالب علمانہ کاوش اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کی خدمت
میں پیش کر رہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ وہ نہ صرف میری فروگزاشتوں کی اصلاح
فرمائیں گے، بلکہ میری کم نگاہی سے اوجھل رہ جانے والے پہلوؤں کی طرف بھی راہ
نمائی کریں گے۔
فن کیا ہے؟ یہ عشق کا
حاصل ہے اور ضبط کا ثمر ہے۔ آغا ضیا کے الفاظ میں:۔
ہوا ضبط جب آب و گل میں
محال
تو پھوٹی ہر اک مُو سے شاخِ
خیال
کوئی شاخ تصویرِ رنگیں
بنی
مصور کے ارماں کی تسکیں
بنی
کوئی شاخِ خوش بن گئی غم
کا راگ
بجھی جس سے مطرب کے سینے
کی آگ
کوئی شاخِ خوش بن گئی
شعرِ تر
ہوئی چشمِ شاعر میں پیدا
نظر
تصاویر و اشعار و نغماتِ
خوش
محبت نے باندھے خیالاتِ
خوش
رموزِ صفا کا صحیفہ ہے
عشق
بنائے فنونِ لطیفہ ہے عشق
آغا ضیا کے ہاں فکر اور
فن ایک دوجے کو نکھارتے ہیں۔ بحور کے انتخاب میں آسانی اور رجھاؤ کا عنصر کار فرما
دکھائی دیتا ہے۔ ان کے ہاں درمیانی اور چھوٹی بحور زیادہ مستعمل ہیں۔ پروفیسر صاحب
کے مرتب کردہ نقشے (صفحہ ۳۵) سے بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ آغا ضیا نے نئے نئے تجربات کی بجائے پہلے
سے مانوس بحریں منتخب کیں، اور اپنی صلاحیتوں کو فکر کی ترسیل کے لئے استعمال کیا۔
ان کی فکرِ رسا اُن کے لئے ردائف اور قوافی کا تعین کرتی ہے اور فن کا اسپِ تازی
اس فکر کو تیز گام اور دُور رَس بنا دیتا ہے۔
کتاب کی پہلی ورق گردانی
میں مجھے آغا ضیا کے ہاں فکرِ اقبال کا تسلسل دکھائی دیا، اور کہیں کہیں اقبال کے
لہجے کا اثر بھی۔ ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ پہلے ہی اس طرف اشارہ کر چکے ہیں: ’’آغا
ضیا فکرِ اقبال سے متاثر بھی تھے اور اس کے مقلد بھی۔ ان کی مثنویوں کو فکرِ اقبال
کی توسیعی صورت قرار دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا‘‘(صفحہ ۹)۔
فی زمانہ ایک رسم چلی ہے،
کہ جی آپ کا شعر کو پڑھ کر یا سن کر کسی دوسرے شاعر کا شعر ذہن میں نہیں آنا
چاہئے، نہیں تو یہ آپ کے شعر کی خامی ہے۔ امرواقع یہ ہے کہ انسان کے بنیادی مسائل
اور محسوساگ ہمیشہ اور ہر جگہ متماثل نہیں تو مماثل ضرور رہے ہیں۔ صرف ادب کی بات
نہیں کسی بھی میدانِ عمل میں نمایاں اور دور رس کام کر گزرنے والوں کے اثرات بھی
دور رس ہوا کرتے ہیں۔ ادب میں اقبالؔ کی شاعری بھی ایسے ہی دور رس اثرات رکھتی ہے۔
آغا ضیا کی دستیاب نظموں میں اقبال کے پرتوِ فکر سے انکار ممکن نہیں، بسا اوقات
لفظیات اور آہنگ بھی اقبال کی طرف مائل دکھائی دیتا ہے۔بہ ایں ہمہ آغا ضیا اقبال
میں گم نہیں ہو جاتے، بلکہ اپنی شناخت قائم رکھتے ہیں۔
آغا ضیا کی منظومات میں
بلا کی روانی پائی جاتی ہے اور یہ روانی کثیرالجہات ہے۔ آسان اور مانوس بحور کے
انتخاب نے اس روانی میں اضافہ کیا ہے۔ اُن کی نظمیں پڑھتے چلے جائیے، کہیں بھی
نہیں لگتا کہ انہوں نے بہ تکلف اشعار کہے ہوں۔ اُن کے ہاں خطابیہ لہجہ نمایاں ہے
اور نظمیں پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اُن کا خطاب سن رہے ہیں۔ الفاظ کی
تکرار جہاں شعر میں حسن پیدا کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے وہیں ایک مشکل کام بھی
ہے۔آغا ضیا اس مشکل کام کو کمال سہولت سے کر گزرتے ہیں: (صفحہ ۳۹، ۴۱، ۴۸، ۴۹، ۵۱، ۵۲، ۵۹، ۶۰، ۶۱، ۶۳، ۶۷، ۶۹، ۸۷، ۹۹، ۱۰۸، ۱۱۱)۔ کہنے کو تو یہ آغا ضیا
کی مثنویاں ہیں، جس کی انتہائی قید اشعار کے ہم وزن ہونے کے ساتھ ایک شعر کے دونوں
مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا ہے، لیکن آغا ضیا متواتر کئی کئی شعر ہم قافیہ (اور بسا
اوقات ہم ردیف بھی) کہہ جاتے ہیں: (صفحہ ۴۰، ۴۵، ۵۴، ۵۹، ۶۲، ۶۳، ۶۴، ۶۹، ۷۴، ۹۰، ۱۰۳)۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ شعر
کہہ نہیں رہے، بلکہ اُن سے کوئی قوت شعر کہلوا رہی ہے، یا اُن کے اندر سے بنے
بنائے اشعار چشمے کی صورت پوری قوت سے پھوٹ رہے ہیں۔ ایسے اشعار کہنے کے لئے عطائے
وہبی کے ساتھ ساتھ اپنے فن سے ایمان کی حد تک لگاؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور بیان پر
قدرت کی بھی۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجے کہ الفاظ آغا ضیا کے سامنے دست بستہ حاضر
ہوتے ہیں، بھاری بھرکم تراکیب اور مشکل الفاظ ان کے حضور سراپا ملائمت بن جاتے
ہیں، اور قاری کو ذرا سی ثقالت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
آغا ضیا کی سوانح حیات
میں ذکر ہوا کہ وہ ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ ڈرامے میں ایک مرکزی خیال ہوتا ہے، اور
ڈرامہ نگار منظر بہ منظر تماشائیوں کو اس خیال کی طرف لے جاتا ہے۔ ہر منظر اپنی
جگہ ایک اکائی ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اُس مرکزی خیال سے جڑا ہوتا ہے بلکہ ایک منظر
دوسرے منظر کا تسلسل بھی ہوا کرتا ہے۔ کچھ ایسی کیفیت آغا ضیا کی مثنویوں میں بھی
پائی جاتی ہے۔ کتاب میں شامل اُن کی پہلی مثنوی ’’جوہرِ مصطفٰی‘‘ (صفحہ ۳۹)
کو دیکھئے گا۔ اس کا پہلا
منظر ’’حسن منظور‘‘ ان اشعار سے شروع ہوتا ہے:۔
حسن کی فطرت میں ہے ذوقِ
ظہور
نور ہو تو آنکھ کا کھلنا
ضرور
نور پر کب تک حجابِ چشم
بند
صدق پر کب تک حجابِ چون و
چند
شعلہ پر کب تک دھوئیں کا
سائباں
موج کب تک طبعِ دریا میں
نہاں
کلام کی روانی اور اظہار
کی شدت یہاں بھی پوری قوت سے موجود ہے، مگر اس وقت ہمارا موضوع منظر بہ منظر ربط
ہے۔ اس منظر کے آخری دو شعر دیکھئے:۔
جسم و جاں میں بے قراری
بھر گئی
برق رگ رگ میں سرایت کر
گئی
سانس کی صورت روانی آ گئی
بے قراری سے جوانی آ گئی
آغا ضیا کے ہاں
قادرالکلامی، تخیل کی بلندی، گہرائی اور نزاکت کے ساتھ انفرادیت بدرجہ اتم پائی
جاتی ہے گویا انہوں نے خونِ جگر اپنے لفظوں میں بھر دیا ہے۔ قوتِ خیال، تشبیہ،
استعارہ، تلمیح اور دیگر صنائع کا ایسا برمحل برتاؤ کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔
دوسرے منظر کا عنوان ہے ’’شرحِ بے قراری‘‘، اور ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے:۔
بے قراری ہے کلیدِ زندگی
بے قراری سے ہے دیدِ
زندگی
زندگی ہے وصفِ خوش تر کا
ظہور
آب و گل سے مشک و عنبر کا
ظہور
یا دلِ صحرا سے زم زم کا ظہور
یا شبِ نم گیں سے شبنم کا
ظہور
پڑھتے جائیے، بڑھتے
جائیے!سانس پھولنے لگتا ہے اور تسلسل ہے کہ رکنے نہیں دیتا، گویا میں ای ٹی ٹی کے
مرحلے سے گزر رہا ہوں، جب تک بے دم ہو کر گر نہ پڑوں۔ یہ منظر مجھے یہاں لے آتا
ہے:۔
خون ہے گہ شیرِ تر گہ
مشکِ ناب
ڈھونڈتا ہے منزلِ اوج و
شباب
تخم ہے گہ نسترن گہ
یاسمیں
ڈھونڈتا ہے منزلِ رنگِ
یقیں
چشمہ ہے گہ جوئے خوش گہ
آبشار
ہے بقا کی جستجو میں بے
قرار
اگلے منظر کا سرنامہ
’’معنیِ بقا‘‘ ہے، اور ابتدا یوں ہوتی ہے:۔
ہے بقا کیا اک شبابِ
دائمی
شب سے آزاد آفتابِ دائمی
مہرِ ملت کو عروجِ دائمی
سیرِ افلاک و بروجِ دائمی
اس منظر میں آغا ضیا
انسان کے تحت الشعور کا مطالعہ کرتے ہوئے آگے پڑھتے ہیں اور بقائے حقیقی سے بقائے
وہمی یعنی متاع غرور تک کا تجزیہ کرتے ہیں، اور اگلے منظر کو ’’فساد‘‘ کا عنوان
دیتے ہیں:۔
ہے فساد اپنی حقیقت سے
عناد
زندگی کی قدر و قیمت سے
عناد
ہے فساد اپنی طیبعت سے
عناد
مثلِ غدار اپنی ملت سے
عناد
نظم اپنے منطقی بہاؤ میں
فساد سے صلاح کی طرف بڑھتی ہے۔ یہاں اقبال کا حفظِ خودی کا فلسفہ آغا ضیا کے الفاظ
کا جامہ اوڑھ لیتا ہے:۔
پاسبانی دل کی با ذوقِ
یقیں
تا نہ کشتی رو میں بہہ
جائے کہیں
حفظِ خودی کا یہ مضمون
آغا ضیا کے ہاں ’’حفظِ نفس‘‘ اور’’ حفظِ شباب‘‘ کے عنوانات پاتا ہوا اگلے منظر
’’عروجِ فطرت‘‘ کی راہ پر گامزن ہوتا ہے:۔
بامِ اوجِ عشق کا زینہ
کھلا
زخم کیسا دل پہ آئینہ
کھلا
آب و گل میں بے قراری بڑھ
گئی
ابر برسا اور ندی چڑھ گئی
فطرت کے مظاہر کو آغا ضیا
نے رب العالمین کی نسبت سے عنوانات کے طور پر باندھا ہے: عالمِ طہارت (عالمِ
جماد)، عالمِ قیام (عالمِ نباتات)، عالمِ ذکر و فکر (عالمِ طیور)، عالمِ سجود
(عالمِ حیوانات)، اور عالمِ سلام (عالمِ انسان)۔ یہاں وہ انسانوں سے اللہ کریم کے
آخری خطاب کی اولین آیات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے آیۂ ’’ثم رددنہ اسفل
سافلین‘‘ کی رمز کھولتے ہوئے کہتے ہیں: ۔
آ ادھر اسرار کی تفسیر
دیکھ
رجعتِ اعمال کی تصویر
دیکھ
کھائی جب انسان نے خود سے
شکست
بن گیا ترکِ وفا سے گرگِ
مست
جب ہوا گرگِ کہن خود سے
شکار
بن گیا صحرا میں نخلِ خار
دار
پھر ’’انشراح‘‘ کا مرحلہ
آتا ہے جہاں آغا ضیا انسانوں پر رب العالمین کے انعامات کا ذکر کرتے ہیں اور سب سے
بڑا انعام احسنِ تقویم کی وہ حجت ہے جو رحمت للعالمین کی صورت میں عالمِ انسانی کو
عطا ہوئی۔آغا ضیا نے اگلا منظر ’’مناقبِ عشق‘‘ کا باندھا ہے اور پھر ’’خود
آفرینی‘‘ کا۔ اس مثنوی کے آخری چند اشعار نقل کرتا ہوں:۔
اپنے خاکستر سے کرتا ہوں
طلوع
اپنی جانب آپ کرتا ہوں
رجوع
باندھتا ہوں اک طلسمِ نو
بہار
اپنی گل سے ہوتا ہوں آپ
آشکار
میرے کھل جانے سے کھلتی
ہے حیات
آتی ہے حرکت میں ساری
کائنات
ہے مری فطرت سراپا انقلاب
ہر تغیر ہے مجھے تازہ
شباب
خود نشیں ہوں موت سے بے
گانہ ہوں
جل کے جو روشن ہو وہ
پروانہ ہوں
آغا ضیا نے مثنوی کو ایک
عنوان دیا اور پھر ذیلی عنوانات دئے، ہر ذیلی عنوان اپنے ماقبل سے معنوی اور فکری
سطح پر تو مربوط ہے ہی، بسا اوقات لفظی سطح پر بھی مربوط ہوتا ہے۔ ذیلی عنوانات کی
اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے تاہم اگر اِن کو ہٹا بھی دیا جائے تو مثنوی کا بہاؤ از
خود بتا دیتا ہے کہ کچھ نئی بات آ گئی ہے۔ ان کی مثنوی ’’زندہ رود‘‘ (صفحہ ۵۱)
میں پہلا حصہ افتتاحیہ کی
حیثیت رکھتا ہے، اس میں انسان سے خطاب ہے:۔
اے امینِ زیست، اے انسانِ
پاک
سلسلہ بندِ نظامِ آب و
خاک
آ سناتا ہوں تجھے اسرارِ
دل
آ ٹھاتا ہوں حجابِ آب و
گل
دیکھ اس پردہ میں کیا
مستور ہے
دیکھ اس عالم میں کیا
دستور ہے
دیکھ اس دفتر میں کیا
تحریر ہے
دیکھ اس جادو میں کیا
تاثیر ہے
یہاں فکرِ اقبال کی گونج
وہاں سے ابھرتی سنائی دیتی ہے جہاں روحِ زمین آدم کا استقبال کرتی ہے۔ آغا ضیا
اپنے رخشِ معانی کو دوڑاتے ہوئے ’’حاصلِ جذب‘‘ سے ہوتے ہوئے ’’حیات و حرکت‘‘تک
پہنچتے ہیں:۔
خوش لباسی اور ہے اعزاز
اور
مرغِ تصویر اور ہے پرواز
اور
خم گری سے دور ہے ساقی
گری
شاعری سے دور ہے پیغمبری
دور ہے زورِ ہوا سے زورِ
جاں
دور ہے شورِ دہل سے شورِ
جاں
’’عالمِ حرکت‘‘ سے آگے
’’عالمِ حیات‘‘، ’’عالمِ بیداری‘‘ کی بات کرتے ہیں تو قاری کے آگے بہت سے ایسے
سوالات رکھ دیتے ہیں جن میں جواب مضمر ہے:۔
آدمی کیوں جذب سے محروم
ہے
اس گھٹا میں برق کیوں معدوم
ہے
چشمہ اس کُہ سے ابلتا
کیوں نہیں
حسن اس سانچے میں ڈھلتا
کیوں نہیں
اس نگہ میں کُہ شگافی
کیوں نہیں
اس دوا میں روحِ شافی
کیوں نہیں
دور ہے معراج سے کیوں یہ
نماز
دور ہے لاہوت سے کیوں یہ
مجاز
اس زباں میں قدرتِ قُم
کیوں نہیں
اس سمندر میں تلاطم کیوں
نہیں
اس عمل میں زورِ قدرت
کیوں نہیں
دین و دنیا کی حکومت کیوں
نہیں
نظم کے آخر میں ’’روحِ
زندہ رود کا ظہور‘‘ کے زیرِ عنوان جوابِ شکوہ کی یاد دلا جاتے ہیں:۔
آسماں آہِ رسا سے شق ہوا
مردِ مومن کی دعا سے شق
ہوا
عشق اترا عالمِ افلاک سے
چشمۂ سیماب پھوٹاخاک سے
دیکھتا کیا ہوں کہ روحِ
زندہ رُود
عالمِ طوفاں میں محوِ
سرُود
اس حصے میں وہ مرکز سے
منسلک رہنے کی اہمیت اور ضرورت کو نہایت دل پذیر پیرایۂ اظہار عطا کرتے ہیں:
عالمِ مرکز ہے کیا اصلِ
حیات
جس طرح اخلاص ہے اصلِ
نجات
جس طرح ماحول ہے اصلِ
شعور
جس طرح ہے بے خودی اصلِ
حضور
زندگی مرکز سے کرتی ہے
ظہور
آنکھ کے تل میں نگہ بنتا
ہے نور
دورئ مرکز سے جینا بے
حضور
ٹوٹ کر تارہ فلک سے چور
چور
یہاں اشعار کا انتخاب
کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ایک شعر دوسرے میں کچھ ایسے پیوست ہے کہ کوئی ایک مصرع رہ
جائے تو خلا کا احساس ہوتا ہے۔ نظم کے آخری دو شعر نقل کرتا ہوں:۔
اے امینِ زیست اے انسانِ
پاک
سلسلہ بندِ نظامِ آب و
خاک
مست ہونا ہے تو روحِ رَز
کو ڈھونڈ
زندہ رہنا ہے تو اٹھ مرکز
کو ڈھونڈ
آغا ضیا کی مثنوی
’’زلزلہ‘‘ (صفحہ۵۸)
فی الواقع فکر و شعور میں
زلزلہ بپا کر دینے والی نظم ہے۔ اس کے ابواب ہیں: ’’شاعر‘‘، ’’زندگی‘‘، ’’ظہورِ
زندگی‘‘، ’’خفائے زندگی‘‘، ’’اصلِ حیات‘‘، ’’تفسیرِ غیب و ظہور‘‘، ’’مقامِ عشق‘‘،
’’زلزلہ‘‘، ’’مقامِ عقل‘‘، ’’اسبابِ ظہورِ زلزلہ‘‘، ’’امتحان و ابتلا‘‘،اور
’’ظہورِ زلزلہ‘‘۔ یہ مثنوی اول تا آخر حرف بہ حرف پڑھنے اورمحسوس کرنے کی ہے، یہاں
انتخاب محال ہے۔
کچھ ایسا ہی اسلوب ’’آبِ
حیات‘‘ (صفحہ ۶۹)
میں کار فرما ہے۔ اس کے
ذیلی عنوانات درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں: فلسفۂ قدیم، فلسفہ قدیم کی تشریح، سیاسی
اختلاف، فلسفہ جدید، زندگی میں ورود، مثالِ طفلی، شاہی، فتنۂ شیطان، فتنہ کا فطرت
پر اثر، فکرِ انسان اور انقلابِ فطرت، جوانیِ فطرت، معنیِ تدبر،اور نمودِ تدبر۔ اس
نظم میں آغا ضیا ایک کامل، غیر جامد اور جیتا جاگتا فلسفہ پیش کرتے ہیں۔ ’’نظریۂ
خیر و شر‘‘ (صفحہ ۷۵)، ’’رمزِ بوتراب‘‘ (صفحہ ۸۳)، ’’دعوت نامہ‘‘ (صفحہ ۸۷)، ’’مثنوی مقامِ محمود‘‘
(صفحہ ۹۶)، ’’مثنوی بہشتِ ضمیر‘‘
(صفحہ۱۱۱)؛ اور ان کے ذیلی عنوانات
میں ہم ایک عظیم المرتبت صوفی ہے مشرف بہ ملاقات ہوتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ
ایسے گہرے فکری مضامین کوعرفِ عام میں غیر دلچسپ سمجھے جاتے ہیں، آغا ضیا کے ہاں
کمال کی کشش کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
اس کتاب کی تفہیم و تحسین
کا حق ادا کرنا مثالِ ’’کارے دارد‘‘ ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا تھا،
اپنی کم علمی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ عظیم کام اہلِ علم احباب پر چھوڑتا ہوں۔ کتاب
میں ایک مختصر نظم بغیر عنوان کے، علاوہ پانچ غزلیں اور متفرق اشعار ہیں، جو سب
بھی قابلِ تحسین ہیں تاہم ان کی آب و تاب آغا صاحب کی مثنویوں کے آگے ماند پڑتی
دکھائی دیتی ہے۔ مشتے از خروارے کے طور پر غزلوں سے چند اشعار نقل کرتا ہوں:
لذتِ شوق ہوئی راہِ طلب
میں افزوں
میں تو ہر آبلہ کو ایک
نیا دل سمجھا
اے ضیا تھی وہ مرے عزم کی خامی یکسر
میں رہِ دوست میں جس سنگ
کو حائل سمجھا
شعلہ بجھتا تھا دھوئیں میں آ رہا تھا پیچ و تاب
غم زیادہ ہو رہا تھا درد
کو کم دیکھ کر
آگ لگ جاتی ہے جس کو گھر
وہ بنتا ہے چراغ
طالبِ غم ہو رہا ہوں لذتِ
غم دیکھ کر
شورشِ تقدیر نے دیں
دعوتیں تدبیر کو
ہمتِ شانہ بڑھی زلفوں کو
برہم دیکھ کر
وحدت کا رنگ نقشۂ کثرت کا ہے فروغ
اک تخم گل میں بیش ہیں
عالم بہار کے
اپنی تلاش میں مجھے خود
رفتگی ہوئی
جاتا ہوں پیش پیش میں
اپنے غبار کے
پردہ اٹھا کے ساز کا دیکھا تو کچھ نہ تھا
پھر کیا تھا جس کے نغمے
کا ہر سو ظہور تھا
پہنچا گئے اٹھا کے لحد
میں مجھے ضیا
منزل کے میں قریب تھکاوٹ
سے چور تھا
نیت میں ضیا دیکھا فردوس بھی دوزخ بھی
یہ موج ہی کشتی ہے، یہ
موج ہی طوفاں ہے
ٹوٹ کر تارِ نفس نے اے ضیا
رازِ سازِ زندگی افشا کیا
بیٹھ کر خمیازہ اپنی ترش رُوئی کا اٹھا
نشہ بن کر اڑ چلے ساقی
تری محفل سے ہم
پروفیسر امجد اقبال ،
اپنی محنتِ شاقہ کی بدولت آغا ضیا جیسے نابغۂ وقت کی شاعری (خاص طور پر مثنوی) کو
ادب کے شائقین تک لائے۔ میری مقدور بھر گزارشات کیا اور میں کیا! تاہم مجھے قوی
امید ہے کہ پروفیسر صاحب کی یہ تحقیق مثنوی میں نئی روح پھونکنے کا باعث بنے گی۔
*******
محمد یعقوب آسیؔ ٹیکسلا
(پاکستان) ۸ فروری ۲۰۱۱ء
’’گل صحرا ۔ آغا ضیا‘‘ از
پروفیسر امجد اقبال (اشاعت:
۲۰۱۰ء): تحقیق و تنقید،
اُردُو اَدَب
یہ
مضمون کتاب مذکور کی تقریبِ
تقسیم منعقدہ ۲۳ جنوری ۲۰۱۱ء (حلقہ تخلیقِ ادب
ٹیکسلا) میں پڑھا گیا۔
ماشااللہ .....
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ ....
تاریخی دستاویزھے جناب ..
آداب عرض ہے جناب اقبال طارق ۔۔۔ دستاویز تیار کی پروفیسر امجد اقبال نے۔ میں نے جیسے اس کو پڑھا ویسے آپ تک پہنچا دیا۔ حق بہ حق دار رسید۔
حذف کریںبہت خوب آسی صاحب ! عظمتِ رفتہ کے یہ بُردبار سنگِ میل عہدِ نو کی سُبک خرامی پر آج بھی خندہ زن سے نظر آتے ہیں۔
جواب دیںحذف کریںآپ کا احسان ہے کہ ایسی مفید معلومات فراہم کیں، خدا تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے! آمین
جواب دیںحذف کریںپڑھ کر مزہ آ گیا ہے
جواب دیںحذف کریں