جمعرات، 12 مارچ، 2015

اپنا مختصر تعارف ۔ محمد یعقوب آسی ۔ Self intro in Urdu and English


محمد یعقوب آسیؔ  ۔۔۔ اپنا تعارف
Self-Intro Muhammad Yaqub Assy


نام: محمد یعقوب، تخلص: آسیؔ 
Name: Muhammad Yaqub, Pen-Name: Assy
پیدائش: (میٹرک کی سند کے مطابق): یکم جنوری ۱۹۵۳ء
Birth (according to SSC): January 01, 1953
رسمی تعلیم: بی اے: پرائیویٹ (ملتان یونیورسٹی) 1978ء
Formal Education: Bachelor of Arts (BA) – Bahauddin Zakariya University Multan 1978
پیشہ: ڈپٹی کنٹرولر امتحانات، جامعہ ہندسیہ ٹیکسلا (ریٹائرڈ: ۳۱ دسمبر ۲۰۰۷ء)
Occupation: Deputy Controller Examinations (UET Taxila) – Retd. 31st December 2007
مشقِ سخن: اردو اور پنجابی (غزل، نظم، نثر، وغیرہ)
Authorship: Urdu and Punjabi – Prose and Poetry
اولین شائع شدہ کوشش: ماہنامہ ’’پنجابی زبان‘‘ لاہور ۱۹۷۲ء ایڈیٹر ڈاکٹر رشید انور۔
First published articles: Monthly “the Punjabi Zuban” Lahore 1972, ed. Dr. Rashid Anwar

تصانیف: 
Publications:
۱۔ ’’فاعلات‘‘ اردو کے لئے عروض کا نیا نظام (۱۹۹۳ء) دوست ایسوسی ایٹس لاہور
1. “Faelaat” –( New System of Prosody for Urdu); Dost Associates, Lahore 1993
۲۔ ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘( اردو نظمیں) مارچ ۲۰۱۵ء، الف لام میم پبلی کیشنز، ٹیکسلا
2. “Mujhay ik Nazm Kehni thee” (Urdu Poems); Alif Laam Meem Publications, Taxila 2015  
۳۔ ’’پنڈا پیر دھرُوئی جاندے‘‘ (پنجابی شاعری) اپریل ۲۰۱۵ء، الف لام میم پبلی کیشنز، ٹیکسلا
3. “Pinda Pair Dhruwi Jaanday” (Punjabi Poetry); Alif Laam Meem Publications, Taxila 2015  
۴۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘( اردو غزلیں) مئی ۵ا۲۰ء، الف لام میم پبلی کیشنز، ٹیکسلا
4. “Lafz Kho Jaen Gay” (Urdu Ghazals); ; Alif Laam Meem Publications, Taxila 2015  

زیرِ ترتیب:
Under Editing:                                                                                                                                 
۱۔ فاعلات کا دوسرا ایڈیشن (ترمیم اور اضافے کے ساتھ) بشمول: آسان علمِ قافیہ اور عروض اور چھندا بندی۔
1. Faelaat – Second Edition (with amendments and aditios) including “Aasan Ilm-e-Qafia” and “Arooz aur Chhanda-Bandi”.
۲۔ ’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ شائقینِ عروض کے استفسارات پر مبنی اسباق۔
2. Aasaan Arooz kay 10 Sabaq – Lessons based on the queries of readers
۳۔ ’’حرف سفیر‘‘ ہم عصر شعراء کی کتابوں کی تقریظات
3. “Harf Safeer” – Notes on Literary Work (books) of contemporary writers
۴۔ ’’بھلے لوگ‘‘ معاصر ادبی شخصیات
4. “Bhalay Log” Contemporary Literary Personalities
۵۔ ’’زبانِ یارِ من‘‘ فارسی زبان کے مختصر قواعد اوراہلِ قلم کے لئے اہم نکات
5. “Zuban-e-Yar-e-Man” Concise Rules and Hints on Persian Language for writers.
۶۔ ’’تھا وہ اک یعقوب آسیؔ ‘‘ سرنوشت
6. “Tha Wo ik Yaqub Assy” Autobiography
۷۔ ’’خوشبو اور پہیلی‘‘ نثری تخلیقات اردو
7. “Khushboo aur Paheli” Creative Prose writings in Urdu
۸۔ ’’اچیاں لمیاں ٹاہلیاں‘‘ نثری تخلیقات پنجابی
8. “Uchian Lamian Tahlian” Creative Prose writings in Punjabi
۹۔ ’’مِری آنکھیں مجھے دے دو‘‘ مختصر مضامین، شذرات اور کالم
9. “Meri Aankhen Mujhay Day Do” Short Essays, Columns and Notes

ادبی سرگرمیاں:
Literary Activities:
تیس برس کا عرصہ مقامی سطح پر سرگرمِ عمل ادبی تنظیموں میں شامل رہا: صدر، جنرل سکریٹری اور سکریٹری نشر و اشاعت، کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ مدیر مسؤل ’’ماہنامہ کاوش‘‘ ٹیکسلا۔ (اور .... پھر قویٰ ویسے نہ رہے) 
Thirty years long active participation in the local literary organization, held the offices of the President, General Secretary and Press Secretary on times, editor of “The Monthly Kawish” Taxila

بلاگ: مِری آنکھیں مجھے دے دو
Blog: “Meri Aankhen Mujhay Day Do”
http://yaqubassy.blogspot.com/

گوگل سرچ: "Muhammad Yaqub Assy" یا ’’محمد یعقوب آسی‘‘۔
میڈیا فائر، ڈراپ باکس، گوگل پلَس، اردو محفل فورم، القرطاس، فیس بُک وغیرہم۔
Google Search: “Muhammad Yaqub Assy” or “محمد  یعقوب آسی”;
Media Fire, Drop Box, Google Plus, Urdu Mehfil Forum, Face Book; etc.




English Translation of the Titles of the Literary Works:
Published:
1. “Faelaat” – Faelaat (no translation possible)
2. “Mujhay ik Nazm Kehni thee” (Urdu Poems) – I had to say a Poem
3. “Pinda Pair Dhruwi Jaanday” (Punjabi Poetry) – Feet Pulling the Body
4. “Lafz Kho Jaen Gay” (Urdu Ghazals) – Words Will Go
Under Editing:
1. Faelaat – Second Edition (with amendments and aditios) including “Aasan Ilm-e-Qafia” and “Arooz aur Chhanda-Bandi”.
2. Aasaan Arooz kay 10 Sabaq – 10 Lessons of Arooz – Made Easy
3. “Harf Safeer” – Words are the Ambassadors
4. “Bhalay Log” – Noble People
5. “Zuban-e-Yar-e-Man” – The Language of  My Love
6. “Tha Wo ik Yaqub Assy” – There was a Man named Yaqub Assy
7. “Khushboo aur Paheli” – Fragrance and Puzzle
8. “Uchian Lamian Tahlian” – High Sheesham Trees
9. “Meri Aankhen Mujhay Day Do” – Return to me my Vision


**********

جمعرات، 5 مارچ، 2015

دیکھ چاکھ کے (استفادہ، توارد، یا سرقہ) ۔۔ بدرِ احمر کے قلم سے


دیکھ چاکھ کے

استفادہ، توارد، یا ۔۔ سرقہ


ورثہ روایات کا ہو، افکار کا ہو، فن کا ہو، فکر کا ہو، اظہار کا ہو، زبان کا ہو، رسوم و رواج کا ہو، اقدار کا ہو؛ ہم میں سے ہر شخص موجود ورثے میں سے اپنی پسند اور ترجیحات کے مطابق ایک چیز لے لیتا ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ قباحت یہی ہو سکتی ہے کہ ایک کی منتخب کردہ اور اختیار کردہ چیز مجھے اچھی نہ لگے۔ سو، میں اس کو چھوڑ دوں گا۔ اگر مجھے بھی اچھی لگتی ہے تو میں بھی اپنا لوں گا۔

بھگت کبیر اور اس کی لفظیات بلکہ زبان کا ٹھیک ٹھیک ادراک تو یہاں بہتوں کو نہیں۔ سو یہی ہے کہ ایک نے ایک بات اٹھا بھی لی تو اس کا رنگ ڈھنگ، انداز کچھ نہ کچھ تو بدلا ہو گا، اس سے دوسرے تیسرے چوتھے نے وہی چیز لے لی تو وہ کچھ اور بدل گئی۔ کسی نے براہِ راست لے لی توبیان اپنے انداز میں کیا۔ گویا یہ ایک لوک ریت یا لوک روایت بن گئی، جو کسی پر بھی وارد ہو سکتی ہے۔ سرقہ کا مقام ایسی صورت میں نہیں بنتا۔

سخاؔ دہلوی نے بہت عمدہ بات کی: ’’سرقہ کی خبر یا تو سرقہ کرنے والے کو ہوتی ہے یا اس کے خدا کو‘‘؛ یہ بات صد فی صد درست نہ بھی ہو تو بھی قرینِ قیاس ضرور ہے۔ مثال کے طور پر میرا مطالعہ ہی کچھ نہیں تو میں کیسے جان پاؤں گا کہ کس نے کس کے الفاظ، خیال، مضمون کی چوری کی ہے۔ نیتوں کا حال بھی وہی بات ہے کہ نیت والا جانے یا وہ جانے جو علیم و خبیر ہے۔ یار لوگ کچھ کچھ اندازے قائم کر سکتے ہیں سو، کر لیتے ہیں۔

لیلیٰ مجنوں کا قصہ بھی پہلے پہل تو کسی ایک نے لکھا ہو گا اور اس کے پیچھے بھی کچھ دیکھا چاکھا اور کچھ سنا سنایا رہا ہو گا اور پھر جس جس نے اس ایک پہلے سے پڑھا یا سنا اُسے کون سا زبانی حفظ ہو گیا ہو گا، اس کہیں اور بیان کیا تو کچھ نہ کچھ جمع تفریق ہوئی ضرور۔ یہ سلسلہ کتنا طویل ہے اور اس کے کتنے واسطے ہیں کسے معلوم؟ سو، اس قصے کی آج دو ڈھائی ہزار صورتیں بھی ہوں تو کچھ بعید نہیں۔ یہ این ہمہ ان سب میں کوئی ایک قدرِ مشترک ضرور رہی ہو گی، اس کو ہم قصے کا مغز یا تخم بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ہر ایک کا اندازِ نظر اپنا اپنا اور بہت ساروں کے اس اپنے اپنے میں کئی کئی اشتراک بھی ہو سکتے ہیں۔ کہانی بھی اسی طور آگے بڑھتی ہے، روایت بھی اسی طور آگے بڑھتی ہے اور میرا خیال ہے کہ یہی فطری انداز ہے۔ کچھ اپنا کچھ مانگے کا، کچھ اختیار کیا ہوا اور کچھ اندر سے پھوٹا ہوا۔

ایک شخص کسی کا خیال اٹھاتا ہے، لفظ اٹھاتا ہے، چلئے چوری کی نیت سے اٹھاتا ہے؛ اسے بیان تو کرتا ہے نا! ظاہر ہے اٹھاتا ہی بیان کرنے کو ہے۔ وہ بیان کرتا ہے تو اس کی دو صورتیں بہت آسانی سے سمجھ میں آنے والی ہوتی ہیں۔ وہ بیان کرنے میں اصل کی سطح کو نہیں پہنچ پاتا، تو اہلِ علم کے ہاں مطعون ٹھہرتا ہے۔ وہ بیان کرنے میں کوئی ایسا پہلو نکال لیتا ہے جو اصل میں نہیں تھا اور وہی خیال، لفظ، بات اٹھ جاتی ہے تو اس کی واہ واہ ہو گئی۔ اس واہ واہ میں اس کا اپنا کچھ نہ کچھ حصہ، اس کی اپنی صلاحیتوں کا کوئی نہ کوئی پرتو ضرور کارفرما ہوتا ہے۔

یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نے کسی بدیسی زبان میں کچھ پڑھا جو اس کے آگے پیچھے کے زیادہ لوگوں نے نہیں پڑھا۔ اس نے پڑھا، اپنے لفظوں میں ڈھالا اور اپنے انہی آگے پیچھے کے لوگوں میں بانٹ دیا۔ خدا معلوم یہ ترجمہ ہے یا ترجمانی ہے یا کیا ہے۔ پر، علم میں اضافے کا وسیلہ ضرور بنتا ہے۔ ایک نے چھ سو صفحوں کی ایک داستان، ناول، قصے، مثنوی کی تلخیص پندرہ بیس صفحوں میں لکھ دی۔ اس نے بھی استفادہ تو کیا ہے نا، اور اس کے قاری اس سے استفادہ کرتے ہیں، وہ موقع فراہم کرتا ہے۔ سو، ہر ایک کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور ہے اور اس کے اچھے اثرات کے امکانات بھی بہت ہیں۔ تو، کیوں نہ ہم بھی استفادہ کریں! پر، ذرا دیکھ چاکھ کے!۔

محمد یعقوب آسیؔ سوموار ۲؍ مارچ ۲۰۱۵ء