جواب: شاعر خود جیسے کہتا ہے مان لیجئے۔
ساخت کے لحاظ سے کچھ ایسا ہے کہ:
مادہ (ض ر ر): ضرر، نقصان، تکلیف، بے چینی
بابِ اِفتعال: اِض تِ رار (ت ، ط کا تبادلہ قاعدہ موجود) : اِضطِرار ( معانی حسبِ بالا)
اسمِ فاعل (مُفتَعِل): مُض طَ رِر (مضاعف میں تشدید کا قاعدہ موجود): مُضطِرّ۔
اردو میں یہ تشدید حذف بھی ہو سکتی ہے: مُضطِر (جو اضطرار کا باعث بنے)
اسمِ مفعول (مُفتَعَل): مُض طَ رَر (مضاعف میں تشدید کا قاعدہ موجود): مُضطَرّ۔
اردو میں یہ تشدید حذف بھی ہو سکتی ہے: مُضطَر (جس پر اضطرار واقع ہو)
مادہ (ض ر ر): ضرر، نقصان، تکلیف، بے چینی
بابِ اِفتعال: اِض تِ رار (ت ، ط کا تبادلہ قاعدہ موجود) : اِضطِرار ( معانی حسبِ بالا)
اسمِ فاعل (مُفتَعِل): مُض طَ رِر (مضاعف میں تشدید کا قاعدہ موجود): مُضطِرّ۔
اردو میں یہ تشدید حذف بھی ہو سکتی ہے: مُضطِر (جو اضطرار کا باعث بنے)
اسمِ مفعول (مُفتَعَل): مُض طَ رَر (مضاعف میں تشدید کا قاعدہ موجود): مُضطَرّ۔
اردو میں یہ تشدید حذف بھی ہو سکتی ہے: مُضطَر (جس پر اضطرار واقع ہو)
شاعر خود بہتر جانتا ہے
کہ وہ اضطرار کا باعث ہے یا شکار؛ سو ٹھیک ہے صاحب! آپ نے جیسا کہا، ہم نے مان
لیا