راکبِ حرف
نوجوان شاعر راکب راجا کے
پہلے شعری مجموعے ’دلاسہ‘ کے حوالے سے چند باتیں
راکبِ حرف سفر تیرا کٹھن ہے، ہے نا!
پر عجب زور پہ منزل کی
لگن ہے، ہے نا!
اس کو گھر پھونک تماشا
بھی کہا جاتا ہے
شعلۂ جاں کو سزاوار سخن
ہے، ہے نا!
راکب محمود راجا نے میرے سامنے اپنا شعری سفر شروع کیا۔ حلقہ تخلیق
ادب کے ہفتہ وار ادبی اجلاسوں میں آنے لگا تو بہت جلد مقبول ہو گیا۔ اس کی وجوہات
تو بہت سی ہیں، مثلاً اس کا اٹھنا بیٹھنا، اندازِ گفتگو، شائستہ اور سلجھی ہوئی
شخصیت تاہم ادب کے حوالے سے اس کی مقبولیت کی اولین وجہ اس کی امکانات سے بھرپور
شاعری ٹھہرتی ہے۔ابتدائی دنوں سے ہی جسے مشق کا دور کہا جا سکتا ہے، راکب محمود نے
پر مغز شاعری کی اور بجا طور پر داد پائی۔ وقت اور تجربے کی اہمیت سے کسی کو انکار
نہیں ہو سکتا۔ فن کی تکمیل کی طرف سفر جہاں خونِ جگر کا مرہون ہے وہیں صبر و تحمل
اور جان گسل انتظار کا بھی متقاضی ہے۔ یہ کہنا کہ راکب نے شروع ہی سے اعلیٰ درجے
کی شاعری کی ہے، مبالغہ ہو گا۔ تمام مبتدیوں کی طرح اس کے اشعار میں بھی لفظی،
معنوی اور فنی فروگزاشتیں پائی جاتی رہی ہیں تاہم اس کا ذوق اور شوق، سیکھنے کا
عمل اور رفتار، فنی باریکیوں کا ادراک اور سلیقہ سب کی رفتار تسلی بخش رہی ہے۔
میرے سامنے کی بات ہے، اس نے سیکھنے کے لئے دوسروں سے پوچھنے کو کبھی عار نہیں
جانا، دوسروں کی آراء پر اندھا اعتماد بھی نہیں کیا،ہر قابلِ توجّہ اور قابلِ عمل
رائے پر خوب غور و خوض کر کے اسے اپنایا ہے۔ اس کا خود پر یہ اعتماد اور کھلا ذہن
اس کی تیز رفتار بہتری پر منتج ہوا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا سفر اعتماد،
جذبے اور لگن کا سفر ہے۔
مجھے بڑی خوشگوار حیرت ہوئی جب اس نے اپنے شعری مجموعے کی اشاعت کا
عندیہ ظاہر کیا۔ حلقہ احباب نے بھی اس کے ارادے کو سراہا۔ ہمارے بہت قریبی دوست
احمد فاروق کی رائے البتہ قدرے محتاط تھی۔ احمد فاروق کے بارے میں بتاتا چلوں کہ
وہ مقدار سے کہیں زیادہ معیار کے قائل ہیں اور ان کے اپنے اشعار میں فکری اور فنی
پختگی نمایاں ہے۔ احباب جانتے ہیں کہ وہ شخصیت کی بجائے فن پر گفتگو کرنا پسند
کرتے ہیں اور ان کا ہر لفظ ان کی احتیاط پسندی کا مظہر ہوتا ہے۔ راکب محمود راجا
کا جو نمونہ کلام مجھے موصول ہوا اسے پڑھ چکے تو مجھ سے سوالیہ انداز میں کہا: کیا
راکب محمود نے جلدی نہیں کی؟ اگر وہ کچھ اور شاعری کر لیتے اور پھر اس میں سے
انتخاب کرتے تو کیسا رہتا؟۔ ان کے یہی دو جملے ہیں جن کو میں کسی قدر مختلف رائے
قرار دیتا ہوں۔ تاہم میں ان سے پوری طرح متفق نہیں ہوں۔ میری سوچی سمجھی رائے ہے
کہ آج کے تیز رفتار دور میں تاخیرکی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔ ہمارے بزرگ دوست سید
علی مطہر اشعر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ میں شخصی اور فنی، دونوں حوالوں سے اشعر
صاحب کا معترف ہوں۔ حلقہ تخلیق ادب کے خبرنامہ ’’کاوش‘‘ کے صفحات میرے اس اعتراف
کے گواہ ہیں۔ مجھے یہ حرفِ جسارت کہنے کی اجازت دیجئے کہ انہوں نے اپنا مجموعہ
کلام شائع کرانے میں بہت تاخیر کر دی اور اشعر صاحب کے خوشہ چین قریب قریب وہ سارے
مضامین شاعری میں لے آئے جن کی اصل قارئین تک دیر سے پہنچی۔ میرا مقصد اشعر صاحب
اور راکب محمود راجا کا تقابلی جائزہ لینا نہیں، تاہم مجھے راکب کے ہاں بہت سے
ایسے مضامین دکھائی دیتے ہیں جو اس وقت راکب کے اپنے مضامین ہیں اور زیرِ نظر کتاب
کی اشاعت میں تاخیر انہیں کسی اور سے منسوب کر سکتی تھی۔ دوسری طرف اس نوجوان غزل
گو کی رفتارِ گفتار بھی کوئی حوصلہ شکن نہیں ہے۔ ابھی اسے اور شعری مجموعے بھی
لانے ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ کل کا ناقد راکب محمود راجا کے شعری سفر کا منزل
بہ منزل تجزیہ زیادہ بہتر طور پر کر سکے گا۔ میں یہ اعتراف بھی کرتا چلوں کہ کوئی
بات ہضم کر جانا میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ احمد فاروق نے جو کچھ مجھ سے کہا ، میں
نے اسی طرح راکب محمود راجا کو کہہ سنایا۔ یوں مجھے اس کے کھلے ذہن کی ایک اور
گواہی مل گئی۔ راکب نے برجستہ کہا: احمد فاروق نے بالکل ٹھیک کہا ہے!
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس نوجوان مفکر کے بعض
اشعار میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، تاہم ایک بہت اچھی بات اس کے ہاں یہ ہے کہ اس
نے جو کچھ لکھا ہے، پورے اعتماد سے لکھا ہے۔ میں نے اسے نوجوان مفکر اس لئے کہا کہ
اس کے الفاظ اس لقب کی گواہی دے رہے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
ع
مار ڈالے نہ شام و سحر سوچنا
ع
دشت میں رائیگاں ہے شجر سوچنا
ع موت کی کہانی ہے، زندگی
کے چہرے پر
اس کے ہونے کا گماں ہونے لگا
مجھ کو اک تصویر دھوکا دے
گئی
ہمارا یہ نوجوان غزل گو شاعر، غزل کی نزاکتوں سے آگاہ بھی ہے اور
الفاظ کی درستی اور نشست پر بھرپور توجّہ بھی دیتا ہے۔ کتنی بار ایسا ہوا کہ اس نے
ایک لفظ کے معنی اور اپنے کسی زیرِ غور شعر میں اس کی نشست پر دوستوں کی رائے
جاننے اور مشورہ کرنے کے لئے ٹیلیفون پر رابطہ قائم کیا، یا خود چلا آیا۔ اس کے
ہاں موضوعات کی رنگا رنگی بھی ہے، نئے نئے قوافی اور ردیفیں بھی ہیں، اظہار میں
کہیں جدت نظر آتی ہے اور کہیں وہ روایتی انداز اپناتا ہے۔ کلام کی وہ خصوصیت جسے
عرفِ عام میں اسلوب کا نام دیا جاتا ہے اور جس بناء پر ہم کسی شاعر کے کلام کو
دوسروں سے ممیز کر سکتے ہیں، اس کے ہاں ابھی تشکیل پذیر ہے اور میں یہ دیکھ رہا
ہوں کہ بہت جلد وہ اپنے اسلوب کے حوالے سے بھی پہچان لیا جائے گا۔ اور پھر میں
بھی، اور آپ بھی، کہہ سکیں گے کہ:
اس کے لہجے میں بات کون
کرے
اس کا لہجہ تو بس اسی کا
ہے
میں نے مضامین کی رنگا رنگی کی بات کی تھی، یہ تنوع اس کی چھوٹی بحر
کی غزلوں میں نہ صرف کسی قدر زیادہ ہے بلکہ وہاں اظہار بھی خوب تر ہے، اور اس کی
وجہ صاف طور پر یہ نظر آتی ہے کہ اختصار سے حسن پیدا ہوتا ہے، اگر بات سلیقے اور
قرینے سے کی جائے۔ مثال کے طور پر:
آپ ڈھونڈیں وفادار کو
مجھ کو اک بے وفا ٹھیک ہے
پیسے والوں کو ایک دن
راکب
مار ڈالے گا مار پیسے کا
اور خاص طور پر ایک شعر پیش کرنا چاہوں گا ۔ اس کا سب سے بڑا وصف یہ
ہے کہ یہ آپ کو چھیڑ دیتا ہے۔ پروفیسر انور مسعود کے الفاظ میں شعر کی خوبی یہ ہے
کہ وہ آپ کو چھیڑ دے اور ذہن اس کے پیچھے یوں دوڑے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے بھاگتا
ہے۔ راکب کا یہ شعر کچھ ایسے چھیڑ جاتا ہے کہ تتلی ایک نہیں رہتی، سارا چمن تتلیاں
بن جاتا ہے۔ اشکوں کے گہر ہائے گراں مایہ کا زیاں اور اس زیاں پر ’’ہائے‘‘ کی
ادائیگی، اور اس پر مستزاد غزل کی ردیف! شعر ملاحظہ ہو:
ہمارا عشق ہائے کچھ نہ
پوچھو
بہت آنسو گنوائے کچھ نہ
پوچھو
اسی غزل سے دو اشعار مزید
دیکھئے:
ہمارے راستے میں گل رخوں
نے
بہت کانٹے بچھائے کچھ نہ
پوچھو
عدو تو ہیں عدو، احباب نے
بھی
کچھ ایسے گل کھلائے کچھ
نہ پوچھو
ایک اور غزل جس کا مطلع ہی قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ سراب کی حقیقت کو کس شوخ انداز میں واشگاف کیا جا رہا ہے!
کیا تماشا ہوا دھوپ میں
ریت پانی لگا دھوپ میں
اس غزل کا آخری شعر بھی دیکھتے چلئے کہ یہ شعر کل کے راکب محمود راجا کی شناخت بننے والا ہے:
میں غموں میں پلا اس طرح
پیڑ جیسے پلا دھوپ میں
راکب محمود نے لفظیات بھی تراشی ہیں اس کے ہاں آنے والے کچھ نئے الفاظ دہراتا چلوں: شبنمی تبسم، جستجوئے خلوص، الفت کا خنجر، آتشِ الفت کا ذائقہ، خوشیوں کی کھنک، درد کی زنجیر، سرِ راہِ حیات، قیمتِ خاکِ دل، آنسو گنوانا، شعلۂ حالات، اونچے مکانوں کے تعاقب میں، وغیرہ۔
آپ جان گئے ہوں گے کہ میں نے اس کے موضوعات کو چھیڑنے سے ارادتاً
گریز کیا ہے۔ آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو خود جان جائیں گے کہ رہ گزارِ سخن کا یہ
سوار کس رفتار سے منزل کی طرف رواں ہے۔ مجھے تو اس کے اِس خواب کی تعبیر کی طرف
صرف اشارہ کرنا ہے:
چلا جائے گا جب دنیا سے
راکب
تو رہ جائے گا پھر تنہا
زمانہ
محمد یعقوب آسی ۔۔ 24 ستمبر 2000ء۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں