بے چارہ (۸)
ہمیں یک گونہ مسرت ہوئی جب حضرت صاحب نے فرمایا کہ آج ہم سورۃ اخلاص کا مطالعہ
کریں گے۔ یوں بھی آدھا گھنٹہ بہت مناسب وقت تھا۔ ہم نے حضرت صاحب سے شاید کچھ
زیادہ ہی توقعات وابستہ کر لی تھیں۔ سو، اگر ان کے خطاب بلکہ خطبے کے بعد ہمیں یک
گونہ مسرت کی بجائے دو گونہ حسرت کا شکار ہونا پڑا۔ اس میں حضرت صاحب کا کیا
قصور! انہیں تو اپنے لگے بندھے انداز میں اپنی علمیت کا اظہار کرنا تھا، سو کر
دیا۔ ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم ساٹھ سے اوپر کے ہو گئے مگر اپنے حضرت صاحبان کی
نظر میں ہماری عقل کی سطح میں سے صفر نکل جاتا ہے، چھ بچتا ہے بس! اوپر کا کیا ہے! ہوا
نہ ہوا، برابر۔
بہر کیف حضرت صاحب نے تقریر کی ابتدا فرمائی اور سورۃ اخلاص کی اہمیت کو
احادیث کی روشنی میں بیان فرمایا۔ ہمیں اپنے علم کی محدودیت کے پیشِ نظر اتنی خوش
گمانی ضرور ہے کہ حضرت نے روایات ساری درست نقل فرمائی ہیں، اور ایک ہی متن کی
متعدد روایات کو بھی پورے اہتمام سے لفظ بہ
لفظ پڑھا اور ان کا آزاد ترجمہ کیا ہے (آزادی کا حق انہیں نہیں تو اور کسے حاصل ہو گا!)۔ ترجمہ اگر نہیں کیا تو اسی سورۃ اخلاص کا نہیں کیا جس کا وہ مطالعہ فرمانے چلے تھے۔ حال آن کہ حضرت صاحب بھی ہمارے اس ملی المیے سے
آگاہ ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ ان کے سامنے بیٹھے لوگوں میں شاید کسی ایک آدھ کو ’’لم یلد و لم یولد‘‘ کا مطلب معلوم ہو۔ ثلثِ قرآن کا جو تصور موصوف نے بیان فرمایا اسے سن کر ہمیں ممتاز مفتی کی ’’ثوابوں کی گٹھڑیاں‘‘ یاد آ گئیں۔ آدھے گھنٹے کے ’’خالص
عالمانہ خطاب‘‘ کے بعد حضرت صاحب سے یہ بھی نہ ہوا کہ ایک رکعت میں ہی اس سورۃ کی
تلاوت شامل فرما لیتے۔
ہم اگر مزید کچھ عرض کریں گے توحضرت صاحب اور ان کا پورا مکتبۂ تہی فکر ہمارے
خلاف ایک پورا مجلۂ فتاویٰ جاری فرما دیں گے، سو ہمیں خاموش رہنے کی اجازت دی
جائے۔
بدرِ احمر کے قلم سے
یکم اپریل ۲۰۱۶ء