نعت میں خطابیہ لہجہ اور صیغہ واحد حاضر
اس موضوع پر پہلے سے اتنے طویل مباحث موجود ہیں جن پر کوئی مفید اضافہ اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اپنے محسوسات کے حوالے سے چند گزارشات کرنا مقصود ہے۔ اچھی لگیں تو دعا دیجئے گا، اچھی نہ لگیں تو بھی دعا دیجئے گا۔
جناب حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نعت گویوں کے امام ہیں۔ ظاہر ہے انہوںؓ نے نعت میں جو کچھ نظم کیا، وہ عربی میں ہے۔ جناب حسانؓ کے نعتیہ کلام میں تخاطب کا صیغہ غالب ہے یعنی واحد حاضر مذکر۔ اِنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءٗ۔ اس کے لفظی ترجمہ میں نبی کریم کے لئے اردو کا اسمِ ضمیر ’’تُو‘‘ آتا ہے۔ فارسی میں بھی ایسا ہی ہے۔ عرب قواعد کے مطابق صیغہ واحد مذکر حاضر کے لئے کَ : اَنْتَ لاتے ہیں اور فارسی میں تو لاتے ہیں۔ انگریزی میں بھی ایک عرصہ پہلے تک thou, thy, thee, thine مستعمل تھا، شاعری میں آج بھی ہوتا ہو گا (کوئی اہل لغت بتائیں گے) ؛ حالیہ نثر میں یہ غالباً شاذ ہے یا صرف وہیں مستعمل ہے جہاں ناگزیر ہو۔ دعا، درخواست، خطاب کے موقع پر اِس ’’تُو‘‘ کا استعمال، اللہ کریم جل جلالہٗ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر محترم شخصیت کے لئے مروج رہا ہے اور وہیں سے اردو میں آیا ہے۔ صیغہ واحد غائب میں بھی کچھ ایسا ہی چل رہا ہے۔
اس میں ایک عنصر یہ بھی رہا ہے کہ اللہ کا کوئی ثانی نہیں، لہٰذا اُسے خالص واحد صیغہ’’ تو‘‘ ہی میں پکارا جائے گا؛ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مثیل نہیں، لہٰذا آپ کے لئے بھی (تخاطب کی صورت میں) واحد حاضر کا صیغہ رائج رہا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’تم‘‘ کا صیغہ بھی دیکھنے میں آیا ہے، وجہ اس کی غالباً یہ ہے کہ ہم اردو میں واحد حاضر کے لئے ’’تم‘‘ بھی بولتے ہیں؛ انگریزی میں جیسے thou کی جگہ you نے لے لی، تاہم مراد مخاطب واحد ہی ہوتا ہے۔
اردو میں شائستگی کا عنصر ’’تُو‘‘ اور ’’تم‘‘ کو بدل کر ’’آپ‘‘ کی صورت دے دیتا ہے، اور فعل کا صیغہ بھی واحد سے جمع میں بدل جاتا ہے۔ ہم اپنے والدین اور بزرگوں کو اور دیگر محترم شخصیات کو تُو یا تم کہہ کر پکارنا معیوب خیال کرتے ہیں کہ ایسا کرنا شائستگی کے خلاف ہے۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمارے جملہ محترمین سے ہزاروں لاکھوں درجے زیادہ محترم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ کلمات کیوں نہ ادا کئے جائیں جو ممکنہ حد تک احترام کی اعلٰی ترین سطح کی نمائندگی کریں۔ اس لفظ ’’آپ‘‘ میں ایک اور خوبی بھی ہے، کہ یہ غائب کے لئے بھی بولا جاتا ہے، یعنی جہاں تخاطب کی بجائے ذکر مقصود ہو۔ کسی فرد مفرد کے حوالے کے بغیر (صیغہ واحد غائب کے لئے) یہ جملے دیکھئے: (۱) اس نے کہا، (۲) انہوں نے کہا، (۳) آپ نے کہا، (۴) آپ نے فرمایا، (۵) آپ کا ارشاد ہے؛ وغیرہ۔ بات کرنے والے کے لہجے میں مذکور کے لئے احترام کے درجات از خود واضح ہوتے جاتے ہیں۔
یہاں ہمارے ایک خطیب ہیں وہ دعا میں اللہ کریم کو بھی ’’آپ‘‘ کہتے ہیں۔ مثلاً: آپ غفور و رحیم ہیں، ہم کمزوروں کی کوتاہیوں سے صرفِ نظر فرمائیے اور ہمارے گناہوں کو معاف فرمائیے، تمام جہانوں کو آپ نے تخلیق فرمایا اور حکم بھی آپ کا چلتا ہے؛ و علٰی ہذا القیاس۔ اور سچی بات ہے کہ یہ لہجہ اچھا لگتا ہے۔
رہی بات یہ کہ اساتذہ نے خطابیہ لہجے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو، تم، تیرا، تمہارا، تجھے، تمہیں استعمال کیا ہے؛ یہ درست ہے؟ یا نادرست؟ میری درخواست ہے کہ گزشت آن چہ گزشت؛ آپ اس بحث میں نہ پڑئیے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو، تم، تمہارا کی بجائے ’’آپ‘‘ کو اپنائیے۔ اللہ توفیق دے۔
جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں یہ گزارشات میرے محسوسات کی نمائندہ ہیں؛ اچھی لگیں تو دعا بھی دیجئے گا اور ان کو اختیار بھی کیجئے گا، اچھی نہ لگیں تو بھی دعا سے محروم نہ کیجئے گا۔
فقط ۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
6 ۔ اگست 2011 ء
ماشا اللہ
جواب دیںحذف کریںباسمہ سبحانہ
جواب دیںحذف کریںاس بارے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہر زبان کا علیحدہ طور اور روز مرہ ہے، مثلاً ایک لفظ "بَکنا" ہے ، ہمارے ہاں یہ لفظ اچھے احساسات کی ترجمانی نہیں کرتا لیکن ہندوستان کی ایک ریاست میں یہ بطور تعظیم بولا جاتا ہے، اس ریاست میں کسی مقرر کو دعوت دیتے وقت کہا جاتا ہے کہ "سامعین اب میں دعوت دیتا ہوں مہابکتا فلاں صاحب کو ، کہ وہ اسٹیج پر تشریف لائیں اور بَکیں۔"
اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں یہ لفظ توتکار کے وقت بولا جاتا ہے کہ " بکو مت" یا "کیا بکتے ہو" وغیرہ
اسی طرح ہی عربی کی ضمیر مخاطب "ک" یا "انت" کا معاملہ ہے۔ عربی ان تکلفات سے مبراء ہے، یہ آپ ، جناب وغیرہ تمام عجمی تکلفات ہیں، آپ نے حضرت حسان والی جو مثال پیش کی اس سے ہٹ کر بھی احادیث میں صحابہ اور نبی کریم ﷺ کے مکالمے موجود ہیں، ان مکالموں میں بھی صحابہ نے نبی ﷺ کو "انت" کہہ کر ہی بات کی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن میں نبی ﷺ کو اللہ تعالٰی نے ضمیر واحد مخاطب حاضر سے ہی خطاب کیا ہے۔"
بہر حال " باخدا دیوانہ باش و بام حمد ہوشیار"
جنابِ سومرو ۔۔ توجہ کے لئے ممنون ہوں۔ میرا نکتہ اردو کی اپنے پاس موجود لفظیات سے متعلق ہے۔ عربی کی بات مثال کے لئے تھی کہ ہر زبان کا اپنا اپنا دائرہ ہوتا ہے۔ جب ہمارے پاس ایک مہذب اظہاریہ موجود ہے تو کیوں نہ اس سے کام لیا جائے۔ بارِ دگر شکریہ۔ دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
حذف کریںجزاک اللہ - بڑی عمدہ بات بیان کی ہے آپ نے - کئی بار حمدیہ اور نعتیہ کلام میں تُو اورتم پڑھتے ، سنتے ہوئے پیشانی عرق آلودہوجاتی ہے کہنے والا جس عقیدت سے احساسِ محبت سے کہے پھربھی احساس ہوتاہے تخاطب کے لیے آپ کہا جاتاتوبہتر تھا یوں بھی ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
جواب دیںحذف کریںیہ احتیاط اورپاسِ ادب ہے جو محبت میں شامل ہے-
بہت محبت ہے آپ کی، جناب مرزا زبیر ۔۔
حذف کریں