ایک ایکٹ کا شگفتہ شگفتہ
کھیل
کردار
جواد (صاحبِ خانہ)
صاعقہ (خاتونِ خانہ)
طفیل (گھریلو ملازم)
منظر
میاں بیوی دونوں لاؤنج بیٹھے ہیں۔ جواد ایک مجلے کی ورق گردانی کر رہا ہے، صاعقہ اپنے سمارٹ فون سے کھیل رہی ہے
صاعقہ: کیا پڑھ رہے ہو؟
جواد: کچھ نہیں، ایسے ہی بس ورق گردانی کر رہا ہوں، میگزین کی۔ تم کیا کر رہی ہو۔
صاعقہ: ’’ کیا کر رہی ہو، کہاں جا رہی ہو، کون آ رہا ہے‘‘.... میں کہتی ہوں، جواد! یہ کیا طریقہ ہے؟ میں کوئی سکول گرل نہیں ہوں جو تم ہر لمحے میرے ٹیوٹر بنے رہو۔ اور سنو! یہ ٹوہ لگانے والی عادت بہت بری ہے تمہاری! زہر لگتے ہو کبھی کبھی۔ ہر وقت سوال، ہر وقت ٹوکنا، اور مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیتے! بات کرتی ہوں تو سنتے نہیں ہو، یا پھر ان سنی کر دیتے ہو۔ میں کہتی ہوں میں تمہاری بیگم ہوں یا .... (جواد اس کی بات کاٹ دیتا ہے)
جواد: وہ طفیل کہاں ہے۔
صاعقہ: مر گیا ہو گا کہیں! .... یہ گلی کی نکڑ تک بھیجا تھا، ہری مرچ لانے کو، گھنٹا بھر ہو گیا! ....جہاں جاتا ہے بیٹھ جاتا ہے، نکما! ... اے میں کہتی ہوں جواد! تم نے سر چڑھا رکھا ہے اسے! میں تو اسے کب کا چلتا کر چکی ہوتی! نکمے لوگ، سمجھتے ہیں گھریلو ملازموں کا کال پڑا ہے۔ ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں! تمہیں پتہ نہیں اُس میں کیا دکھائی دے گیا جو اُس کو اٹھا لائے! .... جواد! .... جواد! .... میں تم سے بات کر رہی ہوں، بولتے نہیں ہو۔ .... اپنے لاڈلے طفیل صاحب کا کام بھی خود ہی کر لیا کرو، .... اسے کیوں رکھا ہے روٹیاں توڑنے کو؟ .... پر، تم سے کیا ہوگا! نہیں تو اس طفیلے کو کیوں لاتے! سارا ہفتہ شام تک دفتر میں پڑے رہتے ہو اور .... چھٹی کے دن بھی، اول تو کہیں باہر گئے ہوتے ہو، نہ بھی گئے ہو تو پلندوں کے پلندے گھر پر اٹھا لاتے ہو.... اے، میں کہتی ہوں: کمپنی کا سارا کام کیا تمہارے کندھوں پر ہے؟ ... کچھ پھوٹو گے بھی منہ سے؟ ... میں پاگل ہوں کیا! باؤلی ہو گئی ہوں؟ جو خود سے باتیں کر رہی ہوں۔ (جواد سے مجلہ جھپٹ لیتی ہے)
جواد: آپ کا یہ خادم آپ کے خاموش ہو جانے کا منتظر تھا۔ فرمائیے!
صاعقہ: آئے ہائے! (جواد کی نقل اتارتی ہے) ’’فرمائیے‘‘ .... تم مردوں میں یہی ایک تو خوبی ہے! .... میرا سر دکھنے لگا ہے بول بول کے، .... اور تم نے ایک لفظ بھی نہیں سنا! تم مجھے پاگل کر دو گے جواد! .... بلکہ کر کیا دو گے کر دیا ہے! پاگل بنا رکھا ہے مجھے! .... ہائے میرا سر! وہ کمینی بھی نہیں آئی آج، حرام خور کہیں کی۔ .... نواب زادی نے گھر سے پیغام بھیج دیا کہ بیٹا بیمار ہو گیا ہے۔ ... اے لو! تو بھئی ہم نے تو بیمار نہیں کیا اُس کو۔ آ کے ناشتہ وغیرہ بنا کے دے جاتی، تو کیا ہو جاتا! اب کل منہ بسورتی آئے گی، ٹسوے بہائے گی: .... ’’بیگم صاحبہ دو سو روپے اٹھ گئے بیٹے کی دوائی پر، مجھے کچھ پیسے دے دیں، تنخواہ سے کاٹ لیجئے گا‘‘۔ ... اے میں کہتی ہوں: ہم نے یتیم خانہ کھول رکھا ہے کیا؟ .... میرا سر پھٹ رہا ہے جواد، اور تم پتھر کی طرح چپ بیٹھے ہو!
جواد: طفیل آتا ہے تو اس کے ہاتھ سردرد کی گولی منگوا لینا۔ تمہاری نان سٹاپ تقریر سے سردرد تو مجھے ہونا چاہئے تھا۔ ہو سکے تو کچھ دیر خاموش رہ لو، تھوڑا سا سکون مل جائے گا۔
صاعقہ: وہ تمہارا لاڈلا طفیلی کیڑا واپس آئے گا تب نا! تم جا کے کیوں نہیں لا دیتے سردرد کی دوا؟
جواد: یہ بھی ٹھیک ہے! اچھا میں لاتا ہوں دوائی، کچھ اور بھی منگانا ہے تو بتا دو، لیتا آؤں گا۔
صاعقہ: میں نے لسٹ نہیں بنا کے رکھی ہوئی! ... دوائی لا دو، ڈاکٹر کا نسخہ میری دراز میں رکھا ہے، وہ ساتھ لیتے جانا ... نہیں تو خالی ہاتھ لوٹ آؤ گے کہ دوائی کون سی لانی تھی .... اے! یہ تم نے کہا کیا تھا؟ ’’تھوڑا سا سکون مل جائے گا‘‘؟ کسے مل جائے گا سکون؟
جواد:دونوں کی بات کی ہے۔
صاعقہ: آئے ہائے جواد! مجھے سردرد کہتے ہو تم؟ .... جواد! تم؟ بھول گئے اتنی جلدی؟ .... ابھی تو بیس سال بھی نہیں ہوئے! میری ایک ایک ادا پر مرتے تھے تم! ڈرامے باز کہیں کے! ہر وقت ’’صاعقہ صاعقہ صاعقہ‘‘ ..... ( کچن میں کھٹ پٹ کی آواز آتی ہے، وہ بلند آواز میں پوچھتی ہے) .... کون ہے ادھر؟
طفیل: (کچن ہی سے) میں ہوں بی بی جی! ہری مرچ یہاں رکھ دی ہے، ادرک بھی لے آیا ہوں، بریانی مسالہ بھی، مکھن کی ٹکیاں اور ......
صاعقہ: (مزید بلند آواز میں) ادھر تو آؤ! احمق کہیں کے! (طفیل کے آتے قدموں کی چاپ)
طفیل: جی، جی بی بی جی۔
صاعقہ: میں نے تجھے ایک ہری مرچ لانے کو کہا تھا، تو اتنی ساری چیزیں اٹھا لایا! مفت میں بٹ رہی تھیں کیا!!؟
طفیل: (گھبرائے ہوئے لہجے میں) وہ جی، وہ، وہ، کچن میں یہ چیزیں نہیں تھیں جی۔ میں نے سوچا ....
جواد: (بات کاٹتے ہوئے) طفیل! بیکری تک جاؤ ذرا، چار پانچ دوستوں کے لئے چائے کا سامان لانا ہے۔ یہ لو پیسے۔
طفیل: جی صاحب جی
جواد: نہیں! چائے نہیں، چائے بنانی پڑے گی۔ .... کولڈ ڈرنک کا کر لینا، اوکے؟
طفیل: جی صاحب جی۔ (طفیل کے جاتے قدموں کی چاپ)
صاعقہ: میں یوں ہی نہیں کہتی جواد! .... تم نے اس کو ہزار کا نوٹ تھما دیا، بتایا کچھ بھی نہیں۔ پتہ نہیں کیا الا بلا اٹھا لائے گا، اور تم اسے پھر بھی شاباش دو گے۔ .... سر چڑھا رکھا ہے تم نے! میں کہتی ہوں کیوں منہ لگاتے ہو، اِن کو؟
جواد: (تلخی کے ساتھ) سنو صاعقہ بیگم! ہر وقت کڑکتی رہتی ہو، اپنے نام کی طرح۔ .... تمہیں پتہ ہے بجلی دور کڑک چمک رہی ہو تو اچھی لگتی ہے، میں وہ کہتا پھرتا تھا: ’’صاعقہ صاعقہ صاعقہ‘‘۔ .... اب جو ہمہ وقت عین میرے سر پر کڑکتی ہو، نا! تو .....
صاعقہ: (تقریباً چیختے ہوئے) کیا، کیا، کیا، کیا! .... یہ تم ہو جواد؟ جواد یہ تم ہو؟!۔ یہ تم کہہ رہے ہو؟ .....
(جواد کے موبائیل فون پر کال آ جاتی ہے)
جواد: ہاں بھئی خواجے .... ہاں، میں گھر پر ہوں .... آ جاؤ یار، بس، اور
کیا ہے! کون کون ہے تمہارے ساتھ؟ .... انہیں بھی ساتھ لے آؤ، کوئی ہرج نہیں، اگر
وہ خود بور نہ ہوں تو .... کس کی مہربانی؟ شٹ اپ خواجہ! .... تم جانتے ہو یہ
فارمل انداز مجھے اچھا نہیں لگتا، کم آن! ....مجھے کہیں نہیں جانا، یار! ... او کے۔
صاعقہ: کون آ رہا ہے؟ .... وہی ہوں گے، ایک وہ کسی مَشروم اخبار کا ایڈیٹر، ... ایک وہ نقاد کیا نا م ہے اس کا، .... اور، وہ کون ہے وہ .... ؟ وہی جس کو ہنسنے کا بھی سلیقہ نہیں آتا (طنزیہ ہنسی ہنستی ہے) اور وہ ہو گا، تمہارا طوفان آبادی پاگل خانہ، اور .... پتہ نہیں کون سارے نکمے اکٹھے ہو کر آ جاتے ہیں، تمہارے پاس۔
جواد: میرے دوستوں کا مذاق اڑا کر ہی سہی، شکر ہے تم ہنسی تو ہو!۔ (ہلکا سا قہقہہ لگاتا ہے) اپنے ویک اینڈ بھی کیا ہوتے ہیں، بجلی بیگم!
صاعقہ: ہو جاؤ شروع! .... میں کہتی ہوں تم نے بیوی کی قدر کرنا سیکھا ہی نہیں! نام میرا تم نے بگاڑ دیا، بچے نہ ہوتے تو میں ٹھینگا دکھا جاتی تمہیں، .... نکمے ہو تم! صرف باتیں بنانا جانتے ہو، اور کہتے مجھے ہو کہ بولتی بہت ہے۔.... میں شور نہ مچاؤں تو اس گھر کے کمروں میں گھاس اُگ آئے۔ .... میں مر گئی نا، تو پتہ چل جائے گا سکون کہتے کسے ہیں۔ .... پتہ نہیں امی کو تم میں کیا دکھائی دے گیا کہ تم پر صدقے واری گئیں اور مجھے تمہارے پلے باندھ دیا ....(چونک کر) ارے! جواد! بچوں کو تو لے آؤ! امی کے ہاں گئے ہوئے ہیں۔ بلکہ چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں۔
جواد: (سرد لہجے میں) میرے دوست آ رہے ہیں، بھائی کو فون کر دو چھوڑ جائے ۔
صاعقہ: بس؟ چل گیا نا پتہ! تمہارے دوست آ رہے ہیں۔ سیدھا کیوں نہیں کہتے کہ میرے ساتھ جانا تمہیں اچھا نہیں لگتا۔ .... تم ، تم جواد! ابھی تو میں کہتی کچھ نہیں، .... نہیں تو سمجھ آ جائے تمہیں! میری خاموشی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہو تم۔ (طفیل کے آتے قدموں کی چاپ)
طفیل: صاحب جی! بڑی میز پر لگا دوں یا بیٹھک میں؟
جواد: ڈرائنگ روم میں لگا دو یار، تکلفات میں کیا پڑنا۔
صاعقہ: (طفیل سے) اے نکمے! آ گیا ہے تو پورا دن گزار کر۔ جہاں جاتا ہے مر جاتا ہے جا کر۔ .. .. میں تمہاری چھٹی کرا دوں گی، بس یہ مہینہ پورا کر لو .... (چونک کر) اے! سنو!
طفیل: جی بی بی جی
صاعقہ: وہ کام والی بھی آج مری ہوئی ہے، تمہاری طرح۔ .... جلدی جلدی ڈش واشنگ کر دو، اور ہاں! برتنوں میں صابن رہ گیا تو میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گی۔ .... اور وہ تم نے دیکھا تھا؟ مسالے وغیرہ کچھ ختم ہو رہے تھے، وہ بھی لانے ہیں، ... اے! میں ہی بتاؤں گی سارا کچھ کیا!؟ تمہاری آنکھیں نہیں ہیں؟ خالی ٹین کے ڈبے ہو تم۔
طفیل: جی بی بی جی، وہ تو میں لے آیا تھا۔ اور آپ نے .......
صاعقہ: (ہنستے ہوئے) اچھا، اچھا! بہت سیانے ہو تم! اب زیادہ باتیں نہ بناؤ۔
(سب اکٹھے ہنستے ہیں)
اختتام
تحریر:
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
ہفتہ
: ۲۴؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء
بہت عمدہ :)
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ، امجد میانداد ۔۔ آپ کا حسنِ نظر ہے۔
حذف کریںNo doubt , that Muhammad Yaqoob Assy has a great Aesthetic sens and talent , it is not quite easy to neglect his work for reader . so this one act play has also a capability to attract the reader but in my opinion it is a great scene but the character of Begum Shami is required to be more sharped by dialogues. the second thing which i feel in this play is a weak ending . Arif Khlayam Rao
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ جناب، آپ نے توجہ فرمائی، اور حوصلہ افزائی بھی۔
حذف کریںاختتام کی بہتری کے لئے کوئی مشورہ بھی تو دیجئے نا۔ ریاض شاید کا کہنا ہے کہ عنوان موزوں نہیں ہے۔ اس پر بھی کچھ فرمائیے گا۔
شکریہ
یه اس معاشرے کی عکاسی ھے جهاں لوگ اپنی قدروں کو بھول کر آگے بڑھنے کو ترجیح دیتے ھیں. اور ویسے بھی عورت نان اسٹاپ کیسٹ ھے جسے چپ کروانے کے لئے ٹیپ ریکارڈر کا سوئچ آف کرنا پڑتا ھے. بیگم جواد شامی کا کردار اس معاشرے کی اس عورت کا ھے جو خود پسندی کا شکار ھوتی ھے جو مرد کے اچھے کئے ھوئے کام کا کریڈٹ خود لے لیتی ھے اور اپنی غلطیوں کا ملبه مرد پر ڈال دیتی ھے. یه بات ویسی ھی ھے که کسی قصاب نے بیٹی کی شادی کی اور ماں نے بیٹی سے پوچھا که میری بچی سناؤ سسرال کیسا ھے کهنے لگی که اماں ان کے گھر سے اب بو نهیں آتی میں نے بهت صفائی رکھی ھوئی ھے یعنی که میں آئی تے بو مکائیخوش فهمی و خوش گمانی کا ایسا سلسله ھے جو ختم نهیں ھوگا. مرد کی پسلی سےجنم لینے والی مرد کی اطاعت پر رضا مند نهیں دور جدید میں آزادئی ءنسواں کا رااگ الاپنے والوں کیوجه سے بھی پڑھی لکھی عورت جاھلانه حرکتیں کرنے سے نهیں چوکتی. عورت کو جاننے کے لئے ھندوؤں کے مذھب کے سات جنم بھی کم پڑھ جائیں گے. کسی نے حکایت سعدی یوں سنائی که حضرت نے خصائل نسواں پر کتاب مرتب کی جس میں عورتوں کی تمام خصوصیات کا ذکر درج کر دیا. سوچا که اس کتاب سے کسی فائده نھیں ھو گا سو دریا برد کرنے کے کئے چل پڑے راستے میں ایک محترمه کے پوچھنے پر کتاب کے بارےمیں بتا دیا محترمه نے کهاکه سعدی تم نے ابھی تک کچھ نهیں جانا تو اس جنس کو نا جاننا ھی بهتر ھے. ڈرامه مجموعی طور پر صحتمند ڈائیلاگ سے مرصع ھے بحثیت عنوان دیکھا جائے تو کهانی عنوان سےمطابقت نهیں رکھتی سوائے ایک دو مرتبه لفظ نکمے دھرانے سے اس کا عنوان بیگم جواد شامی کی تیز دھار زبان جیسا ھونا چاھئے تھا.
جواب دیںحذف کریںآداب۔ کچھ ترامیم کی ہیں، اور عنوان بھی بدل دیا ہے۔ ’’صاعقہ‘‘ اپنی معنویت کے حوالے سے آپ کو پسند آئے گا۔
حذف کریںاس قدر بھرپور تبصرے پر ممنون ہوں۔ عنوان کے بارے میں کچھ مشورہ بھی عنایت فرمائیے گا۔
جواب دیںحذف کریں