بدھ، 19 اگست، 2020

ڈراما ۔ صفحۂ قرطاس سے پردۂ سیمیں تک

کچھ موٹی موٹی باتیں


کوئی بھی کھیل ہو (سٹیج ڈراما، ریڈیو ڈراما، ٹیلی ڈراما، فیچر فلم، وغیرہ وغیرہ)؛ آپ اپنی تہذیب اور ثقافت سے جس قدر جُڑ کر رہیں گے، اپنی معاشرتی نفسیات کے مطابق چلیں گے، اپنی تاریخ کو پیش کریں گے، اپنی اخلاقی اقدار اور ایمانیات کو وزن دیں گے، پروڈکشن کے اجزاء (کہانی، مکالمہ، مناظر، لباس، اوزار، جانور، گھر، میدان، وغیرہ وغیرہ) جتنے فطری، حقیقی اور غیر ملمع شدہ ہوں گے، اتنا ہی آپ کا کھیل مؤثر اور مقبول ہو گا۔ کہانی کے ایک کردار کو برا، یا اچھا، یا بااختیار، یا مجبور دکھانا ہے تو صرف مکالمے کافی نہیں، ہر کردار کا ایک فطری گیٹ اپ بنانا ہو گا۔ پلاٹ اور منظر آفرینی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کوئی ڈراما کس حد تک ان عناصر کا پاس کر رہا ہے؛ یہی اس کا معیار ہے۔

ان سب عناصر کے مقابلے میں اگر آپ دوسروں کی نقالی کریں گے، دوسروں کی تہذیب کا پرچار کریں گے، آپ کے کھیل میں سطحیت اور ابتذال کی سطح بھی اتنی ہی ہو گی۔ یہاں تک کہ آپ کا تیار کیا ہوا ڈراما ایک شریف فیملی کے افراد اکٹھے بیٹھ کر دیکھیں تو انہیں شرم آئے گی۔

ڈراما صرف یہ نہیں کرتا کہ اس نے ایک سچائی کو ٹھیک ٹھیک پیش کر دیا، اور بس۔ ڈراما پورے معاشرے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل ڈرامے کے کرداروں جیسا بننا چاہتی ہے۔ ڈرامے کو پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ مثبت اور تعمیری سوچ پر مبنی ہونا چاہئے۔


محمد یعقوب آسی۔ ۳۰۔ اپریل ۲۰۲۰ء

پیر، 13 جولائی، 2020

نہ، نا، نہیں، ناں، کہ

........

کچھ بات معانی کی

سب سے پہلی بات یہ نوٹ کی جائے کہ لفظ ’’ناں‘‘ اردو کا نہیں ہے۔ پنجابی میں اس کے دو معنے ہیں: نہ (نافیہ)، نام، مثلاً: انج ناں کر یار، اپنا ناں دَس دے (یوں نہ کرو یار، اپنا نام بتا دو)۔ تاہم نافیہ کے لئے میری ذاتی ترجیح ’’نہ‘‘ ہے، ’’ناں‘‘ نہیں۔

نہ ( نَ ہ): اردو میں یہ حرف نافیہ ہے یعنی معانی میں نفی پیدا کرتا ہے، مثلاً: نہ کوئی آیا نہ گیا؛ نہ حساب نہ کتاب؛ میں نے نہ تو اسلم کو برا کہا نہ تمہیں؛ نہ کرو یار؛ وہ نہ بھی آیا تو کیا ہے؛ وغیرہ۔

نہیں (نَ ہی ں): اس میں ’’ن‘‘ کے ساتھ فعل ناقص (ہے، تھا، گا، وغیرہ) کا تاثر بھی شامل ہوتا ہے، مثلاً: وہ بہرا نہیں ہے؛ آپ نہیں جانتے؛ کوئی نہیں مانے گا؛ وہاں تو کوئی بھی نہیں گیا؛ وغیرہ۔ پہلا جملہ (وہ بہرا نہیں ہے): اس میں لفظ ’’ہے‘‘ کو نہ لکھنا راجح ہے۔

لفظ نہیں لفظ ہاں کا معنوی متضاد ہے۔ مثلاً: نورالدین کے بارے میں کچھ پتہ چلا؟ اس سوال کے جواب میں ایک لفظ ’’ہاں‘‘ کافی ہے (یعنی پتہ چل گیا ہے)؛ اور ایک لفظ ’’نہیں‘‘ کافی ہے (یعنی پتہ نہیں چلا)۔ یہاں ’’نہ‘‘ کا مقام نہیں ہے۔ 

نا (ن ا): اس کی بہت معروف صورت ہے معانی کو تقویت دینا (تاکید کا عنصر)، مثلاً: اٹھو نا یار، چلیں (اٹھنے کے عمل پر زور دیا جا رہا ہے نہ کہ اس کی نفی کی جا رہی ہے)؛ وہی ہوا نا جو میں نے کہا تھا (ہونا کے معانی میں تقویت پیدا ہوتی ہے)؛ ایسا نہیں ہے نا بھائی (یہ جملہ نفی کا ہے، بوجہ: نہیں؛ اور اس کے نفی ہونے کو تقویت دے رہا ہے: نا)۔ 

یہاں ایک نکتہ خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ حرف نون پر کوئی حرفِ علت (الف، واو، یاے) واقع ہو تو وہاں پیدا ہونے والی غنہ جیسی کیفیت خود اِس نون کی وجہ سے ہوتی ہے،وہاں نون غنہ ہو، یا نہ ہو ( نون غنہ کا وجود یا عدم وجود املاء کے قواعد اور لفظ کی اصولی ساخت کے مطابق ہو گا)۔

نا (بطور سابقہ): جب یہ کسی صفت سے پہلے واقع ہو تو اس کی نفی کرتا ہے، مثلاً: لائق، نالائق؛ دانا، نادان؛ آشفتہ، ناشفتہ؛ معقول، نامعقول؛ دیدہ، نادیدہ؛ سمجھ دار، نا سمجھ؛ شناسا، نا شناس؛ وغیرہ۔ عربی لفظ غیر یہ معانی بھی دیتا ہے، مثلاً: مقبول، غیر مقبول؛ معروف، غیر معروف؛ حاضر، غیر حاضر؛ وغیرہ۔ مقامی زبانوں (پنجابی ہندی وغیرہ) سے ایک سابقہ ’’اَن‘‘ بھی یہی معانی دیتا ہے، مثلاً: اَن پڑھ؛ اَن اَنت؛ اَن دیکھا؛ اَن کہی؛ اَن سنی؛ وغیرہ۔

سابقے ’’لا‘‘ اور ’’بے‘‘: ان میں بھی نفی کے معانی پائے جاتے ہیں تاہم ان کا رُخ خاصا مختلف ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ محض نفی کی بجائے نئے معانی بھی پیدا کرتے ہیں۔ مثلاً: لا متناہی، لا یعنی، لا شریک، لا فانی، لا علم، لامکاں، لا شخصی، لاشعور؛ بے علم، بے باک، بے تاب، بے کار، بے بس، بے سرا، بے ڈھنگا، بے لباس، بے وقار؛ وغیرہ۔ لاعلم اور بے علم کے معانی میں فرق ہے؛ لایعنی اور بے معنی کے معانی میں فرق ہے؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

نوٹ: زبان کا ایک عمومی قاعدہ یاد رکھیں کہ ایک ہی املاء کے حامل الفاظ معانی میں مختلف بھی ہو سکتے ہیں، اور مختلف الفاظ ایک ہی معنیٰ بھی دے سکتے ہیں (اس کا انحصار آپ کے اپنے ذخیرہء الفاظ پر ہے)۔یعنی: املاء کو معانی میں اور معانی کو املاء میں مقید نہیں کیا جا سکتا۔

............

عروض میں ’’نہ‘‘ اور ’’کہ‘‘ کی بندش

اشرافیہ (کلاسیک) میں ان دونوں لفظوں کو یک حرفی باندھنے کی روایت ہے۔ اساتذہ نے بھی جہاں ’’نہ‘‘ دوحرفی باندھنا لازم جانا وہاں لفظ ’’نَے‘‘ لائے ہیں، حالانکہ ’’نا‘‘ ان کے علم میں تھا۔ اگر ’’نا‘‘ (دوحرفی) لانا درست مانتے تو ’’نَے‘‘ کی ضرورت نہ ہوتی۔ ’’کہ‘‘ (بیانیہ) کے معاملے میں البتہ کچھ لچک ملتی ہے کہ کہیں اس کو دوحرفی باندھنے کی گنجائش دے دی جائے۔ تاہم یہ بھی ایک انداز کی رعایت یا نرمی ہو گی، نہ کہ قاعدہ۔

........................................

۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
جمعرات 17؍ اگست 2017ء

جمعہ، 15 مئی، 2020

سنت اور فرض کا فرق؟؟


سنت اور فرض کا فرق

مسئلہ (سنت اور فرض کا فرق) شروع کہاں سے ہوا۔ اللہ کریم نے اپنے انبیاء کے وظائف میں کچھ ایسی باتیں رکھ دی ہیں، کہ امتی ان باتوں کے مکلف نہیں۔ جو چیز نبی پر فرض ہے ہو سکتا ہے امت اس چیز سے واقف ہی نہ ہو۔ جو چیز امت کے لئے مستحب ہے وہ نبی کے لئے لازم بھی ہو سکتی ہے۔ کیوں؟ وہ ہمارے پاس اللہ کا نمائندہ اور رسول ہے، اس کی ذمہ داریاں (اللہ کے حوالے سے) امتی سے کہیں زیادہ ہیں۔ ایسے امور بھی ہو سکتے ہیں جن میں نبی کو اختیار دیا گیا ہو اور امتی کو نہ دیا گیا ہو۔ ہم امتی ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ایک امتی ہونے کے ناطے ہمیں کیا کرنا ہے۔ یہاں تک احکام بالکل واضح کر دئے گئے اور ان کا قابلِ عمل ہونا بھی یقینی بنا دیا گیا۔ ان سے آگے؟ اللہ جانے اور اس کا نبی جانے، آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟

عبادات اور مناسک میں مثلاً نماز اور روزے میں توجہ فرمائیے۔ جسے ہم عرفِ عام میں فرض کہتے ہیں، وہ ہے جسے کتاب اللہ نے کُتِبَ علَیکم کہا ہے کہ ان کا کرنا لازم ہے مثلاً نمازِ ظہر کے چار فرض (جمعے کی نماز میں وہی فرض دو رہ گئے)۔ کچھ مناسک وہ ہیں جن کا اللہ کریم نے ویسے حکم نہیں دیا، نبی ان کو کرتا ہے؛ وہ سنت ہیں۔ جیسے ظہر سے پہلے کی (چار، یا دو) اور بعد کی (دو) سنتیں ہیں۔ ان کو سنتِ مؤکدہ کا نام دے دیا گیا۔ کچھ مستحبات ہیں جن کی اپنی اہمیت ہے تاہم حکم ہے کہ کر لو تو اچھا ہے، جیسے ظہر کی نماز کے بعد دو نفل ہیں۔ ظہر کی مثال ہم نے اس لئے لی ہے کہ اس میں وہ مناسک کے تینوں درجے آ گئے۔ عصر کی نماز (چار فرض) سے پہلے دو یا چار رکعت پڑھنا مستحب ہے، اس کو سنتِ غیرمؤکدہ کا نام دے دیا گیا۔

یوں کچھ وضاحتیں خود اپنے اوپر لاد لی گئیں اور وہی کہ فرض کا انکار نہیں ہو سکتا، سنت کا انکار ہو سکتا ہے؛ وغیرہ۔ خدا کے بندو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ ایک عمل سنت ہے اور مؤکدہ ہے تو تم اس کا انکار کیسے کر سکتے ہو جس کی تاکید نبی نے کی؟ کیا مذاق ہے! اور جسے تم غیر مؤکدہ کہتے ہو، وہی تو مستحب ہے کہ بھائی پڑھ لو تو اچھا ہے، نہ پڑھنے سے نماز کو کچھ نہیں ہوتا، ہاں تم ان کی برکات سے محروم رہنا پسند کرو تو تمہاری مرضی۔ بیماری میں سفر میں جہاں قصر ہے وہ فرض نمازوں پر ہے۔ بیٹھ کر، لیٹ کر، اشاروں سے نماز پڑھنا بھی فرض نمازوں پر ہے۔

سفر، جنگ، بیماری میں سنت رکعتوں سے ویسے ہی رخصت مل جاتی ہے (دلوں کا حال اللہ جانتا ہے)۔ جنگ کی حالت میں نماز کیسے پڑھی جائے، اس کا مختصر بیان قرآن شریف میں آ گیا۔ تفصیلات کتابوں میں میسر ہیں۔ جیسے نماز کے اوقات کا بیان قرآن شریف میں آ گیا، کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں، وہ کون کون سی ہیں، نماز کے ارکان (قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، قعدہ) کی تفصیلات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان بھی فرما دیں کر کے بھی دکھا دیں۔

جب قرآن نازل ہو رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ سوالات سے منع کر دیا تھا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم قومِ موسیٰ کی طرح سوال کرتے جاؤ اور ان کے جواب میں عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے۔ کون جانے! جب حکم ہوا کہ گائے ذبح کرو تو وہ سوال کرنے لگے اور سوال پر سوال کرتے گئے۔ گائے کی ڈیفینیشن ہوتی چلی گئی، یہاں تک کہ ویسی گائے کا ملنا محال ہو گیا۔ حکم ملتے ہی وہ لوگ کوئی سی گائے ذبح کر دیتے، حکم کی تعمیل بہ سہولت ہو جاتی۔ ان کا تو رویہ ہی عجیب تھا کہ: موسیٰ! تم ہمارے ساتھ مذاق کر رہے ہو۔ تفصیللات سب جانتے ہیں، اشارہ کافی است۔

اب کیا نئی بات ہو گئی ہے، کیا نماز بدل گئی ہے؟ نہیں نماز تو نہیں بدلی پڑھنے والے نہیں رہے اور جو رہ گئے ہیں ان میں موشگافیاں کرنے والے زیادہ ہیں اور تسلیم کرنے والے کم۔ تلقین کرتے رہئے۔ جو سچ اور درست ہے بیان کرتے رہئے، مفروضات سے گریز کیجئے، اللہ بھلی کرے گا۔ اپنا دل میلا نہ کیا کیجئے!۔


محمد یعقوب آسی ۔۔ جمعہ: ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء

تھا وہ اک یعقوب آسیؔ ۔ تازہ ترین



تھا وہ اک یعقوب آسیؔ


ایک گھنٹے کا بریک ٹائم؛ میرے دفتر میں کچھ مہربان جمع تھے۔ ایک بزرگ تھے، چوہدری صاحب، فزکس کے پروفیسر؛  عمر اور عہدے دونوں میں میرے سینئر تھے، اور ہم میں خاصی بے تکلفی تھی۔ وہ مجھے ’’اوئے یعقوب!‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے اور میں انہیں ’’تایا جی‘‘ کہا کرتا۔ پانچ بلکہ سات وقت کے پکے نمازی تھے؛ ان کی ٹھوڑی گھُٹنے کی طرح صاف تھی۔ دوسرے ایک مقامی مسجد کے امام تھے، میرے ساتھ دوسرے درجے کے افسر، مختصر سا وجود، مختصر سا چہرہ اور اس پر مختصر سی داڑھی (داڑھی کے بال گھنے نہیں تھے)، تاہم بہت مناسب لگتی تھی۔ تیسرے ایک حافظ صاحب تھےاسلامیات کے پروفیسر، فربہ جسم، بھرا بھرا چہرہ، گھنی مگر چھوٹی چھوٹی داڑھی جسے وہ ایک انچ تک نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک ملک صاحب تھے شعبہ جسمانی تربیت کے اکلوتے افسر؛ داڑھی کبھی رکھ لیتے، کبھی مونڈ دیتے، کبھی سفید رہنے دیتے کبھی بسمہ لگا لیتے؛ اُس دن تازہ مُنڈی ہوئی تھی۔ ایک مہر صاحب تھے۔ ایم دوسری مسجد کے نائب امام، معمر شخص تھے، داڑھی بے ترتیب، جیسے بڑھتی گئی بڑھتی گئی، وہ خط کرنے کے بھی حامی نہیں تھے۔ اور ایک میں تھا، تقریباً ویسا ہی جیسا آپ مجھے میری فیس بک والی تصویروں میں دیکھتے ہیں؛ تب بال اتنے سفید نہیں تھے۔

تایا جی نے ایک دم سوال داغ دیا: ’’اوئے یعقوب! اک گل دس، داڑھی دے بارے توں کیہ کہندا ایں، کس طرح دی ہووے، کنی وَڈّی ہووے؟‘‘  ..... بات وہی ہو گئی کہ
؏: اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے

عرض کیا: ’’آپ اپنے سمیت ہم سب نمونوں کو دیکھ لیجئے! گوڈے والے سب ایک سے ہیں، فرق داڑھی والوں میں ہے‘‘۔ تایا جی نے مجھے گھُورا مگر بولے کچھ نہیں، میں نے جسارت جاری رکھی۔’’داڑھی کا ایک بال بھی نہ مونڈا جائے، نہ کاٹا جائے، خط کر سکتے ہیں، چھوٹی بڑی ہو سکتی ہے، ایک مٹھی کی ہو، اتنی ہو، اتنے لمبے بال چھوڑ کر کترا لیں؛ یہ ہو، وہ نہ ہو؛ یہ ساری باتیں دیکھی جانی چاہئیں اور درست ترین، مستند ترین کو اپنانا چاہئے؛ مگر پہلی بات یہ ہے کہ داڑھی رکھنی ہے!! اس میں کوئی کلام نہیں۔  ..... ہم چاروں میں کم از کم ایک اشتراک تو ہے! دیکھنے والے کو یہ پتہ چل جاتا ہے کہ اِس بندے نے داڑھی رکھی ہوئی ہے شیو نہیں بڑھی ہوئی۔ ایک شخص روزانہ سویرے اٹھ کر پہلا کام یہ کرے کہ سنتِ رسول کو چہرے پر سے کھرچ کر دھو کر بہا دے، یا اگر روز نہیں تو کم از کم ہر جمعے کے مبارک دن کا آغاز لازماً سنت کُشی سے کرے، کہ ’اَج مسیتے جانا اے یار‘ ۔۔ تو میں کیا کہہ سکتا ہوں‘‘۔۔۔ پھر؟ کوئی بھی، کچھ بھی تو نہیں بولا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔
مجھے تب بھی کچھ اور نہیں کہنا پڑا، اور اب بھی مجھے کچھ اور نہیں کہنا۔ ماسوائے اس کے کہ اگر آپ کی داڑھی قدرتی طور پر اگتی ہی نہیں یا بالوں کے کسی مرض وجہ سے پھوٹنا بند کر دیتی ہے، جھڑ جاتی ہے؛ تو آپ معذور ہیں۔

محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ جمعہ:  ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء

شاعری؛ کیا اور کیوں




شاعری؛ کیا اور کیوں

سوال دراصل یہ بن گیا ہے کہ شاعری میں ہو کیا رہا ہے اور ہونا کیا چاہئے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر اور ہمارے شعر پر کون سی حدود لاگو ہوتی ہیں۔

دین وہ ہے جو انسان کی نجی اور معاشرتی زندگی کے ہر ہر شعبے میں مکمل راہ نمائی کرے اور جہاں ضروری ہو، حدود و قیود کا تعین بھی کرے۔ یہ کام اللہ کا ہے اور اللہ نے اس کے لئے انبیاء کو مبعوث فرمایا؛ جنہوں نے اس دین کو عملاً نافذ کر کے دکھایا۔ اسی بات کو یوں کہہ لیجئے کہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہم اپنی زندگی کے جملہ معاملات و مسائل میں قرآن اور حدیث کے پابند ہیں؛ اور آزادیاں یا گنجائشیں بھی وہیں تک لے سکتے ہیں، جہاں تک کی اسلام اجازت دیتا ہے؛ اس سے آگے حدود اللہ ہیں۔ اس امر کو یوں دیکھئے کہ اسلام محض چند مناسک کا مجموعہ نہیں اور نہ یہ کسی خاص لباس، زبان، ثقافت اور علاقے سے مشروط ہے۔ اسلام مکمل دین ہے اور اس کا تقاضا ’’کافّۃ‘‘ ہے۔ یعنی اسلام میں داخل ہونا ہے اور کلی طور پر داخل ہونا ہے۔ اسلام کا کوئی حصہ، کوئی رکن نہیں چھوڑا جا سکتا ہے اور دنیا کا کوئی معاملہ ایسا نہیں جو اسلام سے بالاتر ہو۔

شاعری بھی انسانی زندگی اور معاشرت کا ایک حصہ اور ایک مؤثر ذریعہء اظہار و ابلاغ ہے۔ اس پر اسلامی قدر کا نفاذ بھی ویسا ہوتا ہے، اور ہونا بھی چاہئے جس قدر اس فن کی اثر آفرینی ہے۔ جنابِ نادمؔ کے سوال کے جواب میں شاعری کی علمی حیثیت اور اس پر احکام کے اطلاق کے حوالے سے اتنا کچھ کہہ دیا گیا ہے اور وہ اتنا کافی ہے کہ اس پر مزید کوئی اضافہ کرنا، کم از کم میرے لئے ممکن نہیں۔ میں یہاں صرف ایک بگاڑ کی بات کروں گا جسے میں بنیادی بگاڑ سمجھتا ہوں۔

امتیں صرف دو ہیں: ایک اسلام اور ایمان والے ہیں، دوسرے منکرین ہیں۔ واضح رہے کہ منافقین عام منکرین کی نسبت بدتر ہیں کہ وہ ہیں تو منکرین مگر دعویٰ مسلم ہوتے کا کرتے ہیں، اور اپنی معاشرتی زندگی میں بظاہر مسلمانوں جیسا دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ لوگ ’’اللہ کو اوراہلِ ایمان کو دھوکا دیتے ہیں‘‘۔ اشارہ کر دیا ہے، تفصیلی شناخت اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کے فرمودات میں میسر ہے۔ رہے منکر، وہ تو منکر ہیں؛ انہیں اللہ کے حکم کی تعمیل سے کوئی غرض ہوتی تو انکار ہی نہ کرتے۔

ہوا یہ، کہ منکرین اور ان کے فکری بالکوں نے مختلف امور پر ایک ایک کر کے کچھ ایسی سوچ پیدا کرنے کی کوشش کی اور ہنوز کر رہے ہیں کہ: نماز اسلام میں ہے، اسلام نماز میں نہیں؛ داڑھی اسلام میں ہے، اسلام داڑھی میں نہیں؛ سود سے پیسہ بڑھتا ہے اور زکوٰۃ سے گھٹتا ہے؛ اسلام کو آپ کی زندگی کی سائنس سے غرض ہے فن سے نہیں؛ ناچ، گانا، مصوری، موسیقی، سنگ تراشی، فنِ تعمیر، ادب، شعر اور دیگر فنون مذہب سے بالاتر ہیں یا مذہب کو ان سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔ بنیادی کج فکری کا یہ فتنہ آج کا تازہ فتنہ نہیں ہے، اس کو صدیوں سے (پوری دنیا میں عام طور پر اور مسلم معاشروں میں خاص طورپر) پھیلایا جا رہا ہے۔ بہت سارے ذہن تو اس فتنے کا شکار ہو چکے ہیں اور بہت سارے بڑی تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ شعر کی اثرپذیری کو معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے کے لئے ہتھیار کے طور پر برتنے کا صیہونی دجالی منصوبہ اپنے خطوط پر عمل پیرا ہے اور’’ نیو ورلڈ آرڈر‘‘ اور ’’نیو روڈ میپ‘‘ کے کارپرداز اِس میں بھی سارے شیطانی حربوں سے کام لے رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے شاعروں سے واقف ہوں جو ’’پورا شاعر‘‘ بننے کے شوق میں شراب اور نشے تک کے عادی ہو چکے ہیں کہ ان کے لحاظ سے یہ ’’کچھ بڑے شاعروں‘‘ کی سنت ہے۔محبوب کے سِفلی تصور نے کتنے ہی شاعروں کو اس گناہ پر بھی لگا دیا جسے ’’برا راستہ‘‘ فرمایا گیا ہے۔

شاعروں کو معاشرہ ’’باشعور‘‘ لوگوں میں شمار کرتا ہے۔ اور کتنے ہی لوگ ایسےہیں جو اپنے عقائد اور ایمانیات میں بھی شعراء کےکلام کو بنیاد مانتے ہیں۔وعید حقیقت میں انہی لوگوں کےلئے ہے کہ انہوں نے شاعر کی بات مان لی اور اس کے پیچھے چل پڑے؛ اللہ اور رسول کی بات جاننے کی پروا نہیں کی، ماننا تو بعد کی بات ہے۔ شاعر پر قدغن یہ لگتی ہے کہ نامعلوم وادیوں میں نہیں بھٹکنا؛ انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے، جس سے محرومی اپنے لئے بے راہ روی کا اور دوسروں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ مسلمان کے پاس تو ضائع کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہوتا۔ اس پر تو بہت عظیم ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں اور اسے اللہ کے ہاں وقت کا حساب بھی دینا ہے ۔ بھلائی دینِ اسلام کی روح ہے بلکہ اسلام سراسر بھلائی ہے۔ پروفیسر انور مسعود سےکہا گیا کہ نئے لکھنے والوں کے لئے کوئی نصیحت کریں؛ انہوں نے کہا: محسنات اور منکرات کا کسے نہیں پتہ! بھائی محسنات کو اپنا لو، منکرات کو چھوڑ دو! اور ہاں! یہ بات خوب سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد نہیں بنائی۔ سنتِ الٰہی یہی ہے کہ آدمی کوئی بے مقصد کام نہ کرے۔

شعر تو ہر موضوع پر کہا جاتا ہے، کہا جاتا رہے گا۔ مگر یاد رہے کہ ہمیں جو بھی کرنا ہے، ایسے کرنا ہے کہ اس میں بھلائی ہو، برائی نہ ہو۔ شعر بے مقصد نہ ہو، بامقصد ہو؛ اور مقصد بھی نیک ہو۔ نیک وہ ہے جو اللہ اور رسول کی ہدایات کی روشنی میں نیک ہے۔ ظاہر ہے انداز بھی نیک، شستہ اور شائستہ اپنانا پڑے گا۔

وما توفیقی الا باللہ۔

محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ جمعہ ۱۵۔ مئی ۲۰۲۰ء

جمعرات، 30 اپریل، 2020

ڈراما ۔ تحریر سے پیش کش تک



ڈراما ۔ صفحۂ قرطاس سے پردۂ سیمیں تک


کچھ موٹی موٹی باتیں

کوئی بھی کھیل ہو (سٹیج ڈراما، ریڈیو ڈراما، ٹیلی ڈراما، فیچر فلم، وغیرہ وغیرہ)؛ آپ اپنی تہذیب اور ثقافت سے جس قدر جُڑ کر رہیں گے، اپنی معاشرتی نفسیات کے مطابق چلیں گے، اپنی تاریخ کو پیش کریں گے، اپنی اخلاقی اقدار اور ایمانیات کو وزن دیں گے، پروڈکشن کے اجزاء (کہانی، مکالمہ، مناظر، لباس، اوزار، جانور، گھر، میدان، وغیرہ وغیرہ) جتنے فطری، حقیقی اور غیر ملمع شدہ ہوں گے، اتنا ہی آپ کا کھیل مؤثر اور مقبول ہو گا۔ کہانی کے ایک کردار کو برا، یا اچھا، یا بااختیار، یا مجبور دکھانا ہے تو صرف مکالمے کافی نہیں، ہر کردار کا ایک فطری گیٹ اپ بنانا ہو گا۔ پلاٹ اور منظر آفرینی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کوئی ڈراما کس حد تک ان عناصر کا پاس کر رہا ہے؛ یہی اس کا معیار ہے۔

ان سب عناصر کے مقابلے میں اگر آپ دوسروں کی نقالی کریں گے، دوسروں کی تہذیب کا پرچار کریں گے، آپ کے کھیل میں سطحیت اور ابتذال کی سطح بھی اتنی ہی ہو گی۔ یہاں تک کہ آپ کا تیار کیا ہوا ڈراما ایک شریف فیملی کے افراد اکٹھے بیٹھ کر دیکھیں تو انہیں شرم آئے گی۔

ڈراما صرف یہ نہیں کرتا کہ اس نے ایک سچائی کو ٹھیک ٹھیک پیش کر دیا، اور بس۔ ڈراما پورے معاشرے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل ڈرامے کے کرداروں جیسا بننا چاہتی ہے۔ ڈرامے کو پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ مثبت اور تعمیری سوچ پر مبنی ہونا چاہئے۔


محمد یعقوب آسی۔ ۳۰ اپریل ۲۰۲۰ء


بدھ، 29 اپریل، 2020

ہماری میڈم کرونا


ہماری میڈم کرونا
 شگفتہ (طنزیہ) انشاء پردازی کا  ایک نمونہ

ایک خیالی خط کے جواب میں 

دعا کیجئے کہ لاک ڈاؤن مُک جائے۔ میڈم کرونا سے زیادہ میڈم کا ہوا بنا ہوا ہے۔ یہ میڈم یہاں ٹیکسلا میں صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک آرام فرماتی ہیں اور کسی سے تعرض نہیں کرتیں۔ جونہی پانچ بجتے ہیں آدم بو آدم بو کہتی ہوئی یونیورسٹی کے آس پاس انسانوں کے ہجوم پر جھپٹ اٹھتی ہیں۔ بازار بند ہو تب بھی، نہ ہو تب بھی میڈم مسجدوں میں تاک لگا کر بیٹھ جاتی ہیں اور جوں ہی نمازیوں کی تعداد پانچ سے بڑھتی ہے بھوکی شیرنی کی طرح سب کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ میڈم کی شرافت اور عالی نسبی کو داد دیجئے کہ یہ صرف نمازیوں کو تاڑتی ہیں، بازار میں منڈی میں چلنے پھرنے والے کم ذات لوگ ان کی ناک تلے نہیں آتے۔

سنتے ہیں کہ میڈم کرونا اپنے شکار کا دائرہ وسیع کر رہی ہیں اور نمازیوں کے بعد اب روزہ داروں پر بھی دانت تیز فرمائیں گی۔ میڈم کے مربیٔ اعظم ابو دہشت حضرت امریکا الفسادی نے میڈم کو سختی سے حکم دیا ہے کہ کوئی نمازی یا روزہ دار بچ کر نہیں جانا چاہئے، باقی کسی سے تعرض کریں بھی تو محض دکھاوے کی حد تک کہ حضرت ابو دہشت کا  اصل شکار مُسلے ہیں۔رمضان شریف کے مقدس مہینے میں مُسلوں کو شکار کرنے کا مزا ہی اپنا ہے۔ تاہم ڈر ہے کہ روزے رکھ رکھ کر ان کا خون گاڑھا ہو گیا تو میڈم کے نازک مزاج معدے پر زیادہ بوجھ پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا ان مُسلوں کا خون گاڑھا ہونے سے پہلے ہی ان کا پتا صاف کرنا ہو گا۔ 

میڈم کے حسین خیال کی موج میں آ کر چند سطور لکھ دی ہیں، تاکہ سند رہیں یا نہ رہیں، میڈم  کے غصے کا حقیقی سبب بن سکیں اور ابودہشت کی مکاریوں اور مظالم کو کوئی جواز تو فراہم ہو سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۹۔ اپریل ۲۰۲۰ء

منگل، 21 اپریل، 2020

نہ، نا، نہیں، ناں، کہ ۔۔

پیر، 30 مارچ، 2020

شاعری کے لالے اور بغلیں


شاعری کے لالے اور بغلیں

فقیر کے کچھ مہربانوں کو یہ خوش فہمی لاحق ہے کہ وہ ”بہت بڑے شاعر“ ہیں۔ کچھ ان کے فقیر و یسیر چاپ لوس حواریوں نے ان میں ہوا بھر رکھی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ایسے خوش فہم ”بڑے“ شاعروں کو کھٹکا لگا رہتا ہے کہ ان کے شعر چوری کئے جا رہے ہیں۔ اس کو کیا کہئے کہ ان سادہ مزاجوں کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون ان کے پاؤں پڑ رہا ہے اور کون ان کے توہمات پر زہرخند ہے۔

فقیر نے استاد چُٹکی سے اپنی اس فکر کا ذکر کر دیا۔ کہنے لگے: ”تمہیں کیا! انہیں اپنے واہموں سے نمٹنے دو۔ اگر ان کے ارشادات اتنے ہی قیمتی ہیں تو انہیں ٹھپ کر رکھیں، فیس بک کے چور بازار میں پیش ہی کیوں کر رہے ہیں“۔ فقیر کی یہ حالت کہ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم۔ استاد نے چٹکی بجاتے میں خاکسار کے چہرے سے صورتِ حال کو بھانپ لیا اور بڑے سکون سے بولے: ”بدرے میاں، تمہیں کیا پتہ؟ تم کون سے شاعر ہو؟ ایک شاعر جو شدید دردِ زِہ سے گزر کر بہ صد ہزار مشکل گنتی کے چند شعر موزوں کر بھی لے تو ان کی سطح عامیانہ کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی“۔

عرض کیا: ”حضور، یہ عامیانہ سطح کیا ہوتی ہے؟“ بولے: ”اپنی نو مشقی کے زمانے کی شاعری سمجھ لو جس سے تم آج تک نہیں نکل سکے۔ ایک عام سا پیشِ پا افتادہ خیال جو کسی کو بھی سوجھ سکتا ہے، وہ چاہے اسے اپنے انداز میں بیان کر دے تو شاعری کے ان ”لالوں“ کو اپنے شعر کے لالے پڑ جاتے ہیں “۔ اس فقیر کے پاس کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں تھا، بغلیں جھانکنا شاید اسی کو کہتے ہیں۔

۔۔۔۔ بدرِ احمر کے قلم سے: سوموار ۳۰۔ مارچ ۲۰۲۰ء