منگل، 27 اکتوبر، 2015

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی


بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

سید آل احمد کی کتاب ’’میں اجنبی سہی‘‘ پر اظہارِ خیال کی ایک کوشش




کتنے آسان اور ہلکے پھلکے الفاظ ہیں! نہ بھاری بھرکم تراکیب، نہ تصنع، نہ لسانی جگادری پن کا اظہار، مگر اشعار ہیں کہ تہ بہ تہ کھلتے ہیں، معنویت کا ایک سلسلہ بنتا ہے اور سلسلہ در سلسلہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور قاری کو حیران ہونے کا موقع بھی نہیں دیتا۔ خود سید آل احمد کے الفاظ میں: ’’میں نے جب بھی کسی تخلیق کا سوچا اور جب بھی کوئی پیکر تراشا ہے تو کوشش کی ہے کہ میرے خواب و ادراک کی تعبیر کا جو وجود قرطاس پر ابھرے وہ عجز و سلیقہ کے حیات افروز شانوں سے حروف کا وہ بوجھ زائل کر دے جو صورت، آواز اور معنی کے مرتب شدہ نقوش کے جسموں کی کم جھکا دیتا ہے‘‘۔

معنویت اور سادگیء اظہار کو پانے کے لئے بے پناہ مشقت سے گزرنا پڑتا ہے اور وہ پیرایۂ اظہار جس میں بظاہر بہت بے ساختہ پن ہو، طویل کتر بیونت اور کاٹ چھانٹ کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ ’’میں اجنبی سہی‘‘ کے مندرجات اس کا خوبصورت مظہر ہیں۔ بہ ایں ہمہ سید آلِ احمد کی شاعری کو پہلی خواندگی میں سمجھ لینے کا دعویٰ خام ہے۔ ایسا نہیں کہ معانی نہ کھلتے ہوں یا کوئی ابہام و اشکال ہو، بلکہ حقیقی وجہ یہ ہے کہ معانی اتنے پہلوؤں سے کھلتے ہیں کہ قاری خود کو ایک ایسے صد راہے پر پاتا ہے، جہاں ہر راستہ صاف اور کھلا ہوتا ہے۔ داخل و خارج، حقیقت و مجاز، تعلقِ خاطر، بشریات، غمِ روزگار، عذابِ آگہی، وغیرہ کی کوئی رسمی تقسیم یہاں کارگر نہیں ہوتی، یہ سب کچھ یا کم از کم ان میں سے بہت کچھ یوں یک جا اور یک جان ہو جاتا ہے کہ ’’میں اجنبی سہی‘‘ کے صد راہے میں کھڑا قاری سارے راستوں سے شناسا ہوتے ہوئے بھی ایک اجنبی کی طرح اِن سارے راستوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ سید آلِ احمد کی شاعری ایسی ہی آشنائی اور اجنبیت کا مرکب ہے جہاں سانس لیتی ہوئی، دھڑکتی ہوئی زندگی دل گداز، دل ربا، حیرت افروز، حیرت افزا، اور حیات منبعِ حیات محسوس ہوتی ہے۔ اُن کے زندگی کا مثبت اور حقیقت پسندانہ اِدراک پایا جاتا ہے، اور وہ غم و الم پر رونے بسورنے کی بجائے اس سے توانائی حاصل کرتے ہیں اور اپنے قاری تک پہنچاتے ہیں۔ ایک عام سا اصول ہے کہ ابلاغ کی سطح اتنی ہی بلند ہو گی جتنا معنوی اور فکری اشتراک شاعر اور قاری کے مابین ہوگا، اور جتنی خوبی سے شاعر اپنے قاری کے ساتھ سانجھ بنائے گا۔

پروفیسر انور مسعود نے ایک گفتگو (۱۹۹۰ء) میں کہا تھا: ’’شعر وہ ہے کہ آپ کا ذہن اس کے پیچھے یوں دوڑے جیسے بچہ تتلی کے پیچھے لپکتا ہے‘‘۔ تتلی میں سب سے نمایاں تو اس کا رنگ ہے، اُس کی اڑان کبھی خطِ مستقیم میں نہیں ہوتی، وہ ہوا میں دائیں بائیں، اوپر نیچے، اِدھر اُدھر ڈولتی دکھائی دیتی ہے اور لگتا ہے کہ ہاتھ بڑھاتے ہی گرفت میں آ جائے گی۔ مگر ایسا ہوتا نہیں! معصومیت، رعنائی، تنوع، تموج اور تحیر، یہ سارے عناصر سید آلِ احمد کے اشعار کو ایسی تتلیاں بنا دیتے ہیں جن کی اڑان کے انجانے راستے پر قاری کا متجسس ذہن ان نرم و نازک تتلیوں کی طلسماتی گرفت میں آ جاتا ہے۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ایک چشمہ ہے جو اپنی قوت سے قشرِ ارض کو توڑ کر باہر نکلنے کا راستہ بناتا ہے اور پھر ارد گرد موجود ریت، مٹی، ڈھیلوں، پتھروں اور تختہ ہاے کاہ پر ایسے نقوش ابھر آتے ہیں جو مانوس ہوتے ہوئے بھی تحیر خیز ہوتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت مجھ پر گزری جب میں نے اس تحریر میں شامل کرنے کے لئے سید آلِ احمد کے اشعار منتخب کرنے کا سوچا۔ میں نے کئی اشعار کو نشان زد کیا کہ اسے شامل کرتا ہوں، اسے کرتا ہوں مگر اُن کے سیاق سباق میں مزید کئی اشعار پوری توانائی کے ساتھ سامنے آ کھڑے ہوئے اور صرفِ نظر کا کوئی جواز مجھے نہیں مل پایا۔سو، مناسب جانا کہ شعروں کے انتخاب کا معمہ قاری پر چھوڑ دوں۔

ڈاکٹر خورشید رضوی نے بہت جامع اور مختصر پیرائے میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو کہنا میرے لئے بہت مشکل ہو رہا تھا۔ کہتے ہیں: ’’سید آلِ احمد کا یہ تازہ مجموعہ ان کے مخصوص رنگِ سخن کا آئینہ دار ہے جو شدتِ احساس، رومانیت، روایت اور جدت کے ایک دل کش امتزاج سے عبارت ہے‘‘۔


جناب نوید صادق، مدیر  "سہ ماہی کارواں" بہاول پور کے حکم کی تعمیل میں
محمد یعقوب آسی یکم اگست ۲۰۱۰ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں