پیر، 11 جنوری، 2016

ماں اور ماں ۔۔ میاں بیوی کے درمیان ایک مکالمہ


ماں اور ماں
(میاں بیوی کے درمیان ایک مکالمہ)




بیوی ۔"عورت کو عزت وہی مرد دے سکتا ہے، جس کی تربیت اچھی ہوئی ہو"۔

میاں ۔"بہت خوب! درست کہہ رہی ہیں آپ! اور یہ کام آپ کے کرنے کا ہے"۔

بیوی ۔"وہ کیسے، مرد تم ہو، میں نہیں"۔

میاں ۔"اپنے بیٹوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کیجئے نا، تا کہ آپ کی بہوئیں عزت پا سکیں"۔

بیوی ۔"آئے ہائے! پتہ نہیں کون کون سی نگوڑی کہاں کہاں سے میرے بچوں کے پلے پڑیں گی! میں ان کے لئے ہلکان ہوتی رہوں کیا؟"۔

میاں ۔"یقین کیجئے میری اماں نے ایسے نہیں سوچا تھا جیسے آپ سوچ رہی ہیں"۔

بیوی ۔"تو کیسے سوچا تھا تمہاری اماں نے! مجھے اس سے کیا! مجھے تو اپنے بیٹوں کو سردار بنانا ہے"۔

میاں ۔"اور بہوؤں کو؟ سردارنیاں؟"۔

بیوی ۔"میری جوتی! میں لونڈیوں کو سردارنیاں بناؤں گی، بھلا؟ تم الٹا سوچ رہے ہو"۔

میاں ۔"آپ میں اور آپ کی سمدھن میں کچھ فرق نہیں ہے۔ وہ بھی ہماری بیٹی کو لونڈی ہی سمجھتی ہیں"۔

بیوی ۔"میں میں میں منہ نوچ لوں گی اُس کلموہی کا، میری بیٹی کو لونڈی بنائے گی وہ؟ میری بیٹی کو تو رانی بننا ہے، رانی! دیکھنا تم"۔

میاں ۔"آپ کے منہ میں گھی شکر، مگر ایسا ہو گا تبھی اگر انہوں نے بھی اپنے بیٹے کی تربیت اچھی کی ہو گی"۔

بیوی ۔"ہاں نا، یہی تو میں کہتی ہوں، اب اس نکمے کی تربیت اچھی نہ ہوئی ہو تو؟ پتہ نہیں!"۔

میاں ۔"آپ تو اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں نا!"۔

بیوی ۔"پھر وہی! تمہیں ان پھاپھے کٹنیوں کا غم لگا ہوا ہے جو ابھی آئی بھی نہیں ہیں، اور میری بیٹی، میری شہزادی، میری ملکہ۔ تم نہیں سمجھ سکو گے، تم نے عورت کی قدر ہی کب جانی ہے! اب میری بیٹی پر آئی ہے تو تم بھی مجھے ہی جلی کٹی سنا رہے ہو"۔

میاں ۔"میں نے تو سب بیٹیوں کی بات کی ہے۔ اس بیٹی کی بھی جسے آپ نے جنا اور ان بیٹیوں کی بھی جنہیں چنیں گی اور وہ آپ کے پوتوں پوتیوں کو جنیں گی"۔

بیوی ۔"پتہ ہے؟ میرے پوتے پوتیاں فرشتے ہوں گے سب شہزادے اور شہزادیاں!"۔

میاں ۔"نگوڑیوں اور پھاپھے کٹنیوں کی اولادیں اور ہوں فرشتے حوریں شہزادے شہزادیاں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟"۔

بیوی ۔"اے، تم نے مجھے نگوڑی کہا؟ مجھے پھاپھے کٹنی کہا؟"۔

میاں ۔"نہ، نہ، نہ! میں نے بھی انہی کو کہا جنہیں آپ نے کہا۔ آپ یہ تو چاہتی ہیں کہ آپ کی بیٹی جو کل پرائی ہونے والی ہے، وہ رانی بنے، اور وہ بیٹیاں جن کے ساتھ آپ کو ساری عمر رہنا ہے وہ نگوڑیاں پھاپھے کٹنیاں سب لونڈیاں بنی رہیں؟ اپنی اور اپنی سمدھنوں کی آرزوؤں کو متوازی نہیں برابر رکھ کر دیکھئے۔ اور ہاں! لونڈیوں کی گود میں شہزادے نہیں پلا کرتے! کیا فرماتی ہیں آپ؟"۔

بیوی ۔"پتہ نہیں کیا کہہ رہے ہو! تم نے مجھے چکرا کر رکھ دیا ہے"۔

میاں ۔"آپ درست نہیں کہہ رہیں، میں تو آپ کو چکر میں پڑنے سے بچانے کی بات کر رہا ہوں، کہ میری اماں نے مجھے یہی سکھایا تھا کہ بیٹا تمہاری بیوی تمہاری اولاد کی ماں ہے اور اولاد کی تربیت ماں کرتی ہے! آپ اپنے بیٹوں کو یہ سبق نہیں دیں گی کیا؟"۔

بیوی ۔"ہاں مگر وہ کلموہی میری رانی کی ساس!"۔

میاں ۔"اس کی آپ فکر مت کیجئے، اگر وہ یہ چاہتی ہے کہ جیسی عزت اسے ملی ہے اس سے اچھی اس کی بیٹی کو ملے تو وہ اپنے بیٹے کو غلط کچھ نہیں سکھائے گی"۔

بیوی ۔"تمہیں اس پر اتنا اعتماد ہے؟ اور مجھ پر نہیں؟"۔

میاں ۔"آپ پر  تو ہے ہی! ساری  عمر یوں ہی تو ساتھ نہیں بِتا دی۔ اور ان پر بھی ہے کہ وہ بھی اپنے پوتوں پوتیوں کو فرشتے حوریں شہزادے شہزادیاں دیکھنا چاہتی ہیں۔ جیسے آپ چاہتی ہیں"۔

بیوی ۔"میں کیا کروں پھر؟ تم ہی بتاؤ"۔

میاں ۔"کچھ نہیں جتنا پیار ایک نانی کے روپ میں بانٹنا چاہتی ہیں آپ، اتنا ہی ایک دادی کے روپ میں بھی بانٹئے۔ شہزادہ شہزادی کوئی بھی ہو، اس کی ماں ملکہ ہوتی ہے۔ ملکہ کو ملکہ مانئے، لونڈی نہ بنائیے"۔

بیوی ۔"اے، میں کب بناتی ہوں وہ تو"۔

میاں ۔"سنئے میری اچھی بیگم! داماد وہ بیٹا ہوتا ہے جس کو آپ کی بیٹی آپ کا بیٹا بناتی ہے اور بہو وہ بیٹی ہوتی ہے جس کو آپ کا بیٹا آپ کی بیٹی بناتا ہے۔ مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ خود کو دونوں جگہ ماں کے مقام کی اہل ثابت کریں"۔

بیوی ۔"ارے، میں نے ایسے سوچا ہی نہیں تھا! یعنی میں اچھی ماں نہیں ہوں؟"۔

میاں ۔"آپ اچھی ماں ہیں! یقیناً بہت اچھی ماں ہیں، ایک ذرا سی چوک یہ ہو رہی تھی کہ آپ نے ماں کے اندر ایک ساس پیدا کر لی تھی۔ ہوتی ساس بھی ماں ہے، ہے نا؟"۔

بیوی ۔"ٹھیک کہہ رہے ہو۔ عورت کو عزت وہ مرد دیتا ہے جس کی تربیت اچھی ہوئی ہو اور تربیت اس کی اچھی ہوتی ہے جس کی ماں اچھی ہو"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تحریر مرتجل۔ 
۔۔۔ محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان۔ منگل یکم دسمبر 2015ء۔

پیر، 4 جنوری، 2016

دور کی کوڑی


دور کی کوڑی


لالہ مصری خان کا چہرہ خلافِ معمول کھلا ہوا تھا۔ ہم نے کچھ تو عالمِ حیرت میں اور کچھ بہ تقاضائے اشتیاق اس نعمتِ غیر مترقبہ کی شانِ نزول دریافت کی تو انہوں بلال میاں سے اپنی ملاقات اور گفتگو کا احوال سنا ڈالا۔ بلال میاں بھی اپنی جگہ فردِ فرید واقع ہوئے ہیں۔ جدت بلکہ جدیدیت کے شوقین ہیں۔ انگریزی شوق سے بولتے ہیں، حسبِ موقع کم اور بے موقع زیادہ۔ بات بات پر اپنے لوگوں کی بود و باش اور معاشرتی اقدار پر نکتہ چینی ان کا محبوب مشغلہ ہے، جب کہ ان کے نزدیک اصلاح کے سارے معیارات کی مدح سرائی ہمیں حضرتِ حالی کی یاد دلا جاتی ہے۔
شریعت کے جو ہم نے پیمان توڑے
وہ لے جا کے سب اہلِ مغرب نے جوڑے

اس سے پہلے کہ بات دور جا نکلے اور یار لوگ ہمیں ’’دقیانوسی، رجعت پسند‘‘ وغیرہ کے القابات سے نوازیں، لالہ مصری خان اور بلال میاں کی گفتگو کا کچھ مذکور ہو جائے۔ بلال میاں کے من میں سمائی کہ اپنے نظامِ تعلیم کو درست کیا جائے۔ بات بھی کچھ ایسی بری نہیں بلکہ بڑی بات ہے کہ قسمتِ نوعِ بشر ہمارے سرکاری اور نجی اسکولوں کی پیشانیوں پر لکھے ایک شعر ہی سے تو تبدیل ہوتی ہے۔ ہمارے خان لالہ کو تو وہ شعر بھی ایک آنکھ نہیں بھایا اور انہوں نے اک مقدس فرض کی تکمیل کے ڈانڈے تذلیل سے جا ملائے۔ مصری خانی متن سے گریز اولیٰ! ہم نہیں چاہتے کہ سکولوں کی طرح ہمارے مہربانوں کی پیشانیوں پر بھی اژدہے لوٹتے دکھائی دینے لگیں۔

بلال میاں کی جو شامت آئی تو براہِ راست خان لالہ سے کہہ بیٹھے: ’’میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نظامِ تعلیم کو مغربی نظام سے ہم آہنگ کیا جائے، وہ لوگ ہم سے آگے نکلے ہیں تو اس کی وجہ تعلیم کا نظام ہے، اور ان کے بچے ابتدا ہی سے انگریزی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں‘‘۔ لاٹ صاحب کے ہندوستانی نظامِ تعلیم کی بات چھیڑنا دوستوں کو بے فائدہ رنجیدہ کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ لاٹ صاحب یہاں بس کلرک اور غلام پیدا کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ تو جو چاہ رہے تھے کر گزرے مگر ہمارے پالیسی سازوں کے سر تال کو نہ جانے کیا ہوا کہ ستر سال ہونے کو آئے اس لے میں کوئی تبدیلی نہیں کر پائے۔ بلکہ معاملہ تیز ترک گام زن والا ہے کہ انگریزی کے غم میں ہم ان سے زیادہ ہلکان ہو رہے ہیں۔

بلال میاں کی حیرت کی انتہا نہیں رہی ہو گی جب لالہ مصری خان نے کہا: ’’کیوں نہیں! ضرور ہونا چاہئے بلکہ خشتِ اول سے ہونا چاہئے‘‘۔ ہاں انہوں نے بعد میں جو کچھ کہا اس سے بلال میاں پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ بڑے بوڑھوں سے سنا کہ ایک وزیرِ با تدبیر ایسے بھی ہو گزرے ہیں جو جملہ دستاویزات پر بکمالِ شفقت انگوٹھا ثبت فرمایا کرتے تھے۔ ویسے بھی، دایاں ہو یا بایاں، انگوٹھا تو انگوٹھا ہوتا ہے؛ اور ہوتا بھی کسی طاقتور کا ہے، کسی ماڑے موٹے کا تو ٹینٹوا ہی ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہمیں نہیں معلوم کہ انگوٹھا لگاتے یا دباتے وقت ان کے سامنے ٹینٹوا کس کا ہوتا ہو گا۔ 

لالہ مصری خان کا اگلا ارشاد تھا: ’’بھائی! پہلی کچی سے بچوں کو سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو میں پڑھائیے اور چوتھی پانچویں سے اردو متعارف کرائیے، پھر آگے اردو میں چلئے اور اعلیٰ جماعتوں میں انگریزی بھی پڑھائیے، عربی بھی‘‘۔ بلال میاں کے ذہن میں تو وہی بات تھی انگریزی میں ابتدائی تعلیم دینے کی، کہ ترقی کا جن انگریزی میں مقید ہے۔اور ان کا مؤقف یہ بھی تھا کہ اردو بانجھ ہے، مقامی زبانیں ان پڑھ ہونے کی دلیل ہیں؛ وغیرہ۔ گھڑوں پانی والی بات لالہ نے یہ کہی: ’’میاں صاحب زادے! فرانس والے اپنے چھوٹے بچوں کو فرانسیسی پڑھاتے ہیں، جرمنی والے جرمن پڑھاتے ہیں، روس اور چین والے علاقائی زبانوں میں پڑھاتے ہیں؛ تمہیں اپنی مقامی اور قومی زبان سے کد کیوں ہے! مغرب والوں کا طریقہ بھی تو یہی ہے‘‘۔ خان لالہ نے اتنا سا تو نہیں کہا ہو گا نا، بہت کچھ کہا ہو گا جس کا ہمیں کچھ کچھ اندازہ پہلے بھی تھا، اور کچھ ان کے چہرے پر بحال ہوتے تناؤ سے بھی ہو رہا تھا۔

ہماری سوچوں میں ایک طوفان برپا تھا مگر ہم لالہ مصری خان سے کچھ بھی نہیں کہہ سکے۔ سو، اب خودکلامیوں پر گزران ہے اور خود سے پوچھا کرتے ہیں کہ: (۱) ہمارے طبقہ اشرافیہ میں مغرب کتنا ہے اور مشرق کتنا ہے، (۲) جب وہ بہم ہوتے ہیں تو کس زبان میں بات کرتے ہیں، (۳) ترقی سے ہماری کیا مراد ہے اور کیا ہونی چاہئے، (۴) علم کس چڑیا کا نام ہے؛ وغیرہ وغیرہ۔

*******
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ سوموار: ۴؍ جنوری ۲۰۱۶ء