(میاں بیوی کے درمیان ایک مکالمہ)
بیوی ۔"عورت کو عزت وہی مرد دے سکتا ہے، جس کی تربیت اچھی ہوئی ہو"۔
میاں ۔"بہت خوب! درست کہہ رہی ہیں آپ! اور یہ کام آپ کے کرنے کا ہے"۔
بیوی ۔"وہ کیسے، مرد تم ہو، میں نہیں"۔
میاں ۔"اپنے بیٹوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کیجئے نا، تا کہ آپ کی بہوئیں عزت
پا سکیں"۔
بیوی ۔"آئے ہائے! پتہ نہیں کون کون سی نگوڑی کہاں کہاں سے میرے بچوں کے پلے پڑیں
گی! میں ان کے لئے ہلکان ہوتی رہوں کیا؟"۔
میاں ۔"یقین کیجئے میری اماں نے ایسے نہیں سوچا تھا جیسے آپ سوچ رہی ہیں"۔
بیوی ۔"تو کیسے سوچا تھا تمہاری اماں نے! مجھے اس سے کیا! مجھے تو اپنے بیٹوں کو
سردار بنانا ہے"۔
میاں ۔"اور بہوؤں کو؟ سردارنیاں؟"۔
بیوی ۔"میری جوتی! میں لونڈیوں کو سردارنیاں بناؤں گی، بھلا؟ تم الٹا سوچ رہے
ہو"۔
میاں ۔"آپ میں اور آپ کی سمدھن میں کچھ فرق نہیں ہے۔ وہ بھی ہماری بیٹی کو لونڈی
ہی سمجھتی ہیں"۔
بیوی ۔"میں میں میں منہ نوچ لوں گی اُس کلموہی کا، میری بیٹی کو لونڈی بنائے گی
وہ؟ میری بیٹی کو تو رانی بننا ہے، رانی! دیکھنا تم"۔
میاں ۔"آپ کے منہ میں گھی شکر، مگر ایسا ہو گا تبھی اگر انہوں نے بھی اپنے بیٹے کی
تربیت اچھی کی ہو گی"۔
بیوی ۔"ہاں نا، یہی تو میں کہتی ہوں، اب اس نکمے کی تربیت اچھی نہ ہوئی ہو تو؟ پتہ
نہیں!"۔
میاں ۔"آپ تو اپنے بیٹوں کی اچھی تربیت کریں نا!"۔
بیوی ۔"پھر وہی! تمہیں ان پھاپھے کٹنیوں کا غم لگا ہوا ہے جو ابھی آئی بھی نہیں
ہیں، اور میری بیٹی، میری شہزادی، میری ملکہ۔ تم نہیں سمجھ سکو گے، تم نے عورت کی
قدر ہی کب جانی ہے! اب میری بیٹی پر آئی ہے تو تم بھی مجھے ہی جلی کٹی سنا رہے
ہو"۔
میاں ۔"میں نے تو سب بیٹیوں کی بات کی ہے۔ اس بیٹی کی بھی جسے آپ نے جنا اور ان
بیٹیوں کی بھی جنہیں چنیں گی اور وہ آپ کے پوتوں پوتیوں کو جنیں گی"۔
بیوی ۔"پتہ ہے؟ میرے پوتے پوتیاں فرشتے ہوں گے سب شہزادے اور شہزادیاں!"۔
میاں ۔"نگوڑیوں اور پھاپھے کٹنیوں کی اولادیں اور ہوں فرشتے حوریں شہزادے
شہزادیاں؟ یہ کیسے ممکن ہے؟"۔
بیوی ۔"اے، تم نے مجھے نگوڑی کہا؟ مجھے پھاپھے کٹنی کہا؟"۔
میاں ۔"نہ، نہ، نہ! میں نے بھی انہی کو کہا جنہیں آپ نے کہا۔ آپ یہ تو چاہتی ہیں
کہ آپ کی بیٹی جو کل پرائی ہونے والی ہے، وہ رانی بنے، اور وہ بیٹیاں جن کے ساتھ
آپ کو ساری عمر رہنا ہے وہ نگوڑیاں پھاپھے کٹنیاں سب لونڈیاں بنی رہیں؟ اپنی اور
اپنی سمدھنوں کی آرزوؤں کو متوازی نہیں برابر رکھ کر دیکھئے۔ اور ہاں! لونڈیوں کی
گود میں شہزادے نہیں پلا کرتے! کیا فرماتی ہیں آپ؟"۔
بیوی ۔"پتہ نہیں کیا کہہ رہے ہو! تم نے مجھے چکرا کر رکھ دیا ہے"۔
میاں ۔"آپ درست نہیں کہہ رہیں، میں تو آپ کو چکر میں پڑنے سے بچانے کی بات کر رہا
ہوں، کہ میری اماں نے مجھے یہی سکھایا تھا کہ بیٹا تمہاری بیوی تمہاری اولاد کی
ماں ہے اور اولاد کی تربیت ماں کرتی ہے! آپ اپنے بیٹوں کو یہ سبق نہیں دیں گی
کیا؟"۔
بیوی ۔"ہاں مگر وہ کلموہی میری رانی کی ساس!"۔
میاں ۔"اس کی آپ فکر مت کیجئے، اگر وہ یہ چاہتی ہے کہ جیسی عزت اسے ملی ہے اس سے
اچھی اس کی بیٹی کو ملے تو وہ اپنے بیٹے کو غلط کچھ نہیں سکھائے گی"۔
بیوی ۔"تمہیں اس پر اتنا اعتماد ہے؟ اور مجھ پر نہیں؟"۔
میاں ۔"آپ پر تو ہے ہی! ساری عمر یوں ہی تو ساتھ نہیں بِتا دی۔ اور ان
پر بھی ہے کہ وہ بھی اپنے پوتوں پوتیوں کو فرشتے حوریں شہزادے شہزادیاں دیکھنا
چاہتی ہیں۔ جیسے آپ چاہتی ہیں"۔
بیوی ۔"میں کیا کروں پھر؟ تم ہی بتاؤ"۔
میاں ۔"کچھ نہیں جتنا پیار ایک نانی کے روپ میں بانٹنا چاہتی ہیں آپ، اتنا ہی ایک
دادی کے روپ میں بھی بانٹئے۔ شہزادہ شہزادی کوئی بھی ہو، اس کی ماں ملکہ ہوتی ہے۔
ملکہ کو ملکہ مانئے، لونڈی نہ بنائیے"۔
بیوی ۔"اے، میں کب بناتی ہوں وہ تو"۔
میاں ۔"سنئے میری اچھی بیگم! داماد وہ بیٹا ہوتا ہے جس کو آپ کی بیٹی آپ کا بیٹا
بناتی ہے اور بہو وہ بیٹی ہوتی ہے جس کو آپ کا بیٹا آپ کی بیٹی بناتا ہے۔ مگر اس
کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ خود کو دونوں جگہ ماں کے مقام کی اہل ثابت کریں"۔
بیوی ۔"ارے، میں نے ایسے سوچا ہی نہیں تھا! یعنی میں اچھی ماں نہیں ہوں؟"۔
میاں ۔"آپ اچھی ماں ہیں! یقیناً بہت اچھی ماں ہیں، ایک ذرا سی چوک یہ ہو رہی تھی
کہ آپ نے ماں کے اندر ایک ساس پیدا کر لی تھی۔ ہوتی ساس بھی ماں ہے، ہے نا؟"۔
بیوی ۔"ٹھیک کہہ رہے ہو۔ عورت کو عزت وہ مرد دیتا ہے جس کی تربیت اچھی ہوئی ہو اور
تربیت اس کی اچھی ہوتی ہے جس کی ماں اچھی ہو"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تحریر مرتجل۔
۔۔۔ محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان۔
منگل یکم دسمبر 2015ء۔