بانگِ
درا سے علامہ اقبال کی ایک نظم "میں اور تو" کا طالب علمانہ مطالعہ
نہ
سلیقہ مجھ میں کلیِم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں
ہلاکِ جادوئے سامری، تُو قتیلِ شیوۂ آزری
میں نوائے سوختہ در گلُو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو
میں
حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری
مرا
عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفَسِ عدم
ترا
دل حرم، گِرَوِ عجم، ترا دیں خریدۂ کافری
دمِ
زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی
غمِ
رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری
تری
خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ
جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری
کوئی
ایسی طرزِ طواف تُو مجھے اے چراغِ حرم بتا!
کہ
ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری
گِلۂ
جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی
بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی "ہَری ہَری"
نہ
ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی
فطرتِ اسَداللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری
کرم
اے شہِؐ عَرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
وہ
گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری
۔۔۔
اقبالؔ
کا شعر ممتاز کیوں ہے؛ یہ سوال اب سوال نہیں رہا بلکہ مطالعے کا ایک قرینہ بن گیا
ہے۔ چند موٹی موٹی باتیں دہرا لینا زیرِ نظر نظم کی تفہیم میں کچھ سہولت پیدا کر
دے گا۔ سب سے پہلی اور بنیادی بات اس کا یقین اور فکرِ شفاف ہے، اسے کہیں بھی کسی بھی قسم کا ابہام درپیش نہیں۔
وہ جانتا ہے کہ مجھے کیا کہنا ہے اور میرے
مخاطب کون ہیں۔ یہاں شعر کے حوالے سے دورِ حاضر کے دو معروف مغالطوں کا ذکر ضروری
محسوس ہوتا ہے؛ ایک نام نہاد روشن خیالی اور دوسرا ابہام۔ بلکہ اب تو ان دونوں
چیزوں کا ہونا لازم سمجھ لیا گیا ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ نام نہاد روشن خیالی
کی بنیاد قبل مسیح کے اسکالروں نے ڈالی تھی، اور ابہام گوئی اردو شاعری میں اقبال
کے زمانے سے بہت پہلے رواج پا چکی تھی۔ واضح رہے کہ معنوی تہہ داری اور
کثیرالجہاتی اور چیز ہے، ابہام اور چیز ہے۔ ایک اور شوشہ یہ بھی چھوڑا گیا کہ شعر
کو خالصتاً فن برائے تفریحِ طبع ہونا چاہئے اس میں کوئی مقصد در آئے تو تفریح جاتی
رہتی ہے؛ یہ بھی مغالطہ ہے۔ ایک عام سا انسان بھی بے مقصد کوئی کام نہیں کرتا۔ حتٰی کہ جبلی تقاضوں کی تسکین بھی ایک مقصد رکھتی ہے۔
تفریحِ طبع کا بھی ایک مقصد ہے کہ آپ وقتی طور پر ہی سہی، تفکرات سے تھوڑی سی
رہائی پا کر اپنی توجہ زندگی کے مقاصد پر مرکوز کر سکیں۔ تاہم یہ بجائے خود اتنا
بڑا مقصد نہیں ہے جس پر سارے مقاصد قربان کر دئے جائیں۔ خالق نے یہ کائنات بغیر
کسی مقصد کے نہیں بنائی، اس میں موجود ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے، کوئی اس کو
پہنچ پائے یا نہ پہنچ پائے۔ "فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ انسان کوئی کام بے مقصد
نہ کرے" (انور مسعود)۔ شعر کہنا کوئی آسان کام نہیں ہے کہ آپ اس پر بغیر کسی
مقصد کے پوری عمر گلا دیں۔ یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ہم خود قبول کرتے ہیں۔
جب ایک ذمہ داری لے لی تو پھر اُس میں لیت و لعل کہ کوئی گنجائش بنتی نہیں ہے۔
اقبال
نے شعر کو ایک فن سے کہیں زیادہ ایک ذریعہء
اظہار کی
حیثیت سے اختیار کیا ہے کہ اپنی بات بہتر اور پرکشش انداز میں بیان کر سکے؛ گویا
فن اور مقصد یک جان ہو گئے۔ یہی خاصیت اقبال کے شعر کو اٹھا کر سب سے اوپر لے جاتی
ہے۔ اقبال کے پیغام کی قوت کا ایک بہت اہم پہلو اس کا علمی تبحر ہے، اور تحریک کا
منبع اس کا یقین ہے۔ اُس کا مطالعہ اور دقتِ شعور اُس کی اِس آرزو کا مکمل جواز
فراہم کرتے ہیں: "یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر"۔ نظم کی طرف
آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
نہ
سلیقہ مجھ میں کلیِم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں
ہلاکِ جادوئے سامری، تُو قتیلِ شیوۂ آزری
کلیم:
حضرت موسیٰ علیہ السلام۔ سامری: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا وہ جادوگر جس کی
داستان عبرت کا ذکر قرآن شریف میں بھی ہے۔ خلیل: حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ آزر:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ جو شاہی بت خانے کا نگہبان، بااثر درباری (غالباً وزیر مشیر) اور اپنے زمانے کا بہت مشہور
بت گر تھا۔
تاریخ
ہمیں بتاتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے وہ نبی ہیں جنہیں رب نے کچھ
معاملات میں کڑی آزمائش میں ڈالا، وہ اس میں سرخرو ہوئے تو اللہ نے ان کو اپنا
خلیل بنا لیا۔ آزر، باپ، بت گر، بت فروش، بت پرست اور حاکم؛ اور خلیل اللہ، بیٹا،
جو لوگوں کو بتوں کی پوجا سے منع کرتا ہے اور لا الٰہ الا اللہ کی طرف بلاتا
ہے۔ بیٹا حق پر ڈٹا ہوا ہے اور باپ باطل
پر نہ صرف جما ہوا ہے بلکہ اللہ کے نبی کو دھمکاتا ہے کہ باز آ جا، نہیں تو میں
تجھے سنگسار کر دوں گا۔ موسیٰ علیہ
السلام اور ہارون علیہ السلام کا باطل سے
پہلا عظیم معرکہ ایک میدان میں ہوتا ہے جہاں فرعون کے پروردہ چوٹی کے جادو گر ہیں۔
معرکے کا فیصلہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ وہی چوٹی کے جادوگر حق کے سامنے سجدہ ریز ہو
جاتے ہیں اور انہیں فرعون جیسے شقی اور خود کو خدا کہلانے والے جابر کا بھی کوئی
خوف نہیں رہتا۔ فرعون غرق ہو جاتا ہے، موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکل
جاتے ہیں۔ اللہ کریم کا حکم آتا ہے، کوہِ
طور پر جاتے ہیں وہاں چالیس روز تک کا قیام ہے۔ ان کی غیر موجودگی میں انہی کی قوم
کا ایک جادوگر سامری گائے کا ایک بت بناتا ہے اور قوم کے آدھے لوگ اس کے پیروکار
بن جاتے ہیں۔ گویا حق کا وہی معرکہ جو ایک میدان میں فرعونی جادوگروں سے ہوا تھا،
ایک بدلی ہوئی صورت میں اپنی ہی قوم کے ایک جادو گر سے درپیش ہوتا ہے۔ فتح تب بھی
حق کی ہوئی تھی، فتح اب بھی حق کی ہوتی ہے۔ موسیٰ اور ابراہیم کے ان واقعات کی
روشنی میں اقبال بتا یہ رہا ہے کہ وہاں
سلیقہ اور قرینہ یعنی ایمان و ایقان کی دولت میسر تھی تو حق نے فتح عطا فرمائی۔
اس شعر کا مقصود اس تلخ حقیقت کو سمجھنا اور تسلیم کرنا ہے
کہ ملتِ ابراہیم میں آج وہ سلیقہ اور
قرینہ نہیں رہا۔ کلامِ اقبال کا ایک وصفِ خاص یہ ہے کہ وہ اپنے پیغام کو مختلف
مقامات پر مختلف زاویوں سے، اور حقائق کو کہیں ایک پہلو سے کہیں دوسرے پہلو سے
بیان کرتا ہے۔ اسی شعر کے مرکزی نکتے پر اقبال کے دو شعر پیش کئے جاتے ہیں:۔
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللہ
بُت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بُت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پِسر آزر ہیں
و علیٰ ھٰذا القیاس
۔۔۔۔۔
میں نوائے سوختہ در گلُو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو
میں
حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری
گل
و بلبل کا مکالمہ اردو شعر میں بہت عام رہا ہے۔ یہ شعر بادی النظر میں نالہء بلبل
ہے جو گل سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے: میں گلے میں سڑی ہوئی آواز بن چکا ہوں، تیرا
رنگ اُڑ چکا ہے، خوشبو ساتھ چھوڑ گئی ہے، میں غمِ آرزو کی حکایت بن کر رہ گیا ہوں
اور تو ماتمِ دلبری کی داستان ہے۔ جیسا پہلے عرض کیا گیا، ابہام اور چیز ہے تہہ
داری اور چیز ہے۔ گل و بلبل کے اس منظر نامے کے لئے اتنے دقیق الفاظ و تراکیب لانے
میں شاعر کا ایک اہم مقصد کار فرما ہے۔ اس نے نہ بلبل کا نام لیا، نہ گل کا؛ گویا
یہ مکالمہ، یا مونولاگ، ایک وسیع تناظر پر محیط ہو گیا۔ یعنی بات پھر مقصد کی طرف
چلی گئی۔ جذبہ و ہمت جواب دے جائیں تو مقصد کی جاذبیت جاتی رہتی ہے۔ اس شعر کو
اقبال کے عہد کی امتِ مرحوم کے حالات کا عالمی نقشہ اور اس کا اظہاریہ بہت واضح
ہے۔
ہمیں
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہو گی کہ یہ غزل نہیں ہے نظم ہے اور اس کے اشعار کا
مضمون باہم مربوط انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ کلامِ اقبال کی یہ ایک اضافی خوبی ہے
اس کی نظم کے اشعار جہاں اپنے سیاق و سباق سے منضبط ہیں وہیں غزل کے شعروں کی طرح
ہر شعر اپنے اندر ایک مکمل مضمون سموئے ہوئے ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اقبال کی
نقل نہیں ہو سکتی، اس میں اقبال کے شعر کی اس دوہری معنویت کا بھی بہت حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔
مرا
عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفَسِ عدم
ترا
دل حرم، گِرَوِ عجم، ترا دیں خریدہء کافری
اس
شعر میں کچھ خود فریبیاں مذکور ہیں۔ سادہ تر الفاظ میں ہم اس کے مفہوم کو یوں بیان
کر سکتے ہیں: میں جسے عیش گردانتا ہوں وہ حقیقت میں غم ہے، میں نے زہر کو شہد سمجھ
لیا ہے (شہد میں شفا کلام اللہ سے مشہود ہے)؛ میرا ہونا نہ ہونا برابر ہوا۔ تیرا
دل جو اپنی مرتبت میں حرم یعنی اللہ کا گھر ہونا چاہئے، وہ عجم کے ہاں گِروی رکھا
ہوا ہے، اور جسےتو دین سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہے وہ کافری کا خریدا ہوا ہے۔ خالص
توحید ایسی نہیں ہوتی۔
اقبال
نے انسان کو بالعموم اور امتِ مسلمہ کو بالخصوص اپنا موضوع بنایا ہے۔ اور اس امت
کے عروج و زوال کا بہت باریکی سے مطالعہ کیا ہے؛ جسدِ امت پر غیروں کی ضربوں کو
بھی دیکھا ہے اور اندر سے اٹھتی ہوئی ٹیسوں کو بھی محسوس کیا ہے۔ " تو جھکا
جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من" کی صدا بھی بلند کی ہے اور اپنی حمیت کی
میراث کو بازیاب کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
خدائے
لم یزل کا دستِ قُدرت تُو، زباں تُو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گُماں تو ہے
۔۔۔۔۔
دمِ
زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی
غمِ
رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری
زندگی
تحرک اور تحریک کا نام ہے، یہ سانس سانس دوڑ رہی ہے اور اس کی یہ دوڑ ہی اس کے
ہونے کا ثبوت ہے، تھم جائے تو زندگی نہ رہے۔ حکیم الامت نے زندگی کو کبھی محض
پھولوں کی سیج قرار نہیں دیا؛ وہ عشرتِ امروز کا قائل ہی نہیں۔ اس کے ہاں زندگی کا
فلسفہ کتاب اللہ سے ماخوذ ہے جس میں عالمِ عمل اور عالمِ جزا کا بہت واضح نقشہ
بنتا ہے۔ صرف یہ نہیں، اقبال تو اس امر کو بھی مانتا ہے کہ امتوں کے اعمال کا
نتیجہ اسی دنیا میں سامنے آ جایا کرتا ہے۔ اس کی طویل نظم "خضرِ راہ" کا
ذیلی عنوان "زندگی" منقولہ بالا شعر کو اس کے فلسفہء حیات اور قوتِ عمل
سے مربوط کرتا ہے، چند شعر نقل کئے جاتے ہیں:۔
برتر
از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے
کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی
تُو
اسے پیمانہء امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہمدواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی
دُنیا آپ پیدا کر، اگر زِندوں میں ہے
سرِّ
آدم ہے، ضمیر کُن فکاں ہے زندگی
۔۔۔۔۔
تری
خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ
جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری
وہ پتلی ٹانگوں والا لڑکا جس کی ساری زندگی فقر و غنا میں کٹ گئی، دینِ
متین کی قوت بن کر سامنے آتا ہے تو ایسے کہ
اس کی مثال کوئی کہاں سے لائے گا۔ جَو کی روٹی مشکل زندگی کی علامت ہے۔ یہ علی رضی
اللہ عنہ ہیں، اقبال نے وہیں سے استنباط کیا ہے کہ آپ کے اندر اگر ایمان کی حرارت
اور چمک ہے تو تنگ دستی کوئی ایسی شے نہیں کہ اس سے ڈرا جائے۔ غیرتِ ایمانی کا
شعلہ لپکتا ہے تو دنیاوی مفادات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ اس مجاہدے کی مزید
بات آگے آتی ہے۔
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
اقبال کا قاری اس کے فلسفہء عشق کی پہنائیوں سے نا آشنا
نہیں ہو سکتا۔
کوئی
ایسی طرزِ طواف تُو مجھے اے چراغِ حرم بتا!
کہ
ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری
اقبال
کا روئے خطاب حرم کی طرف ہے؛ وہ اس کو چراغ کی اور خود کو پروانے کی جگہ رکھ کر
سمندر کی سرشت کا متمنی ہوتا ہے۔ یہ سمندر پانی کا نہیں ہے وہ کیڑا ہے جو ادبی
روایات کے مطابق آگ میں پلتا ہے۔ کِرماتش کے لئے آگ موت نہیں، عین حیات ہے۔ حرم کو
چراغ کا استعارہ کثیر جہتی ہے؛ کہ چراغ میں روشنی بھی ہے، تپش بھی ہے اور زندگی
نام ہی تپش کا ہے۔ پیامِ مشرق میں نیم سوختہ پروانہ ایک "کرمِ
کتابی" کو زندگی کا سبق اس انداز میں
دیتا ہے:۔
تپش
می کند زندہ تر زندگی را
تپش
می دہد بال و پر زندگی را
عرفی
شیرازی نے کہا ہے:
ہم
سمندر باش و ہم ماہی کہ در جیحونِ عشق
رُوےِ
دریا سلسبیل و قعرِ دریا آتش است
۔۔۔۔۔
گِلۂ
جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی
بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی "ہَری ہَری"
اقبال
نے یہاں مکالمے کا سا اظہاریہ اختیار کیا ہے۔ پہلا شعر اقبال کا حرم سے خطاب ہے
اور یہاں حرم کا اہلِ حرم سے شکوہ ہے۔ عین نافِ زمین پر واقع اس گھر کی عظمت کے
کئی پہلو ہیں۔ آدم و حوا کی جوڑی کو جب زمین پر اتارا گیا، اس گھر کی بنیادوں کے
نشانات موجود تھے۔ روایات میں ہے کہ ابوالبشر نے حکمِ الٰہی کی تعمیل میں اس گھر
کی تعمیر کی اور یہ دنیا میں موجود اور بعد میں آنے والے انسانوں کے لئے قبلہ مقرر ہوا۔ وقت کی دست برد،
آندھیاں، طوفان، بارشیں سیلاب وغیرہ کے اثرات پورے روئے زمین پر واقع ہوتے رہتے
ہیں، یہ فطرت کا طریقہ ہے۔ گردشِ لیل و نہار میں یہ گھر کئی بار پانی مٹی ریت میں
دب گیا، پھر تعمیر ہوا۔ خلیل اللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پہلوٹی کے فرزند سیدنا اسماعیل علیہ السلام
کا اپنی والدہ کے ساتھ اس وادی میں اترنا اللہ کریم کی بے کراں حکمتوں اور انعامات
میں بہت اہم واقعہ ہے۔ اس بار اللہ نے اس گھر کی بازتعمیر سے پہلے یہاں پانی کا ایسا
انتظام کیا کہ ننھے اسماعیل کی ماں پکار اٹھی: "زَم! زَم" (ٹھہرجا، ٹھہر
جا)۔ زَم زَم کے اس نعرے میں کتنی اور کیسی کیسی طغیانیاں رہی ہوں گی، اس کا ادراک
آنکھ سے زیادہ دل کا کام ہے۔ ادھر یہ پانی محض پانی نہیں تھا، انسان کی جملہ غذائی
ضرورتوں کی تسکین کا سامان تھا۔ یوں بھی زندگی وہیں پنپتی ہے جہاں پانی ہو؛ طیور و
وحوش، انسان اور اَنعام بھی وہاں بہم ہوتے ہیں جہاں پانی ہو۔ یہ چشمہء حیواں پھوٹا
بھی تو اللہ کے اس گھر کے آس پاس جسے بارِ مکرر تعمیر ہونا تھا۔ زم زم کا یہ نعرہ
اسی ماں کے منہ سے نکلا تھا، وہ پیاس کی شدت سے تڑپتے ننھے اسماعیل کی زندگی کی
دعائیں کرتی، دھم دھم دھمکتے سینے اور منہ زور بگولوں کی طرح سنسناتی پھولتی
سانسوں کے ساتھ دونوں پہاڑیوں کے بیچ میں دیوانہ وار دوڑتی پھرتی تھی۔ حکم جاری ہو
گیا کہ اس کی طرف سفر کیا جائے، اس کا طواف کیا جائے، اس نواح میں مقررہ مقام پر
جانور ذبح کئے جائیں، قیام کیا جائے، اللہ کی تسبیح و تہلیل کی جائے اور حج کے
سارے مناسک ادا کئے جائیں؛اور جو بھی صاحبِ ایمان کرہء ارض پر کہیں بھی ہے وہ اس
کو قبلہ بنائے۔ ماں کی طوفانی دوڑوں کو ان مناسک کا حصہ بنا دیا گیا۔
ایک فرد سے لے کر پورے عامِ انسانیت تک کے تمام معاملات کو
چاہے وہ کسی بھی محاذ پر ہوں، کسی بھی سطح کے ہوں، اس گھر کے رب کے رُخ پر ہونا
ہے، اور اس گھر سے پھوٹنے والی روشنی کو سارے زمانوں کے لئے سارے انسانوں کے لئے
راہنما ہونا ہے۔مگر اس کے لئے ایک ضربِ کاری کی ضرورت ہے۔ اس شعر میں ایک ترکیب
آئی ہے: "جفائے وفا نما"؛ اس کی حقیقت کھل جائے تو انسان اندر سے کانپ
جاتا ہے۔ سادہ ترین لفظوں میں اس کا معنیٰ ہے: منافقت۔
رازِ حرم سے شاید اقبالؔ باخبر ہے
ہیں
اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ
وہی حرم ہے، وہی اعتبارِ لات و منات
خُدا
نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری!
۔۔۔۔۔
نہ
ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
وہی
فطرتِ اسَداللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری
اس
وقت بلکہ گزشتہ کئی صدیوں سے صورتِ حال ایسی چل رہی ہے کہ مردِ مومن اپنی اصلی اور
حقیقی منزل سے بیگانہ ہو چکا ہے۔ نیکی اور بدی کی قوتوں کا ٹکراؤ ہمیشہ جاری رہا
ہے۔ اللہ کریم کے لئے ابلیس کو فنا کر دینا کوئی مشکل نہیں تھا، مگر اس نے بدی کی
اس قوت کو موقع دیا۔ مالک اپنی حکمتوں کو خود ہی جانتا ہے، تاہم ایک بات سامنے کی
ہے کہ اگر اس دنیا میں صرف نیکی ہی نیکی کی قوت ہوتی، بدی کا تصور بھی نہ ہوتا تو
شاید نیکی بھی نیکی نہ رہتی۔ نیکی اور بدی، اسلام اور کفر، عدل اور ظلم، شکر اور
ہوس کے درمیان جنگ ہبوطِ آدم کے وقت سے جاری ہے اور سورِ اسرافیل تک جاری رہے گی،
کہ یہی منشائے الٰہی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا (جو اپنی ذات میں ایک امت
تھے) کفر کے خلاف اعلانِ بغضاء کتاب اللہ میں مذکور ہے۔ محمد الرسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھیوں کا نشان جو ہمیں اسی کتاب سے ملتا ہے کہ وہ آپس میں رحیم ہیں
اور کفار پر بہت سخت:۔
ہو
حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ
حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
یہ
بات کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری
نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
زیرِ
نظر شعر میں مذکور ستیزہ کاریاں اہلِ نظر کے لئے نئی بات نہیں ہے۔ یہ پنجہ فگنی
ہزاروں برس سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اللہ کی زمین پر اللہ کا
نظام پورے طور پر نافذ نہیں ہو جاتا۔
ستیزہ
کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ
مصطفوی سے شرارِ بولہبی
سیدنا
علی رضی اللہ عنہ کا ذکر پہلے بھی ہوا، یہاں تاریخ کے دو کردار اور بھی مذکور ہیں۔
ایک یہودیوں کا سرخیل مرحب جو خیبر کی جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کے مقابل تھا،
بالآخر جہنم واصل ہوا؛ اور دوسرا عنتر بن شداد کے نام سے مشہور تھا۔کتب میں عنتر
ابن ابن ابن شداد لکھا ہے، یعنی یہ شخص شداد کا بیٹا نہیں تھا اس کی نسل میں سے تھا، اور بہت سخت
کافر تھا۔ اس نے طویل عمر (تقریباً 127 شمسی سال) پائی۔ عنتر بن شداد 521ء کے لگ
بھگ یمن میں پیدا ہوا، 28ھ (648ء) میں قتل ہوا، یہ سیدنا عثمان غنی کا دورِ خلافت
تھا۔ یہ شداد وہی ہے جس نے اپنے تئیں اس دنیا میں جنت بنائی تھی، جو اُسے دیکھنی
بھی نصیب نہیں ہوئی۔
۔۔۔۔۔
کرم
اے شہِؐ عَرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
وہ
گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری
نظم
کا آخری شعر ہے؛ بات یہیں پہنچنی چاہئے تھی۔ سیدالانبیاء، خیر البشر، سرورِ کونین
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک کے حوالے سے اقبال کا (آخری ایام میں
کہا ہوا) یہ قطعہ دیدہء دل سے پڑھنے اور رگِ جاں سے محسوس کرنے کے قابل ہے:
تو
غنی از ہر دو عالم، من فقیر
روزِ
محشر عذر ہایِ من پذیر
گر
تو می بینی حسابم ناگزیر
از
نگاہِ مصطفٰے پنہان بگیر
وہ
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ حضورِ رسالت مآب میں اُن کی آواز گھٹ جاتی
تھی۔ "حاشا! کوئی گستاخی نہ ہو جائے"۔ حکم ہوا کہ نبی کے سامنے بلند
آواز سے نہ بولو، ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا جاتا رہے۔ ایک صحابی نے ،کہ اُن
کی آواز فطری طور پر بلند تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آنا چھوڑ دیا؛ کہیں
ایسا نہ ہو کہ میری یہ آواز مجھے لے ڈوبے۔
ایسی تواضع کے حامل وہی لوگ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو ٹھینگے پر رکھتے تھے۔
اقبال یہاں سراپا سپاس اور مجسم سوال دکھائی دیتا ہے، تو نہایت ادب کے ساتھ کرم کا
منتظر ہے وہ بھی اپنے لئے نہیں، ہر اس شخص کے لئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض
یافتہ ہے۔
۔۔۔۔۔
ہم
نے نظم کا شعر بہ شعر مطالعہ کرنے کی سعی کی ہے۔ مناسب ہو گا کہ اس کو ایک اکائی
کے طور پر بھی دیکھا جائے۔
پہلا
شعر: امت کی موجودہ کم مائیگی اور دُون ہمتی کا اقرار
دوسرا
شعر: اسی تسلسل میں عدم مؤدت کی فضا کا نوحہ
تیسرا
شعر: امت کی فکری ژولیدگی کی کیفیات
چوتھا
شعر: زندگی کے سرد و گرم سے بنرد آزما ہونے کا عزم اور دعوت
پانچواں
شعر: اپنے وسائل میں زندہ رہنے اور آتشِ شوق کو زندہ رکھنے کی ترغیب
چھٹا
شعر: درونِ ذات اور امت میں عزم و ہمت کے احیاء کی آرزو
ساتوں
شعر: اپنے مرکز سے جڑنے کی اہمیت کا اظہار
آٹھواں
شعر: تاریخی تسلسل اور اسلاف کی قربانیوں کا تذکرہ
نواں
(آخری) شعر: سرورِ کائنات کے حضور خود سپردگی کا اقرار
زیرِ
نظر نظم کے معنوی آفاق پر ایک
نظر ڈال چکے، ان میں جتنے ڈوبتے جائیں گے، اوپر اٹھتے جائیں گے۔ بارے اسلوب کے زاویے سے بھی دیکھ لیا جائے۔
رعایات کا نظام اور اس کی بندشیں ملاحظہ ہوں: ۔
پہلے
شعر میں: کلیم اور سامری، خلیل اور آزر، ہلاک اور قتیل، سلیقہ اور قرینہ، میں اور
تو، جادو اور شیوہ۔
دوسرے
شعر میں:نوا اور گلو، رنگ اور بو، سوختہ پریدہ اور رمیدہ، آرزو اور دل بری، غم اور
ماتم، حکایت اور حدیث۔
تیسرے
شعر میں: عیش اور غم، شہد اور سم، بود اور عدم، دل اور دین، گرو اور خریدہ، عجم
کافری اور حرم۔
چوتھے
شعر میں: زندگی، دم، رم، غم، سم، غمِ رم اور سمِ غم۔ اس شعر کی نغمگی سونے پر
سہاگہ ہے۔
پانچویں
شعر میں: خاک، شرر، فقر و غنا، نانِ شعیر، قوت، جہاں، مدار۔
چھٹے
شعر میں: طرزِ طواف، پتنگ، چراغِ حرم، سمندر، عطا۔
ساتویں
شعر میں: جفائے وفا نما، گلہ، حرم، اہلِ حرم، بت کدہ، صنم، بیان، ہری ہری۔
آٹھویں
شعر میں: ستیزہ گاہ، پنجہ فگن، حریف، اسد اللہ، مرحب، عنتر۔
نویں
شعر میں: شہِ عرب و عجم، کرم، منتظرِ کرم، دماغِ سکندری، گدا، عطا۔
۔۔۔۔۔
ہیئت
کے اعتبار سے یہ ایک قطعہ بند نظم ہے جس میں شاعر نے قافیے کو کافی سمجھا ہے۔
اقبال کے ہاں یہ بات بہت عام ہے کہ وہ ردیف کا التزام نہیں کرتا، آگئی تو آگئی
نہیں آئی تو بھی ٹھیک ہے۔اُس کے وسیع و عمیق مطالعے کی قوت بھی ہے کہ الفاظ بہ یک لحاظ اس کے سامنے دست بستہ حاضر ہوتے ہیں
اور اقبال ان کو اپنی مرضی سے باندھتا ہے۔ بہ این ہمہ اس کی نظموں میں بھی غزل کی
سی فضا پائی جاتی ہے۔ ہر شعر اپنی اپنی جگہ ایک مضمون کو مکمل معنوی اکائی میں پیش
کرتا ہے اور نظم کے شعر مل کر ایک بڑے موضوع کا احاطہ کرتے ہیں۔ اُس کی غزل کی تہہ
میں ایک رو چل رہی ہوتی ہے اور اشعار کے مختلف الاشکال بھنور اور لہرئیے اسی رو سے
جڑے ہوتے ہیں۔ نظم میں ریزہ خیالی کا اور غزل کے اشعار میں ہم آہنگی کا سلیقہ کوئی اقبال سے سیکھے۔
اس
امر میں کوئی شک نہیں کہ شاعری اقبال کا مسئلہ رہی ہے نہ مطمع، اس نے شاعری کو ایک
مؤثر ذریعہء اظہار کے طور پر اپنایا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی نہ لیا جائے کہ اُس نے
شعر کے اوصاف کو نظر انداز کیا ہو گا۔ صاف سی بات ہے کہ ذریعہء اظہار کا جو بھی
طریقہ آپ اختیار کرتے ہیں، اس میں ہمہ پہلو جمالیات اور صحت کو پیشِ نظر رکھتے
ہیں۔ اقبال نے شعر کے اوصاف کو قائم رکھنے سے ایک قدم آگے اس کی افادیت میں اضافہ
کیا ہے۔
۔۔۔۔۔
شعر
پر ایک بودا سا اعتراض یہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ مقصدیت شعر کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اقبال کے ہاں ہمیں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے۔ اقبال کے مقصد نے اس کے شعر
کو نکھارا ہے اور شعری فنیات نے اس کی مقصدیت کے اظہار کو مہمیز کیا ہے۔ یہ بھی
ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ شعر کا نفسِ مضمون اپنی زبان ساتھ لے کر آتا ہے، دقیق و
عمیق افکار، فلسفیانہ موضوعات، گہری محسوساتی سطح، عزم صمیم اور جہد مسلسل کی
باتیں، تصورات کی تصویر کشی، انسانی فکر کا وسیع اور وقیع مطالعہ، تاریخ کا شعور، مابعد الطبیعیات، الٰہیات؛ اور
جتنے عناصر اقبال کی شاعری کا خمیر ہیں؛ ان
کی لفظیات بھی تو ویسی ہی ہونی چاہئے۔ اقبال نے ساحری یہ کی ہے کہ ایسے موضوعات کو
محسوسات کی سطح پر لا کر پوری ادبی چاشنی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے ہاں فن اور
مقصد اس طرح یک جان ہو جاتے ہیں کہ کسی ایک کو بھی منہا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کسی
عام شاعر کا کام تھا بھی نہیں؛ اس کے لئے ایک اقبال درکار تھا۔ اسی نہج پر اقبال
کا قاری بھی شعر و ادب کے عام قاری سے مختلف ہے، اُسے بھی اگر اقبال کی سی نہیں تو
اس کے سے انداز کی وسعتِ نظر اور دقت شعور کی ضرورت بہر حال ہے۔
اقبال
کی فکری اور نظری شخصیت کی مضبوطیء تعمیر میں مجھے دو شخص نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک
بزرگ مشرقی خاتون امام بی بی اور اس کے میاں شیخ نور محمد دونوں مل کر ایک شخصیت
بن جاتے ہیں؛ دوسری شخصیت مولوی میر حسن کی ہے۔ ان بزرگوں کے سایہء عاطفت میں
پرورش پانے والا کشمیریوں کے محلے کا لڑکا"بالا" اتنا قوی ہو جاتا ہے کہ
دیارِ فرنگ کی رنگینیاں اور فریب کاریاں بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں بلکہ اس کی
مشرقیت اور بلند و بالا ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع النظر ہو جاتی ہے۔
خِیرہ
نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
اقبال
کے شعر میں روانی اور تیزی اتنی زیادہ ہے کہ اس کی تند خو موجیں بھاری پتھروں،
چھوٹے موٹے سنگریزوں اور پانی سطح پر تیرتے کاہ و برگ کو یکساں رفتار پر بہا لے
جاتی ہے۔ عام پیرایہء اظہار میں بوجھل محسوس ہونے والی تراکیب، استعارے، علامتیں، صنائع،
تلمیح و تضمین اقبال کے شعر میں ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ دوڑتے دوڑتے
قاری کی سانس پھول جائے تو بھی اقبال اسے اپنے ساتھ کھینچ لے جاتا ہے۔ ضرورت ذوقِ
نظر کی ہے، جو میسر ہو تو سب کچھ شیشہ ہو جاتا ہے۔
فِردوس
میں رومیؔ سے یہ کہتا تھا سنائیؔ
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ، وہی آش
حلّاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کِیا رازِ خودی فاش!
۔۔۔۔۔
محمد
یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
۔۔۔ اتوار: 5 ۔ نومبر
2017ء ۔۔۔