پیر، 30 اکتوبر، 2017

کلام مشکل، سکوت مشکل تر





کلام مشکل، سکوت مشکل تر



(ادبی تنقیدی فورم راہِ سخن پر ایک گفتگو)
سوال جناب محمد عمران نادمؔ کے اور جوابی گزارشات اس فقیر کی

جناب ایم آئی نادمؔ فرماتے ہیں:

۔0۔ میرے ذہن میں اکثر تواتر سے یہ خیال آرہا ہے۔

ج: آپ کے سوالوں کو اپنی سہولت کے لئے ایک ترتیب دی ہے، امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے۔ اس جملے کامحرک شاید آپ کے سوالوں کا اسلوب بھی ہے، جن میں اکتاہٹ نمایاں ہے۔ بات ہو زبان کی تو سب سے پہلے املاء کی بات ہو گی۔ میری اس جسارت کو گستاخی پر محمول نہ کیجئے گا۔ آپ نے لکھا: "اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ"۔ آپ کی سطح کا شخص ایسا لکھے گا تو ایک کم تر علمی صلاحیت والے سے ہمیں کیا توقع کرنی چاہئے؛ سوال تو بنتا ہے نا؟۔ ایک لکھاری کے لئے املاء و اصوات میں درست ہونا پہلی شرط ہے۔ باقی سب کچھ بعد کی بات ہے۔ 

۔ 1۔ کہ ہمارے اکابرین شعراء و ادبا نےہرقسم کے مضامین پر طبع آزمائی کی ہے۔ زبان و بیان اور الفاظ و تراکیب کے گنجِ گراں مایہ موجود ہیں۔ علاوہ ازیں تنقیدی محافل کے معیارات اس قدر بلند ہیں کہ ان معیارات کے متوازی چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ج: یہ تو اچھی بات ہے، آپ کو قابلِ مطالعہ مواد کا ایک بڑا سرمایہ میسر ہے، اس سے فائدہ اٹھائیے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ زبان محض الفاظ و تراکیب کے مجموعے کا نام نہیں۔ اس کے جملہ عناصر، اُن کی تفاصیل اور ساختیات پر بیش قیمت کتابیں موجود ہیں۔ مگر اُن سب کے ساتھ ایک مسئلہ مشترک ہے؛ انہیں پڑھنا پڑتا ہے۔ ایک مضمون رومان کا لے لیجئے، اس میں ایک ہی شاعر کے ہاں بلا کا تنوع اور اظہار آپ کو ملے گا (فانی بدایونی)۔ آپ کے مطالبے پر کوئی شخص چاہے بھی تو یہاں سب کچھ نقل نہیں کر پائے گا۔ کچھ کام آپ کے کرنے کے ہیں۔

۔ 2۔ کوئی گوشہ ادب کی تاریخ کا تاریک نہیں، کتنے ہی لوگ ادب سے وابستہ ہیں۔ شعراء دھڑا دھڑ شعر پر شعر کہے جارہے ہیں۔ نثر نگاروں نے نثر لکھ لکھ کر صفحات کے صفحات کالے کر ڈالے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ تمام مضامین اس قدر برتے جا چکے ہیں کہ خاص الخاص اور اچھوتے مضامین بھی عامیانہ رنگ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ موسیقار حضرات کے پاس دھنیں ختم ہوئی جارہی ہیں۔ حال یہ ہو چکا ہے کہ پرانی دھنوں کا ریمکس بنایا جا رہا ہے۔ جدّت کے نام پر طوفانِ بد تمیزی برپا ہے اور یہی حال دیگر فنونِ لطیفہ کا بھی ہے کیونکہ نئے خیالات کہاں سے لائے جائیں؟ ۔

ج: پہلی بات آپ نے بہت اچھی کی کہ ادب کی تاریخ کا کوئی گوشہ تاریک نہیں ہے۔ آپ کو وہیں سے اپنے لئے  میدانِ ادب کا نشان بھی ملے گا، اور راہنمائی بھی۔ "دھڑا دھڑ شعر پر شعر کہے جانا، صفحات کے صفحات کالے کر ڈالنا" اول تو یہ اظہاریہ کچھ پسندیدہ نہیں، لگتا ہے کسی قبیح فعل کا ذکر ہو رہا ہے۔ تاہم کرنے والے کر گئے؛ پڑھنے والے کے پاس انتخاب کا حق حاصل ہے، اسے کوئی مجبور نہیں کر سکتا کہ فلاں چیز پڑھو، فلاں چیز نہ پڑھو۔ ادب کا قاری ایک عام درجے کے قاری سے بہرطور آگے ہوتا ہے۔
مضامین تو آئیں گے، لکھا جائے گا تو کسی موضوع پر لکھا جائے گا، کوئی مضمون آفرینی کوئی مضمون بندی ہو گی، یہ لازمی ہے۔ اگر نہیں ہو گی تو قاری کا شاکی ہونا بنتا ہے کہ صاحب یہ کوئی مضمون ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ خاص الخاص اور اچھوتے مضامین جو اردو شعر اور نثر میں آئے ہیں ان میں بہت سارے آج بھی خاص الخاص ہیں۔ جو لہجے اس طرح کے آئے ہیں، وہ آج بھی خاص الخاص ہیں۔ یہاں پھر ایک نکتہء اعتراض در آیا: عمومی یا عام ہونا اور بات ہے، عامیانہ ہونا اور بات ہے۔ ایک شاعر اور ناقد کو الفاظ کے چناؤ میں بھی شاعر اور ناقد نظر آنا چاہئے۔جو اپنے دور میں عوامی تھا وہ آج بھی عوامی ہے (نظیر اکبر آبادی)، جو اس دور میں عامیانہ تھا آج بھی عامیانہ ہے (استاد چرکین اور جعفر زٹلی)، جو اپنے دور میں خاص الخاص تھا آج بھی خاص الخاص ہے (اکبر اور اقبال)۔ اپنے اپنے حوالے سے خاص الخاص آج کے دور میں بھی ہیں (انور مسعود، سید محمد جعفری)۔ اساتذہ میں تقریباً سارے نام آج بھی خاص الخاص کی ذیل میں آتے ہیں۔  نثر کے معاملے میں اپنا ہاتھ قدرے تنگ ہے۔ اشرافیہ کے دور کے اور آج کے کچھ نثر نگاروں کے نام یاد دلا دوں: محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی، حالی، فراق، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، پطرس بخاری، کرنل محمد خان؛ چلتے جائیے ۔ ۔ ۔

جدت اور اس کے نام پر بقول آپ کے "طوفانِ بدتمیزی" برپا ہو رہا ہے،  آپ کے خیال میں کیا وہ صرف موسیقی یا "دوسرے فنونِ لطیفہ" میں ہے یا ادب میں بھی ایسا ہی ہے؟ روایت کیا ہے، جدت کیا ہے، جدت میں اچھائی کیا ہے، جدت میں قباحت کون سی واقع ہو سکتی ہے یا ہو رہی ہیں۔ یہ لفظ اس سب کچھ کے تناظر میں انتہائی نامناسب ہے۔ پہلے چھان لیجئے کہ جدت کہاں مثبت رہی کہاں منفی رہی پھر بات کیجئے۔ اگر زبان میں جدت کارفرما نہ ہوتی تو ہم آج بھی ملا وجہی کی سی نثر اور قلی قطب شاہ کی سی شاعری کر رہے ہوتے، جسے آج سمجھنا تو درکنار ، درست پڑھ لینا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ہر نام وَر قلم کار اپنے اپنے دور میں جدید رہا ہے، وہ کچھ نہ کچھ نیا لے کر آیا ہے۔
 
۔ 3۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں بندہ کس طرح بہت زیادہ برتے گئے مضامین میں انفرادیت پیدا کرے۔ جدّت کہاں سے لائے؟  لفاظی سے؟  عجیب و غریب نہ سمجھ آنے والی تراکیب سے؟  اُلٹے سیدھے خیالات سے؟  یا نامانوس طریقہ ہائے زبان و بیان سے ؟ ۔ خیالات و تراکیب کی عمو میت سے کیسے چھٹکارا پایا جائے؟ ۔

ج: یہ جن حربوں کا (لفظ حربہ میں نے انور مسعود سے لیا ہے) ذکر کیا ہے یہ خام باتیں ہیں۔ فطرت رواں دواں ہے، اس میں کچھ مستقل اَقدار ہیں، کچھ عارضی ہوتی ہیں، کچھ وقت کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں اور پھر مستقل کا درجہ پا لیتی ہیں۔ انسان کے جملہ مسائل خاص طور پر نئے عائلی مسئلے، معاشرتی زندگی کا مدوجذر، ہر زمانے کے نو بہ نو فتنے محرومیاں مظالم دل چسپیاں، سہولیات، ہر دور کے سورما (ہیرو) اور مشاہیر، اور اِن سب کے پیش منظر میں آپ (اپنی پوری شخصیت کے ساتھ) موجود ہیں۔ مگر جب آپ جدت کو نامانوس کہہ کر اور روایت کو عمومیت کا نام دے کر رد کر دیتے ہیں تو آپ اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں اور اپنا راستہ خود بند کر رہے ہیں۔ زندگی کی روانی کا ساتھ دیجئے، یقین کیجئے زندگی آگے نکل جائے گی اور آپ کا قلم پیچھے رہ جائے گا۔
یہاں یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ لفظیات اور تراکیب کا بنیادی تعلق آپ کے مضمون اور موضوع سے ہوتا ہے؛ ہر مضمون اپنی تراکیب کے ساتھ آتا ہے، اور ان کو سلیقے سے پیش کرنا، ان میں ادبی چاشنی پیدا کرنا آپ کی صلاحیتوں کا مرہون ہوتا ہے۔ جدت ہمیشہ روایت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے، اور لیتی رہتی ہے۔ اس عمل کا بند ہو جانا روایت نہیں جمود ہے۔ بات اردو ادب کی ہو رہی ہے؛ یہاں آج جتنے بڑے نام ہمیں یاد ہیں یا ہمارے سامنے ہیں وہ روایت اور جدت کے متوازن تناسب کے سبب یاد ہیں، نہیں تو ہم یا انہیں بھول چکے ہوتے یا رد کر چکے ہوتے۔

۔ 4۔ دماغ اس قدر الجھتا ہے کہ بندہ گھنٹوں بال پوائنٹ ہاتھ میں لیے ٹِک ٹِک ہی کرتا رہتا ہے.لکھتا ہے کاٹ کاٹ کر صفحے کالے کرتا ہے پھر پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے. بندہ کرے تو کیا کرے! احباب کے پاس کو ئی حل ہو تو بتائیں۔

ج: ایک مشہور نقاد کا کہنا ہے کہ شعر کہنا اور اس کو بارور کرنا جنسی عمل جیسا ہے۔ ایک جگہ انہوں نے دردِ زِہ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ انور مسعود نے مجھ سے کہا (1990ء): شعر کہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ کل وقتی سے بھی زیادہ کا متقاضی ہے مگر اس کے لئے جو شعر کو ذمہ داری محسوس کرے۔ آپ خود اگر مشکل پسندی کا شکار ہوں تو پھر آپ کی صلاحیتوں کو اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ اس مشکل پسندی پر قابو پا سکیں۔

بعض دوست اس چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ جو مصرع میں نے کہا ہے، اس زمین میں تو فلاں کی غزل بھی ہے! تو صاحب رہا کرے! وہ ایک غزل آپ کے علم میں ہے، کون جانے کتنی اور ہوں جو آپ نے کہیں پڑھی ہوں نہ سنی ہوں۔ فلاں ترکیب تو اقبال نے وضع کی تھی، میں کیوں برتوں! اقبال نے وضع کی تھی نا، وہ زبان کا حصہ بن گئی اور زبان پر کسی بھی لکھاری کا احسان مانا جا سکتا ہے، اجارہ نہیں مانا جا سکتا۔ زبان و بیان کی غلطی کسی  لکھاری یا ناقد کے شایانِ شان نہیں۔ پچھلوں نے اگر کچھ غلطی یا غلطیاں کی ہیں تو نہ ان کو سند بنائیے اور نہ انہیں کوستے رہئے۔ بلا تکلف شعر کہئے، بھول جائیے کہ کس نے کیا کیا قوافی اور ردیفیں استعمال کی ہیں، کس نے کس وزن میں کہا ہے، کس کا مضمون کیا ہے! آپ کے نزدیک جو بات کرنے کی ہے، آپ کا جو احساس اتنا اہم ہے کہ اس میں آپ کا قاری بھی شامل ہو، اسے بے جھجک شعر میں ڈھالئے۔ ذہن کھلا رکھئے، خود پر جبر نہ کیجئے۔ آپ ایک غزل جبراً کہتے ہیں تو یقین رکھئے کہ آپ کا قاری بھی اسے مجبوراً پڑھے گا۔ ایک غزل نظم آپ رغبت اور سہولت کے ساتھ کہتے ہیں، آپ کا قاری بھی آپ کے ساتھ سہولت میں رہے گا۔  

گزارش مزید:
ایم آئی نادمؔ صاحب کے اولین مخطوطے پر اپنی استطاعت کی حد تک بات کر دی ہے۔ کچھ ضمنی سوالات بھی دیکھے ہیں جو دیر دوستوں کی بحث میں اٹھائے گئے ہیں۔ ان پر گفتگو بعد میں کریں گے، ان شاء اللہ۔

سوموار 30 ۔ اکتوبر 2017ء (صفر بج کر پچاس منٹ)


ایم آئی نادم کے تازہ نکات (دورانِ بحث):

۔5۔ کلیاتِ بہادر شاہ ظفر کے تقریباً 1027 صفحات ہیں اور تقریباً ہر صفحے پر کم و بیش اوسطاً سے 15 سے 20 اشعار باآسانی ملیں گے۔ اس حساب سے کم و بیش 20000 اشعار تو ہوں گے ہی۔ یہ صرف ایک شاعر کا کلام ہے اگر شعراء کی تعداد کے حساب سے ان کے کلام کا مطالعہ شروع کر دیں تو شاید سا لہا سال تو محض مطالعہ میں ہی گزر جائیں گے۔ ان حالات میں اپنے(زمانۂ جدید کے شعراء) لیے گنجائش نکالنا محال دکھائی دیتا ہے۔ اور پھر تنقیدی معیارات؟۔

ج: تکلف برطرف، مطالعے کا یہ تصور ہی غلط ہے کہ آپ ایک شاعر کے بیس ہزار شعر پڑھیں، پھر دوسرے کے پچاس ہزار؛ وغیرہ۔ مطالعے کے لئے پہلے آپ کو ذہن بنانا ہوتا ہے کہ مجھے تلاش کس چیز کی ہے اور عمومی مطالعے یا اطلاعات کے مطابق اس کے ممکنہ ذرائع کیا ہو سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر مختص مضامین بھی مل جاتے ہیں، یعنی پہلے سے کی گئ (کسی اور کی محنت)، اس سے فائدہ اٹھائیے۔ اپنے منتخب نقطہء تلاش کو ملحوظ رکھتے ہوئے مزید تشفی چاہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ شعراء میں صرف اپنی پسند کے لوگوں کو اولیت دیجئے، باقیوں کو التواء میں ڈال دیجئے، موقع ملا تو پڑھ لیں گے، نہیں تو نہ سہی۔ سب کچھ حفظ نہیں ہوا کرتا، یہ ہے ہی ناممکن! آپ پڑھتے ہیں تو موٹی موٹی باتیں ذہن میں رہ جاتی ہیں، اور ذریعے کا حوالہ بھی یاد رہ جاتا ہے۔ لکھ کر رکھ لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔
تنقیدی معیارات؟ جی! وہ تو ہیں! آخر کوئی تو ایسا بھی ہونا چاہئے جو شاعروں کے کہے کا تنقیدی مطالعہ کرے اور شعر کا قاری اس ناقد کے نکتہء نظر کو بھی دیکھ لے، اس سے مدد حاصل کرے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ شعر کہنا فرضِ عین نہیں ہے (وظائف اور پیسے کے چکر میں لکھنے والوں کے لئے ہو تو ہو)، ایک چیز ہے جو آپ اختیار کرتے ہیں۔ اور جسے آپ اختیار کرتے ہیں، اس میں تو محنت کریں نا! نہیں کر سکتے تو چھوڑ دیں، کوئی کفر لازم نہیں آتا۔ مثال کے طور پر: ایک لکھاری نثر میں اچھا ہے، نظم میں کم اچھا ہے، غزل میں اور بھی نیچے ہے؛ وہ نثر کو اختیار کر لے تو کیا جاتا ہے؟ نثر کا قاری اُس کی بہتر قدردانی کر سکتا ہے۔ ایک شاعر دوسروں کی مشکل پسندی کا شاکی ہے اور وہی چیز خود اُس کے ہاں بھی پائی جاتی ہے؛ اگر وہ اپنی شکایت میں سچا ہے تو مشکل پسندی چھوڑ دے، سہل نگاری اختیار کرے، اور اگر مشکل پسندی اس کے مزاج کا حصہ ہے تو شکایت نہ کرے۔ آپ اگر خود سے جھوٹ نہیں بول رہے تو اپنے مزاج کے خلاف لکھ ہی نہیں سکتے؛ لکھیں گے بھی تو خود آپ کو اچھا نہیں لگے گا۔ یہاں سے خیال آیا کہ آپ کے لکھے ہوئے کے اولین ناقد آپ خود ہیں۔ تو پھر آپ کے پاس (کم از کم اپنے حوالے سے) کسی نہ کسی معیار کا ہونا لازم ہوا۔ بہت سارے انفرادی معیارات کی ترکیب ہوتی ہے تو عمومی معیارات تشکیل پاتے ہیں، آپ خود اس کا حصہ ہیں۔ فرار ہو کر کہاں جائیے گا؟ بڑی صاف سی بات ہے کہ شعر کہنے کا کوئی شارٹ کٹ نہ کبھی تھا، نہ ہے۔شارٹ کٹ کے متلاشیوں ہی نے تو اردو کو "نثری نظم" جیسی چیز سے دو چار کیا ہے، جس میں نثر رہتی نہیں اور نظم بنتی نہیں۔
شعر کے حوالے سے انور مسعود ہی کی ایک بات (انہوں نے ایک نجی محفل میں کی) کہ: "آپ کا مقابلہ وقت سے ہے۔ وقت آپ کے آگےکھڑا ہے؛ شعر کہنا کوئی آسان کام نہیں ہے، وقت سے لڑنا ہے۔ آپ نہیں لڑ سکتے تو میدان اوروں کے لئے چھوڑ دیجئے"۔

۔6۔ میرا مدعا وہیں کا وہیں ہے۔ ہم جو کچھ بھی کہیں یا لکھیں وہ کسی نہ کسی کی زمین میں نہیں ہوگا کیا؟ کیا مضمون نہیں برتا گیا ہوگا۔ نئی بات کیا ہوگی؟ کان کو سامنے سے پکڑ لیں یا ہاتھ گھما کر پکڑ لیں بات تو ایک ہی ہوئی نا!!!۔

ج: اس پر بات ہو چکی۔ یہ پابندی کون لگاتا ہے کہ آپ کسی کی زمین میں نہ لکھیں؟ طرحی شاعری کیا ہے؟ یہی تو ہے! ہمیں طرحی شاعری اساتذہ کے ہاں بھی ملتی ہے۔ ع: "آ کے سجادہ نشیں قیس ہوا میرے بعد" اس زمین (وزن، قافیہ ردیف سب شامل) میں غالب نے بھی لکھا۔ ع: "کون کھولے گا ترے بندِ قبا میرے بعد"۔ اسی زمین میں سید علی مطہر اشعرؔ نے غزل کہی اور بہت اچھی کہی (سید علی مطہر اشعرؔ ایک معیار کا نام ہے)۔ انٹرنیٹ پر ایک زمین مطالعے میں آئی، اُس میں پانچ اساتذہ کے علاوہ کچھ بڑے شاعروں کا کلام ان کے ناموں کے ساتھ منقول تھا۔ حوالے میں نے ریکارڈ نہیں کئے، تلاش کر لیجئے گا۔ دوسرے یہ کہ آپ نے ایک شعر موزوں کر لیا۔ اسی غزل کے بقیہ اشعار آپ اپنے ہی اس شعر کی طرح میں لکھ رہے ہوتے ہیں۔

مضامین کے حوالے سے ایک بہت معتبر نام ہے: مصحفی ؔ۔ اس کا پسندیدہ موضوع رومان ہے، اس کے دیوان میں ایک ایک غزل پچاس پچاس شعروں کی بھی ہے۔ جن میں سے کم از کم تین چوتھائی شعر رومانی ہیں۔ مصحفی نے رومان کو کتنے زاویوں سے لکھا ہو گا، خود اندازہ لگا لیجئے۔ تو کیا مصحفی کے بعد رومان لکھنا متروک ہو گیا؟ قطعاً نہیں۔ آج کے دور کا ایک نام ہے: قاضی ظفر اقبالؔ ، ان کی کتاب غرفہء شب سے ایک نظر گزر لیجئے۔ موضوعات کی رنگا رنگی کے علاوہ ایک ہی موضوع پر تیس تیس شعروں کی غزلیں اس ایک کتاب میں ہیں۔  آپ لکھیں گے تو وہ آپ کا لکھا ہو گا، اس میں آپ کی شخصیت کی جھلک دکھائی دے گی اور یہی انفرادیت ہے۔ جب آپ نے ایک ذہن بنا لیا کہ میرا کہا ہی درست ہے تو پھر دوسروں کو رائے زنی کی دعوت دے کر ان کا وقت ضائع نہ کیجئے۔

۔7۔ میرے سوالات کو میرے فریم میں ڈال کر جواب مت دیجئے کیونکہ سوالات بھلے میرے نام سے ہیں لیکن ہوسکتا ہے اور بھی بہت سے لوگ ایسے ہوں جن کو ایسے سوالات کا سامنا ہو۔

ج: سوال آپ کا ہے تو حوالہ بھی آپ کا ہو گا؛ چاہے آپ اپنی بات کریں یا کسی اور کی یا کسی پورے گروہ کی۔ اقبال نے "شکوہ" لکھی، وہ سارے خیالات اقبال کے اپنے نہیں تھے، اس دور کے اکثر سوچنے والے ذہنوں کے سوال تھے۔ اس نظم پر کفر کا فتویٰ لگا تو اقبال پر لگا، اُن غیر مذکور ذہنوں پر نہیں لگا۔ پھر اُس نے "جواب شکوہ" لکھی ۔ بہت مشہور بات ہے، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ میں یا احمد فاروق یا کوئی اور دوست اس پوسٹ میں آپ کو لفظ آپ سے مخاطب کرتا ہے یا نام سے تو اِس میں آپ کے وہ غیرمذکور دوست بھی شامل ہیں، جن کی نمائندگی آپ نے اپنے سوالوں میں کی ہے۔


اظہارِ تشکر:۔
آپ کا شکریہ ادا کرنا مجھ پر دوہرا واجب ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ نے مجھے ایک بڑے موضوع پر اپنے خیالات مجتمع کر کے ان کو بیان کرنے کا موقع فراہم کیا، دوسرے یہ کہ آپ کی تحریک پر میرا ایک ایسا آرٹیکل تیار ہو گیا، جس پر مجھے اعتماد ہے کہ مجھے شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا۔ مزید پھر سہی؛ یار زندہ صحبت باقی۔
               
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
سوموار 30 ۔ اکتوبر 2017ء 

جمعرات، 26 اکتوبر، 2017

ماٹی میں رُوپا


ماٹی میں رُوپا

جناب مشتاق عاجزؔ  کے اردو گیتوں پر مشتمل "زندگی گیت ہے" کا مختصر مطالعہ


اپنا حال اُس گنجی والا ہے جس کے پاس نچوڑنے کو بھی کچھ نہیں۔ گیت کیا ہے، اور اس کو کیسا ہونا چاہئے؛ مجھے اس کا کوئی خاص اندازہ نہیں تھا۔ ’’زندگی گیت ہے‘‘ کے مطالعے سے شہ پا کر لڑکپن کی یادیں پتہ نہیں کن کونوں کھدروں سے نکل کر ذہن کے پردے پر نقشے سے بنانے لگیں۔ زیادہ تر نقوش تو بہت دھندلے ہیں، تاہم کہیں کہیں کوئی صاف اور واضح نقش بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ اور مجھے گمان ہونے لگتا ہے کہ میں گیت کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہوں کہ گیت ہوتا کیا ہے۔

اس تفہیم میں بھی مشتاق عاجزؔ کا حصہ زیادہ ہے۔ ان کے لکھے ہوئے گیتوں کو پڑھ کر، اور ان کے رنگ روپ، چال ڈھال، بول چال کے سارے نقشوں کو اپنی حد تک ترتیب دے کر گیت کے خدوخال کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کو اس پورٹریٹ میں شریک کرنا یوں بھی ضروری ہے کہ آپ عملی طور پر گیت کے تینوں بڑے شعبوں سے منسلک ہیں۔ اور مجھ سے کہیں زیادہ جانتے ہیں کہ گیت کا رُوپ ماٹی میں گھلی رُوپا سے نکھرتا ہے۔ میرا مطالعہ تو خیر کیا ہوتا، لڑکپن میں سنے لوک گیتوں اور طبع زاد گیتوں تک محدود رہا ہوں جو کبھی ریڈیو پر بجا کرتے تھے، یا کبھی گاؤں آ جانے والے گویوں سے سنے تھے۔ مثال کے طور پر:۔ 
* اماں مورے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا
* شیام توری بنسی پکارے رادھا رام
* جھوٹ بولے کوا کاٹے، کالے کوے سے ڈریو
* آوو گے جب تم ساجنا، انگنا پھول کھلیں گے
* رینا بیتی جائے، سجنوا نہ آئے، ہائے رے منوا ہائے
* کہاں سے آیا رے بدرا، سجنی کی جُلفاں سے
* مہندی ہے رچنے والی
* لگن لاگی تو سے سجن، لاگی رے لاگی
* اگنیا سَونیا کی، برہن کے چت کو جلاوے
* مری پیاری بہنا، بنے گی دلہنیا
* راجا کی آئے گی بارات رے
* کاگا سب تن کھائیو، چن چن کھائیو ماس
* چھاپ تلک سب چھین لی رے مو سے نیناں ملائی کے
* بگیا میں آئی رے بہار، منوا کو سوگ لگا
* برسو ری، برسو ری، میگھا ری میگھا، برسو ری
......وغیرہ

اسے کیا نام دیجئے گا؟ ہلدی کی گنڈھی پر طبابت تو ہونے سے رہی، نیم حکیم والی بات ہے کہ وہ کسی اور کے لئے خطرہء جان ہو نہ ہو، اپنے لئے ضرور ہے۔ بہ این ہمہ، گیت کے لئے جو بنیادی اوصاف سمجھ میں آ سکے، عرض کئے دیتا ہوں۔
۔۱۔ گیت سن کر یا پڑھ کر طبیعت کو کھُلنا اور کھِلنا چاہئے اور رواں ہونا چاہئے؛ چاہے ہونٹوں پر، چاہے آنکھوں سے؛ کہ گیت کا ناطہ سینے اور دل سے ہے۔ مزا جب ہے کہ دل کنپٹیوں میں دھڑکے، اشک سانسوں کو بھٹکا دیں اور لہو بجلی بن کر ہر رگِ جاں میں سنسنی دوڑا دے۔ گیت پڑھنے سے کہیں زیادہ گانے کی چیز ہے؛ اس کی لے، سر، تان، تال، چال، چھند، ماتروں کو ہر گیت کے انفرادی منظرنامے اور مزاج سے موافق اور اُس پر محیط ہونا چاہئے۔
۔۲۔ گیت کو اپنی دھرتی سے ایسے جڑا ہوا ہونا چاہئے کہ اس میں مٹی کی مہک بلکہ ذائقہ محسوس ہو سکے۔ گیت کی زبان میں مکھن کی سی ملائمت ہونی چاہئے؛ ثقالت نہیں۔ زبان عام لوگوں کی ہو، پر، عامیانہ نہ ہو۔گیت کا موضوع کچھ بھی ہو، اس میں اسلوب رومانی ہو۔ بات دل سے نکل کر سیدھی دل میں اترے۔گیت کے سنگھار میں ادب کی چاشنی غازے کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
۔۳۔ گیت میں جذباتیت کا ہونا بہت لازم ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ گیت نام ہی جذبے کی ترسیل کا ہے، وہ نہ ہو تو گیت گیت نہیں رہتا، چاہے کتنی بڑی نظم بن جائے۔ گیت میں ادق فلسفے کی گنجائش نہیں۔ بات جتنی سامنے کی ہو اور سادگی سے بیان ہو، چاشنی بھی اسی قدر ہو گی۔ گیت میں اعلیٰ افکار کا ہونا اس کی قدر و قیمت کو بڑھاتا ضرور ہے؛ تاہم اس کی تاثیر مترتب افکار سے کہیں زیادہ بے ترتیب دھڑکنوں اور سنسناتی سانسوں سے وابستہ ہے۔
۔۴۔ گیت کے مضامین کہیں سے ڈھونڈھ کر نہیں لانے پڑتے۔ بلکہ روزمرہ سے لے کر خاص خاص اور بڑے مواقع تک ہر جگہ ہم پر گزرتے ہیں۔ مثلاً: سگائی، بیاہ شادی، ڈولی، بارات، رخصتی، عید شب برات، ہولی دیوالی کی رسمیں، بنسی، بین، ڈھولک؛ تاہم گیت اِن گنی چنی چیزوں تک محدود نہیں ہے۔ اس میں بہادری، بزدلی، پہلوانی، شہ زوری، مردانگی، وجاہت اور سورمائی؛ نسوانیت، ناز و ادا، لوازماتِ حسن، جھانجھن، چوڑی، موسموں کی رعایت، سرسوں، ساون، جاڑے، گرمی، بادل، چندا، سورج، دھرتی، گرج چمک، پروا، جھکڑ،کے ساتھ ساتھ وراگ روگ، بجوگ، سنجوگ کی کیفیات اور ان کی منظر نگاری، مکالمہ، خود کلامی غرضے کہ سماج اور تہذیب سے جڑی ہر چیز (بڑی لمبی بلکہ کبھی مکمل نہ ہونے والی فہرست) شامل ہے۔ گیت کو معاشرتی روایات و اَقدار، اور ان سے جڑے محسوسات کی گہرائی اور گیرائی کا امین ہونا چاہئے۔ 
۔۵۔ عروض کے قواعد گیت پر لاگو نہیں ہوتے، چاہے اردو کا ہو چاہے پنجابی کا۔چلئے اپنی سہولت کے لئے ایک گیت کی پوری عروضی ہیئت کو آہنگ کا نام دئے لیتے ہیں۔ طبع زاد اور لوک ورثہ دونوں طرح کے گیتوں کے آہنگ میں بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے، اتنا زیادہ کہ عروض کے قواعد اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی گیت کا آہنگ انفرادی بھی ہو سکتا ہے، نیا بھی اور پہلے سے موجود کسی گیت کے آہنگ پر بھی؛ تاہم جو بھی ہوگیت کو اپنی جگہ پر ایک اکائی اوراس کے ہر حصے (بند) کو آپس میں ہم آہنگ ہونا چاہئے۔

مزید کچھ اس لئے بھی نہیں کہہ سکوں گا کہ گائیکی اور موسیقی سننے اور لطف اٹھانے سے آگے کا مجھ میں دم نہیں ہے۔ مشتاق عاجزؔ کے ہاں اتنی توانائی ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ گیت کے منقولہ بالا تقاضوں کو نہ صرف یہ کہ بخوبی پورا کرتا ہے، بلکہ ان کو اپنے دام ہم رنگِ زمین اسلوب میں ڈھال لیتا ہے۔ تاثیر اتنی ہے کہ قاری تو قاری، خود مشتاق عاجزؔ اس کے سحر میں آ جاتا ہے۔ 

مجھے یہاں ’’سمپورن‘‘ کی بو، باس اور چاشنی تازہ محسوس ہو رہی ہے۔دوہے لکھنے کا عمل اور دورانیہ جتنا بھی طویل یا مختصر رہا ہو، فاضل شاعر ایک عرصے تک خود اپنے رومانی اور محسوساتی تجربے اور تہذیبی رومان کے مطالعے میں مصروف رہا ہے۔ زیرِ نظر گیت مجھے اس طویل اور جان گسل مطالعے کا حاصل محسوس ہوتے ہیں۔ فاضل شاعر نے اپنے متعدد گیتوں کے اندر دوہے شامل کئے ہیں۔ اپنے ہی لکھے سے تحریک پانا اور اپنے تجربے کو ایک مختلف اظہار دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ میرے نزدیک ہما شما کے بس کی بات نہیں، اس عمل کے لئے کوئی مشتاق عاجزؔ ہی درکار ہے، جسے اپنے لکھے کی سچائی، گہرائی اور گیرائی پر مکمل اعتماد ہو۔ ہوا غالباً یہ ہے کہ دوہے لکھنے کے طویل اور مسلسل عمل میں فاضل شاعرنے جہاں کہیں یہ محسوس کیا کہ ایک صورتِ حال کو دوہے کی دو سطروں میں لانا اظہار میں رکاوٹ بن سکتا ہے، یا یہاں گیت کا ایک متبادل آہنگ موزوں تر ہے؛ اس نے وہ آہنگ اختیار کر لیا۔ اس کے دو فائدے ہوئے: اول: اظہار میں رکاوٹ نے شاعر کی ذات میں گھٹن پیدا نہیں کی، بلکہ ایک خوبصورت اظہار سے نواز دیا۔ ع: رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور (غالب)۔دوم: گیت کا چکنے چکنے پات والا ہونہار بروا زمین کو چیر کر اُس کے چہرے کا غازہ بن گیا۔ ع: پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر (بھرتری ہری)۔ بہ الفاظِ دیگر: گیت کی اس سدا بہار کھیتی کی جڑوں سے کونپلوں تک دوہے کی سبز کھاد لہو بن کر رواں ہے۔


فقط .... محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
جمعرات .... ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۷ء



مشمولہ: کتاب ”زندگی گیت ہے“ مئی 2018ء (صفحہ 13 تا 17)۔ 

جمعہ، 6 اکتوبر، 2017

۔رؤف امیرؔ ۔۔ ایک سیمابی شخصیت (2)۔





۔رؤف امیرؔ  ۔۔ ایک سیمابی شخصیت (2)۔
یادوں کے جھروکوں سے
                                                   
۔"چھوڑ یار آسیؔ تو نکما آدمی ہے۔ اگر اپنی کتاب (فاعلات) پر دیباچہ لکھوایا ہوتا تو وہ بھی آج اس مجموعے میں شامل ہوتا!" رؤف امیرؔ نے معمول کے مطابق ایک اور بڑھک چھوڑ دی۔ دیباچوں کی کتاب کا نام ہے: "رؤف امیر کے دیباچے"، مجھ سے کہنے لگا: یہ کتاب ٹائپ کر دو۔ پوچھا پبلشر کون ہے، کہا فلاں ہے۔ میں نے کہا: بھائی اس سے کہو مزدوری دے دے، کام تمہاری تسلی کا ہو جائے گا۔ بات ہوئی، کتاب ٹائپ ہو گئی، مزدوری بھی مل گئی (جو بہرحال ایک معجزہ تھا)۔ رؤف امیر مجھ سے ڈسکٹ لینے آیا تھا۔ اسے پتہ نہیں کیا سوجھی کہ مجھے احساسِ محرومی میں مبتلا کرنے کو یہ بڑھک چھوڑ دی۔ مجھے رؤف امیرؔ سے ایسی حرکت کی توقع بہرحال نہیں تھی۔
میں نے تنک کر کہا: "میں پڑھ چکا ہوں تمہارے کارنامے! تم نے کتابیں نہیں فوٹو دیکھ کر لکھے ہیں سارے"۔ وہ ایک دم دھاڑا: "کیا بک رہے ہو"۔ کہا: "ٹھیک بک رہا ہوں اور مجھے تمہاری منافقت پر غصے کی بجائے ہنسی آ رہی ہے۔ بہت بھولے ہو تم، یعنی بے وقوف، اور سمجھتے دوسروں کو ہو"۔ وہ بھنائے ہوئے انداز میں بولا: "تمہارا مطلب کیا ہے؟ کہنا کیا چاہتے ہو؟"۔ "چاہتا نہیں ہوں، کہہ چکا ہوں، تم سمجھ نہیں سکے تو پھر میں نے ٹھیک کہا کہ تم بہت بھولے ہو، سچ مچ"۔ "میں واقعی نہیں سمجھا"۔ اس نے خاصی بیزاری سے کہا۔
"میں جانتا ہوں، تم اس لئے نہیں سمجھے کہ تمہیں کچھ اگر یاد ہے تو بھی بھول چکنے کی ایکٹنگ کر رہے ہو۔ میں نے مسودہ تمہیں دیا تھا، تمہارے گندھارا کالج میں۔ اور وہ تین چار مہینے تک وہاں پڑا رہا۔ تم مجھے متواتر ٹالتے رہے، پھر ایک دن میں مسودہ اٹھا کر لے آیا"۔
"مجھے بالکل نہیں پتہ، میں تمہیں کیسے ٹال سکتا تھا؟"۔
"بنو نہیں، یار! میں ثبوت دکھا سکتا ہوں"۔
"ثبوت؟" وہ حیرت زدہ ہو کر بولا۔
"ہاں، ثبوت! کہ تم نے میرے مسودے کو خاصی توجہ سے پڑھا تھا۔  اس پر مختلف مقامات پر کچی پنسل سے تمہارے ہاتھ کے لکھے ہوئے نوٹس! یہ شاید 1988 یا 1989 کی بات ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ تم میری لکھائی نہیں پہچانتے۔ کچھ سمجھے؟"
"پتہ نہیں کیابک رہے ہو"۔
"میں یہ بک رہا ہوں کہ  ع: غزل کے روپ میں تہذیب گا رہی ہے نسیمؔ  ۔ یہ پورا شعر میں نے تمہارے نوٹس سے نقل کر کے کتاب میں شامل کیا تھا، اور کچھ ایسی ترمیمات بھی کی تھیں جو تم نے حواشی کے طور پر لکھی تھیں۔ اور بھی کچھ یاد دلاؤں؟"
"مثلاً، کیا"
"میری کتاب تمہارے اس دیباچے کے بغیر 1993 میں شائع ہو گئی جسے لکھنے کا تمہارا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اب یہ بھی کہہ دو کہ تمہیں کتاب نہیں ملی!"
"میں نے تمہیں کب کہا تھا کہ تم عروض کا پنگا لو؟"
"تمہارے کہے کو میں کب مانتا بھلا! یہ تو اختر شاد کی طرف سے تحریک تھی"۔
"چلو جس کی بھی تحریک تھی؛ کتاب ملی تھی مجھے۔ آگے بکو"۔
"کتاب کی تقریبِ رونمائی 1998 میں ہوئی ہے نا مزے کی بات۔ اور تم نے اس تقریب میں میری اسی کتاب پر ایک بھرپور مضمون پڑھا تھا"۔
"میں نے کوئی مضمون نہیں پڑھا، غلط کہہ رہے ہو"۔
"رؤف امیر! تم اندر سے مان چکے ہو، اب اوپری انکار کو چھوڑو۔ تم تقریب میں موجود تھے؟ تو بغیر مضمون کے نہیں ہو سکتے۔ میرا تمہارا تعلق پندرہ سال سے زیادہ کا ہے، پندرہ سال کا تو تب تھا، جب تقریب ہوئی تھی"۔
"مضمون تمہارے پاس ہے؟"
"میرے طلب کرنے کے باوجود تم نے مضمون مجھے دینے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ رف لکھا ہوا ہے میں فیئر کر کے دے دوں گا۔ میں نے کہا بھی کہ میں فیئر کر لیتا ہوں، تمہیں دکھا دوں گا۔ یاد ہے تم نے کیا رعب جھاڑنے کی کوشش کی تھی؟ تم نے کہا تھا فیئر کرنے میں کچھ جمع تفریق بھی ہو جائے تو اچھا ہے نا۔ اور میں نے تمہاری بکواس پر یقین کر لیا"۔
" میں کہہ رہا ہوں کہ میں نے مضمون پڑھا ہی نہیں، پتہ نہیں کس جمع تفریق کی بات کر رہے ہو"۔
"سنو یار رؤف امیرؔ! حلقے کا رجسٹر، اس پر لکھے شرکاء کے نام اور مضامین کی موٹی موٹی باتیں؛ معمول کے مطابق  اگلے اجلاس میں تقریب کی روداد پیش کی گئی اور اس کی توثیق ہوئی۔ اس بُدھ کو بھی تم اجلاس میں موجود تھے۔ نکالوں رجسٹر؟"۔
"اچھا یار! اب یہ بک بک بند کرو اور تیز سی چائے پلاؤ۔ مجھے جانا ہے"۔ رؤف امیر کے اس جملے پر مجھے ہنسی آ گئی، جس میں وہ بھی ایک بے ہنگم قہقہہ لگا کر شامل ہو چکا تھا۔ چائے کے ساتھ دوسروں کی غیبت کا پیریڈ بھی چلا۔ میں دروازے تک چھوڑنے گیا۔ اس نے ڈسکٹ ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی۔ اسے تھپتھپاتے ہوئے بولا: "اس میں غلطیاں تو خیر کہیں کوئی ہوں گی، ہے نا؟"۔ "پریشان نہ ہوں، اس کا رف پرنٹ نکال کر پڑھ لینا اور غلطیاں مارک کر دینا، میں ٹھیک کر دوں گا"۔
اس نے رخصت ہوتے وقت وہی پرانے اسٹائل کا ایسا وحشیانہ معانقہ کیا کہ۔۔۔ آپ سمجھ گئے نا؟ کہ میں نے جو الفاظ بمشکل روکے، وہ ادا ہوتے تو کیسے ہوتے!۔

فقط: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان  6 ۔ اکتوبر  2017ء ۔

جمعرات، 5 اکتوبر، 2017

۔رؤف امیرؔ ۔۔ ایک سیمابی شخصیت (1)۔




۔رؤف امیرؔ  ۔۔ ایک سیمابی شخصیت (1)۔
یادوں کے جھروکوں سے
            

رؤف امیر مرحوم میرے سینئر مگر بے تکلف دوست تھے، اللہ غریقِ رحمت کرے۔ سیمابی مزاج پایا تھا، زبان کے کھُردرے تھے، مگر دل کے صاف۔ دوستوں کو ناراض کرنے کا فن بھی جانتے تھے اور ناراض ہونے کا بھی۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا بھی ان کے مزاج کی وقتی رَو پر منحصر ہوتا۔ کالج میں اردو کے استاد تھے۔ زبان و ادب سے ان کی وابستگی کا ایک پہلو دیکھئے۔ سال ختم ہوتا تو کہا کرتے: اس سال میں نے دو شاعر بنائے ہیں، تین بنائے ہیں؛ وغیرہ۔ 
حلقے کے اجلاسوں میں اہتمام سے شریک ہوا کرتے، مگر تاخیر سے آتے۔ تنقیدی نشست میں عام طور پر خاموش بیٹھے رہتے۔ ان سے کہا جاتا کہ پیش کردہ فن پارے پر بات کریں تو کہتے: میں سن رہا ہوں۔ سارے دوست گفتگو کر چکتے تو رؤف امیر کے پاس بات کرنے کو خاصا کچھ جمع ہو چکا ہوتا، پھر وہ بے تکان بولتے۔ فن پارے کی تعریف و تحسین پر مائل ہوتے تو زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے، تحقیر و تنقیص پر اتر آتے تو فن پارے اور فن کار دونوں کو پاتال میں پھینک دیتے۔
ایک دن میں نے کہا: "رؤف امیر! یار تمہاری تعریف اور تنقیص اکثر بے جا ہوتی ہے"۔ ہنس کر کہنے لگے: "یہ بات تو مجھے طاہر بخاری بھی کہا کرتا ہے"۔ ایک بات ان میں بہت اچھی تھی؛ زبانی گفتگو میں وہ جیسی بھی لاپروائی دکھاتے ہوں، تحریروں میں اپنی ادیبانہ اور ناقدانہ ذمہ داری کا ہمیشہ پاس کیا کرتے۔ ایک بات وہ بہت سنجیدگی سے کہا کرتے: "کہنے کو ہم جو چاہے کہتے رہیں، بے تکلف دوستوں میں اور بھی لچک مل جاتی ہے، یہ سب کچھ بجا۔ مگر یار! تنقید بہت ذمہ دارانہ کام ہے، بہت سنبھل کر لکھنا چاہئے۔ اس میں تنقیص اور تقریظ دونوں سے بچنا ہوتا ہے۔ آپ نے ایک شاعر ادیب کا تنقید میں کباڑا کر دیا یا اس کو آسمان پر چڑھا دیا، تو آپ کا باشعور قاری آپ کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دے گا"۔ نہ تو ایسا کھردرا سچ بولنے والا کوئی رہا، نہ سننے والا۔
۔۔۔
فقط: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان      5 ۔ اکتوبر  2017ء ۔