جمعہ، 27 مئی، 2016

لفظ (یاد) رہ جائیں گے ۔۔۔ احمد فاروق







لفظ (یاد) رہ جائیں گے

محمد یعقوب آسی کے فنِ شعر پر احمد فاروق کا مختصر تبصرہ (بہ شکریہ: اَدَب زار)



یہ جو ایک مسلمہ طرزِ نقد و نظر رائج ہے کہ شاعر کے ہاں فلاں فلسفہ، یہ جذبات اور وہ خیالات پائے جاتے ہیں اور یہ کہ ان اجزا کی موجودگی اس دعوے کا کافی و شافی ثبوت ہے کہ یہ شاعری ہے، مجھے اس سے اختلاف ہے۔ کیا اگر فلسفہ جذبات اور خیالات نثر میں بیان کر دیے جائیں یا محض منظوم کر دیے جائیں تو یہ شاعری بن جائیں گے؟

شعر بننے کے لئے بنیادی عنصر لفظ کا برتنا (بلکہ بسر کرنا) ہے۔ برتنے کا ہنر تو لفظ کے برتن میں اپنے معانی ڈال دے۔ ادھر لفظ کے اندر پہلے سے بھرے معانی ہی چھلکائے جا سکیں تو بڑی بات ہو۔ اور پھر لفظ جوڑ کر ایسا مصرع بنانا جو لفظوں کی بے روح قطار کی تہمت سے بچ سکے کارِ دیگر ہے۔
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

حشو و زوائد سے پاک مصرع زبانِ حال سے دعویٰ کرے کہ اک لفظ ہو نہ پائے اِدھر سے اُدھر مرا۔ پھر لفظوں کو یوں ہم آمیز کرنا کہ آمیختہ نئے معانی سے چمک جائے، کہ پتھر کے ٹکڑے مل کر پانی کا سا بہاؤ دکھائیں۔ فطرت کی مرصع سازی سے ایک مثال دیکھیں کہ آکسیجن کے اپنے معانی، ہائیڈروجن کے اپنے معانی، ان کی بندش سے بنا پانی، یکسر مختلف کہ اجزا کے معانی یک قلم منسوخ۔ مگر ان اجزا کو یوں ملانا ایک جوکھم ہے۔

اس سب جوکھم سے عہدہ برآ ہونے کی مثالیں دیکھئے:
شہر پہ چھایا ہے سناٹا
کیا جانے کب کیا ہو جائے
اُن زلفوں کی یاد دلائیں
شام کے لمبے لمبے سائے

ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دیے
اجنبی تھا راستہ اور چل دیے
شدّتِ شوقِ سفر مت پوچھیے
ناتواں دل کو لیا اور چل دیے
اہل محفل کی جبینیں دیکھ کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور چل دیے
عشق پروانوں کا بھی سچا نہیں
شمع کا شعلہ بجھا اور چل دیے

میری بچی بھولپن میں بات ایسی کہہ گئی
مجھ کو یاد آئیں بڑی شدت سے اماں جان کل

کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی لگتا ہے جیسے کہ شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھنڈتے ڈھونڈتے
ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے
اپنا گھر ہی نہ تھا تھک گئیں آندھیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
لو، کسی کوئے بے نام میں جا کے وہ بے خبر کھو گیا
روزناموں میں چھپتی ہوئی سرخیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
آدمی کیا ہے یہ جان لینا تو آسیؔ بڑی بات ہے
سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم و جاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

میں اسے دیکھتا تھا، وہ مجھ کو
خامشی میں کلام کیا کیا تھے
شہر میں ہم اداس رہتے ہیں
دشت میں شاد کام کیا کیا تھے
شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا تھے
جو ستارے بجھا دیے تو نے
گردشِ صبح و شام! کیا کیا تھے

بند کوچے کے دوسری جانب
راستے بے شمار نکلے ہیں

زندگی اک دم حسین لگنے لگی مجذوب کو
اک نگاہِ ناز نے کیا کیا نہ جادو کر دیے
تھا وہ اک یعقوب آسیؔ دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دیے

ازل کے حبس کدوں میں چلی ہوا تازہ
نگاہِ ناز نے وا کر دیے ہیں باب عجیب

من پاگل جو ساری رات بناتا ہے
لے جاتا ہے دِن تصویریں بھی اپنی

اس شہر کا کیا جانئے کیا ہو کے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا

سرِ شام ہے جو بجھا بجھا یہ چراغِ دل
دمِ صبح پاؤ گے اطلاعِ فراغِ دل

اعتماد اپنے لکھے پر کچھ مجھے یوں بھی ہوا
پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہوں، بتا دیتے ہیں دوست

زندگی درد کا دریا ہی سہی پر، ہمدم
موج در موج بڑا لطف ہے پیراکی میں

عمر نے چہرے پہ صدیوں کی کہانی لکھ دی
زندگی ٹیڑھی لکیروں نے لکھی ہاتھوں پر

آپ کرتے ہیں بات خوابوں کی
اور ہم نیند کو ترستے ہیں
اک عجب سلسلہ شکست کا ہے
اشک بھی ٹوٹ کر برستے ہیں

فلسفہ، جذبات، خیالات آپ جانیں، مجھے تو ان اشعار میں وہ لفظ ملے جو یاد رہ جائیں گے۔

احمد فاروق .... بدھ ۲۵؍ مئی ۲۰۱۶ء


منگل، 24 مئی، 2016

صفا سے صفا تک




صفا سے صفا تک

پہلا منظر
حجاز کا وسیع صحرا، آگ برساتا ہوا سورج، جھلستی ہوئی ریت پر اٹھتی گرم ہوا کے بگولوں سے بنتے ہوئے سراب؛ ان سب نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک مشتعل الرأس شتر سوار،ردیف ایک عورت اور ایک شیرخوار بچہ؛ ، جھلسا دینے والے سرمئی پتھر پر مشتمل دو پہاڑیوں کے بیچ پھیلی ڈھلان پر سواری رکتی ہے۔ وہ تینوں اونٹ سے اترتے ہیں۔ مرد اور عورت کے درمیان ہونے والا مکالمہ سرسراتی گرم ہوا کا حصہ بن جاتا ہے۔ دونوں مل کر ایک مختصر سا خیمہ گاڑتے ہیں۔ مرد کچھ دیر رکتا ہے، پھر اونٹ پر کجاوہ کستا ہے، اور سوار ہو جاتا ہے۔ عورت سے بچہ لے کر اپنی گود میں بٹھاتا ہے، عورت اونٹ کے پاس ہی کھڑی ہے: ’’آپ ہمیں یہاں کیوں لائے ہیں اور کس کے سہارے چھوڑ کر جا رہے ہیں‘‘۔
’’یہ میرے اللہ کا حکم ہے اور اس کا سہارا کافی ہے‘‘۔
’’ایسی بات ہے تو جائیے، اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے۔ پھر کب آئیں گے؟‘‘
’’جیسے اور جب میرا اللہ چاہے گا‘‘ یہ کہہ کر بچہ عورت کے حوالے کر دیتا ہے، دونوں کو دعائیں دے کر اونٹ کو ہانک دیتا ہے۔ عورت اپنے شیرخوار بچے کے ساتھ وہیں رک جاتی ہے۔ حدِ نگاہ تک بانجھ ریت پھیلی ہوئی ہے،نہ آدم نہ آدم زاد، نہ کوئی درخت نہ جھاڑی۔ آسمان کی ویران پہنائیوں میں اڑتا ہوا کوئی ایک پرندہ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ عورت اپنا مختصر سا کھانے کا سامان اور پانی کی مشک کو سمیٹ کر ایک طرف رکھ دیتی ہے اور بچہ فطرت کے عطا کردہ چشموں سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ لطف اندوز کیوں نہ ہو! وہ اپنی ماں کی گود میں ہے، اُسے گود سے باہر کے عالم سے کیا سروکار!
سورج کی تپش میں کمی ہونے لگتی ہے اور وہ دونوں پہاڑیوں کے درمیان سے تا حدِ نظر پھیلے ریت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ ماں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتی ہے اور اس رحمان و رحیم سے مخاطب ہوتی ہے جو ہزاروں لاکھوں ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ رات کی تاریکی پھیلتی جا رہی ہے اور ماں کے لبوں اور آنکھوں سے بہتے دعاؤں کے چشمے جاری ہیں۔
***
دوسرا منظر
ماں پر ایسا کڑا وقت آن پڑا ہے کہ کسی پر کیا آیا ہو گا۔ پانی کا مشکیزہ تک خالی ہو چکا ہے اور فطرت کے چشموں سے بچے کی سیرابی مشکل ہو گئی ہے۔بچہ بلکنے لگتا ہے تو ماں اس کو خیمے میں لٹا کر جنوبی سمت والی پہاڑی پر جا چڑھتی ہے۔ صحرا کا منظر پہلے دن جیسا ہی ہے، دور دور تک انسان تو کیا کوئی پرندہ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ماں پہاڑی سے اتر آتی ہے۔بچہ خیمے میں اکیلا ہے؛ یہ سوچ ماں کے قدموں کو مہمیز بن جاتی ہے، وہ دوڑ کر خیمے تک پہنچتی ہے، بچے کو دیکھتی ہے تو اور پریشان ہو جاتی ہے۔ پھر شمالی سمت والی پہاڑی کی طرف جاتی ہے، پہاڑی پر چڑھتی ہے، ادھر بھی وہی عالم ہے۔ پھر وہی بچہ خیمے میں اکیلا ہے؛ وہی پہاڑی سے اتر کر خیمے کی طرف دوڑنا؛پھر جنوب والی پہاڑی کی طرف! ماں اللہ کی رحمت کا یقین دل میں لئے دونوں پہاڑیوں کے بیچ بھاگتی رہتی ہے۔
اسے بھاگتے میں بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ وہ تڑپ کر خیمے کے پاس پہنچتی ہے تو ایک حیرت انگیز منظر اس کا منتظر ہے۔ بچے کے پیروں کی طرف ریت سے پانی رِس رہا ہے جو ذرا سی دیر میں چشمہ بن جاتا ہے۔ اس غیر معمولی نعمت کی عطا پر اس کی مسرت سنبھالے نہیں سنبھلتی اور وہ جوش میں پانی سے کہہ اٹھتی ہے: زَم! زَم! (ٹھہر جا، ٹھہر جا)۔ وہ پانی کے گرد ایک منڈیر سی بنا دیتی ہے، بچے کو پلاتی ہے خود پیتی ہے اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ پانی صرف پیاس کو نہیں بھوک کو بھی سیر کرتا ہے۔ نہ وہ ریت بانجھ رہتی ہے اور نہ وہ خطہ ویران رہتا ہے۔ ’’زَم زَم‘‘ اب تک چل رہا ہے اور اس کا پانی دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہا ہے۔
***
تیسرا منظر
تجارتی اور دیگر قافلے اس خطے میں نہیں رکتے کہ قرب و جوار میں نہ کوئی آبادی ہے نہ نخلستان اور نہ کہیں پانی ہے۔ صفا اور مروہ سے کسی قدر ہٹ کر ایک گزرگاہ پر ایک قافلہ جا رہا ہے۔ایک نوجوان حدی خوان اچانک چیخ اٹھتا ہے: ’’بابا کہاں ہیں! بابا کہاں ہیں‘‘۔
’’میں ادھر ہوں، جوان! اپنی سواری میرے برابر لے آؤ ... ہاں، بولو کیا بات ہے، کیا ہوا جو تم حدی پڑھتے پڑھتے ایک دم شور مچانے لگے؟‘‘
’’وہ دیکھئے بابا! وہ آسمان پر سفید پرندے! میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے‘‘۔ عمر رسیدہ امیر کی نظریں آسمان کی طرف اٹھتی ہیں تو وہ حیرت زدہ ہو جاتا ہے: ’’یہ پرندے! یہ تو پانی کے سفیر ہیں! مگر اس علاقے میں تو پانی کہیں نہیں۔ پھر؟ یہ پرندے یہاں کیوں چکرا رہے ہیں؟ اے جوان، جا! اس پہاڑی پر چڑھ کر دیکھ! ‘‘۔
قافلہ رک جاتا ہے، لوگوں میں کھسر پسر جاری ہے۔ بڑے بوڑھوں کے لئے اس خطے میں پانی کے سفیروں کا ہونا بہت عجیب اور ان ہونی بات ہے۔اس نوجوان کی پکار ابھرتی ہے!۔ ’’ادھر کچھ ہے! دونوں پہاڑیوں کے بیچ ایک خیمہ گڑا ہے!‘‘
’’اچھا، تم وہیں ٹھہرو! میں آ رہا ہوں‘‘۔ امیر اپنے چند سواروں کے ساتھ پہاڑی کی چوٹی پر آتا ہے۔ اور پھر وہ لوگ وادی میں اتر آتے ہیں۔ لق و دق صحرا میں ایک چھوٹا سا خیمہ، اس میں ایک عورت اور اس کا شیر خوار بچہ، سواری بھی کوئی نہیں! مزید حیرت کی بات ہے۔
گفتگو ہوتی ہے۔قافلے والے یہاں پڑاؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔ سیدہ ہاجرہ فرماتی ہیں: ’’اس وادی میں کہیں بھی خیمہ زن ہو جاؤ، مگر یاد رہے کہ پانی پر حق میرا ہے‘‘۔ اس وادی میں آبادکاری کا یہ اولین معاہدہ ہے جو نہایت پرامن ماحول میں طے پاتا ہے۔ قافلہ وادی میں آن اترتا ہے خیمے لگنے لگتے ہیں، کچھ عورتیں سیدہ کے ارد گرد جمع ہو جاتی ہیں۔ خاموش سرسراتی وادی میں جانوروں، گھنٹیوں اور انسانوں کی آوازیں کھنکنے لگتی ہیں۔ امن کے شہر مکہ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔

وقت گزرتا رہا، سیدنا اسماعیل علیہ السلام شیرخواری سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کی طرف گامزن ہوئے۔ تو چاہِ زمزم کے والی قرار پائے۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ اسی کنویں کے آس پاس وہ مقدس گھر ہے جسے اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے کسی نامعلوم زمانے میں تعمیر کیا تھا۔ عرشِ عظیم پر واقع بیت المعمور کی عین سیدھ میں زمین پر یہ گھر، جو ریت کی دبیز تہوں میں چھپ چکا تھا، جنات اور انسانوں کے لئے قبلہ تھا۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم کی تعمیل میں پھر اس وادئ ایمن میں اترے۔ بیٹے کو ساتھ لیا اور اللہ کی طرف سے بتائی گئی نشانیوں کی روشنی میں ریت کی تہوں سے اس گھر کی بنیادیں تلاش کر لیں۔ باپ بیٹے نے مل کر معمار کا کام کیا ، پتھروں اور گارے سے جیسا اللہ نے چاہا ویسا ایک مکعب نما گھر تعمیر کیا اور جنت سے آیا ہوا ایک سفید چمکدار پتھر
اس کی متعینہ جگہ پر دیوار میں نصب کر دیا۔سیدنا اسماعیل علیہ السلام اس گھر کے متولی مقرر ہوئے۔ یہی بیت اللہ ہے یعنی اللہ کا گھر، مسجدِ حرام، خانۂ کعبہ۔ بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہو چکی تو خالقِ ارض و سما کی طرف سے حکم آیا کہ اس گھر کو لوگوں کے لئے صاف ستھرا کریں اور لوگوں کو پکاریں کہ آؤ یہ تمہارے معبودِ حقیقی کا گھر ہے، یہاں طواف کرو، عبادت کرو، اعتکاف کرو اور اللہ کی طرف سے برکات سے نوازے جاؤ گے۔ باپ بیٹے نے دعا کی:
الٰہ آخر، یہاں بسا ایک شہر ایسا
کہ جس کے باسی
ترے جہاں کی ہر ایک نعمت سے بہرہ ور ہوں
اللہ کی حکمتوں کے قربان جائیے، وہ چشمہ جو ایک شیر خوار بچے کے قدموں سے پھوٹا تھا، وہ اس اکیلے بچے اور اس کی ماں کے لئے نہیں تھا۔ وہ وہاں آ کر آباد ہو جانے والوں کے لئے بھی تھا اور اللہ کے گھر کی زیارت اور حج کے لئے اور وقوف و اعتکاف کرنے والوں کے لئے بھی ہے، اور اسے تا قیامت جاری رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے پانی میں کچھ ایسے خواص رکھ دئے ہیں جو دنیا جہان کے کسی اور پانی میں نہیں۔
***
چوتھا منظر
دِن ابھی پوری طرح روشن نہیں ہوا کہ کوہِ صفا کی چوٹی سے ایک توانا آواز ابھرتی ہے: ’’یاصباحاہا! یاصباحاہا‘‘۔ عرب میں یہ پکار تب سنائی دیا کرتی تھی جب کسی پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑی ہو، کوئی رہزنی کا نشانہ بنا ہو، کوئی حملہ آور ہو رہا ہو، یا کہیں آگ لگ گئی ہو۔ لوگ باگ اپنے کام وام چھوڑ کر دوڑے کہ دیکھیں کون پکار رہا ہے اور ہوا کیا ہے۔ کسی نے دور سے دیکھ کر پہچان لیا اور پکارا: ’’یہ تو ابو قاسم ہے! ضرور کوئی بڑی بات ہو گئی ہے ورنہ وہ لوگوں کو یوں نہ بلاتا‘‘۔ لوگ جمع ہوئے پوچھا: ’’اے عبدالمطلب کے بیٹے، کیا ہوا ہے؟‘‘
’’سنو! اگر میں تم سے کہوں کہ اِس چھوٹی سی پہاڑی کے اُس پارایک لشکرِ جرار ہے جو مکہ والوں پر ابھی ٹوٹ پڑے گا، تو کیا تم یقین کر لو گے‘‘۔
’’ہاں، ہاں! کیوں نہیں؟ کہ تم نے کبھی کوئی غیرذمہ دارانہ بات نہیں کی۔‘‘
’’میں نے تم میں چالیس برس گزارے ہیں۔ تم لوگوں نے مجھے کیسا پایا‘‘۔
’’اے ابو قاسم! تم ایک شریف خاندان کے شریف بیٹے ہو۔ ہم نے تمہیں ہمیں سچا اور دیانت دار پایا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تم کوئی الٹی سیدھی بات نہیں کرو گے بلکہ وہی کہو گے جو حق ہے۔‘‘
’’تو پھر سنو! تم سب کو ایک دن مرنا ہے اور اپنے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ جان لو کہ اللہ ہی ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے اور کوئی اس کی پہنچ سے باہر نہیں۔ اس نے مجھ پر اپنا فرشتہ اتارا ہے اور مجھے تمہاری طرف اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے۔ اس سے پہلے کہ موت تمہاری زبان اور حلقوم کو بند کر دے لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، عرب و عجم تمہارے قدموں میں ہوں گے۔‘‘
ایک چمکتے دمکتے چہرے والا عمر رسیدہ مگر توانا شخص گرج کر بولا: ’’تجھ پر بتوں کی مار پڑے، اتنی سی بات کے لئے تو نے لوگوں کو دوڑایا!‘‘ وہ شخص اس دمکتے چہرے کی وجہ سے ابولہب کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ اللہ کریم نے اس کے بڑبولے پن اور ظلم و تعدی کا جواب رہتی دنیا تک کے لوگوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ ’’ابولہب تباہ و برباد ہو گیا۔ اس کا مال اور اس کی کمائی کچھ بھی اس کے کام نہ آیا۔ وہ بہت جلد لپٹیں مارتی آگ میں ڈالا جائے گا۔ اور اس کی عورت، خار دار ایندھن ڈھونے والی۔ اس کی گردن میں کھجور کی رسی!‘‘۔ دنیا نے دیکھا کہ ابولہب اس کے کم و بیش آٹھ برس بعد تک زندہ رہا اور اس نے مسلمانوں کا جینا حرام کئے رکھا۔ اللہ کی قدرت دیکھئے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ کا قرآن اس کے بارے میں کیا کہتا ہے، وہ ایمان کی نعمت سے محروم رہا۔ اس کی اواخر عمر کی بیماری اور موت، اس کی بیوی کا انجام سب کے سامنے ہیں۔
***
پانچواں منظر
اللہ کے گھر کے گرد لپٹی کالی چادر کے سائے میں ساتویں چکر کی تکمیل پر خود کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ چاند آدھے سے پورا یا پھر پورے سے آدھا ہو گیا ہے۔ تریسٹھ برس کی عمر، دل کا مرض، پرہیزی کھانا وہ بھی تھوڑا سا اور دوائیاں ڈھیر ساری؛ اس پر زمین کے پورے سات چکر! ریٹائرمنٹ کے بعد عام طور پر اور زوجہ مرحومہ کی رحلت کے بعد خاص طور پر اپنے کمرے تک محدود ہو جانے والے شخص نے گھٹنوں اور پاؤں کو اتنی مشقت میں کب ڈالا ہو گا۔ شاید اسی لئے بدنی محسوسات الگ ہو گئے تھے یا پھر اس کالی چادر میں جذب ہو گئے تھے۔ طبیعت ہلکی ہو گئی تھی، تھکن کا احساس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ مسعٰی میں داخلے کے راستے کے قریب مقامِ ابراہیم کے خاصا پیچھے تھوڑی سی جگہ خالی دیکھی۔ جسم تو وہاں بیٹھ گیا مگر دل و دماغ دوسرے ہزاروں لوگوں کے ساتھ محوِ طواف رہے۔ پورے اطمینان سے دو رکعت نماز ادا کی تو وہ جو تھوڑا سا اضمحلال تھا وہ بھی جاتا رہا۔

خروج کے راستے پر آبِ زمزم کے نلکے لگے تھے۔ ریاض شاہد کا کہا یاد آیا: ’’خوب جی بھر کر پانی پیجئے گا‘‘۔ کوشش بھی کی مگر چائے کی پیالی جتنے پلاسٹک کے دو کپ ہی پی سکا تھا کہ نظر سعی میں تیز تیز قدم اٹھاتے لوگوں پر پڑی۔ یہی تو وہ راستہ ہے جس پر سیدہ ہاجرہ پانی کی تلاش میں دوڑتی رہی تھیں! پھر حلق نے پانی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر اس خوف سے کہ کفرانِ نعمت نہ ہو جائے پیالی بھر اور پی لیا۔
تیر کا نشان سامنے اترتے راستے پر دائیں طرف کو اشارہ کر رہا تھا کہ صفا اِدھر ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔جبل الصفا کے پاس پہنچا تو پہاڑی کا کچھ حصہ شیشے کی دیوار کے اس پاردکھائی دے رہا تھا۔ سرمئی رنگ کے دیکھنے میں ملائم مگر ناہموار پتھر اپنی سختی کا اظہار بھی کر رہے تھے۔ سعی کے سارے راستے پر فرش باندھ دیا گیاہے، اوپر طویل چھت ہے جو دھوپ کو کسی سمت سے بھی آنے نہیں دیتی۔ اس پر بس نہیں مسعٰی پر جگہ جگہ ٹھنڈی ہوا کا انتظام کر دیا گیا ہے۔ اور آبِ زمزم سے بھرے کولر رکھ دئے گئے ہیں۔
تب تو ایسا نہیں تھا! جب ایک نبی کی بیوی، ایک نبی کی ماں ایک پہاڑ اپنی پیاس کا، اور ایک شیرخوار بچے کی پیاس کا، اٹھائے تپتی جھلستی ریت پر، جلتے سورج کے عین نیچے کبھی ادھر بھاگتی تھیں کبھی ادھر۔ اس کیفیت کا تو ادراک بھی ممکن نہیں تھا!وہ وقت کیسا ہو گا جب سورج عین سروں کے اوپر دھرا ہوگا! بھائی بھائی سے، دوست دوست سے اور بیٹا باپ سے بھاگے گا، ماں اولاد سے بھاگے گی! دل گویا دمدمہ بن گیا اور سینے کی دیوار گرنے لگی۔
خانہ کعبہ کی طرف منہ کیا تو ہاتھ از خود اٹھ گئے اور آرزوئیں، خدشات، امیدیں، دعائیں سب کچھ اشکوں کی صورت بہنے لگا، قدم اٹھنے لگے۔ راستے میں ایک مقام پر سبز روشنیاں نصب کر دی گئیں ہیں۔ بتایا گیا کہ اس حصے میں تیز چلنا ہے۔ بات عین سمجھ میں آتی ہے۔ یہاں سے ننھے اسماعیل کا خیمہ نشیب میں تھا اور دکھائی نہیں دیتا تھا۔ ماں کی آنکھوں سے دیکھئے تو ایسے میں قدموں کی رفتار تیز ہو جانا عین فطری بات ہے۔ جی میں آتی ہو گی کہ بچے کوبھی ایک نظر دیکھ لوں، پانی کی تلاش بدن کواور بھی دھکیل دیتی ہو گی۔ زمزم کا منبع یہیں کہیں ہے! مگر دکھائی نہیں دیتا کہ دونوں طرف سنگی دیواریں ایستادہ ہیں۔ میری رفتار کبھی تیز ہو جاتی ہے کبھی مدھم؛ خیالات اور محسوسات کے مدوجذر کا اثر قدموں پر بھی تو پڑتا ہے! میں مروہ تک پہنچ جاتا ہوں، اس کا بھی کچھ حصہ دکھائی دے رہا ہے اور اس کے سامنے بھی شیشے کی دیوار اٹھا دی گئی ہے۔ پہاڑی پر چڑھنے کے تصور ہی سے ہانپنے لگتا ہوں، رکتا ہوں دعا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اللہ کریما! خود ہی میرے کانپتے الفاظ کو معانی بھی عطا فرما اور قبولیت بھی۔
پھر صفا پر پہنچا تو یوں لگا میں بھی اس ہجوم میں شامل ہوں جو ’’یاصباحاہا، یاصباحاہا‘‘ کی پکار پر جمع ہوا تھا۔ ایک عجیب سا خیال ذہن میں کوندا۔ اس سے پہلے کہ موت تمہاری زبان اور حلقوم کو بند کر دے لا الٰہ الا اللہ کہہ دو، عرب و عجم تمہارے قدموں میں ہوں گے۔‘‘ اللہ کا شکر ہے یہاں کوئی ابولہب موجود نہیں۔ یہاں تو سارے لا الٰہ الا اللہ کے داعی ہیں! تو پھر؟ وہ عرب و عجم ہمارے قدموں میں کیوں نہیں؟ زبان بھی چل رہی ہے! پر کہیں کچھ خرابی ہے ضرور! کہیں حلقوم تو بند نہیں ہو گئے؟ کہ لاالٰہ الا اللہ زبان پر ہی رک گیا ہے، سینوں میں نہیں اتر پاتا! گڑبڑ یقیناً ہے! خرابی موجود ہے! یا ایھا الذین آمَنوا آمِنوا۔ اپنے ایمان کو تازہ کرنا ہو گا کہ یہ سعی ’’سعیِ مشکور‘‘ بن سکے۔
میری دو بیٹیاں ایک بیٹا اور ایک داماد میرے ساتھ تھے۔ سوچا میں تو بوڑھا ہو گیا، جوڑوں میں سختی آ گئی ہے یہ سارے جوان ہیں، یہ زیادہ تیز چل سکتے ہیں، میری وجہ سے سست رفتاری میں پڑ جائیں گے۔ باہم مشورہ ہوا کہ لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے رہیں گے اور میں اپنے طور پر سعی کروں گا۔ سعی مکمل کر کے وہ اس جگہ رک جائیں گے جہاں سے مطاف کو راستہ جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اپنے ہی بچوں سے الگ ہو جانے کے پیچھے اور کیا چیز کار فرما تھی۔ طواف کے ساتھ چکر، یہاں سات دوڑیں، آسمان سات، زمین کے سات پرت، ہفتے کے دن سات! چاند کے دن اٹھائیس، اہلِ بشارت کے میزبان ستر! یا اللہ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا! تیری حکمت ہے تو ہی جانے مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ مجھے اس راستے پر مقدور بھر دوڑنا ہے جس پر سیدہ دوڑی تھیں۔ سات دوڑیں پوری ہو گئیں! زَم! زَم! انعام مل چکا! وہ بھی ایسا کہ جس سے سارا جہان فیض یاب ہو رہا ہے، ہوتا رہے گا۔ تا وقتیکہ اس زمین پر سورج آخری بار طلوع ہو جائے۔
مقررہ مقام پر پہنچا تو بچے وہاں نہیں تھے۔ گویا میں پہلے پہنچ گیا؟ یا حیرت ان بوڑھی ہڈیوں میں تو اتنی جان نہیں کہ جوانوں سے تیز دوڑ سکے! یہ کوئی اور قوت رہی ہو گی، کوئی اور جذبہ رہا ہو گا! تھکاوٹ کا احساس تک نہیں تھا۔ جی بھر کر اسماعیل علیہ السلام کے کنویں کا پانی پیا اور وہیں بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر میں بچے بھی آن ملے۔
الحمد للہ! اللہ کریما ہماری اس کمزور سی بینکی ٹیڑھی کوشش کو سعیِ مشکور بنا دے۔
*******



محمد یعقوب آسی ..... سوموار 23 مئی 2016ء

اتوار، 8 مئی، 2016

۔ تندور ۔ ایک ثقافتی مطالعہ







’’تندور‘‘ کا ثقافتی مطالعہ
****

پروفیسر انور مسعود کی شہرہ آفاق نظم ’’تندور‘‘ کا متن

شریفاں
سنیا نہیں سائی چھنڈ کے لائیں، کناں اگے جھپے نیں؟
ساری تون ونجائی ماسی، آہ کیہ گوگے تھپے نیں
کچھ نہیں کہندا ماچھن تاہیں، لالہ چپ چپاتا اے
کچے گچل کھائے کیہڑا، گھتے کون مواتہ اے
قہر خدادا جے کجھ کہئے، بندا اے پھر الاہمہ نی
پیشی دا میں آٹا آندا، وچے ای پے گئیاں شاماں نی
آٹے دا وی ناس کرایا، نال دیہاڑی پٹی اے
روز گھروں وی جھڑکاں کھائیے، سانوں کاہدی چٹی اے
ویکھ نی ماسی جیواں جے کر ایہو چالے تیرے نیں
اساں نہیں ایتھے مڑ کے آونا، ہور تندور بتھیرے نیں
شاداں: شریفاں دی دھی
ایتھے اج نہیں واری آؤندی، کون اڈیکے پچھلا تاء
لیبے چھڈ گیا آٹا بے بے چل توے تے لُوہئے چاء
ایہدے ہتھوں روز ایانے بھکھے بھانے سوندے نیں
اودوں ای ایتھے سوتا پیندا اے جدوں پروہنے آوندے نیں
پچھوں جیہڑیاں چُنگاں آئیاں پہلاں پئی بھگتانی ایں
جیہڑا چنگی دھُوتی چاڑھے روٹیاں اوہدیاں لانی ایں
چھوئی سٹ کے کالھی ایں ہن تتے تاء دیاں ساڑن نون
ویکھ نی پونا لُوہ چھڈیا ای روندی کھونڈی مارن نوں
ماسی جیواں
توں تے جدوں وی آندی ایں ایتھے نال بھونچال لیاونی ایں
دونہہ گُلیاں دا آٹا لے کے ٹبر نال لیاونی ایں
حال دہائی پا دیندی اے، جیہڑی آن کھلوندی اے
کلی کس طرح پوری آواں ہر کوئی کالھی آوندی اے
نکیاں نکیاں کڑیاں مینوں کھوہ کھوہ کھاون لگیاں نیں
کل دیاں جمیاں میرے اتے رعب جماون لگیاں نیں
میرا دھن کلیجا اے اڑیو ہوندی نال جو میرے نی
اگے میرے اگ دے لنبو رولا چار چوفیرے نیں
خیراں
میں سنیا نی چوری ہو گیازیور کچھ سرداراں دا
پچھلی راتیں کھول کے لے گیا کھوتا کوئی کمہیاراں دا
گل نہ کریو کدھرے اڑیو، حسیناں مینوں کہہ گئی اے
خصمے دے نال لڑ کے جِیرو پیکے آ کے بہہ گئی اے
لاڈاں دے وچ پلیاں دا کوئی سوہرے رہنا سوکھا اے
مینوں پہلوں ای دِسدی سی پئی ایہدا وسیبا اوکھا اے
بھید میں ایتھے کاہنوں بھناں ملاں دی بدنیتی دے
رُڑھ پڑھ جانے ویچ سٹے نیں سارے پھوہڑ مسیتی دے
کریماں
توں وی بول نی مونہوں بی بی جِیب توں کاہنوں سیتی اے
سنیاے اے تیرے سرجن ٹکے نویں کمائی کیتی اے
پرسوں تیرے پیراں دتے حبیب دا بستہ کھوہیا اے
اڑیے تیرا لاڈو رانا پُج کے بھیڑا ہوئیا اے
راہ جاندے نوں ٹچکر کر دا اے، مندے بول سناندا اے
ٹٹے ہوئے چھتر وانگوں بہتا ای ودھدا جاندا اے
بی بی
دھوں دتا اے ناسیں اینہے ود ھ کے جناں بھوتاں توں
میں وی ڈاہڈی ستی آں بھیناں ایس دیاں کرتوتاں توں
گھُتل باہجوں رہ نہیں سکدا جنے کھنے نال کھہندا اے
اڈ پڈ جانا پھٹکی جوگا کدوں نچلا بہندا اے
روز شکایتاں روز الاہمے شرم نہ ایہنوں آوندی اے
ایس کپتے دتے دی کوئی ہڈی پسلی لاوندی اے
خیراں
چھڈو نی گل منڈیاں والی منڈیاں لڑدیاں رہنا اے
تسیں نہ ایتھے کرو لڑائی دونہہ گھڑیاں دا بہنا اے
میں سنیا اے نی چن دے اتے روس دے راکٹ جانا اے
بندے نالوں پہلاں اوتھے کتا اوس پہنچانا اے
انجے لگدا اے دنیا دے دن ہو گئے جے ہن پورے نی
بندے رہن زمیں دے اتے چن تے جان کتورے نیں
گل نہ کدھرے کرنا اڑیو گل وی ایہ سرکاری اے
لے نی ماسی جیواں پیڑا، ہن تے میرے واری اے
کتاب: ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ مطبوعہ ۱۹۷۴ء
ماسی جیواں: تندور والی؛ لالہ: ماسی جیواں دا گھر والا

فرہنگ
سنیا نہیں سائی (یہ سوالیہ ہے): تو نے سنا نہیں تھا کیا؟
چھنڈ کے لائیں: چھنڈنا (خوب جھٹکا دینا)۔ پیڑے سے روٹی بناتے میں ایک سے دوسرے ہاتھ پر خوب زور زور سے مارتے ہیں، اس سے روٹی کا دائرہ بڑا ہوتا ہے اور یکساں طور پر پتلی ہوتی ہے۔
کناں اگے جھپے نیں (سوالیہ ہے): کانوں میں کچھ پھنسا ہوا ہے کیا؟ کیا ٹھیک سنائی نہیں دیتا؟
ساری تون ونجائی ماسی: تَون: ضرورت بھر کا گندھے ہوئے آٹے کا بڑا سا پیڑا۔
آہ کیہ گوگے تھپے نیں: یہ کیا گوگے تھاپ دئے ہیں؟ محاورۃً گوگا یا گوگی ادھ پکی موٹی روٹی کو کہتے ہیں۔ گوگی گوبر کا چھوٹا اُپلا ہوتا ہے۔
کچھ نہیں کہندا ماچھن تاہیں، لالہ چپ چپاتا اے: لالہ سے مراد ماسی جیواں (تندور والی) کا شوہر ہے جو ایندھن وغیرہ ڈالنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
کچے گچل: بے کار روٹی، کہیں موٹی، کہیں پتلی، کہیں چکی کہیں پکی، کہیں ادھ پکی۔
گھتے کون مواتہ اے (محاورے کا استعمال):  مواتا، مواتہ: جلتا ہوا لکڑیوں کا مُٹھا، اسے کھائے گا کون!
قہر خدادا : خدا کا قہر۔ انتہائی کوفت، غصے، مایوسی کے عالم میں بولتے ہیں۔
بندا اے پھر الاہمہ: پھر الاہنا بنتا ہے (کہ ایسا کیوں کہا، ویسا کیوں کہا)۔
پیشین (ظہر کا وقت وقت)، دیگر (عصر کا وقت): پنجابی میں یہ الفاظ بدل کر پیشی اور ڈیگر بن گئے۔
میں آٹا آندا: میں آٹا لائی ہوئی ہوں۔
وچے ای: کام کا مکمل نہ ہونا۔ پے گئیاں شاماں نی: شام ہونے کو آئی مگر روٹیاں نہیں پک سکیں۔
آٹے دا وی ناس کرایا: آٹا خراب کروایا۔ نال دیہاڑی پٹی اے: ساتھ ہی دن ضائع کیا ہے۔
روز گھروں وی جھڑکاں کھائیے: آئے روز اسی وجہ سے گھر والے ناراض ہوں؛
سانوں کاہدی چٹی اے: ہمیں کس بات کا جرمانہ یا سزا ہے۔
ویکھ نی ماسی جیواں: سنو، ماسی جیواں! جے کر ایہو چالے تیرے نیں: اگر تمہارا چلن ایسا ہی ہے تو۔
اساں نہیں ایتھے مڑ کے آونا: ہم یہاں پھر نہیں آئیں گے۔ ہور تندور بتھیرے نیں: تندور اور بھی بہتیرے ہیں۔
ایتھے اج نہیں واری آؤندی: آج یہاں باری نہیں آنے کی۔
کون اڈیکے پچھلا تاء: آخری تاؤ جس کے بعد مزید ایندھن نہیں ڈالتے۔
لیبے چھڈ گیا آٹا: آٹا لیس چھوڑ گیا ہے۔ بے بے: ماں۔
چل توے تے لُوہئے چاء: لوہنا (جلانا) اس میں شدید بددلی کا تاثر ہے۔ چل ماں! گھر جا کر توے پر پکا لیتے ہیں۔
ایہدے ہتھوں: اس کے ہاتھوں، اس کی وجہ سے (اشارہ ماسی جیواں اور تاخیر کی طرف ہے)۔
روز ایانے بھکھے بھانے سوندے نیں: بچے راز بھوکے سوتے ہیں، انہیں وقت پر کھانا نہیں مل سکتا۔
اودوں ای ایتھے سوتا پیندا اے۔ سوتا پے جانا(شام کا اندھیرا پھیل جانا)۔ پروہنے: مہمان۔ اودوں ای: تب ہی۔
جدوں پروہنے آوندے نیں: یہاں تاخیر بھی اس دن ہوتی ہے جب مہمان آئے ہوئے ہوں۔
پچھوں جیہڑیاں چُنگاں آئیاں: چُنگ (گاہک) یہاں روٹی لگوانے کے لئے آئی ہوئی عورتیں مراد ہیں۔
پہلاں پئی بھگتانی ایں: ان کو تو پہلے بھگتا رہی ہے۔
جیہڑا چنگی دھُوتی چاڑھے: جو زیادہ تذلیل کرے، زیادہ باتیں بنائے، رعب جھاڑے۔
روٹیاں اوہدیاں لانی ایں: تو اُس کی روٹیاں لگا دیتی ہے۔
چھوئی سٹ کے: تازہ ایندھن ڈال کر۔ کالھی ایں ہن: اب تجھے جلدی ہے یا جلدی دکھا رہی ہے۔
تتے تاء دیاں ساڑن نوں: زیادہ تاؤ میں روٹیاں جل جاتی ہیں۔
ویکھ نی پونا لُوہ چھڈیا ای: دیکھ، تو نے پونا جلا دیا ہے۔ پونا موٹے سوتی کپڑے کا ٹکڑا ہوتا ہے جو روٹی تندور میں لگاتے وقت ہاتھ پر لپیٹ لیتے ہیں۔ روندی کھونڈی مارن نوں: کھونڈی مارنے سلیقہ نہیں آتا۔
توں تے جدوں وی آندی ایں ایتھے: تو جب بھی یہاں آتی ہے (خطاب جیواں سے ہے)۔
نال بھونچال لیاونی ایں: بھونچال (زلزلہ) کا کنایہ اس لڑکی شاداں کی طرف ہے۔
دونہہ گُلیاں دا آٹا: تھوڑا سا آٹا جو دو چھوٹی چھوٹی روٹیوں کے لئے کافی ہو۔ 
ٹبر نال لیاونی ایں: سارے گھر والوں کو ساتھ لے آتی ہے۔
حال دہائی پا دیندی اے: شور مچا دیتی ہے۔
جیہڑی آن کھلوندی اے: جو بھی یہاں آتی ہے، آ کھڑی ہوتی ہے۔
کلی کس طرح پوری آواں: میں اکیلی سب سے کس طرح پوری اتروں!
ہر کوئی کالھی آوندی اے: ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے۔
نکیاں نکیاں کڑیاں: چھوٹی چھوٹی لڑکیاں۔
مینوں کھوہ کھوہ کھاون لگیاں نیں: مجھے باتیں بنا کر دکھاتی ہیں۔ کھوہ کھوہ کھانا (محاورہ): کسی کو تکلیف میں ڈالنے والی بات، یا کام کرنا۔ 
کل دیاں جمیاں: کل کی پیدا ہوئیں (مراد چھوٹی ناسمجھ لڑکیاں)۔
میرے اتے رعب جماون لگیاں نیں: مجھ پر رعب جمانے لگی ہیں۔
میرا دھن کلیجا اے: میری ہمت ہے۔ دھَنّ کلمہء تعریف بھی ہے۔ دھن جگرا ماں دا؛ مشہور قول ہے کہ ماں کی برداشت کمال کی ہوتی ہے۔
اڑیو، اڑیے، نی: خواتین ایک دوسری کو مخاطب کرنے میں، بات کرنے میں یہ الفاظ کثرت سے بولتی ہیں۔
ہوندی نال جو میرے نی: جو کچھ مجھ پر گزرتی ہے۔
اگے میرے اگ دے لنبو رولا چار چوفیرے نی: میرے آگے آگ کی لپٹیں ہیں اور میرے ارد گرد شور برپا ہے۔ 
میں سنیا نی چوری ہو گیازیور کچھ سرداراں دا: میں نے سنا رات کو سرداراں کا کچھ زیور چوری ہو گیا۔ یہ سرداراں کسی عورت کا نام بھی ہو سکتا ہے اور اس سے مراد کسی سردار (امیر) گھرانا بھی ہو سکتا ہے۔
پچھلی راتیں کھول کے لے گیا کھوتا کوئی کمہیاراں دا: رات پچھلے پہر کوئی کمہاروں کا گدھا چرا لے گیا۔
گل نہ کریو کدھرے اڑیو، حسیناں مینوں کہہ گئی اے: مجھے حسیناں نے ایک بات بتائی ہے، بتاتی ہوں آگے کسی کو نہ بتائیو ...
خصمے دے نال لڑ کے جِیرو پیکے آ کے بہہ گئی اے: جیرو اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر میکے آن بیٹھی ہے ...
لاڈاں دے وچ پلیاں دا کوئی سوہرے رہنا سوکھا اے: لاڈ پیار میں پلی ہوئی لڑکی کا سسرال میں، راضی خوشی رہنا کوئی آسان ہے؟
مینوں پہلوں ای دِسدی سی پئی ایہدا وسیبا اوکھا اے: مجھے تو پہلے ہی نظر آ رہا تھا کہ اس گھر کا بَسنا مشکل ہے۔
بھید میں ایتھے کاہنوں بھناں ملاں دی بدنیتی دے: یہاں میں ملاں (امام مسجد) کی بدنیتی کے راز کیوں فاش کروں...
رُڑھ پڑھ جانے ویچ سٹے نیں سارے پھوہڑ مسیتی دے: غارت ہونے جوگے نے مسجد کی ساری چٹائیاں بیچ ڈالی ہیں۔
توں وی بول نی مونہوں بی بی جِیب توں کاہنوں سیتی اے: بی بی تم بھی کچھ کہو، تمہاری زبان کیوں سلی ہوئی ہے ...
سنیاے اے تیرے سرجن ٹکے نویں کمائی کیتی اے: سنا ہے تیرے ’’نیک نام‘‘ بیٹے نے ایک نیا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے ...
پرسوں تیرے پیراں دتے حبیب دا بستہ کھوہیا اے: تیرا (بیٹا) پیراں دتا پرسوں حبیب کا بستہ چھین کر لے گیا...
اڑیے تیرا لاڈو رانا پُج کے بھیڑا ہوئیا اے: تیرے اس لاڈلے کی حرکات بہت بری نکلی ہیں ...
راہ جاندے نوں ٹچکر کر دا اے، مندے بول سناندا اے: راہ چلتوں کا مذاق اڑاتا ہے اور گندی زبان بولتا ہے۔
ٹٹے ہوئے چھتر وانگوں بہتا ای ودھدا جاندا اے: اور اس کی یہ عادت (بدسلوکی) بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
دھوں دتا اے ناسیں اینہے ود ھ کے جناں بھوتاں توں: ناسیں دھوں دینا (نتھنوں میں دھواں ڈالنا، بے انتہا تنگ کرنا)۔ اس نے تو جنات سے بھی بڑھ کر تنگ کیا ہوا ہے۔
میں وی ڈاہڈی ستی آں بھیناں ایس دیاں کرتوتاں توں: اس کے کرتوتوں سے تو میں خود بھی تنگ آئی ہوئی ہوں۔
گھُتل باہجوں رہ نہیں سکدا جنے کھنے نال کھہندا اے: شرارت، فساد کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا، کسی نہ کسی سے جھگڑا کئے رکھتا ہے۔
اڈ پڈ جانا پھٹکی جوگا کدوں نچلا بہندا اے: غارت ہونے جوگا، مرنے جوگا؛ سکون سے تو بیٹھتا ہی نہیں (سلوک سمائی سے نہیں رہتا)۔
روز شکایتاں روز الاہمے شرم نہ ایہنوں آوندی اے: مجھے آئے دن اس کی شکایتیں اور الاہنے ملتے ہیں، پر اِس کو شرم نہیں آتی۔
ایس کپتے دتے دی کوئی ہڈی پسلی لاوندی اے: یہ اپنی بدسلوکی کی وجہ سے کسی کے ہاتھوں ہڈیاں تڑوا بیٹھے گا۔
چھڈو نی گل منڈیاں والی منڈیاں لڑدیاں رہنا اے: لڑکوں کی بات چھوڑو، ان کا جھگڑنا تو معمول کی بات ہے ...
تسیں نہ ایتھے کرو لڑائی دونہہ گھڑیاں دا بہنا اے: تم یہاں دو گھڑی کو جمع ہوئی، آپس میں مت جھگڑو ...
میں سنیا اے نی چن دے اتے روس دے راکٹ جانا اے: میں نے سنا ہے روس کا راکٹ چاند پر جائے گا ...
بندے نالوں پہلاں اوتھے کتا اوس پہنچانا اے: اور انسان سے پہلے وہاں کتا بھیجا جا رہا ہے ...
انجے لگدا اے دنیا دے دن ہو گئے جے ہن پورے نی: لگتا ہے اس دنیا کے دن پورے ہو گئے (قیامت کے آثار ہیں)۔
بندے رہن زمیں دے اتے چن تے جان کتورے نیں: کہ انسان تو زمین پر رہیں اور کتے کے پلے چاند پر جائیں (جا بسیں)۔
گل نہ کدھرے کرنا اڑیو گل وی ایہ سرکاری اے۔ یہ بات کسی سے نہ کرنا، یہ بات بھی سرکاری (راز) ہے۔
لے نی ماسی جیواں پیڑا، ہن تے میرے واری اے: لو ماسی، یہ پیڑا لو (اور میری روٹیاں لگاؤ) اب تو میری باری ہی ہے نا!

پروفیسر انور مسعود صاحب نے شعر کی زندگی کے حوالے سے کہا تھا: شاعری اتنی ہی دیرپا ہو گی جتنا دیرپا اُس کا موضوع ہو گا۔ ایک ہنگامی صورتِ حال ہوتی ہے جو وقتی ہوتی ہے اور اس پر کہا ہوا آپ کا شعر بھی وقتی ہوتا ہے، لوگ اس صورتِ حال کو بھول گئے اور آپ کا شعر بھی جاتا رہا۔ انہوں نے اپنی ہی شاعری سے ایک مثال دی؛ وزارت اور قلم دان والی۔ ایک وزیر نے بیان دیا تھا کہ میں وزارت پر تھوکتا ہوں، پروفیسر صاحب نے اس پر ایک قطعہ کہا تھا۔ ان کا اپنا کہنا تھا کہ وہ ایک ہنگامی اور سطحی سی بات تھی، اس پر کہا گیا قطعہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔ شعر وہ دیرپا ہوتا ہے جس کے پیچھے دیرپا اقدار ہوں اور محسوسات کی گہرائی ہو۔

انور مسعود کی نظم ’’امبڑی‘‘ کے پیچھے ایک ماں ہے، اور ماں کا دل کائنات کی عظیم اور زندہ حقیقت ہے؛ یہ نظم جب بھی پڑھئے گا تازہ رہے گی۔ ان زندہ حقیقتوں میں ثقافتی اقدار بھی ہیں۔ نسل ہا نسل اور صدیوں سے تشکیل پاتے ہوئے وہ جذبات و محسوسات، عادات و اطوار، بود و باش، رسوم و رواج، مجلسی اور خانگی زندگی کے مظاہر، اور ہر وہ چیز جس کا تعلق ایک معاشرے اور زمین کے ساتھ ہوتا ہے، ان پر کہے گئے اشعار بھی زندہ رہتے ہیں۔ پنجاب کی زمین اور مٹی بھی صدیوں سے ثقافتوں کی امین ہیں، اور زبان ثقافت کا بہترین اظہاریہ ہوا کرتی ہے۔ وہ جو میں کہا کرتا ہوں کہ ’’بولی تے بوٹے، دونہاں نوں مٹی چاہی دی اے‘‘ اس کی اصل یہ ہے کہ آپ کی تہذیب و ثقافت کی ساری اقدار اور خصوصیات زبان میں پائی جاتی ہیں۔ یوں زبان محض اصوات نہیں، بلکہ اپنی مٹی سے اگے ہوئے وہ راغ و باغ ہیں جن کا ہر ریشہ اس مٹی کا امین اور مظہر ہے۔

میرا پختہ یقین ہے کہ حروفِ ہجاء محض آوازوں کا اشاریہ نہیں ہیں۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ہ جسے ’’لفظی معنٰی‘‘ کہتے ہیں، اس سے نکل کر بات کرنی پڑتی ہے۔ ادب میں جمالیات کے حوالے سے تو یہ ازبس ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہر خاص و عام کی روزمرہ کی گفتگو میں بھی ملتی ہیں۔ غور کیجئے تو ایک ضرب المثل یا کہاوت دراصل چند لفظوں میں ایک وسیع پس منظر شامل کر کے اسے پیش منظر میں ملا دینے کا نام ہے؛ محاورہ کے معانی بہر مقام لفظوں میں قید نہیں ہوتے بلکہ الفاظ کو وسعت اور گہرائی عطا کرتے ہیں۔ میں نے کئی احباب کو یہ کہتے سنا کہ جی: ’’پنجابی نہیں چل سکتی، اس کے تو حروفِ تہجی ہی کم ہیں، اور کچھ تکرارِ محض ہیں (ذ، ز، ض، ظ؛ ق، ک؛ ا، ع؛ ہ، ح، ت، ط)، اس کی کوئی گرامر نہیں ہے، کوئی لغت نہیں ہے، املاء کے قواعد نہیں ہیں؛ وغیرہ۔ کئیوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ’’جو لہجہ میرا ہے اور اس کے لئے جو املاء میں لکھتا ہوں، وہی پنجابی ہے، باقی تو کچھ اور ہیں، زبان ہر بارہ کوس پر بدل جاتی ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ میرے یہ دوست بار بار بھول جاتے ہیں کہ زبان محض آوازوں کا نام نہیں ہے۔ ہر ہر لفظ اور اس کے ہجوں کے پیچھے پوری معاشرتی نفسیات اور ثقافتی منظر نامہ ہوتا ہے۔ لغت اور قواعد نہ ہونے کا الزام دراصل میرے ان مہربانوں کی اپنی لاعلمی کا شاخسانہ ہے۔ بارہ کوس والی اور املاء کے اصولوں والی بات بھی کچھ ایسے ہی ہے۔ قواعد اور املاء پر مفصل اور بنیادی اہمیت کی حامل کتابیں بھی موجود ہیں اور لغات بھی مرتب ہوئے رکھے ہیں؛ ضرورت مطالعے کی ہے، وہ کتابوں کا ہو، لوگوں کا ہو، کلاسیکی اور دیگر ادب کا ہو؛ مطالعے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

پروفیسر صاحب کی کتاب ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ میں املاء کا وہی ضابطہ کار فرما ہے جو ہم اپنے کلاسیکی ادب میں دیکھتے ہیں۔نہ صرف کلاسیکی شعراء مثلاً: وارث شاہ، میاں محمد بخش، پیر فضل گجراتی، شاہ حسین، بلھے شاہ اور دیگر کے ہاں بلکہ ان کے بعد آنے والے مولوی چراغ دین، عبدالستار عرف ستار بخش، غلام رسول؛ وغیرہم کے ہاں بھی املاء کا کلاسیکی فارمولا ہی برتا گیا ہے۔ قاری اور گلوکار کا لہجہ (بولی) جو بھی ہو، کہیں بھی کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ قاعدے کی بات بھی یہی ہے کہ املاء کو ضابطے کے مطابق ہونا چاہئے، کیونکہ کتاب کو ہر خطے، ہر علاقے میں پہنچنا ہے؛ اس کو ہم گجرات یا لاہور، یا مظفرگڑھ، یا ساہی وال، یا سیالکوٹ، یا سرگودھا، یا اٹک؛ کسی ایک مقام تک محدود نہیں کر سکتے۔ ہاں، قاری اور گلوکار اسی ایک اصولی املاء میں لکھے ہوئے متن کو اپنی ذاتی، مقامی اور علاقائی عادات کے مطابق جیسے بھی ادا کرے۔ علاقائی سطح پر رائج اسماء و افعال مشترک بھی ہو سکتے ہیں اور بہت سارے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ اس فرق کی بنا پر ایک لہجے کو الگ زبان قرار دے دینا یا ایک لہجے کے سوا باقی سب کو رد کر دینا بہر حال کوئی دانش مندی نہیں۔ مشاہیر کے ہاں ہم بہت سے ایسے علاقائی لہجوں کے الفاظ بھی دیکھتے ہیں جو اُن کے آبائی علاقوں میں اجنبی نہیں بھی تو غیرمانوس ضرور ہیں۔ میرے نزدیک یہ خامی یا کمزوری نہیں بلکہ زبان کی ایسی توسیع ہے جو اس کے جملہ علاقائی لہجوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا سبب بنتی ہے۔

نظم کی طرف آتے ہیں۔ اس کی بہتر تفہیم کے لئے ہمیں پنجاب کی دیہی ثقافت اور اس میں تندور کی معاشرتی مرکزیت کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ وقت کی روز افزوں تیز رفتاری نے ماضی کی بہت ساری روایات اور اقدار کو کچل ڈالا ہے۔ اب سے کوئی آدھی پونی صدی کا منظر نامہ بہت مختلف تھا۔ ایک گاؤں کی حیثیت ایک بڑی برادری کی سی ہوتی تھی جس میں اپنائیت اور بیگانگی ساتھ ساتھ چلتی تھیں۔ زیادہ تر لوگوں کا پیشہ کاشتکاری ہوتا اور باقی آبادی بھی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر کاشتکاری سے جڑی ہوتی۔ کچھ لوگ سارے گاؤں کے خدمت گار ہوتے، اور سالانہ بنیادوں پر کاشتکاروں سے خدمات کا عوضانہ گندم، چاول یا دوسری اجناس کی صورت میں پاتے، اس عوضانے کو سیپی (سے پی) بھی کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کو کمی (کاف پر زبر، میم مشدد) کہا جاتا یعنی کام کے لوگ، کام آنے والے لوگ۔ کمیوں میں سارے پیشہ ور (لوہار، ترکھان، نائی، موچی، کمہار، ماشکی، چوکیدار، میراثی؛ وغیرہ) شامل ہوتے تھے، جو سارا سال گاؤں کے لوگوں کے کام کیا کرتے۔ غیر کاشتکار غریب لوگوں سے کام کی اجرت بھی اکثر نہیں لی جاتی تھی۔ سالانہ عوضانہ کے علاوہ بیاہ شادی کے موقع پر مختلف کمیوں کی ایک مقررہ اجرت ہوا کرتی تھی جسے لاگ کہا جاتا۔ مثال کے طور پر نائی کا عام کام تو حجامتیں بنانا ہوتا تھا۔ بیاہ شادی، پیدائش اور موت کے موقع پر دعوت یا خبر دینے کے لئے نائی بھیجا جاتا، دیگیں وغیرہ نائی پکاتا، شادی والے گھر میں برتن وغیرہ دھونے اور گھروں میں کھانا تقسیم کرنے کا کام نائی کے گھرانے کی عورتیں کرتیں، دلہن کو تیار کرنا، مہندی اور دیگر رسوم کا اہتمام بھی انہیں کے ذمے ہوتا۔ نائی اور نائن کا عوضانہ بھی سب سے زیادہ ہوتا؛ اور نقد رقم کے علاوہ کپڑے اور اجناس کی صورت میں ادا کیا جاتا۔ یہ تو طے تھا کہ تقریب کے دوران (دو دن تین دن، جتنے بھی ہوں) نائی نائن کے سارے گھر والوں کا کھانا بیاہ والے گھر کے ذمے ہو گا۔

ماشکی کا سارے گاؤں کی بجائے کچھ گھروں والوں سے معاوضہ طے ہوتا تھا کہ وہ گاؤں کے تالاب یا کنویں وغیرہ سے جو بھی ذرائع میسر ہوں ان کو پینے اور گھر کے استعمال کا پانی مہیا کرے گا۔ مَشک سالم چمڑے کا بنا ہوا ایک بڑا تھا تھیلا ہوتا تھا، جس پر چمڑے کے پٹے لگے ہوتے۔ ان پٹوں کی مدد سے پانی سے بھری ہوئی مشک کو کندھوں اور کمر کے ساتھ کس لیا جاتا، یوں پانی ڈھونا قدرے آسان ہو جاتا۔ مَشک کی نسبت سے اس پیشے کو ماشکی (مَشک والا) کا نام ملا، جو مختصر ہو کر ماچھی کہلایا۔ ہر گاؤں میں کسی کھلی جگہ پر کسی سڑک کے موڑ پر ایک آدھ تنور ہوا کرتا تھا، بڑے دیہات میں ایک سے زیادہ تنور بھی ہوتے تھے۔ ہر تنور کی مالکن کوئی ماچھن ہوتی۔ وہ وقت پر تنور کو تپاتی، اور گندھا ہوا آٹا لے کر آنے والی عورتوں کو تنور میں روٹیاں پکا کر دیتی۔ تنور میں روٹیاں لگانا، ان کو مناسب حرارت دینا اور پک جانے پر تنور سے نکالنا ایک مشکل کام تھا جو موسمِ گرما میں اور بھی مشکل ہو جاتا۔ تنور کے لئے ایندھن کی لکڑی ظاہر ہے ماچھی لاتا تھا۔ ماچھن روٹیوں کی گنتی کے مطابق معاوضہ لیا کرتی؛ جو کبھی نقد اور کبھی اناج وغیرہ اور کبھی خشک آٹے کی صورت میں ہوتا۔ عام طور پر دوپہر کی روٹیاں تنور سے لگوائی جاتیں۔ شام کے وقت وہی ماچھن بھٹی پر آٹا لانے والیوں کو مَنڈے (پتلی روٹیاں) پکا کر دیتی، بعض علاقوں میں شام کو بھی تنور پر روٹیاں لگوائی جاتیں۔ کبھی کبھار حسبِ ضرورت ماچھن کے گھر کا کوئی مرد بھی اس کی مدد کو موجود ہو سکتا تھا، مگر عام طور پر تندور اور بھٹی پرعورتیں ہی ہوتی تھیں۔

روٹیاں پکنے پکانے کے عمل کے ساتھ ساتھ عورتوں کی باتیں بھی جاری رہتیں۔ مذکورہ نظم میں شاعر کا عمیق مشاہدہ اورزبان پر مضبوط گرفت بہت عیاں ہے۔ اسی پر بس نہیں، تنور پر جمع ہوئی عورتوں کے موضوعات کو بھی بڑی چابکدستی سے سمویا گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لڑکپن میں وہ خود بھی روٹیاں لگوانے جاتے رہے ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ انہیں اکثر کچھ ایسا سننا پڑا ہو: ’’ہاء ہائے وے! توں رناں وچ دھنا کتھوں آ وڑیا ایں؟ تیری ماں بہن کوئی نہیں سی جیہڑی آپ آ جاندی؟‘‘ اور اگلے ہی لمحے ساری ماسیاں اس لڑکے کو بھول جاتی ہوں گی کہ یہاں ایک مرد بھی موجود ہے۔ عورتوں کے’’ سارے‘‘ موضوعات کا تذکرہ شاید مناسب نہ ہوتا؛ سو انور مسعود نے اپنی نظم میں عمومی موضوعات ہی کو چھیڑا ہے۔ اس نظم کو اردو مکالمے میں ڈھال کر دیکھتے ہیں۔

نظم ’’تندور‘‘ اردو مکالمے کی صورت میں
شریفاں (ماسی جیواں سے):
ماسی، تو نے سنا نہیں تھا کیا؟ تیرے کان بند ہیں کیا؟ میں نے کہا بھی کہ روٹیاں خوب جھٹک کر لگانا، مگر تو نے موٹے موٹے گُوگلے تھاپ کے رکھ دئے! لالہ (ماچھی) بھی چپکا بیٹھا ہے، ماچھن سے کچھ بھی نہیں کہتا (کہ لوگوں کا آٹا خراب نہ کرے)۔ یہ کچی پکی ادھ جلی  بدمزہ روٹیاں کھائے گا کون! غضب خدا کا، کچھ کہیں تو الاہنا بن جاتا ہے۔ میں ظہر کے وقت کی آٹا لے کر آئی ہوئی ہوں اور یہاں بیٹھے شام ہونے کو آ گئی۔ آٹا بھی ضائع ہوا اور دن بھی۔ روزانہ گھر سے بھی (تاخیر کی وجہ سے) جھڑکیاں کھائیں؟ ہمیں کون سی سزا ملی ہوئی ہے۔ دیکھ ماسی جیواں! اگر تیرارویہ ایسا ہی رہا تو ہم یہاں پھر نہیں آنے کے، گاؤں میں اور بھی بہتیرے تنور ہیں۔
شاداں (شریفاں کی بیٹی):
آج یہاں باری نہیں آئے گی، ہم سے آخری تاؤ کا انتظار نہیں ہوتا، اب تو آٹا بھی لیس چھوڑنے لگا ہے۔ چل بے بے (ماں) جا کر توے پر پکا جلا لیتے ہیں۔ اس (ماسی جیواں) کے ہاتھوں بچے روز رات کو بھوکے سوتے ہیں اور تاخیر بھی تبھی زیادہ ہوتی ہے جب مہمان آئے ہوئے ہوں۔ (ماسی جیواں سے مخاطب ہوتی ہے) ہم سے بعد میں جو عورتیں آئیں تو نے انہیں پہلے بھگتا دیا! روٹیا بھی تو اسی کی لگاتی ہے جو تیری خوب بے عزتی کرے۔ اب جلدی دکھا رہی ہے! آگ تیز کر کے روٹیاں جلائے گی کیا؟ دیکھ نی، کھونٹی مارتے میں پونا بھی جلا لو گی۔
ماسی جیواں (شریفا ں سے):
تو جب بھی آتی ہے نا، اپنے ساتھ بھونچال (اشارہ شاداں کی طرف) لے کر آتی ہے۔ دو روٹیوں کا آٹا ہوتا ہے اور ساتھ پورے گھر والے آ جاتے ہیں۔ جو بھی یہاں آتی ہے، آتے ہی شور مچانے لگتی ہے۔ ہر ایک جلد ی میں ہوتی ہے، میں سب کو ایک دم کیسے بھگتا دوں؟ یہ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں مجھے کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ ہا ہائے، یہ کل کی پیدا ہوئی مجھ پر رعب ڈالتی ہیں۔ اڑیو! یہ میری ہمت ہے، جو کچھ میرے ساتھ ہوتی ہے۔ سامنے آگ کی لپٹیں ہوتی ہیں اور چار چوفیرے شور؛ جو میں برداشت کرتی ہوں۔
خیراں:
نی! میں نے سنا سرداراں کا کچھ زیور چوری ہو گیا ہے۔ رات میں کوئی کمہاروں کا گدھا کھول کر لے گیا۔ کسی کو کو بتانا نہیں اڑیو! مجھے حسیناں نے کہا تھا۔ جیرو اپنے شوہر سے لڑ جھگڑ کر میکے آ کر بیٹھ گئی ہے۔لاڈ پیار کی پلی لڑکیوں کا سسرال میں رہنا مشکل ہوتا ہے۔مجھے تو پہلے ہی دکھائی دے رہا تھا کہ اس کا گھر بسنا مشکل ہے۔ میں یہاں ملاں کی بدنیتی کے بھید کیا کھولوں؛ برباد ہونے جوگے نے مسجد کی ساری چٹائیاں بیچ ڈالی ہیں۔
کریماں (بی بی سے):
نی بی بی! تو بھی کچھ بول! تو نے کیوں زبان سی رکھی ہے؟ سنا ہے تیرے ’’نیک نام‘‘ بیٹے پیراں دتے نے نیا کام کر دکھایا ہے۔ پرسوں اس نے حبیب کا بستہ چھین لیا۔اڑیے! تیرایہ لاڈلا بیٹا تو انتہا کا برا نکلا ہے۔راہ جاتے کا مذاق اڑاتا ہے اور بدتمیزی کرتا ہے۔اس کی عادتیں روز بروز بگڑتی جا رہی ہیں۔
بی بی:
اس لڑکے نے تو بہت تنگ کیا ہوا ہے۔ بہنا! میں تو خود اس کے کرتوتوں کی ستائی ہوئی ہوں۔ شرارت کئے بغیر یہ نہیں رہتا، کسی نہ کسی سے بگاڑے رکھتا ہے۔ مرنے جوگا، نچلا بیٹھتا نہیں۔ روزانہ شکائیتیں روزانہ الاہنے، مگر اس کو شرم نہیں آتی۔ مجھے تو ڈر ہے کہ یہ بدمزاج کسی کے ہاتھوں ہڈی پسلی تڑوا بیٹھے گا۔
خیراں:
چھوڑو بھی نی! لڑکوں کا کیا ہے وہ تو لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں، تم یہاں جھگڑا نہ کرو۔ دو گھڑی کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں (سلوک سمائی کی باتیں کرو)۔ میں نے سنا ہے روس کا راکٹ چاند پر جائے گا اور انسان سے پہلے وہاں کتا پہنچے گا۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا تباہ ہونے کو ہے، یہ بھلا کیا بات ہوئی کہ انسان تو زمین پر رہیں اور کتے کے پلے چاند پر جائیں۔ اڑیو! یہ بات کسی سے نہ کرنا، کہ یہ بات بھی سرکاری ہے۔ لے ماسی پیڑا لے، اب تو میری باری آ گئی۔

اِس نظم کے موضوعات
روٹیاں لگانے میں تاخیر، نقص بینی، آٹے اور وقت کے ضیاع کا شکوہ، گھر والوں کی جھڑکیاں، متبادل ذرائع کی دستیابی کا ذکر، بات کو بڑھا کر پیش کرنا اور دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانا، تقدیم و تاخیر کا شکوہ، کام میں احتیاط کی تلقین، طعنہ بازی اور اس کا جواب، اپنی محنت اور مجبوریوں کا رونا، چھوٹوں کے رویے کا شکوہ، ادھر ادھر کی خبریں اور ان پر تبصرے، الزام تراشیاں، انگشت نمائیاں اور صفائیاں، مزید خبریں مع تبصرہ۔

زبان، بولی، محاورہ اور ضرب الامثال کا استعمال
ہر زندہ تہذیب کی زبان میں کچھ خاص الفاظ اور جملے یا نیم جملے ایسے ہوتے ہیں جن سے اس تہذیب کے خدوخال کا پتہ بھی ملتا ہے، اس کی رعنائیاں بھی کھلتی ہیں اور چاشنی بھی؛ اور اس کی ثقافتی اور خاص طور پر مذہبی تاریخ کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ تاریخ میں لوک داستانیں، اور گیت بھی شامل کر لیجئے، گیتوں میں رسوم و رواج، رشتے ناطے، جذبات و احساسات اور کہانیوں کے کرداروں اور واقعات کی جھلک بھی ملتی ہے۔ ذرائع روزگار، پیشے اور ان کے سارے لوازمات کسی نہ کسی انداز میں گیتوں کے علاوہ داستانوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان کے لئے ایک فضا بنانا اور ایک کہانی بُننا فنکار کی صلاحیتوں اور زمین سے رشتے کی مضبوطی کا پتہ دیتے ہیں۔

پنجابی کے حوالے سے یہ جو عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ اس میں حروفِ ہجاء کا مسئلہ ہے، رسم الخظ وغیرہ موزوں نہیں ہے، املاء میں یہ ہے وہ ہے؛ حقیقت میں معاملہ کچھ اور ہے۔ ہمارے خطے کے لوگ، خاص طور پر پڑھا لکھا طبقہ اپنے ثقافتی ورثے سے لاتعلق ہوتا جا رہا ہے، بلکہ بہت حد تک ہو چکا ہے۔ اس کے عوامل کیا ہیں؛ یہ ایک طویل بحث ہے،اور اس کا یہ موقع بھی نہیں۔ پنجابی زبان کے بارے میں کسی سیانے نے کہا تو یوں تھا کہ ’’یہ ان پڑھوں کی زبان بھی ہے‘‘، یعنی پنجاب کی تہذیب اور ثقافت میں پلنے بڑھنے اور پھولنے پھلنے والوں کے تو یہ خون اور دودھ میں شامل ہے انہیں حروف اور الفاظ کی محتاجی نہیں ہوتی۔ وہ (اپنی زبان میں) پڑھ لکھ جائیں تو زبان بھی ترقی کرتی ہے اور ایسے تعلیم یافتہ طبقے کی مثبت محنتوں کے اثرات سے معاشرہ بھی ترقی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے معاملہ ایک وضعی لطیفے کا ہو گیا۔ کہا گیا یہ انگریزوں کے بچے فر فر انگریزی بولتے ہیں، اور ہوتے بھی بہت ذہین ہیں۔ کیوں؟ کہ جناب ان کا میڈیم انگریزی ہے! ٹھیک ہے جی، ہم بھی اپنے بچوں کا میڈیم انگریزی کر دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ؟ وہی جو اس کوے پر گزری کہ بے چارہ عقاب کی بولی سیکھنے چلا تھا۔ عقاب کی چیخ تو کیا سیکھتا، اپنی کائیں کائیں سے بھی گیا اوربن کر رہ گیا ’’گھوگڑ کاں‘‘۔

سوچنے کی بات تھی کہ انگریزوں کی تہذیبی اور ثقافتی زبان انگریزی ہے، ان کے بچوں کو اپنی زبان تو آتی ہے، وہ پوری توجہ اپنے مضامین پر دے سکتے ہیں۔ یہاں میڈیم کی ناروا تبدیلی نے بچوں کی فہم تک کو معذور کر ڈالا اورسیانے کی کہی ہوئی بات میں سے ’’بھی‘‘ نکل کر باقی بچا: ’’پنجابی ان پڑھوں کی زبان ہے‘‘۔ اس احساسِ کمتری نے بابو لوگوں کو اپنی زبان ہی سے متنفر کر ڈالا۔ میرے اپنے مشاہدے کی بات ہے کہ دو چار سندھی بولنے والے چاہے ہفت زبان ہوں، جمع ہوتے ہیں تو وہ سندھی زبان میں بات کرتے ہیں۔ بلوچ بلوچی میں بات کرتے ہیں، پشتون پشتو میں۔ اور تو اور سکھ دو چار جہاں جمع ہوں چاہے کینیڈا میں ہوں چاہے جالندھر میں اپنے خاص لہجے کی پنجابی میں بات کرتے ہیں۔ یہ پنجاب ہی کے بابوؤں کو کچھ ہو گیا ہے کہ وہ پڑھے لکھوں کی محفل میں ’’ان پڑھوں کی زبان‘‘ بولنا تو کیا، سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔

یہیں پر بس نہیں! ہماری عہدِ جدید کی مائیں اپنے بچوں کو روزمرہ استعمال کی چیزوں کے نام تک انگریزی میں سکھاتی ہیں۔ اور بچے پنجابی سے مکمل طور پر اجنبی بن جاتے ہیں۔ محاورے کہاوتیں، اکھان، بولی ٹھولی تو دور کی بات پنجابی کہلانے والا پنجابی کا جملہ بھی اردو زدہ بولتا ہے۔ میری اس گزارش کو اردو سے دشمنی پر محمول نہ کیا جائے، میں خود اپنی استطاعت کی حد تک ایک عرصے سے اردو زبان و ادب کی خدمت کر رہا ہوں۔ اس ضمن میں ایک عملی لطیفہ بھی سنتے چلئے: ایک نجی محفل میں جانا ہوا، وہاں کچھ بڑے سرکاری عہدے دار تھے، کچھ ان سے کم، کچھ ان سے کم اور ایک آدھ خادم قسم کا شخص بھی تھا۔ گفتگو میں ایک صاحب نری انگریزی بول رہے ہیں، ایک اردو والی انگریزی، ایک انگریزی والی اردو، ایک پنجابی اردو اور انگریزی کا آمیزہ بول رہے ہیں، اور ایک صاحب جو میرے قریبی دوست ہیں بڑی عمدہ اردو بول رہے ہیں۔ مجھے یہ بہت اچھا لگا۔اتفاق سے ان سب کا تعلق پنجاب کے کسی نہ کسی دیہی علاقے سے تھا۔ مگرخود اختیاری افسرشاہی انہیں پنجابی بولنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ مجھے بولنے کا موقع ملا تو میں نے پنجابی میں بات کی۔ میرے یہی دوست گویا ہوئے: یہ جناب ہمارے آسی صاحب ہیں، اردو اور پنجابی دونوں کے شاعر بھی ہیں نثر نگار بھی، ادبی نشستوں میں ایسی شستہ اردو بولتے ہیں کہ جی خوش ہو جاتا ہے، مگر ... پتہ نہیں نجی نشستوں میں انہیں کیا ہو جاتا ہے کہ پنجابی پر اتر آتے ہیں۔ زبان کی چاشنی اور زمین سے رشتہ کہاں باقی رہے گا جب ہمارا اپنی سرزمین سے رشتہ بھی ’’مشکوک‘‘ کے درجے کو پہنچ رہا ہے۔

میرا اپنا تجربہ اور مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ پنجابی زبان میں کوئی ’’فنی خرابی‘‘ نہیں۔ ہمارے لوگوں کا اندازِ فکر اور اندازِ بود و باش بدل چکا ہے، لباس بدل چکا ہے، خون کے رشتے مر رہے ہیں، زمین سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے اور زبان قصہء پارینہ بنتی جا رہی ہے۔ نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ ایک شخص صرف اور صرف اپنے لہجے اور اپنی وضع کردہ املاء کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور اسی کو پنجابی زبان قرار دیتا ہے، باقی سب کو بہ یک جنبشِ قلم رد کر دیتا ہے۔ علاقائی سطح پر الفاظ کسی قدر مختلف ہو سکتے ہیں، املاء کے قواعد تو بہت پہلے سے موجود ہیں۔ مطالعے کی عادت نہیں رہی، اور اپنے محدود علم کو کامل سمجھ کر یار لوگ ایسے اعلان کر دیتے ہیں جن کا ذکر پہلے ہو چکا۔

میں یا آپ کچھ لکھتے ہیں اور وہ کسی بھی ذریعہء ابلاغ تک آتا ہے تو ظاہر ہے وہ سب کے لئے ہے۔ سو، اس کا خط اور اس کی املاء سب کے لئے ہو گی تو آپ کا لکھا ہوا سب کے لئے ہو گا، نہیں تو اپنے آپ کے لئے، لکھا تو کیا، نہ لکھا تو کیا! ہاں بولئے اپنے لئے، جیسے جی چاہے۔ اصولی کی بات یہ بھی ہے کہ ہم اگر دس کروڑ ہیں تو ہمیں رسم الخط بھی وہی رکھنا ہو گا جس سے ہم مانوس ہیں۔ وہ تین کروڑ والے جانیں اور ان کا رسم الخط جانے، ان کا تہذیبی، ثقافتی، اور مذہبی منظر نامہ ہی مختلف ہے، اس کو بقیہ دس کروڑ پر نافذ کرنے کی بات سرے سے غلط ہے۔ میری ایک بھارتی اردو دان سے بات ہوئی تو میں نے عرض کیا تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد اِدھر کی اردو اور اُدھر کی اردو میں قابلِ لحاظ فرق واقع ہو چکا ہے۔ پہلے تو وہ نہیں مانے مگر جب میں نے کچھ مثالیں پیش کیں تو انہوں نے میری بات سے اتفاق کا اظہار کیا۔ پنجابی کا معاملہ تو اس سے کہیں آگے ہیں۔ کینیڈا سے ایک سہ ماہی رسالہ نکلا کرتا تھا (اب بھی ہو گا) ’’غزل‘‘۔ انہوں نے ’’پاکستانی غزل نمبر‘‘ شائع کیا۔ صرف پاکستانی شعراء کی غزلیں تھیں اور رسم الخط؟ خیر چھوڑئیے۔ جب ہمارے اپنے مہربان فارسی رسم الخط کو چھوڑنے اور رومن خط کو اپنانے کی وکالت کر رہے ہوں تو گرمکھی والوں سے کیسا شکوہ!

انور مسعود کی پنجابی کو دیکھ لیجئے، یہ اپنی روایت سے بہت مضبوطی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ان کے موضوعات کی رنگا رنگی بھی کسی سے مخفی نہیں۔ انہوں نے شاندار انداز میں زبان کی لفظیاتی، املائی اور خطی روایات کو نبھایا ہے۔ بات محاورہ، ضرب المثل (کہاوت، اکھان)، بولی ٹھولی؛ کی ہو رہی تھی؛ زیرِ مطالعہ نظم کو دیکھتے ہیں۔ الفاظ اور محاورات کے سادہ معانی بیان کئے جا چکے۔ ان کا تہذیبی مختصر مختصر تہذیبی مطالعہ بھی ہو جائے۔

چھنڈ کے لائیں: چھنڈنا (خوب جھٹکا دینا)۔ پیڑے سے روٹی بناتے میں ایک سے دوسرے ہاتھ پر خوب زور زور سے مارتے ہیں، اس سے روٹی کا دائرہ بڑا ہوتا ہے اور یکساں طور پر پتلی ہوتی ہے۔ تندور میں پکی ہوئی روٹی اگر موٹی رہ جائے تو اس میں وہ خستگی پیدا نہیں ہوتی، جو قدرے پتلی روٹی میں ہوتی ہے۔ چھنڈنے کا عمل جتنا ماہرانہ ہو گا روٹی کی گولائی بھی بہتر بنے گی اور اس کی موٹائی بھی یکساں رہے گی، نہ کہ کہیں مرکز سے موٹی اور باہر کی طرف پتلی اور کہیں اس کے الٹ۔ جمالیات اور نفاست زندگی کے ہر مظہر میں اہمیت رکھتی ہے۔
کناں اگے جھپے نیں (سوالیہ ہے): کانوں میں کچھ پھنسا ہوا ہے کیا؟ کیا ٹھیک سنائی نہیں دیتا؟ جھَپّے بنیادی طور پر روئی کی گولیاں سی ہوتی ہیں جو کانوں میں تیل ڈال کر یا کسی تکلیف کی صورت میں کانوں میں ٹھونس لی جاتی ہیں؛ اُن سے کانوں میں داخل ہونے والی آواز کی لہروں میں رکاوٹ آ جاتی ہے اور قدرے کم سنائی دیتا ہے۔
ساری تون ونجائی ماسی: تَون گندھے ہوئے آٹے کا ضرورت بھر بڑا سا پیڑا۔ ونجاونا: ضائع کر دینا۔ دوسرے کی غلطی یا کمزوری کچھ تو زیادہ محسوس ہوتی ہے کچھ اس کو بیان کرنے میں بھی مبالغہ آ جاتا ہے۔ خواتین کے مکالمات میں خاص طور پر مبالغہ پایا جاتا ہے۔ مبالغہ صرف خامیوں یا برائیوں کے بیان میں نہیں، اچھائیوں کے بیان میں بھی پایا جاتا ہے۔ ادب میں اس کو صنعت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
آہ کیہ گوگے تھپے نیں: یہ کیا گوگے تھاپ دئے ہیں؟ محاورۃً گوگا یا گوگی ادھ پکی موٹی روٹی کو کہتے ہیں۔ گوگی گوبر کا چھوٹا اُپلا ہوتا ہے۔ پوری یا آدھی پکی ہوئی روٹی کو گوگا قرار دینا بھی مبالغہ ہے۔
کچے گچل: گچل یعنی گچگچا، بد ذائقہ کھانا؛ کھائے کیہڑا: کون کھائے گا۔ گاچی خاصی چکنی مٹی ہوتی ہے، اسے اردو میں کھڑیا مٹی کہتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب تختیوں پر سرکنڈے کی قلم سے لکھنے کی مشق کرائی جاتی تھی، تو تختیوں کو دھو کر ان پر کھڑیا مٹی کی پتلی سی تہہ جما دیتے اور خشک کر لیتے۔ تاکہ اسی تختی پر بار بار مشق کی جا سکے۔ عین ممکن ہے کہ فارسی ترکیب ’’تختہء مشق‘‘ کے پیچھے یہی روایت رہی ہو۔ گچل سے مراد وہی گاچی یا کھڑیا مٹی ہے۔
پے گئیاں شاماں نی: شام ہونے کو آئی مگر روٹیاں نہیں پک سکیں۔ صنعتِ مبالغہ ہے۔
کون اڈیکے پچھلا تاء: آخری تاؤ جس کے بعد مزید ایندھن نہیں ڈالتے۔ اس میں تندور ٹھنڈا ہونے سے پہلے پہلے پکائی گئی روٹی زیادہ خستہ ہوتی ہے۔ محاورے کے طور پر پچھلا تاء بہت تاخیر ہو جانے پر بولتے ہیں۔
چل توے تے لُوہئے چاء: لوہنا (جلانا) اس میں شدید بددلی کا تاثر ہے۔ چل ماں! گھر جا کر توے پر پکا لیتے ہیں۔ لُوہ دینا، لُوہ لینا، لُوہنا؛ یہ جلانے کے معانی میں مستعمل ہیں۔ نظم کے ماحول کے پس منظر میں جب روٹی پکانے میں دیر ہو چکی ہو گی تو چولھے توے پر بھی جلدی کا عنصر کار فرما ہو گا اور تیز آگ پر پکنے والی روٹی اندر سے چاہے کچی رہے اوپر سے جل جائے گی۔ اس مکالمے کا رخ اس جلانے کی طرف ہے۔
روز ایانے بھکھے بھانے سوندے نیں: بچے راز بھوکے سوتے ہیں، انہیں وقت پر کھانا نہیں مل سکتا۔ ایانے، نیانے، بال، بچے، نکے؛ اور بھی کئی الفاظ ہیں جن کے معانی چھوٹی عمر کے بچے اور بچیاں ہیں۔ بھکھے بھانے کی مثال اردو کی ’’روٹی ووٹی‘‘ کی سی ہے کہ ایک کلمے کے ساتھ ایک آدھ مہمل لگا کر گویا ایک ترکیب بنا لی جاتی ہے۔
اودوں ای ایتھے سوتا پیندا اے۔ سوتا پے جانا(شام کا اندھیرا پھیل جانا)۔ لفظی مطلب ہے سونے کا وقت ہو جانا۔ اس نظم میں تاخیر مراد ہے۔جدوں پروہنے آوندے نیں: یہاں تاخیر بھی اس دن ہوتی ہے جب مہمان آئے ہوئے ہوں۔
پچھوں جیہڑیاں چُنگاں آئیاں: چُنگ (گاہک) یہاں روٹی لگوانے کے لئے آئی ہوئی عورتیں مراد ہیں۔ چُنگ ایک کثیر المعانی لفظ ہے اور ہمیشہ مؤنث بولا جاتا ہے قطع نظر اس کے کہ گاہگ مرد ہوں عورتیں ہوں یا ملا جلا ہو۔
جیہڑا چنگی دھُوتی چاڑھے: جو زیادہ تذلیل کرے، زیادہ باتیں بنائے، رعب گانٹھے۔ دھُوتی کے معانی میں ابتذال پایا جاتا ہے۔
ویکھ نی پونا لُوہ چھڈیا ای: دیکھ، تو نے پونا جلا دیا ہے۔ پونا موٹے سوتی کپڑے کا ٹکڑا ہوتا ہے جو روٹی تندور میں لگاتے وقت ہاتھ پر لپیٹ لیتے ہیں۔ روندی کھونڈی مارن نوں: کھونڈی مارنے سلیقہ نہیں آتا۔ کھونڈی لوہے لمبی سلاخ کو کہتے ہیں جس کے سرے پر کُنڈا سا بنا ہوتا ہے، تندور میں سے روٹیاں نکالنے کا کام دیتا ہے۔
مینوں کھوہ کھوہ کھاون لگیاں نیں: مجھے باتیں بنا کر دکھاتی ہیں۔ کھوہ کھوہ کھانا (محاورہ): کسی کو تکلیف میں ڈالنے والی بات، یا کام کرنا۔ کل دیاں جمیاں: کل کی پیدا ہوئیں (مراد چھوٹی بے سمجھ لڑکیاں)۔
میرا دھن کلیجا اے: میری ہمت ہے۔ دھَنّ کلمہء تعریف بھی ہے، اس کے معانی میں آفرین! بہت خوب! بھی ہے۔ دھن جگرا ماں دا؛ مشہور قول ہے کہ ماں کی برداشت کمال کی ہوتی ہے۔
اگے میرے اگ دے لنبو رولا چار چوفیرے نی: میرے آگے آگ کی لپٹیں ہیں اور میرے ارد گرد شور برپا ہے۔ یہ جملہ بہت وسیع المعانی ہے اور شاعر کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیت اور چابک دستی کا پتہ دیتا ہے۔
لاڈاں دے وچ پلیاں دا کوئی سوہرے رہنا سوکھا اے: لاڈ پیار میں پلی ہوئی لڑکی کا سسرال میں، راضی خوشی رہنا کوئی آسان ہے؟ ایک بڑے اور اہم ثقافتی مظہر میں بہت سارے قضیوں میں اس کو درست پایا گیا ہے۔ لہٰذا یہ جملہ اکھان یا ضرب المثل کی سی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
رُڑھ پڑھ جانے ویچ سٹے نیں سارے پھوہڑ مسیتی دے: غارت ہونے جوگے نے مسجد کی ساری صفیں بیچ ڈالی ہیں۔ رُڑھ جانا: پانی میں بہہ جانا، یا لڑھک جانا۔ اس کے ساتھ مہمل پُڑھ کے شامل ہونے سے بات کو نئے معانی مل گئے۔ ’’پُڑ‘‘ اور ’’پُڑھ‘‘ کو ایک دوسرے سے خلط نہ کیا جائے۔ پُڑ پتھر کی سل کو کہتے ہیں اور مذکر بولتے ہیں۔ چکی، خراس وغیرہ کے دو پُڑ ہوتے ہیں جن کے بیچ میں گندم مکئی چنے وغیرہ کے دانے پس کر آٹا میدہ بیسن سوجی بنتے ہیں۔
سنیاے اے تیرے سرجن ٹکے نویں کمائی کیتی اے: سنا ہے تیرے ’’نیک نام‘‘ بیٹے نے ایک نیا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے ۔ سُرجَن : سورج سے ماخوذ ہے، اس کے معانی ہوتے: ’’روشن، نمایاں‘‘؛ طنزیہ استعمال نے اس کے معانی میں بدنامی کو شامل کر دیا۔ ٹِکّا: ماتھے کا زیور ہے، جو ظاہر ہے دور سے دکھائی دے جاتا ہے۔ سُرجن ٹکا وہ شخص ہوا جو اپنے ساتھ اپنے ہوتوں سوتوں کی بھی بدنامی کا باعث بنے۔
ٹٹے ہوئے چھتر وانگوں بہتا ای ودھدا جاندا اے: اور اس کی یہ عادت (بدسلوکی) بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دیہی زندگی کے تجربے کی بات ہے کہ جوتا ذرا سا ٹوٹا ہوا ہو تو اونچے نیچے راستوں پر، منڈیروں اور باٹوں پر چلتے میں اس کا ٹوٹنا تیز تر ہو جاتا ہے۔
دھوں دتا اے ناسیں اینھے ود ھ کے جناں بھوتاں توں: ناسیں دھوں دینا (نتھنوں میں دھواں ڈالنا، بے انتہا تنگ کرنا)۔ اس نے تو جنات سے بھی بڑھ کر تنگ کیا ہوا ہے۔نتھنوں میں دھواں دینا اردو میں بھی بطور محاورہ رائج ہے۔
اڈ پڈ جانا پھٹکی جوگا کدوں نچلا بہندا اے: غارت ہونے جوگا، مرنے جوگا؛ یہ لفظ پھَٹکی بھی ہو سکتا ہے اور پھِٹکی بھی۔ دونوں کے معانی میں فرق ہے مگر موجودہ سیاق و سباق میں دونوں ٹھیک بیٹھتے ہیں۔
بندے رہن زمیں دے اتے چن تے جان کتورے نیں: کہ انسان تو زمین پر رہیں اور کتے کے پلے چاند پر جائیں (جا بسیں)۔ اس مصرعے میں ایک لطیف طنز ہے جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے، بیان کرنا قدرے دقیق ہو گا۔

فراق گورکھپوری نے ایک مقام پر کہا ہے: ’’اہلِ زبان وہ ہے جو محاورے اور ضرب المثل کو شعر میں باندھ سکے‘‘۔ ہم انور مسعود کو اس تعریف پر پورا اترتا دیکھتے ہیں۔ سو، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ان کی یہ نظم انہیں پنجابی کا ’’اہلِ زبان‘‘ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اپنے اشعار میں جن کرداروں کو لاتے ہیں، پورے لب و لہجہ کے ساتھ لاتے ہیں۔ ایک بہت خاص نظم ’’جہلم دے پل تے‘‘ کرداروں کے تنوع کے لحاظ سے ’’تندور‘‘ ہی کی طرح اہم ہے۔ کچھ شعر (بیچ بیچ سے) جیسے مجھے زبانی یاد ہیں، پیش کرتا ہوں:
میرے ولوں سارے بھین بھائیاں نوں سلام ہووے
جاتکاں بزرگاں تے مائیاں نوں سلام ہووے
لاری والا حالے کچھ دیر کھلووے گا
سپاں والا بابا تساں سنیا تے ہووے گا
بچہ بچہ اج اوس بابے نوں سہاندا اے
سرمہ میں ویچدا آں جگ سارا جاندا اے
چن دا چاننا جے اکھیاں نہیں سہندیاں
اٹھدیاں بہندیاں تراٹاں ہون پیندیاں
پیڑ مک جاندی اے تے سوج لہہ جاندی اے
اکو ای سلائی نال ٹھنڈ پے جاندی اے
میرے کول دارو اے جی دنداں دی مشین دا
چکی جے خراب ہووے مزا کیہ اے پیہن دا
دند اینویں کڈھنے تے پٹنے نہیں چاہی دے
رب جیہڑے موتی دتے موتی دتے سٹنے نہیں چاہی دے
کھٹ کے بناونے نہیں میں کارخانے سجنو!
چار آنے، چار آنے، چار آنے سجنو!

اس پر طرہ یہ کہ انور مسعود جو نظم پڑھتے ہیں ان کا اپنا لہجہ اس کے کرداروں میں ڈھلا ہوا محسوس ہوتا ہے اور ان کا کلام دو آتشہ نہیں بلکہ سہ آتشہ بن جاتا ہے۔ سب سے پہلا اور بنیادی شعلہ ان کا تجربہ مشاہدہ اور زمین کے ساتھ جڑوں جیسا رشتہ ہے؛ دوسرا شعلہ ان کی لفظیات میں رچی ہوئی اس چاشنی کا ہے جس پر عبور حاصل کرنے کے لئے انہوں نے پتہ نہیں کون کون سے اور کتنے کشٹ کاٹے ہوں گے۔ تیسرا شعلہ ان کی یہ خداد داد صلاحیت ہے کہ ایک انور مسعود بولتا ہے تو کبھی چوہدری لگتا ہے (بُجھ بھلا رحمیاں، میرا کیہ خیال اے) تو اگلے ہی لمحے وہ رحما بن جاتا ہے۔ وہ بشیرا بھی ہے اور منشی جی بھی؛ یہاں تک کہ وہ ماسی جیواں بھی ہے، شریفاں بھی، شاداں بھی، خیراں بھی اور بی بی بھی۔ اس کے شعروں میں مٹی اور پودے، بادل اور ہوائیں انسانی لہجے میں بولتے سنائی دیتے ہیں۔

محمد یعقوب آسیؔ :: ہفتہ ۷؍ مئی ۲۰۱۶ء ۔