پیر، 12 اکتوبر، 2015

اچھا لکھتے ہو یار ۔۔۔ شہزاد عادل کی 20 غزلوں پر گفتگو


اچھا لکھتے ہو، یار

(یہ مضمون "دیارِ ادب ٹیکسلا" کے ہفتہ وار ادبی اجلاس 
جمعہ ۱۶؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء میں پیش کیا گیا)



شہزاد عادل کی اپنی منتخب کی ہوئی بیس غزلیں ہمارے سامنے ہیں ، زمانی ترتیب میں۱۹۸۸ء سے ۲۰۱۴ء تک؛ جن میں ۲۰۰۰ء کی چار، اور ۲۰۱۴ء کی چار غزلیں ہیں، بقیہ میں پچیس برسوں سے شاعر نے بارہ غزلیں منتخب کی ہیں۔ یہ جو میں نے عنوان میں کہا ہے ’’اچھا لکھتے ہو‘‘، اس کی پہلی شہادت اس کا اپنا انتخاب ہے۔ اس نے یقیناًبہت سوچ سمجھ کر یہ بیس غزلیں منتخب کی ہیں۔

دوسری بڑی شہادت زیرِ نظر غزلوں کی زمینیں ہیں۔ شہزاد کی ان غزلوں میں آٹھ بنیادی بحور آئی ہیں اور ان میں بھی فاضل شاعر نے بہت زیادہ تصرفات سے کام نہیں لیا۔ ساری بحور ’’مانوس‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔  یوں لگتا ہے کہ اسے قافیہ پیمائی یا ردیفوں کو گانٹھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ شعر سے تعلق کی وجہ سے ہم سب جانتے ہیں کہ ایک غزل میں ایک شعر جو پہلے ہو جاتا ہے، بقیہ شعر اسی کی طرح میں کہے ہوئے ہوتے ہیں؛ یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم جزوی طور پر شعر ’’بناتے‘‘ ہیں۔غزل کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی شعر ’’بنایا ہوا‘‘ نہ لگے، بلکہ یوں لگے کہ ’’بنا بنایا‘‘ اترا ہے۔ شہزاد کے ہاں یہ خوبی خاصی نمایاں ہے (’’بدرجۂ اتم‘‘ والی بات دوسری ہے)۔ یہ ضرور ہے کہ شاعر کہیں بھی غیر ضروری مشقت میں نہیں پڑا اور نہ کہیں جمود کا شکار ہوا ہے۔

اس کی بحور اور زمینوں میں ایک متوازن قسم کا تنوع پایا جاتا ہے۔ یہ صفت اس کے ہاں تب بھی موجود تھی جب وہ اول اول ’’دیارِ ادب، ٹیکسلا‘‘ کے اجلاسوں میں شامل ہوا۔ اس کے ہاں فکر و فن اور مضمون آفرینی کی خوبی تب بھی قابلِ لحاظ تھی۔ شہزاد عادل کی ایک غزل کا میں اکثر حوالہ دیا کرتا ہوں، وہ بھی اس حد تک کہ خود صاحبِ غزل بھی کبھی چیں بہ جبیں ہو جایا کرتے تھے (اب نہیں ہوتے)۔ جو شعر مجھے یاد ہیں پیش کر دیتا ہوں، تجزیہ خود کر لیجئے گا:
ادھر بھی لوگ آنے لگ گئے ہیں
کہ پتے کھڑکھڑانے لگ گئے ہیں

ہے دیکھو کیا غضب موسم نے ڈھایا
کہ ہم بھی گنگنانے لگ گئے ہیں

ترے دل میں ہوا ہے پیار پیدا
مگر اس میں زمانے لگ گئے ہیں

غمِ دنیا! ہٹا لے بوجھ اب تو
زمیں سے میرے شانے لگ گئے ہیں

میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ چھوٹی بحر میں بہت مضبوط شعر کہتا ہے، حالانکہ چھوٹی بحر میں شاعر کو لفظوں میں خاصی کفایت کرنی پڑتی ہے۔ عربی کاایک مشہور قول ہے: خَیْرُ الْکَلَامِ مَا قَلَّ وَ دَلَّ (تھوڑے لفظوں میں دلیل کے ساتھ کی گئی بات بہترین بات ہوتی ہے)۔ اس میں بھی آپ بڑا شعر کہہ سکتے ہیں۔ زیرِ نظر انتخاب تک محدود رہتے ہوئے، کچھ شعر پیش کرتا ہوں، کوئی ان کو بڑا شعر نہ بھی کہے تو خوبصورت ضرور کہے گا:
مجھ کو محوِ انا دیکھ کر
چل دیا کاروانِ جنوں

پھر بلانے لگا ہے مجھے
کوچۂ بے امانِ جنوں

داغِ سجدہ نہیں واعظو!
ہے جبیں پر نشانِ جنوں

یہاں فاضل شاعر کا ایک اور ہنر سامنے آتا ہے: ایک دم بات کو پلٹ کر نئے اور غیرمتوقع مفاہیم لے آنا۔ مجھے قوی امید ہے کہ کبھی یہ ہنر فاضل شاعر کے اسلوب کا خاصہ قرار پائے گا۔ شہزاد عادل کے اشعار نے فکری اور محسوساتی غذا گرد و پیش بکھرے معاشرے سے کشید کی ہے، وہ حالات کے زیر و بم کو الفاظ میں سمو دیتا ہے۔ وہ تعلقِ خاطر کے رومانی تصور سے باغی نہیں بلکہ اس کو ایک نئی معنویت عطا کر تا ہے۔وہ دورِ حاضر کی کلفتوں سے فرار بھی نہیں ڈھونڈتا۔ بلکہ وہ ایک عام آدمی کی سوچ کو زبان دے رہا ہے؛ ایسے عام آدمی کی سوچ کو جو عامیانہ پن سے مبرا ہے۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے: ’’A common man is not so common ‘‘ شہزاد عادل کا عام آدمی رنجیدہ بھی ہوتا ہے، کبیدہ خاطر بھی ہوتا ہے، کبھی اس پر مایوسی غلبہ پاتی ہے تو کبھی امید اور عزم اس کا سہارا بنتے ہیں؛ یعنی وہ نہ تو مکمل طور پر رجائیت کے طلسم میں قید ہے اور نہ مایوسی کی کال کوٹھڑی میں۔ وہ ایک متوازن شخص ہے اور اسی رعایت سے اس کے شعر اور اظہار میں بھی توازن ہے۔ ہم اس کو آسان زبان میں ’’سنبھلا ہوا کلام‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

اس کے موضوعات اور اندازِ اظہار ہماری اس توازن والی بات کو خاصی تقویت پہنچاتے ہیں۔ یہ دونوں عنصر اس کے ہاں ایسے گندھے ہوئے ملتے ہیں کہ ان کو الگ الگ دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے؛ یہ کیمیائی ترکیب اس کی شاعری میں جا بجا کارفرما ہے:
اب کے بھی زرد چہروں پہ مہکے نہیں گلاب
پھیکی ہے اب کی بار بھی رنگت بہار کی

یہ دیکھ کر کہ تجھے چین آ گیا شاید
تری گلی میں تجھے آج پھر پکار آئے

ہم ایسے لوگ طلب کے قمار خانے میں
حیات بیچ کے جو کچھ ملا سو ہار آئے

آنکھ سے زندگی کی دلیلِ کہن مل رہی ہے مگر
زرد چہروں سے محسوس ہوتا ہے محرومِ جاں لوگ ہیں

کل مصلحت کے بیج بوئے تھے مرے اجداد نے
اب کاٹنا ہیں مجھ کو عادل عمر بھر مجبوریاں

نسلِ آئندہ میں غیرت کی کمی لازم ہے
خوف بڑھتے ہوئے ارحام تک آ پہنچا ہے

ہم سے کچھ لوگوں کی خبر مل جاتی تھی
ملتا ہے اب اپنا پتہ کچھ لوگوں سے

ہر سنگ کو خون پلا کر ہم جب شہر سے نکلے تو یہ کھلا
صحرا کی تپتی ریت کو بھی اک آبلہ پا کی خواہش تھی

اس کا پانی پہ بھی اجارہ ہے
جس نے بھر دی ہے روٹیوں میں آگ

فقیر لوگ ہیں ساقی تجھے دعا دیں گے
ہماری سمت بھی ساغر کوئی اچھال کبھی 

چلو عادل یہاں سے کوچ کر جائیں کسی جانب
ہمارے شہر میں بونوں کی سرداری کا موسم ہے

ہمیں معلوم ہے اندر اتر جائے گا غم کتنا
مگر پھر بھی تمہاری یاد سے باہر نکلنا ہے

تعاقب کر رہی ہے موت میرا
مرے مد مقابل زندگی ہے

پھر اس کو ہم نے محافظ بنا لیا اپنا
وہ جس کا ہاتھ ہماری ہر اک شکست میں تھا

شعر کیسا، کہاں کی غزل
یہ تو ہے داستانِ جنوں

بنایا ہے مرے دل کی تپش سے اس نے سورج کو
تمہارے حسن کی لو سے مہِ کامل بنایا ہے

نتیجہ کوئی نکلتا نہیں ترے بارے
قیاسِ نکتہ وراں ساری رات چلتا ہے

اک نہ اک دن تو اسے شہر بدر ہونا تھا
وہ اصولوں کا تھا پابند، اسی لائق تھا

منقولہ بالا شعروں میں مضمون بندی، مضمون آفرینی اور تلازماتی نظام کے ساتھ ساتھ ہمیں استعاروں کا ایک مضبوط تانا بانا ملتا ہے۔ موضوعات اور اظہار کی رنگا رنگی کے باوجود شہزاد عادل کی غزل جیسے کسی نادیدہ ڈور میں پروئی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ ہنر اس کے قاری کو ایک دوستانہ فضا فراہم کرتا ہے اور وہ فکری طور پر ہی نہیں محسوساتی سطح پر بھی شاعر کے ساتھ بہ سہولت چل سکتا ہے۔ یہ کامیاب شاعری کی ایک علامت ہے۔

شہزاد عادل ملمع کاری نہیں کرتا۔ ابہام کی اسے ضرورت ہی نہیں ہے؛ نہ تخلیقی سطح پر، نہ اسلوبی سطح پر۔ وہ قاری کو امتحان میں نہیں ڈالتا ، حاصل یہ ہے کہ اس کا بیانیہ سادہ ہونے کے باوجود اپنے اندر پُرکاری رکھتا ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
ہر گھڑی ہم نئے حادثوں کے تعاقب میں رہنے لگے
دیکھنا، پھر کوئی حادثہ ہو گیا ہے جہاں لوگ ہیں

ہے کاروانِ دل رہِ دشتِ الم پر گامزن
ایسا نہ ہو کیسے کہ جب ہیں راہ بر مجبوریاں

مے خانے سے گھر جانا بھی مشکل ہے
چھپتی نہیں ہے لغزشِ پا کچھ لوگوں سے

تیرا دل نرم کیوں نہیں پڑتا
جب کہ ہوتی ہے پتھروں میں آگ

اسے کرنی پڑی جذبات کی شیرازہ بندی
حضورِ حسن میں دل بے زباں یوں ہی نہیں تھا

دلوں کی آگ باہر آ گئی تھی رفتہ رفتہ
ہمارا شہر عادل بے اماں یوں ہی نہیں تھا

شہزاد عادل کے اشعار میں ہمیں حسنِ تعلیل اور ذو معنویت کا حسین امتزاج بھی ملتا ہے۔ سادگی اور پرکاری، استعاراتی نظام، صنعت گری، حسنِ تعلیل اور ذومعنویت سے مل کر ایک ایسی جمالیاتی فضا بناتے ہیں کہ اس کے مضامین اور لفظیات ایک خوش ذوق قاری کی حسِ جمال سے بھی ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ کچھ اور مثالیں دیکھئے:
شہر کی ساری دیواروں پر لکھا ہے
عادل تو جو کہتا رہا کچھ لوگوں سے

یقین دل سے جسے ہو خدا کے ہونے کا
غمِ حیات سے ہوتا نہیں نڈھال کبھی

زیرِ نظر غزلوں کی زبان و بیان میں کوئی بہت قابلِ ذکر فروگزاشت نہیں، کتابت کی ایک آدھ غلطی البتہ رہ گئی ہے۔ میں فاضل شاعر کو یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ ملائمت اور نرمی کے میلان کو بڑھائیں، ان کی غزل مزید نکھرے گی۔

غزل کے بارے میں وہ جو کہا جاتا رہا ہے کہ عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی سی باتیں کرنا، یا اس کو گل و بلبل اور لب و عارض سے ، یا ہجر و فراق اور وصالِ یار، حسن و عشق، داد بے داد وغیرہ سے خاص کر دینا؛ وہ باتیں پرانی ہو چکیں۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ غزل نے زندگی کے جملہ موضوعات کو اپنے اندر سمویا ہے اور ایسی خوبی سے سمویا ہے کہ متعدد دیگر اصناف سے خاصی آگے نکل گئی ہے۔ 
دکھ، رنج، خوشیاں، محبتیں، حسرتیں، شکوے، خوف، رجا، بیم اور دیگر مد وجذر کا تعلق جیسا انسان کے داخل سے ہے، ویسا ہی انسان کے خارج سے بھی ہے۔ شہزاد عادل کے ہاں تعلقِ خاطر موجود ہے مگر اس میں رومانی پہلو بہت زوردار نہیں۔ وہ لب و عارض کی بات بھی کرتا ہے، وصال و ہجر کی بھی مگر بنیادی تبدیلی اس میں یہ آئی کہ تعلق کی نوعیت رومان سے آگے بڑھ کر معاشرے، برادری، دوستی، اور اکرامِ باہمی کو احاطہ کرنے لگی۔ وہ روایتی محبوب کے نازو ادا کی بات بھی کرتا ہے تاہم اس کا شاکی رہنے کی بجائے دوست، بھائی، راہنما، چارہ گر، شہریار وغیرہ سے مکالمہ کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ 
ہم سخن، ہم نفس، ہم سفر، ہم نظر، ہم زباں لوگ ہیں
نفسا نفسی کے اس دور میں بھی کئی مہرباں لوگ ہیں

اب تو کچھ بول صفائی میں مری جانِ غزل
شائبہ وصل کا الزام تک آ پہنچا ہے

جو موتی آنکھ سے ٹپکے تھے دامن کی تمنا تھی ان کو
جو دل پہ لگے ان زخموں کو مرہم کی، دوا کی خواہش تھی

کچھ لوگوں کی ساری باتیں بھول گئیں
دل پر نقش ہے جو بھی کہا کچھ لوگوں نے

صفوں میں حد نگاہ تک مقتدی کھڑے ہیں
مگر ابھی تک امام ہے بے وضو ہمارا

یہ کیسے خوف کا سایہ ہے جو آیا ہے جنگل سے
بھری بستی کو جس نے اس قدر بزدل بنایا ہے

معاشرتی روایات اور اقدار شہزاد عادل کو بھی عزیز ہیں، وہ افکار میں بھی اور اظہار میں بھی روایت کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ تاہم وہ روایات کا اندھا پچاری نہیں ہے۔معاشی ناہمواری پر بہت کچھ کہا گیا ہے، شہزاد عادل نے تفاوت کے کچھ دوسرے زاویوں کو اجاگر کیا ہے۔ اس کے نزدیک فکری ناہمواری زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ کردار فکر سے تشکیل پاتا ہے اور اس کے اثرات پوری معاشرتی اقدا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
اسی گلی میں فقیہانِ شہر بستے ہیں
جہاں پہ ذکرِ بتاں ساری رات چلتا ہے

خبطِ عظمت نے زمین بوس کیا تھا جس کو
تھا وہ خود اپنا خداوند، اسی لائق تھا

گناہ کرتا ہوں یہ جانتے ہوئے عادل
کہ میری فردِ عمل سے وہ دیکھتا ہے مجھے

مری میت بھی گھر کے صحن میں رکھی ہوئی تھی
مرے گھر پر ہجومِ دوستاں یوں ہی نہیں تھا

یہاں تک کہ وہ، جہاں محسوس کرتا ہے، براہِ راست ناصحانہ انداز اپنانے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ اس کی یہ پوری غزل ملاحظہ ہو:
حصارِ جبر و استبداد سے باہر نکلنا ہے
ہمیں ہر حال میں افتاد سے باہر نکلنا ہے

شہزاد عادل کے متعدد اشعار اس کی ایک اور صلاحیت کے نمائندہ ہیں۔ بہ ظاہر وہ داخل کی بات کر رہا ہوتا ہے اور مطالب میں خارج جھلکتا ہے یا اس کے الٹ، یا پھرایک ہی شعر اپنے اندر دونوں رُخ رکھتا ہے۔
وہ شخص تو مدت سے ہے خوش کن خبر کا منتظر
کیسے اسے میں لکھ کے بھیجوں نامہ بر مجبوریاں

شوق سے تو قریب آ میرے
سوچ لے! ہے مرے لبوں میں آگ

پلٹ کے آیا ہوں اپنی طرف تو یاد آیا
جو ارتعاش مرے دل کی بازگشت میں تھا

دبا دی ہے کہیں ہم نے بھی پورے چاند کی خواہش
گھروندا ریت کا جب سے سرِ ساحل بنایا ہے

شہزاد عادل نے گزشتہ دو برسوں میں بہت غزلیں کہی ہیں، ہم نے سنیں بھی، ان پر گفتگو بھی کی۔ دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ شعر کہنے کے لئے ادبی نشستوں سے زیادہ اپنے روزمرہ گردو پیش سے تحریک پاتا ہے۔ اُس کی شاعری اس امر کی گواہ ہے کہ وہ اپنی مجبوریوں سے ہنر کشید کرنے کا فن جانتا ہے۔ 
وہ دن گئے جب لمحہ لمحہ کمتری کا خوف تھا
اب شہرِ فنکاراں میں ہیں اپنا ہنر مجبوریاں

شہزاد عادل کی ان صلاحیتوں اور معیار کو سامنے رکھتے ہوئے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں، کہ وہ اپنی غیر متردد غزلوں کا ایک معتبر مجموعہ آج بھی لا سکتا ہے۔ ’’اچھا لکھتے ہو، یار‘‘ ، شہزاد عادل!

******
محمد یعقوب آسیؔ سوموار ۱۲۔ اکتوبر۔ ۲۰۱۵ء 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں