ہفتہ، 27 اگست، 2016

کمہار بیتی





کمہار بیتی

’’آہا! تو استاد چٹکی بھی رونق افروز ہیں!‘‘ لالہ مصری خان نے ہماری نشست گاہ میں داخل ہوتے ہی نعرہ بلند کیا۔ ’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، مگر تمہارے لئے نہیں!‘‘ اب کے اُن کا روئے سخن ہماری طرف تھا۔ہماری کیفیت اگر بری نہیں تھی تو کچھ ایسی اچھی بھی نہ تھی۔ لالہ اپنی بات کہہ کر صوفے پر ڈھیر ہو چکے تھے۔ ہم نے نگاہوں میں ڈھیر سارے سوالیہ نشان بھر کر اُن کے رُخِ وَردَہ کا جائزہ لیا۔ لگا کہ مزاجِ گرامی سے الف حسبِ معمول غائب ہے اور گرمی باقی ہے۔ ہم انہیں مخاطب کرنے بلکہ ان کے بے رحم تبصرے کا جواب دینے کے لئے الفاظ جمع کر رہے تھے کہ استاد بول پڑے: ’’ہوا کیا ہے مصری خان؟ کیوں لال بھبوکا ہو رہے ہو؟‘‘ استاد کا لہجہ اور الفاظ کی چبھن دونوں ہم آہنگ ہو گئے تھے۔

ہم عتابِ مزید سے بچ جانے کی مسرت بھی پوری طرح حاصل نہیں کر پائے تھے کہ لالہ مصری خان کی دھاڑ سنائی دی: ’’پتہ نہیں آج کل بے وزنے مصحفی اتنے وافر کیوں ہیں! وہ پڑھنے کی چیز تھی ہی نہیں اور جنابِ غالبِ دوراں فرما رہے ہیں کہ یہ غزل ہے‘‘۔ ہماری کچھ ہمت بندھی کہ وقتی طور پر ہم محفوظ ہیں۔ عرض کیا: ’’ہم کیا عرض کریں لالہ؟ ہمیں کیا معلوم کہ آپ کیا پڑھ بیٹھے ہیں‘‘۔ کہنا تو ہم یہ بھی چاہ رہے تھے کہ آپ کا پڑھنے سے تعلق کب سے قائم ہو گیا؛ مگر ہمیں یہ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ لالہ گرجے: ’’دم لو، دم لو! بتاتا ہوں‘‘ اور پھر لالہ نے جو واردات سنائی اور جن الفاظ میں سنائی ان کو ضبطِ تحریر میں لانا اپنے بس میں نہیں، خلاصہ پیش کئے دیتے ہیں۔

ہوا غالباً یہ تھا کہ کسی نو آموز نے اپنی کوئی چیز لالہ مصری خان کو ٹیگ کر دی اور عنوان دیا: ’’میری تازہ غزل‘‘۔ خان لالہ پہلے تو اُس کی بحر کی تلاش میں بحرِ منجمد شمالی سے جنوبی تک کی برف توڑتے رہے، مگر بحر ناپید! پھر وہ قوافی کی طرف متوجہ ہوئے، وہاں بھی مایوسی ہوئی تو مضامین میں جھانکا؛ ادھر بھی انہیں ویرانہ ملا بلکہ ان کے الفاظ میں ’’ایسے بارہ سالہ لڑکے کا عشق، جو عہدِ شیراز میں ہوتا  تو خود معشوق کے رتبے پر فائز ہوتا‘‘۔

لالہ کہہ رہے تھے: ’’ہوا ہی کچھ ایسی چل پڑی ہے۔ جس شعبے میں جو بھی نیا آتا ہے خود کو تیس نہیں ساٹھ مار خان سمجھتا ہے۔ اور اردو غزل؟ اس بے چاری کی تو وہ بے حرمتی ہوتی ہے کہ .... (لالہ کے ناقابلِ اشاعت فرمودات محذوف) .... وہ جسے نہ زبان و بیان کا پتہ ہوتا ہے نہ علامت کا نہ رعایت کا نہ بحور و قوافی کا وہ اپنے دودھ کے دانت اس بے چاری صنف پر تیز کرتا ہے۔ جب اسے یہ زَعم ہو جائے کہ  غزل میں ولی سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں، تو دیگر اصناف شعر کو کچھ ایسے تختۂ مشق بناتا ہے کہ اُن کی مُشکیں کس کے رکھ دیتا ہے۔ جب بڈھا ہونے کو آتا ہے، مضامین اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، قوت متخیلہ بانجھ ہو جاتی ہے، الفاظ پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے تو اسے اپنے عہدِ معشوقی کی محبوبہ غزل پھر یاد آ جاتی ہے۔ ستر بہتر کا ہو کر یہ فیصلہ صادر کر دیتا ہے کہ غزل کا دور نہیں رہا، اور نثر لکھ کر اُسے نظم تسلیم کروانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے‘‘۔

استاد چٹکی لالہ کی ہر بات پر یوں سر ہلاتے جاتے تھے کہ ہمیں ان کی گردن میں مہروں کا ہونا بھی مشکوک سا لگا۔ تاہم انہوں نے ہم پر نہایت مہربانی فرماتے ہوئے ہمیں زحمتِ سوال سے بچا لیا۔ کہنے لگے: ’’تو، اس میں بدرے کا کیا قصور؟ تم نے کیوں کہا کہ تمہارے لئے اچھی نہیں؟‘‘ لالہ مصری خان نے بلند بانگ قہقہہ لگایا، اور خاموش ہو گئے۔ ہم سے نہ رہا گیا: ’’استاد نے کچھ پوچھا ہے خان لالہ!‘‘ جواب ملا: ’’تم بھی خود کو غزل کا شاعر مانتے ہو۔ مانتے ہو نا؟‘‘ بڑا عجیب سوال تھا، ہم کیا عرض کرتے!۔

اللہ بھلا کرے استاد چٹکی کا، انہوں نے اگرچہ ہمیں  خَرکار قرار دے دیا تھا  تاہم اُن کا انداز اتنا ادبی  تھا کہ خان لالہ پھر سے قہقہہ لگا اٹھے۔ وہ الگ بات کہ  اس  قہقہہ ثانی کا اختتام کچھ کھینچو کھینچو جیسا تھا۔ استاد نے کہا تھا: ’’ڈِگا کھوتے توں، تے وَٹ کمہیار تے‘‘۔

*****
بدرِ احمر ۔۔۔ جمعہ 26؍ اگست 2016ء