پیر، 17 اپریل، 2017

جُمّا جنج نال




جُمّا جنج نال

نہیں سمجھے؟ حالانکہ یہ ایسی مشکل بات بھی نہیں! ’’پرائی شادی میں عبدل‘‘ کا تو پتہ ہے نا، یہ وہی ہے۔ پر، ایک ذرا فرق کے ساتھ کہ یہاں مذکور عبدل یا جُمّے کی بجائے ہمارے اپنے لاڈلے بسمل بزمی المعروف استاد چُٹکی ہیں۔ ان کی بپتا انہی کی زبانی سنتے تو اچھا تھا کہ ہم تو ٹھہرے زبانِ غیر، سو ہم سے شرحِ آرزو کیا ہو گی! تاہم جو کچھ ہمارے پلے پڑا، وہ عرض کئے دیتے ہیں۔

حضرت ایک بزم میں جا گھسے جہاں کچھ لوگ ’’ادبی‘‘ گفتگو کر رہے تھے۔ عظیم حلقی نام کے ایک شاعر کی غزل نما چیز واہ واہ سبحان اللہ کی موجوں پر اچھل رہی تھی۔ ایک علامہ صاحب فرما رہے تھے کہ عظیم حلقی نے اردو اور فارسی کو ’’ذم‘‘ کر کے ایک نایاب فن پارہ تخلیق کیا ہے۔ 

ہم اس ’’ذم‘‘ کی املاء تک کیوں کر پہنچ گئے؟ وہ یوں کہ استاد چٹکی سدا کے نچلے، اپنی سیمابی عادت کے ہاتھوں مجبور، پوچھ بیٹھے کہ اس کی املاء کیا ہے۔ علامہ صاحب اپنی جگہ سے اٹھے اور تختہء سپید پر سرخ مارکر سے لفظ ’’ذم‘‘ لکھ دیا۔ فی زمانہ تختہ بھی سفید ہو چکا ہے؛ سنتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی سرخ نہیں بلکہ سیاہ ہوا کرتا تھا۔ لہو بھی تو یہی کرتا ہے۔ جب تک زندہ رگوں میں رواں رہتا ہے، سرخ رہتا ہے اور جب جم جائے یا بہہ نکلے تو سیاہ ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔ سفید تو آج کل رگوں میں رہتے ہوئے بھی ہو جاتا ہے۔ زمانے والوں کا شکوہ کوئی کیا کرے گا، بھلا۔

حضرت کو وہاں صرف ایک خاتون دکھائی دیں۔ اُن کے پیچھے جا بیٹھے، ہولے سے کچھ کہا اور ایک شذرہ لکھ کراُن کو تھما دیا، لکھا تھا:’’ ان صاحب کو ذم اور ضم کے معانی سمجھا دیجئے گا‘‘۔ ان محترمہ نے خاصے ڈرے ہوئے لہجے میں علامہ صاحب سے عرض کیا:’’ دیکھ لیجئے گا، شاید لکھنے میں انگلیاں بھٹک گئی ہوں، ویسے آپ غلط کہہ نہیں سکتے‘‘۔ استاد کو یقین کی حد تک شک ہے کہ خود محترمہ بھی اس فرق کو اہمیت نہیں دیتیں، کہ کیا ہے، ایک املاء کی بات ہی تو ہے۔

برا ہو حضرت کی تُوتری کا کہ بولنے سے پھر نہیں رہے۔ عظیم حلقی صاحب کو مشورہ مفت عنایت کر ڈالا کہ فرصت ہو تو امیر خسرو کو پڑھ لیں۔ بس جناب، پھر کیا تھا! حلقی صاحب پورا حلق پھاڑ کر گویا ہوئے: ’’پڑھ لیں گے، جب ضرورت ہو گی‘‘۔ استاد پھر بھی باز نہیں آئے، امیر خسرو کی ’’بتیاں‘‘ پڑھ کر سنا دی۔ تاہم خیر گزری کہ فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے نہیں تو عظیم حلقی صاحب کے عظیم حلق میں کچا ہی اتر گئے ہوتے۔ کہہ رہے تھے کہ: ’’ اول تو اس بزم میں جاؤں گا ہی نہیں اور گیا بھی تو منہ پر پٹی باندھ کر بیٹھوں گا‘‘۔

ہم نے عرض کیا: ’’حضرت آپ کو منہ کی پٹی کے علاوہ ہاتھوں کے لئے رسی کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے کہ آپ ٹھہرے بلند بانگ! بندھے منہ کو کھلے ہاتھوں سے کھول لینا کیا مشکل ہے! بہتر ہے کہ ان کو سلوا لیجئے، سرجری ہم کئے دیتے ہیں‘‘۔ حضرت کی نظریں آدم خور ہو رہی تھیں، تاہم حیرت کا مقام تھا کہ بولے کچھ نہیں۔ ہم نے اپنی جسارت جاری رکھی، اور عرض کیا: ’’ویسے آپ یہ تو فرمائیے کہ آپ وہاں گئے کس حیثیت میں تھے؟‘‘ ۔ زخم خوردہ لہجے میں بولے: ’’جُمّا جنج نال‘‘۔ اُن کی آنکھوں میں نمی اترتی دیکھ کر ہمیں احساس ہوا کہ یہ سوال ہی بہت تلخ تھا۔ اُن کی توتری نہیں رکتی تو اپنی کہاں رکتی ہے۔ بات تو ایک ہی ہے!۔ 


٭٭٭٭٭

۔۔۔۔ بدرِ احمر ... سوموار ۱۷؍ اپریل ۲۰۱۷ء

جمعرات، 13 اپریل، 2017

الماس شبی ۔۔ ایک بے چین روح


الماس شبی ۔۔ ایک بے چین روح



الماس شبی سے میرا تعارف پنج ریڈیو کے حوالے سے ہوا۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ الماس نے مجھے پنج ریڈیو پر متعارف کرایا؛ یہ 2015 کے نصفِ آخر کی بات ہے۔ اول اول تو شعر سننے سنانے کی بات چلی۔ پھر انہوں نے مجھے ریڈیو ڈراما لکھنے پر لگا دیا۔ کہنے لگیں: کوئی ڈراما لکھئے ہم ریڈیو پر چلاتے ہیں۔
میرے پاس بہت پہلے کی لکھی ہوئی ایک طبع زاد کہانی ہے: "بارش کب ہو گی" میں نے اسی کو ڈرامے کے مسودے میں ڈھالا اور پیش کر دیا؛ یہ اکتوبر 2015 کے اوائل کی بات ہے۔ اسکائپ پر مل بیٹھ کر ریکارڈنگ ہوئی، اور پھر ایک دن ڈراما نشر بھی ہو گیا۔ میرا یہ پہلا ریڈیو ڈراما ہے۔ لطف کی بات یہ ہوئی کہ مجھے اس میں صداکاری بھی کرنی پڑی۔ ڈرامے میں تین کردار مرکزی حیثیت رکھتے ہیں:شمو، اس کی اماں (جنتے) اور اس کا ابا (چاچا رفیق)۔ شمو کا کردار الماس نے خود کیا، جنتے کا لیلیٰ رانا نے اور چاچا رفیق کا کردار میرے حصے میں آیا۔ اس ڈرامے کو تحریر، ڈرامائی تشکیل اور صدابندی؛ تینوں لحاظ سے ایک کامیاب ڈراما کہا جا سکتا ہے۔ بس پھر کیا تھا! اور لکھیں، اور لکھیں، اور لکھیں۔ ڈراما "صاعقہ" (مرکزی کردار: رعنا حسین)، اور "ماں اور ماں" (یعقوب آسی اور شہناز شازی) میں نے لکھے ہی پنج ریڈیو کے لئے، وہ تیار ہوئے، نشر ہوئے۔ ان تینوں میں مجھے صداکاری کا موقع ملا۔ ایک اور ڈراما "مہالکھاری" ان دنوں ریکارڈنگ کے مرحلے میں ہے۔ یہاں الماس شبی کا کردار ڈرامے میں بھی حقیقی ہے یعنی پنج ریڈیو والی الماس۔ میرے حصے میں "بسمل بزمی" کا کردار آیا ہے جسے میں لہجے کے اعتبار سے بھی مختلف انداز دینے کی کوشش کی ہے۔ نشر ہوتا ہے تو سنئے گا۔
بات الماس شبی کی ہو رہی تھی۔ میری ایک غزل کا مطلع ہے:
بڑی باریک نظر رکھتے ہیں اچھے پاگل
پاگلو! بات کی تہہ کو نہیں پہنچے؟ پاگل
یوں کہئے کہ الماس کا شمار بھی اچھے پاگلوں میں ہوتا ہے۔ پنج ریڈیو کے لئے اس خاتون نے کیا کچھ نہیں کیا! فن کے تقریباً تمام شعبوں میں جہاں لفظ کا اور اسے بنانے سنوارنے پڑھنے گانے اور موسیقی سے ہم آہنگ کرنے کا تعلق ہے وہاں الماس کا وہی حساب ہے کہ: "اپنی سی کرو، بنے جہاں تک"۔ یہ اپنا کام کر رہی ہیں اور بہت عمدگی سے کر رہی ہیں۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے معروف اور ممکنہ فن کاروں کو ڈھونڈ لاتی ہیں اور بیچ چوراہے کے لا کھڑا کرتی ہیں کہ صاحب! اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیجئے اور آگے بڑھئے۔ یہ یقیناً سنتِ قیس کو زندہ رکھنے اور لیلائے فن کو اجالنے کا کام ہے، کٹھن تو ہو گا۔ ایک بزرگ کہہ رہے تھے کہ ریڈیو ڈراما ایک رو بہ زوال فن تھا، اور الماس کا اس خارزار میں کودنا پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے! ہمیں ایسے پاگلوں کی قدر کرنی چاہئے!
الماس کا کام کرنے کا طریقہ موجودہ تناظر میں کچھ لوگوں کو بڑا عجیب لگے گا۔ سب سے پہلے تو مجھے باضابطہ طور پر یہ تسلیم کرنا ہے کہ صلاحیتیں تو الماس میں ہیں! اور بہت ہیں! لگن شاید اس سے بھی زیادہ ہے۔ کام کرنے کا طریقہ! ایک بات کسی دوست نے سجھا دی، یا خود ہی ذہن میں آ گئی تو بس! جیسے بھی ہو، کر گزرو اور جتنی جلدی ہو اتنا ہی اچھا ہے! اور لطف کی بات ہے کہ وہ سب کچھ الماس کی جلد بازی کے باوجود ہو بھی جاتا ہے۔ ریڈیو کا سیشن چل رہا ہو تو الماس کی کیفیت دیکھنے والی ہوتی ہے۔ اور ہم اس کو اپنے "کانوں سے دیکھتے ہیں"۔ میسنجر چل رہا ہے، اسکائپ چل رہا ہے، فون ہو رہے ہیں، اور ان سب کے ساتھ ساتھ ریڈیو بھی چل رہا ہے۔ ان کی جلدبازی کی ایک حالیہ مثال دیکھئے کہ ڈراما ریکارڈ ہو رہا ہے بلکہ مشق ہو رہی ہے "ماں اور ماں" کی۔ ان میڈم نے (آپ چاہیں تو دوسرا میم اتار دیں) براہِ راست نشر پر لگا دیا۔ صدا کار: میں اور شہناز شازی۔ ادھر شہناز کی صلاحیتوں کی بھی داد دینی پڑے گی کہ صدا کاری کا پہلا ہی تجربہ پہلے رن میں کامیاب قرار پایا۔ ع: دل! نہ کر جلدی کہ جلدی کام ہے "الماس" کا۔
آن لائن "فوری مشاعرے" کی طرح بھی الماس ہی نے تو ڈالی ہے! چار پانچ شاعر جمع ہو گئے، مشاعرہ شروع! ع: لوگ ساتھ آتے گئے اور "بزم گرماتے گئے"۔ پروگراموں کی اس رنگا رنگی میں صاف طور پر نظر آتا ہے کہ چلئے ٹیم ورک ہی سہی مگر اس کے پیچھے ایک بے چین روح سرگرمِ عمل ہے۔
سچی بات ہے مجھے تو ڈر لگا ہے کہ یہ محترمہ اپنی عادت کے مطابق کہیں مرنے میں بھی جلدبازی سے کام نہ لے بیٹھیں۔ الماس نے بہت کام کیا ہے اور بہت سارے کاموں کی بنا ڈال دی ہے۔ ان میں سے مکمل ہونے والا کوئی بھی نہیں، کہ یہ سب تو جاری رہنے والے کام ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ جہاں اس نے الماس شبی کو ایسی نادر صلاحیتوں اور لگن سے نوازا ہے، وہی اس کے عزم و ہمت اور ذوق و شوق میں بھی برکات سے نوازے اور ہم تو خیر چند روز کے مہمان ہیں، ہمارے بعد والے بھی الماس کی ان محنتوں کے ثمر سے بہرہ ور ہو سکیں۔

محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان

منگل 4 ۔ اپریل 2017ء



پیر، 3 اپریل، 2017

بڑی بوا ۔۔ ریڈیو ڈراما ۔






ریڈیو ڈراما

بڑی بوا
ایک سدابہار کردار، جو ہر جگہ موجود ہوتا ہے
مرکزی خیال: جہیز کا مسئلہ



۔(ا)۔
کریمن کا گھر
کردار: بڑی بوا، کریمن

بڑی بوا: (گھر میں داخل ہوتے ہوئے) کوئی ہے؟ کریمن! عبدل بھیا! بھئی کوئی ہے؟
کریمن: (پکارتے ہوئے) میں یہاں ہوں، بڑی بوا! رسوئی میں۔ یہیں آجائیے۔
بڑی بوا: لو بھئی، ہم آ گئے!
کریمن : آئیے بوا، یہاں بیٹھئے ۔ کیسی ہیں آپ؟ کیسے آنا ہوا؟ چائے پئیں گی؟
بڑی بوا: ائے بوا، کیا پوچھتی ہو! کیا زمانہ آ گیا ہے! تم نے سنا کچھ؟
کریمن : کیا ... کیا ہوا؟ کس کی بات کر رہی ہیں آپ۔
بڑی بوا:ارے، وہ مریم ہے نا! اس کا دماغ تو مانو، آسمان پر ٹکا ہے۔ لو، بتاؤ! اچھا بھلا رشتہ تھا۔ اماں نے انکار کر دیا، لو یہ کیا بات ہوئی بھلا؟
کریمن : کوئی بات تو رہی ہو گی بوا۔ بیٹیوں کے گھر بستے کسے برے لگتے ہیں۔ آپ جانتی ہیں لڑکے والوں کو؟
بڑی بوا: اے لو! کوئی غیر تھوڑی ہیں! کیا بھلا سا نام ہے اس کا؟ 
کریمن: رانی نام ہے اس کا، ایک دوجے کے ہوتے سوتے ہیں۔ ہم تو نہیں جان سکتے نا! برادری کی اپنی باتیں ہوتی ہیں۔
بڑی بوا: ارے جانے دو بوا! برادری کی باتیں تو جو ہوں گی سو ہوں گی؛ مریم نگوڑی نے تو سیدھے سبھاؤکہہ دیا کہ جہیز نہیں دوں گی۔ یہ کیا بات ہوئی؟ سب دیتے ہیں جہیز! میری اماں نے ٹرک بھر کے بھیجا تھا، پتہ ہے نا تمہیں۔
کریمن: آپ کی اماں جو ہوئیں! .... وہ لڑکا کیا کرتا ہے بوا؟
بڑی بوا: سنا ہے کباڑیا ہے۔ ایک بڑی سی کار پہ گھوما کرتا ہے۔ گھر بھی تو بھرا ہوا ہے ان کا لڑکیوں سے! سب سے بڑا ہے، چار چھوٹی بہنیں ہیں اس کی۔ 
کریمن: تو ... وہ بھی تو جہیز دیں گے لڑکیوں کو؟ چار    چار لڑکیوں کو جہیز دیں گے؟ کتنا دیں گے؟ جتنا بھی پیسہ ہو، گھر کباڑ خانہ بن جاتا ہے۔
بڑی بوا: ائے ہئے! کیسی باتیں کرتی ہو کریمن! اب جنی جو ہیں تو بیاہنا بھی ہے اور بیٹیوں کو خالی ہاتھ بھی تو نہیں بھیجا جاتا۔ اے! دنیا کیا کہے گی۔ سارے دیتے ہیں جہیز، اس میں دوجی بات ہی کیا ہے؟ لڑکے کے ابا کی تو زمین بھی ہے، کسی گاؤں میں۔ یہ کوئی چار ٹھیکریاں دے دیں تو ....
کریمن: لیجئے بوا چائے پیجئے۔ اور ... وہ، مریم کا میاں؟ اس کی تو دکان ہے کریانے کی۔ ہے نا؟
بڑی بوا: ہاں نا، دکان بیچ کے بیٹی کو بیاہ دے، کیا ہے! دکان بھلا بیٹی سے عزیز ہے؟
کریمن: ایک بات کہوں بوا؟ مریم نے بالکل ٹھیک کیا ہے، جو جہیز نہ دینے کا کہہ دیا۔
بڑی بوا: اے لو! باؤلی ہو رہی ہو کیا؟ کل تم بیٹیوں کو بیاہو گی تو نہیں دو گی کیا۔
کریمن: بیٹیوں سے بڑھ کے کوئی نہیں، پر بوا! دیکھ لینا، جہیز کے نام پر ایک چمچ بھی نہیں دوں گی! ہاں۔ میں مر گئی تو لڑکیوں کا بابا جانے۔
بڑی بوا: ائے ہئے ہئے۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ وہ موا منشی بھی ایسی ہی الٹی سیدھی باتیں کیا کرتا ہے۔
کریمن: یہی تو بات ہے بڑی بوا۔ گھر اور گھر کا سامان وہ بنائے نا جو بیوی لا رہا ہے۔ باپ کو کیا چَٹی پڑی ہے؟ کہ بیٹی تو دے، اگلوں کا گھر بھی بھرے۔
بڑی بوا: اے لو، تم نے بھی ایک ہی کہی! لگتا ہے مریم کو انکار کا مشورہ بھی تم نے دیا ہے۔
کریمن: مشورہ میں نے نہیں دیا، بوا! ... پر، وہ مشورہ کرتیں تو میں یہی مشورہ دیتی۔ 

۔(۲)۔
ریکارڈ ہو گیا
مریم کا گھر
کردار: مریم، قمر میاں (مریم کے شوہر)

قمر میاں: کچھ سنا تم نے؟
مریم: ہاں، سنا۔ یہی کہ انہوں نے رشتہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔
قمر میاں: صاف انکار تو نہیں کیا انہوں نے، کر دیں تو پتہ بھی نہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟
مریم: کوئی بات نہیں! میرا اللہ ہے نا، وہ مجھے اور میری بیٹی کو رسوا نہیں ہونے دے گا۔ ان لوگوں کو کپڑا لتا، میزیں کرسیاں، چمچ اور پیالیاں چاہئیں۔ بازار سے لے لیں۔
قمر میاں: کچھ کر کرا دو یار! ہماری ایک ہی تو بیٹی ہے۔ دکان بیچ دیتا ہوں، بیٹے کما رہے ہیں گھر چلتا رہے گا۔
مریم: یہ آپ صلح جوئی کی بات کر رہے ہیں یا مجبوری کی؟
قمر میاں: دونوں ہی باتیں ہیں۔ وہ لوگ ایک غلط بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ لڑکے کا کیا ہے دو چار کیا، پانچ دس سال بھی اور گزر جائیں تو کیا ہے۔ ادھر لوگ باتیں بناتے پھر رہے ہیں، کل اور باتیں بنیں گی کہ رشتہ ٹوٹ گیا، یہ رہا ہوگا، وہ رہا ہو گا۔
مریم: یہ بھی تو کہیں نا، کہ ہماری تو بیٹی ہے،بالوں میں سفیدی جھلنے لگی تو مشکل ہو جائے گا۔
قمر میاں: بات تو یہ بھی بے جا نہیں۔
مریم: ایک بات بتائیے مجھے۔ آپ بیٹی کو جہیز کتنے کا دے سکتے ہیں؟
قمر میاں: یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ چار پانچ لاکھ؛ یہ کوئی کم تو نہیں ہے! اس سے زیادہ نہیں دے سکتا۔
مریم: اور بیٹی کو پانچ لاکھ دینے کے بعد آپ کے پاس کیا بچے گا؟
قمر میاں: پہیلیاں بوجھوا رہی ہو مریم، کھل کر بات کرو۔
مریم: پانچ کا تو جہیز ہوا، مہمانوں کو کھانا بھی تو کھلانا ہے اور سارے خرچے ملا کر نہ نہ کرتے بھی اتنا ہی اور چاہئے۔ دکان تو، جان لیجئے کہ، گئی جہیز میں، اور باقی؟ 
قمر میاں: قرض لے لیں گے کہیں سے!
مریم: آپ کی صرف ایک بیٹی ہے؟ اور کوئی نہیں؟
قمر میاں: تین بیٹے ہیں! کیوں نہیں ہیں؟ تمہارا سوال بہت عجیب ہے۔
مریم: تینوں بیٹوں کے لئے بھی دس دس لاکھ بینک میں رکھوا دیں۔ یہ تو ان کا وراثت میں حصہ بنتا ہے۔ آپ کا تو سارا مکان بھی اتنے کا نہیں۔دوسرے کا گھر بھرنے کے لئے بیٹوں کا حق ماریں گے آپ؟ اور وہ سامان؟ وہ گل سڑ جائے گا، ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ 
قمر میاں: نہیں تو ... مگر ... وہ ... شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو ... مگر ...۔
مریم: میں تو اس ظلم میں شریک نہیں ہوتی، آپ کر لیجئے۔ بھیج دیجئے پیغام ان کو، کہ جہیز کے سامان کی فہرست دے دیں۔ 
قمر میاں: سچی؟ کہہ دوں؟
مریم: کہہ دیجئے۔ اوریہ بھی کہہ دیجئے گا کہ انہیں سامان چاہئے لے جائیں،میں ان کے ساتھ بیٹی کو نہیں بھیجنے کی۔
قمر میاں: (دھاڑتے ہوئے) مریم! تمہیں پتہ ہے تم کیا کہہ رہی ہو؟ باتیں کرنا آسان ہے بیٹیوں کو گھر میں بٹھانا آسان نہیں ہے۔ تم عورت ہو کر اپنی بیٹی کی زندگی ویران کرنے پر تلی ہوئی ہو۔ تمہاری بات اصولی طور پر ٹھیک بھی ہے تو یہ دنیا ہے مریم!

۔(۳)۔
رانی کا گھر
صداکار: رانی، کریمن، بڑی بوا

بڑی بوا: اے میں کہتی ہوں، بیٹی کو سامان بھی نہیں دے سکتے بھلا؟ مار دیتے گلا گھونٹ کے، جب پیدا ہوئی تھی! اے بوا، بیٹی توآپ بھی پرایا دھن ہوتی ہے۔ یہ کوئی انہونی بات ہے کیا؟
رانی: میرے بیٹے کو رشتوں کی کمی ہے کیا؟ خیر سے کماتا ہے، خوبرو ہے، اکلوتا ہے، ایک سے ایک بڑھ کے لڑکی پڑی ہے۔ رکھ لیں اپنا سامان بھی اور بیٹی بھی۔ مکھی چوس کہیں کے!
بڑی بوا: ٹھیک کہتی ہو۔ ایک ہی تو بیٹی ہے، دکان بڑھا بھی دے اس کا باپ، تو کیا ہے! پھر بن جائے گی۔ بیٹی کے ہاتھ تو روز روز پیلے نہیں ہوں گے۔ ایک ہی بار ہے نا۔ کون سی قطار لگی ہے بیٹیوں کی! اے اس کے چاؤ لاڈ تو پورے کریں!
کریمن: ( داخل ہوتی ہے) السلام علیکم۔ ارے واہ! بڑی بوا بھی یہاں ہیں خیر سے۔ کیسی ہیں بوا آپ؟
رانی: و علیکم السلام، آؤ کریمن کیسی ہو؟ بیٹھو۔
بڑی بوا: (کریمن کو نظر انداز کرتے ہوئے) میرے ابا نے ٹرک بھر کے سامان کا دیا تھا۔
کریمن: اور بڑی بوا! وہ سامان کیا ہوا پھر؟
بڑی بوا: ائے ہونا کیا تھا! کچھ تو نندوں نے توڑا پھوڑا۔ اماں نے جو تھان کے تھان کپڑے کے دئے تھے، سی سلا کے خود پہن لئے اور برتن! ہائے کیا کہوں بوا! نصیبوں جلی ساس نے توڑ تاڑ کے رکھ دئے۔کچھ خدا کی مار پڑے ان ٹڈیوں اور چوہوں پر، فرنیچر کو گھن اور دیمک نے مٹی کر دیا۔ سب خاک ہو گیا۔ 
کریمن: اے رانی بہن، بوا نے بات پتے کی کی ہے۔ سامان بنا کے اگلوں کے گھر میں پھینک دیا؛ بیٹی کے تو کچھ کام نہیں آیا۔ کام آیا تو ساس اور نندوں اور ٹڈیوں، چوہوں، گھن اور دیمک کے۔ واہ بڑی بوا۔ یہ ہوئی نا بات! آپ کے ابا کو اگر دینا ہی تھا تو داماد کو اتنی نقد رقم دے دیتے کہ میاں کوئی کام وام کر لو۔
رانی: دنیا کا دستور ہے کریمن! سب دیتے ہیں، یہ کوئی نئی بات ہے۔ اکلوتی بیٹی ہے ان کی! مرے کیوں جا رہے ہیں؟
کریمن: اللہ برکت دے، آپ کی تو خیر سے چار ہیں۔ اللہ سب کو خوشیاں دے، سب کے چاؤ لاڈ پورے کرنے ہیں۔ ابھی سے تیاری کیجئے آخر چار بیٹیوں کا جہیز بنانا ہے۔ کون جانے میاں کو بھی اور بیٹے کو بھی گروی رکھنا پڑے۔
رانی: بہت چڑھ کے بات کر رہی ہو کریمن!
کریمن: دکھ کی بات ہے، تلخ تو ہو گی! میں آئی تو کسی کام سے تھی، خیر چھوڑئیے۔ میں چلی، ویسے سوچئے گا، ضرور۔ کہ ہم اپنی بیٹیوں کا جائز حق، وراثت میں ان کا حصہ تو دیتے نہیں، جہیز کے نام پر دوسروں کو دے دیتے ہیں۔
بڑی بوا: ایک ہی تو بیٹی ہے، لو بتاؤ! جہیز بھی نہیں دیں گے تو کیا بیٹی کو رسوا کریں گے؟ بیٹی بھر کے جائے سو سکھ پائے۔ 
کریمن: غضب خدا کا، ایک تو دوہرا دوہرا ظلم اور پھر اس پر اتنا اصرار؟ کہ جی نہ کیا تو ناک کٹ جائے گی! اور ہاں، اس محلے کی ہر چوتھی عورت بڑی بوا ہے۔ ہر سوراخ پر ناک رکھ کر سونگھتی پھرتی ہیں۔ 
بڑی بوا: آئے ہائے! خصم سے جھگڑ کر آئی ہے کیا؟ جو سارا غصہ مجھ غریب پر جھاڑ رہی ہے۔ اے بوا، ایک اُن کی بیٹی ہے چار اِن کی بیٹیاں ہیں، وہ جانے اُن کا کام جانے، یہ جانیں اِن کا کام؛ مجھے کیا۔ 
کریمن: کاش اللہ نے آپ کی گود بھی ہری کی ہوتی، بڑی بوا۔ میں چلی بہن، میرے کہے پر سوچنا ضرور، مرضی تو ظاہر ہے آپ کی ہے۔
بڑی بوا: میں بھی چلتی ہوں بوا! 
رانی: (ٹھنڈی سانس بھر کر) خدا حافظ۔

۔(۴)۔
رانی کا گھر
کردار: رانی، جمال (رانی کا میاں)

رانی: ایک بات کہوں جمال! کل وہ آئی تھیں، کریمن، اور بڑی بوا۔
جمال: یہ کیسے ممکن ہے؟
رانی: کیا مطلب؟
جمال: وہ دونوں اکٹھی کہیں نہیں آ جا سکتیں۔ بھئی، ان کا تو آگ اور پانی کا بیر ہے۔
رانی: وہ تو ہے! خیر۔ کریمن نے ایک بات کہی ہے، میں تو سوچ میں پڑ گئی ہوں۔
جمال: کیا کہا اس نے؟
رانی: یہ جہیز کا معاملہ کچھ ٹیڑھا نہیں ہے کیا؟
جمال: ہاں، ہے تو! مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟
رانی: میں سوچ میں پڑ گئی ہوں۔ وہ مریم کی تو ایک بیٹی ہے، جیسے تیسے جہیز دے بھی دیں گے جتنا بھی دے دیں۔ ہماری تو چار ہیں۔ آج آپ جہیز لینے پر بضد ہیں تو ہماری بیٹیوں کے سسرال بھی بضد ہو سکتے ہیں۔ 
جمال: بھئی یہ تو دوطرفہ کھیل ہے۔ اِس ہاتھ دے، اُس ہاتھ لے۔ ہماری بہو جہیز لائے گی، تو بیٹیاں لے جائیں گی بھی۔
رانی: مہنگائی ہے کہ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آج جو کچھ ایک لاکھ میں ملتا ہے، دس برس بعد کتنے میں پڑے گا؟ چار چار بیٹیوں کا جہیز بنانا کوئی کھیل ہے کیا! بارات کا کھانا الگ، اور اوپر سے یہ الٹی سیدھی رسمیں!
جمال: تو پھر ہمت کرو، مریم سے کہو ہمیں نہیں چاہئے، جہیز وغیرہ۔ ہمیں بیٹے کا گھر بسانا ہے ایک اور کباڑ خانہ نہیں بنانا۔
رانی: مگر جمال ... دنیا کیا کہے گی؟ ناک کٹ جائے گی ہماری کہ کن کنگلوں کی لڑکی لائے ہیں۔
جمال: ہاں یہ بھی ہے، ایک رسم صدیوں سے چل رہی ہے، اس کو نبھانا تو ہے نا!
رانی: یہی نا! میں نہیں سمجھتی کہ کوئی اس کو روک سکے گا۔ سب دیتے ہیں، نہ دیں تو ساسیں بہوؤں کا جینا حرام کر دیتی ہیں۔
جمال: میرے ایک جاننے والے ہیں، منشی صدرالدین۔ انہوں نے تو کامیابی سے روک دیا اس رسم کو!۔
رانی: ہائیں! وہ کیسے؟یہ وہی صدرالدین ہیں؟ وہ آخری گلی کا پہلا گھر۔
جمال: ہاں ہاں بالکل وہی۔ تم جانتی ہو انہیں؟
رانی: ان کی بیگم فوت ہوئیں تو بڑی بوا کے ساتھ گئی تھی ان کے ہاں۔ سنتے ہیں بہت اچھی خاتون تھیں۔
جمال: انہوں نے نہ کسی سے جہیز لیا، نہ کسی کو دیا۔ اور بات پہلے سے صاف کر دی کہ جہیز نہ لینا ہے نہ دینا ہے۔
رانی: ان کی بیٹیوں کو طعنے تو ملتے ہوں گے۔
جمال: نہیں! بالکل نہیں۔ سب کے گھر آباد ہیں، سب راضی خوشی ہیں۔ میں نے کوئی کھچاؤ نہیں دیکھا، واللہ اَعلم۔ 
رانی: اچھا؟
جمال: میں ان کے ایک بیٹے سے ملا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کو مثال بنا کر اس کے چھوٹے ہم زلف نے جہیز لینے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے سسر کھاتے پیتے شخص تھے، بڑی بیٹی کو بیاہا تو اچھا خاصا سامان بنا کے دیا تھا مگر وہ بھی انہی کے گھر میں پڑا ہے۔ منشی جی کے بیٹے نے اپنی ساس سے کہہ دیا تھا، جہیز پر پیسے ضائع نہ کریں۔
رانی: اچھا!!!
جمال: ہاں، اور بیٹیوں کے معاملے میں منشی جی نے خود اعلان کر دیا کہ بھئی جسے برتن اور بستر چاہئیں وہ ہمارے ہاں نہ آئے۔ ہمارے ہاں وہ آئے جو ہماری بیٹی کو اپنی بیٹی بنا سکتا ہو۔
رانی: اور ان کی بیوی؟ دوسرے رشتے دار، کسی نے اعتراض نہیں کیا؟
جمال: بھئی ہمارے سامنے کی بات ہے، ہم نے ایسی کوئی بات نہیں سنی، نہ کسی اعتراض کی نہ جھگڑے کی۔
رانی: بڑے سخت ہیں، یہ منشی صدرالدین۔ ان کا مؤقف بھی کوئی رہا ہو گا؟
جمال: ہاں! کہہ سکتی ہو۔ اولادیں سب برابر ہیں، وراثت میں جو حصے مقرر ہیں وہ روکو نہیں!
رانی: اچھا!!!
جمال: اور کسی کو زائد کچھ دے سکو تو اس کی ایک حد مقرر ہے، اس سے باہر نہ نکلو۔اب یہ کیا؟ کہ بیٹی کو وراثت سے محروم کر دیں۔ کسی نے اس کا توڑ نکالا ہو گا کہ جب بیٹی کو بیاہو تو خاصا کچھ دے کر رخصت کرو۔
رانی: بات تو ایک ہی ہو گئی نا۔
جمال: ایک بات نہیں ہے، رانی! بیٹی کو وراثت کے حق سے محروم ہی نہ کرو، توڑ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ باپ تھوڑا چھوڑ کر مرے، زیادہ چھوڑ کر مرے؛ اسی میں سب کا حصہ ہے۔ امتیاز تو نہیں ہونا چاہئے نا! اور ... چھوڑو، لمبی بات ہے، پھر سہی۔ اس وقت چائے پلوا دو۔
رانی: آپ کیا کہتے ہیں، بیٹا کیا کہتا ہے۔
جمال: میں نے اس سے بات نہیں کی، تم کر لینا کسی وقت۔ میرے سامنے ہو سکتا ہے وہ جھجک جائے، تم سے کھل کر بات کر لے گا۔ ماں اور باپ میں اتنا فرق تو ہوتا ہی ہے۔

۔(۵)۔
منشی جی کے گھر کے سامنے
کردار: منشی جی، بڑی بوا

بڑی بوا: بہت بنے ٹھنے کھڑے ہو، منشی! کہاں کی تیاری ہے۔ کوئی نیا سسرال ڈھونڈنے چلے ہو؟
منشی جی: نیا سسرال اب کیا ڈھونڈنا! تمہارے اماں بابا زندہ ہوتے تو .......۔
بڑی بوا: ائے ہئے! منہ دیکھا ہے اپنا؟ 
منشی جی: بالکل تمہارے منہ جیسا ہے بوا، بس ایک داڑھی مونچھوں کا فرق ہے۔ 
بڑی بوا: شرم تو نہیں آتی!؟ مجھے بوا کہتے ہو، بڈھے! 
منشی جی: تو کیا کہوں؟  خود ہی بتا دو، کیا کہلوانا چاہو گی۔
بڑی بوا: ویسے ... تم جا کہاں رہے ہو؟ اور یہاں گھر کے باہر کیوں کھڑے ہو؟
منشی جی: بیٹے کو بلایا ہے، وہ گاڑی لے کر آتا ہو گا، اور جا رہا ہوں جمال میاں کے ہاں۔ان کے بیٹے کا ولیمہ ہے۔
بڑی بوا: ہائیں! کب کہاں؟ ... میرا مطلب ہے اس کی شادی ہو گئی؟
منشی جی: تم اتنی بھولی نہیں ہو بوا، مجھے بناؤ نہیں۔ محلے میں دو دو شادیاں ہوں اور تمہیں خبر نہ ہو! عقل نہیں مانتی۔
بڑی بوا: دو دو شادیاں؟ دوسری کس کی؟
منشی جی: قمرالدین کی بیٹی کی، اور کس کی؟ جمال کی بہو وہی تو بنی ہے۔
بڑی بوا: آئے ہائے میں مر گئی!
منشی جی: تمہیں کیا ہوا بوا؟ تم اس عمر میں اُس چھوکرے کی دلہن تو بن نہیں سکتی۔ ہاں البتہ ....
بڑی بوا: تمہارے منہ میں کیڑے پڑیں منشی! میں نے تو سنا تھا ان کے بیچ جہیز کا مسئلہ آن پڑا ہے۔
منشی جی: یہ بتاؤ، تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟
بڑی بوا: کیا بتاؤں منشی! تین دن سے بستر پر پڑی پھُنک رہی ہوں، کوئی پانی دینے والا بھی نہیں۔ اولاد میرے نصیب میں نہیں تھی۔ ہائے تم کیا جانو، منشی! یہ تنہائی اور وہ بھی اس عمر کی! 
منشی جی: اسی لئے تو کہا تھا کہ تمہارے اماں بابا زندہ ہوتے تو ....
بڑی بوا: پھر وہی! تمہارا کچھ کرنا پڑے گا منشی!
منشی جی: مثلاً کیا کرنا پڑے گا؟ ہم تو راضی ہیں، ایک دَم۔
بڑی بوا: یہ بتاؤ، کہ قمرالدین نے آخر کار جہیز دینا مان لیا نا؟ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ پرکھوں کی رسم توڑنا ممکن نہیں۔ بہت باتیں بنا رہی تھی، مریم بھی اور وہ نگوڑی کریمن بھی۔
منشی جی: نہیں۔ بلکہ، جمال اور اس کی بیگم اپنے مطالبے سے دست بردار ہو گئے۔
بڑی بوا: جھوٹ بک رہے ہو منشی! میں نہیں مان سکتی۔
منشی جی: میں جھوٹ کیوں بولوں گا بوا، خود جا کر دیکھ لو ، کون سا کہیں جانا ہے۔ محلے میں تمہیں کون نہیں جانتا بوا؟ اور تم کسے نہیں جانتیں۔(گاڑی کا ہارن بجتا ہے) لو بوا، بیٹا آ گیا، میں تو چلا۔
بڑی بوا: (خود کلامی کے انداز میں) اے لو! کیا زمانہ آ گیا ہے! یہ سب اسی کلموہی کریمن کا کیا دھرا ہے۔ بڑوں کی رسموں کو روند دیا! لو، کوئی بات ہے بھلا؟ اب شادیاں جہیز کے بغیر ہونے لگیں! خبر لیتی ہوں کریمن کی ابھی! ابھی خبر لیتی ہوں۔ وہ چمرخ بھی کیا یاد کرے گی کہ بڑی بوا سے پالا پڑا ہے۔

۔(اختتام)۔

تحریر: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان ... جمعرات ۳۰؍ مارچ ۲۰۱۷ء
خلاصہ
ڈرامے کا عنوان: ’’بڑی بوا‘‘۔
تحریر:  محمد یعقوب آسیؔ 
 ہدایات: الماس شبی
پیش کش: پنج ریڈیو (یو ایس اے)۔
ڈرامے کا موضوع: جہیز
کل مناظر: پانچ
متوقع نشریہ: 26 دسمبر 2018ء
کرداروں کا تعارف:۔
کریمن: محلے کی ایک خاتون  (منظر: ۱، ۳) ۔۔ الماس شبی (ٹیکساس) امریکا۔
بڑی بوا (مرکزی کردار): ایک عمر رسیدہ خاتون (منظر: ۱، ۳، ۵) ۔۔  شاہین کاظمی (سوئٹزر لینڈ)۔ 
منشی جی: ایک محلے دار (منظر: ۵) ۔۔   سلمان باسط (مشی گن) امریکا۔
مریم: لڑکی کی اماں (منظر : ۲) ۔۔ لیلیٰ رانا  (لاہور) پاکستان۔
قمر میاں: مریم کے شوہر (منظر: ۲) ۔۔ محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان۔
رانی: لڑکے کی اماں (منظر: ۳، ۴) ۔۔ فرح خان (بورے والا) پاکستان۔
جمال: رانی کے شوہر (منظر: ۴) ۔۔ منیر احمد فردوس (ڈیرہ اسماعیل خان) پاکستان۔
*******