پیر، 26 فروری، 2018

دھیمی آنچ




دھیمی آنچ

(اپنے دیرینہ ساتھی جناب وحید ناشادؔ کے حوالے سے کچھ باتیں)




          اک عجب امتحاں کا ہے یارو مجھے ان دنوں سامنا
          سوچتا ہوں کروں اور کیسے کروں میں کوئی فیصلہ
         وہ جو اک شخص ہے دل میں بستا ہے جو دھڑکنوں کی طرح
          آنکھ لگتی ہے شب کو جسے سوچتے
          آنکھ کھلتے ہی آتا ہے جس کا خیال
          اب اسی شخص کو بھولنا ہے مجھے

یہ نظم خود بتا رہی ہے کہ اسے کہنے کے عمل میں ہمارے دوست جناب وحید ناشادؔ کس قدر شکست و ریخت سے گزرے ہوں گے۔ فاضل شاعر کا لہجہ دھیما ہونے کے باوجود ان کے اندر کی تپش قاری کے محسوسات کو گرما جاتی ہے۔ یہ دھیمی آنچ ان کے شعر ہی میں نہیں اُن کے مزاج میں بھی دہک رہی ہے۔اس میں کتنے جذبوں کا لہو ہوا ہو گا کہ ہمارا شاعر بولنے میں بھی محتاط ہے۔ ان کی ایک نظم سے:
          کبھی لب کھولنا چاہوں
          تو اندر سے صدا آتی ہے
          کوئی بات مت کرنا
          کوئی بھی بات مت کرنا
          کہ جذبوں کا لہو ہو گا

وحید ناشادؔ واقعی کم گو واقع ہوئے ہیں؛ شعر کہنے میں بھی اور گفتگو کرنے میں بھی۔ میری حلقہ تخلیق ادب میں شرکت 1984 کے اواخر کی بات ہے، وحید ناشادؔ پہلے سے حلقے میں موجود تھے۔ یہ جو انہوں نے بہت کم لکھا ہے، اس کے پیچھے بھی شاید یہی احساس کار فرما ہے کہ بقول احمد فاروق:
بات کرنے میں بات جاتی تھی
خامشی میں سوال رکھا ہے

پچھلے دنوں اختر شادؔ سے بات ہو رہی تھی، کہنے لگے: وحید ناشادؔ کی خاموش مزاجی اور کم گوئی اپنی جگہ، حلقہ تخلیق ادب کے معاملات میں وہ ہمیشہ بہت سنجیدہ اور سرگرم رہے ہیں۔ میں اخترشادؔ کی بات کو صاد کرتا ہوں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا! دیارِ ادب کے معاملات میں ان کی محنتیں اور لگن آپ کے سامنے ہیں، یہیں سے آپ ان کے 34 برس کے تَلّوُّث کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی قبیل کے بھی ہوتے ہیں کہ کام تو وہ بھی کرتے ہیں مگر کام سے زیادہ ہنگامہ برپا کئے رہتے ہیں:
بس گیا جا کے بادلوں میں کہیں
اپنا آسیؔ بلند بانگ جو تھا

وحید ناشادؔ بلند بانگ نہیں ہیں، خاموشی سے اپنا کام کئے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم دوست بہم تھے، میری کسی بات پر کہنے لگے: کوئی الٹی سیدھی ہانک دے تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا، آپ اپنا کام کرتے جائیے، زمانے کو جواب از خود مل جائے گا۔

بہ این ہمہ اپنے اندر کی بے چینیوں کو اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ شعر کا ایک منصب یہ بھی تو ہے کہ وہ آپ کے داخل اور خارج کے درمیان واضح اور قابلِ ادراک رابطہ فراہم کرتا ہے۔ شاعر بات غمِ جاناں کی کرے یا غمِ دوراں کی، اس کی سچائی اس کے شعر میں اپنے پورے قد کے ساتھ بولا کرتی ہے۔ یہ جانتے بوجھتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ:
          اس دنیا میں کون ہے ایسا جس کا کوئی درد نہیں ہے
          سب کے اپنے اپنے دکھ ہیں، سب کے اپنے اپنے غم ہیں
          لیکن میرا درد انوکھا ۔۔۔

وحید ناشادؔ نے بہ ظاہر ایک مختلف تناظر میں اندر کی بے چینیوں کی بات یوں کی ہے:
          کبھی تم نے کسی مچھلی کو دیکھا ہے؟
          جسے لہریں سمندر کے کنارے تک تو لاتی ہیں
          مگر پھر چھوڑ جاتی ہیں

غمِ جاناں اور تعلقِ خاطر وحید ناشادؔ کی شاعری کا نمایاں پہلو ہے۔ بسا اوقات وہ بڑی سادگی سے بہت نازک بات کر جاتے ہیں، ایسی نازک کہ اس کو بیان کرنا کسی حباب کو چھو کر دیکھنے کی سی کوشش ہو گی:
          اسے اتنا ہی کہنا ہے
          کہ اب میں سو نہیں سکتا

          اک سپنا جو ٹوٹ چکا ہے
          اب اس کی تعبیر ملی ہے
          یادوں کی زنجیر ملی ہے

اب تری یاد رلاتی ہے شب و روز مجھے
اب ترا نقش سرِ آبِ رواں بنتا ہے

یہ تو کسی کے پیار نے مجھ کو سکھا دیا
ورنہ یہ انتظار کہاں میرے بس میں تھا

رشتوں اور اقدار کے حوالے سے ان کی ایک بہت نازک نظم چکر کی آخری سطور نقل کر کے آگے بڑھتا ہوں:
          وہی کالج کہ میں جس کے کئی چکر لگاتا تھا
           مرے رستے میں آتا ہے
          مگر اب سامنے اس کے جوانوں کو کھڑا دیکھوں
          تو میرا دل یہ کہتا ہے
          کہ ان کا خون پی جاؤں، انہیں کچا چبا جاؤں
          کہ اب میری جواں بیٹی اسی کالج میں پڑھتی ہے

ہماری قبیل کے لوگوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے: خارزارِ حیات میں اپنا راستہ خود بنانا۔سب جانتے ہیں کہ یہ بہت کٹھن سفر ہوتا ہے؛ ایک قدم غلط پڑا اور راہرو بھٹک کر کہیں کا کہیں جا پڑا۔ میں سمجھتا ہوں ہم ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جو اپنے متعین کردہ راستے سے تھوڑا بہت اِدھر اُدھر ہو گئے ہوں تو ہو گئے ہوں، کم از کم بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ مسافر کو راہ پر رکھنے میں حرف و اظہار کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ آتشِ احساس جس سے ہم شروع سے بنرد آزما رہتے ہیں، کسی کو کندن بنا جاتی ہے تو کسی کو راکھ کر دیتی ہے۔ یہ آگ دھیمی بھی ہوا کرے، اس کو مسلسل برداشت کرنا کوئی سہل کام نہیں ہے۔
آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے
کوئی کندن کوئی غبار ہوا

ہمارے گرد وپیش کی دنیا میں بہت رنگا رنگی ہے، ہر رنگ ہر آنکھ میں یکساں نہیں سمایا کرتا۔ حرف و اظہار سے تعلق رکھنے والا طبقہ بھی عجیب طبقہ ہے؛ کوئی ان کو بے حس اور ظالم قرار دیتا ہے کہ وہ کیفیت جو ایک عام آدمی کو گنگ کر سکتی ہے، شاعر اس کو بڑی خوبی سے یوں بیان کر جاتا ہے جیسے یہ کوئی بات ہی نہ ہو۔ حالانکہ یہی نام نہاد بے حسی دراصل اِحساس کی اَساس ہے۔ ہمارے ارد گرد پھیلے مناظر میں تبدیلیاں لگے بندھے موسموں سے بہت حد تک مختلف ہوتی ہیں۔ بقول شہزاد عادلؔ:
اس شہرِ خرابات میں ہو جاتی ہے اکثر
وہ بات کہ جس بات کا امکاں نہیں ہوتا

وحید ناشاد کی شاعری میں زندگی کے جن عناصر کا مذکور ہوا ہے ان کا مختصر سا بیان ہو جائے۔ ہمارے مقامی پیش منظر اور پس منظر میں بھی اور گلوبل سطح پر بھی کہیں اخلاقی پستی اور منافقانہ روش ہے، کہیں بدلتے رویے ہیں، دوستی اور دشمنی کی دھوپ چھاؤں ہے، حالات کا جبر اور عدم تحفظ کا احساس ہے، محبتوں اور نفرتوں کی قوسِ قزح ہے، اندر اور باہر کی فضا کا فرق ہے، اجالے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، خود کو بھی اور دوسروں کو بھی امیدیں دلانی ہوتی ہیں،عمل اور ردِ عمل کا تَمَوُّج ہے۔ یہی زندگی ہے، اور ہمیں اسی کو جینا ہے، اسی میں اپنے لئے راہِ سفر کا تعین کرنا ہے، منزلوں کا ادراک کرنا ہے۔ چند ملے جلے اشعار پیش کرتا ہوں۔

قدر و قیمت سے اجالوں کی وہی ہیں آشنا
جن کو اپنا گھر جلا کر روشنی کرنی پڑی

بہت ممکن ہے میں اپنے عدو سے دوستی کر لوں
کہ اس سے بھی زیادہ کی عداوت یار لوگوں نے

بکنے لگی ہیں شہر میں آنکھیں بھی آج کل
رکھے گا کون شہر کے حالات پر نظر

کس قدر ہو گئے محتاط مرے شہر کے لوگ
دوستی ایک سی رکھتے ہیں گل و خار کے ساتھ

دشمن مرے خلاف جو کرتا ہے سازشیں
در اصل اعتراف ہے میرے وجود کا

سب سے پہلا پتھر اس نے مارا تھا
وہ جو مجھ کو اپنی جان سے پیارا تھا

اس نے قد کاٹھ نکالا ہے زمانے میں بہت
وہ مگر سوچ کا بونا ہے ، یہی رونا ہے

اب روکنا پڑیں گے ستم گر کے ہاتھ بھی
بنتی نہیں ہے بات فقط احتجاج سے

آرزوئیں، خواہشیں، ارمان کھو بیٹھا ہوں میں
کیا جیوں کہ زیست کا سامان کھو بیٹھا ہوں میں

احباب کو بجا طور پر شکایت ہے کہ وحید ناشادؔ نے شعر گوئی میں اپنا پورا حصہ نہیں ڈالا۔ اس کم سخنی کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ وہ شعر کہتے نہیں ہیں، شعر کے ہونے جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کی شناسائی ظاہر ہے صرف حلقہ تخلیق ادب اور دیار ادب تک محدود نہیں ہے۔ ان دو اداروں میں تو خیر وہ ایک محرک اور مہتَمم کے طور پر معروف ہیں جو بجائے خود ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ ایک اور عامل وہی دھیمی آنچ ہے جس میں ان کے جذبات و احساسات اور الفاظ و معانی دیر تک پکتے  رہتے ہیں۔ اور اس کی حدت، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا، ان کی غزل سے زیادہ ان کی نظم میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ تاہم ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ زندگی کے گوناں گوں معاملات میں مستقل طور پر بے چین رہنے والا یہ شخص، اور اپنے اندر کی آگ میں دھیمے دھیمے مگر مسلسل سلگتا رہنے والا یہ شاعر اپنے شعر کے معاملے میں بہت جلد مطمئن کیسے ہو جاتا ہے۔ اُس کا جواب شاید یہ ہو کہ:

اس کی آنکھوں نے سرِ عام سجایا مقتل
پھر بھی زندہ ہیں مرے خواب، مری آنکھوں میں

زندہ ہوں، اسے یہ تو بتایا ہے کسی نے
کس حال میں زندہ ہوں، اسے کون بتائے

          ترے شایانِ شاں لفظوں کو یوں ترتیب دینا تھا
          کہ لفظوں کے تسلسل سے کوئی زنجیر بن جاتی
          تری تصویر بن جاتی
          مگر الفاظ جذبوں کا بھلا کب ساتھ دیتے ہیں

لفظ ساتھ نہیں بھی دیتے! سو، میں نے اس مختصر سی کاوش میں سامنے سامنے کی یہ جو سادہ سی باتیں کی ہیں، میری رسائی بس یہیں تک ہے۔ جنابِ وحید ناشادؔ کے لہجے کا دھیما پن، ان کے لفظوں کی دھیمی آنچ، ان کے مزاج کی بردباری اور سنجیدگی ان کے گرد ایک ایسا پروقار ہالہ بناتی ہے جسے پار کرنا کچھ ایسا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ میرے لئے یہی بہت کافی ہے۔

محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
سوموار: ۱۵۔ اگست  ۲۰۱۸ء


شُذرہ:  یہ مضمون ”دیارِ ادب ٹیکسلا“ کی تقریب ”ایک شام وحید ناشادؔ کے نام“ (ہفتہ 18 اگست 2018ء) میں پیش کیا گیا۔

جمعہ، 23 فروری، 2018

بہتا کاہلا




بہتا کاہلا


سِدھا ناں تے اوہدا سی کرم دین۔ پر، کم کوئی وی ایڈا سِدھا نہیں سی۔ پُٹھے کماں پاروں اوہدا ناں وی پُٹھا ہو کے نکڑما بن گیا؛ چاچا نکڑما۔  ماسی ہسو جدوں وی کتے چاچے نکڑمے دا ناں لیندی تے پہلوں تاں اپنیاں گھڑیاں ہوئیاں دس باراں خالص دیسی گھیو ورگیاں تگڑیاں گالھاں دیندی تے پھر کہندی: اوہدے (اک دو گالھاں) ہتھوں جے کسے دا کوئی بھلا ہو جاوے، کوئی کم ہو جاوے تے اوہ بندہ (اک دو گالھاں) سمجھ لئو، لیکھاں دا دھَنی اے۔  ایہ وی کوئی سمجھ نہ والی گل اے؟ پئی ماسی اپنی گل پوری کر لوے، اصلی تے دیسی گالھاں گھیو دیاں نالاں توں بغیر۔

عِلمے ڈھولے نے اپنے فوجی پتر دے ناں چٹھی لکھی، لفافے وچ بند کیتی اتے پتہ ٹکانا لکھیا تے گھروں باہر نکل کے کھلو گیا، پئی کوئی بندہ شہر نوں جاندا ٹکر جاوے تے اوہنوں ڈاک خانے وچ پاون لئی دے دیوے۔ اودھروں چاچا نکڑما دِس پیا۔
چاچا، کِدھر؟
شہر چلیا آں یار، یوریا لیاونا اے، نالے کچھ بی لیاونے نیں۔ تیری چاچی کہندی سی کرمیا، شہر چلیا ایں تے گوشت وی لئی آئیں۔ آلو پا کے پکا لاں گے۔
چاچا ایہ چٹھی لئی جا، ڈاک خانے وچ پا دئیں۔
لے دَس، لیا جوانا! ایہدا کیہڑا بھار اے؟

چاچا چٹھی لے گیا۔ تیجے چوتھے دن پھر اِنج راہ گلی ٹاکرا ہو گیا تے ڈھولا پچھ بیٹھا: چاچا، چٹھی پا دتی سی نا؟ چاچے دے متھے تے اینویں پرچھانواں جیہا آیا جیویں کچھ چیتا آگیا ہووے۔ بولیا: اوہ، یار مینوں چیتا ای نہیں رہیا۔  پر کوئی گل نہیں۔ کل، نہیں پرسوں؛ نہیں چَوتھ! میں پھر جانا اے چٹھی پا دیاں گا۔ ڈھولے نوں وَٹ بڑا چڑھیا، پر اوہ ہولی جیہی بولیا: چل، رہن دے چاچا، چٹھی مینوں دے دے، میں آپ ای پا آواں گا۔

چاچے نکڑمے نوں بڑی کاوڑ چڑھی۔ صافے دے پلو نوں دتی گنڈھ کھولی۔ اک لفافہ چُڑیا مُڑیا کڈھیا، علمے ڈھولے دے کھلے ہتھ تے زور نال مار کے کہن لگا: ایہ لے پھڑ! بہتا کاہلا ایں تے!۔

۔۔۔۔۔۔۔
محمد یعقوب آسیؔ  :  جمعرات 22   فروری 2018ء  

جمعہ، 9 فروری، 2018

دمِ زندگی رمِ زندگی . شہزاد عادلؔ کے ساتھ ایک منزل کا سفر




دمِ زندگی رمِ زندگی

شہزاد عادلؔ کے ساتھ ایک منزل کا سفر




گزشتہ نصف صدی میں بہت اکھاڑ بچھاڑ ہوئی ہے۔ ۱۹۷۱ء کے بعد سے تو زندگی کے ہر شعبے میں ایسی ہل چل بپا رہی ہے جو اس سے پہلے کہاں رہی ہو گی۔ اقتدار کے ایوانوں میں رد کا عنصر زیادہ رہا اور قبول کا کم؛ ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت والی بات بھی پوری نہیں ہوئی۔ پہلے سے بنی ہوئی عمارت کو مسمار کر کے اس کی جگہ نئی عمارت کی تعمیر شروع ضرور ہوتی، مگر تکمیل پذیر کبھی نہ ہوئی۔ جمہوریت کی نیلم پری نے نئی طرز کی طوائف الملوکی کو جنم دیا۔ سیاست اور معیشت میں مستقل غیریقینی کیفیت نے خود غرضی اور مفاد پرستی کو ہوا دی۔
بیچ آئے تھے بازارِ الم میں مجھے پہلے
اور آج بنے میرے خریدار مرے یار
مری اولاد تشنہ مر رہی ہے
کسی کے پاس کیا پانی نہیں ہے
کل مصلحت کے بیج بوئے تھے مرے اجداد نے
اب کاٹنا ہیں مجھ کو عادلؔ عمر بھر مجبوریاں
ضروری ہے، فقیہِ شہر! ترکِ جامۂ خواہش
امیرِ شہر کو الحاد سے باہر نکلنا ہے

اخلاقی اقدار کی بے قدری میں تیزی آ گئی، خاندان کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ تعلیم میں علم کی جگہ معلومات نے لے لی۔ کردار سازی کا کام تو عرصہ قبل ترک ہو چکا تھا، ستم بالائے ستم کردار کُشی کی منہ زور آندھیاں چلنے لگیں۔ مشرق کی روشن روایات سے بے اعتنائی عجیب خوفناک صورت اختیار کر گئی۔ ایسے پر آشوب ادوار میں جب ایمانیات کی بنیادیں دھماکوں کی زد پر ہوں، فکری بے راہ روی کو روکنے کے لئے انہی بنیادوں کو مضبوط کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ احیاء کے کڑے کوس دانشِ مستعار کے بل پرنہیں پاٹے جا سکتے ۔
ایک انسان کی ضرورت ہے
اک مسلمان کی ضرورت ہے
تجھ کو پانے کے لیے ربِّ جلیل!
تجھ پہ ایمان کی ضرورت ہے
یقین جن کا اندھیرا گمان کالی رات
وہی ہیں جن پہ ہوئی مہربان کالی رات
اُس طرف شہرِ وفا ہے تو اِدھر دشتِ انا
میں کھڑا سوچ رہا ہوں کہ کدھر جانا تھا

شہزاد عادلؔ کا تعلق بھی اہلِ قلم کی اسی جماعت سے ہے جس کے شعور کی اولین تجسیم بیسویں صدی کے ربع آخر میں ہوتی ہے۔ دادا حضور امرت سر سے ہجرت کر کے جھنگ میں آباد ہوئے، والد گرامی لاہور میں ایک ذمہ دارانہ سرکاری ملازمت سے ۱۹۹۶ء میں ریٹائر ہوئے۔ شہزاد عادلؔ کی پیدائش (ستمبر ۱۹۶۱ء) ملتان میں ہوئی اور بچپن ہی میں شاہدرہ (لاہور) میں چلے آئے۔ عنفوانِ شباب میں نانِ جویں کے تیز گرد پہیے نے ان کو حدید و حجر کی وادی (ٹیکسلا) میں لا ڈالا۔
میرے چہرے کی ان لکیروں میں
گردِ ایّام کے سوا کیا ہے
بسنے والوں کی مرضی ہے جس پر اپنا در کھولیں
میرے جیسے لوگ تو لاکھوں شہرِ ہنر تک آتے ہیں

شعر شہزاد عادل کے مزاج میں لڑکپن سے رچا بسا تھاادبی اجلاسوں باضابطہ شرکت کا آغاز ۱۹۸۷ء میں دیارِ ادب ٹیکسلا سے ہوا تاہم اپنے کالج کے دنوں میں وہ شعر کہا کرتے تھے۔ شہرِ سنگ و آہن میں راقم کا اور شہزاد عادل کا ساتھ تین دہائیوں سے زیادہ پر محیط ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی نوشاد منصف بھی شاعر تھے، اور دمِ آخرین یہیں ٹیکسلا میں مقیم تھے۔ ادب زار کے سارے سفر کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، تاہم صدیق ثانیؔ اور طارق بصیر کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ ان سارے دوستوں کا رزق ایچ آئی ٹی سے جڑا تھا۔ حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا اور دیارِ ادب ٹیکسلا میں شہزاد عادلؔ اور طارق بصیرؔ کی ادبی اور انتظامی خدمات اور جد وجہد سے چشم پوشی کسی طور ممکن نہیں۔

کانٹوں کی سیج پر میٹھی نیند سونے کی صلاحیت یوں ہی حاصل نہیں ہو جاتی، انسان کو چومکھی لڑائی لڑنی پڑتی ہے اور ہر وار کو اپنے سینے پر سہنا پڑتا ہے۔ اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے اپنی انا کا درست شعور و ادراک اور تحفظ ناگزیر ہوتا ہے۔ انسانوں کی معاشرتی نفسیات کا مطالعہ غیرنصابی اور اطلاقی سطح پر جا کر کرنا پڑتا ہے۔ اور مشکل ترین حالات میں اپنے لئے ایک باوقار لائحۂ عمل مرتب کر کے اس پر ثابت قدمی سے کاربند رہنا پڑتا ہے۔ رہگزارِ حیات میں میں تیز آندھیوں کے مخالف چلنا پڑتا ہے اور وہ بھی یوں کہ پارچے نہ کھلنے پائیں۔ مفادات اور تعلق داریوں کو اصولوں پر قربان کرنا پڑتا ہے۔
حصارِ جبر و استبداد سے باہر نکلنا ہے
ہمیں ہر حال میں افتاد سے باہر نکلنا ہے
تمہیں گر حلقۂ صیّاد سے باہر نکلنا ہے
فغان و نالہ و فریاد سے باہر نکلنا ہے
اگر کوئے ستم ایجاد سے باہر نکلنا ہے
تو ظلِّ مسندِ ارشاد سے باہر نکلنا ہے

اس سطح کا انسان کہیں بکھر جائے تو اپنے ساتھ کتنوں کو لے ڈوبے گا، کوئی نہیں کہہ سکتا، اس کا تو علاج بھی کوئی نہیں۔ اور اگر کامران و سرخ رو ہوتا ہے تو کتنے لوگوں کے لئے چراغِ راہ بنتا ہے اس کا بھی کوئی مول نہیں۔ شہزاد عادلؔ کا تعلق بھی اسی ’’خودتعمیری‘‘ طبقے سے ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا سفر صفر سے شروع کیا اور ایک طویل جد و جہد کے بعد معاشرے میں اعتبار کا مقام پایا۔
رہِ امکاں پہ چلتا جا رہا ہوں
ابھی تک میری منزل زندگی ہے
مٹائے گا ہمیں کیسے زمانہ
ہمارے خوں میں شامل زندگی ہے

میرے اس مشاہدے میں دو چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایک وہ چلتا پھرتا کھاتا پیتا ہنستا بولتا شہزاد حمید ہے جو ایک اہم ادارے میں دوسرے درجے کے ملازم کی حیثیت سے شامل ہوا اور خالصتاً اپنی صلاحیتوں کے بل پر اس وقت ایک پورے شعبے کا ذمہ دار افسر ہے۔ وہ شہزاد حمید ہے جس کا ایک بھرا پرا کنبہ ہے جس کی محض کفالت نہیں درست سمت میں راہنمائی بھی اس کے کندھوں پر ہے۔ وہ اپنے اہل و عیال کا اتالیق بھی ہے اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے اس کے خاندان کے معاملات میں اس کا کردار ہے، جس میں اس کو بڑا بن کر رہنے کے لئے بڑے دل کی ضرورت ہے۔ ایک دیرینہ ساتھی کی حیثیت سے میں نے اس شہزاد حمید میں کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جو مجھے اس سے بدگمان کر سکے۔
مری نس نس میں دھڑکن گونجتی ہے
پکارو اب مجھے عادلؔ نہیں، دل

دوسرا وہ شہزاد عادلؔ ہے جو شعر کہتا ہے،اور پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک شاعر ہونے کے ناطے اُسے کس کس کا کون کون سا حق ادا کرنا ہے، کون کون سا قرض چکانا ہے، اور اپنا ما فی ضمیر اپنے مخاطب، سامع اور قاری پر کیسے کھولنا ہے۔ اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور افتادِ طبع کے درمیان فاصلہ پیدا نہیں ہونے دیتا، اور اپنے قاری کو کسی ابہام سے بھی دو چار نہیں کرتا۔ یہاں ہمیں شہزاد حمید اور شہزاد عادلؔ ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی فکر کی سچائی اس کے شب و روزِ حیات میں بھی ویسی ہی تب و تاب رکھتی ہے جیسی اس کے اشعار میں پائی جاتی ہے۔
مری میت بھی گھر کے صحن میں رکھی ہوئی تھی
مرے گھر پر ہجومِ دوستاں یونہی نہیں تھا
دلوں کی آگ باہر آ گئی تھی رفتہ رفتہ
ہمارا شہر عادلؔ بے اماں یونہی نہیں تھا

ایک دوست نے شاعر، شعر اور قاری کی مثلث کے حوالے سے ایک بہت عمدہ بات کہی؛ کہ ہر قاری کا اپنا ایک نکوٹین لیول ہوتا ہے، وہ اس سے کم پر سرور نہیں پاتا۔ اس پر یہ اضافہ کر لیجئے کہ ہر قاری کے ذوق اور شعور کی ایک سطح ہوتی ہے؛ وہ اس سطح سے بلند تر شعر کا کما حقہٗ ساتھ نہیں دے پاتا اور اس سے کم تر سطح پر اس کی تشفی نہیں ہوتی۔ شہزاد عادلؔ کے ہاں ہمیں بہ ہر دو لحاظ متنوع اشعار ملتے ہیں۔
فریبِ رنگ سے ختمِ خزاں نہیں ممکن
چمن تمام نہ مہکے اگر بہار آئے
ہم ایسے لوگ طلب کے قمار خانے میں
حیات بیچ کے جو کچھ ملا وہ ہار آئے
صفوں میں حدِنگاہ تک مقتدی کھڑے ہیں
مگر ابھی تک امام ہے بے وضو ہمارا

یہ دعویٰ قبل از وقت ہو گا کہ شہزاد عادلؔ شعر پر استادانہ گرفت رکھتا ہے۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ وہ اپنا اسلوب تقریباً وضع کر چکا ہے۔ وہ شعر کے جملہ پہلوؤں کو اہمیت دیتا ہے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ زیرِ غور لاتا ہے۔ ہمارے ہاتھوں میں موجود، اس کے اولین شعری مجموعے ’’زندگی زندگی‘‘ میں اس کے آج کے شعر بھی شامل ہیں اور آج سے تیس برس پہلے کے بھی؛ اور اس نے انہیں کسی زمانی ترتیب میں نہیں بلکہ بے شست جمع کیا ہے۔ اس کو بھی ہر قاری اپنی اپنی نگاہ سے دیکھے گا؛ عین ممکن ہے کہ ایک قاری اسے اسلوبیاتی تنوع کا نام دے اور دوسرا اسے اتار چڑھاؤ سے تعبیر کرے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ اس کا قاری اس کے ساتھ چلنے میں سہولت محسوس کرے گا۔
اے ہم سفرو! راہ میں یوں تھک کے نہ ٹھہرو
ہم لوگ ابھی شہرِ اماں تک نہیں پہنچے
لکھتا ہوں سانس سانس بڑی احتیاط سے
کب تک چلے نہ جانے یونہی امتحانِ زیست

فکری اور محسوساتی حوالے سے بھی اور زبان و بیان میں بھی اس کے ہاں ایک خاص انداز کی تازگی پائی جاتی ہے۔ زندگی کے تلخ و شیریں حقائق اور دورِ حاضر کے کثیرالجہات خلفشار کو بیان کرتے ہوئے بھی اس کے شعروں میں مسکان کی ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جسے سیدھے سبھاؤ بیان کرنا کچھ ایسا آسان بھی نہیں۔
دفعتاً دل میں اجالا پھیلا
جل اٹھے خون کے ذرّوں کے چراغ
دل کی دیوارِ انا خوردہ پر
جگمگاتے رہے زخموں کے چراغ
انڈیل دے تُو مرے جام میں اِسے اک دن
ترا بدن بھی تو ساقی! سبو سے ملتا ہے

ہمارے چاروں طرف پھیلی دنیائے حقائق میں تلخیاں، مایوسیاں، خدشات، واہمے، امیدیں، حوصلے، جذبے، سانجھیں اور اکلاپے موجود ہیں؛ جنہیں خود تعمیری شخصیت کا حامل شخص بڑی وضاحت سے محسوس کرتا ہے۔ شہزاد عادلؔ نے ان کیفیات میں کسی طرح کی ملمع کاری کئے بغیر قاری کو شامل کیا ہے۔ اور لطف کی بات ہے کہ خیال اور مضمون کھردرا ہونے کے باوجود شہزاد عادلؔ کا شعر کھردرے پن کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں جمالیات اور ملائمت کم و بیش ہر سطح پر موجود ہے۔ وہ علامتوں، تشبیہوں، اشاروں، کنایوں، استعاروں کی اثر آفرینی سے بھی واقف ہے، اور شعر کو شعر بنانا جانتا ہے۔
شہر میں آنکھوں کے سوداگر کہاں سے آ گئے
بیچتے ہیں جو اندھیرے روشنی کے نام پر
ایک آئینہ ہے جس میں زندگی کا عکس ہے
لکھ دیا جو تُو نے عادل شاعری کے نام پر

شہزاد عادل بھاگتی، دوڑتی، سانس لیتی، دھڑکتی، سنسناتی زندگی کا شاعر ہے، جو کسی کو دم لینے کی مہلت نہیں دیتی۔اس کے لہجے میں تلخی بھی ہے، شیرینی بھی ہے، شوخی بھی ہے، اداسی بھی ہے بالکل جیسے غزل میں ریزہ خیالی ہوتی ہے اور جیسے ایک جیتے جاگتے انسان کی طبیعت بہ یک وقت متفرق کیفیات سے دو چار ہوتی ہے مگر زندگی کی تیز رفتاری اسے کسی کیفیت میں جامد ہو جانے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس کا یہ تحرک اس کے الفاظ کو قوتِ ناطقہ سے شناسا کر جاتا ہے۔
یہ رقابت کی کوئی تازہ روایت ہی نہ بن جائے
حسن تھا بام پہ جب چاند بھی پورا نکل آیا
پھر یوں ہوا کہ اُن کے دلوں سے نکل پڑا
جو یہ سمجھ رہے تھے درِ وا سے آؤں گا
کچھ لفظ تو ایسے مل جائیں جن لفظوں کا مفہوم نہ ہو
کچھ لفظوں کے مفہوم تلے اتنی گہرائی ٹھیک نہیں

شہزاد عادلؔ کو اپنی اقدار عزیز ہیں اور ان کی شکست و ریخت پر وہ رنجیدہ خاطر بھی ہوتا ہے۔ اسے روایت معاشرتی اور شعری دونوں سطحوں پر عزیز ہے اور وہ ان پر کبھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کرتا۔ایک حساس لکھاری ہونے کے ناطے، اس کے لہجے میں احتجاج ہو یا سرخوشی کی جاذبیت، اس کے لفظوں کا وقار قائم رہتا ہے۔
ہم تو وابستہ ہو گئے اِن سے
اب ستاروں کی آزمائش ہے
ضبطِ گریہ کا حکم ہے اِن کو
بے قراروں کی آزمائش ہے
موسمِ زرد پھر طویل ہوا
پھر بہاروں کی آزمائش ہے

وہ گل و بلبل، لب و عارض، وصال و ہجر کے روایتی مضامین سے بھی بیزار نہیں ہے؛ تاہم یہ اہتمام ضرور کر تا ہے کہ لہو روتی آنکھوں کی سرخی کو تارکول کی کالی سڑک سے ہم کنار کر جائے۔ یوں وہ بہت سارے مقامات پر داخل اور خارج کو یک جان کرنے میں بھی کامیاب ٹھہرتا ہے۔ اس مجموعے میں اس کے کتنے ہی ایسے اشعار بلکہ پوری کی پوری غزلیں شامل ہیں جہاں ایسی ذومعنویت کارفرما ہے کہ قاری خود کو داخل اور خارج دونوں سطحوں پر پاتا ہے۔ اس کی چھوٹی بحر کی غزلوں میں اس کا فن خاص انداز میں دمکتا دکھائی دیتا ہے؛ اور اس کا شعر چست لگتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہی چھوٹی بحروں میں کہنا اس کے اسلوب کا جوہر قرار پائے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹی بحر میں شعر موزوں کرنا بہت ریاضت طلب کام ہے؛ اور یہ ریاضت اس کے شعر کو دوآتشہ بنا جاتی ہے۔
روشنی کے نگر چلے جائیں
وہ جنہیں تیرگی نہیں منظور
ایک ہی بار آزماتا ہوں
جا تری دوستی نہیں منظور
اُس نے دیکھا ہے کیسے مجھے
گم ہوں میں چشمِ حیران میں
وہ بتانے کی باتیں نہیں
جو صبا کہہ گئی کان میں
شہرِ امید کر چلے خالی
اب کے سب کارواں گئے خالی
(ساری غزل)
کھنکتی چوڑیوں کو کیا ہوا ہے
چھنکتی جھانجنوں کو کیا ہوا ہے
یہ چڑیاں چہچہاتی کیوں نہیں ہیں
اور ان کے گھونسلوں کو کیا ہوا ہے
(ساری غزل)

شہزاد عادلؔ کے ہاں دو علامتیں خاص طور پر بہت نمایاں ہیں: ساقی اور جنون، اور ان کے متعلقات؛ جو اپنے رسمی معانی کی بجائے زندگی کی محرک قوتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مشتے از خروارے کے طور پر یہ چند شعر ملاحظہ ہوں۔
بڑے دنوں سے دکھائی نہیں دیا ساقی!
وہ اک نشہ جو کبھی تیری چشمِ مست میں تھا
ذرا ساقی سے پیمانہ تو لانا
ہمیں کرنی ہے پیمائش غموں کی
دشت میں آ پڑے ہو عادل جی!
کیا ہوا بحرِ بے کنارِ خیال
کب ساتھ مرے شہر میں ہوتی نہیں وحشت
اتنا ہے کہ اب چاک گریباں نہیں ہوتا
کسی کو سونپ نہ دینا یہ خاک دیوانو!
چمن کبھی نہ ملیں گے گنوا کے ویرانے
حصارِ ذات سے نکلے تو یہ خبر نہ ہوئی
کہاں پہ ختم ہوئے تھے انا کے ویرانے
ہم ایسے اہلِ جنوں کا کمال ہے عادلؔ
کہ لائے شہر تلک ہم بڑھا کے ویرانے
ساقیا پھر بنامِ غزل
دے مجھے ایک جامِ غزل
دشتِ وحشت سے اب تک مجھے
آ رہے ہیں پیامِ غزل
مقتدی ہیں مرے فکر و فن
اور جنوں ہے امامِ غزل

شہزاد عادلؔ کا سب سے بڑا موضوع زندگی ہے۔ ’’زندگی زندگی‘‘ عنوان کی اس پوری کتاب میں زندگی معناً ہی نہیں لفظاً بھی بہت مذکور ہے اور کتنے ہی زاویوں سے مذکور ہے۔ اس کے جیتے جاگتے الفاظ رمِ زندگی کو رمِ آہو بنا دیتے ہیں، ان کی حدت اور بے چینی کی دھڑکن کنپٹیوں میں سنائی اور گالوں پر دکھائی دیتی ہے۔
تپش می کند زندہ تر زندگی را
تپش می دہد بال و پر زندگی را
خطر تاب و تواں را امتحان است
عیارِ ممکناتِ جسم و جان است
*******
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
جمعہ المبارک: ۹؍ فروری ۲۰۱۸ء