(اپنے
دیرینہ ساتھی جناب وحید ناشادؔ کے حوالے سے کچھ باتیں)
اک عجب امتحاں کا ہے یارو مجھے ان دنوں سامنا
سوچتا ہوں کروں اور کیسے کروں میں کوئی فیصلہ
وہ جو اک شخص ہے دل میں بستا ہے جو دھڑکنوں
کی طرح
آنکھ لگتی ہے شب کو جسے سوچتے
آنکھ کھلتے ہی آتا ہے جس کا خیال
اب اسی شخص کو بھولنا ہے مجھے
یہ نظم خود بتا رہی ہے کہ اسے کہنے کے
عمل میں ہمارے دوست جناب وحید ناشادؔ کس قدر شکست و ریخت سے گزرے ہوں گے۔ فاضل شاعر
کا لہجہ دھیما ہونے کے باوجود ان کے اندر کی تپش قاری کے محسوسات کو گرما جاتی ہے۔
یہ دھیمی آنچ ان کے شعر ہی میں نہیں اُن کے مزاج میں بھی دہک رہی ہے۔اس میں کتنے جذبوں
کا لہو ہوا ہو گا کہ ہمارا شاعر بولنے میں بھی محتاط ہے۔ ان کی ایک نظم سے:
کبھی لب کھولنا چاہوں
تو اندر سے صدا آتی ہے
کوئی بات مت کرنا
کوئی بھی بات مت کرنا
کہ جذبوں کا لہو ہو گا
وحید ناشادؔ واقعی کم گو واقع ہوئے ہیں؛
شعر کہنے میں بھی اور گفتگو کرنے میں بھی۔ میری حلقہ تخلیق ادب میں شرکت 1984 کے اواخر
کی بات ہے، وحید ناشادؔ پہلے سے حلقے میں موجود تھے۔ یہ جو انہوں نے بہت کم لکھا ہے،
اس کے پیچھے بھی شاید یہی احساس کار فرما ہے کہ بقول احمد فاروق:
بات کرنے میں بات جاتی تھی
خامشی میں سوال رکھا ہے
پچھلے
دنوں اختر شادؔ سے بات ہو رہی تھی، کہنے لگے: وحید ناشادؔ کی خاموش مزاجی اور کم گوئی
اپنی جگہ، حلقہ تخلیق ادب کے معاملات میں وہ ہمیشہ بہت سنجیدہ اور سرگرم رہے ہیں۔ میں
اخترشادؔ کی بات کو صاد کرتا ہوں۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا! دیارِ ادب کے معاملات میں
ان کی محنتیں اور لگن آپ کے سامنے ہیں، یہیں سے آپ ان کے 34 برس کے تَلّوُّث کا اندازہ
کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی قبیل کے بھی ہوتے ہیں کہ کام تو وہ بھی کرتے ہیں مگر کام
سے زیادہ ہنگامہ برپا کئے رہتے ہیں:
بس گیا جا کے بادلوں میں کہیں
اپنا آسیؔ بلند بانگ جو تھا
وحید ناشادؔ بلند بانگ نہیں ہیں، خاموشی
سے اپنا کام کئے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ہم دوست بہم تھے، میری کسی بات پر کہنے لگے:
کوئی الٹی سیدھی ہانک دے تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ہوتا، آپ اپنا کام کرتے جائیے،
زمانے کو جواب از خود مل جائے گا۔
بہ این ہمہ اپنے اندر کی بے چینیوں کو
اظہار کی ضرورت ہوتی ہے۔ شعر کا ایک منصب یہ بھی تو ہے کہ وہ آپ کے داخل اور خارج
کے درمیان واضح اور قابلِ ادراک رابطہ فراہم کرتا ہے۔ شاعر بات غمِ جاناں کی کرے یا
غمِ دوراں کی، اس کی سچائی اس کے شعر میں اپنے پورے قد کے ساتھ بولا کرتی ہے۔ یہ جانتے
بوجھتے اور سمجھتے ہوئے بھی کہ:
اس دنیا میں کون ہے ایسا جس کا کوئی درد نہیں
ہے
سب کے اپنے اپنے دکھ ہیں، سب کے اپنے اپنے غم
ہیں
لیکن میرا درد انوکھا ۔۔۔
وحید ناشادؔ نے بہ ظاہر ایک مختلف تناظر
میں اندر کی بے چینیوں کی بات یوں کی ہے:
کبھی تم نے کسی مچھلی کو دیکھا ہے؟
جسے لہریں سمندر کے کنارے تک تو لاتی ہیں
مگر پھر چھوڑ جاتی ہیں
غمِ جاناں اور تعلقِ خاطر وحید ناشادؔ
کی شاعری کا نمایاں پہلو ہے۔ بسا اوقات وہ بڑی سادگی سے بہت نازک بات کر جاتے ہیں،
ایسی نازک کہ اس کو بیان کرنا کسی حباب کو چھو کر دیکھنے کی سی کوشش ہو گی:
اسے اتنا ہی کہنا ہے
کہ اب میں سو نہیں سکتا
اک سپنا جو ٹوٹ چکا ہے
اب اس کی تعبیر ملی ہے
یادوں کی زنجیر ملی ہے
اب تری یاد رلاتی ہے شب و روز مجھے
اب ترا نقش سرِ آبِ رواں بنتا ہے
یہ تو کسی کے پیار نے مجھ کو سکھا دیا
ورنہ یہ انتظار کہاں میرے بس میں تھا
رشتوں اور اقدار کے حوالے سے ان کی ایک
بہت نازک نظم چکر کی آخری سطور نقل کر کے آگے بڑھتا ہوں:
وہی کالج کہ میں جس کے کئی چکر لگاتا تھا
مرے رستے میں آتا ہے
مگر اب سامنے اس کے جوانوں کو کھڑا دیکھوں
تو میرا دل یہ کہتا ہے
کہ ان کا خون پی جاؤں، انہیں کچا چبا جاؤں
کہ اب میری جواں بیٹی اسی کالج میں پڑھتی ہے
ہماری قبیل کے لوگوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ
ہوتا ہے: خارزارِ حیات میں اپنا راستہ خود بنانا۔سب جانتے ہیں کہ یہ بہت کٹھن سفر ہوتا
ہے؛ ایک قدم غلط پڑا اور راہرو بھٹک کر کہیں کا کہیں جا پڑا۔ میں سمجھتا ہوں ہم ان
خوش قسمت لوگوں میں شامل ہیں جو اپنے متعین کردہ راستے سے تھوڑا بہت اِدھر اُدھر ہو
گئے ہوں تو ہو گئے ہوں، کم از کم بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔ مسافر کو راہ پر رکھنے میں حرف
و اظہار کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ آتشِ احساس جس سے ہم شروع سے بنرد آزما رہتے
ہیں، کسی کو کندن بنا جاتی ہے تو کسی کو راکھ کر دیتی ہے۔ یہ آگ دھیمی بھی ہوا کرے،
اس کو مسلسل برداشت کرنا کوئی سہل کام نہیں ہے۔
آگہی آگ ہی تو ہوتی ہے
کوئی کندن کوئی غبار ہوا
ہمارے گرد وپیش کی دنیا میں بہت رنگا رنگی
ہے، ہر رنگ ہر آنکھ میں یکساں نہیں سمایا کرتا۔ حرف و اظہار سے تعلق رکھنے والا طبقہ
بھی عجیب طبقہ ہے؛ کوئی ان کو بے حس اور ظالم قرار دیتا ہے کہ وہ کیفیت جو ایک عام
آدمی کو گنگ کر سکتی ہے، شاعر اس کو بڑی خوبی سے یوں بیان کر جاتا ہے جیسے یہ کوئی
بات ہی نہ ہو۔ حالانکہ یہی نام نہاد بے حسی دراصل اِحساس کی اَساس ہے۔ ہمارے ارد گرد
پھیلے مناظر میں تبدیلیاں لگے بندھے موسموں سے بہت حد تک مختلف ہوتی ہیں۔ بقول شہزاد
عادلؔ:
اس شہرِ خرابات میں ہو جاتی ہے اکثر
وہ بات کہ جس بات کا امکاں نہیں ہوتا
وحید ناشاد کی شاعری میں زندگی کے جن عناصر
کا مذکور ہوا ہے ان کا مختصر سا بیان ہو جائے۔ ہمارے مقامی پیش منظر اور پس منظر میں
بھی اور گلوبل سطح پر بھی کہیں اخلاقی پستی اور منافقانہ روش ہے، کہیں بدلتے رویے ہیں،
دوستی اور دشمنی کی دھوپ چھاؤں ہے، حالات کا جبر اور عدم تحفظ کا احساس ہے، محبتوں
اور نفرتوں کی قوسِ قزح ہے، اندر اور باہر کی فضا کا فرق ہے، اجالے کی قیمت ادا کرنی
پڑتی ہے، خود کو بھی اور دوسروں کو بھی امیدیں دلانی ہوتی ہیں،عمل اور ردِ عمل کا تَمَوُّج
ہے۔ یہی زندگی ہے، اور ہمیں اسی کو جینا ہے، اسی میں اپنے لئے راہِ سفر کا تعین کرنا
ہے، منزلوں کا ادراک کرنا ہے۔ چند ملے جلے اشعار پیش کرتا ہوں۔
قدر و قیمت سے اجالوں کی وہی ہیں آشنا
جن کو اپنا گھر جلا کر روشنی کرنی پڑی
بہت ممکن ہے میں اپنے عدو سے دوستی کر
لوں
کہ اس سے بھی زیادہ کی عداوت یار لوگوں
نے
بکنے لگی ہیں شہر میں آنکھیں بھی آج
کل
رکھے گا کون شہر کے حالات پر نظر
کس قدر ہو گئے محتاط مرے شہر کے لوگ
دوستی ایک سی رکھتے ہیں گل و خار کے ساتھ
دشمن مرے خلاف جو کرتا ہے سازشیں
در اصل اعتراف ہے میرے وجود کا
سب سے پہلا پتھر اس نے مارا تھا
وہ جو مجھ کو اپنی جان سے پیارا تھا
اس نے قد کاٹھ نکالا ہے زمانے میں بہت
وہ مگر سوچ کا بونا ہے ، یہی رونا ہے
اب روکنا پڑیں گے ستم گر کے ہاتھ بھی
بنتی نہیں ہے بات فقط احتجاج سے
آرزوئیں، خواہشیں، ارمان کھو بیٹھا ہوں
میں
کیا جیوں کہ زیست کا سامان کھو بیٹھا ہوں
میں
احباب
کو بجا طور پر شکایت ہے کہ وحید ناشادؔ نے شعر گوئی میں اپنا پورا حصہ نہیں ڈالا۔ اس
کم سخنی کا ایک سبب شاید یہ بھی ہے کہ وہ شعر کہتے نہیں ہیں، شعر کے ہونے جانے کا انتظار
کرتے ہیں۔ ان کی شناسائی ظاہر ہے صرف حلقہ تخلیق ادب اور دیار ادب تک محدود نہیں ہے۔
ان دو اداروں میں تو خیر وہ ایک محرک اور مہتَمم کے طور پر معروف ہیں جو بجائے خود ایک
مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ ایک اور عامل وہی دھیمی آنچ ہے جس میں ان کے جذبات و احساسات
اور الفاظ و معانی دیر تک پکتے رہتے ہیں۔ اور اس کی حدت، جیسا کہ میں پہلے عرض
کر چکا، ان کی غزل سے زیادہ ان کی نظم میں محسوس کی جا سکتی ہے۔ تاہم ایک عجیب بات
یہ بھی ہے کہ زندگی کے گوناں گوں معاملات میں مستقل طور پر بے چین رہنے والا یہ شخص،
اور اپنے اندر کی آگ میں دھیمے دھیمے مگر مسلسل سلگتا رہنے والا یہ شاعر اپنے شعر
کے معاملے میں بہت جلد مطمئن کیسے ہو جاتا ہے۔ اُس کا جواب شاید یہ ہو کہ:
اس کی آنکھوں نے سرِ عام سجایا مقتل
پھر بھی زندہ ہیں مرے خواب، مری آنکھوں میں
زندہ ہوں، اسے یہ تو بتایا ہے کسی نے
پھر بھی زندہ ہیں مرے خواب، مری آنکھوں میں
زندہ ہوں، اسے یہ تو بتایا ہے کسی نے
کس حال میں زندہ ہوں، اسے کون بتائے
ترے شایانِ شاں لفظوں کو یوں ترتیب دینا تھا
کہ لفظوں کے تسلسل سے کوئی زنجیر بن جاتی
تری تصویر بن جاتی
مگر الفاظ جذبوں کا بھلا کب ساتھ دیتے ہیں
لفظ ساتھ نہیں بھی دیتے! سو، میں نے اس
مختصر سی کاوش میں سامنے سامنے کی یہ جو سادہ سی باتیں کی ہیں، میری رسائی بس یہیں
تک ہے۔ جنابِ وحید ناشادؔ کے لہجے کا دھیما پن، ان کے لفظوں کی دھیمی آنچ، ان کے مزاج
کی بردباری اور سنجیدگی ان کے گرد ایک ایسا پروقار ہالہ بناتی ہے جسے پار کرنا کچھ
ایسا آسان دکھائی نہیں دیتا۔ میرے لئے یہی بہت کافی ہے۔
محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
سوموار:
۱۵۔ اگست ۲۰۱۸ء
شُذرہ: یہ مضمون ”دیارِ ادب ٹیکسلا“ کی تقریب ”ایک شام وحید ناشادؔ کے نام“ (ہفتہ 18 اگست 2018ء) میں پیش کیا گیا۔