یہ بات ہے 1984ء کی۔ ستمبر یا اکتوبر کے دن تھے،
ٹھیک ٹھیک تاریخ ریکارڈ میں بھی نہیں ملی۔ اتنا یاد ہے کہ وہ بُدھ کا دِن تھا،
حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کی طرف سے بلاوا آیا تھا۔ یہ کسی بھی باضابطہ ادبی تنظیم
کے باضابطہ اجلاس میں میری اولین شرکت تھی۔ شعری نشستوں میں شاعرانہ مزاج سے
شناسائی کی ضرورت زیادہ ہوا کرتی ہے، جس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ سو، میں
بتائے ہوئے وقت کے عین مطابق مقامِ اجلاس پر (ایچ ایم سی بوائز سکول) پہنچ گیا۔ تب
اِس کا نام ایچ ایف ایف سکول ہوا کرتا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود چوکیدار نے بتایا کہ اجلاس
تو آج ہونا ہے مگر وہ لوگ دیر میں آئیں گے۔ گھر واپس چلا جاتا تو شاید چلا ہی
جاتا، میں نے وہیں ارد گرد وقت گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایچ ایم سی اب بھی ایک
چھوٹی جگہ ہے، تب اور بھی چھوٹی ہوتی تھی۔ ایک چائے خانے پر آپ کتنی دیر بیٹھ سکتے
ہیں؟ یہی کوئی آدھا گھنٹہ؟ سکول کے بالکل سامنے ایک کھلا میدان تھا (بعد میں وہاں
بنگلے بن گئے)۔ لوکل الیکشنز ہونے والے تھے۔ وہاں میدان میں ایک ٹینٹ لگا تھا، میں
ادھر کو نکل گیا۔ مختصر سا اسٹیج بنا تھا، سامنے کوئی ایک سو کرسیاں رہی ہوں گی،
جن میں آدھی خالی تھیں، ایک صاحب تقریر کر رہے تھے۔ کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا، پھر
اُکتا کر مارکیٹ کی طرف نکل گیا۔ چائے پی، سکول پہنچا تو مجھے وہاں اختر شادؔ نظر
آ گئے؛ 1979ء میں ان سے غمِ نان جویں کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تھی، کسی اور کو
میں جانتا بھی نہیں تھا۔ مجھے اُس دن پتہ چلا کہ حضرت شعر بھی فرماتے ہیں۔ ایک ہم
دمِ دیرینہ کا مل جانا بھی کیا کم تھا!
شعرائے کرام ایک ایک کرکے آتے گئے، اور ادھر
ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، احباب سے تعارف ہوا۔ سات آٹھ لوگ جمع ہو گئے تو اجلاس کے
آغاز کا اعلان ہو گیا، اختر شادؔ نے نظامت سنبھالی۔ مجھے حیرت کا سخت جھٹکا لگا جب
اجلاس کی صدارت کے لئے میرا نام لیا گیا۔ بہتیرا کہا کہ: صاحبو! میں تو ان محفلوں
کے آداب سے بھی واقف نہیں ہوں، اور کبھی کسی ادبی اجلاس میں شرکت بھی نہیں کی۔
مجھے امتحان میں نہ ڈالئے!۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی تو میں سکڑتا سمٹتا صدارت کی
کرسی پر بیٹھ گیا۔ اختر شادؔ نے گزشتہ اجلاس کی روداد پڑھ کر سنائی، مختصر سی
روداد تھی جس میں شعراء کا نمونہء کلام پیش کیا گیا تھا۔
اچھے خاصے منجھے ہوئے شعرائے کرام اپنا کلام سناتے گئے اور میں سناٹے میں آتا گیا کہ ’’آسی میاں! اپنے کلامِ خام میں سے جسے تم نے اپنی غالب کُش غزل سمجھ کر آج منتخب کر کے لائے ہو، وہ کم از کم غزل کہلانے کی مستحق نہیں! اور تم بیٹھے ہو کرسیء صدارت پر۔ آج پہلے ہی دن ایسے پرزے اڑیں گے کہ پھر دکھائی نہیں دو گے‘‘۔ مگر وہاں سے مفر کوئی نہیں تھا۔ سو بیٹھا رہا، شعر سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ اپنی اس کاوشِ خام کا کیا کروں۔ تب تک حلقے کے صدر مقبول کاوشؔ کی باری آ گئی تھی اور ان کے بعد میری پیشی تھی وہ بھی اتنے سارے ججوں کے سامنے! کاوشؔ صاحب پڑھ چکے۔ ناظمِ اجلاس نے مجھ سے ’’درخواست‘‘ کی کہ میں اپنے کلام سے ’’نوازوں‘‘!
کسی بھی ادبی تنظیم میں میرا پہلا اجلاس مجھے
بہت بری طرح یہ احساس دلا گیا کہ میرے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ اوزان کی شرط بھی
پوری کر جائے تو بڑی بات ہے، مضمون، غزل، اسلوب، لفظیات، صنعتیں وغیرہ تو سب بعد
کی باتیں ہیں۔ ابھی تو گلے پڑا ڈھول بجانا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ’’سنبھالا‘‘ دینے
کے لئے مختصر سی گفتگو سے آغاز کرنے کا سوچا۔ کہنا چاہتا تھا کہ میں ’’نوآموز‘‘
ہوں مگر منہ سے ’’نو آمیز‘‘ نکلا۔ بہر کیف بات کسی طور سنبھل ہی گئی۔ اختر شادؔ کا
موجود ہونا بھی میرے لئے ڈھارس کا سبب ٹھہرا۔
میرے پاس جو ’’غزل‘‘ تھی، میری باری آتے تک وہ
غزل نہیں رہی تھی۔ میں نے اُس پر ایک عنوان دے دیا تھا ’’ابنِ آدم‘‘ اور نظم کے
طور پر پیش کی تھی، ہر چند کہ اس میں اوزان کے مسائل تھے جن کا ادراک مجھے اُس
نشست سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ ٹینٹ میں تقریر کرتے ہوئے صاحب البتہ میرے کام
آ گئے تھے۔ ان کی جتنی گفتگو میں نے سنی، اس کے ردِ عمل میں ایک شعر موزوں ہو گیا
تھا، جسے میں نے چائے پینے کے دوران اپنی نوٹ بُک میں لکھ لیا تھا۔ یہ شعر اُس
مختصر سی جلسہ گاہ میں گزرے کچھ دقیقوں کا ردِ عمل ہے، یہ میرے ادبی سفر کا پہلا
باضابطہ شعر ہے اور ابھی تک فرد ہے، کہ اس زمین میں کوئی دوسرا شعر مجھ سے نہیں ہو
سکا۔
میرا لہو مجھی کو بیچا، مجھ سے دام بٹور لئے
واہ رے لاشوں کے بیوپاری، مجھ کو
بیچا میرے ہاتھ
محمد یعقوب آسیؔ جمعہ 28؍ اکتوبر 2016ء