جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

میرا پہلا شعر



میرا پہلا شعر


یہ بات ہے 1984ء کی۔ ستمبر یا اکتوبر کے دن تھے، ٹھیک ٹھیک تاریخ ریکارڈ میں بھی نہیں ملی۔ اتنا یاد ہے کہ وہ بُدھ کا دِن تھا، حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کی طرف سے بلاوا آیا تھا۔ یہ کسی بھی باضابطہ ادبی تنظیم کے باضابطہ اجلاس میں میری اولین شرکت تھی۔ شعری نشستوں میں شاعرانہ مزاج سے شناسائی کی ضرورت زیادہ ہوا کرتی ہے، جس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ سو، میں بتائے ہوئے وقت کے عین مطابق مقامِ اجلاس پر (ایچ ایم سی بوائز سکول) پہنچ گیا۔ تب اِس کا نام ایچ ایف ایف سکول ہوا کرتا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود چوکیدار نے بتایا کہ اجلاس تو آج ہونا ہے مگر وہ لوگ دیر میں آئیں گے۔ گھر واپس چلا جاتا تو شاید چلا ہی جاتا، میں نے وہیں ارد گرد وقت گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایچ ایم سی اب بھی ایک چھوٹی جگہ ہے، تب اور بھی چھوٹی ہوتی تھی۔ ایک چائے خانے پر آپ کتنی دیر بیٹھ سکتے ہیں؟ یہی کوئی آدھا گھنٹہ؟ سکول کے بالکل سامنے ایک کھلا میدان تھا (بعد میں وہاں بنگلے بن گئے)۔ لوکل الیکشنز ہونے والے تھے۔ وہاں میدان میں ایک ٹینٹ لگا تھا، میں ادھر کو نکل گیا۔ مختصر سا اسٹیج بنا تھا، سامنے کوئی ایک سو کرسیاں رہی ہوں گی، جن میں آدھی خالی تھیں، ایک صاحب تقریر کر رہے تھے۔ کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا، پھر اُکتا کر مارکیٹ کی طرف نکل گیا۔ چائے پی، سکول پہنچا تو مجھے وہاں اختر شادؔ نظر آ گئے؛ 1979ء میں ان سے غمِ نان جویں کے سلسلے میں ملاقات ہوئی تھی، کسی اور کو میں جانتا بھی نہیں تھا۔ مجھے اُس دن پتہ چلا کہ حضرت شعر بھی فرماتے ہیں۔ ایک ہم دمِ دیرینہ کا مل جانا بھی کیا کم تھا!

شعرائے کرام ایک ایک کرکے آتے گئے، اور ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، احباب سے تعارف ہوا۔ سات آٹھ لوگ جمع ہو گئے تو اجلاس کے آغاز کا اعلان ہو گیا، اختر شادؔ نے نظامت سنبھالی۔ مجھے حیرت کا سخت جھٹکا لگا جب اجلاس کی صدارت کے لئے میرا نام لیا گیا۔ بہتیرا کہا کہ: صاحبو! میں تو ان محفلوں کے آداب سے بھی واقف نہیں ہوں، اور کبھی کسی ادبی اجلاس میں شرکت بھی نہیں کی۔ مجھے امتحان میں نہ ڈالئے!۔ مگر کسی نے ایک نہ سنی تو میں سکڑتا سمٹتا صدارت کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اختر شادؔ نے گزشتہ اجلاس کی روداد پڑھ کر سنائی، مختصر سی روداد تھی جس میں شعراء کا نمونہء کلام پیش کیا گیا تھا۔

اچھے خاصے منجھے ہوئے شعرائے کرام اپنا کلام سناتے گئے اور میں سناٹے میں آتا گیا کہ ’’آسی میاں! اپنے کلامِ خام میں سے جسے تم نے اپنی غالب کُش غزل سمجھ کر آج منتخب کر کے لائے ہو، وہ کم از کم غزل کہلانے کی مستحق نہیں! اور تم بیٹھے ہو کرسیء صدارت پر۔ آج پہلے ہی دن ایسے پرزے اڑیں گے کہ پھر دکھائی نہیں دو گے‘‘۔ مگر وہاں سے مفر کوئی نہیں تھا۔ سو بیٹھا رہا، شعر سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ اپنی اس کاوشِ خام کا کیا کروں۔ تب تک حلقے کے صدر مقبول کاوشؔ کی باری آ گئی تھی اور ان کے بعد میری پیشی تھی وہ بھی اتنے سارے ججوں کے سامنے! کاوشؔ صاحب پڑھ چکے۔ ناظمِ اجلاس نے مجھ سے ’’درخواست‘‘ کی کہ میں اپنے کلام سے ’’نوازوں‘‘!

کسی بھی ادبی تنظیم میں میرا پہلا اجلاس مجھے بہت بری طرح یہ احساس دلا گیا کہ میرے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ اوزان کی شرط بھی پوری کر جائے تو بڑی بات ہے، مضمون، غزل، اسلوب، لفظیات، صنعتیں وغیرہ تو سب بعد کی باتیں ہیں۔ ابھی تو گلے پڑا ڈھول بجانا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو ’’سنبھالا‘‘ دینے کے لئے مختصر سی گفتگو سے آغاز کرنے کا سوچا۔ کہنا چاہتا تھا کہ میں ’’نوآموز‘‘ ہوں مگر منہ سے ’’نو آمیز‘‘ نکلا۔ بہر کیف بات کسی طور سنبھل ہی گئی۔ اختر شادؔ کا موجود ہونا بھی میرے لئے ڈھارس کا سبب ٹھہرا۔

میرے پاس جو ’’غزل‘‘ تھی، میری باری آتے تک وہ غزل نہیں رہی تھی۔ میں نے اُس پر ایک عنوان دے دیا تھا ’’ابنِ آدم‘‘ اور نظم کے طور پر پیش کی تھی، ہر چند کہ اس میں اوزان کے مسائل تھے جن کا ادراک مجھے اُس نشست سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ ٹینٹ میں تقریر کرتے ہوئے صاحب البتہ میرے کام آ گئے تھے۔ ان کی جتنی گفتگو میں نے سنی، اس کے ردِ عمل میں ایک شعر موزوں ہو گیا تھا، جسے میں نے چائے پینے کے دوران اپنی نوٹ بُک میں لکھ لیا تھا۔ یہ شعر اُس مختصر سی جلسہ گاہ میں گزرے کچھ دقیقوں کا ردِ عمل ہے، یہ میرے ادبی سفر کا پہلا باضابطہ شعر ہے اور ابھی تک فرد ہے، کہ اس زمین میں کوئی دوسرا شعر مجھ سے نہیں ہو سکا۔
 میرا لہو مجھی کو بیچا، مجھ سے دام بٹور لئے
 واہ رے لاشوں کے بیوپاری، مجھ کو بیچا میرے ہاتھ

محمد یعقوب آسیؔ جمعہ 28؍ اکتوبر 2016ء

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

پریشانم، چہ ویرانم






پریشانم، چہ ویرانم

جی، میں بات کر رہا تھا، مسلم معاشروں میں زمانہ جاہلیت کے نظریات کا نفوذ۔ یہاں ایک بات واضح طور پر سمجھ لینی چاہئے کہ فی زمانہ دنیا کے مختلف خطوں میں مسلم معاشروں کے اندر جو کچھ عملاً ہو رہا ہے، وہ سارا کچھ اسلامی اصولوں سے منطبق نہیں ہے، یہ ہمارا المیہ ہے۔ اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کو غلط تسلیم کرنے پر تیار نہیں بلکہ عذر گناہ کے مرتکب بھی ہو رہے ہیں۔دنیا میں اسلامی نظام خلافت کہیں رائج نہیں۔ سود کو حلال سے آگے لازمی کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جہاد کے تصور کو تنقیص کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کے نام پر ان کو شمع محفل بنایا جا رہا ہے۔ مخلوط تعلیم عین عنفوان شباب تک چلتی ہے جہاں ۔۔۔ اس سے آگے کیا کہوں؟ نماز اور رقص دونوں عبادت سمجھ لئے گئے ہیں۔ موسیقی کو روح کی غذا کہا جا رہا ہے اور خاکم بہ دہن، کچھ لوگ اس کو اللہ کی کتاب پر ترجیح دینے والے بھی ہیں۔
نماز، روزہ، زکوۃ کا کہیں کھلم کھلا اور کہیں گھما پھرا کر انکار کیا جا رہا ہے۔ جہیز کو وراثت کے اسلامی قانون پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ قرآن شریف کی زبان کو سیکھنا تضییع اوقات سمجھا جاتا ہے۔ یعنی ہمیں کچھ سیکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ایک بندہ مال کمانے کے لئے پیچ در پیچ علوم کے علاوہ تین چار پانچ زبانیں سیکھ لیتا ہے مگر قران اور حدیث کی تفہیم کے لئے عربی سیکھنا کارِ بے کار سمجھتا ہے۔ تفرقہ، فرقہ واریت، شیعہ سنی وہابی دیوبندی بریلوی تبلغی وغیرہ وغیرہ میں ہر ایک کو کلیتاً درست تسلیم کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کا نیا فلسفہ دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ سارے درست ہیں تو ان کے عقائد اور افکار میں جتنے فاصلے ہیں وہ بھی درست؟ تو پھر اللہ اور اس کا رسول کہاں رہ گئے۔
اور اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ عملاً ہو رہا ہے اسے اسلام کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ اسلام کا نام لینے والے ہم نام نہاد مسلمان یا تو اپنے سوا سب کو بیک جنبش زبان کافر قرار دے دیتے ہیں یا یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ یار چھوڑو جو کوئی جس راستے پر ہے سب ٹھیک ہے۔ یعنی حق نا حق برابر؟ ظلم اور کس چیز کو کہا جا سکتا ہے؟ بلکہ اب تو اتحاد بین المذاہب کی پرشور تبلیغ کی جا رہی ہے۔ یعنی اللہ اور رسول کو تسلیم کرنے والا اور اللہ اور رسول کا انکار کرنے والا دوست ہو گا۔ چہ عجب؟ شیطان کی امت اور محمد الرسول اللہ کی امت میں دوستی، کیا تماشا ہے!!!؟ ۔
ترک دنیا کا تصور بھی ایک ایسا ہی شوشہ ہے۔ ارسطو، افلاطون کا زمانہ تو حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے، سو، ان کے افکار انسانی اختراع ہی کہلائیں گے کہ اس دور میں انسان من حیث المجموع اللہ سے کٹ چکا  تھا اور سوفسطائی انداز فکر معاشرے میں فساد برپا کئے ہوئے تھا۔ آج ہم اگر ان لوگوں کی فکری راہنمائی کو تسلیم کرتے ہیں تو قصور وار نہ قرآن ہے نہ صاحب قرآن۔ اسلام نے تو رُہبانیت کا انکار کیا ہے، کوئی شخص خواہ وہ جتنا بڑا عالم ہو، اگر وہ رہبانیت کی کوئی صورت اپنا لے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ رہبانیت جائز ہو گئی۔ اگر ترک دنیا، قوالی، ناچ، شراب، عشق بازی، چلتے دریا میں کھڑے ہو کر چلے کاٹنا؛ یہی سب کچھ حقیقی اسلام ہے تو پھر نبی اور نبی کے صحابی تو ہمارے بابوں ملنگوں فقیروں پیروں سے بہت پیچھے رہ گئے؟ اللہ معاف کرے!۔
مسلمان ہونے کے لئے صوفی، سادھو، سنت، جوگی ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ تو خطرے والی بات ہے۔ اللہ کی شان میں گستاخی، بابا جی کو جائز بلکہ ان کے وقار میں اضافہ؟؟ اللہ رحم کرے۔ اللہ کی شان میں گستاخی جدید شاعری کا خاصہ؟ خدا ایسی زبانوں اور ایسے اقلام پر رعشہ طاری نہیں کرتا تو اس لئے کہ اس نے مہلت کا قانون دے دیا ہے۔ رہی مسلمان کی اس دنیا میں زبوں حالی کی وجوہات اور کفار کی بظاہر پر تعیش زندگی، تو اس پر قرآن اور حدیث میں سب کچھ کھول کر بیان کر دیا گیا ہے، مگر اس کا کیا کیجئے کہ دانشِ افرنگ کے پروردہ اذہان اس کو ایک جھوٹے وعدہ حور کی صورت بنا کر پیش کر دیتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ بات کرنے والا اور بات سننے والا دونوں حیات بعد الموت پر حقیقی  ایمان سے محروم ہیں۔
سچ اور جھوٹ کا ملغوبہ سچ نہیں کہلا سکتا۔ اگر کسی نے سچ میں ایک فیصد جھوٹ ملا دیا تو بھی وہ سچ کے درجے سے گر گیا، اور اگر کسی نے ۹۹ فیصد جھوٹ ملا دیا تو بھی حاصل جھوٹ ہی ہوا۔ میں جی میں آدھا مسلمان ہوں، وہ جی وہ مجھ سے بھی آدھا مسلمان ہے جی اور آپ تو جی آپ مجھ سے اچھے ہیں آپ اسی فیصد مسلمان ہیں جی ۔ استغفراللہ !!!۔ مسلمان وہ ہے جو سو فیصد مسلمان ہے، ورنہ وہ خود کو اور لوگوں کو تو دھوکا دے سکتا ہے، اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
لوگ دھڑلے سے قران شریف کی آیات کی غلط املا لکھتے ہیں اور پھر اس کا جواز بھی بناتے پھرتے ہیں اور دعوے بھی کرتے ہیں کہ جی ہم دانشور ہیں۔ شراب کو جائز سمجھنے والے بھی مسلمان، زناء کو قانونی اور جائز بنانے والے بھی مسلمان، سود پر معیشت استوار کرنے والے بھی مسلمان، رشوت کو طاقتور بنانے والے بھی مسلمان، تو ایسوں کے فکری سربراہ بھی ویسے ہی ہوں گے؛ رقص کو نماز قرار دینے والے، سازینوں پر قرآن کی تلاوت کرنے والے، مساجد میں شور مچا کر لوگوں کی مت مارنے والے، تشریح اور تفسیر میں ڈنڈی بلکہ ڈنڈا مارنے والے۔
نظریہء ضرورت اور دور حاضر کا تقاضا قرار دے کر اسلام کے احکام کو موقوف کرنے والے کسی ایسے اسلام پر ہی متفق ہو سکتے ہیں جو ترک دنیا میں ملتا ہے۔ اسلام کی حقیقی روح تو یہ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں اسلام نافذ ہو گا تو وہاں اس کا پھل ملے گا۔ یہاں کوئی ملغوبہ چلتا رہے گا تو وہاں بھی ویسا کچھ ہی ملے گا۔
دیگر مذاہب کے لوگوں سے لین دین تجارتی معاہدے جنگی معاہدے تک تو درست مگر ان سے دوستی؟ نہیں ہر گز نہیں۔ ہاں آپ کہتے ہیں کہ جی اگر میں ان سے دوستی نہیں کرتا تو میری سلامتی کو خطرہ ہے۔ سلامتی کو خطرہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ میں مسلمان کیوں کہلاتا ہوں؟ تو پھر دوستی نہ کرنا بلکہ دشمنی کرنا فرض عین ہے۔ ورنہ دوستی کے نام پر غلامی کر کے جو سلامتی حاصل ہو گی، وہ تذلیل کے سوا کچھ نہیں اور سلامتی کب تک، کہاں تک؟ کیا یہ سلامتی واقعی سلامتی ہے؟
پریشانی تو کجا، اب تو اس پر حیرت بھی نہیں ہوتی۔ فکر و احساس پر ویرانی چھا جائے تو اس کا حاصل یہی کچھ ہو گا۔ پریشانم نہ حیرانم؛ چہ ویرانم!۔


فقط: محمد یعقوب آسیؔ           ہفتہ: 8۔ اکتوبر 2016ء۔

جمعرات، 6 اکتوبر، 2016

ہم یہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں




قومی سطح پر اردو کے مؤثر نفاذ میں ہم کیا کچھ کر سکتے ہیں؟ یہ سوال ہے۔
اس کے جواب میں عرض کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم یہ کچھ تو کر ہی سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔1۔ ماضی کو کریدنے اور اُس زمانے کی ذمہ داریاں نبھانے نہ نبھانے وغیرہ کا سلسلہ ترک کر دیں۔

۔2۔ اپنے اپنے ماحول میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق درست اور شائستہ اردو کو رواج دیں۔ مادری زبان کی نفی مقصود نہیں۔

۔3۔ اس وقت مختلف املاء کمیٹیوں کی جو سفارشات منظر پر موجود ہیں ان کا اپنی استعداد کے مطابق جائزہ لیں اور ان میں بہتری تجویز کرتے رہیں۔

۔4۔ اصطلاحات سازی اور دیگر زبانوں میں رائج اصطلاحات کو اردو میں ڈھالیں۔ ڈھالنا اور ترجمہ کرنا دو مختلف عمل ہیں۔

۔5۔ کوئی فرد یا ادارہ (سرکاری ہو تو بہتر ہے) ایک آدھ ایسی ویب سائٹ بنائے (اور چلائے بھی) جہاں احباب اپنی تجاویز اور مشورے پیش کر سکیں۔

۔6۔ عمومی ذریعہ تعلیم اردو ہو۔ چھوٹی سطح سے مقامی زبان میں پڑھایا جائے۔ تیسری چوتھی جماعت سے اردو کا تعارف ہو اور چھٹی جماعت سے ذریعہ تعلیم ہی اردو ہو۔ ہائی سکول میں دیگر زبانیں جن کا ہماری معاشرت سے تعلق ہے (عربی، فارسی) اور انگریزی (بین الاقوامی) بطور مضمون پڑھائی جائیں۔ کالج کی سطح پر انگریزی اور اردو متوازی چلائی جائیں۔ یونیورسٹی میں چونکہ میدانِ مطالعہ کی تخصیص ہو جاتی ہے، لہٰذا ذریعہ تعلیم سکالر کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ تاہم اردو ادب اور اطلاقی اردو کو قائم رکھا جائے۔ نصاب کا تعین کرنے والے اداروں کو واضح ہدایات دی جائیں جن میں قومی مقاصد کا بہت واضح تعین بھی ہو جائے۔

۔7۔ مقامی اور مادری زبانوں کی اردو کے خلاف محاذ آرائی کا ماحول ختم کیا جائے۔ ان زبانوں کے اسماء و افعال کو اردو میں شامل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ فطری حد بندی مزاج کے اشتراک سے از خود طے پا جائے گی۔ اس میں کوئی قدغن لگانے کی نہ ضرورت ہے نہ فائدہ۔

۔8۔ سرکاری اداروں اور دفاتر کی زبان اردو ہو، بین الاقوامی سطح کے ادارے ملک کے اندر اردو چلائیں اور ملک کے باہر اپنی ضروریات کے مطابق جیسے بھی چل سکے۔ اسلام اور پاکستان ۔ ان دونوں کا احترام بہر طور ہر سطح پر ملحوظ رہے۔

۔9۔ مقتدرہ قومی زبان اور اکادمی ادبیات میں اردو کی ترویج کے حوالے سے خصوصی پیش رفت کا اہتمام کیا جائے۔ تاکہ محض قابل ہی نہیں بلکہ قابل اور مخلص لوگ اپنا کردار مؤثر طور پر ادا کر سکیں۔

۔10۔ اردو کی ترویج پر بہت سارا کام جو پہلے ہو چکا ہے اس سب کو یک جا کیا جائے اور اس کی عام قاری تک رسائی آسان کی جائے۔ کتابوں کی اشاعت کو ممکنہ حد تک سستا کیا جائے کہ زیادہ تر کتابیں عام قاری کی رسائی آسان ہو سکے۔ سادہ اور سستے ایڈیشن کا رواج ایک بار چلا تھا، اسی نہج کو پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے۔

۔11۔ گھروں میں بولی جانے والی زبان کو انگریزی کی غیرضروری ترجیح کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اپنی اپنی مادری اور علاقائی زبانوں کے ساتھ اردو کو رواج دیا جائے۔

۔12۔ سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت خلوص کی ہے۔ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی اس کے ہم رکاب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

فقط ۔۔ محمد یعقوب آسی (ٹیکسلا) پاکستان ۔ جمعرات 6 اکتوبر 2016ء۔
 


ہفتہ، 27 اگست، 2016

کمہار بیتی





کمہار بیتی

’’آہا! تو استاد چٹکی بھی رونق افروز ہیں!‘‘ لالہ مصری خان نے ہماری نشست گاہ میں داخل ہوتے ہی نعرہ بلند کیا۔ ’’یہ تو اور بھی اچھی بات ہے، مگر تمہارے لئے نہیں!‘‘ اب کے اُن کا روئے سخن ہماری طرف تھا۔ہماری کیفیت اگر بری نہیں تھی تو کچھ ایسی اچھی بھی نہ تھی۔ لالہ اپنی بات کہہ کر صوفے پر ڈھیر ہو چکے تھے۔ ہم نے نگاہوں میں ڈھیر سارے سوالیہ نشان بھر کر اُن کے رُخِ وَردَہ کا جائزہ لیا۔ لگا کہ مزاجِ گرامی سے الف حسبِ معمول غائب ہے اور گرمی باقی ہے۔ ہم انہیں مخاطب کرنے بلکہ ان کے بے رحم تبصرے کا جواب دینے کے لئے الفاظ جمع کر رہے تھے کہ استاد بول پڑے: ’’ہوا کیا ہے مصری خان؟ کیوں لال بھبوکا ہو رہے ہو؟‘‘ استاد کا لہجہ اور الفاظ کی چبھن دونوں ہم آہنگ ہو گئے تھے۔

ہم عتابِ مزید سے بچ جانے کی مسرت بھی پوری طرح حاصل نہیں کر پائے تھے کہ لالہ مصری خان کی دھاڑ سنائی دی: ’’پتہ نہیں آج کل بے وزنے مصحفی اتنے وافر کیوں ہیں! وہ پڑھنے کی چیز تھی ہی نہیں اور جنابِ غالبِ دوراں فرما رہے ہیں کہ یہ غزل ہے‘‘۔ ہماری کچھ ہمت بندھی کہ وقتی طور پر ہم محفوظ ہیں۔ عرض کیا: ’’ہم کیا عرض کریں لالہ؟ ہمیں کیا معلوم کہ آپ کیا پڑھ بیٹھے ہیں‘‘۔ کہنا تو ہم یہ بھی چاہ رہے تھے کہ آپ کا پڑھنے سے تعلق کب سے قائم ہو گیا؛ مگر ہمیں یہ کہنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ لالہ گرجے: ’’دم لو، دم لو! بتاتا ہوں‘‘ اور پھر لالہ نے جو واردات سنائی اور جن الفاظ میں سنائی ان کو ضبطِ تحریر میں لانا اپنے بس میں نہیں، خلاصہ پیش کئے دیتے ہیں۔

ہوا غالباً یہ تھا کہ کسی نو آموز نے اپنی کوئی چیز لالہ مصری خان کو ٹیگ کر دی اور عنوان دیا: ’’میری تازہ غزل‘‘۔ خان لالہ پہلے تو اُس کی بحر کی تلاش میں بحرِ منجمد شمالی سے جنوبی تک کی برف توڑتے رہے، مگر بحر ناپید! پھر وہ قوافی کی طرف متوجہ ہوئے، وہاں بھی مایوسی ہوئی تو مضامین میں جھانکا؛ ادھر بھی انہیں ویرانہ ملا بلکہ ان کے الفاظ میں ’’ایسے بارہ سالہ لڑکے کا عشق، جو عہدِ شیراز میں ہوتا  تو خود معشوق کے رتبے پر فائز ہوتا‘‘۔

لالہ کہہ رہے تھے: ’’ہوا ہی کچھ ایسی چل پڑی ہے۔ جس شعبے میں جو بھی نیا آتا ہے خود کو تیس نہیں ساٹھ مار خان سمجھتا ہے۔ اور اردو غزل؟ اس بے چاری کی تو وہ بے حرمتی ہوتی ہے کہ .... (لالہ کے ناقابلِ اشاعت فرمودات محذوف) .... وہ جسے نہ زبان و بیان کا پتہ ہوتا ہے نہ علامت کا نہ رعایت کا نہ بحور و قوافی کا وہ اپنے دودھ کے دانت اس بے چاری صنف پر تیز کرتا ہے۔ جب اسے یہ زَعم ہو جائے کہ  غزل میں ولی سے آگے نہیں تو پیچھے بھی نہیں، تو دیگر اصناف شعر کو کچھ ایسے تختۂ مشق بناتا ہے کہ اُن کی مُشکیں کس کے رکھ دیتا ہے۔ جب بڈھا ہونے کو آتا ہے، مضامین اس کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، قوت متخیلہ بانجھ ہو جاتی ہے، الفاظ پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے تو اسے اپنے عہدِ معشوقی کی محبوبہ غزل پھر یاد آ جاتی ہے۔ ستر بہتر کا ہو کر یہ فیصلہ صادر کر دیتا ہے کہ غزل کا دور نہیں رہا، اور نثر لکھ کر اُسے نظم تسلیم کروانے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے‘‘۔

استاد چٹکی لالہ کی ہر بات پر یوں سر ہلاتے جاتے تھے کہ ہمیں ان کی گردن میں مہروں کا ہونا بھی مشکوک سا لگا۔ تاہم انہوں نے ہم پر نہایت مہربانی فرماتے ہوئے ہمیں زحمتِ سوال سے بچا لیا۔ کہنے لگے: ’’تو، اس میں بدرے کا کیا قصور؟ تم نے کیوں کہا کہ تمہارے لئے اچھی نہیں؟‘‘ لالہ مصری خان نے بلند بانگ قہقہہ لگایا، اور خاموش ہو گئے۔ ہم سے نہ رہا گیا: ’’استاد نے کچھ پوچھا ہے خان لالہ!‘‘ جواب ملا: ’’تم بھی خود کو غزل کا شاعر مانتے ہو۔ مانتے ہو نا؟‘‘ بڑا عجیب سوال تھا، ہم کیا عرض کرتے!۔

اللہ بھلا کرے استاد چٹکی کا، انہوں نے اگرچہ ہمیں  خَرکار قرار دے دیا تھا  تاہم اُن کا انداز اتنا ادبی  تھا کہ خان لالہ پھر سے قہقہہ لگا اٹھے۔ وہ الگ بات کہ  اس  قہقہہ ثانی کا اختتام کچھ کھینچو کھینچو جیسا تھا۔ استاد نے کہا تھا: ’’ڈِگا کھوتے توں، تے وَٹ کمہیار تے‘‘۔

*****
بدرِ احمر ۔۔۔ جمعہ 26؍ اگست 2016ء

پیر، 25 جولائی، 2016

مہکتی بولیاں





مہکتی بولیاں

بولی پنجابی  لوک شاعری کی بہت قدیم اور مقبول صنف ہے۔ اس کا صرف ایک مصرع ہوتا ہے، جس کا ایک مخصوص وزن ہے۔ اس وزن سے ہٹ جائے تو اس کو بولی  نہیں کہا جا سکتا۔ عام خیال یہی ہے کہ یہ صنف پنجاب میں زمانہ قدیم سے مقبول ہے۔  پنجاب کی مٹی میں گندھی ہوئی اور سرسوں کی مہک سے لدی اور ہوئی یہ صنف اپنے اندر نہ صرف بے پناہ ثقافتی رچاؤ رکھتی ہے بلکہ کومل جذبات کے اظہار کا ایک خوبصورت وسیلہ بھی ہے۔ مثال کے طور پر:
لے جا چھلیاں بھنا لئیں دانے، مترا دور دیا
ٹانگا آ گیا کچہریوں خالی، سجناں نوں قید بول گئی
جوگی اتر پہاڑوں آیا، چرخے دی گھوک سن کے
یار چھڈیا گلی دا پھیرا، پنجاں دے تویت بدلے

گزشتہ دہائی کے دوران وطنِ عزیز کی علاقائی زبانوں کی اصناف میں اردو شاعری کا رجحان کھل کر سامنے آیا ہے۔ ان تجربوں میں ماہیا، کافی اور دوہا، جو پنجابی سے آئی ہیں، نمایاں ہیں۔ یہ خیال بھی گزشتہ دہائی میں پنپا کہ پنجابی لوک شاعری کی قدیم صنف بولی  کو اردو میں لایا جائے۔ بولی میں، چونکہ، ایک خاص لے میں رہتے ہوئے، ایک مصرعے میں خیال مکمل کرنا ہوتا ہے، لہٰذا یہ اظہار میں جامعیت کی متقاضی صنف، اختصار کی بہت عمدہ مثال ہے۔ 

فن کے حوالے سے بولی کی پوری چال چوبیس ماتراؤں کی ہوتی ہے۔ پہلے چرن میں چودہ ماترائیں ہوتی ہیں، پھروسرام جو بالعموم خالی ہوتا ہے۔تاہم اس میں دو ماتراؤں تک کی گنجائش ہے۔ دوسرے چرن میں دس ماترائیں ہوتی ہیں۔ لوک بولی کے پہلے چرن کے شروع میں لگھو آئے یا گورو، چرن کا اختتام گورو پر ہوتا ہے۔ بولی کا حسن یہ ہے کہ وسرام پر مضمون کاپہلا حصہ مکمل ہو جائے۔یعنی اظہار کے اعتبار سے بولی کا پہلا چرن بیت کے پہلے مصرعے کی طرح ہو اور دوسرا دوسرے مصرعے کی طرح؛ دونوں چرن مل کر ایک مضمون مکمل کریں۔ گائیکی کے تقاضوں سے قطع نظر، وسرام خالی ہو تو اچھا تاثر دیتا ہے بشرطے کہ پہلے چرن کے آخری لگھو کو کھینچ کر پڑھا جا سکے۔ 

اردو عروض میں اس کا قریب ترین وزن فعلن (چھ بار) یعنی بارہ سبب کے برابر بنتا ہے۔ تاہم اس میں دو تین باتوں کو دھیان میں  رکھنا ہو گا:  
۔(1) معنی اور بُنَت دونوں اعتبار سے بولی کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ سات سبب کا ہے۔ اس میں شعر کے مصرعے کی طرح مضمون کا ایک حصہ آتا ہے۔ دوسرا حصہ پانچ سبب کا ہے، معانی کے اعتبار سے اس کو شعر کا دوسرا مصرع سمجھ لیا جائے۔ 
۔(2) ہر حصہ سبب خفیف (ہجائے بلند) پر ختم ہو گا۔ عروض میں وسرام کی گنجائش نہیں ہے، اس کو حذف کر دیا گیا ہے۔  
۔(3) بولی میں حرکات و سکنات کی ترتیب میں سخت پابندی لازم نہیں۔ تاہم  ایک سے زیادہ سبب ثقیل (دو سے زیادہ ہجائے کوتاہ) متواتر نہ آئیں۔  بولی کا اختتام سبب خفیف پر ہونا چاہئے۔

 جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے، جیسے پہلے کہا جا چکا، بولی  پنجاب کی دھرتی سے پھوٹی ہے۔ اس میں موضوع کوئی بھی ہو پنجاب کی ’’رہتل‘‘ کا عنصر غالب رہتا ہے۔ چھلیاں، کھلیان، دانے، مکئی، ٹانگا، کچہری، قید، جوگی، گھوک، چرخہ، پھیرے، تویت، پتن، دریا، کھیتی، ہل، پنجالی، واہن، کھال بنے، بیڑی، پگ، گوری، سَک، سُرمہ، مَجھ، گاں، ساگ، سرہوں، اچار، امبیاں، کھٹے،مکھن، دُدھ، کھُوئی، ٹاہلی، بیری، توت، تیلی، نتھ، مندری، اور ایسے بے شمار دیگر ثقافتی مظاہرہیں جو بولی کا تانا بانا بناتے ہیں۔ چند مثالیں اور دیکھئے:
نتھ والی نے بھنا لئے گوڈے، تیلی والی کھال ٹپ گئی
کچی ٹٹ گئی جنھاں دی یاری، پتناں تے رون کھڑیاں
نہ جا چھڈ کے دیس دوآبہ، امبیاں نوں ترسیں گی
میرے یار نوں مندا نہ بولیں، میری بھانویں گت پٹ لے

لوک صنفِ شعر کو ’’لوک‘‘ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ ایک تو اس کے اولین شاعر کا نام حتمی طور پر معلوم نہیں ہوتا دوسرے سینہ بہ سینہ منتقل ہونے کی وجہ سے اور کچھ مقامی لہجوں کے زیرِ اثر، مقبول فن پاروں میں لفظی سطح پر بھی فرق آ جاتا ہے؛ کہیں کم کہیں زیادہ۔ ایک اہم فرق وسرام کے خالی یا پر ہونے کا بھی ہوتا ہے۔ کسی گلوکار نے بھی اگر گائیکی کی سہولت کے لئے پر کر دیا تو وہ صورت بھی چل نکلی۔ لہٰذا اس میں لفظی فرق کی بحث پر غلط یا صحیح کا فیصلہ نہیں سنایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر منقولہ بالا چاروں بولیوں کی مندرجہ ذیل عبارت بھی یکساں طور پر مقبول ہو سکتی ہے:
نتھ والی نے بھنا لئے گوڈے، تے تیلی والی کھال ٹپ گئی
کچی ٹٹ گئی جنہاں دی یاری، اوہ پتناں تے رون کھڑیاں
ناں جا چھڈ کے دیس دوآبہ،نی امبیاں نوں ترسیں گی
میرے یار نوں مندا نہ بولیں،تے میری بھانویں گت پٹ لے

’’لوک شاعری کرنا‘‘ بڑی عجیب سی اصطلاح ہو گی، پہلے بیان ہو چکا کہ وہاں شاعر عام طور پر معلوم نہیں ہوتا۔ جب کہ میں اگر بولی تخلیق کرتا ہوں تو میرا نام بھی اس کے ساتھ چلے گا۔ اس لئے یوں کہنا مناسب تر ہو گا کہ میں نے لوک شاعری کے تتبع میں کچھ بولیاں کہنے کی کوشش کی ہے ( اگر حسنِ اتفاق سے میری کوشش کو لوک کی حیثیت حاصل ہو جائے تو یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہو گا)۔ بولی کے فطری مزاج کے تحت میری طبع زاد بولیوں کے مضامین بھی زمین اور تہذیب سے جڑے ہوئے ہوں گے، تاہم جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے شاعر اپنے گردو پیش سے بھی بے گانہ نہیں رہ سکتا۔ سو، میری کہی ہوئی بولیوں میں کچھ مضامین روایت سے کسی قدر ہٹے ہوئے بھی آئے ہیں۔ بہ این ہمہ میری کوشش رہی ہے کہ ان کا اسلوب روایت سے جڑا ہوا ہو اور تشبیہات و استعارات زمین سے پھوٹتے ہوئے محسوس ہوں؛ ملاحظہ فرمائیے۔
پھل جھڑ گئے کریڑی نال سڑ گئے، ٹہنیاں تے کنڈے رہ گئے
ساڈے وَیریاں نال یارانے، وِیراں وچ وَیر وَڈھواں
اسیں ویچ گھراں دے بوہے، گلی چ گواچے پھردے
اج سورج لہندیوں چڑھیا، تے برفاں چ اگ لگ گئی
میرا سہمیا شہر کراچی، سمندراں چوں سپ نکلے
بوسنیا چ بُسکن بچڑے، تے مانواں دیاں نینداں اڈیاں
کندھاں چیچنیا دیاں چیکن، دھرتی نے دھاڑاں ماریاں
موت پنڈ دیاں گلیاں چ نچدی، حویلیاں چ واجے وجدے
تیرے پیڑ کلیجے اٹھدی، تے ویکھدا میں، کِویں ہسدوں
چنی لاہ دے چنار دیے نارے، نی اج تیرے وِیر مر گئے
اک ماراں مارے گجھیاں، تے رون وی نہ دیوے چندرا
جس منگویں عینک لائی، اوہ دوجیاں نوں راہ دَسدا
کیہ دسیے انکھ دے قصے، جے سر اتوں پگ ڈگ پئے
ہن میرے لک نوں آوے، اوہ پہلوں میری بانہہ بھن کے
موت بوہے اگے بھنگڑا پاوے، حویلی چ دھمالاں پیندیاں
میری گندل ورگی وینی ویکھیں وے کتے توڑ نہ دئیں

پروفیسر انور مسعود نے ۱۹۹۰ء میں ایک انٹرویو میں مشورہ دیا تھا کہ یہ پنجابی لوک شاعری کی سوغات ہے، اس میں آپ ایک سطر میں پوری نظم بیان کر جاتے ہیں۔ اس صنف کو اردو میں لانا چاہئے۔اکثر اصناف کے ساتھ یہ ہوا کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہونے پر ان میں وہ اصل ثقافتی رچاؤ کم ہو گیا؛ اردو ماہئے مثال ہمارے سامنے ہے۔ عین ممکن ہے کہ بولی کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو، تاہم میں نے پنجابی کی اس مقبول صنف کو اردو کا جامۂ اظہار دینے کی ابتدائی مشق کے طور پر کچھ بولیاں کہیں جو ماہنامہ ’’کاوش‘‘ ٹیکسلا (اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں شائع ہوئیں۔ میری اولین کاوش ہونے کی وجہ سے مضامین اور خیال کی گہرائی اور گیرائی شاید وہ نہ رہی ہو گی جو اصل یعنی لوک پنجابی بولی میں پائی جاتی ہے۔ تاہم میری ارادی کوشش تھی کہ موضوعات اور اسلوب روایتی رہیں تاکہ ایک دم اجنبیت کا احساس پیدا نہ ہو (کہ زبان بدلی تو مضامین بھی جاتے رہے)۔ 
دل کا ہے کھیل انوکھا دونوں ہارتے ہیں
دو آنسو، اک رومال، اک شیشی خوشبو کی
اک تیری یاد کا ساون، اک رومال ترا
کہیں دور کوئی کرلایا، آدھی رات گئے
پھر پھول کھلے زخموں کے، درد بہار آئی
شبِ تار فراق کی آئی، اشکوں کے دیپ جلیں
اک ہجر کا مارا تڑپا، دھرتی کانپ اٹھی
اک تارا دل میں ٹُوٹا، زخمی اشک ہوئے
من ساون گھِر گھِر برسا، روح نہال ہوئی
یادیں الّھڑ مٹیاریں، کیسی دیواریں
ترے شہر کے رستے پکّے، کچّا پیار ترا
وہ سانجھ سمے کی سرسوں، یہ دل کولھو میں
کہیں دور کوئی کرلایا، دھرتی کانپ اٹھی
دل جھل مل آنسو جگنو، تارے انگیارے
اک بیٹی ماں سے بچھڑی، رو دی شہنائی
سپنے میں جو تو نہیں آیا، نندیا روٹھ گئی
بیلے میں چلی پُروائی، میٹھی تانوں کی
پھر یاد کسی کی آئی، جیسے پُروائی
میں نے ہجر کی تان جو چھیڑی، بانسری رونے لگی

دوستوں سے بے تکلفی اور فکری سانجھ کی بدولت کچھ شگفتہ نگاری بھی در آیا کرتی ہے۔ اسے آپ چاہیں تو ’’تجربہ‘‘ قرار دے دیں، مگر میرے نزدیک یہ افتادِ طبع کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ چند نمونے پیش کرکے اپنی گزارشات کا اختتام کرتا ہوں:
دے کے کال کرن دا لارا، ترنجاں چ جٹی رُجھ گئی
جٹ بنیاں تے پھردا بڈورا، ہتھ چ موبائل پھڑ کے
جیہڑے پنڈ نوں نہ جانا ہووے، اوہدا کاہنوں راہ پچھنا

شذرہ:
اس مضمون میں ماہنامہ ’’کاوش‘‘ ٹیکسلا(اکتوبر ۱۹۹۹ء) میں شائع شدہ مضمون کے کم و بیش سارے مندرجات آ گئے ہیں۔ طبع زاد اردو بولیاں میری اردو نظم کی کتاب ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘ (اشاعت ۲۰۱۵ء) میں، اور پنجابی بولیاں میری پنجابی شاعری کی کتاب ’’پنڈا پیر دھرُوئی جاندے‘‘ میں شامل ہیں۔

محمد یعقوب آسیؔ .... سوموار: ۲۵؍ جولائی ۲۰۱۶ء


جمعہ، 15 جولائی، 2016

اصطلاحات کی اردو میں تحویل






اصطلاحات کی اردو میں تحویل


ایک توجہ طلب بات! کہ ہم کسی  لفظ کو کیوں بدلنا چاہتے ہیں؟ ظاہر ہے سہولت کے لئے اور اس لئے کہ اپنے انفرادی علمی میدان کے مطابق ہر شخص ان الفاظ، اصطلاحات اور اسماء کو بہتر طور پر سمجھ سکے اور سمجھا سکے۔ اب اگر میں انگریزی کا ایک مشکل لفظ نکال کر اس کی جگہ فارسی یا عربی کا اتنا ہی مشکل لفظ ڈال دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ تراجم آسان تر ہونے چاہئیں۔ اس میں ادبیت اور تراکیب سازی کا اہتمام قطعاً ضروری نہیں۔ ہمارے اصطلاح ساز کے ہاں کچھ رابطہ الفاظ (کا، کے، کی، اور، پر، میں، سے؛ وغیرہ) پتہ نہیں کیوں ناپسندیدہ ہیں۔ یا ہم عربی اور فارسی ترکیب سازی کا جو ماحول ادب کی زبان میں دیکھتے ہیں وہی بازار اور لیبارٹری میں بھی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اصطلاحات سازی میں اردوئے معلیٰ یا مسجع زبان کی بجائے تفہیم، بلاغت اور ادائیگی کی سہولت کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہئے۔

زبان تو زندگی کے سارے میدانوں کے لئے ہوتی ہے اور ہر علمی میدان کی طرح عملی شعبوں کی لفظیات بھی اپنی اپنی ہوتی ہیں۔ جمالیات، قواعدِ لسان، صرف و نحو، ترصیع و تسجیع کی اہمیت بالکل بجا، مگر اپنے میدان میں! اصطلاحات کی تحویل میں ہمیں اپنے لوگوں کو زبان دان نہیں بنانا ان کے لئے آسانی پیدا کرنی ہے اور ان کے شعبوں کو زبان دینی ہے؛ زبان دانی کا شعبہ الگ ہے۔ اپنے اپنے شوق، رجحانات اور ترجیحات پر ہر فرد کو آزادانہ فیصلے اور مزید طلبِ علم کا اختیار حاصل ہے۔ 

روزمرہ کی زبان کے طور پر اصطلاحات اور تراجم میں اگر ہم ایسی تفصیلات میں پڑ جائیں مثال کے طور پر "ربڑ ایک درخت کا نام بھی ہے، غلیل میں لگنے والی فیتی بھی ربڑ ہوتی ہے۔ شیشوں کے درمیان اور رگڑ کو روکنے کے لئے بھی ربڑ ہوتی ہے، ان سب میں لفظی سطح پر بھی فرق ہونا چاہے"۔ میرا نہیں خیال کہ یوں ہم کوئی آسانی بہم پہنچائیں گے۔ اپنے اپنے فیلڈ کے لحاظ سے ایک ہی لفظ متعدد مفاہیم بھی رکھ سکتا ہے۔ ایک دو مثالیں: ۔۔ گوڈا ۔۔ مستری کا اپنا ہے، پہلوان کا اپنا ہے، ہڈی جوڑ والے کا اپنا ہے، ٹھنڈی کُٹ کا اپنا ہے، حتیٰ کہ چاند کا گوڈا اپنا ہے۔ ۔۔ ہانڈی ۔۔ مستری کی اپنی ہے، باورچی کی اپنی ہے، عطار کی اپنی ہے، خمیر اٹھانے والے کی اپنی ہے، انجینئر کی اپنی ہے۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں بنا، نہ ہانڈی کا نہ گوڈے کا۔ ایسے الفاظ رائج کیجئے۔ عوام بھی سمجھتے ہیں، خواص بھی سمجھتے ہیں اور کم و بیش ہر متعلقہ شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ کس ہانڈی یا کوڈے کی بات ہو رہی ہے۔

اطباء مولی کے نمک کو مولی کا نمک کیوں نہیں لکھتے، جوہرِ بادنجان  ہی کیوں لکھتے ہیں؟   ہومیو پیتھی والوں سے کوئی پوچھے کہ (AquaTurmerika) ہی کیوں، ہلدی کا پانی کیوں نہیں؟ عام خوردنی نمک جو بازار میں 10 روپے کلو ملتا ہے میڈیکل سٹور پر وہ 500 روپے کا 50 گرام کیسے ہو جاتا ہے؟ اس کا ایک اجنبی سا نام جو کسی جناتی زبان میں لکھا ہوتا ہے اور بس! وہ انگریزی بھی نہیں ہوتی! 

ایک زمانے میں ہمیں جنرک ناموں کا دورہ بھی پڑا تھا۔ ڈیٹول ساٹھ برس پہلے بھی اسی نام سے  معروف تھا، آج بھی اسی نام سے معروف تھا۔ دورے کے زمانے میں اسے جو نام تفویض کیا گیا وہ کم از کم ایسا ضرور تھا کہ اسے استعمال کرنے کی نوبت نہیں آتی تھی، جرثومے بھی نام سنتے ہی مرگِ مفاجات کا شکار ہو جاتے ہوں گے! اس فقیر کی طرف سے یادِ ماضی کا ایک تحفہ سمجھ لیجئے! وہ تھا: diiodohydrooxychloroxylenol ۔ کہئے کیسا لگا! 


ع: میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند



محمد یعقوب آسیؔ

جمعہ 15 جولائی، 2016ء

بدھ، 15 جون، 2016

نیلا کالا آسمان





نیلا کالا آسمان


بسمل بزمی کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے سائے لہراتے دیکھ کر ہمارا فکرمند ہو جانا عین فطری عمل تھا۔ یہ حضرت تو ہر بات کو چٹکی میں اڑا دیا کرتے ہیں، آج کیا ہوا۔ ہمارے استفسار پر کہنے لگے: "مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، اور پھر وہیں مر مُک جاؤں گا۔ میری مدد کرو یار بدرِ احمر۔" پوچھا: پتہ بھی تو چلے آخر کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ بولے: "تمہیں پتہ ہے لغویات برداشت کرنا میرے بس میں نہیں۔" یہ کہا اور سوچ کے بحرِ مردار میں ڈوب گئے۔ جیسے بھی بن پڑا ہم انہیں کھینچ کھانچ کے لالہ مصری خان کے ہاں لے گئے۔

خان لالہ کے بارے میں یہ جو کہتے ہیں کہ ان کے سامنے مجسمہء آزادی میں پنہاں عشتار دیوی کی بے لباس روح بھی فرفر بولنے لگے، کچھ ایسا غلط نہیں ہے۔ بزمی صاحب جو وہی اپنا کہا دہرائے جا رہے تھے: "مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، اور پھر وہیں مر مُک جاؤں گا"۔ لالہ کی ایک دھاڑ پر پانی ہو گئے اور لگے گھگیانے، نیلے آسمان، چیتے اور گدھے کی کہانی سنا ڈالی۔ وہ کہانی آپ کو نہیں پتہ؟ چلئے اس کا خلاصہ سن لیجئے۔

گدھا کہتا تھا "آسمان کالا ہے"، چیتا کہتا تھا "نہیں! نیلا ہے"۔ بات بڑھی تو شاہِ بیاباں تک پہنچی، دونوں کی طلبی ہو گئی، مؤقف سنا گیا۔ حکم جاری ہوا کہ "چیتے کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔"چیتا پریشان کہ مؤقف بھی میرا درست اور سزا بھی مجھی کو؟ وہ بے وقوف صاف بچ نکلا؟ عرض کیا: "بادشاہ سلامت! ایسا کیوں، کیا میں نے غلط کہا؟" حاکم گَرجا: "نہیں! تو نے سچ کہا اور تجھے سزا سچ کہنے کی نہیں ملی۔ تجھے سزا ملی ہے اس بات کی کہ تو نے گدھے سے بحث کیوں کی؟"

لالہ مصری خان نے کہا تو  کچھ نہیں، چیتے کی سی خشونت بھری نظروں سے بسمل بزمی کو گھورا؛ پھر ان کا بلند بانگ قہقہہ دیر تک فضا میں دھاڑتا رہا۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ خان لالہ کے قہقہے میں ڈھیچوں ڈھیچوں کا تاثر کیوں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرِ احمر بدھ 15 جون 2016ء

جمعہ، 27 مئی، 2016

لفظ (یاد) رہ جائیں گے ۔۔۔ احمد فاروق







لفظ (یاد) رہ جائیں گے

محمد یعقوب آسی کے فنِ شعر پر احمد فاروق کا مختصر تبصرہ (بہ شکریہ: اَدَب زار)



یہ جو ایک مسلمہ طرزِ نقد و نظر رائج ہے کہ شاعر کے ہاں فلاں فلسفہ، یہ جذبات اور وہ خیالات پائے جاتے ہیں اور یہ کہ ان اجزا کی موجودگی اس دعوے کا کافی و شافی ثبوت ہے کہ یہ شاعری ہے، مجھے اس سے اختلاف ہے۔ کیا اگر فلسفہ جذبات اور خیالات نثر میں بیان کر دیے جائیں یا محض منظوم کر دیے جائیں تو یہ شاعری بن جائیں گے؟

شعر بننے کے لئے بنیادی عنصر لفظ کا برتنا (بلکہ بسر کرنا) ہے۔ برتنے کا ہنر تو لفظ کے برتن میں اپنے معانی ڈال دے۔ ادھر لفظ کے اندر پہلے سے بھرے معانی ہی چھلکائے جا سکیں تو بڑی بات ہو۔ اور پھر لفظ جوڑ کر ایسا مصرع بنانا جو لفظوں کی بے روح قطار کی تہمت سے بچ سکے کارِ دیگر ہے۔
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

حشو و زوائد سے پاک مصرع زبانِ حال سے دعویٰ کرے کہ اک لفظ ہو نہ پائے اِدھر سے اُدھر مرا۔ پھر لفظوں کو یوں ہم آمیز کرنا کہ آمیختہ نئے معانی سے چمک جائے، کہ پتھر کے ٹکڑے مل کر پانی کا سا بہاؤ دکھائیں۔ فطرت کی مرصع سازی سے ایک مثال دیکھیں کہ آکسیجن کے اپنے معانی، ہائیڈروجن کے اپنے معانی، ان کی بندش سے بنا پانی، یکسر مختلف کہ اجزا کے معانی یک قلم منسوخ۔ مگر ان اجزا کو یوں ملانا ایک جوکھم ہے۔

اس سب جوکھم سے عہدہ برآ ہونے کی مثالیں دیکھئے:
شہر پہ چھایا ہے سناٹا
کیا جانے کب کیا ہو جائے
اُن زلفوں کی یاد دلائیں
شام کے لمبے لمبے سائے

ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دیے
اجنبی تھا راستہ اور چل دیے
شدّتِ شوقِ سفر مت پوچھیے
ناتواں دل کو لیا اور چل دیے
اہل محفل کی جبینیں دیکھ کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور چل دیے
عشق پروانوں کا بھی سچا نہیں
شمع کا شعلہ بجھا اور چل دیے

میری بچی بھولپن میں بات ایسی کہہ گئی
مجھ کو یاد آئیں بڑی شدت سے اماں جان کل

کیا خبر کیسی کیسی بہشتیں نظر میں بسا لائے تھے
مر گئے لوگ شہرِ بلا میں اماں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
میرے جذبوں کے بازو بھی لگتا ہے جیسے کہ شل ہو گئے
سرد لاشوں میں ٹھٹھری ہوئی بجلیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
یوں خیالوں کی تصویر قرطاس پر کیسے بن پائے گی
لفظ کھو جائیں گے فن کی باریکیاں ڈھنڈتے ڈھونڈتے
ہم سا بے خانماں ہو کسی رنج میں مبتلا کس لئے
اپنا گھر ہی نہ تھا تھک گئیں آندھیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
لو، کسی کوئے بے نام میں جا کے وہ بے خبر کھو گیا
روزناموں میں چھپتی ہوئی سرخیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے
آدمی کیا ہے یہ جان لینا تو آسیؔ بڑی بات ہے
سوچ پتھرا گئی رشتۂ جسم و جاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے

میں اسے دیکھتا تھا، وہ مجھ کو
خامشی میں کلام کیا کیا تھے
شہر میں ہم اداس رہتے ہیں
دشت میں شاد کام کیا کیا تھے
شام ہونے کو آئی تو سوچا
آج کرنے کے کام کیا کیا تھے
جو ستارے بجھا دیے تو نے
گردشِ صبح و شام! کیا کیا تھے

بند کوچے کے دوسری جانب
راستے بے شمار نکلے ہیں

زندگی اک دم حسین لگنے لگی مجذوب کو
اک نگاہِ ناز نے کیا کیا نہ جادو کر دیے
تھا وہ اک یعقوب آسیؔ دفعتاً یاد آ گیا
میری گردن میں حمائل کس نے بازو کر دیے

ازل کے حبس کدوں میں چلی ہوا تازہ
نگاہِ ناز نے وا کر دیے ہیں باب عجیب

من پاگل جو ساری رات بناتا ہے
لے جاتا ہے دِن تصویریں بھی اپنی

اس شہر کا کیا جانئے کیا ہو کے رہے گا
ہر شخص بضد ہے کہ خدا ہو کے رہے گا

سرِ شام ہے جو بجھا بجھا یہ چراغِ دل
دمِ صبح پاؤ گے اطلاعِ فراغِ دل

اعتماد اپنے لکھے پر کچھ مجھے یوں بھی ہوا
پڑھتے پڑھتے بھول جاتا ہوں، بتا دیتے ہیں دوست

زندگی درد کا دریا ہی سہی پر، ہمدم
موج در موج بڑا لطف ہے پیراکی میں

عمر نے چہرے پہ صدیوں کی کہانی لکھ دی
زندگی ٹیڑھی لکیروں نے لکھی ہاتھوں پر

آپ کرتے ہیں بات خوابوں کی
اور ہم نیند کو ترستے ہیں
اک عجب سلسلہ شکست کا ہے
اشک بھی ٹوٹ کر برستے ہیں

فلسفہ، جذبات، خیالات آپ جانیں، مجھے تو ان اشعار میں وہ لفظ ملے جو یاد رہ جائیں گے۔

احمد فاروق .... بدھ ۲۵؍ مئی ۲۰۱۶ء