سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر شاہد محمود ذکیؔ کے پہلے شعری مجموعہ ’’خوشبو کے تعاقب میں‘‘ پر ایک تأثر (کتاب کی تقریبِ رونمائی [مؤرخہ ۱۲؍ اپریل ۱۹۹۶ء حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا] میں پڑھا گیا)
صاحبو! سب سے پہلے تو مجھے شکریہ ادا کرنا ہے عزیزی شمشیر حیدر کا
جنہوں نے مجھے شہرِ اقبال کے ابھرتے ہوئے شعر جناب شاہد محمود ذکیؔ سے متعارف
کرایا اور اسی دن یعنی ۲۰؍دسمبر ۱۹۹۵ کو جناب ذکیؔ کی غزلوں
پر مشتمل پہلی کتاب ’’خوشبو کے تعاقب میں‘‘ عطا فرمائی۔ پھر مجھے شکریہ ادا کرنا
ہے جناب عادل صدیقی کا جنہوں نے شاعر کے متعلق نہ صرف بنیادی معلومات اور اہم
اطلاعات سے نوازا ہے بلکہ اس کے نقاد کے لئے کچھ حدود کا تعین بھی کر دیا ہے۔ لکھتے
ہیں: تتلیاں پکڑنے کی عمر سے ذرا آگے پہنچ کر اگر کوئی شخص شعر گوئی کا ہنر پالے
تو دیکھنے اور سننے والوں کو حیرت ضرور ہوا کرتی ہے اور اگر کوئی انسان زندگی کے
اکیسویں سال میں ہی صاحبِ تصنیف بھی ہو جائے تو اور بھی حیرانی کی بات ہو گی۔ تو
پھر آپ سچ جانئے کہ شاہد ذکیؔ ابھی اکیس کے سن میں ہی داخل ہوا ہے کہ خوشبو کے
تعاقب میں نکل پڑا ہے، خدا اس نونوان کو نظرِ بد سے بچائے۔‘‘ جناب عادل صدیقی کے
بقول ’’یہ بھی شکیب جلالی، سبط علی صباؔ ، آنس معین اور عارف جلیل کے قبیلہ کا فرد
معلوم ہوتا ہے اور پھر خوشبو کے تعاقب میں نکلنا کارِ آسان بھی نہیں۔ اگر اس
نوجوان نے اس غیر معمولی دشوار سفر پر چل نکلنے کا عزم اور حوصلہ پکڑ لیا ہے تو
ہماری دعا ہے کہ یہ زندگی میں خوشبوئیں سمیٹتا رہے اور انسانی ماحول یا معاشرے کو
عطربیز کرتا رہے۔‘‘
خود شاہد ذکیؔ کہتے ہیں: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاہد ذکیؔ کی شاعری
میں کچا پن ہے۔ مجھے اس بات کا بخوشی اعتراف ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کچا
پن ہی میری شاعری کا حسن ہے۔ بقول محترمہ پروین شاکر کہ میں نہیں چاہتی کہ میرا فن
کچی عمر میں ہی فلسفے کا عصا لے کر چلنا شروع کر دے‘‘۔ شاہد کا کہنا ہے: ’’ویسے
بھی میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں آنکھوں میں خواب، کتابوں میں پھول اور ہونٹوں
پر نغمے رکھے جاتے ہیں اور انہی خوابوں پھولوں اور نغموں کا عکس ہی میری شاعری ہے۔
کبھی کبھی یہ خواب پھول اور نغمے ٹوٹ کر بکھرتے ہیں تو دکھ تو ہوتا ہے نا! یہی وجہ
ہے کہ کہیں کہیں آپ کو میرے کرب آمیز تفکر کی جھلکیاں نمایاں نظر آئیں گی۔ ان کرب
ناک داستانوں کو رقم کرنے میں میری شعوری کوششوں کو ہرگز ہرگز دخل نہیں ہے۔‘‘
مناسب ہو گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے ڈاکٹر قمر تابش کے الفاظ دوستوں کے
گوش گزار کر دوں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں: ’’بارش کا پہلا قطرہ کتنا بھی بڑا کیوں
نہ ہو، زمین کی پیاس نہیں بجھا سکتا۔ہمیں یقین ہے کہ شعروں کے حوالے سے اُس کی آنے
والی ہر کاوش پہلے سے کہیں بہتر ہو گی اور خوب سے خوب تر کا سفر انسانی فطرت کے
حوالوں سے جاری رہے گا۔ شاعری کے حوالے سے شاہد محمود ذکی کا قلم قبیلے کے قدیم اور
جدید لکھاریوں کے درمیان پورے قد سے کھڑا ہے اور اپنے بھر پور جذبوں کے ساتھ خوشبو
کے تعاقب میں ہے، اپنی معصوم اور پیاسی کوششوں کے ساتھ۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین اس
کے شعروں کی بعض سہواً فنی فروگزاشتوں کو برداشت کریں گے اور اسے بھرپور حوصلہ
دیتے ہوئے بہتر سے بہتر شعر کی تخلیق کا موقع فراہم کریں گے۔‘‘ بہت شکریہ ڈاکٹر
صاحب، کہ آپ نے وہ بات کہہ دی جو مجھے بھی کہنی تھی۔
پھر، مجھے شکریہ ادا کرنا ہے شاہد ذکی کے قریبی دوست قیصر فداؔ کا
بھی اور ندیم اسلام آمرؔ کا بھی جن کے ملفوظات سے مجھے بات کرنے میں آسانی ہو گئی
ہے۔ ایک بات البتہ مجھے بڑی عجیب محسوس ہوئی کہ ’’خوشبو کے تعاقب میں‘‘ کے شاعر
شاہد محمود کا تخلص ذکیؔ جو کتاب کے سرورق پر تو لکھا ہے اور کتاب میں شامل مضامین
میں بھی آیا ہے مگر تہتر غزلوں، ایک حمد اور ایک نعت پر مشتمل چورانوے صفحات پر
پھیلے پانچ سو چھتیس اشعار میں یہ لفظ ذکیؔ بطور تخلص ایک بار بھی نہیں آیا۔ بلکہ
شاعر نے اپنے نام کا پہلا لفظ شاہد بطور تخلص باندھا ہے۔ اس کو میں یوں دیکھتا ہوں
کہ شاہد محمود نے تکلفاً اپنے نام کے ساتھ ایک عدد تخلص چسپاں کرلیا ہے ورنہ وہ
سیدھے سادے ۱نداز میں براہ راست اسی
نام سے پہچانا جانے کا خواہش مند ہے جو اُسے زندگی کے ساتھ ملا اور جو بچپن سے آج
تک بلا امتیاز ہر سطح پر اس کے ساتھ رہا یعنی ’شاہد‘۔ یہی براہ راست انداز اس کی
شاعری میں جا بجا نہ صرف نظر آتا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو بے تکلفی کی حدود سے
آگے نکلتا دکھائی دیتا ہے:
آرزوئیں فضول ہوتی ہیں
گویا کاغذ کا پھول ہوتی
ہیں
ذرا سی بات پہ کیا یوں
پھلا کے منہ چلے جانا
جوانی تو جوانی ہے شرارت
ہو ہی جاتی ہے
تا دمِ تحریر میری شاہد سے دو ملاقاتیں ہوئی ہیں اور فی الحال مجھے
اس کے شخصی مزاج کا کوئی اندازہ نہیں ہے اور شعر پر بات کرنے کے لئے یہ ایک اچھا
اتفاق ہے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ ذاتی مشاہدہ اشعار کے تجزیے پر اثر انداز ہو کر کسی
حد تک ہی سہی جانب دارانہ صورت اختیار کر لے۔ اپنی شاعری میں شاہد کبھی تو اپنی
عمر سے بہت بڑا دکھائی دیتا ہے اور کبھی ایک ننھا سا بچہ اور کبھی ایک ایسا نوجوان
جیسا وہ بظاہر ہے۔ اس کے کچھ نوجوان اشعار ملاحظہ ہوں:
بھیگی رتوں کے قرب سے تن
جھومنے لگا
بارش کے لمس نے مجھے لذت
عجیب دی
اسی لئے میں نہیں اب
سنوارتا خود کو
میں جب سنورتا ہوں تو بے
طرح بکھر جاتا ہوں
کچی تھی عمر عشق کی کچی
تھی سوچ بھی
ایسے میں حادثات کو دیکھا
تو ڈر گئے
اس کی شاعری میں دکھائی دینے والا سال خوردہ بوڑھا گرگِ باراں دیدہ
اپنی ذات کا اظہار کچھ یوں کرتا ہے:
زندگی تو نے مرا حال عجب
کر ڈالا
اب مجھے موت بھی دیکھے گی
تو ڈر جائے گی
مری اک عمر کی محنت سے جو
مکان بنا
وہ میرے بچوں کو سستا
دکھائی دیتا ہے
بچوں کی سی بلکہ ’بچگانہ‘ معصومیت کا اظہار شاہد کے ہاں:
میں پھول ہوں تو ہونٹ کو
تتلی بنا کے مل
میں چاند ہوں تو جسم کا
ہالہ بھی دے مجھے
کوئی بتلا نہیں سکتا کہ
مٹھی میں چھپا کیا ہے
کوئی چہرے سے عادت کا
تصور کر نہیں سکتا
کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بار بار مجھے ایسے لگاکہ شاہد نے شاعری نہیں بلکہ ڈائری لکھی ہے اور اپنے روزمرہ واردات، تأثرات، یاد داشتیں اور افکار جس طرح وہ وارد ہوئے رقم کرتا گیا ہے:
وہیں پہنچے جہاں سے ہم
چلے تھے
سفر کے واہمے ہیں اور ہم
ہیں
یہ مرے شعر تو نہیں شاہد
یہ ہیں میری کتاب کے آنسو
پھر آج مجھے میری ضرورت نے
ستایا
پھر آج تجھی سے میں تجھے
مانگ رہا ہوں
میرے قاتل کے خد و خال سے
لگتا ہے مجھے
یہ کسی دور میں محبوب رہا
ہے میرا
اس بات سے مراد ہرگز یہ نہیں کی شاہد نے زندگی کے نشیب و فراز کو
کبھی سنجیدگی سے محسوس نہیں کیا یا یہ کہ وہ ڈائری لکھ کر خود ساری ذمہ داریوں سے
دست بردار ہو کر بیٹھ رہا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ شاہد نے زندگی کا مشاہدہ کیا ہے
اور اہل قلم ہونے کے ناتے پوری ذمہ داری سے اپنے منصب کو نبھانے کی سعی کی ہے۔اس
نے اپنے ارد گرد کے دگرگوں معاشرے کو دیکھا بھی ہے محسوس بھی کیا ہے اور اپنے قاری
کو اپنے احساس میں شریک بھی کیا ہے:
ماں ہر اک لمحہ اسی سوچ
میں گم رہتی ہے
جب مرا بچہ جواں ہو گا تو
کیسا ہوگا
تو نے تو ارادے ہی مرے
توڑ دیے ہیں
گزرے گا سفر کیسے کھڑا
سوچ رہا ہوں
اجتماعی سفر میں جب اسے
اپنے ساتھ کوئی بھی دکھائی نہیں دیتا تو تہ چلّا اٹھتا ہے:
اُس قوم نے کیوں مجھ سے
بغاوت کی اے مالک
جس قوم کی خاطر میں لڑا،
سوچ رہا ہوں
زندگی کے تجربے اور یقین کی مبہوت کن سطح اس کے بہت سے اشعار میں نظر آتی ہے۔ حیاتِ گریز پا کے تجربات کی فلسفیانہ توجیہ ملاحظہ ہو:
راز کوئی بھی ہو نہیں
چھپتا
راز آوارہ گرد ہوتا ہے
خواب ٹوٹیں تو کچھ نہیں
ہوتا
خواب بکھریں تو درد ہوتا
ہے
عشق کا ساتھ دینا مشکل ہے
عشق صحرا نورد ہوتا ہے
اُن کی خوشیاں بھی عارضی
ہوں گی
جن کے غم جاوداں نہیں
ہوتے
فکر اور فن دونوں کا منبع انسان کی ذات کے اندر کہیں چھپا ہوتا ہے۔
شاید اسی لئے اظہار کی ابتدا عموماً داخلی سطح سے ہوتی ہے۔ یہ داخلی سطح انسانی
شخصیت کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ شاہد کے داخل میں ایک ایسی ٹھنڈی ٹھار روشنی ہے جو
کسی بہت ہی ’پرائیویٹ‘ قسم کے چاند یا جگنو کی مرہونِ منت ہے۔ اِس کی نقرئی کرنیں
اُس کے الفاظ میں کچھ اس طرح جھلملاتی ہیں:
کیا وہ بھی مجھے میری طرح
سوچ رہا ہے
میں چاند جسے چھت پہ کھڑا
سوچ رہا ہوں
شاہد یہ بات شہر کو حیران
کر گئی
چڑیا کی رہنمائی کو جگنو
نکل پڑے
اے چاند اُسے کہہ دے کہ
سپنے نہ دکھائے
اے چاند اُسے کہہ دے میں
اب جاگ گیا ہوں
شہر کا کہہ کے مجھے دشت
میں لے آئے ہیں
گویا جگنو بھی شرارت پہ
اتر آئے ہیں
پہلا شعری مجموعہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ شاعر اور قاری کے
درمیان پہلا رابطہ ہوتا ہے اور اگر پہلا رابطہ ترسیلِ احساس کا فریضہ انجام نہ دے
سکے تو شاعر اپنے قاری سے کٹ کر رہ جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر اگر شاعر اپنے دل کی
دھڑکنیں اور خون کی گردش اپنے الفاظ کو عطا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو محبتیں اس
کی راہ میں گل بدست بلکہ فرش راہ ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا شاہد کی یہ کتاب یہ
مقصد حاصل کر رہی ہے؟ جواب میں شاہد کے کچھ اشعار پیش کرتا ہوں:
ہم نے تمہارے شہر سے
مانگا نہیں تجھے
ہم نے تمہارے شہر کو
ویراں نہیں کیا
اے مرے شہر کے لوگو، مجھے
تنہا کر دو
میری وحشت کو تماشا نہ
بناؤ، جاؤ
ہر خوشی آخری نہ تھی میری
ہر خوشی آخری نظر آئی
مجھے نہ روکو کہ صحرائے
مرگ سے آگے
مجھے حیات کا رستہ دکھائی
دیتا ہے
تیرے آنے پہ بھی نہیں
چھلکے
لگ رہا ہے کہ مر گئے آنسو
ناکام محبت کا سفر کیا ہے
نہ پوچھو
اک لاش ہے جو رہنے کو گھر
ڈھونڈ رہی ہے
سب نے کچے گھڑے کا دُکھ
دیکھا
کس نے دیکھے چناب کے آنسو
میں تو اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ شاہد نے زندگی کو تمام زاویوں سے
دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ جاگتی آنکھوں سے زندگی کا نظارہ کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔
یہاں ضبط مشکل ہے اور ضبطِ مسلسل تو اور بھی مشکل ہے۔ یہ کیفیت جب اُس کی جان کو
آتی ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے:
ع ’’میں ضبطِ مستقل سے نہ
مر جاؤں اے خدا!‘‘
اور خود ہی جواب بھی دیتا ہے کہ
ممکن ہے تیرے صبر کا یہ
امتحان ہو
شاہدؔ غمِ حیات کا مقصد
کوئی تو ہے
اور میرا مقصد؟ میرا مقصد شاہد کی شاعری کو اس طرح پیش کرنا تھا کہ آپ کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ شاہد کا اپنا دعویٰ تو یہ ہے کہ:
مرے نقاد کو شاہدؔ بڑا
حیران کرتی ہے
مرے الفاظ کی ندرت، مری
سوچوں کی گہرائی
آپ کیا کہتے ہیں، غور کیجئے گا، شاہد کی شاعر کی شاعری پر بھی اور میری گزارشات پر بھی!
محمد یعقوب آسی ۔۔۔ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۵ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں