منگل، 27 اکتوبر، 2015

جینے مرنے کا فن



جینے مرنے کا فن
(سید عارف کے شعری مجموعہ ’’ لہو کی فصلیں‘‘ پر یہ تاثراتی مضمون پاکستان یوتھ لیگ واہ کینٹ کے اجلاس مؤرخہ ۹؍ جنوری ۱۹۹۲ء میں پیش کیاگیا)


میں روشنی ہوں
افق افق پھیلنا ہے مجھ کو
عروقِ ہستی سے زہرِ ظلمت نکالنا ہے
مجھے تمنا کا گوشہ گوشہ اجالنا ہے

سید عارف کی کتاب ’’لہو کی فصلیں‘‘ اور اس کا موضوع ایک اعتبار سے اِس نظم میں مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے۔ وادئ کشمیر، خطۂ جنت نظیر آج جہنم کا نمونہ بنی ہوئی ہے اور ہر حساس آنکھ پر اس وادئ گل رنگ کو خوں رنگ ہوتے دیکھ کر جو گزرتی ہے اس کا ادراک مجھے اور آپ کو سب کو ہے۔ سید عارف نے نعت کے زیرِ عنوان مسلمانانِ عالم کی زبوں حالی اور بے بسی کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں مجھے ایک خاص نکتہ دکھائی دیتا ہے؛ یہ مصرعے دیکھئے:
ع             زباں پہ نام ترا، دل میں خوف کے اصنام
ع             ترا پیام محبت، مرا ضمیر غلام
ع             انا فروش ہوں نیلام ہو گیا ہوں میں
ع             اسیر گردشِ ایام ہو گیا ہوں میں
ع              یہی سزا ہے مری اور یہی مرا انجام
ع              کہ حادثاتِ زمانہ کی ٹھوکروں میں رہوں

یہ ہے وہ اصل بات کہ ہم خود کے لئے مخلص نہ رہے تو ہم پر زمانے بھر کے آلام و مصائب نے ہلہ بول دیا۔ یہ صورتِ حال صرف کشمیر میں نہیں پوری دنیا میں ہے۔سید عارف نے کشمیر کو پوری اسلامی دنیا کے لئے علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ’دخترِ کشمیر کی پکار‘ میں وہ امتِ وسطیٰ کی حالت زار کا جس انداز میں نقشہ کھینچتے ہیں اس کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی، اور ہاں! یہاں بات صرف داد دینے کی نہیں، بات ہے محسوس کرنے کی اور غم میں سانجھی بننے کی اور اس کا مداوا کرنے کے عزم کی۔ یہ دعوت بھی ہے، دعا بھی، تاریخ بھی اور احساس بھی جس کا ایک تاثر ’کشمیری ماں کی دعا‘ میں ملتا ہے:
خدائے عالم
مرے وطن کے یتیم شہروں میں
پھر سے کوئی محبتوں کا رسول اترے
کبھی تو چہروں سے
بے یقینی کی دھول اترے

سید عارف نوحہ نہیں کرتا، بلکہ اپنے عزم کا اظہار کرتا ہے اور عمل کی دعوت دیتا ہے:
کہ میں مسکراتے ہوئے
موت کی وادیوں سے گزرنے کا فن جانتا ہوں
کہ میں روشنی بن کے
تاریکیوں میں بکھرنے کا فن جانتا ہوں
کہ میں سینۂ سنگ میں بھی اترنے کا فن جانتا ہوں
میں جینے کا مرنے کا فن جانتا ہوں

یہ مرنے کا فن ہی زندگی کی ضمانت ہے ۔ اور سید عارف اس لئے بھی زندہ رہنا چاہتا ہے کہ اسے حقِّ آزادی حاصل ہے، کہ اس کی نسبت رسول ہاشمی ﷺ سے ہے جنہوں نے جنہوں نے جہاں میں آدمی کا بول بالا کیا اور ظلمات کا دل چیر پر اجالا کیا۔ سید عارف مرتا ہے تو اس لئے کہ اسے مر کر زندگی تخلیق کرنی ہے، اسے اپنے لہو سے روشنی حاصل کرنی ہے اور:
مجھے صدیوں سے دشتِ شب میں
آرزوؤں کی جبیں پر
صبحِ نو کا اک حسیں جھومر سجانا ہے
مجھے عارف 
ہر اک وحشت کدہ مسمار کرنا ہے
کہ مجھ کو آگ کا ہر ایک دریا پار کرنا ہے

اس کی دعوت حسین بن کر جینے اور مرنے کی دعوت ہے، یہ جسارتوں کے گلاب کھلانے کی اور حرفِ بقا سے شناسائی کی دعوت ہے:
کہ میں
لوحِ ارض و سما پر لکھا
ایک حرفِ بقا ہوں
کہ میں حریت کی اک ایسی صدا ہوں
جسے کوئی دیوار بھی روک سکتی نہیں ہے

اُس کے پیشِ نظر ایک ایسا مردِ حر ہے جو بدی کی بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرا جاتا ہے۔ جو اپنے دشمن کی سوچ پڑھ لینے کی قدرت رکھتا ہے، جو خوشبوؤں کا پیمبر ہے، جو روشنی کی علامت ہے:
میں اک علامت ہوں روشنی کی
وہ روشنی جو ضمیر صبحِ ازل سے پھوٹی
خدائے کون و مکاں کا عکسِ جمال ہوں میں
کہ جس کی خاطر خدا نے ارض و سما تراشے
ادب کرو میرا دنیا والو
کہ میں پیمبر ہوں خوشبوؤں کا
محبتوں کا رسول ہوں میں

اسے بدگمانیوں کے زہر کا پوری طرح ادراک ہے، وہ بدگمانی جو اعتماد اور یقین کے رشتے توڑ دیتی ہے، جو آدمی کو ذرہ بنا دیتی ہے، جو زندگی کی تازگی چھین لیتی ہے، جو ذہنِ انسانی کو تاریک کر دیتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ:
تضادِ قول و عمل کی شب کا طلسم ٹوٹے
کبھی تو شامِ گمان گزرے
کبھی تو صبحِ یقین پھوٹے

سید عارف نے اِس کتاب میں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔ ایک سچے اور کھرے انسان کو اُس کی قوت کا احساس دلایا ہے، اسے امید بخشی ہے، ولولۂ سفر بھی دیا ہے اور نشانِ منزل بھی:
ہر مجلس میں ہر زنداں میں
اک حشر اٹھانا ہے مجھ کو
ظلمت کا جفا کا وحشت کا
ہر نقش مٹا نا ہے مجھ کو
اِس پار بھی رہنا ہے عارف
اُس پار بھی جانا ہے مجھ کو

اُس نے اپنے زبان میں جاودانی اور الوہی پیغام دیا ہے، اب اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا میرا کام ہے، آپ کا کام ہے۔


 محمد یعقوب آسی ۔۔۔ 9 جنوری 1992ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں