بدھ، 26 اگست، 2015

اپنے بارے میں مختصر مختصر


اپنے بارے میں مختصر مختصر


نام: محمد یعقوب، تخلص: آسیؔ 
پیدائش (میٹرک کی سند کے مطابق): یکم جنوری ۱۹۵۳ء
رسمی تعلیم: بی اے: پرائیویٹ (ملتان یونیورسٹی) ۱۹۷۸ء
روٹی روزی: ڈپٹی کنٹرولر امتحانات، جامعہ ہندسیہ ٹیکسلا (ریٹائرڈ: ۳۱ دسمبر ۲۰۰۷ء)
مشقِ سخن:
اردو اور پنجابی (غزل، نظم و نثر، ریڈیو ڈراما)
اولین شائع شدہ کوششیں:
ماہنامہ ’’پنجابی زبان‘‘ لاہور ۱۹۷۲ء ایڈیٹر ڈاکٹر رشید انور۔
اور ... مہینہ وار ’’لہراں‘‘ لاہور ۱۹۷۲ء ایڈیٹر سید اختر حسین اختر۔
مطبوعہ تصانیف:
۱۔ ’’فاعلات‘‘ اردو کے لئے عروض کا نیا نظام (۱۹۹۳ء) دوست ایسوسی ایٹس لاہور
۲۔ ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘( اردو نظمیں) مارچ ۲۰۱۵ء، الف لام میم پبلی کیشنز، ٹیکسلا
۳۔ ’’پنڈا پیر دھرُوئی جاندے‘‘ (پنجابی شاعری) اپریل ۲۰۱۵ء، الف لام میم پبلی کیشنز، ٹیکسلا
۴۔ ’’لفظ کھو جائیں گے‘‘( اردو غزلیں) مئی ۵ا۲۰ء، الف لام میم پبلی کیشنز، ٹیکسلا
۵۔ ’’خوشبو اور پہیلی‘‘ (نثری تخلیقات اردو)  اپریل ۲۰۱۸ء آواز پبلی کیشنز، اسلام آباد
انٹرنیٹ تصانیف:
۱۔ فاعلات کا دوسرا ایڈیشن (ترمیم اور اضافے کے ساتھ) بشمول: آسان علمِ قافیہ اور عروض اور چھندا بندی۔
۲۔ ’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ شائقینِ عروض کے استفسارات پر مبنی اسباق۔
۳۔ ’’حرف سفیر‘‘ ہم عصر شعراء کی کتابوں کی تقریظات
۴ ۔ ’’بھلے لوگ‘‘ معاصر ادبی شخصیات 
۵۔ ’’زبانِ یارِ من‘‘ فارسی زبان کے مختصر قواعد اوراہلِ قلم کے لئے اہم نکات
۶۔ ’’تھا وہ اک یعقوب آسیؔ ‘‘ سرنوشت
۷۔ ’’اچیاں لمیاں ٹاہلیاں‘‘ نثری تخلیقات پنجابی
۸۔ ’’ناراض ہوائیں‘‘ ریڈیو ڈرامے


ادبی سرگرمیاں:
اکتیس برس کا عرصہ( ۱۹۸۴ء تا ۲۰۱۵ء) مقامی سطح پر سرگرمِ عمل ادبی تنظیموں میں شامل رہا: صدر، جنرل سکریٹری اور سکریٹری نشر و اشاعت، کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ ماہنامہ ’’کاوش‘‘ ٹیکسلا کا مدیر مسؤل بھی رہا۔  پھر قویٰ ویسے نہ رہے،  تاہم لکھنے پڑھنے کا عمل دمِ تحریر جاری ہے۔ 
ریڈیو ڈراما:
اکتوبر 2015ء میں پنج ریڈیو (یو ایس سے) پر متعارف ہوا۔ وہیں ریڈیو ڈراما لکھنے اور ساتھ کے ساتھ صداکاری  کی طرف میلان ہوا۔ اب تک میرے تحریر کردہ  (پنج ریڈیو پر پیش کردہ) ڈراموں کی مختصر تفصیل:
۔1۔ ناراض ہوائیں: معاشرتی اقدار میں بگاڑ، اور ایک عام آدمی کا المیہ
اس میں چاچا رفیق کا کردار بھی ادا کیا۔
۔2۔ صاعقہ: گھریلو زندگی کا ایک شگفتہ پہلو
 اس میں طفیل کا کردار بھی ادا کیا۔
۔3۔ ماں اور ماں: ایک خاتون دو روپ ماں، اور ساس 
اس میں میاں کا کردار بھی ادا کیا۔
۔4۔ کھوٹی دمڑی: کھوکھلے کروفر کے پیچھے چھپی کچھ تلخ باتیں
 اس میں راجا کا کردار بھی ادا کیا۔
۔5۔ مہا لکھاری: دوہرے کردار کے حامل نام نہاد ادب نوازوں کی جراحی  
اس میں بسمل بزمی کا کردار بھی ادا کیا۔ 
زیرِ تکمیل ڈرامے۔
۔6۔ بڑی بوا: جہیز کے مسئلے کا نفسیاتی جائزہ
 اس میں منشی جی کا کردار کرنا ہے۔ صدا بندی جلد ہی متوقع ہے۔ 

ای میل: 
yaqub.assy@yahoo.com
yaqub.assy@gmail.com
yaqub_assy@hotmail.com
بلاگ: ’’مِری آنکھیں مجھے دے دو‘‘ : ایک سو سے زائد مضامین،  کالم، اور دیگر نثری تخلیقات
http://yaqubassy.blogspot.com/
گوگل سرچ: 
"Muhammad Yaqub Assy" یا ’’محمد یعقوب آسی‘‘۔
دیگر:میڈیا فائر، ڈراپ باکس، گوگل پلَس، اردو محفل فورم، القرطاس، فیس بُک وغیرہم۔



*********
updated: 4th October 2018


اتوار، 23 اگست، 2015

یاد دہانی : شعر پر کچھ باتیں





یاد دہانی  : شعر پر کچھ باتیں


پچھلے دنوں جناب محمد یعقوب آسی صاحب نے ایک غزل پر اصلاح کے دوران چند مراسلوں میں شاعر کے نام کچھ نوٹ لکھے جو دراصل ایک مستقل مضمون کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس مضمون کی ہمہ گیریت اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم سب اصلاحِ سخن چاہنے والے شعراء اسے ضرور پڑھ لیں اور اس سے اکتسابِ علم و فن کی سعادت حاصل کریں۔جناب محمد یعقوب آسی کے شکرئیے کے ساتھ یہ مضمون آپ سب کی خدمت میں پیش ہے۔
محمد خلیل الرحمٰن (اردو محفل فورم سے)




جناب من! مصرع بہ مصرع، شعر بہ شعر لفظ بتانا تجویز کرنا؛ وہ شروع شروع میں دو چار دس بار ہوتا ہے، ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہے۔ آپ کی اس کاوش پر کچھ وضاحتیں پیش کئے دیتا ہوں، کہاں کہاں منطبق ہوتی ہیں، خود دیکھ لیجئے گا۔

اول:
وہی بہت بار دہرائی گئی بات کہ شعر اور شے ہے کلامِ منظوم اور شے ہے۔بقول انور مسعود شعر وہ ہے جو قاری کو چھیڑ دے؛ تو یہ چھیڑنا کیا ہوا؟ اس کے کئی انداز کئی پہلو ہو سکتے ہیں کہیں مفرد کہیں مرکب: ۔1۔ شعر کا پیغام، موضوع، مضمون انداز وغیرہ قاری کو کسی سوال سے آشنا کرے، تجسس لے کر آئے۔ ۔2۔ کوئی جذباتی کیفیت ایسے بیان کرے کہ قاری اس میں گرفتار نہیں ہوتا تو مائل ضرور ہو جائے، یا کم از کم اس کیفیت کے احساس یا ادراک سے دو چار ہو۔ ۔3۔ انسان کی بہت ساری مستقل قدریں ہیں: پیٹ کا مسئلہ ہے، سر چھپانے کی بات ہے، تعلقات کی باتیں ہیں (محبت، نفرت، غصہ، لاتعلقی، جھلاہٹ، انتقام، خوف، امیدیں، ولولے، کوشش وغیرہ وغیرہ) ان میں سے کسی کو بیان کیجئے یا ایک دو تین کی کوئی مرکب صورت بنتی ہے تو وہ لائیے۔ ۔4۔ مفروضات کی بنا پر شعر آپ "بنا" سکتے ہیں، مگر ان پر تکیہ نہ کیجئے۔ آپ پر ایک صورت جو بیتی ہے وہ ہزار مفروضوں سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔

دوم:
زبان، ہجے، املاء، محاورہ، روزمرہ، الفاظ، تراکیب؛ ان کو قطعی طور پر درست ہونا چاہئے، ایک شاعر کو یہ عذر زیب نہیں دیتا کہ جی مجھے پتہ نہیں تھا۔ ہجوں کی غلطی خوش ذوق قاری پر اتنی گراں گزرتی ہے کہ جہاں شاعر نے (مثال کے طور پر: ذرہ کو ذرا یا زرہ) غلط لکھا، وہ غزل پر سلام پیش کر کے ایک طرف ہو جائے گا۔

سوم:
شعر کی زمین (اوزان و ارکان، قوافی، ردیف) اور مصرعے کی ضخامت۔ اس کو بہت متوازن، بہت رواں اور بہت سہل رکھئے، آپ اور آپ کا قاری اور سامع دونوں سہولت میں رہیں گے۔ ردیف بہت پابندیاں لاتی ہے۔ اس غزل میں آپ نے "میں" ردیف رکھی ہے۔ یہ حرفِ جر ہے اور ظرف (زمان، مکان) کی علامت ہے۔ آپ کو اس سے باہر نہیں جانے دے گا۔ قوافی جہاں مضامین لاتے ہیں وہیں کچھ پابندیاں بھی لگاتے ہیں۔ آپ مہتاب کے ساتھ اکتساب کا قافیہ نہیں لا سکتے (کہ کوئی معروف بحر اس کی اجازت نہیں دے گی) اس کو ماہتاب لکھئے اور پڑھئے تو تو اس کے برابر اکتساب آ جائے گا۔  مشہور زمینوں میں شعر موزوں کرنا ایک لحاظ سے خطرناک بھی ہے۔ آپ نے غالب کی زمین میں غزل کہہ دی، آپ کا خوش ذوق قاری غالب سے بیگانہ نہیں رہ سکتا، اس کے ذہن میں غالب کی غزل فوراً گونجے گی۔ بجا کہ قاری کو آپ سے ایسی کوئی توقع وابستہ نہیں کرنی چاہئے کہ آپ غالب کو بچھاڑ دیں گے، تاہم وہ آپ سے کچھ نکھرے ہوئے، منجھے ہوئے، اور پکائے ہوئے شعروں کی توقع ضرور وابستہ کرے گا۔

چہارم:
یہ مت کہئے گا کہ جی میں تو اپنے لئے شعر کہتا ہوں؛ یا یہ تو ایک طرح کا کتھارسس ہے وغیرہ۔ قاری اور سامع کو منہا کر دیجئے تو آپ کے پاس شعر کہنے کا جواز ہی نہیں رہ جاتا۔ آپ کے شعر کا مافی ضمیر آپ کے قاری تک پہنچنے میں کچھ حصہ قاری کا ہے اور کچھ آپ کا بھی ہے۔ غزل کے شعر کا قاری آپ سے بجھارتوں کی توقع نہیں رکھتا، ہاں! کسی ڈھنگ سے سلیقے سے آپ کچھ بات اس سے چھپا لیں تو وہ اس کو آپ کی ادا سمجھ کر اس پر فریفتہ بھی ہو سکتا ہے۔ کوئی بات خلافِ واقعہ نہ کیجئے۔ اور اگر ایسا کچھ کہنا ہے تو پھر اس کا کوئی (قابلِ قبول) جواز، کوئی (خوبصورت سا) بہانہ بھی لانا ہو گا۔ عید کے چاند کے حوالے سے غالب نے کیا خوب کہا ہے (یاد رہے کہ نئے چاند سے کبھی دو دن اور کبھی تین دن پہلے چاند کسی وقت بھی دکھائی نہیں دیتا):عذر میں تین دن نہ آنے کےلے کے آیا ہے عید کا پیغام حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ چاند کو بہانہ سازی کی کیا حاجت! وہ تو ایک مضبوط حسابی نظام پر چلتا ہے۔ " الشمس والقمر بحسبان " (سورۃ الرحمٰن)۔ قاری کو آپ کا شعر اتنا ہی اچھا لگے گا، جتنی وہ آپ کے اور قاری کے درمیان سانجھ رکھے گا۔ سو، عمومی انسانی سطح اور انسانی طرزِ احساس و استدلال کے قریب رہیے، اور بلند خیالی کو بھی اسی سطح سے اٹھائیے۔ آپ خلا سے بات کریں گے تو زمین والے شاید اس کو سمجھ ہی نہ پائیں۔

پنجم:
اردو پر بھی دیگر زبانوں کی طرح کئی ادوار آئے ہیں۔ وہ الفاظ اور تراکیب جو کبھی ادب میں بھی حسن سمجھی جاتی تھیں، آج متروک ہو گئیں۔ امیر خسرو نے تب "ورائے نیناں" کہا تھا، ٹھیک کہا تھا؛ وہ اب نہیں چلے گا۔ "کبھو، کسو، کوں، سوں" ولی نے بہت خوبی سے باندھے، آج میں اور آپ ایسا کریں گے تو خود نہیں نبھا پائیں گے۔ "آوے ہے، جاوے ہے، کرو ہو، سنو ہو، بیٹھوں ہوں" ان کا لطف بھی جاتا رہا۔ ایسی زبان لانی ہے تو ضرور لائیے مگر پورے ماحول کے ساتھ لائیے، ایک آدھ لفظ ہو تو یوں لگتا ہے جیسے بلندی پر اڑتا ہوا کوئی پرندہ فرش نشین کے سر پر اپنا کام دکھا گیا۔

ششم:
غزل کے شعروں میں ریزہ خیالی اور تسلسلِ خیال و مضمون دونوں رویے معروف ہیں۔ بہ این ہمہ ایک غزل کے تمام شعروں میں کبھی مزاج کے حوالے سے، کبھی لفظیات کے حوالے سے ایک لطیف سی فضا تشکیل پا جاتی ہے؛ اسے آپ غزل کی زیریں رَو کہہ لیجئے۔ کوئی شعر اس لطیف سے تعلق میں پوری طرح رچا بسا نہ ہو تو بہتر ہے اس کو الگ رکھ لیں کسی اور غزل کا حصہ بن جائے گا۔ اور اگر غزل میں سرے سے کوئی فضا بن ہی نہیں رہی تو الگ بات ہے، کوئی سا شعر ترتیب میں کہیں بھی آ جائے چنداں فرق نہیں پڑتا۔

ہفتم:
خاص طور پر غزل کے شعر میں الفاظ کی در و بست اور ترتیب بہت اہم ہوتی ہے۔ کوئی لفظ کہاں ہو تو مؤثر ہو گا، کہاں ہو تو معانی میں اشکال پیدا ہو سکتا ہے؛ اس کو تعقید کہتے ہیں۔ ہمیں کسی نہ کسی سطح پر تعقید سے کام لینا ہوتا ہے تا کہ اوزان سے موافقت قائم کی جا سکے، تاہم اگر کوئی لفظ معنوی یا لسانی حساب میں بہت دور جا پڑے تو یہی تعقید نقص بن جاتی ہے۔ مراعات کا اور علامات کا نظام ہے، استعارات کا نظام ہے؛ وغیرہ۔ یہ سارے حربے ہوتے ہیں جو شعر کی جمالیاتی سطح بناتے ہیں۔ جمالیات (بنانا، سنوارنا، نکھارنا، ترتیب دینا، حسن پیدا کرنا) ہی تو وہ چیز ہے جو عام زبان کو ادب بناتی ہے اور کلامِ منظوم کو اٹھا کر شعر کے درجے تک لے جاتی ہے۔



پس نوشت:
 اور اپنا کیا ہے!

میاں، بس اٹھو اور یاں سے چلو اب
بہت جی لئے، اس جہاں سے چلو اب
چلو سر کریں کچھ منازل یقیں کی
مقاماتِ وہم و گماں سے چلو اب

جمعرات، 20 اگست، 2015

لکھنا ۔۔۔ کیا، کیوں، کیسے


لکھنا ۔۔۔ کیا، کیوں، کیسے


۔(1)۔
اپنا کوئی تجربہ، کوئی آپ بیتی، کوئی مشاہدہ، کوئی خیال، کوئی تصور، کوئی نظریہ، کوئی خدشہ، کوئی امید، کوئی خواہش، کوئی آرزو، کوئی محرومی؛ کیا لکھنا ہے مجھے؟ اور اس میں کون سی ایسی خوبی ہے یا اس میں کون سی ایسی اہم بات ہے جو دوسروں تک پہنچنی چاہئے، یعنی اس کو لکھنا اور دوسروں تک پہنچانا کیوں ضروری ہے یا کیوں اہم ہے؟ یہ ہے بنیادی سوال۔ اگر مجھے ایک بات، ایک واقعہ سوچنا ہے اور اس کو اپنے تک رکھنا ہے تو لکھنے کا عمل ضروری نہیں ٹھہرتا کہ میں نے سوچ لیا، محسوس کر لیا، اس سے کوئی خیال، کوئی نکتہ اخذ کر لیا، بس ٹھیک ہے۔  اپنی یاد داشت، روزنامچہ، ڈائری میں اپنے لئے لکھنا ہے، تو بھی وہی بات ہے۔ اگر اس لئے لکھنا ہے کہ میرا لکھا کسی دوسرے شخص کو پہنچے یا ایک گروہ، ایک جماعت، ایک امت، ایک قوم کو پہنچے تو پھر مجھے کچھ اس طرح لکھنا ہو گا کہ کہ وہ شخص، وہ گروہ، وہ جماعت، وہ امت، وہ قوم میرے لکھے کو پا سکے، سمجھ سکے اور میرا مقصد اس تک پوری معنویت کے ساتھ پہنچ سکے۔

بنیادی نکتہ طے ہو گیا کہ مجھے کچھ کہنا ہے اور اس طرح کہنا ہے کہ میرا شخصی یا غیر شخصی مخاطب میرے کہے کو پا سکے۔ اس کو رسمی زبان میں اظہار اور ابلاغ کہہ لیجئے۔ اظہار اور ابلاغ باہم لازم و ملزوم ہیں، کسی ایک کو نظر انداز کر دیں، دوسرا باقی نہیں رہتا اور رہتا بھی ہے تو نامکمل، ٹوٹا پھوٹا اور قریب قریب بے معنی سا۔فریقین کا تعین بھی یہاں ہو گیا: ایک ہے کہنے والا یا لکھنے والا، وہ شاعر ہے، نثر نگار ہے، مصنف ہے، تاریخ دان ہے، سائنس دان ہے، عالمِ دین ہے، سیاست دان ہے، ڈاکٹر ہے، فلسفی ہے یا جو کچھ بھی وہ ہے۔ دوسرا فریق اس کا قاری ہے یا سامع ہے۔ ان دونوں کے درمیان سانجھ، اظہار کی ضرورت، موقع، صورتِ حال ہے جو لکھنے کا موجب ہے۔ آسان ترین زبان میں کون کس سے مخاطب ہے اور کہہ کیا رہا ہے، اور کیا اس کا کہا پہنچ بھی رہا ہے؟ 

۔(2)۔
میرے کہے، لکھے کا نفسِ مضمون کیا ہے، اسے میں کس زبان میں بہتر طور پر بیان کر سکتا ہوں، نفسِ مضمون خود مجھ پر واضح ہے یا نہیں، اور مجھے اس کے قابلِ بیان ہونے پر کتنا اعتماد ہے (یا میرے نزدیک اس میں سچائی کتنی ہے)،  میرے قاری یا سامع کا اس سچائی سے کیا تعلق ہے، یا اسے کتنی دل چسپی ہے؛ یہ دوسرا مرحلہ ہے۔ اگر میرے قاری کو میرے کہے سے کوئی دل چسپی ہی نہیں یا اس کا تعلق نہیں بن رہا تو مجھے یا تو کوئی اور نفسِ مضمون منتخب کرنا ہو گا، یا اپنے قاری کو تلاش کرنا ہو گا، یا پھر خاموشی اختیار کرنی ہو گی۔  چلئے صاحب! مجھے قاری بھی مل گیا، اس کی دل چسپی، تعلق، فائدے کی کوئی نہ کوئی سطح بھی معلوم ہو گئی؛ گویا مجھے کہنے لکھنے کا جواز مل گیا۔ اب مجھے لکھنا ہے، تو اس کا پیرایۂ اظہار کیا ہو۔

ایک بہت اہم اور بہت اچھی بات، ایک عالم گیر حقیقت، ایک قیمتی مشورہ، ایک جذبۂ صادق ؛ اس کو بیان کرنے میں اگر میرے الفاظ، میرا لہجہ، میرا انداز پورے طور پر ساتھ نہیں دے پا رہا تو میں نے وہی قیمتی بات کہنے کی کوشش میں ضائع کر دی۔ یا میں کہہ تو گیا مگر میرا لہجہ ایسا تھا کہ قاری اس پر چیں بہ جبیں ہوا تو بھی میری بات کا آدھا تو کام سے گیا۔ ضرورت اس امر کی نکلی کہ میرا پیرایۂ اظہار میرے قاری کو بھگا نہ دے بلکہ اس کو مائل کرے، اس کی توجہ کھینچے (ابلاغ کا عمل تب شروع ہو گا)۔ اس کو اسلوب کا نام دے لیجئے: نفسِ مضمون کی مناسبت سے لفظیات کا انتخاب، جملوں کی ساخت کا فطری انداز، اس میں مزاج کی آمیزش اور اپنے قاری کے فوری متوقع ردِ عمل کا اِدراک اور اس کا اپنے لفظوں میں رچاؤ ، زبان کے ورثے سے مطابقت، میری یعنی لکھنے والے کی لفظیاتی ترجیحات؛ وغیرہ مل کر اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسلوب وہ خوبی ہے کہ مثال کے طور پر، میرا سہانا خواب ہی سہی، آپ ایک غزل، نظم، مضمون، قطعہ، افسانہ کہانی پڑھتے ہیں؛ آپ کو یاد نہیں یا معلوم نہیں کہ یہ تحریر ہے کس کی۔ آپ کو گمان گزرتا ہے کہ "یار، یہ انداز تو محمد یعقوب آسی کا ہے، واللہ اعلم"۔ یہ گمان درست ثابت نہ بھی ہو تو بھی یہ میرے خواب کی تعبیر تو ٹھہری کہ ایک تحریر پڑھ کر قاری کے ذہن میں میرا نام ابھرا۔ یہی گمان چھ آٹھ دس اہلِ نقد کو گزرے تو پھر مجھے صاحبِ اسلوب قرار دیا بھی جا سکتا ہے۔ 

۔(3)۔
ایک موٹی سی بات ہے تو یہ ہے کہ تحریر میں جوں جوں جمالیات شامل ہوتی گئی تو وہ ادب بنتی چلی گئی۔ جمالیات ہے کیا؟ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فرض کیجئے  ایک دروازہ ہے یا ایک کھڑکی ہے یا ایک دروازہ اور ایک کھڑکی ہے۔دونوں بالکل سادہ اور چوکور ہیں (کہ تعمیر کے عمل میں چوکور دروازے کھڑکیاں ہی آسان ترین ہیں)۔ دروازے کے باہر والے پٹ میں جالی لگی ہے (کہ اندر والا پٹ کھلا بھی ہو تو مکھی مچھر کمرے میں داخل نہ ہو پائیں)؛ جالی کے باہر کی طرف گرِل لگی ہے (کہ جالی کمزور ہوتی ہے اور کسی اضافی قوت، ضرب وغیرہ سے ٹوٹ سکتی ہے ، گرِل اس کی حفاظت کے لئے ہے)۔ کچھ ایسا ہی حساب کھڑکی کا بھی ہے۔ اندر باہر والے پٹ سب پر روغن کیا ہوا ہے (کہ لکڑی لوہا، جس چیز کے بھی وہ بنے ہوئے ہیں، موسمی اثرات سے محفوظ رہیں)۔ روغن کا رنگ کیا ہو؟ اور اندر باہر دونوں طرف ایک سا ہو یا الگ الگ؟ دروازہ کھڑکی دونوں کا رنگ مماثل ہو یا الگ الگ؟ اور سادہ یک رنگے ہوں یا ان پر حاشیے، نقطے، ڈیزائن وغیرہ بنا ہو؟ یہ جمالیات ہے۔ کھڑکی چوکور کی بجائے گول ہو، بیضوی ہو تو یہ بھی جمالیات کا اظہار ہے۔ کیا چیز کس رنگ شکل کے ساتھ اچھی یا زیادہ اچھی لگتی ہے، کون سی بات کس انداز میں اچھی لگتی ہے، کسی شے کو کسی بات کو کیسے بناتے سنوارتے ہیں، اور اس کو زیادہ قابلِ توجہ بناتےہیں، بات کس طرح کی جائے کہ اسے یاد رکھنا آسان ہو جائے یہ سارے سوال جمالیات سے تعلق رکھتے ہیں۔

نثر کی نسبت شاعری میں جمالیاتی عنصر نمایاں تر ہوتا ہے (مطلب یہ نہیں کہ نثر جمالیات سے عاری ہوتی ہے)۔ شاعری میں آہنگ، لے، سُر، موسیقیت (جو نام بھی دے لیں) شامل ہوتی ہے، ردیف اور قوافی ہوتے ہیں، نظم کی کوئی نہ کوئی ہئیت منتخب کی جاتی ہے (بیت، قطعہ، مثنوی ، رباعی، مخمس، مسدس، دوہا، گیت، کافی وغیرہ)، اس کے مطابق اوزان و بحور کا نظام ہے، جو سب کچھ نثر میں نہیں ہوتا۔ زبان اور اس کے سارے متعلقات: تشبیہ و استعارہ کا نظام، صنائع و بدائع، علامات و مراعات، تلمیحات، اختراعات، وغیرہ نثر اور نظم دونوں میں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ نثر نگار شاعر کی نسبت کم ہیئتی پابندیاں قبول کرتا ہے، سو قدرے سہولت میں رہتا ہے۔ اسلوب کے ضمن میں عرض کر چکا ہوں لفظیات کا انحصار مضمون اور موضوع کے علاوہ لکھاری کی اپنی پسند اور ترجیحات پر بھی ہوتا ہے۔

۔(4)۔
میں اگر خود کو ادیب سمجھتا ہوں یا دوست مجھے ادیب گردانتے ہیں تو مجھ پر عائد ہونے والی سب سے پہلی ذمہ داری ہے زبان کا درست استعمال اور املاء کا پورا پورا تحفظ۔ یہاں کوئی بہانہ ہونا نہیں چاہئے، اگر ہے تو پھر مجھے بھی سوچنا ہو گا اور میرے دوستوں کو بھی کہ میں ادیب ہوں بھی یا نہیں۔ غلطی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر اسی غلطی کا بار بار دہرایا جانا نہ صرف بڑی بلکہ بری بات ہے۔ ایسا البتہ ممکن ہے کہ ایک لفظ، املاء، محاورہ، کہاوت، ترکیب کے غلط یا درست ہونے میں میرے اور آپ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہو، اس پر بحث بھی ہو سکتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں کہوں یوں درست ہے ووں غلط ہے، آپ کہیں ووں درست ہے یوں غلط ہے اور وہ دونوں درست ثابت ہو جائیں،  یا دونوں غلط ثابت ہو جائیں، اور کوئی تیسری چیز نکلے جو درست ہو۔احباب سے مشاورت اور ایک دوجے سے پوچھ لینا یقیناً مستحسن عمل ہے مگر کافی و شافی نہیں،  تحقیق کر لینا اولیٰ! مطالعہ از بس ضروری ہے۔ اگر میں مطالعے سے گریزاں ہوں تو مجھے لکھنے لکھانے سے بھی گریز کرنا ہو گا۔ ایک اور عمل ہے یا رویہ کہہ لیجئے جدت برائے جدت؛ یہ کوئی چیز نہیں ہے۔ ایک فن پارہ جو میں تخلیق کرتا ہوں، وہ ظاہر ہے الفاظ کا مرکب ہے، جملوں یا مصرعوں کی ساخت کا حاصل ہے، اس میں قواعد بھی استعمال ہوئے ہیں اور ذخیرۂ الفاظ بھی۔ میں بفرضِ محال ایک لفظ یا ترکیب کو نئے معانی دیتا ہوں یا کوئی نیا لفظ یا ترکیب وضع کرتا ہوں یا کوئی نیا استعارہ لاتا ہوں، یا نئی علامت بناتا ہوں، تو مجھ پر لازم ہے کہ اس کا سیاق و سباق میرے موضوعے کی دلالت کرے یا توضیح کر دے (کہ میں ایک افسانے یا غزل کے اندر توضیحات کا دروازہ نہیں کھول سکتا)۔ ایسا موضوعہ مروجہ نظام میں غیرموزوں یا اجنبی بھی نہیں لگنا چاہئے ورنہ اس کی تفہیم اور ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ املاء کے قواعد، ضرب الامثال اور محاوروں، اصول و ضوابط، علمِ بیان، علمِ قافیہ، علمِ عروض وغیرہ پر مشتمل بہت کتابیں دستیاب ہیں تاہم ان کے ساتھ بھی وہی مسئلہ ہےجو ہر کتاب کے ساتھ ہوتا ہے (اسے پڑھنا پڑتا ہے)۔

۔(5)۔
ایک اور بات جسے میں بہت اہم سمجھتا ہوں: اپنے ساتھ کبھی جھوٹ نہ بولئے، یہ کبھی نہیں چلتا۔ ایسی صورت پیش بھی آ سکتی ہے کہ مثال کے طور پر مجھے اپنے بیٹے کو یونیورسٹی میں برپا ہونے والے ایک مباحثے کی تیاری کروانی ہے۔ اس کا موضوع ہے: "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"؛ بیٹے کا نام حزبِ مخالف میں ہے۔ اور میرے اپنے نظریات دیے گئے مصرعے کے مضمون کے حق میں ہیں۔ اب میں اپنے خلاف آپ تو بحث نہیں کر سکتا کہ میرے اندر کا آدمی مجھے بولنے ہی نہیں دے گا۔ ایک اور مثال لیتے ہیں کہ چلئے میں ہی سہی، میں گل و بلبل اور لب و عارض کے اور فراق و وصال کے گرد گھومنے والی شاعری میں کوئی خاص کشش محسوس نہیں کرتا۔ تو ظاہر ہے میں فانی بدایونی جیسی شاعری کیسے کروں گا! ادھر اپنی توانائیاں ضائع کرنے کی بجائے مجھے ان موضوعات کو منتخب کرنا چاہئے جدھر میرا فکری اور جذباتی میلان ہے۔ باقی فنکاریاں اپنی جگہ، جب آپ ایک خاص موضوع میں دل چسپی ہی نہیں رکھتے تو آپ اس میں اپنا رنگ بھی نہیں جما سکتے۔ کہیں ایک آدھ شعر، قطعہ وغیرہ کہہ لینے میں کوئی ہرج بھی نہیں ہے۔ اسی نکتے کو یوں بھی پھیلایا جا سکتا ہے کہ ایک بات ایک واقعہ ایک صورتِ حال جو مجھ پر گزرتی ہے اور ایک بات ایک واقعہ ایک صورتِ حال جس کا میں شاہد ہوں یا جو میرے علم میں ہے ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ بیان کرنے کی صلاحیت، زبان پر قدرت، قوت، متخیلہ وغیرہ کی مدد سے میں مشاہدے کو سرگزشت کا روپ دے سکتا ہوں تو ٹھیک ہے، طبع آزمائی کر لینا بھی درست۔ نہیں تو پھر مفروضوں پر شاعری نہیں ہوتی، کلامِ منظوم کی بات اور ہے۔ ایک فارمولا خود پر ایک کیفیت طاری کرنے کا بھی بیان کیا جاتا ہے، آپ اس سے کام لے سکتے ہیں تو ضرور لیجئے، لیکن خدا را اس کے لئے کسی بری لت کا شکار نہ ہوئیے گا۔ شعر کہنا فرضِ عین بھی نہیں کہ اس کے لئے آپ اپنی اور اپنے لواحقین کی زندگی کو تلخ کر لیں۔  تلخیوں اور تفکرات کی پہلے کون سی کمی ہے، ان کو شعر میں لائیے۔

فی الحال یہی کچھ ہے، بات آگے چلتی ہے تو بات کریں گے، ان شاء اللہ۔

محمد یعقوب آسیؔ  ۔۔ جمعرات 20 اگست 2015ء



    

بدھ، 12 اگست، 2015

تعلیم ،کن خطوط پر ہو

تعلیم ،کن خطوط پر ہو


علم کیا ہے اور علم کی اہمیت کیا ہے اور اس کو دوسروں تک کیسے پہنچانا ہے، کیا کچھ پہنچانا ہے ، کیا کچھ نہیں پہنچانا۔ علم کا اعلیٰ ترین منصب کیا ہے اور ایک عالم کو ایک غیر عالم پر کیا فوقیت حاصل ہے، علم اور عمل کا اور قول و فعل کا آپس میں تعلق کیا ہے۔ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کی تشفی ازبس ضروری ہے۔ اسلام دینِ فطرت ہے اور علم انسان کی فطری ضرورت بھی ہے اور خاصّہ بھی۔

آئیے تخلیقِ آدم سے شروع کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی پہلے! اللہ کریم نے فرشتوں کو لازماً یہ علم دیا ہو گا کہ انسان زمین پر فساد بھی کرے گا، خونریزی بھی کرے گا اور اللہ کی زمین میں اللہ کا نظام بھی نافذ کرے گا۔ تبھی تو یہ ممکن ہوا کہ جب اللہ نے فرمایا ’’میں زمین پر اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘ تو فرشتوں نے عرض کیا: ’’آپ اس کو تخلیق کرنے والے ہیں جو زمین میں فساد اور خون ریزی کرے گا؟‘‘ ارشاد ہوا: ’’جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے‘‘۔ لامحالا، اللہ کریم اپنی ذات اور صفات میں یکتا اور لامحدود ہے تو اس کا علم بھی لامحدود ہے۔ اللہ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم میں روح پھونکی تو ساتھ ہی علم بھی پھونک دیا۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے: ’’ہم نے آدم کو تمام اسماء سکھا دیے‘‘ مطلب ہے علم سے مالا مال کر دیا اور فرشتوں سے کہا: ’’اگر تم سچے ہو تو ان اشیاء کے نام ہی بتا دو‘‘۔ فرشتے درخواست گزار ہوئے کہ: اللہ! ہمیں جو کچھ آپ نے سکھا دیا ہے اس سے زیادہ کچھ بھی معلوم نہیں‘‘۔ تب اللہ کریم اپنے نوتخلیق خلیفہ سے مخاطب ہوا: ’’ان کو بتاؤ‘‘ اور آدم علیہ السلام نے بتا دیا۔ 

یہاں سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ کی نیابت کے لئے نہ تو کوئی جناتی قوت ویسی کارآمد ہے اور نہ ملکوتی لطافت جیسی کارآمد خاصیت۔ مرتبت علم سے ہے، جو علم میں برتر ہے وہی اصل میں برتر ہے۔ نبئ آخرالزمان حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوتی ہے، جبریلِ امین کہتے ہیں: اِقْرَاْ (پڑھئے!) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَا اَنَا بِقَارِءٍ (میں پڑھا لکھا نہیں ہوں)۔ جبریلِ امین پھر کہتے ہیں: اقْرَاْ (پڑھئے!)، پھر وہی جواب: مَا اَنَا بِقَارِءٍ (میں پڑھا لکھا نہیں ہوں)۔ تیسری دفعہ کہتے ہیں: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا)۔ پڑھنا، اسلام کا پہلا حکم، پہلی وحی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’وہ بے انتہا رحم کرنے والا ہے، اس نے قرآن سے علم سکھایا، انسان کو تخلیق کیا، اس کو بات کرنا سکھایا‘‘۔ لفظ ’’قرآن‘‘ کے سادہ معانی ہی بتا رہے ہیں : ’’سب سے زیادہ پڑھا جانے والا‘‘۔ اس سے علم کی اہمیت بالکل عیاں ہو جاتی ہے۔

اب آگے بڑھتے ہیں۔ پڑھنا کیا ہے اور پڑھانا کیا ہے؟ بہت صاف سی بات ہے کہ یہ زمین، یہ انسان، جن، فرشتے، حیوانات، جمادات، حشرات، نباتات، معدنیات، فضائیں، چاند، سورج، ستارے، کہکشائیں، آسمان، عرش، کرسی سب اللہ کریم کی صنّاعی ہے اور سب کا ملاک وہی ہے؛ سو اس سب کچھ پر نظام بھی وہی چلے گا جو اللہ کو پسند ہے۔ اور اللہ کو تو صرف ایک ہی نظام پسند ہے: اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ (اللہ کے نزدیک نظام تو ہے ہی اسلام) اور اسلام وہی ہے جو اللہ کریم نے انسانوں کے نام اپنے آخری پیغام یعنی قرآن شریف میں کھول کر بیان فرما دیا اور اس کی عملی تشریح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی صورت میں اہلِ دہر کو دکھا دی۔ سو، علم حاصل کرنا ہے تو اسلام کا علم حاصل کرنا ہے جس کا منبع قرآن ہے۔ ارشادِ نبوی ہے: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ (تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے)۔ اور قرآن کہتا ہے کہ اللہ کا نبی جو تمہیں دے وہ لے لو (یعنی جو کہے، وہ کرو!) اور جس سے روکے، رک جاؤ!۔ یاد رہے کہ یہ حکمِ قطعی ہے اس میں اختیار یا انتخاب کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ یہی حکم ایک اور انداز میں وارد ہوتا ہے: اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّۃ (اسلام میں داخل ہو جاؤ، پورے طور پر)۔ نبی اکرم کا یہ ارشاد بھی پیشِ نظر رہے کہ : بَلِّغُوْا عَنِّیْ لَوْ کَانَ آیَۃٌ (میرا کہا عام کر دو یعنی سب کو بتا دوچاہے وہ ایک مختصر سی بات ہو)۔ 

بات بالکل صاف ہو گئی کہ پڑھنا کیا ہے؟ قرآن پڑھنا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پڑھنے ہیں۔ اور کرنا کیا ہے؟ جو کچھ پڑھنا ہے اس کو عملی طور پر (پورے طور پر)اختیار کرنا ہے۔ اسلامی معاشرے کی تشکیل کرنی ہے اور اللہ کریم کا نظام نافذ کرنا ہے۔ اسلام میں علم کا اعلیٰ ترین مقصد اور مطمعِ نظر یہی ہے اور یہی علم کا تقاضا ہے، یہی فلاح ہے۔ اگلا مرحلہ ہے پڑھائے گا کون؟ ارشاد ہوتا ہے کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے سلسلے میں جواب دہ ہو گا۔ انسانی معاشرے کے راعی کو ہم ’’چرواہا‘‘ کہہ کر مطمئن نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنی بھیڑ بکریوں گایوں اونٹوں کو چراگاہ میں لے جاتا ہے، گھیر گھار کے رکھتا ہے، ان کی چوکیداری کرتا ہے اور شام کو باڑے میں لا کر بند کر دیتا ہے۔ اسے کسی گائے بھینس کی تربیت نہیں کرنی ہوتی۔ انسانی معاشرے کے راعی کی اولین ضرورت ہے اپنے رعیت کو سمجھنا، ان کی تربیت کرنا، ان کی صلاحیتوں کو مثبت رخ پر چلانا اور اس معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا جو اللہ کو مطلوب ہے۔ اس طرح ہم میں ہر فرد جس درجہ میں راعی ہے اسی درجہ میں استاد یا معلم بھی ہے۔

یہ جو حکم ہواکہ اِطْلِبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْدِ (گود سے گور تک سیکھنے کا عمل جاری رہے)، بتاتا ہے کہ اولین معلم والدین ہیں، خاص طور پر والدہ۔ سو، والدین پر پہلے لازم آتا ہے کہ اپنے بچوں کو سکھانے کی اہلیت حاصل کریں۔ علم اور طلبِ علم کے بارے میں اللہ کریم نے اپنے بندوں کو یہ دعا تعلیم فرمائی ہے: قُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْماً (کہہ یعنی دعا کیا کر کہ اے میرے رب میرے علم کو بڑھا)، علم کی طمع شاید واحد طمع ہے جو اللہ کریم کو محبوب ہے۔ بات علم حاصل کرنے پر، اس کو بڑھا لینے پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے ساتھ اس علم پر عمل کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے۔ روزمرہ زندگی سے مثال لیتے ہیں: ایک بچے کو علم ہی نہیں کہ بھڑ، بچھو، سانپ زہریلے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچا سکتے ہیں، وہ اتفاق سے ایسے کسی کیڑے کو چھیڑ دیتا ہے اور کیڑا اس کو ڈس لیتا ہے، وہ بچہ بے قصور سمجھا جائے گا۔ اس کے مقابلے میں ایک عاقل و بالغ شخص بھی ایسا ہی بچگانہ عمل کرے تو وہ بے قصور نہیں کہلا سکتا۔ حاصل یہ ہوا کہ علمِ مفید حاصل کرنا ہے اور اس سے فائدہ بھی لینا ہے، نہیں تو ایسا عالم زیادہ قصور وار ہے جو جانتے بوجھتے ایک غلط کام کرتا ہے۔ اس شخص کو بھی دیکھتے چلئے جسے عرفِ عام میں جاہل کہا جاتا ہے، جس نے جہالت میں زندگی بسر کردی۔ اہل علم کے نزدیک اس کی مثال گدھے کی سی ہے جو کسی نہ کسی طور چلا جا رہا ہے، اسے کچھ پتہ نہیں کہ جانا کدھر ہے۔ ایک عالم ہے جو جانتا بہت کچھ ہے مگر اس کا عمل صفر ہے، وہ اپنے علم سے کوئی راہنمائی نہیں لے رہا۔ ایسے عالم کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں۔ وہ جاہل گدھا تو ہلکا پھلکا گزر گیا اور یہ عالم گدھا پیٹھ پر بوجھ اٹھائے گزر رہا ہے۔ 

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک شخص شکایت لے کر آیا کہ: میرے بیٹے نے مجھے ڈنڈوں کے ساتھ پیٹا ہے۔ امیرالمؤمنین نے اس سے پوچھا: کیا تجھے دین کا علم حاصل ہے؟ کہنے لگا: کچھ کچھ ہے۔ پوچھا: تو نے مزید علم کی کوشش کی؟ بولا: نہیں۔ پوچھا: جتنا تو جانتا تھا اپنے بیٹے کو سکھایا؟ کہا: نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس کیا لینے آئے ہو؟ ایک بیل نے دوسرے کو مارا، میں کیا کر سکتا ہوں! مراد یہ ہے کہ ہر باپ اپنی اولاد کی اسلامی خطوط پر تربیت کرنے کا پابند ہے، وہ خود کو اس کا اہل نہیں پاتا تو اہلیت حاصل کرے، اپنی لاعلمی یا کم علمی کو بہانہ نہیں بنا سکتا۔ خاص طور پر بیٹیوں کے معاملے میں بشارت دی گئی ہے کہ ایک شخص نے اپنی دو بیٹیوں کو پالا پوسا، اسلامی طرزِ حیات پر ان کی تربیت کی اور ان کو بیاہ دیا، وہ جنتی ہے۔

اسلامی تعلیمات اور طرزِ حیات میں توازن بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک باپ جو اتنی محنت کرتا ہے اور اس کے باوجود اپنی اولاد کے اعمال کا بھی ذمہ دار ہے، اس کا مقام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق، اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے۔ ایک شخص دربارِ رسالت میں شکایت لے کر آیا کہ میری کمائی میرا باپ لے لیتا ہے اور میرے مال میں سے بھی لے لیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باپ کو طلب فرما لیا۔ شکایت سن کر اس نے شعر کی صورت میں اپنی ان بے لوث محنتوں کا ذکر کیا جو اُس نے اپنے بیٹے کے پیدا ہونے سے لے کر کڑیل جوان ہونے تک کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آنکھوں میں آنسو آ گئے ، شکایت کرنے والے جوان سے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔ ماں کا مقام تو اس سے بھی کہیں آگے ہے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نے پوچھا: بندوں میں مجھ پر سب سے پہلا حق کس کا ہے؟ ارشاد ہوا: تیری ماں کا۔ عرض کیا: اس کے بعد؟ ارشاد ہوا: تیری ماں۔ عرض کیا : اور اس کے بعد؟۔ پھر ارشاد ہوا: تیری ماں کا۔ عرض کیا: اور اس کے بعد؟ ارشاد ہوا: تیرے باپ کا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک باپ اپنے بیٹے پر اور اس کے مال پر حق رکھتا ہے تو ماں کا حق کہاں تک رہا ہو گا! اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کے حصول کے لئے شرط قرار دیا ہے۔ ہر مسلم کے لئے سدا بہار حکم ہے کہ اپنے والدین کی کسی بات پر تیوری چڑھانے اور سخت سست لفظ کہنے کی بھی ممانعت کر دی گئی اورایک ایسی دعا تعلیم کی گئی جس میں بجائے خود اعتراف موجود ہے: رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً (میرے رب ان دونوں پر رحم اور رحمت فرما جیسے ان دونوں نے مجھے پالا جب میں چھوٹا سا تھا)۔ ایک شخص جو کچھ توقع اپنی اولاد سے رکھتا ہے، اس سے کسی قدر زیادہ توقع اس کے اپنے والدین کو رہی ہو گی۔

ارشادِ ربانی ہے کہ ہر بچہ دینِ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہ اس کے ماں باپ ہیں جو اُس کو یہودی، نصرانی، مجوسی بنا دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کی ایک مسلم ماں کی مثال لیجئے: بچہ ابھی بولنے کے قابل نہیں ہوتا، جب وہ اے سُلاتی ہے تو ہلکی ہلکی تھپکیوں کے ساتھ کہتی جاتی ہے: اللہ، اللہ، اللہ!، سوتے سے جاگتا ہے تو بسم اللہ کہہ کر اس کو اٹھاتی ہے، گود میں لیتی ہے۔ اس کے منہ میں کھانے کی کوئی چیز ڈالتی ہے تو دائیں ہاتھ سے ڈالتی ہے، بچے کی جگہ خود بسم اللہ پڑھتی ہے۔ یہ تعلیم بھی ہے اور تربیت بھی! ارشادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے: سَمِّ اللّٰہِ وَ کُلْ بِیَمِیْنِکَ وَ مِمَّا یَلِیْکَ (اللہ کا نام لو یعنی بسم اللہ پڑھو، اپنے دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھاؤ)۔

اگلا سوال آتا ہے کہ کون سا علم حاصل نہیں کرنا؛ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ علم النافع جسے کہا گیا ہے وہ علم ہے جو بندے کو اللہ کے قریب کر دے۔ اولیت تو ظاہر ہے اللہ کی کتاب کی تفہیم و تفسیر کو حاصل ہوئی، اور اِس کے لئے علم الحدیث ہے، علم الحدیث کے ضمن میں علمِ روایت، علمِ درایت اور علم اسماء الرجال وجود میں آئے۔ اور ایسے تمام علوم جو انسانوں کی فلاح و بہبود میں مدد گار ہوں، علم التعلیم، علم الطب والجراحت، علم الادویہ وغیرہ بے شمار شعبے ہیں جن میں علم حاصل کرنا خیر و برکت کا باعث ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ ان علوم کا اطلاق صراطِ مستقیم کی ہدایات کے مطابق کیا جائے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے)، اطلاق اور استعمال برا ہو گیا، نیت بگڑ گئی تو اچھے علم سے بھی برے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ چاقو، چھری، نشتر ایک چیز ہے، اُس کو استعمال کر کے اپنے ہی اہل و عیال کے لئے رزق کمایا، کسی کے جسم سے پھوڑا، غدود، گلٹی نکالی کہ اس کی بیماری کا علاج ہو سکے تو یہ چیز ایک اچھے مقصد میں کام آئی اور کسی کو قتل کر دیا تو بات ہی بدل گئی، ایسے قتل کا جواز اور عدم جواز ہمارا اس وقت کا موضوع نہیں ہے۔ علم الحساب بری چیز نہیں مگر جب یہی علم سودی کاروبار کو چلانے کے لئے کام میں لایا جائے تو وہ عمل حرام ٹھہرے گا، علم حرام نہیں ۔ تاہم کچھ علوم ایسے بھی ہیں جن کو سیکھنا سکھانا ممنوع ہے ان میں سرِ فہرست جادو ہے۔ جادو کا علم سکھانے والا، سیکھنے والا، جادو کرنے والا اور کرانے والا سب کے لئے سخت وعید ہے؛ کہ ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اسلامی نظامِ تعلیم کی بنیاد تقوے پر ہے۔ ہر وہ کام کرنے کی، سیکھنے کی، سکھانے کی سعی کرنی ہے جو اللہ کے ہاں محبوب ہے اور ہر اس کام سے بچنا ہے جو اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے۔ استاد اور شاگرد دونوں کی نیت اور تقوے کی سطح وہ پیمانہ ہے جس کا ٹھیک ٹھیک علم صرف اللہ کریم کو ہوتا ہے، انسان اندازہ ضرور کر سکتا ہے۔حصولِ رزق کے لئے علم حاصل کرنا لازم ہے تاہم اس کو اللہ اور بندے کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

معلم کی ایک اور ذمہ داری ہے، کہ وہ جس علم کی تعلیم دے رہا ہے اسے اس کی صداقت اور جواز پر یقین ہو، اور اس علم کے اچھے اور برے پہلوؤں سے پوری شناسائی حاصل ہو۔ اچھے علوم اور اچھی تعلیم بھی اگر زبانی جمع خرچ پر مبنی اور مشتمل ہو گی تو اس کی افادیت بھی جاتی رہے گی بلکہ گرفت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ایک استاد اپنے شاگردوں کو، ایک باپ اپنی اولاد کو نماز سکھاتا ہے، اس کی پابندی کی تلقین کرتا ہے مگر خود اپنی نمازوں کی چنداں پروا نہیں کرتا تو اس کی تعلیم اور تلقین کا مؤثر ہونا مشکوک ہو جائے گا۔ نیکی سکھانے اور اس کی تلقین کرنے کے لئے لازم ہے کہ استاد پہلے خود اس پر عمل پیرا ہو۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں ہو؟ اور یہ بھی کہ: یہ کیا کہ تم دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟۔ شاگرد کے لئے استاد کا مقام باپ سے بھی آگے ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ استاد کی ذمہ داریاں ایک باپ کی ذمہ داریوں سے زیادہ ہیں۔ استاد پر بھی لازم ہے کہ اُن ذمہ داریوں کا کما حقہٗ ادراک رکھے اور اپنی حد تک پورے خلوص کے ساتھ تعلیم کا کام سر انجام دے۔

اب تک کی گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ علم کردار سازی کا نام ہے۔ سیکھنے والا اپنے اساتذہ کی نہ صرف عادات کا بلکہ ان کی حرکات و سکنات کا بھی اثر لیتا ہے۔ اور اس کی شخصیت کی تعمیر میں اساتذہ کی ذاتی خوبیاں یا خامیاں رچ بس جاتی ہیں۔ وہ ماحول جس میں اسے علم حاصل کرنے کے مواقع دیے جا رہے ہیں، اس ماحول کا پاکیزہ اور اخلاقی سطح پر بلند ہونا از بس لازمی ہے۔ کردار سازی کے حوالے سے انبیائے کرام کی مثال بہترین مثال ہے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے اپنے صحابیوں کی اس طور تربیت کی کہ ان کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو دیکھئے! اللہ کے حکم پر اپنے لختِ جگر کی گردن پر چھری چلانے کو تیار ہو جاتے ہیں اور بیٹا بھی بے چون و چرا اپنی گردن پیش کر دیتا ہے۔ اللہ کریم کو ان باپ بیٹے کی اطاعت ایسی پسند آتی ہے کہ عید قربان کی صورت میں تاقیامت اس کی یاد اور یاد دہانی کا سامان کر دیا جاتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے شاگردوں کو اللہ کریم کی طرف سے سند جاری ہو جاتی ہے کہ: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کفار پر سخت ہیں اور آپس میں رحم کرنے والے ہیں۔ کفر اور اسلام کا یہ امتیاز حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے چلا آتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا جس کا نام کنعان بتایا جاتا ہے، وہ اپنے باپ کو نبی اور استاد تسلیم نہیں کرتا تو آسمانوں سے فیصلہ آتا ہے کہ وہ تیرے (نوح علیہ السلام کے) کا کچھ نہیں لگتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا باپ جس کا نام یا عرفیت قرآن شریف کے مطابق آذر ہے، غلط لوگوں کا غلط استاد بن جاتا ہے، اللہ کے حکم کے خلاف بت پرستی کی ترویج میں سرگرم ہے، اپنے بیٹے کو جو اللہ کا نبی ہے دھمکیاں دیتا ہے کہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا اگر تو ہمارے بتوں کی توہین سے باز نہیں آتا۔ اللہ کریم اس آذر کو قیامت کے دن جیسے چاہے گا رسوا کرے گا۔ملتیں دو ہی ہیں بس! ایک ملتِ اسلام اور ایک ملتِ کفر۔ ہر مسلمان مبلغ اور معلم کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ نہ صرف اس امتیاز کو خود تسلیم کرے، اپنے شاگردوں کو بھی بتائے اور سمجھائے کہ ملتیں دو ہی ہیں بس!

ملتِ اسلام میں شامل ہونے کا اعلان کلمۂ شہادت ہے: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی الٰہ نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں)۔ در حقیقت یہ اعلان اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاہدے کا اعلان ہے جس کی پہلی شق اللہ کریم بیان فرماتا ہے: ہم نے اُن سے اُن کی جان اور مال خرید لئے کہ اس کے بدلے میں اُن کے لئے جنت ہے۔ سودا ہو چکا، اس سے انحراف کی سزا بھی بتا دی گئی کہ جہنم ہے، انسان اللہ سے بھاگ نہیں سکتا، بھاگ کر جائے گا بھی کہاں؟ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ: اے جنوں اور انسانوں کے گروہ اگر تم زمین اور آسمانوں کی حدود سے بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ! تم نہیں بھاگ سکتے الا یہ کہ تمہیں آسمانوں اور زمین پر تسلط حاصل ہو۔ اور وہ تسلط اللہ کا ہے کسی اور کا ہو نہیں سکتا۔جسم و جان اللہ کی عطا، مال و منال اللہ کی عطا، خود ہی عطا کر کے اس کے بدلے جنت کی بشارت اللہ ہی کی رحمت ہو سکتی ہے۔ عہد یہ ہوا کہ میرے جان و مال اللہ کے ہوئے، یعنی ہیں تو میرے پاس اور جو کچھ میرے اختیار میں ہے اس کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پر خرچ کرنا ہے اور جب جیسے وہ طلب کرے جان حاضر کر دینی ہے۔ ذاتی اور انفرادی زندگی سے لے کر ریاستی اور آفاقی معاملات تک جو کچھ بھی ہے اس کو اللہ کے دین کے تابع کر دینا ہے، کوئی چیز دین سے باہر نہیں۔ دنیا اور دین کی تقسیم یا الگ الگ خانوں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں، دین کا نفاذ اس دنیا میں ہونا ہے اور اس کا اجر دوسرے جہان میں جا کر ملنا ہے، یہاں جو مل گیا سوفضل اور بخشیش ہے۔ مرنا پڑے گا، یہ لکھ دیا گیا! سو جب مرنا ہی ہے تو پھر اللہ کے عطا کئے ہوئے طریقے پر کیوں نہ مرا جائے؟ یہی حقانیت ہے۔ جب ہم اسلام میں تعلیم کی اہمیت کی بات کرتے ہیں تو ہمیں تعلیم میں اسلام کی حقانیت کونصاب تسلیم کرنا ہو گا، چاہے کوئی کچھ بھی کہتا رہے۔

اسلام روزی روٹی کے لئے علم حاصل کرنے کو منع نہیں کرتا، بلکہ کمانا فرضِ عین ہے، کوشش کو لازم قرار دیا گیا۔ رزق کے بارے میں کہا گیا کہ رزق انسان کے پیچھے ایسے پڑا ہوا ہے جیسے موت کہ اس کا ملنا مقسوم ہو گیا، وہ مل کر رہے گا۔ اسے حاصل کیسے کرنا ہے اس کا طریقہ جو بھی ہے شرط صرف ایک ہے کہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق درست ہو اور خرچ کرنے میں بھی معیار وہی ہے۔ فساد وہاں پیدا ہوتا ہے جب بندہ روزی روٹی کو روزی رسان پر ترجیح دینے لگے۔ نظامِ تعلیم کی بنیادیں اس نظریے پر استوار ہوں گی تو بات بنے گی نہیں تو خرابی ہی خرابی ہے۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ ایک لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا ایک پورے خاندان کا تعلیم یافتہ ہونا ہے اسی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ایک لڑکی کی غلط تربیت ایک پورے خاندان کی غلط تربیت ہے۔معاملہ لڑکے کا بھی یہی ہے، جیسے آج کی ننھی گڑیا کل کی ماں اور پرسوں کی نانی دادی ہے، ویسے ہی آج کے گڈو میاں کل کے ابا اور پرسوں کے نانا دادا ہیں۔ اِن کی تربیت اور تعلیم ایسے خطوط پر ہونی چاہئے کہ وہ مسلم معاشرے کے کار آمد رکن بن سکیں۔ 

محمد یعقوب آسیؔ 

جمعرات ۲۰ نومبر ۲۰۱۴ء

جمعرات، 6 اگست، 2015

مٹی دی مہک (2) پنجابی لفظیات (3)۔


مٹی دی مہک (2) پنجابی لفظیات (3)۔


بابا، باپ، باپو، بابل، باوا، ابا، پیو (والد)۔ پیو دادا، پیو دادے، وڈے، وڈیرے (آبا و اجداد)۔ پیو بھرا (قریبی رشتہ دار)۔ پیو بنانا، پیو تیکر اپڑنا، پیو دادے نوں پُننا۔ پیو دا نوکر۔ بابا آدم، باوا آدم (کسی قوم یا قبیلے کا وہ بزرگ، جس سے اس قوم یا قبیلے کی بنیاد منسوب ہو)۔
بات، گل بات (گفتگو)، بتولی (چھوٹی سی بات)۔ باچھ، باچھاں، واچھاں (ہونٹوں کے اطراف، کنارے)۔ بدل (بادل)، بدل وسنا، ودھرنا (غم یا غصے کی شدت) ’’بدل وسے مارومار‘‘۔بدلنا، بدل جانا، بدلہ، بدی (برائی)، بد نالوں بدنام برا۔
بَدھو بدھی (جبراً)، بدّھو گیری (مجبوراً)، باہن، بنھ (بندھن)، بنّا (کھیت کا کنارا، باٹ)، بَنّا (دولھا)، باد (ہوائی)، بادی (بارد)، باردانہ (خالی بوریاں)۔
بار (جنگل، اجاڑ)، باراں (بارہ: عدد)، باراں دری، باراں سنگھا، باراں مہینے (سارا سال، ہمہ وقت)، بارہیں برسیں (کبھی کبھار، مدتوں بعد)، باراں گھنٹے (محاورتاً سارا دن)، بارہ پتھر کرنا (علاقہ بدر کرنا)۔
باہنھ (بازو)، باہنھواں (بازو، حمایتی، مدد گار)، ’’بھَجیاں باہنھواں گل نوں ای آندیاں نیں‘‘۔ باہنھ پھڑنا (مدد دینا، دست گیری کرنا)، ’’رب نے باہنھ پھڑ لئی‘‘ (اللہ نے کرم کیا)۔
بازی، کھیل، کھیڈ۔ باکھ، باکھڑی، باکھل (پانچ چھ ماہ سے دودھ دیتی ہوئی گائے بھینس)۔ واگ (باگ : گھوڑے وغیرہ کی)، باگ (باغ)، باگھ، بگھیاڑ (بھیڑیا)۔ باگھا (حلق)، باگھا ٹَڈنا (حلق پھاڑ کر بولنا، چیخنا چِلّانا)۔ بال، بالک (بچہ، شاگرد)۔ بانجھ۔ ونجھ (بانس)، ’’نالے ونجھاں دا بیوپار نالے دیوی دے درشن (ایک کام کے دو، دو فاعدے)، ونجھلی(بانسری)۔ وانجھی، کھِیوا (کشتی کھینے والا، مانجھی، چپو چلانے والا)۔
بانی (بنائی ہوئی بات، قول معروف، بات، فرمان)، گُربانی (استاد یا مرشد کے اِرشادات)،بتنگڑ (بڑھائی ہوئی بات)۔
بانا (ساخت، بناوٹ، عمدہ لباس)۔ باوا (مٹی کا کھلونا)، باوی (ننھی بچی)۔ باؤ (بابو، چھوٹے بھائی یا بیٹے کو بھی کہتے ہیں)۔ باوا (کھلونا، بُت) ’’بول مٹی دیا باویا‘‘۔ بتی، وتی۔ وَت (پھر)، بَٹا، وٹا (بات)، وَٹنا (بدلنا، کمانا، وغیرہ)، وٹاندرا (ادل بدل، سودا)۔ وَٹ، وٹنا (یہ کثیرالمعانی لفظ ہے)۔
بال (بچہ، کمسن)، بال۔ بالک، بالکا (شاگرد، چھوٹا، کم مرتبہ شخص)۔ گرو جی دا بالکا (استاد یا مرشد کا چہیتا شاگرد)، ’’گرو جی بالکے بہتے ہو گئے نیں : کوئی نہیں، بھکھے مردے آپے نس جان گے‘‘۔ بلے (شاباش)۔ بُلّا (ہوا کا جھونکا)، جمع: بُلّے (غم اور دکھ کا بار بار آنا)۔ بالائی؛ ملائی (ابلے ہوئے دودھ کی سطح پر جمع ہونے والی چکنائی: اس کو جاگ لگا کر، بلو کر مکھن بناتے ہیں)۔ بالی، والی (کان کا ہلکا سا زیور)۔ بالم (عورت کا محبوب)۔ بان، وان (رسیاں جن سے چارپائی بُنتے ہیں)۔
باہمن (مراد ہے برہمن)۔ ونڈ (تقسیم)، مختلف ادھ پسی اجناس، کھل بنولے وغیرہ ملا کر مویشیوں کا کھلاتے ہیں۔ اسے وَنڈ بھی کہتے ہیں، وَنڈا بھی۔ دانہ وَنڈ۔ وَنڈنا (تقسیم کرنا)۔ وانس، وَنجھ (بانس)، وَنجھ (کشتی کے چپو)، وَنجھلی (بانسری، بنسی)۔ بانک (کسی پہئے گھومنے سے روکنے کے لئے پھنسائی جانے والی لکڑی)۔ بانکا (بے فکرا، شوخ و شنگ)۔ بانگ (آواز، پکار، اذان)۔ بانگا (مؤذن) مرغے کو بھی کہتے ہیں۔ بانگڑو (احمق؛ کلمۂ تحقیر)۔ بانو (عورت)۔ بانہہ (نون غنہ کے ساتھ): بازو، بانہواں (استعارے کے طور پر اس لڑکی کو بھی کہتے ہیں جو کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو)۔ بانھ (نون ناطق کے ساتھ): پابندی، شرط، ذمہ داری) بنھ (نون مشدد کے ساتھ: رکاوٹ): بنھ پے گیا (اجابت میں شدید رکاوٹ آ گئی)۔
باوا (مٹی یا بھُس وغیرہ کا بنا ہوا انسان نما کھلونا، گُڈّا)۔
ایک لوری ہے: الھڑ بلھڑ باوے دا، باوا کنک لیاوے دا، ککو بہہ کے چھٹے دی، چھٹ بھڑولے پاوے دی، بچیاں نوں کھواوے دی، بچے وڈے ہون دے، مائی دا جھاٹا کھون دے۔
سادہ ترجمہ: سب کچھ اس باوے (ننھے بچے) کے لئے ہے۔ باوا گندم لائے گا۔ باوے کی گھر والی اس کو صاف کرے گی، محفوظ کرے گی، بچوں کو کھلائے گی، بچے بڑے ہوں گے اور ماں کی چُٹیا نوچیں گے (تذلیل کریں گے)۔
بائی (عدد بائیس)۔ فاحشہ عورت کو بھی بائی کہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں ’’بھائی‘‘ مخفف ہو کر ’’بائی‘‘ یا ’’بئی‘‘ بن جاتا ہے (بھئی)۔ بَبّر (ببر شیر، دلیر، بہادر، جابر)، بِبّر (مٹی کا کڑاہی نما برتن) بِبری (مٹی کے برتن کا ٹوٹا ہوا ٹکڑا)۔ مُشک بِبری؛ مُشک بَبری (نیاز بو، ریحان، تُلسی)۔ ببول (کیکر)۔ بِپتا (مصیبت)۔
بُت (جسم: عام طور پر بغیر روح کے معانی دیتا ہے)۔
بُتّا، بُتّا سارنا (گزارہ کرنا)، بُتّا سَرنا (گزارہ ہو جانا)۔ بُتّی (زمین میں چھوٹا ۔ تقریباً پیالی جتنا گڑھا کھود کر اس کی بنیاد پر کچھ کھیل رائج ہیں)؛ کنایتاً اندامِ نہانی کو بُتّی بھی کہتے ہیں۔ ٹویا (گڑھا)، ٹوئی (چھوٹا سا گڑھا)۔ بُٹ (مسوڑھے)۔ بَتّی (روشنی دینے والی شے)۔ بَتّی (عدد: بتیس)۔ بَتّی، بات، وات، وَت، وَتّی (دئے یا لالٹین میں سوتی فیتہ جو جلتا ہے) اس فیتے کی شکل و صورت کی کوئی شے۔ اس کو وَٹ بھی کہتے ہیں؛ مصدر : وَٹنا (باٹنا) سے۔ وٹَنا (تبدیل ہو جانا، بدل جانا)، وٹانا (اشیا کا تبادلہ کرنا)، وٹاندرا (اشیا کے تبادلے کا عمل)۔ وٹاندرا اور وَنڈ میں فرق ہے؛ وَنڈ تقسیم کا عمل ہے اور وٹاندرا تبادلے کا۔ وَٹ (حبس)۔ باٹا (چوڑا چکلا؛ کھلا، موٹا تازہ، صحت مند، لمبا تڑنگا)۔ بَٹلا کرنا، وَٹلا کرنا (جمع کرنا: لوگوں اور اشیا دونوں کے لئے مستعمل ہے)۔
وَٹّا (باٹ، پتھر، مٹی کا سخت ڈھیلا)۔ وَٹّا سَٹّا (ادلے بدلے کی شادی کو کہتے ہیں)۔ اس کے کچھ مبتذل معانی بھی ہیں (ناگفتہ بہ)۔ وٹوانی کرنا (مٹی کے ڈھیلے سے استنجا کرنا)۔ باٹ، واٹ (فاصلہ)۔ بِٹ بِٹ ویکھنا (حیرانی یا پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھنا)۔
بجنا، وَجنا (باجے وغیرہ کا بجنا)؛ چوٹ، زخم وغیرہ کا سبب بننا ’’فلانے نوں پتھر وج گیا، چاقو وَج گیا، داتری وَج گئی‘‘، ’’فلانے دا سِر کَندھ وچ وَج گیا‘‘۔ اس سے متعدی ہے ’’وجانا‘‘۔ باجے بجانا۔ باجا سفید رنگ کے چڑیا جتنے ایک پرندے کا نام بھی ہے۔ بجوگ، وِجوگ، وِچھڑنا، وِچھوڑا (بچھڑنا، جدائی) : جوگ (ملاپ) کا الٹ۔ جوگ (بیلوں کی جوڑی)۔ وَچّھا، وَچّھی (گائے کا بچہ: نر، مادہ)، کَٹّا، کَٹّی (بھینس کا بچہ: نر، مادہ)۔ وَخت (مصیبت، مشکل): یہ بخت (نصیب) سے بنا ہے۔ وَکھرا (الگ، مختلف)، وَکھریواں (امتیاز کی وجہ، الگ کرنے والی خاصیت)۔
بدھائی، وِدھائی (مبارک باد)۔ وَدھ (بڑھ کر، زیادہ)۔ وادھو (فالتو، زائد)۔ وادھا (زیادتی، بڑھاوا)۔ وَڈھ (جس کھیت سے فصل کاٹ لی جائے، کاٹی جا چکی ہو)؛ عربی میں ایسے کھیت کو مَرعیٰ کہتے ہیں کہ وہاں لوگ بکریاں وغیرہ چَراتے ہیں۔ وَڈھنا (کاٹنا): فصل، درخت وغیرہ کو کاٹ دینے کو بھی کہتے ہیں۔ اور کوئی کتا، سانپ وغیرہ کے کاٹ لینے کو بھی۔ واڈھی (کٹائی) پنجاب میں عام طور پر گندم کی کٹائی (جہاں گندم کے علاوہ کوئی بڑی فصل ہو، اس کی کٹائی) مراد لی جاتی ہے۔
وِدیس (بدیس، پردیس)؛ وِدیسی (غیر ملکی)۔ وَر، بَر (جس کی تلاش شادی کے لئے کی جائے)؛ لفظ مذکر مستعمل ہے، مراد لڑکی بھی ہو سکتی ہے، لڑکا بھی۔ برات: اس کے متعدد معانی ہیں۔ بارات کا مخفف ہے۔ برات نصیب قسمت وغیرہ کو (مثبت منفی دونوں میں سے کوئی پہلو) کہتے ہیں: اصل عربی برأت یعنی بری ہونا تھا، لفظ کے ساتھ اس کے معانی بھی بدل گئے۔ شب برات (شبرات) میں یہ اصل معانی میں آیا ہے۔ بَر (کپڑے کے تھان وغیرہ کی چوڑائی یعنی عرض)۔
برادر، برادری۔ برادہ۔ براز (پاخانہ) پنجابی میں بہت کم مستعمل ہے، بَول (پیشاب) البتہ معروف ہے۔ براق (سفید کے معانی میں لیتے ہیں)۔ بُرکی (روٹی وغیرہ کا ایک لقمہ)۔
بَرُو (بروا، ایک خود رُو گھاس ہے)۔ قسمت ماڑی ہووے تے برو وی لڑ جاندا اے۔ بِرہا (جدائی، فراق) بڑ (بڑا کے معانی میں: سابقہ ہے): بڑبولا۔ پھَڑھ مارنا (بَڑ ہانکنا)۔ بڑا، بڑی، بڑے (زیادہ کے معانی دیتا ہے)؛ بڑا دُور، بڑا وڈا، بڑا ظالم، بڑے بھیڑے، بڑی سیانی۔ وَڈّا، وَڈّے، وَڈّی (عمر، قد، رتبے، حجم، وغیرہ میں بڑا، بڑے، بڑی)۔ وَدّھ (زیادہ، بڑھ کر) وادھو (فالتو)؛ وَدھیا (بَڑھیا)۔ بَڑ بَڑ کرنا، بُڑ بُڑ کرنا؛ دونوں معروف ہیں۔
بَڑبھَس (بڑھانے میں جوانی کی سی ’’خواہش‘‘)۔ بُڈھا، بڈھی (عمر کا درجہ) بڑھاپا، بڑھیپا، بڈھیپا؛ تینوں معروف ہیں، کچھ اور لہجے بھی ہو سکتے ہیں۔ بُڈّھڑ، بُڈھڑا، بُڈھڑی (تحقیر کا لہجہ ہے)۔ بزرگ (بڑی عمر کا: احترام کا لہجہ ہے)۔ بجاج (بزاز سے بگڑ کر بنا ہے: پارچہ فروش، کپڑا پیچنے والا)۔ بَس، وَس (بساط، قوت، اختیار)۔ بَس (ندائیہ: اختتام کے معانی میں)۔ بِس، وِس (زہر) دونوں معروف ہیں (وِش سے ماخوذ)۔ بسارنا، وسارنا، بسرنا، وسرنا (بھلا دینا، بھلا دیا جانا)، بسنا، وَسنا (آباد ہونا)۔ بسیرا : معروف معانی میں۔ وَسنا، ورھنا (برسنا: بارش کا، غصے کا اظہار کرنا)۔ بغلول (معزز نظر آنے والا احمق)۔ بُک (چُلّو، چُلّی؛ دونوں ہاتھوں کو ملا کر پیالے کی شکل دینا، مقدار جو اس میں سما جائے)۔ بَک، بَکنا، بکواس کرنا۔ بَک بَک (بلاوجہ تکرار)۔ بک بک جھک جھک (جھخ جھخ اور چخ چخ بھی مروّج ہے)۔ بَکبکا (ناگوار ذائقہ والی شے)۔
بِکری، وِکری (فروخت) بکاؤ، وِکاؤ (برائے فروخت)؛ بِکنا، وِکنا، بیچنا، ویچنا۔ بیچک (تلفظ: بے چک) وہ بِل جو دکاندار گاہک کو سامان کے ساتھ دیتا ہے۔ بکھیڑا (جھگڑا، اختلاف)۔ وِگاڑ (بِگاڑ)۔ وَنگار : نون غنہ کے ساتھ (بیگار)۔ وَنگارا (مانگے کا)۔ وَنگاری (دیہی ثقافت میں ایک شخص ہوتا ہے جو لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرتا رہتا ہے اور سال کے آخر میں یا فصل اٹھنے پر اس کو اناج کی صورت میں ادائیگی کی جاتی ہے؛ جو گاؤں گاؤں میں متعین ہوتی ہے)۔ وَنگ (چُوڑی)۔ وانگ (کی طرح)۔ وانگنا: اول نون غنہ (مرد کا عورت سے جنسی عمل کرنا)۔ وَگ، اِجَّڑ (بکریوں وغیرہ کا گلّہ، بچوں اور زیرِ کفالت لوگوں کی زیادہ تعداد کو تحقیر کے لہجے میں وَگ کہتے ہیں)۔ وَگ، وَگنا (بہہ جانا، بہنا، پیشاب کا خطا ہو جانا): فلانے دا ڈر نال مُوت وَگ گیا۔ اُس دے متھے تے مُڑھکا (پسینہ) وگدا پیا سی۔ وَگدی اے راوی، وچ مَجھاں دی اے میڑھ وے۔ واگ (گھوڑے وغیرہ کی باگ)۔ بَکّی (پنجابی لوک داستان کے مطابق مرزے جٹ کی گھوڑی کا نام تھا)۔ بَگٹُٹ: بَگ (باگ) ٹُٹ (ٹوٹ)۔ باگ تڑوا کر دوڑنا، بے تحاشا دوڑنا۔ بَگھی (گھوڑا گاڑی)۔ بَولد، ڈھگا (بیل؛ گائے کا نَر) گاں، ڈھگی (گائے)۔ گوکا (گائے کی نسبت سے) گوشت، چمڑا، دودھ، مکھن، گھی وغیرہ کی تخصیص کرتے ہیں؛ ماجھا (بھینس کی نسبت سے)۔
وَیہڑا، وَیہڑی، وَچھا، وَچھی (بچھڑا بچھڑی : بیل گائے کے لئے) اور وچھیرا، وچھیری (گدھے، گھوڑے، خچر کے بچے کے لئے: نر، مادہ)۔ کَٹّا، کَٹّی (بھینس کا بچہ: نر، مادہ)۔ جھوٹی : واوِ مجہول کے ساتھ (وہ بھینس جو گابھ کی عمر کو پہنچ جائے)؛ جوان لڑکی کو بھی کہتے ہیں (تحقیر کا لہجہ)۔ گڑھاپ ایسی گائے یا بھینس دونوں کے لئے بولا جاتا ہے۔ جھوٹا :واوِ مجہول کے ساتھ (بھینسا)۔ مَجھ، مَہیں (بھینس)۔ سَنڈھا، ساہن (سانڈ: وہ بیل یا بھینسا ہوتا ہے جسے نسل کَشی کے لئے تیار رکھا جاتا ہے)۔ سَنڈھا (سانڈ) ایسے مرد کو بھی کہتے ہیں جو جوان اور صحت مند دکھائی دے مگر کوئی کام وام کوئی نہ کرتا ہو، یا ہمہ وقت لڑائی جھگڑے پر مائل ہو۔ سَنڈھی (وہ بھینس جسے ہل وغیرہ میں جوتا جائے)۔
سانڈھا (گوہ، نیولے وغیرہ سے ملتا جُلتا ایک جانور ہے)۔ بَگھیلا (بھیڑیا، بھیڑیے کا بچہ)، بگھیاڑ، باگھ (بھیڑیا)۔ بگھیاڑی (کتے کی ایک نسل ہے)۔ بِلّا، بِلّی (معروف گھریلو جانور ہے) بلی کی آنکھوں کے رنگ کی مناسبت سے کسی کو بلی یا بلا کہتے ہیں۔ بَل، وَل (چکر، ہیر پھیر)۔ وَل (بیل)۔ وَل (اچھا، درست، تندرست)۔ وَل، وَت (پھر، اس کے بعد)۔ وَل (کی طرف)۔ وَلانواں (رسی وغیرہ کا کسی شے کے گرد چکر، قسمت کا چکر اور مصیبت، ہنگامی مشکل حالت یا حالات)۔
بُکّل مارنا (چادر، کھیس وغیرہ کو اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لینا) بہہ جا بکل مار کے؛ تیری بکل دے وچ چور۔ بگلا (سفید رنگ کا لمبی ٹانگوں والا ایک پرندہ) چالاک اور موقع پرست ٓدمی کو بھی کہتے ہیں۔ بِلکنا، وِلکنا، وِلکن (ٹوٹ کر رونا)۔ بلم (لڑائی کا ایک ہتھیار)۔ بالم، بلما (عورت کا محبوب)۔ رِڑکنا (دودھ، دہی کو بلونا)؛ ریڑکا پاونا (کسی بات، کسی نزاع، کسی بحث کو ارادتاً طول دینا)؛ اَدھ رِڑکا (دودھ، دہی جو پوری طرح نہ بلویا گیا ہو: یہ ایک قوت بخش مشروب ہے)۔ رَڑکنا (کھٹکنا، برا لگنا) کچھ گلاں رَڑکدیاں نیں یار؛ میں تنیوں اُنج ای رَڑکدا ہاں؛ رَڑکن (بے چینی، ہلکا دُکھ، پچھتاوا)؛ آنکھوں کے دُکھنے کو بھی کہنے ہیں۔ بَلی دینا(قربانی دینا)؛ بلہاری (قربان جانے والی)؛ بلی، بلیدان (قربانی)۔ بمبا، بمبو (چمنی، دھوئیں کے اخراج کے لئے بنایا ہوا سوراخ؛ وغیرہ)؛ بمبوکاٹ (ایسی گاڑی جو چلتے میں دھواں چھوڑے)۔ بَن، بننا، بَن ٹھن کے، بناوٹ، بناوٹی۔ بَنّا (دولھا) بَنّو (دلھن)۔ بنارسی لنگڑا (آم کی ایک قسم ہے)۔ بناس پتی (نباتات سے حاصل کیا گیا)۔ بناؤ، بناؤ سنگھار، سہاگ پُڑا (دلھن کے بناؤ سنگھار کی چیزیں)؛ پُڑا (پُڑیا کا مکبر)۔ بُنَت (بُنائی، ساخت، بافت)۔ بُندا، بُندی (بِندیا: ناک اور کان کا ہلکے وزن کا زیور ہے)۔ بِندی (صِفر کا ہندسہ یا علامت، نقطہ)۔ بُوند (قطرہ)؛ بُوندی (ایک مٹھائی ہے)؛ بُوند بُوند (تھوڑا تھوڑا)۔ بَند (انسانی جسم کا کوئی حصہ، بالخصوص جوڑ؛ گھوڑے کی کاٹھی کا ایک حصہ)۔ بَنّھ (رکاوٹ، بند، بندش)؛ بانھ : نون ناطق کے ساتھ (پابندی، بندھن)؛ بانْھ : نون غنہ کے ساتھ (بازو)۔ بھان (کسی شے کے ٹوٹے یا حصے، نقدی کے بدلے چھوٹی نقدی)؛ بھَننا (توڑنا)؛ بھُننا (بھوننا)؛ سَڑ بھُج جانا (جل بھُن جانا)؛ سَڑنا (جلنا)؛ ساڑ، ساڑا (جلن، جلاپا، حسد)؛ سَڑکن (جلن، درد)، سُڑکنا (پینا: بھونڈے طریقے سے، رونے کی ادا کاری کرنا، دکھلاوے کا رونا)؛ سُڑکی (چُسکی)؛ بو : واوِ مجہول کے ساتھ (بُو : واوِ معروف کے ساتھ)۔ بو : واوِ مجہول کو طویل کر کے بولیں تو (تحقیر کا آوازہ)؛ بُوائی، بِیائی، بِجائی (فصل بونے کا عمل، موسم وغیرہ)۔ بوتا، بوتی، ڈاچا، ڈاچی، اُٹھ یا اُوٹھ، اُٹھنی یا اُوٹھنی (اونٹ، اونٹنی)؛ ٹوڈا، ٹوڈی (اونٹ کا بچہ : نر، مادہ)؛ اُوت (بے وقوف، احمق)۔
 بوجھا، بوجھی (جیب، تھیلی، تھیلا)۔ بُجھنا (پہیلی وغیرہ کو بوجھنا؛ آگ یا شعلے کا بُجھنا)؛ بجھارت (پہیلی، الجھی ہوئی بات)؛ بھُجنا (بھُن جانا)، بھَجنا (دوڑنا؛ منکر ہو جانا)، بھِجنا (بھیگنا)۔ بھینا : یائے مجہول کے ساتھ (بھگونا)؛ بھَینا : یائے لین کے ساتھ (بہن)؛ بھَیں جانا، بھَیں آونا (واپس مڑ جانا، واپس آ جانا)؛ بھَوں جانا (مڑ جانا)؛ بھَوں (چکر)؛ بھَون (چیونٹیوں، سانپوں وغیرہ کے مسکن)؛ بھوئیں : واو مجہول، یائے مجہول (فرشِ زمین، قطعۂ زمین)؛ بھومی، بھُومی (زمین: بطور سیارہ، بطور بنائے تہذیب)۔ بھو، بھوں : واوِ مجہول کے ساتھ، توڑی : واوِ معروف کے ساتھ (بھوسہ)۔ پاہ، گوہیا، گوہا (گوبر)۔
بول : واو مجہول کے ساتھ (بات)؛ بول بچن، بول چال، مٹھے بول، بولنا، بلارا (بولنے کا انداز)؛ گل چنگی نہ ہووے، بندے دا بلارا تے چنگا ہووے یار۔ بُلار (زیادہ بولنے والا، بلند آواز والا)؛ بولی (منڈی میں بھاؤ یا قیمت لگانا)؛ بولی مارنا (طعنہ دینا، طنزیہ بات کرنا)؛ وکھری بولی بولنا (اظہار میں دوسروں سے مختلف ہونا)۔ بولی (زبان: مثلاً پنجابی، اردو؛ زبان کی ذیلی شاخ: مثلاً ماجھی، شاہ پوری، پوٹھوہاری)۔ بولنا (گائے بھینس بھیڑ بکری کا نر کی ضرورت کا اظہار)۔ بُونڈا، بُونڈی : واو معروف اور نون غنہ (گاجر، مولی، شلج کا پتوں کی طرف کا سرا)۔ بونڈی : واوِ مجہول سے ساتھ (نکما، بزدل، کام چور)۔ بونگا : واوِ لین اور نون غنہ (احمق، بے وقوف)؛ بونگی، یَبھلی (حماقت اور بے وقوفی والی بات)؛ یَبھل، یَبھلا (بے کار باتیں کرنے والا)؛ یَبھ (مصیبت، مشقت)؛ یَبھ جانا، یَبھ رہنا (بہت تھک جانا، حالات کی مار پڑنا)۔ بھابی، بھابھی (دونوں طرح لکھتے بھی ہیں بولتے بھی ہیں)، بھرجائی (بھاوج : بھائی کی بیوی)؛ ماڑے دی رَن جنے کھنے دی بھابی (غریب شخص کی خواتین کو بھی کوئی عزت نہیں دیتا)۔ بھاف (بھاپ)۔ بھار، بھارا (بوجھ، بوجھل)۔ بہار (موسم، خوشی، موج)۔ بہاری (جھاڑو)۔ بہاری مارنا (جھاڑو دینا)۔ بوہنی (دن کی پہلی نقد فروخت)۔ بھاجی (سالن، بیاہ شادی پر رسمی لین دین)۔ بھاٹ، بھَٹھ، بھٹھی (بھٹی، بھاڑ)۔ بھاڑا (بس وغیرہ کا کرایہ) بھاڑے تے پَینا (بعض گائے بھینس کو دودھ دوہنے سے پہلے کچھ نہ کچھ کھلانا پڑتا ہے یا وہ دودھ دوہنے کے وقت میں کھاتی رہتی ہیں۔ اس شے کو بھاڑا کہتے ہیں)۔ بھَج دوڑ (بھاگ دوڑ)۔ 
بھبکی (دھمکی)؛ گیدڑ بھبکی۔ بھبک، بھمک، بھباکا، بھماکا (آگ کا یک دم بھڑکنا)؛ بھبکڑ، بھمکڑ :کاف مشدد کے ساتھ (پروانہ، روشنی پر لپکنے والا پتنگا)۔ ٹٹیہنا : یاے لین کے ساتھ (جگنو، اڑتے ہوئے خود ٹمٹاتا ہے)۔ بھبوت، سواہ (راکھ)۔ بِہتر، بَہَتّر (۷۲)؛ بتھیرا، بہتیرا (کافی)۔ بھوت، بھوتنا، بھوتنی (فرضی جنات، واہمے)۔ پَٹھا، پَٹھی (شاگرد، جوان مرغ: مذکر، مؤنث، جوان لڑکے کو بھی کہتے ہیں)؛ پُٹھا، پُٹھی (اُلٹا، اُلٹی)؛ پَٹھ (جوان ہوتی ہوئی بکری؛ مذکر: پٹھورا)؛ پَٹھا (عضلہ)؛ پُٹھا (فی کس کے معانی میں بولتے ہیں)×؛ پُٹھ سِدھ (الٹا سیدھا)؛ پُٹھ کنڈا (ایک پودا ہے)۔ بھر، بھرنا۔ بھر، بھرواں، بھرویں (بھرپور)؛ بھر پیٹ (امیر آدمی)؛ دل بھر جانا، اکھاں بھر کے؛ بھریا پیتا (اکتایا ہوا شخص)؛ بھرنا، بھرانا، بھرائی، بھروائی، بھرتی (بھرنا اور اس سے متعلقات)؛ بھِڑنا (لڑنا، جھگڑنا)، بھیڑ : یاے مجہول کے ساتھ (لڑائی، جھگڑا)؛ بھِیڑ (بہت لوگ)؛ بھَیڑ (بُرائی)، بھَیڑا، بھَیڑی (برا، بری)؛ بھَیڑے، ایہن، گَڑے (اولے، ژالہ باری)۔بھرم (اعتماد، وقار، رکھ رکھاؤ؛ بعض مواقع پر بے اعتمادی کے لئے بھی بولتے ہیں)۔ بھونڈ، دھموڑی (بھِڑ)۔ پِڑ (کھلی جگہ، مقابلے کا میدان) پِڑ پَینا (واسطہ پڑنا)؛ پیڑا : یاے مجہول کے ساتھ (آٹے وغیرہ کا پیڑا)؛ پِیڑ (درد، ہمدردی، دکھ، حسد)؛ پِیڑنا (نچوڑ دینا، گنے وغیرہ کو پیلنا)؛ پِیڑا (ہمدردی؛ مشکل وقت) ۔۔۔
بھو: واوِ مجہول کے ساتھ (بھوُسا)۔ بھوئیں (زمین)، بھُنجے (زمین پر)۔ بھَوں (آنکھوں کے اوپر کے بال : بھَویں)۔ بھَونا (پھِرنا)؛ بھَوں آنا، بھَیں آنا (واپس آنا)، بھَینی (رہٹ کے اس دھُرے کو کہتے ہیں جو چرخی کو گھماتا ہے)۔ بھَس (حبس)؛ بھَس کڈھنا (غصے، نفرت یا بغض کا اظہار کرنا)۔ بھکُسوسنا (بے صبری سے جلدی جلدی کھانا)۔ بھَجنا، بھَجانا (بھاگنا، بھگانا؛ دوڑنا، دوڑانا)؛ بھِجنا، بھینا (یائے مجہول کے ساتھ) (بھیگنا، بھگونا)؛ بھُجنا، بھُننا، بھُنانا (بھُن جانا، بھوننا، بھُنوانا)؛ بھَجنا، بھَننا، بھَنانا (ٹوٹ جانا، توڑنا، تُڑوانا)۔ بھاج (دوڑ)؛ بھاجڑ (بھگدڑ، مہاجرت)، بھَونا (پھرنا، گھومنا)؛ بھُلنا، بھُلانا (بھُولنا، بھلانا)، بھلکڑ (بہت بھُولنے والا)۔ بھُلچُک (بھول چوک)۔ بھوگنا (بھگتنا)، بھوگ (بھگتاوا)۔ پھُلنا، پھُلانا (پھول جانا، پھلانا)؛ پھُلنا (خوشامد میں آ جانا)، پھُلانا (خوشامد کرنا)، پھَلنا (پھل دینا)، پھَرنا (راس آنا)، پھُرنا (خوشی، سرمستی میں ادھر ادھر بھاگتے پھرنا) : انسان اور پالتو جانور دونوں کے بچوں کے لئے بولتے ہیں۔ بھمبیری (تِتلی)؛ بھَور (بھنورا)۔ بھاں بھاں کرنا (بھائیں بھائیں کرنا، ویران ہونا)۔ بھونچال (زلزلہ) : یہ بھوئیں (زمین) اور چال (چلنا) کا مرکب ہے؛ بھُومی (زمین)۔ بھَون (چیونٹیوں، سانپوں وغیرہ کے بل)، بھَوَن (گھر)۔ بھَوندو (احمق)، بھئی (بھائی کا مخفف ہے: عام بول چال میں "کہ" کے معانی میں بھی لاتے ہیں)۔ بہی، بہی دانہ، بی دانہ (ایک پھل ہے)؛ بہی، وَہی (بہی کھاتہ، بنئے کا ادھار والے لوگوں کا حساب)۔ بھیت (بھید، راز)؛ بھیتی (رازدان)؛ بھِیت (دیوار، حد بندی، فصیل)؛ بھِیتر (اندر)۔ بھَیڑ (برائی)، بھَیڑا (بُرا)۔ بہیڑا (ایک بوٹی کا پھل ہے، ایک بیماری بھی ہے)۔ بھیس (ظاہری شکل و صورت)؛ بھیس وٹانا، بھیس بھرنا (اپنی ظاہر شکل و صورت کو بدلنا، کسی اور کا بھیس اختیار کرنا)۔ بھیلی، پیسی (گُڑ کی تھوڑی سی مقدار)۔  "جیہڑا گُڑ دیاں مَرے اوہنوں مَوہرا ضرور دینا اے؟" ۔