جمعہ، 3 جولائی، 2015

بے چارہ ۔ (1) ۔


بے چارہ (۱)

لالہ مصری خان نے بھرپور بے تکلفی سے مٹھائی کی پلیٹ پر ہاتھ صاف کیا، بلکہ پلیٹ ہی صاف کر دی۔ اپنی پگڑی کے لٹکتے ہوئے پلو سے ہونٹوں مونچھوں اور داڑھی کو صاف کیا، کھنکار کر گلے میں اٹکے ہوئے ذرات سے نجات حاصل کی اور اپنی مخصوص پاٹ دار آواز میں گیا ہوئے: ’’مبارک ہو بھئی! ویسے یہ مٹھائی تھی کس خوشی میں؟‘‘
ہم نے بتایا کہ’’ اللہ کریم نے ہمیں بیٹی سے نوازا ہے۔‘‘ تو لالہ کا چہرہ گویا کھل اٹھا۔ اس پر ان کی باتوں  نے افکار کے بہت سارے در وا کر دیے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے: ’’بیٹی اللہ کی عجیب نعمت ہے۔ تم اس کو پالتے پوستے ہو، تعلیم دلاتے ہو، گھر گھرہستی سکھاتے ہو، اس کے لئے ایسا لڑکا تلاش کرتے ہو جو تمہارے معیارات پر پورا اترتا ہو، دو بول پڑھاتے ہو اور دعاؤں کی چھاؤں میں اسے رخصت کرتے ہوئے ٹوٹ کر روتے بھی ہو اور مزید دعاؤں کی بارش سی برسا دیتے ہو۔‘‘ پھر جیسے چونک کر پوچھا: ’’یہ مولوی صاحب گئے ہیں ادھر سے؟‘‘ 
ہم نے اثبات میں سر ہلا دیا تو پوچھا: ’’کیوں؟ ‘‘ بتایا کہ ’’بیٹی کے کان میں اذان کہنے کو بلوایا تھا۔‘‘
لالہ کا چہرہ ایک دم تمتما اٹھا، بھاری بھرکم مونچھیں زنجیروں میں جکڑے ہوئے مگرمچھوں کی طرح تڑپنے لگیں اور آنکھیں ایسی سرخ ہو گئیں جیسے اندر کہیں کوئی جوالا مکھی پھٹ پڑا ہو۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے لالہ کے چہرے پر بھونچال کے اثرات دیکھے۔ غیض و غضب کے اس منظر سے ہم بخوبی واقف تھے، تاہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ مولوی صاحب اور اذان کے ساتھ اس زلزلے کا کیا رشتہ بنتا ہے جس نے ان کی براعظمی پلیٹوں کا باہم ٹکرا دیا تھا۔ ہم خوف زدگی کے عالم میں ان کے چہرے کو ایک ٹک دیکھ رہے تھے کہ دیکھئے کون سا لاوا نکلتا ہے اور کس کس کو بھسم کر کے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ 
’’کیوں؟ آخر کیوں؟‘‘ وہ بدقت تمام بولے۔ زلزلہ ان کی آواز پر بھی حاوی ہو رہا تھا۔ ’’مولوی کو بلانا کیوں ضروری تھا؟ تمہارا گلا کٹ گیا تھا کیا؟ خود اذان کیوں نہیں کہی؟‘‘ لالہ مصری خان کے لہجے کی کڑواہٹ میں شکایت کی نمکینی بھی شامل تھی۔
’’وہ، خان لالہ، بات دراصل یہ ہے کہ، وہ اصل میں، بات، اذان، کچھ بھی تو نہیں لالہ! بس وہ ایک جھجک سی آتی تھی‘‘۔ 
’’کس بات کی جھجک؟ کوئی گناہ کا کام تھا کیا؟‘‘ لاوا بہہ نکلا۔ ’’مولوی کو بلا بھیجا کہ نیک آدمی ہے ایک آدھ گناہ سے اس کا کیا جائے گا؟ ہے نا!‘‘ ہم لالہ کی نگاہوں کی مزید تاب نہیں لا سکتے تھے۔ بات ان کی صد فی صد درست تھی۔ ندامت کے بار نے ہماری گردن جھکا دی تھی۔
لالہ کہہ رہے تھے: ’’دنیا جہان کے شاعروں کی غزلیں کیا پورے پورے دیوان تمہیں یاد ہیں، بات کرتے ہو تو دلیل اور ردِ دلیل کا وہ ماحول بناتے ہو کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ تمہیں کیا اذان اور اقامت نہیں آتی؟ ‘‘۔
ہم بمشکل کہہ پائے کہ’’ آتی تو ہے، مگر ۔۔‘‘
’’مگر کیا؟ تمہیں ایک اتنے ذرا سے کام کے لئے مولوی درکار ہے! افسوس کا مقام ہے، کہ ایک مسلمان باپ کو اپنے بچے کے کان میں اذان کہنے کو مولوی درکار ہے۔‘‘ ہماری یہ کیفیت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
’’اس بچی سے بڑے کتنے ہیں؟‘‘
’’جی، تین ماشاء اللہ۔‘‘
’’ما شاء اللہ تب کہنا جب اپنی بیٹیوں کے نکاح کا خطبہ خود پڑھ سکو، نہ پڑھ سکو تو خود انا للہ پڑھ لینا۔‘‘ 
لالہ مصری خان کے اتنے تلخ جملے پر بھی ہم نے خاموشی میں عافیت جانی۔ کچھ دیر میں ان کا غصہ فرو ہوا تو بولے :’’ پانی پلواؤ، تمہیں تو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ پانی غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں طنز کا عنصر در آیا: ’’یہ مولوی نالائق ہے تمہارا، ہے نا؟ اس نے تمہیں اتنی سی بات نہیں بتائی۔‘‘ ہمیں یہ سمجھنے میں قطعاً کوئی دقت نہیں ہوئی کہ نام مولوی کا لیا جا رہا ہے، اور خبر ہماری۔
ہمارے چہرے پر شرمندہ سی مسکراہٹ دوڑ گئی اور ہم پانی لانے کے لئے بیٹھک کے اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گئے۔


بدرِ احمر کے قلم سے: جمعرات ۲؍ جولائی ۲۰۱۵ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں