بدھ، 31 مئی، 2017

یوں تو یہ بھی سوال بنتا ہے







یوں تو یہ بھی سوال بنتا ہے

شذرہ


منیر انور کے اولین شعری مجموعے "روپ کا کندن" پر میں نے عرض کیا تھا کہ شعر کا منصب ایک بات، خیال، احساس، نظریہ، کیفیت میں قاری کو شامل کرنا ہے۔ جمالیات شعر کا بنیادی خاصہ ہے۔ شعر جتنا سادہ ہو گا، قاری کے لئے اتنا ہی سہل ہو گا۔اس کی سچائی ہے جو اس کو تاثیر عطا کرتی ہے۔  کوئی جھوٹ بولے بھی تو اپنے آپ سے کیا جھوٹ بولے گا، اور کب تک اور کتنا؟ منیر انور جھوٹ کے اس چکر میں پڑا ہی نہیں۔ اپنےشعروں میں بھی وہی ایک سادہ سا، بلکہ سیدھا سادا، راست گو منیر انور بولتا سنائی دیتا ہے جو لچھے دار باتیں کرنے کی صلاحیت رکھتا تو ہے مگر کرتا نہیں۔ اسے تو اپنے مقصد سے غرض ہے اور اس بات سے کہ قاری اس کو کتنی سہولت سے پا لیتا ہے۔ میں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا تھا کہ منیر انور اپنی اسی سادہ بیانی سے پہچانا جائے گا۔

اس کے تازہ شعری مجموعے "رقص جاری رہے" کے مسودے سے میں سمجھا ہوں کہ وہ میری توقعات نہیں بلکہ میری امیدیں تھیں، جو مجھے پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس نے بہت مختصر دورانئے کا یہ سفر بہت تیزی سے اور درست سمت میں کیا ہے۔ اس کی وسعتِ نظر کا تو میں پہلے سے قائل رہا ہوں؛ اس کے انداز کی سادگی پختہ تر ہو گئی ہے، گہرائی اور بڑھ گئی ہے  اور اس کا قاری خود کو زیادہ سہولت میں پاتا ہے۔ اس کے لہجے میں جہاں گہری سنجیدگی پائی جاتی ہے، وہیں ایک ایسی منفرد شوخی بھی شامل ہو گئی ہے جس میں درد کی سانجھ غالب ہے۔ اس کے درد اب ایک نئی تال پر رقص کرتے ہیں۔
صرف اپنا خیال رکھنا تھا
اور وہ بھی نہیں ہوا تجھ سے
میں نے جب اپنی ہار مانی تھی
اُس کا لہجہ بجھا بجھا کیوں تھا

۔۔۔۔  محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان : بدھ 31 مئی 2017ء ۔