جمعہ، 30 نومبر، 2018

دامن جھاڑ دیا


ع: لو ہم نے دامن جھاڑ دیا




اس فقیر کا اب تک کا کل قلمی سرمایہ



محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان  ۔ 12 دسمبر 2018ء

پس نوشت: 
جمعرات: 6 دسمبر 2018ء کو اوپن یونیورسٹی نے محترمہ سعدیہ جبین (پی ایم او) کو اس فقیر پر ایم فل کرنے کی اجازت دی۔

منگل، 13 نومبر، 2018

دین کا ایک مفہوم






دین کا ایک مفہوم


انسان کی ذاتی، نجی، اجتماعی، ریاستی (الغرض ساری دنیاوی) زندگی کی اخلاقیات اور ضابطے ضروریات، سماجیات، عبادات، حقوق اور فرائض، اخلاص؛ احتساب اور حساب، حیات بعد الموت، ایمانیات؛ اموال و املاک؛ اکتساب و اِنفاق؛ حقوق اللہ، حقوق العباد؛ ملل و امم کی تاریخ اور عبرت، علمِ نافع، کائنات کا مطالعہ اور اس سے فائدہ اٹھانا؛ یہ سب کچھ ”دین“ میں شامل ہے۔ اور دین کا منبع قرآن و حدیث ہے۔
جو قوم، طبقہ،معاشرہ، ملت دین پر جتنی زیادہ عمدگی سے چلے گی، اتنا فائدہ پائے گی۔ اِعراض کرنے والی قوم کو اپنا کیا بھگتنا پڑتا ہے، قانونِ فطرت یہی ہے۔ مسلمان قوم کے زوال کا سبب دین نہیں، دین سے اِعراض ہے۔ پہلی امتوں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔

جس کا جی چاہے مان لے، جس کا جی نہ چاہے نہ مانے۔ اللہ کریم نے انسان کو اختیار بھی دیا ہے اور وہ اس کا حساب بھی رکھتا ہے۔ آخرت تو ہے ہی، اللہ کریم کبھی اسی دنیا میں انسان کے کئے کے اثرات بھی دکھا دیتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کریم نے ایمان لانے والوں اور نہ لانے والوں میں جو خطِ امتیاز کھینچا ہے، اس کو پہلے ماننا ہو گا، بقیہ امور کی بنیاد یہی ہے: اسلام یا انکار (بیچ کا کوئی راستہ نہیں)! اسلام کے معانی اور مطالب بہت معروف ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اِس کو ٹھیک طور پر سمجھا اور اپنایا جائے۔

مومِن اور منکِر ؛ عمل دونوں کا اسی دنیا میں ہے۔ اور اجر؟ کافر کا اجر، اگر کوئی ہے تو اللہ ظلم نہیں کرتا، اس کا اجر اسے اِسی دنیا میں دے دیتا ہے کہ اُس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں؛ ایمان نہ لانے والا معاملہ اللہ کریم خود نمٹائے گا۔ مومِن کا اجر، کچھ یہاں ہے کچھ وہاں ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہاں کب کیا عطا کرنا ہے، اور کیا چیز وہاں کے لئے رکھ لینی ہے۔

قرآن سے لَو لگانی ہو گی۔ اس کے بغیر نہ ہدایت مل سکتی ہے نہ فلاح ۔ وماعلینا الالبلاغ۔

محمد یعقوب آسیؔ  منگل  13 نومبر 2018ء


جمعہ، 9 نومبر، 2018

نون اور غنہ کا مسئلہ








نون اور غنہ کا مسئلہ



میں نے ایک صاحب کے ایک سوال کے جواب میں عرض کیا تھا: ’’ابتدائی طور پر جو الفاظ زیر بحث آئے وہ ہیں: کھنڈر، مندر، چندر، چندرما۔کھنڈر : اس میں نون غنہ ہے اور اس کی صوتیت خبر،نظر، ہنر، یہاں، وہاں کے وزن پر ہے۔ مندر: ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ کے مطابق اس میں دال مکسور اور نون ناطق ہے (مَ ن دِ ر) اور اس کا عروضی وزن فِعلن پر ہے۔اِس کو مَندَر بھی بولتے ہیں، جو کہ غلط العام میں شمار ہوتا ہے۔ چندر: اس میں نون ناطق جزم کے ساتھ، اور دال ساکن ہے۔ ’رے‘ کی صورت وہی ہے جو پریم، پریت وغیرہ میں آتی ہے۔ صوتی اعتبار سے اس ’رے‘ کا شمار ’’ادھے اکھر‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ دیوناگری میں ایسی ’رے‘ کے لئے کوئی الگ حرف نہیں بلکہ یہ اپنے ماقبل پر ایک ’تُری‘ کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ جیسے بانس میں نون غنہ بِندی کی صورت میں لکھتے ہیں۔ اس کے مشتقات مثلاً چندرما، چندرماشی، چندر گپت وغیرہ میں بھی ’رے‘ کی ’’ادھے اکھر‘‘ کی حیثیت برقرار رہتی ہے۔ نون غنہ والے کچھ مزید الفاظ بھی دیکھتے جائیے: منہ، مینہ، بھینس، پھانس، چھٹانک، وغیرہ۔ یاد رہے کہ بھیانک اور اچانک میں نون ناطق مفتوح ہے۔ رہا یہ سوال کہ ہندی نون غنہ اور نون ناطق کا کوئی اصول بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان الفاظ کی دیوناگری املاء دیکھی جائے، جہاں نون بندی کی صورت میں ہے، وہ غنہ ہے اور جہاں نون اکھر (حرف) کی صورت میں ہے، وہ نون ناطق ہے‘‘۔

تاہم ضروری محسوس ہوتا ہے کہ عربی فارسی اور ہندی تینوں زبانوں میں نون اور غنہ کا مختصر مطالعہ کیا جائے۔ غنہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں: گانا، گنگنانا: غُنَّۃٌ، غُنَّہْ (غین مضموم، نون مشدد مفتوح، تائے مدورہ منون مرفوع؛ وقف کی صورت میں تائے مدورہ ہائے ہوز مجزوم میں بدل جاتا ہے)۔ اس کا مادہ غ ن ن ہے اور یہ ثلاثی مجرد کے باب سَمِعَ یَسْمَعُ سے ہے۔ فعل ماضی معروف کا پہلا صیغہ غَنَّ(اس نے گنگنایا)، اور فعل مضارع معروف کا پہلا صیغہ  یَغَنُّ وہ گنگناتا ہے ؛ وہ گنگنائے گا)، غُنَّۃٌ، وقف کی حالت میں غُنَّہْ(گنگناہٹ، آواز کو ناک سے نکالنا) ۔

عربی میں حرف نون غنہ (ں) سرے سے موجود ہی نہیں، نون کی یہ صورتیں پائی جاتی ہیں: نون تنوین، نون قطنی، نون کا اخفاء، اظہار، ادغام باغنہ، میم یا نون کے فوراً بعد باء، اور ادغام بغیرغنہ۔ مشق کے طور پر کوئی بھی ایسا لفظ ادا کیجئے جس میں میم یا نون ساکن (مجزوم) واقع ہو۔ آواز کسی نہ کسی حد تک ناک سے ضرور نکلے گی، ماسوائے اس صورت کے جسے ادغام بغیرِغنہ کہا جاتا ہے۔

نون تنوین: ایسے تمام اسماء اور مصادر (مصدر بھی اسم کی ایک قسم ہے) جن کے آخری حرف پر تنوین وارد ہو، اصلاً عربی زبان سے ہیں۔ اس کو ہم دو زبر، دو زیر، یا دو پیش کی صورت میں لکھتے ہیں۔ مثالیں:
رفعی حالت میں حَقٌّ، کتابٌ، عِلمٌ، اَوراقٌ (صوتیت: کتابُن، علمُن، اوراقُن)وغیرہ؛ نصبی حالت میں عمداً، سہواً، عموماً، حکماً، جواباً (صوتیت: عَمَدَن، سَہْوَن، عمُومَن، سوالَن، حُکْمَن)وغیرہ، اور جری حالت میں قو مٍ، وقتٍ (قومِن، وقتِن)وغیرہ۔ ملاحظہ ہو کہ نصبی حالت میں اسم کے آخر میں ایک الف کا اضافہ ہوتا ہے اور تنوین کا اثر ایسے الف سے پہلے حرف پر ہے۔ تاہم یاد رہے کہ ایسے الفاظ پر اگر الف لام تعریفی واقع ہو تو نہ تنوین باقی نہیں رہے گی نہ الف زائد، بلکہ صرف ایک زبر، زیر یا پیش لکھی جائے گی۔علاوہ ازیں وقف کی صورت میں تنوین والی گول ۃ (تائے مدورہ)ہائے ہوز (ہ) میں بدل جاتی ہے، تنوین رفعی یا جری والا حرف ساکن ہو جاتا ہے۔ تنوین نصبی بغیر الف کا قاعدہ تنوین رفعی و جری کے مطابق ہے ، جب کہ تنوین نصبی الف والے حرف میں الف زائد حرف علت کی حیثیت میں قائم رہتا ہے۔ مزید تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔

نون قطنی: بعض الفاظ کی جملے میں نشست اور ان کے معنوی تقاضوں کے پیشِ نظر تنوین ختم نہیں کی جا سکتی جبکہ اس کے بعد ہمزۃالوصل واقع ہوتا ہے۔ ایسی تنوین کی جگہ اکہری علامت حرکت لکھ کر ایک چھوٹا سا نون مکسور لکھ دیا جاتا ہے، یہ نون قطنی کہلاتا ہے۔ مثال:  اٰتِ مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ (اصلاً : اٰتِ مُحَمَّدًا اَلْوَسِیْلَۃَ ۔۔وسیلہ پر الف لام تعریفی کا الف در اصل ہمزۃ الوصل ہے)۔ وقف کی صورت میں نون قطنی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بسا اوقات قرآئے کرام سورۃ اخلاص کی پہلی آیت اور دوسری آیت کو ملا کر پڑھتے ہیں۔ یہاں لفظ اَحَدٌ کا معنوی تقاضایہ ہے کہ حرف دال پر تنوین قائم رہے جب کہ اَللہُ  کا الف در اصل ہمزۃ الوصل ہے۔ ملا کر پڑھنے کی صورت میں یہاں نون قطنی پیدا ہوتا ہے اور صوتیت یوں بنتی ہے: قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدُنِ اللہُ الصَّمَد۔ نون قطنی کی متعدد مثالیں سورۃ الکہف کے آخری رکوعات میں بھی میسر ہیں۔ 

نون وقایہ: یہ عربی سے خاص ہے۔  یہ نون علامتِ ضمیر  (ی: میرا، میری، میرے، مجھے) واحد متکلم سے پہلے پیدا ہوتی  ہے (یعنی ی کی جگہ جزوِ لفظ نی بن جاتا ہے)۔ اس کے خاص مواقع ہوتے ہیں۔ اردو شعر میں نون وقایہ کو بھی نہیں گرایا جا سکتا۔

نون کا اخفاء، اظہار، ادغام: کسی بھی لفظ میں یا دو لفظوں کے اتصال میں نون ساکن (بشمول تنوین) کے فوراً بعد حروفِ حلقی (ہمزہ، ہاء، عین، حاء) میں سے کوئی واقع ہو تو نون کا اظہار ہو گا، راء یا لام ہو تو ادغام غنہ کے بغیر، واو یا یاے ہو تو ادغام غنہ کے ساتھ، باء ہو تو باء کے زیرِ اثر نون کی صوتیت میم کی سی ہو جائے گی، باقیوں سے کوئی ہو تو اخفاء ہو گا۔ تاہم ان جملہ صورتوں میں اردو عروض کے اعتبار سے یہاں نون ساکن ایک ناطق حرف کی صورت میں موجود ہوتا ہے یا (ادغام بغیر غنہ کی صورت میں) اس کی جگہ لام ساکن یا راء ساکن مؤثر ہوتا ہے۔ اس کو محض غنہ یعنی گونج سمجھ کر گرا دینا اصولی طور پر غلط ہے۔ 

نون فارسی: اس پر پہلے کسی اور سیاق و سباق میں بات ہوئی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ:

۔الف۔  بہت سے الفاظ کو، جن کے آخر میں نون اور اس سے پہلے حرفِ علت (الف، واو، یاے) آتا ہے، نون ناطق اور نون غنہ دونوں کے ساتھ ادا کرنا درست مانا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جاں:جان، آسماں:آسمان، جواں:جوان، کہکشاں:کہکشان، دبستاں:دبستان، امکاں:امکان، زمیں:زمین، قریں:قرین، وغیرہ۔ ایسے الفاظ یا تو فارسی الاصل ہوتے ہیں یا عربی سے بوسیلہ فارسی اردو میں داخل ہوئے ہیں۔ ایسے الفاظ میں نون کو ناطق پڑھیں یا غنہ، معانی میں فرق واقع نہیں ہوتا۔ ہم اپنی سہولت کے لئے ایسے نون کو نونِ فارسی کہہ لیتے ہیں۔ فارسی میں نون غنہ کا تصور ویسا نہیں جیسا اردو میں ہے۔ ان کے ہاں نونِ فارسی ساکن کی ادائیگی نون غنہ اور نون ناطق کے بین بین ہوتی ہے۔ جب ایسے نون پر کوئی حرکت وارد ہو تو یہ نون ناطق ہو جاتا ہے۔ جاں: جانِ جہاں، آسماں: آسمانوں، آسمانی، جواں: جوانی،جوانان، جوانانِ وطن، دبستاں: دبستانِ عروض، امکاں: امکانی، زمیں: زمین و آسماں،زمینی، قریں: قرینِ قیاس، داستاں:داستانیں، زباں:زبانیں، و علیٰ ہٰذا القیاس۔

۔ب۔  دوسری طرف ایسے الفاظ ہیں کہ جن کے نونِ آخر کو ناطق اور غنہ پڑھنے سے معانی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ماں(مادر) اور مان (فخر، غرور)، جوں (جیسے) اور جون (نسل) وغیرہ، ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ یا تو مقامی زبانوں سے اردو میں آئے ہیں یا اردو زبان کی تشکیل کے ساتھ ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں واقع ہونے والا نون،مجملاً نونِ فارسی نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ یہاں نون اور نون غنہ دو الگ حروف ہیں۔ مزید مثالیں ایسی بھی دی جا سکتی ہیں جہاں نون اور نون غنہ کا فرق لفظ کی اصل کا مظہر ہے۔ مثلاً جہاں (جس جگہ: اردو)، جہاں یاجہان (دنیا: فارسی)۔ بعض الفاظ یکساں ادائیگی رکھتے ہیں لیکن ان کی اصل مختلف ہوتی ہے، لہٰذا معانی بھی مختلف ہوتے ہیں(الا قلیل)۔ مثلاً بین (رونا پیٹنا: اردو) بین (بیچ: عربی)۔

جیسے میں پہلے عرض کر چکا، فارسی میں نون غنہ کی املاء اردو سے بعینہٖ منطبق نہیں۔ اس سے قطع نظر کہ کسی لفظ میں آمدہ نون ناطق ہے یا غنہ، وہ لوگ نون میں نقطہ لگاتے ہیں، اور پڑھنے میں مکمل غنہ نہیں کرتے۔ نثر میں تو عام طور پر نون کا مکمل اظہار کیا جاتا ہے، شعر پڑھنے میں نون غنہ کو مختصر ادا کیا جاتا ہے۔ فارسی میں حرفِ علت الف کی ہائے ہوز ماقبل مکسور کی ادائیگی تو اُردُو سے خاصی مختلف ہے، تاہم یہ اِس وقت کا موضوع نہیں ہے، پھر کبھی سہی۔ دل چسپی رکھنے والے احباب اس فقیر کے مضامین بعنوان ’’اسباقِ فارسی‘‘ اور ’’زبانِ یارِ من‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔  

فی الوقت ہمارا قضیہ نونِ ہندی (بہ صورتِ ’’بِندی‘‘) ہے۔ یہاں بنیادی اہمیت اس نکتے کو حاصل ہے کہ ہندی کا اصل رسم الخط دیوناگری اور اُردُو کا رسم الخط فارسی ہے۔ ہندوستان میں اردو کی پیدائش سیاسی، حربی، علمی، معاشرتی، مذہبی، تہذیبی اور لسانی عوامل کے ایک طویل سلسلے کا حاصل ہے۔ برصغیر میں ان دونوں زبانوں نے ایک دوسری کے شانہ بہ شانہ خاصا لمبا صفر کیا ہے، جس کے نتائج و عواقب میں ایک یہ بھی ہے کہ اپنے اپنے رسم الخط میں رہتے ہوئے دونوں نے ایک دوسری سے اصوات لی ہیں اور ان کے مطابق حروف میں تبدیلیاں کی ہیں۔

فارسی رسم الخط کے حروف ت، د، ر میں نقاط کی بجائے ایک چھوٹی سی ط جیسی علامت (جسے زبان زدِ عام میں ٹوپی بھی کہا جاتا ہے) داخل کی گئی۔ دیوناگری میں ب، ت، ٹ سے ہم مخرج مگر آزاد حرف بھ، تھ، ٹھ وغیرہ موجود ہیں۔ فارسی رسم الخط میں انہی ب، ت، ٹ کے ساتھ دو چشمی ھ ملا کر یہ آوازیں حاصل کی گئیں۔ مقامی آوازوں میں غنہ ظاہر کرنے کے لئے ن کی نقطے کے بغیر صورت ں وضع ہوئی، جسے نون غنہ کہا گیا۔ یہی ں جب الفاظ کے اندر وارد ہوا تو اسے نون کے موافق لکھ کر اس پر غنہ کی علامت بنا دی گئی (فی الوقت میرے پاس ان پیج یا یونی کوڈ میں مذکورہ علامت دستیاب نہیں، تاہم جہاں تک ممکن ہو، علامات بنانے کی کوشش کرتا ہوں)۔ جوں جوں زبان مانوس ہوتی گئی، زبر، زیر پیش،غنہ اور شد وغیرہ کی علامات لگانا غیر ضروری ہوتا گیا، ماسوائے جہاں ایسا ناگزیر ہو۔ مقامی زبانوں میں موجود ’’آدھی آوازوں‘‘ کے لئے فارسی رسم الخط کے ’’پوری آواز‘‘ والے حروف رواج پا گئے (مثلاً: کیا، کیوں کی ی؛ پریم، پریت کی ر؛ وغیرہ)۔ گورو نانک کے عہد سے اردو رسم الخط کو شاہ مکھی اور دیوناگری رسم الخط کو گرمکھی بھی کہا جانے لگا ہے (لفظ گرمکھی میں گر سے مراد گورو نانک ہے)۔
دوسری طرف دیو ناگری رسم الخط میں متعدد ’’اردو‘‘ آوازوں کی حرفی صورتیں اصلاً موجود نہیں تھیں، کہ ان لوگوں کو ضرورت نہیں تھی۔ مثلاً: ث، خ، ذ، ز، ژ، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، وغیرہ۔ اردو، فارسی اور عربی کے نفوذ کے ساتھ ان آوازوں کے قریب کی آوازوں والے حروف میں بندی (نقطہ) وغیرہ کا اضافہ کر کے نئے حروف بنائے گئے (میرے کمپیوٹر میں دیوناگری خط دستیاب نہیں۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ دیو ناگری رسم الخط سے میری شناسائی واجبی سے بھی کچھ کم ہے)۔ ’’تقریباً یکساں‘‘ آوازوں کو پہلے سے موجود حروف کے تابع سمجھ لیا گیا جیسے ث، س، ص ایک گروہ بن گیا؛ ذ، ز، ض، ظ ایک گروہ ہوا۔ یہ گروہ بندی میں مماثل آوازوں کی حد تک تو گزارا کر سکتی ہے، مگر جب معاملات معانی کے آن پڑیں تو مسئلہ حل نہیں ہو پاتا۔ مثال کے طور پر گرمکھی میں لفظ نذیر اور نظیر کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے، جب کہ ان کے معانی مختلف ہیں (نذیر: خبردار کرنے والا، نظیر: مثال)؛ اسی طرح ثواب اور صواب، بہر اور بحر؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

اب ہم آتے ہیں کسی خاص حرف کے استعمال کا اصول ’’وضع کرنے‘‘ کی طرف۔ رسوم الخط یا زبان کے بدلنے سے یعنی کسی لفظ کے ایک زبان سے دوسری میں آ جانے سے اس کے ہجوں، اعراب، معانی میں کہاں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے، یا ایسے لفظ کی کون سی نئی صورت سامنے آتی ہے، یا اس قبیل کے کون کون سے الفاظ جنم لیتے ہیں؛ ان امور کا فیصلہ نسلوں میں جا کر ہوا کرتا ہے۔ کسی ایک فرد یا گروہ کا کہا ہوا مؤثر نہیں ہوتا۔ املاء کے ضمن میں ایک بات البتہ بہت واضح ہے کہ دوسری زبان سے آنے والا لفظ اگر آپ کی زبان میں موجود اور مستعمل حروفِ تہجی میں بخوبی ادا ہو سکتا ہو تو اس کی صوتیت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی اور نہ اس کی ضرورت ہوتی ہے، معانی کا معاملہ کسی قدر مختلف ہے۔ ایک ہی رسم الخط کی زبانیں ایک دوسری کے الفاظ جلدی اور بہ سہولت قبول کرتی ہیں اور ان کو قریب قریب انہی معانی میں لے لیتی ہیں جن میں وہ اپنی اصل زبان میں رائج ہیں۔ ہاں، ان سے نئے الفاظ پیدا ہوں تو اُن میں کچھ نہ کچھ معنوی فرق واقع ہو جانا عین ممکن ہے۔ مثلاً مراسلت اور مراسلہ، اِقامت اور اِقامہ، سیارہ اور سیارچہ، گزارہ اور گزارا؛  وغیرہ۔  

لہٰذا جہاں کہیں کسی لفظ کے حوالے سے قضیے کی صورت پیدا ہو، وہاں پہلا اقدام تو ایسے لفظ کی اصل کو سمجھنا ہے۔ پھر، یہ کہ اپنی اصل زبان میں اس کے ہجے کیا ہیں، اس کی صوتیت کیا ہے، ترکیب اور ساخت کیا ہے، معانی کیا ہیں؛ جس زبان میں وہ لفظ وارد ہوا ہے آیا اُس کا رسم الخط اصل زبان سے منطبق ہے یا رسوم الخط کے اسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں؛ ہر دو زبانوں میں اس لفظ کی املاء میں کون سی تبدیلی ناگزیر تھی؛ کیا وہ لفظ اپنی اصلی صوتیت اور معانی کے ساتھ رائج ہے، یا اس میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے؛ اگر ہوئی ہے تو کس حد تک؛ وغیرہ۔ اس وقت کا سوال نون یا نون غنہ کے ہندی الاصل الفاظ کے اندر واقع ہونے سے متعلق ہے۔ املاء اور تلفظ کی کچھ مثالیں دیکھئے: بھینْس (بھَے ںس)، پھانْک (پھا ں ک)، گونْج (گُو ں ج)، مُنْہ (مُ ں ہ)، مینْہ (مے ں ہ)، کھنْڈر (کھَ ں ڈَر)، پہنْچ (پَ ہُ ں چْ)، ہنْسی (ہَ ں سی)، دانْت (دا ں ت)، سانْسیں (ساں سے ں)، چھٹانْک (چھ ٹاں ک)؛ وغیرہ میں نون غنہ ہے۔ وہ الگ بات کہ ہم ہر نون غنہ پر علامتِ غنہ نہیں بناتے یوں وہ بظاہر نون دکھائی دیتا ہے: بھینس، پھانک، گونج، منہ، مینہ، کھنڈر، پہنچ، ہنسی، دانت ، سانسیں، چھٹانک۔ یہ عمل اِعراب (زبر، زیر، پیش وغیرہ) نہ لگانے کے متماثل ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایسے الفاظ بھی کثیر تعداد میں ہیں جن میں نون ناطق ہے، مثلاً: مندر (مَنْ دِر)، سُندر (سُنْ دَر)، بھلے مانَس (بھ لے مانَس)، اچانک (اچا نَک)۔

سامنے کی بات یہ نکلتی ہے کہ کسی لفظ کے محض ہجوں (حروف کی ترتیب اور اِعراب) سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اس میں شامل نون غنہ ہے یا ناطق۔ سند وہی ہے کہ اہل زبان اس کو لکھتے کیسے ہیں اور بولتے کیسے ہیں۔ نون غنہ کے لئے دیوناگری یا گرمکھی میں بِندی اور اردو رسم الخط میں علامتِ غنہ پہلے مذکور ہو چکیں۔

ہمارے پاس اساتذہ کا شعری اور نثری کلام ہے تو اعتبار یہی ہے کہ کسی لفظ کو اردو کے اساتذہ نے کیسے لکھا، پڑھا اور بولا ہے۔ کوئی شخص اگر یہ کہہ دے کہ: ’’اساتذہ نے ایسا کر دیا تو کیا ہم اُن کے کہے کے پابند ہیں؟ یا کیا ہم اُس کو تبدیل نہیں کر سکتے؟‘‘ اساتذہ نے خود تو سارے لفظ وضع نہیں کئے! میرے نزدیک ایسی بات زبانوں کی پیدائش اور ترویج کے فطری اصولوں کی نفی کرنے کے مترادف ہے، اور مجھے ایسے شخص سے کچھ نہیں لینا دینا۔ کچھ اسی طرح کی بات ایک اور شخص کہتا ہے، کہ ’’ہماری اردو کا تو رسم الخط ہی ناقص ہے!‘‘ تو یہ اس کی اپنی کم علمی اور کج فہمی کا حاصل ہے۔

میری قبیل کے لاکھوں لوگوں کے نزدیک زبان صرف اصوات و حروف کا نام نہیں پوری تہذیب کا نام ہے اور ہماری نظر میں تو اُردُو کو یہی رسم الخط جچتا ہے، کہ اس کے پیچھے ہمارا کم و بیش ایک ہزار سال کا تہذیبی سفر ہے۔ جسے کسی کی انفرادی سوچ کے لئے بہ یک جنبشِ قلم رد نہیں کیا جا سکتا۔
......


محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ 23 جون 2018ء