بدھ، 15 جولائی، 2015

بے چارہ (4)۔

بے چارہ (4

یہ بھی ہے اظہار کی صورت
ہونٹ ہلیں آواز نہ آئے
شعر کی حد تک تو بات جو ہے سو ہے، مگر ہونٹ ہلیں لالہ مصری خان کے اور آواز نہ آئے؟ بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی۔ ہم رہ نہیں سکے، پوچھا کیا ہوا؟تو وہ کچھ بجھے بجھے سے دکھائی دینے لگے۔ ہم نے پھر پوچھا تو خاصی دھیمی آواز میں گویا ہوئے: ’’میں نے بچوں کو مِدّی میاں کے گھر سے اٹھوا لیا ہے‘‘۔ ہمیں بہت حیرانی ہوئی، کہ لالہ تو بہت خوش ہوا کرتے تھے، یہ یکا یک کیا ہو گیا!۔ 

مِدّی میاں ہمارے ایک محلے دار کی عرفیت ہے ۔پورا نام ان کا بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا؛ کوئی فون پر بھی ان سے پوچھ لے کہ ’کون بول رہا ہے‘ تو کہتے ہیں’مِدّی میاں بول رہا ہوں۔ مدی میاں کی بیٹیاں درسِ نظامی سے فارغ التحصیل ہیں، دونوں کی قرأت و تجوید کی تعریف سنی تو خان لالہ نے ان سے بات کی کہ بچیوں سے کہو میرے دونوں چھوٹے بچوں کو قرآن شریف پڑھا دیں۔ مدی میاں نے کہا: بھئی ہم تو ٹیوشن فیس لیتے ہیں۔ لالہ نے بہ رضا و رغبت  ایک ہزار روپے دے دئے اور بچے مدی میاں کے ہاں جانے لگے۔ دو مہینے میں بچوں نے کچا قاعدہ، نورانی قاعدہ اور یسرناالقرآن پڑھ لئے۔ لالہ بہت خوش تھے کہ بچوں کی شین قاف بھی درست ہو گئی ہے، اعراب، رموزِ اوقاف اور دیگر عناصر میں بھی ان کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔ وقتاً فوقتاً ہمیں بتاتے رہتے، اور اس وقت لالہ کے چہرے پر مسرت کی دمک قابلِ دید ہوتی۔

’’ ایک دم ایسا کیا ہو گیا،خان جی؟ آپ تو بہت خوش تھے۔‘‘ لالہ مصری خان نے ایک گہری سانس لی (جو سانس سے زیادہ آہ کہلانے کی مستحق ہے) اور کہنے لگے: ’’بس یار! بات پیسوں کی نہیں، بات قاعدے کی ہے۔ مدی میاں اور ان کی بچیوں کی سوچ کھلی تو بچوں کو اٹھوا لیا ہے۔‘‘ لالہ نے بات جاری رکھی:

’’ پرسوں بچوں نے بتایا کہ کل سے پہلا سیپارہ لے کر جانا ہے۔ میں بازار گیا اور تلاش کر کے ترجمے والے سیپارے لایا کہ چلئے معانی کی باضابطہ تعلیم نہ سہی، سبق پرھتے میں معانی دیکھتے رہنے سے انسیت پیدا ہو گی اور ہولے ہولے تفہیم بھی ہونے لگے گی۔ کل بچے سیپارے لے کر گئے تو انہیں کہا گیا کہ بغیر ترجمے والے لے کر آؤ پھر سبق پڑھائیں گے۔ بچے گھر آ گئے میرے لئے یہ مطالبہ حیران کن سے زیادہ تکلیف دہ تھا، بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی۔ گھر والی کو بھیجا کہ پتہ تو کرو اصل بات کیا ہے۔ اس نے آ کے بتایا کہ بچوں نے بالکل ٹھیک بتایا ہے انہیں کہا گیا تھا کہ ’بغیر ترجمے والے لے کر آؤ پھر سبق پڑھائیں گے۔ ‘ بھئی اس کی کوئی تُک؟ مجھے تو انہوں نے اسی طرح کہا ہے، آپ اُن کے باپ سے بات کریں؛ مشورہ صائب تھا۔ کل میں مدی میاں سے ملا تو اُن کا مؤقف بھی یہی تھا کہ جی بغیر ترجمے والے لاؤ۔ پوچھا کہ حضرت آپ نہیں چاہتے ؟کہ بچے کتاب اللہ کا علم حاصل کریں؟ یا آپ چاہتے ہیں کہ وہ قرآن کو پڑھ کر بھی اس سے مفاہیم و مطالب سے محروم رہیں؟ کہنے لگے نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے کہا: چلئے آپ ترجمہ نہیں پڑھاتے نہ پڑھائیں، بچے خود پڑھتے ہیں تو انہیں پڑھنے دیں ۔ انہیں سیپاروں پر سبق جاری رکھیں۔ مگر مِدّی میاں تو گویا ضِدّی میاں بن گئے۔ نہیں جی! سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اگر بچوں کو قرآن شریف پڑھانا تو ان کو بغیر ترجمے والے سیپارے لے کر دیں۔ سو، میں نے بچوں کو اٹھوا لیا۔‘‘ خان لالہ کی بات ختم ہوئی ، ہم نے دیکھا ان کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ 

ہم تو اُن کے چہرے پر برہمی کی بجلیاں دیکھنے اور گرج کڑک سننے کے عادی ہو چکے تھے، ان کی آنکھوں میں پھیلی دھند ہمارے لئے خاصی پریشان کن تھی۔ پوچھا: ’’اب؟ بچوں کو قرأت و تجوید کے ساتھ قرآن نہیں پڑھائیں گے کیا؟‘‘

’’کیوں نہیں پڑھاؤں گا!‘‘ لالہ کی دھاڑ کچھ بحال ہوتی محسوس ہوئی۔ ’’میں نے تو سہولت دیکھی تھی کہ بچے چھوٹے ہیں، گھر نزدیک ہے، فکرمندی نہیں ہوتی، قاری مطیع الرحمان والی مسجد ذرا ہٹ کے ہے ۔ میں نے انہیں قرآن پڑھاتے دیکھا ہے، معانی چھَپائی میں نہیں بھی ہوتے تو وہ آسان آسان بیان کرتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں: ’اگلے سیپارے سے ہم ترجمہ بھی ساتھ ساتھ پڑھیں گے‘۔ میری اُن سے بات ہو گئی ہے، کہنے لگے: ’لالہ ! جو پیسے مجھے دینے ہیں وہ مسجد کو دیں، اللہ برکت دے گا‘۔ سو، آج بچے مسجد گئے ہوئے ہیں۔ میں تو عصر کی نماز پڑھ کے چلا آیا۔‘‘ لالہ مصری خان اپنی بات مکمل کر چکے تو اُن کے چہرے پر اطمینان جھلک رہا تھا۔

تاہم ایک سوال ہنوز جواب طلب ہے۔ قرآن شریف پڑھانے والوں کا ایک خاص طبقہ ایسا کیوں چاہتا ہے کہ لوگ اس کتاب کی صرف عبارت پڑھ سکیں؟ کیا وہ نہیں چاہتے کہ اللہ کریم کے اس ابدی پیغام کی تفہیم بھی ہو؟ اس میں کس کا مفاد ہے؟ اور کیا؟ 

محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ بدھ ۱۵؍ جولائی ۲۰۱۵ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں