بدھ، 8 جولائی، 2015

بارش کب ہو گی! ۔ کہانی





بارش کب ہو گی!

*
دن ڈھل چکا تھا۔ دوسرے گاؤں کو جاتی پتلی سی ناہموار، گرد سے اٹی سڑک کے کنارے کیکر کی چھدری چھاؤں میں گاؤں کے من چلے جمع تھے اور چار چار کی ٹولیاں بنائے، تاش اور اڈی کھڈا کھیل رہے تھے۔ چاچا رفیق، جو عمر میں کچھ ایسا بوڑھا نہیں تھا، پر ... اسے شمّو نے بوڑھا کر دیاتھا، لاٹھی ٹیکتا، ہولے ہولے قدم اٹھاتا کھیتوں سے نمودار ہوا۔ اسے دیکھ کر لڑکوں نے جلدی جلدی تاش کے پتے چھپا لئے۔ چاچا رفیق اس معصوم بدحواسی پر زیرِ لب مسکرایا، لڑکوں سے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں اور گاؤں کی طرف بڑھ گیا۔ بازی پھر جم گئی۔
*
کوئی تین برس پہلے جب اس کی جوان بیٹی شمّو بیوہ ہوئی تب سے اس کے بڑھاپے کی رفتار اس کے قدموں کی رفتار سے بڑھ گئی تھی۔ اُس برس بادلوں نے برسنے سے انکار کر دیا تھا۔ فصلیں سوکھنے لگیں تو اس کے داماد کو مزدوری ملنی بھی بند ہو گئی اور وہ مہربان گاؤں کے نا مہربان موسم سے فرار ہو کر شہر کی بے رحم سڑکوں پر روزگار تلاش کرنے چل نکلا۔ شمّو نے بھی روکا، منتیں کیں، ہاتھ جوڑے، وہ ہاتھ جن کی مہندی کا رنگ ابھی نہیں چھُوٹا تھا۔
“چھوڑ سرفو، نہ جا!اس گاؤں کو چھوڑ کر نہ جا، میں فاقے کر لوں گی مگر ...“  مگر وہ نہیں مانا: “دیکھ شمّو! یہ بچوں والی باتیں ہیں، فاقے کرنا سوکھا نہیں ہے اور پھر بات کتنے دنوں کی ہے! بس یوں سمجھ کہ آج بارش ہوئی اور کل میں آیا”
“تو کیوں جاتا ہے، سرفراز، نہ جا مجھے ڈر لگتا ہے۔ بارش کا کیا پتہ، کون جانے، بارش کب ہو گی”
“مگر بھلئے لوکے! میں اس پاپی پیٹ کا کیا کروں؟ پہلے بات اور تھی، اب تو تُو بھی ہے نا، ہے نا!”
اور سرفو چلا گیا۔ پھر اگلے ہی دن پلٹ بھی آیا، مگر ایک لاش کی صورت میں۔ وہ شہر کی ایک سخت اور کالی سڑک پر برجیاں گاڑ رہا تھا کہ ایک تیز رفتار ٹرک کی زد میں آ گیا اور پھر سڑک کالی نہیں رہی تھی۔ سڑک تو سرخ ہو گئی پر شمو کا سرخ جوڑا نصیبوں کی سیاہی سے بھرگیا تھا، وہ یوں چپ چپیتی ہو گئی تھی جیسے پتھر سے بچھائی ہوئی سڑک، کالی، سخت اور خاموش۔ اس کی تو آنکھیں بھی جیسے پتھرا گئی تھیں، ان سے ایک اتھرو بھی نہیں گرا تھا۔ شاید وہ اس بارش کی منتظر تھی جس کا لارا سرفو دے گیا تھا۔
دنیا کے اجڑ جانے کے آٹھ دس دن بعدآسمان پر چھائے گہرے بادلوں میں بجلی کڑکی تواس کی چپ ٹوٹی اور اس نے اپنی ماں سے پوچھا “اماں! بارش کب ہو گی؟” اسی دن بارش ہوئی، مگر سرفراز واپس نہیں آیا۔ بس، وہ دن اور آج کا دن، وہ ہر ایک سے پوچھا کرتی ہے ’بارش کب ہو گی‘۔ اسے کون بتائے کہ اس کا سرفراز کب آئے گا اور کب اس کے صدیوں کے رکے آنسو بارش کا روپ دھاریں گے۔
*
وہی سہ پہر کا وقت تھا، وہی چاچا رفیق، وہی گرد سے اٹی سڑک اور وہی لڑکے، کیکر کے نیچے تاش کھیل رہے تھے، جب وہ ایک کھیت سے نکلا۔ اس نے سنا “اوئے چاچا آ گیا جے!” کسی نے جواب میں کہا “تو پھر، ہم کیا کریں؟ آ گیا ہے تو آنے دے! چل پتّہ سُٹ” چاچا ہولے ہولے قدم اٹھاتا ان کے پاس سے گزر گیا۔ اسے اپنے عقب میں ایک بلند اور گستاخ قہقہہ سنائی دیا تو اس کا بڑھاپا اور تیز ہو گیا اور قدم مزید سست پڑ گئے۔
گاؤں میں داخل ہوتے ہی داہنے ہاتھ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری تھی۔ اس نے شمو کو، جو اَب نیم دیوانی ہو گئی تھی، ڈسپنسری سے نکلتے دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی ایک شیشی تھی۔
“شمو! پُتّر، یہ کیا ہے؟”
“دوائی ہے ابّا! اماں کے لئے لائی ہوں۔ اماں بیمار ہے نا، ابا! وہ ڈاکٹر کہتا تھاٹھیک ہو جائے گی۔ پر، ابا! وہ ڈاکٹر تو خود بھی پاگل ہے۔ کہتا ہے :’ اس گاؤں کی ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں، ان کو میرے پاس پکڑ کر لاؤ، ان کا علاج کروں گا ... “
شمو نے ایک قہقہہ لگایا، کرب انگیز قہقہہ! اور بولتی گئی: “ابا! ہوائیں بھی بھلا کسی کے قابو آتی ہیں؟ کہتا ہے میں ہواؤں کا علاج کروں گا۔ ابا! یہ ہوائیں بیمار ہو گئی ہیں؟ کیا ہُوا ہے ہواؤں کو؟ یہ بارش کیوں نہیں لاتیں؟ ابا! بتا، نا ... ابا! بارش کب ہو گی؟” اور اپنے بوڑھے لاچار باپ کی آنکھوں میں اترے بادلوں سے بے پروا، آندھی کی طرح سسکیاں لیتی، شور مچاتی گھر کو بھاگ گئی۔
“اماں! ابّا آ گیا ہے، اب دیکھوں گی تو کیسے دوائی نہیں پیتی، اماں! ابا آ گیا ہے۔”
*
نادر نے احترام سے چاچا کو سلام کیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ “چاچا آپ باجی کا علاج کرائیں، وہ ٹھیک ہو جائے گی ۔ یہ ڈاکٹر بڑا سیانا ہے اور اچھا آدمی ہے۔ بڑی اچھی باتیں کرتا ہے اورڈائری میں بھی اچھی اچھی باتیں لکھتا ہے، میں نے اس کی ڈائری پڑھی ہے” چاچا اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ گاؤں بھر میں پھجّے چوکیدار کا بیٹا نادر ایک لڑکا تھا جو ہر بڑے کا ادب کرتا اور ہر کسی کے کام آنے میں خوشی پاتا تھا۔ ایک اسی کا بھائی تھا چھِیدا، جو باپ کے مرنے کے بعد چوکیدار بن گیا تھا، پر اُس کے لچھن ہی کچھ اور تھے۔ وہ ایک کیا، پورے گاؤں کی جیسے ہوا ہی بیمار ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر ٹھیک ہی تو کہتا تھا۔ نادر کہہ رہا تھا: “جب سے یہ ڈاکٹر آیا ہے نا، چاچا! لوگ دم جھاڑے کی بجائے دوا دارُو کرانے لگے ہیں اور موجو ملنگ بھی بہت بل کھا رہا ہے۔ اس کی نذر نیاز کی کمائی جو گھٹ گئی ہے اور وہ، میرا بھائی؟ اے کاش میں اس کا بھائی نہ ہوتا!” اس کے لہجے میں چیختی ہوئی آندھی کا سا درد تھا۔ باتیں وہی تھیں جو بہت دنوں سے گاؤں بھر میں گردش کر رہی تھیں۔ چھیدا چوکیدار موجو ملنگ بے شمار کالی کہانیوں کے کرداروں جیسے تھے۔ چاچا کے دل میں ایک ہُوک سی اٹھی، اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا: “رب خیر کرے، ڈاکٹر تو بہت اچھا آدمی ہے، اور یہ دنیا اچھے لوگوں کو نہیں جَرتی”۔ وہ جیسے بجھ سا گیا، وہ کر بھی کیا سکتا تھا سوائے اپنی نیندیں حرام کرنے کے!
*
“ڈاکٹر باؤ! بھاگ جا یہاں سے!لال آندھی آئے گی! جا، تُو بھاگ جا! تو ڈاکٹر ہے نا! پر، تو ہواؤں کا علاج نہیں کر سکتا ... ہوائیں تجھ سے ناراض ہیں۔ ہاں باؤ! لال آندھی! لال سوہی آندھی آئے گی۔ تو ڈاکٹر ہے نا، پر تُو بھی تو پاگل ہے۔ کبھی کسی نے ہوا کو بھی پکڑا ہے؟ تو بھی نہیں پکڑ سکے گا، اور ... وہ ... وہ لال آندھی تو آئے گی! جا، تو بھاگ جا! .... ہائے وے رباّ! پتہ نہیں بارش کب ہو گی” یہ کہا اورلمبا قہقہہ لگاتی شمّو رات کے ملگجے اندھیرے میں گم ہو گئی۔ ڈاکٹر کتنی ہی دیر تک بیٹھا خلاؤں میں گھورتا رہا۔ اس نے اپنی ڈائری کھولی اور لکھنے لگا “ کون جانے بارش کب ہو گی! سرخ آندھی کا خوف جو بادِ شمیم کے نرم رَو جھونکوں میں سسکیاں اور مجنونانہ قہقہے بھر رہا ہے، اسے ختم ہونا چاہئے۔ ہوا ئیں لاکھ بیمار سہی، مجھے ان کا علاج کرنا ہے!بارش؟ بارش جانے کب ہو گی، ہو گی بھی تو کیسی ہو گی! کچھ تو ہو رہے گا،لال آندھی؟ دیکھا جائے گا! .....”
*
رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی۔ لال آندھی کا خوف شمو کے حواس پر بدستور چھایا ہوا تھا اور اس کی بے اشک آنکھیں دیے کی بیمار، زرد ورشنی میں، اپنے بوڑھے ماں باپ کے چہروں کا طواف کر رہی تھیں۔ چاچا رفیق اپنی، اپنے جیسی بوڑھی ہم سفر کے سرہانے بیٹھا کھانس رہا تھا۔ لال رنگ کی شیشی بڑھیا کے سرہانے رکھی تھی۔ بڑھیا کی آنکھیں بوڑھے شوہر کے چہرے پر جمی تھیں اور کان اپنی شمو کی آوازپر لگے تھے جو نیم خوابیدہ لہجے اور ڈوبتے لفظوں میں ’لال آندھی‘ ’لال آندھی‘ کہہ رہی تھی۔ 
“کیا ہوا ہے تجھے؟” بُڑھیا تھوڑی دیر بعد پوچھتی۔ “مجھے، مجھے کیا ہو گا اب، بھاگ وانے!” وہ جواب دیتا اور مری مری آواز میں کہتا “ سو جا، بھاگاں والئے! سو جا”۔ بڑھیا جواب میں آنکھیں جھپکا کر سر ہلا دیتی اور کوئی گھڑی بھر بعد پھر پوچھتی: “کیا ہوا ہے تجھے؟”
باہر جھکڑ چل رہے تھے۔ ایک غم زدہ بوڑھا، ایک بیمار بڑھیا اور ایک نیم دیوانی جوان بیوہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں اپنی اپنی امیدوں کے ڈوبتے ستاروں کو دیکھ رہے تھے۔ دن چڑھے تک وہ جھکڑ لال آندھی بن چکے تھے اور ڈاکٹر، جو رات کسی وقت کالی کہانی کے کسی کردار کے ہاتھوں لال لال لہو میں نہا گیا تھا، اس لال آندھی کا حصہ بن گیا تھا۔
*****
محمد یعقوب آسیؔ  ۔۔۔ ۲۷؍ مارچ ۲۰۱۰ء


4 تبصرے:

  1. مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ ایسا بھی لکھیں گے. مجھے جو درد نثر میں نظر آرہا ہے جو کرب اور اس کرب کا کیف اور وجد .... وہ میری آنکھ کو بگھو نہ سکا ..... دل بھرا بھرا ہے. ..بقول شاعر
    "
    آنسو تو ای نہ ٹپکا بس دل.بھرا بھرا ہے "

    دیوانگی، جنون اور نیم پاگل ہستیاں جو کبھی صحت مند معاشرے کا حصہ تھیں بارش کا انتظار کرتی ہیں....

    بارش، آندھی ...... تباہی ... مچ گئ ہر سو تباہی ...آندھی کے بعد، سرخ آندھی .....
    پرواز سے کر کے گر گئے ...
    ایسے گرے کہ بارش نے سنبھالاز


    بلاشبہ ایک نادر اور کلاسیکی افسانہ ہے. بطور قاری میں اس کے سحر میں جکڑ گئ ...خوب

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. آپ کا حسنِ ذوق ہے، سعدیہ۔
      میں نے تو صرف یہ کیا ہے کہ کہانی کار کو کردار کی جگہ بٹھا دیا کہ میاں جان لو، تم چاچا رفیق ہوتے، ڈاکٹر ہوتے، نادر ہوتے، نیم دیوانی شمو ہوتے تو تمہارے محسوسات کیا ہوتے۔ اور تم ان کو بیان کیسے کرتے۔ بولتے تو کردار ہیں اور بولتے ان حالات کے تحت ہیں جو ان پر وارد ہوتے ہیں۔
      آداب مکرر۔

      حذف کریں
  2. آپ کو پتا ہے کبھی کبھی تحریر کے لیے الفاظ گم ہو جاتے ہیں
    اصل فن کہانی بنانا نہیں بلکہ احساس بنانا ہے. احساس کے تانے بانے روح کے غلاف میں لپیٹ دیتے ہیں آپ ..جزاک اللہ سبحان اللہ

    جواب دیںحذف کریں