اتوار، 5 جولائی، 2015

خوشبو اور پہیلی ۔ طبع زاد کہانی

طبع زاد کہانی

خوشبو اور پہیلی

’’لگتا ہے کہ اماں بی سے کھل کر بات کرنی پڑے گی‘‘ اس سوچ کے ساتھ توقیر کی نگاہوں کے سامنے ایک چہرہ گھوم گیا، کھلا کھلا سا، کومل سا، ہونٹوں پر شریر سی مسکراہٹ، گھنی سیاہ پلکوں سے لدی،  حیا سے جھکی سرمگیں آنکھیں، کشادہ پیشانی، لامبی سیاہ زلفوں کا خوشبودار جنگل جو شہابی گالوں کو اور بھی شہابی بنا رہا تھا۔ یہ اس کی منگیتر مہ نور کا چہرہ تھا۔ مہ نور جو اس کی سانسوں میں سنسناتی اور دل میں دھڑکتی تھی۔ وہ بات کرتی تو جیسے جھرنے پھوٹنے لگتے۔ توقیر ان جھرنوں اور اس جنگل میں ایسا کھویا کہ اسے کچھ بھی  یاد نہیں رہا۔ یہ بھی کہ وہ ابھی دفتر سے آیا ہے، تھکا ماندہ اور بھوکا۔ کپڑے بدلنا تو دور کی بات، اس نے جوتے بھی نہیں اتارے اور مسہری پر نیم دراز ہو گیا۔

اس کی زندگی کا ایک لگا بندھا معمول تھا۔ صبح سویرے گھڑی کے الارم پر جاگنا، بھاگم بھاگ جوتے صاف کرنا، منہ پر ٹھنڈے پانی کے چار چھینٹے مارنا، کپڑے بدلنا، گلی کی نکڑ پر واقع  ریستوران سے کوئک بریک فاسٹ لینا اور دفتر کو بھاگنا۔ فائلیں، میٹنگز، ٹیلیفون، فیکس، ڈِسکشن ... شام چار بجے تک اس کا دماغ اور جسم دونوں دُکھنے لگتے۔ دوپہر کا کھانا دفتر کے کیفی ٹیریا سے کھایا کرتا اور شام کو کسی ہوٹل میں بیٹھ جاتا جہاں سارے دن کا گھسا ہوا اخبار ہوتا اور کھانا بھی۔ اس کی شامیں اور راتیں ادارے کی طرف سے ملے ہوئے فلیٹ میں گزرتیں۔ لگے بندھے شب و روز بسا اوقات اسے شدید کوفت میں مبتلا کر دیتے اور اس کا جی چاہتا کہ وہ فلیٹ سے کہیں بھاگ جائے، چند گھنٹوں کے لئے ہی سہی۔ وہ زیادہ سے زیادہ دور بھاگتا تو اگلے چوک والے سینما ہال تک اور وہ بھی مووی دیکھنے کو نہیں، فلیٹ سے باہر رہنے کو۔ دفتر سے باہر رہنے کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا کوئی ایسا دوست نہ تھا جس سے وہ گھنٹوں گپ لگا سکے، عشق کا روگ اس نے پالا نہیں تھا۔ مہ نور سے اس کی نسبت بہت پہلے طے ہو چکی تھی جب وہ ابھی لڑکا ہی تھا۔

وہ بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کی طرف مائل تھا۔ گاؤں میں پلا بڑھا، گرد و غبار سے اٹی گلیوں میں آتے جاتے وہ کبھی نصاب میں شامل کوئی نظم گنگنایا کرتا اور کبھی ریاضی کے سوالوں میں الجھا ہوا گزر جاتا۔ اسے گھر پہنچنے کا احساس تب ہوتا جب بے جی بظاہر غصے میں اس سے پوچھا کرتیں ’’توقیر! یہ کیا ہے؟ آج بھی تیری جوتی کو گوبر لگا ہے اور پجامہ گارے سے بھرا ہے۔ کیا کرتا پھرتا ہے تو؟  گھر میں تو صابن بھی نہیں کہ میں ان کو دھو کر ڈال  دوں۔ کل پھر ماسٹر موا  مارے گا گندے کپڑے دیکھ کر ....‘‘ بے جی یک دم خاموش ہو جاتیں۔ ان کی یہ حسرت کہ بیٹا صاف ستھرے دھلے دھلائے کڑکڑاتے لباس میں نظر آئے، دو موٹے موٹے آنسوؤں کی صورت پلکوں تک آتی اور بے شمار بے تعبیر سپنوں کی طرح وہیں تحلیل ہو جاتی۔ وہ پھر کہتیں: ’’پر ماسٹر بے چارے کا بھی کیا قصور، وہ تو بچوں کو صفائی کا درس دیا کرتا ہے۔ اب وہ کیا جانے کہ ... خیر چھوڑ! بستہ رکھ اور روٹی کھا لے، سکول کا کام بھی کرنا ہے۔ آ میرا بچہ، شاباش‘‘۔ وہ بے جی کے گداز سینے میں سر چھپا کر آنکھیں موند لیا کرتااور بے جی کے بازو اس کے گردن اور پشت کو مضبوط قلعے کی طرح اپنی پناہ میں لے لیتے۔ جواباً اس کے ننھے بازو بے جی کے جسم کے گرد حصار بنا لیتے جیسے کہہ رہے ہوں: بے جی کیا ہوا، اگر ابا نہیں رہے، میں جو ہوں! بس مجھے ذرا بڑا ہونے دے، کسی غم کی کیا مجال جو تجھ تک پہنچ سکے۔

وہ بے جی کو چپکے چپکے  روتا محسوس کرتا مگر اس کا بالا ذہن اسے زکام سے تعبیر کرتا: ’’ بے جی، آپ کو پھر زکام ہو گیا ہے؟ حکیم چاچا سے دوائی لا دوں؟‘‘ بے جی بے ساختہ مسکرا دیتیں اور ان کے لبوں سے دعاؤں کا گویا چشمہ پھوٹ پڑتا۔ آنسوؤں اور مسکراہٹوں کے بادل اور بجلی  جیسے ہزاروں امتزاج اور لاکھوں دعاؤں کے اسی کھیل تماشے میں وہ گاؤں کے پرائمری سکول سے فارغ ہوا اور قصبے کے ہائی سکول تک پہنچا۔

ماسٹر فتح محمد، جن سے وہ پرائمری تک پڑھا تھا، ریٹائر ہو چکے تھے مگر توقیر کے ساتھ ان کا قلبی تعلق بن گیا تھا۔ وہ ہر قدم پر اس کی راہ نمائی کرتے، اچھی اچھی باتیں بتاتے اور ہمیشہ نیکی کی ترغیب دیتے۔ جیسے تن کے اجلے تھے، ویسے ہی من کے بھی اجلے تھے۔ گاؤں بھر میں ان کی جیسی عزت تھی شاید لمبردار کی بھی نہیں تھی اور نہ کسی زمیندار کی، حالانکہ چوہدری کرم الٰہی جیسے دو، دو مربعوں کے مالک بھی پڑے تھے۔ ماسٹر جی کا گھرانا بہت امیر تو نہیں البتہ کھاتا پیتا ضرور تھا۔ بھلے وقتوں میں منشی فاضل کر کے گاؤں کے سکول کی بنیاد رکھی اور یوں گاؤں کے پہلے ’’منشی جی‘‘ اور پھر ’’ماسٹر جی‘‘ کہلائے۔ ملازمت کے پہلے دن سے ریٹائر ہونے تک اس سکول میں رہے۔ کہا کرتے تھے: ’’مجھے اس درس گاہ کی اینٹوں سے بھی پیار ہے اور پودوں سے بھی، اور بچوں کا تو کیا کہنا!‘‘ 

توقیر کے ابا زندہ تھے تو  ماسٹر جی سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے: ’’یار نور دینا!  تو باتوں سے ان پڑھ نہیں لگتا۔ ایسی بات کرتا ہے کہ کالج کے پروفیسر بھی سنیں تو استاد مان لیں۔‘‘ ’’اوہ، چھڈ یار فتح محمدا، یہ تو نچوڑ ہے زندگی بھر کی غلطیوں کا اور بزرگوں کی باتوں کا، بابے دادے سے سنا ہے، ورنہ یار! ہم تو کھوتے ہیں، اندھے۔  ماں نے نور دین نام رکھا، پر یار، نہ تو دین کی سمجھ آئی اور نہ علم کا نور پلے  پڑا، میرا کیا بنے گا یار؟‘‘ اس کی آواز جیسے بیٹھ جاتی۔ ماسٹر جی کہتے: ’’نور دینا! تو اِس طرح سوچتا ہے نا، شکر کر۔ آج کل تو کوئی سوچتا بھی نہیں!‘‘۔

انہوں نے بے جی کی اخلاقی مدد تو کی، مالی مدد کرنا چاہی تو بے جی نے نرمی سے ٹال دیا: ’’بھاء فتح محمدا!  بیوہ ہوں، غریب ہوں۔‘‘ پھر بیٹی کی طرف اشارہ کر کے بولی: ’’ یہ کملو، توقیر سے بڑی ہے۔ لگر کی طرح بڑھ رہی ہے، پر بھائی، خدا کا شکر ہے ایسے تیسے بِیت رہی ہے۔ بچہ کسی کام جوگا ہو گیا تو سب دھونے دھل جائیں گے۔ غریبی کٹ جاتی ہے بھاء، بدنامی نہیں کٹتی۔ میں بھلا چاہوں گی کہ کوئی میری اولاد پر انگلی اٹھائے۔ تو نے ہمارا  درد ونڈایا ہے، خدا تجھے اور بھی خوشیاں دے، مجھے کچھ نہیں چاہئے۔ توقیر کا ابا  بہشتی تیرا یار تھا۔ تجھے پتہ ہے اس کا سبھاؤ کیسا تھا۔ یہ، اس لڑکے کا سبھاؤ بھی  ویسا ہی ہے۔ کسی نے مذاق میں بھی کچھ کہہ دیا تو مر جائے گا میرا بچہ یا کسی کو مار دے گا۔ بڑا انکھی ہے باپ کی طرح۔ ایک دن میں نے کہہ دیا: پتر، تیرا چاچا  زکوٰۃ دیتا ہے ہر سال، اس سے کہہ ہماری کچھ مدد کر دے۔ کہنے لگا: بے جی سکول چھوڑ دیتا  ہوں دیہاڑی کر لوں گا، کسی زمیندار کے پاس نوکر رکھوا دے، پر، یہ جو تو نے کہا ہے نا، مجھ سے نہیں ہو گا۔ میں نے زور دے کر کہا تو روٹھ گیا، دو دن پورے روٹی نہیں کھائی میرے پتر نے۔ اب تو ہی بتا وِیر! ماں ہوں نا، کالجہ پاٹنے لگا تھا میرا۔ وہ دن، آج کا دن، شام کو سکول سے آ کے اِدھر اُدھر کوئی چھوٹا موٹا کام کر لیتا ہے اور رات ساری بیٹھ کر پڑھتا ہے، دیوے کی روشنی میں۔ نہ یار، نہ بیلی، نہ کھیڈ نہ اکھاڑہ۔ کہتا ہے: کسی سے مانگوں گا نہیں! دو مہینے چھٹیوں والے، شہر چلا گیا، جُھورے ترکھان کے ساتھ، روئی کے کارخانے میں نوکری کر لی، کام بھاری تھا، روزے آ گئے تو میں نے اٹھوا دیا کہ روزہ رکھ کے سارا دن جان مارے گا تو پڑھے گا کیسے۔ بڑی منتوں سے ٹالا ہے میں نے۔ بھاء، آپ خوش رہو، میں راضی، میرا رب راضی۔‘‘
’’دیکھ بہن! تو میرے یار کی عزت ہے سو میری بہن ہے۔ میرے بارے غلط گمان نہ کرنا۔ تو اِس طرح کر کہ بیٹی کے ہاتھ پیلے کر دے۔‘‘
’’لو! پیسہ نہ دھیلا، کردی میلہ میلہ۔ بیٹی کا ڈولا اٹھوانا سوکھا ہے بھلا؟ رب سبب بنائے گا، کر دوں گی۔‘‘
’’کملی بہن! خدا نہ کرے، کل تجھ بوڑھی جان کو کچھ ہو گیا ؟.... اگر میں تجھے کچھ قرضہ دے دوں تو؟‘‘
’’پر اتارے گا کون؟  وِیر!‘‘
’’تیرا بیٹا جو ہے! وہ میرا قرض اتارے گا۔ بڑا لائق بیٹا ہے تیرا، بہن۔ تو بڑے نصیبوں والی ہے۔ میرے دونوں ہیں نا، مسرور اور تیمور، میں خود پڑھاتا ہوں ان کو! مگر سکول میں توقیر اُن کے بھی کان کاٹتا ہے، حالانکہ وہی جو سکول میں پڑھ لیا سو پڑھ لیا۔ اس کی حفاظت کرنا بہنا! یہ تو ہیرا ہے ... بلکہ بہن! اگر تو مذاق نہ سمجھے تو اپنا بیٹا مجھے دے دے۔‘‘
’’لے بھاء! تیرے بیلی کا  پتر ہے پرایا تھوڑا ہے۔ تیری بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میرا تو یہی سہارا ہے،  تجھے دے دوں تو میں کہاں جاؤں گی؟‘‘
’’میری بھولی بہنا! میں ایسے تھوڑی کہہ رہا ہوں۔ میں اس کو اپنا بیٹا بناؤں گا، اپنی مہ نور کے بدلے ... کیا سمجھی؟‘‘

بے جی کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں ’’چھوڑ بھاء، آپ کھاتے پیتے لوگ ہو، آپ کو کمی ہے رشتوں کی؟ تُو اپنی چاند سی، نازوں پلی بیٹی ایک غریبڑے کے پلے باندھے گا؟ جس کا کوئی بھی نہیں، نہ انگ نہ ساک، نہ گھر نہ بوہا۔ ایک ماں ہے جو آج مری کل دُوجا دن‘‘
’’دیکھ بہن! کوئی کسی کے رزق کا ذمہ نہیں لے سکتا، یہ میرے رب کا قانون ہے۔ پر میں تو یہ جانتا ہوں کہ توقیر، جس کے ماں اور باپ کی شرافت کی قسم کھائی جا سکتی ہے، کل کا ایک بڑا آدمی ہے ....‘‘
’’بھائی! ایسے فیصلے یوں تھوڑی ہوتے ہیں؟ بہن فاطمہ کیا کہے گی اور بیٹی جس کا فیصلہ تو کرنے چلا ہے...‘‘
’’یہ بات لِکھ رَکھ، کہ آج سے توقیر میرا بیٹا ہے اور مہ نور تیری بیٹی! بس، اب میں چلا!‘‘ بے جی کو حیران چھوڑ کر ماسٹر جی اپنے گھر چلے گئے۔ اس طرح مہ نور جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا اس کی زندگی میں داخل ہوئی۔

توقیر نے دسویں کا امتحان دیا اور خاصی کڑی منزلوں سے گزر کر شہر میں ایک جگہ چپڑاسی بھرتی ہو گیا پھر دو تین سال بعد پکا ہو گیا۔ بہن کی شادی کو چند دن ہوئے تھے کہ بے جی کا بلاوا آ گیا،  مزدور اپنا کام ختم کرلے تو اس کی چھٹی ہو جاتی ہے۔ طالب علم پرچہ حل کر لے تو  کمرہ امتحان میں مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ بے جی زندگی کا امتحان پاس کر چکی تھیں۔ توقیر کی ماں مر گئی، دعاؤں کا سرچشمہ سوکھ گیا۔ وہ نرم و گداز سینہ جو اس کی پناہ گاہ تھا، زمین نے اسے اپنے سینے میں چھپا لیا تو ماسٹر فتح محمد کی اہلیہ،  مہ نور کی امی توقیر کی اماں بی بن گئیں۔ اور وہ جو غم اور محبت کی دھوپ چھاؤں میں پلا بڑھا تھا اور ملازمت کی چکی پیسا کرتا تھا، اس نے کتابوں میں اماں ڈھونڈ لی۔ اور اسی ادارے میں قدرے بہتر عہدے پر فائز ہو گیا۔

ادھر مہ نور لڑکپن سے مٹیارپن میں داخل ہوئی تو اُس کی آنکھوں میں جگنو ٹمٹمانے لگے۔ مسرور اپنی بیگم کے ساتھ ولایت میں جا بسا۔ تیمور کی شادی اماں بی نے بڑے چاؤ سے اپنی سگی بھانجی سے کی۔ بھانجی نے اپنا گھر تو سنبھال لیا مگر اماں بی کو قبول نہیں کیا۔ ماسٹر جی بیمار رہنے لگے۔ توقیر کا گاؤں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مگر، بے جی کا حکم اسے یاد  تھا کہ مناسب وقت تک اپنے اور مہ نور کے درمیان فاصلہ رکھے۔ سو وہ جبراً شہر میں بس رہا اور دل کو گاؤں میں چھوڑ دیا۔ ماسٹر جی ایک رات ایسے سوئے کہ صبح نہ ہوئی۔ اماں بی تنہائی کے خوف سے مہ نور کو بیاہنے میں تاخیر کر رہی تھیں اور وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔ تنہائی کی آگ میں جلتا رہا۔

لیٹے لیٹے اُسے کچھ یاد آ گیا۔ اس کی جیب میں خوشبوؤں میں بسا ایک خط تھا جو اسے آج کی ڈاک سے ملا۔ ایسا خط جو روشنی کا پیامبر ہو اور خوشبو ساتھ لایا ہو، دفتر میں بیٹھے پڑھ لیا جائے، یہ توقیر سے نہ ہو سکتا تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھا، لفافہ چاک کیا اور .... دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے خط پر نظریں جمائے ہوئے آواز دی ’’آ جائیے‘‘۔
’’کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟‘‘ ایک بلبل سی چہک اٹھی یا بادِ صبا گھنے جنگل میں سیٹی بجاتی ہوئی داخل ہوئی۔ ایک لمحے کو اسے لگا جیسے مہ نور سامنے موجود ہو۔ نہیں! یہ عنبر تھی جو اپنے  ہونٹوں پر ایک مانوس اور پر اعتماد مسکراہٹ سجائے ہوئے تھی۔ وہ اسے دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔ مہ نور کی مسکراہٹ میں ایک شرارت بھری نرمی ہوتی ہے اور یہاں ایک مردانہ قسم کا اعتماد۔ اس کی آنکھیں جھکی رہتی ہیں اور یہاں آنکھیں بولتی دکھائی دیتی ہیں۔ اُس نے لامبے گھنے بالوں کی گھٹا سجائی ہوتی ہے اور اِس نے بڑے سلیقے سے کٹوائے ہوئے ہیں۔ فرق تو ہونا تھا، وہ  ایک سکول ماسٹر کی بیٹی جو گاؤں میں پلی بڑھی اور بی اے تک تعلیم حاصل کر کے گھر بیٹھ گئی اور یہ ... مِس عنبر جمال، جمال کارمنٹس والے سیٹھ جمال کی اکلوتی صاحب زادی، ایم ایس سی جرنلزم، مقامی اخبار کے ثقافتی ایڈیشن کی کرتا دھرتا، گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے۔ لیکن کوئی بات ایسی ضرور تھی جو توقیر کو الجھائے دیتی تھی۔

عنبر سے اس کی رسم و راہ کچھ زیادہ پرانی نہیں تھی۔ چند ماہ پہلے توقیر وقفے کے دوران کیفی ٹیریا میں بیٹھا تھا کہ جدید طرز کے لباس میں کسی کسائی ایک خاتون اس کی میز پر آگئی: ’’ایکسکیوز  می پلیز! آپ توقیر دانش ہیں؟ اس کی آواز بھی اس کے چہرے کی طرح خوبصورت تھی۔ وہ چہرہ جس کے بارے میں اسے یقین تھا کہ پہلے کبھی نہیں دیکھا، مگر مانوس سا لگ رہا تھا ... کیوں؟ یہ اسے معلوم نہیں تھا۔
’’جی، جی فرمائیے میں ہی  توقیر دانش ہوں۔ تشریف رکھئے‘‘۔ وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے مقابل بیٹھ گئی۔ توقیر نے پوچھا ’’چائے، یا کافی؟‘‘
’’اوہ نو! تھینک یو‘‘ یہ کہہ کر گلاس میں پانی ڈالا اور اپنے گلاب گوں ہونٹوں سے لگا لیا۔ توقیر اسے دیکھے جا رہا تھا۔ ’’مجھے آپ سے انٹرویو کرنا ہے‘‘ وہ گویا ہوئی ’’میرا نام عنبر جمال ہے، میں مقامی اخبار میں کام کرتی ہوں، ادب و ثقافت کا شعبہ میرے پاس ہے‘‘۔
’’بہت خوب! ویسے محترمہ، میں شاید اتنا بڑا آدمی تو نہیں جس نے ثقافتی یا ادبی حوالے سے کوئی تیر مارا ہو‘‘
’’آپ کا ایک نام ہے مسٹر دانش! شاعر، نقاد اور افسانہ نگار کے طور پر آپ ایک شناخت رکھتے ہیں۔‘‘ 
’’بائی دا وے، شاعر لوگ خاصے کھسکے ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کو کس احمق نے مجھے انٹرویو کرنے کا مشورہ دیا ہے؟‘‘ 
وہ ہنسی تو جیسے گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔ اس نے توقیر ہی کے لہجے میں جواب دیا: ’’چیف ایڈیٹر صاحب نے، جو بہت زیرک قسم کے احمق ہیں اور اپنے جیسے احمقوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔‘‘ اس ترکی بہ ترکی جواب اور اس کی معنویت سے وہ بہت محظوظ ہوا۔ وہ بولی: ’’ آپ مجھے وقت دیں، یا  ابھی .... میرے پاس ریکارڈر موجود رہتا ہے۔‘‘
’’ایک منٹ‘‘ وہ اٹھتے ہوئے بولا۔ اس نے کاؤنٹر پر آ کر کسی سے فون پر مختصر سی گفتگو کی، استقبالیہ کلرک سے کچھ کہا اور واپس پلٹتے ہوئے بولا ’’آئیے مِس جمال، باہر لان میں بیٹھتے ہیں۔ عنبر کا ’اجنبی مگر مانوس سا‘ چہرہ اسے متواتر الجھا رہا تھا۔ انٹرویو رسمی تھا،  تاہم عنبر کے لہجے، غیر معمولی سوالوں اور نپی تلی گفتگو نے اسے غیر رسمی بنا دیا تھا۔ ادب سے توقیر کا تعلق لڑکپن سے ہی تھا۔ وہ شاعری توجہ اور شوق سے پڑھا کرتا۔ سکول میں اس نے مصرعے سیدھے کرنے شروع کر دئے تھے، پھر شہر میں آ جانے کے بعد کچھ  ادب دوستوں سے علیک سلیک ہو گئی اور وہ باضابطہ ادیب بن گیا۔ دانش تخلص رکھا اور  اپنی زندگی کے تجربات نوکِ قلم پر لانے لگا۔ وہبی ذہانت، صاف گوئی اور براہِ راست  انداز کی بنا پر وہ جلد ہی نمایاں نظر آنے لگا۔

انٹرویو ختم ہوا تو مس عنبر جمال یہ وعدہ کر کے چلی گئی کہ اخبار وہ خود پہنچا دے گی۔ چند دن بعد غیر متوقع طور پر وہ انٹرویو والا شمارہ لئے خود اس کے دفتر میں  آ گئی۔ ایک دو بار ایسا ہوا۔ وہ کبھی فون کر لیتی، کبھی دفتر میں کبھی فلیٹ پر ہائے، ہیلو کر جاتی۔ توقیر اس کی شخصیت کے سِحر میں آتا گیا۔ گفتگو میں وہ اس حد تک بے تکلف ہو گئے کہ ’’آپ‘‘ ان کے مابین ممنوع قرار پایا۔ ایک دوسرے کو نام کے پہلے حصے سے مخاطب کرتے۔

’’ہیلو!‘‘ عنبر نے اس کے چہرے کے سامنے انگلیاں نچاتے ہوئے کہا: ’’کہاں کھوئے ہوئے ہو توقیر؟ یہ میں ہوں، عنبر۔‘‘ اور وہ ذہنی طور پر حاضر ہو گیا۔
’’ارے، تم جوتوں سمیت بستر سے لٹکے ہوئے ہو، خیریت تو ہے؟‘‘
’’تھی خیریت، صحافن بی بی! مگر اب نہیں ہے‘‘
’’یہ صحافن کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’ہوتا نہیں ہوتی ہے، جیسے نائن، دھوبن، موچن ....‘‘
’’بس بس! بکواس نہیں! کم از کم پوچھ تو لیا ہوتا میں کیوں آئی ہوں اور .... جب کوئی آئے تو چائے پانی بھی پوچھا کرتے ہیں، جنابِ دانش!‘‘
’’جی! فر ... ما ... ئیے! اپنے تشریف آور ہونے کا مقصد بھی اور یہ بھی کہ آپ چائے نوشِ جاں فرمائیں گی، یا  کافی، یا پھر وہی کافی ہے جسے آپ  ایک لمحہ قبل بکواس قرار فرما چکی ہیں۔‘‘
’’یو شٹ اپ اینڈ سٹ  ڈاؤن!‘‘ یہ کہہ کر وہ صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’ٹھیک ہے، میں سٹ ڈاؤن ہو جاتا ہوں ‘‘ وہ آلتی پالتی مار کر فرش پر بیٹھ گیا ’’اب تم چائے بناؤ اور مجھے بھی پیش کرو، کہ یہ خواتین کا شعبہ ہے‘‘
’’کیا کہا؟ کیا میں تمہاری باورچن ہوں؟‘‘
’’ارے نہیں! باورچن نہیں صرف صحافن!‘‘
’’یو، کیری آن دِس نان سینس، میں کچن میں جا رہی ہوں۔‘‘

جب تک چائے بنتی، وہ مہ نور کا خط پڑھ چکا تھا، عنبر دونوں ہاتھوں میں چائے کے مَگ لئے کچن سے برآمد ہوئی:
 ’’ یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ کاغذ ہے‘‘
’’صرف کاغذ؟‘‘
’’نہیں، خط ہے۔‘‘
’’صرف خط؟‘‘
’’نہیں، مہ نور کا ہے‘‘
’’واہ! تو، دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی!‘‘
’’نہیں لگی تو لگا دو گی بی بی، تم! ویسے میں آج کل آتش فشاں بنا ہوا ہوں‘‘۔
عنبر نے اس کے جملے کو ان  سنا کرتے ہوئے پوچھا: ’’کیا لکھا ہے تمہاری چاندنی نے؟‘‘
’’وہی، اماں بی کا مسئلہ بیماری کا، انہیں اب بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے ہیں، بھابی شاہینہ کی چخ چخ، بھائی کو پروا نہیں اور باقی ... پرسنل‘‘ اس نے لفظ ’’پرسنل‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے، پرسنل صاحب!  یہ لو چائے پیو‘‘ اس نے مگ تپائی پر رکھتے ہوئے کہا ’’بائی دا وے، تم اسے بیاہ کر کیوں نہیں لے آتے یہاں؟‘‘
’’یہاں، اس فلیٹ میں؟  باؤلی ہوئی ہو کیا؟‘‘
’’یہاں ....‘‘ عنبر نے نقل اتاری ’’تو کیا تاج محل بنواؤ گے میرے شہزادے؟ تم اپنی پرسنل کو چائے میں گھول کر پیو ....اور....‘‘ اس کے منہ سے ’’سی‘‘ نکلی۔
’’کیا ہوا؟‘‘
’’کچھ نہیں چائے بناتے  ہاتھ جل گیا تھا، جلن ہو رہی ہے۔‘‘
’’تو، احتیاط کرنی تھی نا!‘‘
’’اچھا! ایک: چائے بنا کر دی، دو: ہاتھ جلوایا، تین: تمہاری تقریر بھی سننی ہوگی! ...‘‘
’’آئی ایم سوری عنبر!‘‘
’’ڈونٹ بی فارمل توقیر!‘‘
’’تم نے خود کہا تھا ہم دونوں میں کوئی بھی فارمل نہیں ہے اور نہ نارمل ہے۔‘‘ توقیر کی آواز کسی کنوئیں سے آتی محسوس ہوئی۔ ’’ایک سیٹھ کی صاحبزادی اور ایک معمولی دفتر کے اہل کار میں دوستی  اور وہ بھی اپنی ہی نوعیت کی! ہے نا عجیب بات؟ سن رہی ہو عنبر؟‘‘
’’کہتے رہو‘‘
’’ہم دونوں کھسکے ہوئے ہیں ... ویسے کیا تمہیں یقین ہے کہ تم مجھے چاہتی ہو یا میں تمہیں؟‘‘
’’میں تمہیں چاہوں گی؟ منہ دھو رکھو اپنا!‘‘
’’دھویا تو تھا آج صبح ... کیوں کیا میرے منہ پر گڑ لگا ہے جو تم بھنبھنا رہی ہو؟ اب ذرا چونچ بند رکھو اور میری بات سنو، ہو سکے تو جواب بھی دے دینا۔ آج مجھے بہت کچھ کہنا ہے‘‘
’’کہتے رہو‘‘
’’ہے نا عجیب بات عنبر، کہ ہم محبت کے دیوانے بھی نہیں، اور ہمارے درمیان کوئی ایسی بات بھی نہیں جس کو چھپانا پڑے۔ تم ایک سیٹھ کی اخبار نویس لاڈلی اور میں ایک کلرک ... ہاں، یہ کلرکی ہی تو ہے!! .... ہاں، ایک ادب کا تعلق ہے، لفظ کا رشتہ۔ کیا یہ ایسا ہی مضبوط رشتہ ہے؟ کیا کبھی تم نے غور کیا کہ اگر میں ہی اپنے مقام سے گر جاؤں تو...؟ مانا! کہ ایسا ہونے کا نہیں لگتا، مگر وہ جو اندر کا شیطان ہے ... کیا تم بتا سکتی ہو کہ ہم ایک دوجے کے کیا لگتے ہیں؟ پلیز! برا مت منانا، کیا ہم دونوں الو کے پٹھے ہیں؟‘‘
’’شاید، مگر الو کون ہے؟‘‘
’’ناؤ، آئی ایم سیریئس پلیز‘‘
’’ارے تم .. تم سیریئس بھی ہو سکتے ہو؟‘‘
’’پلیز عنبر، میں پتہ نہیں کیا کہنا چاہ رہا تھا، مہ نور کے خط نے مجھے بے چین کر دیا ہے، آؤ کہیں سے اسے فون کرتے ہیں۔‘‘
’’فون تم کرو! وہ میری منگیتر تو نہیں‘‘
’’وہ تو تم بھی نہیں ہو، خیر آؤ‘‘۔

فلیٹ سے پانچ منٹ کی ڈر۱ئیوپر ایک پی سی او سے توقیر نے ماسٹر جی کے گھر کا نمبر ملایا۔ ’’ہیلو!‘‘ دوسری طرف ایک کوئل سی کوکی۔ توقیر کے کان تو کان روح تک مٹھاس سے بھر گئی۔ ’’مہ نور! یہ میں ہوں، توقیر۔ کیسی ہو؟‘‘
اسے شدید حیرت کا جھٹکا  لگا جب جواب میں اسے ایک سسکی سنائی دی ’’توقیر! شکر ہے آپ کا فون آ گیا۔ میں بہت پریشان ہوں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آپ فوراً آ جائیں‘‘ وہ تقریباً رو رہی تھی۔
’’کیا ہوا مہ نور، تم رو رہی ہو، خیریت تو ہے؟‘‘
’’نہیں نہیں، نہیں تو!  میں رو تو نہیں رہی۔ وہ، وہ، امی کی طبیعت بہت خراب ہے۔‘‘
’تیمور کہاں ہے؟‘‘ توقیر نے بے چینی سے پوچھا۔ اس کے اندر کا طوفان اس کے تنے ہوئے چہرے پر صاف نظر آ رہا  تھا۔
’’وہ؟ جہاں اسے ہونا  چاہئے!‘‘ مہ نور نے زہر خند لہجے میں کہا ’’شاہینہ بیگم کو لے کر کہیں گئے ہوئے  ہیں تیمور صاحب، سیر کے لئے! انہیں تو امی کی بھی پروا نہیں...‘‘
’’اف خدایا! نور! تم ...‘‘
’’آپ فون بند نہ کریں میں ابھی ...‘‘ ریسیور میز پر رکھا گیا۔ دوڑتے قدموں کی آواز کو توقیر بخوبی سن رہا تھا ’ امی! امی... یہ لیں پانی! امی! توقیر کا فون ہے، میں نے انہیں بلایا ہے‘ ایک زوردار چیخ اور اکھڑی ہوئی سانسوں میں مہ نور کی آواز آئی ’’توقیر خدا را جلدی آئیے‘‘ 
’’میں راستے میں ہوں نور!  حوصلہ رکھو اور خود کو سنبھالو‘‘ ادھر سے فون بند ہو گیا۔
’’عنبر! جلدی کرو مجھے کسی ویگن سٹینڈ تک پہنچا دو، فوراً‘‘
’’لگتا ہے اماں بی کی طبیعت بہت خَراب ہے اور شاید گھر پر کوئی مرد نہیں، ہے نا!‘‘ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ’’اچھا، تم سامنے ٹک شاپ سے پینے کو کچھ لے آؤ، میں ڈیڈی کو فون کر لوں‘‘
’’ٹو ہیل وِد ٹک شاپ!  پلیز عنبر ہری اپ!‘‘ وہ دیوانہ ہو رہا تھا۔
’’جاؤ! ہم کسی ویگن سٹینڈ  پر نہیں جا رہے، تمہارے گاؤں جا رہے ہیں۔ ناؤ گو!‘‘
عنبر کا لہجہ اس قدر حتمی تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکا، رسماً بھی نہیں۔

ایک بڑے سے شاپنگ بیگ میں مختلف قسم کے پیکٹ، ٹِن اور پانی کی بوتل اٹھائے وہ پی سی او میں داخل ہوا توعنبر اپنے ڈیڈی سے محوِ گفتگو تھی۔ ’’یس ڈیڈ،  میں توقیر کے ساتھ جا رہی ہوں ... نو لَوّ سٹوری ڈیڈ! ... وہ بالکل میمنا ہے، بے ضرر! بھیڑ کے بچے کی طرح .... جی! ڈیڈی .... یس ڈیڈ وہ ہے ایک سٹوری۔ آئی کانٹ فورسی، پتہ نہیں!  مے بی ٹریجڈی، مے بی کامیڈی، مے بی ٹریجی کامیڈی... گڈ لک ڈیڈ! تھنک یو‘‘
اس نے ریسیور رکھا اور توقیر کی طرف مڑی ’’ریڈی بوائے؟ .. گڈ! چلو میں خود ڈرائیو کروں گی، یو آر ناٹ  فِٹ۔ ویسے بھی ...‘‘ اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ توقیر کو گاڑی چلانا آتا ہی نہیں تھا! توقیر کسی روبوٹ کی طرح اس کی ہر کمانڈ پر عمل کر رہا تھا۔ گاڑی شہر کے رش سے نکل آئی تو وہ بولا ’’کیا ضرورت تھی خود میرے ساتھ چلنے کی؟‘‘
’’وہاٹ!‘‘ وہ چنگھاڑی ’’پلیز شٹ اپ اینڈ ٹیک اٹ ایزی، خود کو سنبھالو! ...یو آر ناٹ اے بے بی گرل!‘‘

کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ گاڑی کی گھر گھر گھوں گھوں ماحول کو اداس کئے دے رہی تھی۔ عنبر نے اداسی کو توڑا ’’تم بہت چاہتے ہو؟ اماں بی کو بھی اور ... مہ نور ... کو بھی؟‘‘
’’ہاں، اور یہ تم اچھی طرح جانتی ہو‘‘
’’تبھی! اسی لئے میں نے تمہارے ساتھ آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب تم کچھ بہتر ہو، فون پر بات کرتے وقت تم ڈی کمپوز ہو چکے تھے، اور .... جب تم نے بات ختم کی، اس وقت تمہارا چہرہ! .... او مائی گاڈ!  دیٹ واز اے ڈریڈفل فیس توقیر! میں تمہیں اکیلا چھوڑ دیتی، ایسے میں؟‘‘
توقیر نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ سوچنے لگا ... کیا ہے یہ! یہ کون سا جذبہ ہے، اگر محبت نہیں تو؟ اتنی پروا ویسے نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ عنبر،؟ مہ نور؟.  میں نے تو کبھی ایسے نہیں سوچا۔ شاید مہ نور میرے اندر سما چکی ہے اس لئے؟
عنبر نے جیسے اس کی سوچ پڑھ لی ہو ’’ڈونٹ بی سِلّی توقیر! یہ محبت وغیرہ نہیں ہے، دس از اے سمپل کومٹ منٹ اینڈ .... تم اپنا دماغ مت تھکاؤ‘‘ وہ ایک لمحے کو خاموش ہوئی اور پھر بولی ’’ فلیٹ پر جو سوال تم نے کئے تھے، ان کا جواب جاننا چاہو گے؟‘‘
’’کیا حرج ہے؟‘‘ وہ بولا۔ وہ کسی حد تک سنبھل چکا تھا۔
’’میں بہت چھوٹی تھی جب میری اطلاع کے مطابق ماما مر گئیں۔ مجھے ڈیڈی نے پالا ہے، بہت محبت سے، بڑے لاڈ سے میری شخصیت کی تعمیر کی ہے۔ میں کسی قدر سمجھدار ہوئی تو پتہ چلا ماما مری نہیں، ڈیڈی نے انہیں طلاق دی تھی۔ سنی سنائی باتوں کو جوڑ کر میں نے ایک کہانی ترتیب دی ہے، سنو گے؟‘‘
’’ہوں، سن رہا ہوں‘‘
’’میری ماما تھوڑی بہت پڑھی لکھی تھیں اور ڈریس ڈیزائن جانتی تھیں۔ ان کا تعلق ایک مڈل کلاس فیملی سے  تھا، جس کلاس کے لوگ سفید پوشی قائم رکھنے کے لئے جان توڑ محنت کرتے ہیں۔ نام تھا ان کا فاطمہ ... ‘‘
ت
وقیر کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس کی آنکھوں کے سامنے اماں بی، مہ نور اور عنبر کے چہرے گڈمڈ ہونے لگے۔ عنبر کی بات جاری تھی ’’ڈیڈی ان دنوں بزنس ایڈمنسٹریشن کے آخِری سال میں تھے۔ میرے دادا گارمنٹ فیکٹری چلاتے تھے اور کاریگر بھی اپنے رکھتے تھے، مرد بھی عورتیں بھی۔ فاطمہ، آئی مین ماما، بھی دادا کے سٹاف میں تھیں۔ ڈیڈی ان پر ریجھ گئے۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے ہر بات منوا لیتے تھے۔ انہوں نے کلاس ڈفرنس کے باوجود فاطمہ سے شادی کر لی، مگر...‘‘
’’مگر کیا؟ ‘‘
’’روپے کے زور پر ایک تتلی پکڑ لی اور ماما سے دل اچاٹ ہونے لگا۔ تب تک میں پیدا ہو چکی تھی۔ میرا نام عنبر ماما نے رکھا۔ ایک دن ڈیڈی نے کوئی الٹی سیدھی ہانک دی ’تو مزدوری کے لئے آئی تھی، میں نے تجھے ورکشاپ سے اٹھا کر دل میں بسایا‘ وغیرہ وغیرہ، وہی ڈائلاگ جو تم کئی فلموں میں سن چکے ہو گے‘‘
’’ویری سَیڈ‘‘
’’ماما کو یہ بات کھا گئی اور معاملہ طلاق پر ختم ہوا، مجھے ڈیڈی نے رکھ لیا تھا، بائی فورس یا کیسے، آئی ڈونٹ نو‘‘
توقیر نے ڈیڈی کے کردار پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے، پوچھا ’’اور اس تتلی کا کیا ہوا؟‘‘
’’اُڑ گئی! جب اس کے رنگ پھیکے پڑ گئے تو ڈیڈی نے اسے ریجیکٹ کر دیا ... اینڈ شی واز ناٹ اے فیتھ فل وائف‘‘
توقیر عنبر کے بے رحمانہ تبصرے پر ششد رہ گیا۔ اس نے پوچھا: ’’تم نے ڈیڈی سے ماما کے مسئلے پر کبھی بات کی؟  وہ کہاں گئیں؟‘‘
’’نو! مجھے نہیں معلوم۔ میں نے اپنے طور پر کچھ معلوم کیا ہے مگر شاید ابھی .. خیر چھوڑو ، اپنے والدین کے پاس چلی گئی ہوں گی‘‘
’’کہاں کے تھے ان کے والدین؟‘‘
’’کسی گاؤں کے تھے ...فارگیٹ اٹ ناؤ‘‘
’’مان لو، کہ اس ٹاپک پر بات کرنے کی جرأت نہیں ہے تم میں، ورنہ تم بہت کچھ جانتی ہو، مجھے نہ بتانا چاہو تو نہ بتاؤ‘‘
’’مان لیا، ایسا ہے۔ توقیر! یہ بات مجھے کوئی اور نہیں کہہ سکتا تھا سوائے تمہارے۔ تم صاف آدمی ہو۔ آئی ایڈمٹ اٹ، میں نے مردوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، ڈیڈی سمیت! سب چھچھورے ہیں۔ جو ہاتھ یا زبان نہیں چلا سکتے ان کی آنکھیں بہت کچھ بتا دیتی ہیں۔ مائینڈ اٹ! میں نے تمہاری آنکھوں کو بھی صاف پایا ہے۔ یو آر این اَن کامن پرسن توقیر! آئی ایم پرؤڈ آف یو۔ مہ نور بہت لکی ہے، یو نو؟‘‘
’’تھینک یو، اور تمہیں واقعی نہیں معلوم کہ ماما کا کیا ہوا؟‘‘
’’آئی ڈونٹ نو، پتہ نہیں  مجھے پورا، بٹ ، سٹل آئی وانٹ ٹو نو اِٹ‘‘
’’اور ڈیڈی نے پھر شادی کی؟‘‘
’’کی! مگر وہ عورت ڈیڈی کو ریجیکٹ کر گئی۔ ٹِٹ فار ٹَیٹ! وہ بہت زیادہ ماڈرن تھی۔ آج کل ٹی وی کمرشلز میں آ رہی ہے۔‘‘
’’کون ... کون ہے  وہ...؟‘‘
’’ٹو ہیل وِد ہر۔ کم از کم یہ بات تو مجھ تک رہنے تو، میں یہ سب کچھ تمہیں کیوں بتا رہی ہوں؟ حالانکہ ہمارے درمیان کوئی ... سوری، میں بھی تمہارے لہجے میں سوچنے لگی۔ لیو اٹ، کوئی اور بات کرو‘‘
’’تم نے شادی کے بارے میں سوچا؟‘‘
’’کچھ نہیں دیکھا جائے گا۔ آئی ایم ناٹ سو کریزی‘‘
’’تو، تم نے مجھے کریزی کہا؟‘‘
’’تم تو کریزی بھی نہیں ہو! ابھی میں نے یہی کہا تھا تم ایک مختلف شخصیت ہو، میری طرح۔ ویسے تم اچھے شوہر ثابت ہو گے۔ تمہاری آج کی بوکھلاہٹ سے نوٹ کیا ہے میں نے‘‘
اور وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ طنز ہے یا تعریف ’’دیکھو! مجھ پر طنز نہ کرو‘‘
’’آئی ایم سوری توقیر‘‘
’’ڈونٹ بھی فارمل عنبر... کیپ یور اون ورڈز‘‘

اسی طرح کی الجھی ہوئی نوک جھونک میں وہ گھر تک پہنچ گئے۔ توقیر کی پہلی دستک پر دروازہ کھلا گیا۔ مہ نور جیسے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی رہی ہو۔ ’’السلام علیکم‘‘ اس نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا ’’آپ آگئے ... شکر ہے‘‘۔ اس کی نگاہ عنبر پر پڑی اور سوال اٹھاتی ہوئی توقیر کی طرف مڑی ’’یہ عنبر ہے، اور عنبر! یہ مہ نور ہے ..  باقی بعد میں۔ اماں بی کیسی ہیں؟‘‘
’’سو رہی ہیں اس وقت، کچھ سکون ہے ... آئیے بہن، آپ، آئیے نا!‘‘ اس نے رستہ دیتے ہوئے کہا۔ عنبر نے مہ نور کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اس کی تصویر بھی نہیں وہ اسے اپنی سی لگی، اپنی جیسی۔ اس کی پریشان آنکھوں میں حیرت کا امتزاج اسے گھائل کر گیا۔ اس کے قدم دہلیز پر جم گئے۔
’’چلئے بی بی! اندر چلئے‘‘ توقیر نے ٹوکا ۔ اسی وقت ایک کمزور سی آواز سنائی دی ’’نوری! نوری بیٹا!‘‘
’’آئی امی جی!‘‘ مہ نور نے فوراً جواب دیا اور پھر جیسے اُڑ کر کمرے میں پہنچ گئی۔ عنبر اس کا تڑپنا دیکھ کر تڑپ گئی۔
’’امی! توقیر آ گئے‘‘ اس کے لہجے میں سرور بھی تھا، چاہت بھی، اطمینان بھی۔ پھر وہ توقیر سے مخاطب ہوئی ’’جب سے آپ نے فون کیا ہے امی سکون میں ہیں۔ آپ لوگ امی سے باتیں کریں میں چائے  بناتی ہوں‘‘ وہ جواب کا انتظار کئے بغیر کچن میں چلی گئی۔

گاؤں اور شہر کی تہذیب کا  امتزاج پورے گھر میں نظر آ رہا تھا۔ مسہری پر ایک بزرگ خاتون نیم دراز تھیں۔ سر کے  بال سلیقے سے گندھے ہوئے، سفید زیادہ، سیاہ کم، گورا چٹا چہرہ جو کبھی مثلِ ماہِ تمام رہا ہو گا، جھریوں سے بھر کر پر وقار ہو گیا تھا۔ آنکھوں میں زندگی پوری  توانائی کے ساتھ موجود تھی۔وہ اٹھ بیٹھیں اور توقیر نے سلام کہتے ہوئے سر جھکا  دیا، انہوں نے دونوں ہاتھوں سے ساری شفقت جیسے اس کے سر پر انڈیل دی۔ ’’آؤ میرے بیٹے آؤ۔ تم تو بڑی جلدی آگئے، اچھا کیا! آؤ میرے پاس بیٹھو!‘‘ ان کے ایک ایک لفظ میں محبت کے کتنے سمندر موجزن تھے! ان کی نظر عنبر پر پڑی: ’’آؤ بیٹی آؤ! تم توقیر کے ساتھ آئی ہو نا! انہوں نے اس کی طرف بھی ہاتھ اسی طرح بڑھا دئے جیسے توقیر کی طرف بڑھائے تھے۔ عنبر کو یہ سب کچھ خواب لگ رہا تھا۔ کیا زندگی میں ایسا بھی ہوتا ہے؟ اپنائیت کا یہ انداز تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مہ نور سے اسے ایک انجانا سا خدشہ تھا کہ بھولی لڑکی نہ معلوم کیا سمجھ  بیٹھے، مگر اس نے تو ایک دم اسے ’’بہن‘‘ کے رتبے پر فائز کر دیا تھا۔ اور اماں بی!  ان کے لئے اس کا توقیر کے ساتھ آنا اعتبار کی سب سے بڑی سند ٹھہرا۔ اس نے بھی اپنا سر جھکا دیا اور اتنی ہی شفقتوں کی حق دار ٹھہری جتنی توقیر کو ملی تھیں۔

وہ مد و جذر  کا شکار ہونے لگی: ’’واش روم کدھر ہے؟‘‘ اس سوال پر توقیر نے ایک بغلی دروازے کی طرف اشارہ کر دیا۔
وہ غسل خانے میں گھس کر خود کوبکھرنے سے بچانے لگی۔ اس کے کان باہر کی آوازوں پر لگے تھے ... ’’اماں بی، آپ کو بٹھا دوں؟ اٹھئے شاباش! ارے اماں بی! آپ تو بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ کی لاڈلی چائے کی یخنی بنا رہی ہو گی، پی کر ڈاکٹر کے پاس چلیں گے‘‘
’’شریر کہیں کا کہتا ہے میں بالکل ٹھیک ہوں تو پھر ڈاکٹر کے پاس کیا لینے جانا ہے؟‘‘
’’بس، آپ کی تسلی کے لئے! آپ نے کچھ کھایا پیا بھی ہے کیا؟‘‘
’’ارے ہاں بیٹا! یہ نوری ذرا رعایت نہیں دیتی، کڑی پابندی کراتی ہے‘‘
’’اچھا! بہت سختی کرتی ہے؟ اماں بی! میرا کیا بنے گا؟‘‘
اماں بی نے ہنستے ہوئے ڈانٹا ’’چل ہٹ! شرم نہیں آتی؟ بڑ بڑ بولے جا رہا ہے!‘‘
چ
ائے کے برتنوں کی کھنک کے ساتھ مہ نور کمرے میں داخل ہوئی۔ توقیر نے شرارت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا : ’’اماں بی! مسرور کا کوئی فون آیا؟‘‘
’’چل شیطان کہیں کا،  ندیدہ! میں جانتی ہوں تو کیوں پوچھ رہا ہے‘‘ اماں بی کا لہجہ زندگی سے بھرپور تھا ۔ جھڑکی میں پیار کا یہ انداز بھی عنبر کے لئے نیا مشاہدہ تھا، اور ’’امی انہیں باز رکھیں آپ، ہاں‘‘ یہ مہ نور کی آواز تھی، جس سے کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ  محبت ہے یا شکایت سیا دونوں۔
اماں بی نے بات بدل دی ’’یہ ٹیلیفون اسی مسرور کے لئے تو لگوایا ہے ورنہ ہم ماں بیٹی کو اس کی ایسی کیا ضرورت تھی‘‘۔

عنبر نے ایک بار پھر اپنی دھواں دھواں پلکوں پر پانی کے چھینٹے مارے اور اداس سی مسکراہٹ لئے کمرے میں داخل ہوئی۔ 
’’تو، میری بچی کا نام عنبر ہے‘‘ اماں بی کی آواز جیسے دور کسی کنوئیں سے آئی ہو۔ ’’اچھا نام ہے، خوشبو کی طرح قید سے آزاد اور ...‘‘ پھر ان کی آواز بہت قریب سے آئی ’’آؤ میری بچی، میرے  پاس آؤ نا! دیکھا تم نے توقیر! کتنی ملتی جلتی ہے نوری سے، جیسے سگی بہن ہو‘‘ وہ عنبر کو ایسے بھینچ رہی تھیں جیسے اپنے سینے میں چھپا لینا چاہتی ہوں۔ ’’نوری کے ابا کہا کرتے تھے: ’فاطمی! دنیا کی سب سے بڑی دولت خلوص ہے، اور اعتماد ہے اور ....‘‘۔
اماں بی نے کہا تو بہت کچھ مگر عنبر کے ذہن پر ایک لفظ ہتھوڑے برساتا رہا ’’فاطمی! فاطمہ! فا .. ط ..مہ ..! ما ... ما‘‘ وہ خود کو مجتمع کرتے کرتے بکھرنے لگی تھی۔
’’آپ اجازت دیں تو ایک دفعہ .... ایک دفعہ آپ کو ’’امی‘‘ کہہ لوں؟‘‘
’’نہ بیٹا نہ، ایک دفعہ نہیں دس دفعہ کہنا ہو گا‘‘ اماں بی نے اسے اپنے سینے میں چھپا لیا۔ عنبر ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔ مہ نور اور توقیر حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
اماں بی نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا ’’سیٹھ جمال کی بیٹی ہو؟‘‘ کسی نے بھی تو سیٹھ جمال کا ذکر نہیں کیا تھا! 
’’جی، جی، امی!‘‘ ہچکیوں کے درمیان یہ دو لفظ کتنی مشکل سے ادا ہوئے، اس کا احساس ان دونوں کے سوا کسی کو کیسے ہوتا۔ اماں بی کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو ٹپ سے گرے۔
’’ہاں، میری بچی! یہی سچ ہے!‘‘ دودھ اور خون کی خوشبو بھلا چھپی ہے کہیں؟ ’’توقیر بیٹے، نوری بیٹا! یہ عنبر ہے میری بچی، میرا خون، میرے جگر کا ٹکڑا‘‘۔
توقیر پہیلی بوجھ چکا تھا۔ اس نے سرگوشی میں مہ نور سے کچھ کہا، وہ آگے بڑھ کر عنبر سے لپٹ پڑی اور توقیر نے اماں بی کو تھام لیا۔ عنبر اور نور آپس میں لپٹ کر کچھ ایسے روئے جا رہی تھیں جیسے صدیوں کی بچھڑی ہوئی ملی ہوں۔ توقیر کی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں۔
*******
محمد یعقوب آسیؔ ۔۔ ۲۵؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں