منگل، 14 جولائی، 2015

زبان کے طبقات




زبان کے طبقات
در جوابِ آن سوال کہ : SLANG کسے کہتے ہیں۔

انگریزی کو انگریزی والے جانیں؛ اردو اور پنجابی میں تو زبان کے طبقات ہیں، بالکل ہیں۔ عرب ملکوں میں رہنے والے (بالخصوص پاکستانی) جانتے ہیں کہ عربی میں بھی ہیں۔ من حیث المجموع زبان کو ہم کسی ایک طبقے تک محدود نہیں کر سکتے اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مثلاً: "جناب زبان وہ ہے جو اشرافیہ میں رائج ہو"، "زبان وہ ہے جو ادباء میں محبوب ہے"، "زبان وہ ہے جو عام آدمی بولتا ہے"، "زبان تو گھسیاروں کی زبان ہے"؛ وغیرہ وغیرہ۔
زبان تو سب کی ہے صاحب! اس میں ادب بھی آئے گا، ادبِ عالیہ بھی، عدالتی زبان بھی، علمائے عُظام کی زبان بھی، اہلِ منطق کی بھی، لسانیات سے متعلق لوگوں کی بھی، سیاست دانوں کی بھی، بھتہ خوروں اور اٹھائی گیروں کی بھی، دفتری زبان بھی، راج مزدوروں کی بھی، ورکشاپ والوں کی بھی، چھاپہ خانوں کی بھی، ڈاکٹروں اور وکیلوں کی بھی، گلی محلوں، میلوں ٹھیلوں کی زبان بھی، بھانڈوں کی زبان بھی، گلہ بانوں اور کاہ کشوں کی زبان بھی، زنان خانے کی بھی، لچھے دار بھی، سادہ بھی، اجڈ بھی، حتیٰ کہ گالم گلوچ بھی زبان ہے۔ جتنے شعبے فوری طور پر ذہن میں آ گئے، لکھ دیے اور بھی سینکڑوں رہے ہوں گے۔
ایک موٹا اصول یہاں سے اخذ ہوتا ہے کہ: جتنے طبقات انسانوں کے ہوں گے، اتنے ہی زبان کے بھی ہوں گے اور اس سب میں کچھ نہ کچھ مشترک بھی ہو گا، کہ جہاں کوئی اشتراک نہ رہا، زبان ہی الگ ہو گئی۔ دوسرا بہت بڑا عنصر علاقائی لہجے اور مقامی لفظیات ہیں؛ میں نے خاص طور پر پنجابی میں علاقائی لہجوں کا بہت تنوع دیکھا ہے (یہاں تک کہ کچھ لوگ ہندکو، سرائیکی اور پوٹھوہاری کو پنجابی سے الگ زبانیں قرار دیتے ہیں)۔ بات اردو کی ہو رہی ہے سو ادھر چلتے ہیں۔
مرزا غالب کا وہ کہنا بہت معروف ہے کہ: "جاؤ میاں کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں"۔ مرزا کا مقصود یہ ہرگز نہیں تھا کہ گھسیارے کی زبان اردو نہیں یا قلعے کی زبان اردو نہیں۔ مرزا نے اردو زبان کے دو نمایاں طبقات کا ذکر کیا تھا، اور مقصود یہ تھا کہ ان طبقات میں لسانی بعُد قابلِ لحاظ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ زبان کا علم رکھنے والوں (زبان دان) اور زبان کو ادب بنانے والوں (ادیب) کی ذمہ داریوں کے میدان اہم تر ہیں۔ آپ کوئی واضح حدِ فاصل تو قائم نہیں کر سکتے، بہ این ہمہ یہ محسوس ضرور کر سکتے ہیں کہاں جا کر زبان ادب کا درجہ پا لیتی ہے اور کہاں اس درجے سے گر جاتی ہے؛ اسی نہج پر زبان کے دوسرے طبقات ہیں۔ زبان ایک معاشرتی مظہر ہے اور اس کی بنیاد میں دین و مذہب، عقائد و روایات، رسوم و عادات، تاریخ، لوک داستانیں، لوک گیت، شاعری، رزمیے، معاشرتی نفسیات، پیشے، معاشرتی مناصب، عالمی منظر نامے اور کتنا کچھ بشمول شخصی ترجیحات ایسا شامل ہے جسے ہم حتمی قطعیت کے ساتھ نہ پرکھ سکتے ہیں اور نہ اس کی حدود کا قطعی تعین کر سکتے ہیں۔
قوسِ قُزح کی مثال لے لیجئے۔ اس میں رسماً سات رنگوں کو نمایاں تسلیم کیا جاتا ہے۔ ترتیب: بنفشی، اُودا، نیلا، سبز، زرد، نارنجی، سُرخ۔ نیلا کس خاص نقطے تک نیلا ہے اور سبز کس خاص نقطے تک سبز ہے اور ان دونوں کے درمیانی مراحل کو ہر نقطے پر کیا کیا نام دئے جائیں؟ یہ قطعیت کے ساتھ لفظاً طے نہیں ہو سکتا، مگر محسوس ضرور کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ زبان کا ہوتا ہے۔ طبقات اس میں بہر حال پائے جاتے ہیں۔
یہ کام علمائے لسانیات و مدنیات پر چھوڑتے ہیں کہ انگریزی والا سلینگ (یا اسے اردو میں جو بھی نام دیجئے) ہمارے ہاں کہاں کہاں پایا جاتا ہے۔ سلینگ سے لفظی تأثر یہ بنتا ہے: ایسا عوامی لہجہ جو شستگی، ملائمت اور قواعد کی چنداں پروا نہ کرے؛ آپ عوامی لہجہ کہہ لیجئے۔ ہر اچھے اور چابک دست ادیب کے پاس یہ فن ہوتا ہے کہ وہ عوامی لہجے سے کرخت الفاظ اور اظہاریوں کو اٹھا کر انہیں ادب میں یوں کھپا دے کہ جمالیات متأثر نہ ہونے پائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد یعقوب آسی۔ منگل 14 جولائی 2015ء
(اردو محفل فورم پر ایک سوال کے جواب میں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں