جمعرات، 25 جنوری، 2018

میری زبانیں ۔۔ مختصر مختصر ۔۔


میری زبانیں
۔۔ مختصر مختصر ۔۔




انگریزی مجھے نہیں آتی۔ وہ جو دفتری ضروریات نے سکھا دی تھی، وہ بھی بھولتی جا رہی ہے (دفتر سے نکلے گیارہ برس ہو گئے)۔ پنجابی آتی ہے، اردو آتی ہے؛ لکھتا بھی ہوں، پڑھتا بھی ہوں، بولتا بھی ہوں۔ پورے اعتماد سے بات کر سکتا ہوں۔ بیان میں کبھی کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔

فارسی اور عربی دونوں میں جتنی شد بد بھی ہو، اردو اور پنجابی میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے۔ فارسی کچھ لغت کا سہارا لے کر اور کچھ اس کے بغیر سمجھ لیتا ہوں۔

عربی مجھے اتنی سی آتی ہے کہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے میں معانی دیکھنے کی بہت کم ضرورت پڑتی ہے۔ بغیر اعراب والی عربی کو (ماسوائے قرآن شریف کے) ٹھیک طور پر نہیں پڑھ سکتا، اردو میں تکا مارکہ ترجمہ کر لیتا ہوں۔ قرآن شریف کا اور حدیث کا (اردو، فارسی، انگریزی میں) ترجمہ کسی معروف عالم سے (حوالے کے ساتھ) نقل کر دیا کرتا ہوں۔ عربی (کم از کم افہام کی حد تک) ہر اہلِ ایمان کو آنی چاہئے۔ یہ لازمی ہے۔ لسان القرآن میں دل چسپی کا سب سے بڑا فائدہ مجھے یہ ہوا ہے کہ بہت سارے برخود غلط نظریات سے جان چھوٹ گئی ہے۔ الحمد للہ۔

ہندی کو سن کر سمجھ لیتا ہوں، بول نہیں سکتا۔ نہ دیوناگری پڑھ سکتا ہوں اور نہ گرمکھی۔ دنیا کی باقی زبانیں؟ نہ کبھی ضرورت پڑی، نہ پڑھی نہ بولی۔ کسی زبان کا "لفظ اٹھا لینا" یا اس پر بات کر لینا دوسری بات ہے۔

جی، کوئی اور سوال؟ بوقتِ ضرورت انگریزی بھی کچھ لکھ ہی لیتا ہوں۔ رسمی محفلوں میں اردو بولتا ہوں اور نجی محفلوں میں اور گھر میں پنجابی بولتا ہوں۔ مجھے معلوم ہو کہ میرا مخاطب پنجابی نہیں سمجھتا تو اس سے اردو بولتا ہوں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ مجھے پڑھا لکھا سمجھتے ہیں یا ان پڑھ قرار دیتے ہیں۔

فرق آپ کو بھی نہیں پڑنا چاہئے۔ خود پر اعتماد کیجئے اور اپنے اپنے دائرے میں اپنی زبان بولئے۔ تعصب کسی زبان کے خلاف بھی نہیں ہونا چاہئے۔ رہی بات اردو کی، تو صاحبو! ملکی سطح پر اس کی صحت مندانہ ترویج میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔


۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
جمعرات ۔۔ 25 جنوری 2018ء

جمعرات، 18 جنوری، 2018

مہا لکھاری ۔(ایک فکاہیہ تمثیل)۔ ترمیم شدہ مسودہ۔


مہا لکھاری
۔(ایک فکاہیہ تمثیل)۔
ترمیم شدہ مسودہ

پہلا منظر
بسمل بزمی صاحب (ادبی ایڈیشن کے انچارج) کا دفتر
کردار:
ماجد (بزمی صاحب کا آفس بوائے)، نوید بابو (کمپوزر: متعدد دفاتر سے وابستہ)،
میڈم (شعبہ اشتہارات کی انچارج)۔
.........
ماجد: یہ دیکھئے بابو جی۔ یہ رسالہ صاحب نے ردی میں ڈالا ہوا ہے۔ اس کا کیا کروں؟۔
نوید بابو: کیا کرنا ہے؟ صاحب کو پسند نہیں آیا ہو گا، ردی میں ڈال دیا۔ تمہیں چاہئے؟ تو لے جاؤ، انہوں نے تو پھینک دیا سمجھو۔
ماجد : یہ اچھا ہے بابو جی! میرے ایک دوست کی بڑی  بہن کہانیاں لکھتی ہیں؛ میں انہیں باجی کہتا ہوں، انہیں لے جا کے دوں گا، بہت خوش ہوں گی۔
نوید بابو: ذرا دکھانا، ایک منٹ! کام نمٹا کر جانے لگو تو لے جانا۔
ماجد: یہ لیں بابو جی۔ پر، خود ہی قبضہ نہ کر لینا۔
نوید بابو: ارے نہیں یار، بس ایک نظر دیکھوں گا۔
۔(نوید بابو پرچے کی ورق گردانی کرتا ہے)۔
نوید بابو: اچھا پرچہ ہے یار، ماجد۔ اس میں کہانیاں بھی ہیں، شعر بھی ہیں، زبان و بیان اور اغلاط و صحیح کی باتیں بھی ہیں، عربی فارسی ہندی ترکیب سازی پر ایک مضمون بھی ہے؟ اس میں بہت اچھی بات یہ ہے کہ مزید مطالعہ کے لئے انٹرنیٹ کے لنک دئے ہوئے ہیں۔
ماجد: اچھا جی!؟ یہ تو اچھی بات ہے۔ پر بابو جی! یہ رسالہ میرے ہاتھ سے گیا؟ یا گیا شریڈر میں؟
نوید بابو: بہت بے اعتبارا ہے تو ماجد!  یہ لے، اپنا رسالہ بغل میں دبا اور چلتا بن۔
ماجد: ( شرمندہ سی ہنسی ہنستا ہے) میں کھانا کھا آؤں بابوجی؟
نوید بابو: ہاں جاؤ۔ جلدی آجانا، مجھے شعبہ اشتہارات میں بھی جانا ہے۔
۔(ماجد کے جاتے قدموں کی چاپ اور کمپیوٹر کی بورڈ پر انگلیاں چلنے کی ٹک ٹک ... فون کی گھنٹی)۔
نوید بابو: یس مَیم
میڈم: ہیلو نوید، مصروف ہو؟ بزمی صاحب آ گئے؟
نوید بابو: تھوڑا سا کام ہے، ابھی نمٹا کے حاضر ہوتا ہوں۔ بزمی صاحب ابھی نہیں پہنچے۔
میڈم: ٹھیک ہے، ایک دو اَیڈ ہیں، میرے کمپیوٹر سے اٹھا لو، اور فائنل کرکے مجھے بھیج دو۔
نوید بابو:یس مَیم۔
۔(کی بوڑد پر انگلیاں چلنے کی ٹک ٹک ... آتے ہوئے قدموں کی آواز)۔

۔(۲)۔
دوسرا منظر
نوید بابو کا کیبن
کردار:
نفیسہ (ماجد کی باجی)، نوید بابو، ماجد ۔
.........
ماجد کے ساتھ ایک خاتون دفتر میں داخل ہوتی ہے۔
خاتون (نفیسہ): السلام علیکم جی! آپ یقیناً نوید بابو ہیں۔
نوید: جی میں نوید ہوں، و علیکم السلام، اور آپ؟
ماجد: یہ نفیسہ ہیں بابو جی! میری باجی۔  انہی کا میں بتا رہا تھا کہ کہانیاں لکھتی ہیں۔ ان کا چھوٹا بھائی میرا دوست ہے۔ ابھی کل پرسوں کہنے لگیں مجھے بزمی صاحب سے ملواؤ۔
نوید: پتہ نہیں یار، بزمی صاحب ملنا پسند بھی کرتے ہیں یا نہیں۔ ویسے ... خیر! آپ آگئی ہیں تو دیکھ لیتے ہیں۔... پوچھ لو، نا بھائی! پھر کہیں نکل جائیں گے۔
نفیسہ: بہت شکریہ نوید صاحب۔
نوید: ارے نہیں، اس میں شکریے کی بات تو کوئی نہیں۔ آپ کہانیاں لکھتی ہیں، ماجد بتا رہا تھا۔ شاید کل یا پرسوں ایک پرچہ ماجد لے گیا تھا، وہ دیکھا آپ نے؟
نفیسہ: جی    میں نے دیکھا ہے، اچھا پرچہ ہے۔ ان کو اپنی کہانیاں بھیجی جا سکتی ہیں۔
نوید:  ہاں، بھیج دیں! حرج بھی کیا ہے۔
ماجد: آئیے باجی! مل لیجئے بزمی صاحب سے!
نوید: کیا ہوا؟ بہت اکتائے ہوئے ہو، خیریت تو ہے۔
ماجد: جائیے باجی حضور!
۔(نفیسہ کے جاتے قدموں کی آواز)۔
ماجد: صاحب لوگ پتہ نہیں کیوں آج اکھڑے اکھڑے سے ہیں۔ اُن کا رویہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔

۔(۳)۔
تیسرا منظر
بسمل بزمی کا کمرہ
کردار:
بسمل بزمی، نفیسہ۔
.........
بزمی صاحب: ہاں! تو بی بی آپ کہانیاں لکھدے اوں؟ کوئی پڑھدا بھی ہے آپ کیاں کہانیاں نوں؟ کس پرچے میں چھپدیاں ایں، یا آپ ای پڑھ کے خوش ہو لیندے او آپ؟
نفیسہ: چھپتی ہیں سر! دو تین پرچوں میں۔ کچھ ایک دو شمارے بعد چھپ جاتی ہیں اور کچھ میں دیر بھی ہو جاتی ہے۔
بزمی صاحب: اچھی بات ہے پھر تاں! کتنا کچھ لکھیا ویا اے آپ نے؟ کد سے لکھ رہی ہیں؟
نفیسہ: باقاعدہ لکھنا، وہ تو کوئی تین سال سے ہے۔تیس کے  قریب  شائع ہو چکی ہیں، سر۔ تقریباً اتنی ہی ان کے علاوہ بھی ہیں۔
بزمی صاحب: تد ... اب تیکر کتاب آ جانی چاہی دی سی، ہیں؟
نفیسہ: جی سر، مگر میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ ہوں بھی اور کتاب چھاپ بھی لوں تو بیچے گا کون!
بزمی صاحب: کسے پبلشر کو ڈھونڈ لؤ تاں، اس میں کیا ہے۔ وہ آپ کو کچھ دے گا تو نہیں پر آپ کی کتاب چھاپ دے گا۔
نفیسہ: میری بات ہوئی تھی سر، ایک دو لوگوں سے۔ وہ کہتے ہیں جی خرچہ آپ کا، کتاب ہم چھاپ دیتے ہیں۔ آپ کی ہمت ہے، بیچ لیں۔ کچھ ہم بھی رکھوا دیں گے، ادھر ادھر بک سنٹروں پر۔ میرا کون بیچے گا سر؟ بات تو وہی ہے کہ اگر خرچہ اپنا ہے تو پبلشر کا کیا کام ہے؟
بزمی صاحب: بات تو تیری ٹھیک ہے کڑے، کیا نام بتایا تھا تیں نے؟
نفیسہ: نفیسہ، سر! کتاب تو بعد کی بات ہے سر، میں چاہتی ہوں میری کہانیاں آپ کے اخبار میں بھی شائع ہوں۔
بزمی صاحب (ہنستے ہوئے): لؤ جی! بات وہیں اپڑ گئی نا۔ میرے پاس گنتی کا اک صفحہ ہے، میں اس میں کیا کچھ چھاپاں لؤ بتاؤ۔ خیر، آپ لِکھدی کیسا او؟ بتاؤ تاں!
۔(نفیسہ ایک ماہانہ پرچے کی تین کاپیاں پیش کرتی ہے)۔
نفیسہ: فوری طور پر یہ پرچہ پیش کر سکتی ہوں سر؛ ماہنامہ ’شناخت‘۔ یہ تین مختلف شمارے ہیں سر، اِن میں میری کہانیاں شامل ہیں۔
بزمی صاحب: اپنے اصلی نام تے لکھدی ہیں آپ یا وہ کوئی قلمی اَمب جیسا؟
نفیسہ: اپنے  اصلی نام سے لکھتی ہوں سر؛ نفیسہ قیصر۔
بزمی صاحب: ایہ قیصر صاحب کیا ہیں؟ کچھ ایہناں کا تعارف؟
نفیسہ: میرے میاں ہیں، سر۔ میں لاہور کے نواح میں رہتی ہوں۔ امی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، ان سے ملنے آئی ہوں۔ کل نہیں، پرسوں واپسی ہے۔
بزمی صاحب: لاہور کا نواح تو بڑا وڈا اے کڑے۔ کوئی تھاں ٹکانا، کوئی ناؤں تھیہ؟
نفیسہ: گوہاوا  نام کا گاؤں ہے سر، جلو پارک سے کچھ ہٹ کے۔ میرے میاں وہاں ایک فیکٹری میں کاری گر  ہیں۔
بزمی صاحب: پنڈ میں فیکٹری؟ کیا بناندے ہیں اوہ؟
نفیسہ: گاؤں میں نہیں سر، جلو موڑ کے قریب ہے۔ وہ اصلی اور مصنوعی چمڑے کی چیزیں بناتے ہیں۔
بزمی صاحب: مثلاً کیا بناندے ایں؟ جُتیاں؟ بیگ؟ سوٹ کیس؟ وہ جونسا سیمسونائٹ قسم کا کچھ کہندے ایں اس نوں؟ کڑیاں کے ہینڈ بیگ بھی بناندے ہیں؟ یہ تیرا بیگ وی اونہاں  کا بنیا ویا اے؟
نفیسہ: یہ پرس ہے سر، بیگ نہیں! یہ اس فیکٹری کا نہیں ہے۔
بزمی صاحب: چل جو کچھ وی ہے، بیگ نہ سہی پرس سہی۔
نفیسہ: وہ لوگ پہلے جوتے بناتے تھے، اب نہیں بناتے۔ تفصیل کا مجھے نہیں پتہ سر۔
بزمی صاحب: چلو ٹھیک ہے۔
نفیسہ: سر، میں ایک آدھ کہانی آج ماجد بھائی کو دے دوں گی۔
بزمی صاحب: بڑی تاؤلی آں کڑے مینوں دیکھن تاں دے۔ ایتھے معیار کا وی مقابلہ ہے اور اثر و رسوخ کا وی۔
نفیسہ: جی بہتر۔ مجھے اجازت دیجئے۔
بزمی صاحب: ہاں ہاں ضرور، اپنے بھائی تے پچھ لئیں بعد میں۔
نفیسہ کے جاتے قدموں کی چاپ

۔(۴)۔
چوتھا منظر
بزمی صاحب کا کمرہ
کردار:
خواجہ خوشنود (ثقافتی ایڈیشن کے انچارج، اور فیچر رائٹر)، بزمی صاحب، ماجد۔
.........
خواجہ صاحب: اِدھر سے گزر رہا تھا، سوچا تم سے مل لوں۔ کیسے ہو؟
بزمی صاحب: فرسٹ کلاس! تیں سنا! کم کم دِسدا ایں اج کل، کھوجے!
خواجہ صاحب: بہت کام کر رہے ہو آج کل! ان پرچوں کا تعارف وغیرہ لکھنا ہے کیا؟
بزمی صاحب: چُلھے میں گیا تعارف۔ کل ایک کڑی آئی تھی؛ جی میں کہانیاں لکھتی ہوں۔ یار کھوجے! میں نے کوئی مرغی خانہ کھولیا ویا اے؟ چوچے پالدے رہو۔ بڑا شوق ہے ایہناں نویاں لکھارناں نوں اخبار میں چھپن کا۔
خواجہ صاحب: تمہارے معیار کو نہیں پہنچتا تو نہ چھاپو، مِرچیں کیوں چبا  رہے ہو؟
بزمی صاحب: منہ توڑ کر نہیں کہہ سکدا! ایہ میرا آفس بوائے ہے نا، کاکا ماجد؟ اس کی وڈی بہن اے۔
خواجہ صاحب: تو پھر چھاپ دو، ایک آدھی چیز!
بزمی صاحب: ناں، ایسے ای چھاپ دوں؟ یہ جو پرچہ ہے ’شناخت‘، اس دی تاں اپنی کوئی شناخت نہیں ہے اب تیکر۔ اے، یہ لو! گیا ردی کی ٹوکری میں۔ (تینوں شمارے باسکٹ میں پھینک دیتا ہے)۔ چاہ پئیں گا؟ (گھنٹی بجاتا ہے)۔
ماجد: (فوراً حاضر ہو جاتا ہے)۔ جی سر؟
بزمی صاحب: کھوجے نوں چاہ بنا دے فٹافٹ۔ اور سُن! ایہ تیں کیا کندھاں کے ساتھ کھلو کے کنسوئیاں لیا کردا ایں؟
ماجد: نہیں سر! میں تو باہر سے آ رہا ہوں۔ عین آپ کے دروازے کے سامنے پہنچا تو بیل بجی۔
بزمی صاحب: نہ تیرے آن کا پتہ نہ جان کا، نہ تیرے نوید بابو کا۔ وہ بھی نہیں بیٹھا ویا۔
ماجد: سر، نوید بابو گئے ہوئے ہیں کسی دوسرے دفتر میں۔ کہہ گئے ہیں کہ واپسی میں دیر بھی ہو سکتی ہے۔
بزمی صاحب: سجی وکھا کر کھبی ماردے ہیں اج کل دے چھوکرے۔
۔(ماجد خاموشی سے چلا جاتا ہے)۔
خواجہ صاحب: تمہاری اپنی کوئی تخلیق میں نے کبھی نہیں دیکھی اس صفحے میں۔ نام سے تو اچھے خاصے شاعر لگتے ہو! کچھ لکھتے بھی ہو، یا نام ہی بسمل بزمی رکھا ہے بس؟
بزمی صاحب: لکھدا ہوں یار، پر ایس اک صفحے کے ایڈیشن میں کنے لوکاں کو شامل کرنا ہوندا ہے، پتہ ہے تیں نوں۔میری کوئی تحریر نہیں بھی ہوئے گی تاں کیا ہے!  میرا ای تاں  ہے ایہ ایڈیشن۔
خواجہ صاحب: اور وہ کون ذات شریف ہیں؟ استاد چٹکی؟ جن کی کوئی کتاب ہے چُٹکیاں؟ جس سے تم ہر ہفتے ایک آئٹم شامل کرتے ہو۔ ویسے وہ استاد چٹکی، زندہ ہے یا مر گیا ہے؟
بزمی صاحب: زندہ ہے یار، کیوں اس بے چارے نو ں مارن تے تلیا ویا ایں؟ کبھی ملاندا ہوں اس کے ساتھ۔
خواجہ صاحب: تم صفحے کے انچارج ہو، جو بھی کرو۔ مگر مجھے اُس آئٹم میں کوئی کام کی بات دکھائی نہیں دی۔ پھکڑبازیاں ہیں! اور اشاروں کنایوں میں تمہاری فرہادیوں کا ذکر ہوتا ہے۔
۔(ماجد آتا ہے۔ چائے کی پیالیاں رکھنے کی آواز) ۔
خواجہ صاحب: (بات جاری رکھتے ہوئے) ویسے ایک بات کہوں؟ (خود ہی ہنستا ہے) میں تو روز ملتا ہوں استاد چٹکی سے۔روز نہیں تو دوسرے تیسرے دن ملاقات ہو جاتی ہے۔
بزمی صاحب: ہائیں، کتھے ملدا ایں اس نوں؟ کھوجے؟ (ماجد سے) تیں کاکا، چاہ رکھ دیئی اے نا؟ تے جا ہُن۔
۔(ماجد کے جاتے قدموں کی چاپ)۔
خواجہ صاحب: میں تو اس وقت بھی تیرے ساتھ بیٹھا ہوں، استاد چٹکی۔
بزمی صاحب: اوئے کھوجے! ہولی بول! کندھاں کے بھی کن ہوندے ایں۔ پر، تیں کس طرح جانیا بھئی؟
خواجہ صاحب: چھوڑو اس بات کو، چائے کا مزا خراب نہ کرو۔
بزمی صاحب: مزا تو تونے کوڑا کر دیا اے، تُو کھوجا ہیں کہ کھوجی؟
۔(دونوں ہنستے ہیں)۔

۔(۵)۔
پانچواں منظر
نوید بابو کا کیبن
کردار:
نوید بابو، ماجد۔
.........
ماجد: بڑے دکھ کی بات ہے نوید بابو۔ یہ دیکھئے! (دو تین رسالے دکھاتا ہے) یہ مجھے بزمی صاحب کی ردی کی ٹوکری سے ملے ہیں۔
نوید بابو: تمہیں اچھے لگے، رکھ لو۔ اس میں دکھ کی کیا بات ہے؟
ماجد: یہ ’شناخت‘ کے وہ پرچے ہیں بابو، جو نفیسہ باجی نے بزمی صاحب کو دئے تھے۔ انہوں نے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ ردی میں ڈال دئے۔
نوید بابو: یہ کوئی نئی بات نہیں یار! تمہیں پتہ تو ہے، وہ صرف اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ یہ ان کے کام کے نہیں ہوں گے۔
ماجد: مگر نوید بابو! وہ نفیسہ باجی؟ وہ مشہور و معروف کہانی کار ہوتیں تو ہمارے صاحب ایسا نہ کرتے۔ کہتے ہیں جی ہم ادب کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ یہ ہے پروموٹ کرنا؟ کہ ایک کے لکھے کو دیکھا بھی نہ جائے اور ردی میں ڈال دیا جائے؟ دیکھ تو لیتے، پھر کہہ دیتے کہ بی بی ہم صرف ان کو پروموٹ کرتے ہیں جن کو پروموشن کی ضرورت نہیں ہوتی۔
نوید بابو: کوئی کسی کو پروموٹ نہیں کرتا بھائی، یہ آپ کا ٹیلنٹ ہوتا ہے جسے آپ خود پروموٹ کرتے ہیں۔ دل میلا نہ کرو، بہن کو بتا دینا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ چائے بناؤ، خود بھی پیو، مجھے بھی پلاؤ۔ ادبی ایڈیشن آج فائنل کر کے دینا ہے۔
ماجد: (طنزیہ ہنسی ہنستا ہے) ہاہا! ادبی ایڈیشن!یا اپنا اشتہار؟ خیر چھوڑئیے، میں چائے بناتا ہوں۔ (برتنوں کی ملی جلی آوازیں) باجی تو چلی گئیں! ہاں وہ پرچہ کیا نام تھا اس کا؟ وہی جو میں نے اُس دن ردی سے اٹھایا تھا! وہ لے گئی ہیں۔ کہتی تھیں ان کو اپنی کہانی بھیجیں گی۔
نوید بابو: چلئے اچھا ہے۔ انسان میں ٹیلنٹ ہو، نا! تو اس کو اظہار کے کئی  راستے مل جاتے ہیں۔ پریشان نہ ہوا کرو۔
ماجد: وہ تو ٹھیک ہے نوید بابو، مگر یہ کیا طریقہ ہے؟
نوید بابو: کہا ہے نا، پریشان نہ ہوا کرو۔ اُن کی کہانیاں چھپ رہی ہیں، معروف بھی ہو جائیں گی، وقت لگتا ہے۔ کھوکھلی سیڑھیوں کا سہارا کچھ نہیں ہوتا، بندہ  انجانے میں گر بھی سکتا ہے۔
۔(برتنوں کی کھنک)۔
ماجد: مجھے شک ہو رہا ہے نوید بابو، کہ آپ لکھتے ہوں گے، ضرور!
نوید بابو: اس شک کی وجہ؟
ماجد: آپ کی باتیں، بابوجی اور آپ کا انداز۔ آپ تخلیق کار ہیں! ہیں نا؟
نوید بابو: ہاں، میں لکھتا ہوں۔ تمہارا مشاہدہ درست ہے۔
ماجد: (چائے کی پیالیاں رکھتے ہوئے) لیجئے بابو، تازہ دم ہو جائیے!

۔(۶)۔
چھٹا منظر
بزمی صاحب کا کمرہ
کردار:
بزمی صاحب، الماس (ٹیلیفون پر)۔
.........
۔(ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے)۔
بزمی صاحب: ہیلو! بزمی بول ریہا اوں۔
الماس: ہیلو سر! میں الماس ہوں پنج ریڈیو سے۔
بزمی صاحب: پنچ ریڈیو؟ اِک نہ دو، اکٹھے پنج؟ کہاں تے؟ اور آپ کیا کردی ایں؟
الماس: پنچ ریڈیو، سر! یہ میں چلا رہی ہوں؛ الپاسو، امریکہ میں۔ آج کل پاکستان آئی ہوئی ہوں۔
بزمی صاحب: اچھا، اچھا، اچھا، کہاں کی ہیں آپ؟ ایتھے پاکستان میں!
الماس: میرے پیرنٹس گجرات سے ہیں سر۔ میں اس وقت لاہور میں ہوں، کل میری کتاب کا فنکشن تھا۔
بزمی صاحب: آپ نے کتاب تاں دیئی نہیں اور ٹیلیفون کر دیا اے۔
الماس:   ایکسکیوز می سر۔ کل کسی نے ایک پرچہ مجھے دیا: ’’پسِ تحریر‘‘۔ اس میں آپ پر ایک آرٹیکل ہے، آپ کی ادبی خدمات کا ذکر ہے اور بھی خاصا کچھ ہے۔ اس سے پہلے تو ... (جیسے کوئی بات کہتے کہتے روک لی ہو) کتاب آپ کو مل جائے گی سر!
بزمی صاحب: مہربانی اے جی، آپ دی۔ آپ نے زحمت کری۔ آپ دی کتاب ملدی اے تاں میں اس پر تبصرہ وی کراں گا۔
الماس: وہ آپ جیسے مناسب سمجھیں۔ اس وقت میرا مقصد آپ کو دعوت دینا ہے۔ آپ ہمیں پنج ریڈیو پر جائن کریں۔ روزانہ شام کو پنج ریڈیو سے ڈائریکٹ آن لائن پروگرام ہوتا ہے۔ آپ بھی شامل ہوں تو کتنا اچھا ہو۔
بزمی صاحب: اوہ کس طرح؟ میں ایتھے پنڈی میں بیٹھ کر؟
الماس: یس سر! فیس بک سے، اور اسکائپ پر۔ آپ کو ویب ایڈریس ابھی بھیج دیتی ہوں۔ اور ویکلی پروگرام آؤٹ لائن بھی۔ دنیا بھر سے ہمارے دوست شامل ہوتے ہیں۔ گپ شپ بھی ہوتی ہے، کسی موضوع پر گفتگو بھی ہوتی ہے، آن لائن ریکارڈنگ بھی ہو سکتی ہے۔ تفصیل آپ دیکھ لیجئے گا۔
بزمی صاحب: لو جی، سر متھے پر! میں اج ای کوشش کردا اوں۔ شامل ہون کا طریقہ کیا اے؟
الماس: سائٹ کھولیں، میسیج باکس ہے ادھر، وہاں مختصر سا پیغام لکھ دیں اور اپنا اسکائپ اور فیس بک آئی ڈی کاپی کر دیں۔باقی کام میر ا ہے۔
بزمی صاحب: یہ تو بہت بڑھیا ہو گیا۔ میں آپ دا شکریہ کیسے ادا کراں، کیا نام بتایا آپ نے؟الماس۔
الماس: آپ  ہمارے ساتھ شامل ہوں یہ بہترین شکریہ ہو گا سر۔ (ہنستی ہے)۔
بزمی صاحب: آپ دی ہنسی بہت خوب صورت ہے، گھنٹیاںسی بج رہی ہیں سمجھو۔
الماس: (کھلکھلا کر ہنستی ہے) بہت شکریہ سر، اجازت چاہتی ہوں۔ میسیج کر دیجئے گا۔ (فون کال ختم ہو جاتی ہے)
بزمی صاحب: (خود کلامی کے انداز میں) اس ناؤں کا پرچہ ایک آیا تو تھا! ... کتھے رکھ دیا میں نے؟ ... ردی کی ٹوکری میں سَٹ دیا تا؟ ... اور وہ بھی! وہ جونسے پرچے اوہ کڑی لیائی تھی، ماجد کی بہن ... وہ بھی! ... وہ تو چلے گئے ہون گے شریڈر میں! ... ایہ میں نے کیا کریا ... میں نے تو اس کو کھول کے وی نہیں ویکھیا ... مینوں کیا پتہ اس میں کیا تھا ... ایہ کڑی نہیں بتاندی تو مینوں پتہ بھی نہیں لگنا تا ... میں سمجھیا تھا کسے نے گھل دیا جی تبصرہ کر دیو ... مینوں کیا پتہ اس میں میرے اُپر مضمون چھپیا ویا اے ... ...۔

۔(۷)۔
ساتواں منظر
بزمی صاحب کا کمرہ
کردار:
بزمی صاحب، نوید بابو، ماجد۔
.........
بزمی صاحب: آپ دونوں یہ بتاؤ مینوں، یہ باسکٹ خالی کون کردا ہے روز؟
ماجد: میں کرتا ہوں سر۔
بزمی صاحب: پرسوں چوتھے میں نے رسالے سٹے تے اس میں، کتھے گئے وہ؟
ماجد:   شریڈر میں چلے گئے ہوں گے، سر!
نوید بابو: رسالہ تو روز کوئی نہ کوئی آتا ہے۔ جو آپ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں، وہ تو گیا! جسے آپ الگ رکھ لیتے ہیں، وہ سب میرے پاس محفوظ ہیں۔
بزمی صاحب: بہت بولنا آندا اے جی نوید صاحب آپ نوں۔ کل کہاں تے آپ ساری دیہاڑی۔
نوید بابو: ادبی ایڈیشن تیار کر کے میں نے پرسوں آپ کو دے دیا تھا۔
بزمی صاحب: نہ! ایہ میرے سوال کا جواب نہیں اے! کل کہاں تے آپ؟
نوید بابو: میرے پاس کئی شعبوں کا کام ہوتا ہے سر، کہیں نہ کہیں جانا بھی ہوتا ہے۔ ویسے میں غیر حاضر نہیں تھا۔
بزمی صاحب: کوئی اگر مجھ تے پچھ لئے نوید بابو کہاں ہے، تاں؟
نوید بابو: آپ کہہ دیں کہ نہیں ہے۔
بزمی صاحب: خیر! وہ اک رسالہ آیا تھا۔ کوئی نواں ناؤں تھا اس دا؛  وہ بھی میں ردی کی ٹوکری میں ڈالیا تا۔ اس کی کوئی خبر ہے؟ تیں بتا ماجد کاکا۔ دیکھیا تاں ہوئے گا تیں نے۔ ٹوکری جو خالی کری اے۔
ماجد: جی، وہ میں گھر لے گیا تھا، باجی کو دے دیا۔ وہ کہانیاں وغیرہ لکھتی ہیں آپ سے ملی بھی تھیں۔
بزمی صاحب: گھر کیوں لے گیا تیں، کس تے پُچھ کے لے گیا۔
نوید بابو: وہ سر، آپ نے ردی میں ڈال دیا۔ آپ کے کام کا ہوتا تو نہ ڈالتے۔ وہاں سے شریڈر میں جائے یا کسی کے گھر، کیا فرق پڑتا ہے۔ کسی پڑھنے والے کے کام کا نکل آئے تو کیا برائی ہے؟
بزمی صاحب: تیں مینوں سبق پڑھائیں گا؟ تیں بتا اوئے!تیں کاہ تے لے گیا؟
نوید بابو: یہ نہیں بتا سکتا سر، یہ آپ کا ماتحت ہے۔ میں نے کہا تھا اسے، کہ لے جاؤ۔ اور وہ دو پرچے بھی جو اس کی بہن آپ کو دکھانے لائی تھی، ان کو آپ نے دیکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور وہیں ڈال دیا۔ وہ بھی میں نے کہا تھا کہ لے جاؤ۔ وہ بے چاری امید لگائے بیٹھی ہو گی کب بزمی صاحب پڑھیں گے اور ماجد سے کہیں گے اپنی بہن سے کہو کوئی کہانی دے دے۔
بزمی صاحب: تیرا تو کیبن میں کرواندا ہوں خالی۔
نوید بابو: مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا سر، آپ اپنے ادبی ایڈیشن کا دیکھ لیں، اسے فرق پڑ بھی سکتا ہے۔
بزمی صاحب: اور جیہڑا ایڈیشن کل آنا اے، اوہ کہاں اے؟
نوید بابو: آپ نے اوکے کر کے ایم ای صاحب کو بھیج دیا ہے، وہ اسے دیکھ لیں تو میں فائل بھی بھیج دیتا ہوں۔ ۔۔۔ کیبن کب خالی کرنا ہے سر؟
بزمی صاحب: (ماجد سے) اب کہاں اے اوہ پرچہ؟
ماجد: وہ تو  باجی لے گئیں سر! وہ کہہ رہی تھیں اچھا  پرچہ ہے۔
بزمی صاحب: اوئے نامانیمو! اس پرچے میں مجھ پر ایک مضمون چھپیا تھا۔ نہ میں نے مضمون ویکھیا، نہ مینوں لکھن والے کا کوئی پتہ۔ کہاں تے ڈھونڈاں میں اس نوں بتاؤ مینوں!
نوید بابو: پتہ مل جائے گا سر، بلکہ پرچہ مل جائے گا۔
بزمی صاحب: کیا مطلب! کیا کہہ رہیا ایں تیں؟
نوید بابو: بتاتا ہوں سر، مگر اس کی ایک شرط ہے۔
بزمی صاحب: کیا؟ اب تیں شرطیں منوائیں گا؟
نوید بابو: آئی ایم سوری سر، مجھے یوں نہیں کہنا چاہئے تھا۔ بھول جائیے اس پرچے کو بھی اور اس مضمون کو بھی۔ اور ان پرچوں کو بھی جو ایک لڑکی آپ کو اپنی کاوش دکھانے کے لئے لائی تھی اور آپ نے ایک نظر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
بزمی صاحب: ایہ کیا کہہ رہیں او آپ، جناب نوید صاحب! میرے ککھ پلے نہیں پڑ ریہا۔
نوید بابو: استاد چٹکی سے پوچھ لیجئے گا سر!
بزمی صاحب: (دھاڑتے ہوئے) کیااااا؟
نوید بابو: جی، وہ مضمون میں نے لکھا تھا۔ اور پرچہ خواجہ خوشنود صاحب کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ ایڈیٹر کون ہے؛ اس سے کیا ہوتا ہے؟ آپ بتائیے مجھے کیبن کب خالی کرنا ہے۔ ماجد کی آپ فکر نہ کریں، اس کو میں اپنے ساتھ لے جاؤں گا۔
بزمی صاحب: مروا دیا تیں نے، نوید! سب کچھ ڈھاء کے رکھ دیا میرا۔
نوید بابو: نہیں سر! آپ کا کچھ نہیں گیا۔ ہو سکے تو چھوٹے لوگوں کے سر پر بھی ہاتھ رکھ دیا کریں۔ استاد چٹکی البتہ ہاتھ سے نکل گئے تو بہت کچھ جا سکتا ہے۔ ہاں سر! میڈم الماس نے مضمون خواجہ صاحب کے بتانے پر پڑھا تھا۔
۔(دونوں جاتے ہیں)۔
بزمی صاحب: (رونی آواز میں) کہاں جا رہے او تسیں دوئیں؟ (خود کلامی کے انداز میں) یہ کیا کر دیا کھوجے نے؟ پر اس نے کیا کریا اے، میں نے آپ ای کریا اے۔ تیرا خانہ خراب اوئے استاد چٹکی! تیرا بیڑہ غرق! تیرا ستیاناس!

اختتام

محمد یعقوب آسیؔ 
اولین تحریر: 2؍فروری 2017ء
ترمیم ۔۔۔۔ 18 جنوری 2018ء
ریکارڈنگ: 19 جنوری 2019ء


مناظر اور کردار

پہلا منظر ۔۔ بسمل بزمی صاحب (ادبی ایڈیشن کے انچارج) کا دفتر
کردار:۔۔ ماجد (بزمی صاحب کا آفس بوائے)، نوید بابو (کمپوزر: متعدد دفاتر سے وابستہ)، میڈم (شعبہ اشتہارات کی انچارج)۔
دوسرا منظر۔۔ نوید بابو کا کیبن
کردار: ۔۔ نفیسہ (ماجد کی باجی)، نوید بابو، ماجد ۔
تیسرا منظر ۔۔ بسمل بزمی کا کمرہ
کردار:۔۔ بسمل بزمی، نفیسہ۔
چوتھا منظر۔۔ بزمی صاحب کا کمرہ
کردار:۔۔ خواجہ خوشنود (ثقافتی ایڈیشن کے انچارج، اور فیچر رائٹر)، بزمی صاحب، ماجد۔
پانچواں منظر ۔۔ نوید بابو کا کیبن
کردار:۔۔ نوید بابو، ماجد۔
چھٹا منظر۔۔ بزمی صاحب کا کمرہ
کردار: ۔۔ بزمی صاحب، الماس (ٹیلیفون پر)۔
ساتواں منظر۔۔ بزمی صاحب کا کمرہ
کردار: ۔۔ بزمی صاحب، نوید بابو، ماجد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کردار اور مناظر

ماجد (بزمی صاحب کا آفس بوائے) ۔۔ پہلا، دوسرا، چوتھا، پانچواں، ساتواں منظر
نوید بابو (کمپوزر: متعدد دفاتر سے وابستہ) ۔۔ پہلا، دوسر، پانچواں، ساتواں منظر
میڈم (شعبہ اشتہارات کی انچارج)۔۔ پہلا منظر
نفیسہ (ماجد کی باجی)۔۔ دوسرا، تیسرا منظر
بسمل بزمی (ادبی ایڈیشن کے انچارج) ۔۔ تیسرا،  چوتھا، چھٹا،  ساتواں منظر
خواجہ خوشنود (ثقافتی ایڈیشن کے انچارج، اور فیچر رائٹر) ۔۔ چوتھا منظر
الماس (پنج ریڈیو کی کرتا دھرتا) ۔۔ چھٹا منظر


کردار اور صداکار
بسمل بزمی ۔۔۔۔۔ محمد یعقوب آسی
خواجہ خوشنود ۔۔۔۔۔ اقبال سہوانی
نفیسہ ۔۔۔۔۔ عائشہ ظفر
الماس ۔۔۔۔۔ ایم زیڈ کنول
میڈم ۔۔۔۔۔ الماس شبی
ماجد ۔۔۔۔۔ جہانگیر خان
نوید بابو ۔۔۔۔۔ منیر انور

نوٹ: پنج ریڈیو (یو ایس اے) کے لئے اس ڈرامے کی صدابندی جمعۃ المبارک 19 جنوری 2018ء کی شب
 ساڑھے گیارہ بجے  مکمل ہو گئی۔


محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان