جمعہ، 17 جولائی، 2015

بے چارہ (5)

بے چارہ (5)


اماں جی کئی دَہائیوں سے شوگر جیسی گھُنی بیماری میں مبتلا تھیں۔ بہتیرا علاج بھی کیا، پرہیز بھی اور دوا دارو کے ساتھ دم دردو بھی۔میاں جی خود دل کے مریض ہونے کے باوجود اماں جی کو لئے کبھی اِس ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں کبھی اُس ہسپتال میں، کبھی اِس مستجاب الدعوات بزرگ کے ہاں سراپا نیاز ہیں تو کبھی اُس مزار پرشیرینی بانٹ رہے ہیں۔غرض جو کچھ بن پڑا سو کیا مگر اماں جی کی طبیعت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ایک دن لیٹے لیٹے بے ہوش ہو گئیں۔ بھاگم بھاگ  ہسپتال پہنچے، اماں جی کو فوری طور پر انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں پہنچا دیا گیا، گیس ماسک، ڈرپ، دھڑکن، سانس، بلڈ پریشر ناپنے کے خود کار آلے سب کچھ لگ گیا۔ مگر اماں جی کے ،میاں جی کے اور چھوٹے استاد کے نصیب میں جو لکھا تھا ہو کر رہا، ساری ڈیجیٹل سکرینیں صفر پر رک گئیں اور دھڑکن کی لکیر سیدھی ہو گئی۔

’’اور وہ جو مر گیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‘‘ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’’آدمی نامہ‘‘ کے مناظر بارے پھر دیکھے گئے ۔ جنازہ کھلے میدان میں پہنچ گیا تو ایک بات کچھ ’’خلافِ توقع‘‘ ہو گئی۔ چھوٹے استاد نے اپنی والدہ کی نماز خود پڑھانی چاہی۔ اور تو اور بڑے استاد جی بھونچکا رہ گئے: میاں کیا کرتے ہو؟ پہلے یہاں ایسا کب ہوا؟ کسی علامہ کا بھی کوئی قریبی فوت ہوا تو نماز کسی اور نے پڑھائی حالانکہ علامہ صاحب کئیوں کی نمازیں پڑھا چکے تھے۔ چھوٹے استاد کا کہنا بھی ٹھیک تھا کہ ماں کی نماز میں کیوں نہیں پڑھا سکتا! اس پر بڑے استاد جی نے دیکھا کہ کوئی حیلہ نہیں چلے گا تو چار و ناچار مان گئے۔


صفیں سیدھی ہوئیں، تو لوگوں کو پھر وہی بھولا ہوا سبق یاد دلایا گیا کہ اس میں چار تکبیریں ہوتی ہیں، ان کے درمیان یہ کچھ پڑھا جاتا ہے، چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرتے ہیں۔ یار لوگوں نے بھی غور سے سنا کہ اگلے دس منٹ تک یاد رہ جائے؛ ہمیں کون سا مرنا ہے! یہ تو اماں جی کو مرنا تھا سو مر گئیں، یہاں سے فراغت ہو تو جا کر اپنے کریانہ سٹور، کلینک، وڈیو شاپ، سویٹ ہاؤس کھولیں گاہکی کا وقت ہے۔


کرنا خدا کا یوں ہوا کہ فطرت اپنی قوت دکھا گئی۔ ماں کے مرنے کا دکھ کسے نہیں ہوگا! سامنے ماں کی میت پڑی ہے، پیچھے بوڑھے میاں جی اپنی سانسوں کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کے دائیں بائیں بھائی کھڑے ہیں۔ چھوٹے استاد نے سلام پھیرا تو آواز بھرا گئی۔ 
’’نماز فاسد ہو گئی!‘‘ یہ نعرہ بڑے استاد جی نے لگایا تھا۔ 
’’فاسد کیوں کر ہو گئی حضرت؟‘‘ کسی نے پوچھ ہی لیا۔
’’امام کو رونا نہیں آنا چاہئے! امام رو دیا تو نماز جاتی رہی‘‘ 
’’حضور، یہ کیا فرما رہے ہیں؟ نماز میں رونا تو انبیائے کرام کی سنت ہے‘‘ 
’’ہم جنازے کی بات کر رہے ہیں، دوسری نمازوں کی نہیں‘‘
’’حضور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحب زادے فوت ہو ئے تو .......‘‘ 
’’استاد کی زبان پکڑتے ہو، ناہنجار!‘‘ ایک بہت بڑے استاد جی بولے، اورچھوٹے استاد جی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ’’جنازہ پھر پڑھاؤ! بلکہ بہتر ہے کہ ہم پڑھا دیں، تم پھر رو دو گے!‘‘





محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ جمعہ ۱۷؍ جولائی ۲۰۱۵ء


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں