جمعرات، 30 اپریل، 2020

ڈراما ۔ تحریر سے پیش کش تک



ڈراما ۔ صفحۂ قرطاس سے پردۂ سیمیں تک


کچھ موٹی موٹی باتیں

کوئی بھی کھیل ہو (سٹیج ڈراما، ریڈیو ڈراما، ٹیلی ڈراما، فیچر فلم، وغیرہ وغیرہ)؛ آپ اپنی تہذیب اور ثقافت سے جس قدر جُڑ کر رہیں گے، اپنی معاشرتی نفسیات کے مطابق چلیں گے، اپنی تاریخ کو پیش کریں گے، اپنی اخلاقی اقدار اور ایمانیات کو وزن دیں گے، پروڈکشن کے اجزاء (کہانی، مکالمہ، مناظر، لباس، اوزار، جانور، گھر، میدان، وغیرہ وغیرہ) جتنے فطری، حقیقی اور غیر ملمع شدہ ہوں گے، اتنا ہی آپ کا کھیل مؤثر اور مقبول ہو گا۔ کہانی کے ایک کردار کو برا، یا اچھا، یا بااختیار، یا مجبور دکھانا ہے تو صرف مکالمے کافی نہیں، ہر کردار کا ایک فطری گیٹ اپ بنانا ہو گا۔ پلاٹ اور منظر آفرینی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کوئی ڈراما کس حد تک ان عناصر کا پاس کر رہا ہے؛ یہی اس کا معیار ہے۔

ان سب عناصر کے مقابلے میں اگر آپ دوسروں کی نقالی کریں گے، دوسروں کی تہذیب کا پرچار کریں گے، آپ کے کھیل میں سطحیت اور ابتذال کی سطح بھی اتنی ہی ہو گی۔ یہاں تک کہ آپ کا تیار کیا ہوا ڈراما ایک شریف فیملی کے افراد اکٹھے بیٹھ کر دیکھیں تو انہیں شرم آئے گی۔

ڈراما صرف یہ نہیں کرتا کہ اس نے ایک سچائی کو ٹھیک ٹھیک پیش کر دیا، اور بس۔ ڈراما پورے معاشرے کی ذہن سازی کرتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان نسل ڈرامے کے کرداروں جیسا بننا چاہتی ہے۔ ڈرامے کو پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ مثبت اور تعمیری سوچ پر مبنی ہونا چاہئے۔


محمد یعقوب آسی۔ ۳۰ اپریل ۲۰۲۰ء


بدھ، 29 اپریل، 2020

ہماری میڈم کرونا


ہماری میڈم کرونا
 شگفتہ (طنزیہ) انشاء پردازی کا  ایک نمونہ

ایک خیالی خط کے جواب میں 

دعا کیجئے کہ لاک ڈاؤن مُک جائے۔ میڈم کرونا سے زیادہ میڈم کا ہوا بنا ہوا ہے۔ یہ میڈم یہاں ٹیکسلا میں صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک آرام فرماتی ہیں اور کسی سے تعرض نہیں کرتیں۔ جونہی پانچ بجتے ہیں آدم بو آدم بو کہتی ہوئی یونیورسٹی کے آس پاس انسانوں کے ہجوم پر جھپٹ اٹھتی ہیں۔ بازار بند ہو تب بھی، نہ ہو تب بھی میڈم مسجدوں میں تاک لگا کر بیٹھ جاتی ہیں اور جوں ہی نمازیوں کی تعداد پانچ سے بڑھتی ہے بھوکی شیرنی کی طرح سب کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ میڈم کی شرافت اور عالی نسبی کو داد دیجئے کہ یہ صرف نمازیوں کو تاڑتی ہیں، بازار میں منڈی میں چلنے پھرنے والے کم ذات لوگ ان کی ناک تلے نہیں آتے۔

سنتے ہیں کہ میڈم کرونا اپنے شکار کا دائرہ وسیع کر رہی ہیں اور نمازیوں کے بعد اب روزہ داروں پر بھی دانت تیز فرمائیں گی۔ میڈم کے مربیٔ اعظم ابو دہشت حضرت امریکا الفسادی نے میڈم کو سختی سے حکم دیا ہے کہ کوئی نمازی یا روزہ دار بچ کر نہیں جانا چاہئے، باقی کسی سے تعرض کریں بھی تو محض دکھاوے کی حد تک کہ حضرت ابو دہشت کا  اصل شکار مُسلے ہیں۔رمضان شریف کے مقدس مہینے میں مُسلوں کو شکار کرنے کا مزا ہی اپنا ہے۔ تاہم ڈر ہے کہ روزے رکھ رکھ کر ان کا خون گاڑھا ہو گیا تو میڈم کے نازک مزاج معدے پر زیادہ بوجھ پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا ان مُسلوں کا خون گاڑھا ہونے سے پہلے ہی ان کا پتا صاف کرنا ہو گا۔ 

میڈم کے حسین خیال کی موج میں آ کر چند سطور لکھ دی ہیں، تاکہ سند رہیں یا نہ رہیں، میڈم  کے غصے کا حقیقی سبب بن سکیں اور ابودہشت کی مکاریوں اور مظالم کو کوئی جواز تو فراہم ہو سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۹۔ اپریل ۲۰۲۰ء

منگل، 21 اپریل، 2020

نہ، نا، نہیں، ناں، کہ ۔۔