اتوار، 30 دسمبر، 2018

دو لفظوں کا مطالعہ





دو لفظوں کا مطالعہ ۔۔۔ ”مِزاج“ اور ”مَجاز“



کہا گیا کہ ۔۔۔ مزاج کیسا ہے، مزاج کیسے ہیں؛ ان میں واحد درست ہے یا جمع؟ اور کیا مزاج کیسی ہے؛ درست ہے؟ کچھ لوگ انہی معانی میں کہتے ہیں: مجاز کیسا ہے۔ اس میں کیا غلط ہے کیا صحیح ہے۔

آئیے، ان دونوں لفظوں کا مختصر مطالعہ کرتے ہیں:
۔1۔ مزاج: مِ زا ج ۔ اس کا مادہ (ز و ج) ہے۔ وہی جسے ہم جوڑا یا جوڑی کہتے ہیں۔ میاں کا زوج بیوی ہے، بیوی کا زوج میاں ہے۔ اردو والوں نے بیوی کو زوجہ بنا لیا؛ عربی میں زوج ہے۔ اس سے اسمِ آلہ بنا مِزوَج (مِفعَل کے وزن پر) یعنی جوڑا بنانے والی چیز۔ اِبدال کے قاعدے میں مِزوَج کی صورت مِزاج ہو گئی۔ اردو میں احوال طبیعت وغیرہ کے معانی شامل ہو گئے۔ مزاج کیسا ہے یا کیسے ہیں؟ میرے نزدیک دونوں درست ہیں۔ مزاج کیسی ہے؟ اردو میں کبھی رائج رہا ہو تو بھی میرے علم میں نہیں۔ ایک لفظ ہے: اِزدِواج (اصلاً اِزتِواج: ۔۔ بر وزنِ اِفتِعال : ثُلاثی مزید فیہ ۔۔ اِبدال کے قاعدے میں ت کی جگہ د آ گئی)؛ جوڑا بننا، میاں بیوی بن جانا، شادی کرنا۔

۔2۔ مَجاز: مَ جا ز۔  اس کا لسانی طور پر مزاج سے کوئی تعلق نہیں۔ بولنے کی غلطی عام ہو کر جو رنگ بھی دکھا دے۔ مِزاج اور مَجاز کی اصل ہی مختلف ہے۔ مَجاز کا مادہ بھی سہ حرفی ہے (ج و ز)۔ اس کا بنیادی معنیٰ ہے درست ہونا، اجازت اسی سے ہے۔ اسمِ مفعول مَجوَز بنا (بر وزنِ مَفعَل)۔ نوٹ کیجئے کہ اِسم آلہ کا وزن مِفعَل ہے اور اسمِ مفعول کا وزن مَفعَل ہے۔ میم کی حرکت کا فرق۔ مَجوَز اِبدال کے قاعدے کے مطابق مَجاز بن گیا۔ یعنی جس کو اجازت ہو، جس کی اجازت ہو، جسے جائز قرار دیا جائے۔ وغیرہ۔ اس میں تذکیر و تانیث ہو سکتی ہے۔ مَجاز کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ ایک غیر حقیقی شے، بات، مظہر کو حقیقی کے مقابل جائز سمجھ لیا جائے، یا نئے معانی دے دئے جائیں (جیسے ادب میں ہوتا ہے: عشقِ حقیقی، عشقِ مجازی، مجازی خدا، مجازی معانی)، اجازۃ: پرمِٹ، لائسنس، اجازت نامہ، اجازت۔
مادہ (ج و ز) سے مزید الفاظ: تَجاوُز، جَواز، جائِز (جاوِز سے بنا ہے)، جائِزہ (اردو کی اختراع ہے)، مُجَوَّز (نث: مُجَوَّزَۃ) تجویز کیا گیا یا کی گئی (مفعول)؛ مُجَوِّز (واو کے نیچے زیر) تجویز کرنے والا (فاعل)، تجاوُز (باب تفاعُل) دوسرے کی شے کو یا کسی عمل کو جو جائز نہیں ہے، اپنے لئے جائز کر لینا ۔ مَجاز کا ایک معنیٰ یہ بھی ہے کہ ایک غیر حقیقی شے، بات، مظہر کو حقیقی کے مقابل جائز سمجھ لیا جائے، یا نئے معانی دے دئے جائیں؛ مثالیں اوپر بیان ہو چکیں۔ علم البیان کی اصطلاح ”مجاز مُرسَل“ بھی اِسی سے ہے؛  و عَلیٰ ھٰذا القیاس۔
فقط: محمد یعقوب آسیؔ  (ٹیکسلا) پاکستان
اتوار،  30 دسمبر 2018ء

جمعہ، 30 نومبر، 2018

دامن جھاڑ دیا


ع: لو ہم نے دامن جھاڑ دیا




اس فقیر کا اب تک کا کل قلمی سرمایہ



محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان  ۔ 12 دسمبر 2018ء

پس نوشت: 
جمعرات: 6 دسمبر 2018ء کو اوپن یونیورسٹی نے محترمہ سعدیہ جبین (پی ایم او) کو اس فقیر پر ایم فل کرنے کی اجازت دی۔

منگل، 13 نومبر، 2018

دین کا ایک مفہوم






دین کا ایک مفہوم


انسان کی ذاتی، نجی، اجتماعی، ریاستی (الغرض ساری دنیاوی) زندگی کی اخلاقیات اور ضابطے ضروریات، سماجیات، عبادات، حقوق اور فرائض، اخلاص؛ احتساب اور حساب، حیات بعد الموت، ایمانیات؛ اموال و املاک؛ اکتساب و اِنفاق؛ حقوق اللہ، حقوق العباد؛ ملل و امم کی تاریخ اور عبرت، علمِ نافع، کائنات کا مطالعہ اور اس سے فائدہ اٹھانا؛ یہ سب کچھ ”دین“ میں شامل ہے۔ اور دین کا منبع قرآن و حدیث ہے۔
جو قوم، طبقہ،معاشرہ، ملت دین پر جتنی زیادہ عمدگی سے چلے گی، اتنا فائدہ پائے گی۔ اِعراض کرنے والی قوم کو اپنا کیا بھگتنا پڑتا ہے، قانونِ فطرت یہی ہے۔ مسلمان قوم کے زوال کا سبب دین نہیں، دین سے اِعراض ہے۔ پہلی امتوں کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا ہے۔

جس کا جی چاہے مان لے، جس کا جی نہ چاہے نہ مانے۔ اللہ کریم نے انسان کو اختیار بھی دیا ہے اور وہ اس کا حساب بھی رکھتا ہے۔ آخرت تو ہے ہی، اللہ کریم کبھی اسی دنیا میں انسان کے کئے کے اثرات بھی دکھا دیتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کریم نے ایمان لانے والوں اور نہ لانے والوں میں جو خطِ امتیاز کھینچا ہے، اس کو پہلے ماننا ہو گا، بقیہ امور کی بنیاد یہی ہے: اسلام یا انکار (بیچ کا کوئی راستہ نہیں)! اسلام کے معانی اور مطالب بہت معروف ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اِس کو ٹھیک طور پر سمجھا اور اپنایا جائے۔

مومِن اور منکِر ؛ عمل دونوں کا اسی دنیا میں ہے۔ اور اجر؟ کافر کا اجر، اگر کوئی ہے تو اللہ ظلم نہیں کرتا، اس کا اجر اسے اِسی دنیا میں دے دیتا ہے کہ اُس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں؛ ایمان نہ لانے والا معاملہ اللہ کریم خود نمٹائے گا۔ مومِن کا اجر، کچھ یہاں ہے کچھ وہاں ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہاں کب کیا عطا کرنا ہے، اور کیا چیز وہاں کے لئے رکھ لینی ہے۔

قرآن سے لَو لگانی ہو گی۔ اس کے بغیر نہ ہدایت مل سکتی ہے نہ فلاح ۔ وماعلینا الالبلاغ۔

محمد یعقوب آسیؔ  منگل  13 نومبر 2018ء


جمعہ، 9 نومبر، 2018

نون اور غنہ کا مسئلہ








نون اور غنہ کا مسئلہ



میں نے ایک صاحب کے ایک سوال کے جواب میں عرض کیا تھا: ’’ابتدائی طور پر جو الفاظ زیر بحث آئے وہ ہیں: کھنڈر، مندر، چندر، چندرما۔کھنڈر : اس میں نون غنہ ہے اور اس کی صوتیت خبر،نظر، ہنر، یہاں، وہاں کے وزن پر ہے۔ مندر: ’’فرہنگِ تلفظ‘‘ کے مطابق اس میں دال مکسور اور نون ناطق ہے (مَ ن دِ ر) اور اس کا عروضی وزن فِعلن پر ہے۔اِس کو مَندَر بھی بولتے ہیں، جو کہ غلط العام میں شمار ہوتا ہے۔ چندر: اس میں نون ناطق جزم کے ساتھ، اور دال ساکن ہے۔ ’رے‘ کی صورت وہی ہے جو پریم، پریت وغیرہ میں آتی ہے۔ صوتی اعتبار سے اس ’رے‘ کا شمار ’’ادھے اکھر‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ دیوناگری میں ایسی ’رے‘ کے لئے کوئی الگ حرف نہیں بلکہ یہ اپنے ماقبل پر ایک ’تُری‘ کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ جیسے بانس میں نون غنہ بِندی کی صورت میں لکھتے ہیں۔ اس کے مشتقات مثلاً چندرما، چندرماشی، چندر گپت وغیرہ میں بھی ’رے‘ کی ’’ادھے اکھر‘‘ کی حیثیت برقرار رہتی ہے۔ نون غنہ والے کچھ مزید الفاظ بھی دیکھتے جائیے: منہ، مینہ، بھینس، پھانس، چھٹانک، وغیرہ۔ یاد رہے کہ بھیانک اور اچانک میں نون ناطق مفتوح ہے۔ رہا یہ سوال کہ ہندی نون غنہ اور نون ناطق کا کوئی اصول بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان الفاظ کی دیوناگری املاء دیکھی جائے، جہاں نون بندی کی صورت میں ہے، وہ غنہ ہے اور جہاں نون اکھر (حرف) کی صورت میں ہے، وہ نون ناطق ہے‘‘۔

تاہم ضروری محسوس ہوتا ہے کہ عربی فارسی اور ہندی تینوں زبانوں میں نون اور غنہ کا مختصر مطالعہ کیا جائے۔ غنہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی ہیں: گانا، گنگنانا: غُنَّۃٌ، غُنَّہْ (غین مضموم، نون مشدد مفتوح، تائے مدورہ منون مرفوع؛ وقف کی صورت میں تائے مدورہ ہائے ہوز مجزوم میں بدل جاتا ہے)۔ اس کا مادہ غ ن ن ہے اور یہ ثلاثی مجرد کے باب سَمِعَ یَسْمَعُ سے ہے۔ فعل ماضی معروف کا پہلا صیغہ غَنَّ(اس نے گنگنایا)، اور فعل مضارع معروف کا پہلا صیغہ  یَغَنُّ وہ گنگناتا ہے ؛ وہ گنگنائے گا)، غُنَّۃٌ، وقف کی حالت میں غُنَّہْ(گنگناہٹ، آواز کو ناک سے نکالنا) ۔

عربی میں حرف نون غنہ (ں) سرے سے موجود ہی نہیں، نون کی یہ صورتیں پائی جاتی ہیں: نون تنوین، نون قطنی، نون کا اخفاء، اظہار، ادغام باغنہ، میم یا نون کے فوراً بعد باء، اور ادغام بغیرغنہ۔ مشق کے طور پر کوئی بھی ایسا لفظ ادا کیجئے جس میں میم یا نون ساکن (مجزوم) واقع ہو۔ آواز کسی نہ کسی حد تک ناک سے ضرور نکلے گی، ماسوائے اس صورت کے جسے ادغام بغیرِغنہ کہا جاتا ہے۔

نون تنوین: ایسے تمام اسماء اور مصادر (مصدر بھی اسم کی ایک قسم ہے) جن کے آخری حرف پر تنوین وارد ہو، اصلاً عربی زبان سے ہیں۔ اس کو ہم دو زبر، دو زیر، یا دو پیش کی صورت میں لکھتے ہیں۔ مثالیں:
رفعی حالت میں حَقٌّ، کتابٌ، عِلمٌ، اَوراقٌ (صوتیت: کتابُن، علمُن، اوراقُن)وغیرہ؛ نصبی حالت میں عمداً، سہواً، عموماً، حکماً، جواباً (صوتیت: عَمَدَن، سَہْوَن، عمُومَن، سوالَن، حُکْمَن)وغیرہ، اور جری حالت میں قو مٍ، وقتٍ (قومِن، وقتِن)وغیرہ۔ ملاحظہ ہو کہ نصبی حالت میں اسم کے آخر میں ایک الف کا اضافہ ہوتا ہے اور تنوین کا اثر ایسے الف سے پہلے حرف پر ہے۔ تاہم یاد رہے کہ ایسے الفاظ پر اگر الف لام تعریفی واقع ہو تو نہ تنوین باقی نہیں رہے گی نہ الف زائد، بلکہ صرف ایک زبر، زیر یا پیش لکھی جائے گی۔علاوہ ازیں وقف کی صورت میں تنوین والی گول ۃ (تائے مدورہ)ہائے ہوز (ہ) میں بدل جاتی ہے، تنوین رفعی یا جری والا حرف ساکن ہو جاتا ہے۔ تنوین نصبی بغیر الف کا قاعدہ تنوین رفعی و جری کے مطابق ہے ، جب کہ تنوین نصبی الف والے حرف میں الف زائد حرف علت کی حیثیت میں قائم رہتا ہے۔ مزید تفصیلات کا یہ موقع نہیں۔

نون قطنی: بعض الفاظ کی جملے میں نشست اور ان کے معنوی تقاضوں کے پیشِ نظر تنوین ختم نہیں کی جا سکتی جبکہ اس کے بعد ہمزۃالوصل واقع ہوتا ہے۔ ایسی تنوین کی جگہ اکہری علامت حرکت لکھ کر ایک چھوٹا سا نون مکسور لکھ دیا جاتا ہے، یہ نون قطنی کہلاتا ہے۔ مثال:  اٰتِ مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ (اصلاً : اٰتِ مُحَمَّدًا اَلْوَسِیْلَۃَ ۔۔وسیلہ پر الف لام تعریفی کا الف در اصل ہمزۃ الوصل ہے)۔ وقف کی صورت میں نون قطنی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ بسا اوقات قرآئے کرام سورۃ اخلاص کی پہلی آیت اور دوسری آیت کو ملا کر پڑھتے ہیں۔ یہاں لفظ اَحَدٌ کا معنوی تقاضایہ ہے کہ حرف دال پر تنوین قائم رہے جب کہ اَللہُ  کا الف در اصل ہمزۃ الوصل ہے۔ ملا کر پڑھنے کی صورت میں یہاں نون قطنی پیدا ہوتا ہے اور صوتیت یوں بنتی ہے: قُلْ ہُوَ اللہُ اَحَدُنِ اللہُ الصَّمَد۔ نون قطنی کی متعدد مثالیں سورۃ الکہف کے آخری رکوعات میں بھی میسر ہیں۔ 

نون وقایہ: یہ عربی سے خاص ہے۔  یہ نون علامتِ ضمیر  (ی: میرا، میری، میرے، مجھے) واحد متکلم سے پہلے پیدا ہوتی  ہے (یعنی ی کی جگہ جزوِ لفظ نی بن جاتا ہے)۔ اس کے خاص مواقع ہوتے ہیں۔ اردو شعر میں نون وقایہ کو بھی نہیں گرایا جا سکتا۔

نون کا اخفاء، اظہار، ادغام: کسی بھی لفظ میں یا دو لفظوں کے اتصال میں نون ساکن (بشمول تنوین) کے فوراً بعد حروفِ حلقی (ہمزہ، ہاء، عین، حاء) میں سے کوئی واقع ہو تو نون کا اظہار ہو گا، راء یا لام ہو تو ادغام غنہ کے بغیر، واو یا یاے ہو تو ادغام غنہ کے ساتھ، باء ہو تو باء کے زیرِ اثر نون کی صوتیت میم کی سی ہو جائے گی، باقیوں سے کوئی ہو تو اخفاء ہو گا۔ تاہم ان جملہ صورتوں میں اردو عروض کے اعتبار سے یہاں نون ساکن ایک ناطق حرف کی صورت میں موجود ہوتا ہے یا (ادغام بغیر غنہ کی صورت میں) اس کی جگہ لام ساکن یا راء ساکن مؤثر ہوتا ہے۔ اس کو محض غنہ یعنی گونج سمجھ کر گرا دینا اصولی طور پر غلط ہے۔ 

نون فارسی: اس پر پہلے کسی اور سیاق و سباق میں بات ہوئی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ:

۔الف۔  بہت سے الفاظ کو، جن کے آخر میں نون اور اس سے پہلے حرفِ علت (الف، واو، یاے) آتا ہے، نون ناطق اور نون غنہ دونوں کے ساتھ ادا کرنا درست مانا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جاں:جان، آسماں:آسمان، جواں:جوان، کہکشاں:کہکشان، دبستاں:دبستان، امکاں:امکان، زمیں:زمین، قریں:قرین، وغیرہ۔ ایسے الفاظ یا تو فارسی الاصل ہوتے ہیں یا عربی سے بوسیلہ فارسی اردو میں داخل ہوئے ہیں۔ ایسے الفاظ میں نون کو ناطق پڑھیں یا غنہ، معانی میں فرق واقع نہیں ہوتا۔ ہم اپنی سہولت کے لئے ایسے نون کو نونِ فارسی کہہ لیتے ہیں۔ فارسی میں نون غنہ کا تصور ویسا نہیں جیسا اردو میں ہے۔ ان کے ہاں نونِ فارسی ساکن کی ادائیگی نون غنہ اور نون ناطق کے بین بین ہوتی ہے۔ جب ایسے نون پر کوئی حرکت وارد ہو تو یہ نون ناطق ہو جاتا ہے۔ جاں: جانِ جہاں، آسماں: آسمانوں، آسمانی، جواں: جوانی،جوانان، جوانانِ وطن، دبستاں: دبستانِ عروض، امکاں: امکانی، زمیں: زمین و آسماں،زمینی، قریں: قرینِ قیاس، داستاں:داستانیں، زباں:زبانیں، و علیٰ ہٰذا القیاس۔

۔ب۔  دوسری طرف ایسے الفاظ ہیں کہ جن کے نونِ آخر کو ناطق اور غنہ پڑھنے سے معانی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ماں(مادر) اور مان (فخر، غرور)، جوں (جیسے) اور جون (نسل) وغیرہ، ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ یا تو مقامی زبانوں سے اردو میں آئے ہیں یا اردو زبان کی تشکیل کے ساتھ ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں واقع ہونے والا نون،مجملاً نونِ فارسی نہیں کہلا سکتا۔ بلکہ یہاں نون اور نون غنہ دو الگ حروف ہیں۔ مزید مثالیں ایسی بھی دی جا سکتی ہیں جہاں نون اور نون غنہ کا فرق لفظ کی اصل کا مظہر ہے۔ مثلاً جہاں (جس جگہ: اردو)، جہاں یاجہان (دنیا: فارسی)۔ بعض الفاظ یکساں ادائیگی رکھتے ہیں لیکن ان کی اصل مختلف ہوتی ہے، لہٰذا معانی بھی مختلف ہوتے ہیں(الا قلیل)۔ مثلاً بین (رونا پیٹنا: اردو) بین (بیچ: عربی)۔

جیسے میں پہلے عرض کر چکا، فارسی میں نون غنہ کی املاء اردو سے بعینہٖ منطبق نہیں۔ اس سے قطع نظر کہ کسی لفظ میں آمدہ نون ناطق ہے یا غنہ، وہ لوگ نون میں نقطہ لگاتے ہیں، اور پڑھنے میں مکمل غنہ نہیں کرتے۔ نثر میں تو عام طور پر نون کا مکمل اظہار کیا جاتا ہے، شعر پڑھنے میں نون غنہ کو مختصر ادا کیا جاتا ہے۔ فارسی میں حرفِ علت الف کی ہائے ہوز ماقبل مکسور کی ادائیگی تو اُردُو سے خاصی مختلف ہے، تاہم یہ اِس وقت کا موضوع نہیں ہے، پھر کبھی سہی۔ دل چسپی رکھنے والے احباب اس فقیر کے مضامین بعنوان ’’اسباقِ فارسی‘‘ اور ’’زبانِ یارِ من‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔  

فی الوقت ہمارا قضیہ نونِ ہندی (بہ صورتِ ’’بِندی‘‘) ہے۔ یہاں بنیادی اہمیت اس نکتے کو حاصل ہے کہ ہندی کا اصل رسم الخط دیوناگری اور اُردُو کا رسم الخط فارسی ہے۔ ہندوستان میں اردو کی پیدائش سیاسی، حربی، علمی، معاشرتی، مذہبی، تہذیبی اور لسانی عوامل کے ایک طویل سلسلے کا حاصل ہے۔ برصغیر میں ان دونوں زبانوں نے ایک دوسری کے شانہ بہ شانہ خاصا لمبا صفر کیا ہے، جس کے نتائج و عواقب میں ایک یہ بھی ہے کہ اپنے اپنے رسم الخط میں رہتے ہوئے دونوں نے ایک دوسری سے اصوات لی ہیں اور ان کے مطابق حروف میں تبدیلیاں کی ہیں۔

فارسی رسم الخط کے حروف ت، د، ر میں نقاط کی بجائے ایک چھوٹی سی ط جیسی علامت (جسے زبان زدِ عام میں ٹوپی بھی کہا جاتا ہے) داخل کی گئی۔ دیوناگری میں ب، ت، ٹ سے ہم مخرج مگر آزاد حرف بھ، تھ، ٹھ وغیرہ موجود ہیں۔ فارسی رسم الخط میں انہی ب، ت، ٹ کے ساتھ دو چشمی ھ ملا کر یہ آوازیں حاصل کی گئیں۔ مقامی آوازوں میں غنہ ظاہر کرنے کے لئے ن کی نقطے کے بغیر صورت ں وضع ہوئی، جسے نون غنہ کہا گیا۔ یہی ں جب الفاظ کے اندر وارد ہوا تو اسے نون کے موافق لکھ کر اس پر غنہ کی علامت بنا دی گئی (فی الوقت میرے پاس ان پیج یا یونی کوڈ میں مذکورہ علامت دستیاب نہیں، تاہم جہاں تک ممکن ہو، علامات بنانے کی کوشش کرتا ہوں)۔ جوں جوں زبان مانوس ہوتی گئی، زبر، زیر پیش،غنہ اور شد وغیرہ کی علامات لگانا غیر ضروری ہوتا گیا، ماسوائے جہاں ایسا ناگزیر ہو۔ مقامی زبانوں میں موجود ’’آدھی آوازوں‘‘ کے لئے فارسی رسم الخط کے ’’پوری آواز‘‘ والے حروف رواج پا گئے (مثلاً: کیا، کیوں کی ی؛ پریم، پریت کی ر؛ وغیرہ)۔ گورو نانک کے عہد سے اردو رسم الخط کو شاہ مکھی اور دیوناگری رسم الخط کو گرمکھی بھی کہا جانے لگا ہے (لفظ گرمکھی میں گر سے مراد گورو نانک ہے)۔
دوسری طرف دیو ناگری رسم الخط میں متعدد ’’اردو‘‘ آوازوں کی حرفی صورتیں اصلاً موجود نہیں تھیں، کہ ان لوگوں کو ضرورت نہیں تھی۔ مثلاً: ث، خ، ذ، ز، ژ، ص، ض، ط، ظ، ع، غ، ف، ق، وغیرہ۔ اردو، فارسی اور عربی کے نفوذ کے ساتھ ان آوازوں کے قریب کی آوازوں والے حروف میں بندی (نقطہ) وغیرہ کا اضافہ کر کے نئے حروف بنائے گئے (میرے کمپیوٹر میں دیوناگری خط دستیاب نہیں۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ دیو ناگری رسم الخط سے میری شناسائی واجبی سے بھی کچھ کم ہے)۔ ’’تقریباً یکساں‘‘ آوازوں کو پہلے سے موجود حروف کے تابع سمجھ لیا گیا جیسے ث، س، ص ایک گروہ بن گیا؛ ذ، ز، ض، ظ ایک گروہ ہوا۔ یہ گروہ بندی میں مماثل آوازوں کی حد تک تو گزارا کر سکتی ہے، مگر جب معاملات معانی کے آن پڑیں تو مسئلہ حل نہیں ہو پاتا۔ مثال کے طور پر گرمکھی میں لفظ نذیر اور نظیر کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے، جب کہ ان کے معانی مختلف ہیں (نذیر: خبردار کرنے والا، نظیر: مثال)؛ اسی طرح ثواب اور صواب، بہر اور بحر؛ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

اب ہم آتے ہیں کسی خاص حرف کے استعمال کا اصول ’’وضع کرنے‘‘ کی طرف۔ رسوم الخط یا زبان کے بدلنے سے یعنی کسی لفظ کے ایک زبان سے دوسری میں آ جانے سے اس کے ہجوں، اعراب، معانی میں کہاں کیا تبدیلی واقع ہوتی ہے، یا ایسے لفظ کی کون سی نئی صورت سامنے آتی ہے، یا اس قبیل کے کون کون سے الفاظ جنم لیتے ہیں؛ ان امور کا فیصلہ نسلوں میں جا کر ہوا کرتا ہے۔ کسی ایک فرد یا گروہ کا کہا ہوا مؤثر نہیں ہوتا۔ املاء کے ضمن میں ایک بات البتہ بہت واضح ہے کہ دوسری زبان سے آنے والا لفظ اگر آپ کی زبان میں موجود اور مستعمل حروفِ تہجی میں بخوبی ادا ہو سکتا ہو تو اس کی صوتیت میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آتی اور نہ اس کی ضرورت ہوتی ہے، معانی کا معاملہ کسی قدر مختلف ہے۔ ایک ہی رسم الخط کی زبانیں ایک دوسری کے الفاظ جلدی اور بہ سہولت قبول کرتی ہیں اور ان کو قریب قریب انہی معانی میں لے لیتی ہیں جن میں وہ اپنی اصل زبان میں رائج ہیں۔ ہاں، ان سے نئے الفاظ پیدا ہوں تو اُن میں کچھ نہ کچھ معنوی فرق واقع ہو جانا عین ممکن ہے۔ مثلاً مراسلت اور مراسلہ، اِقامت اور اِقامہ، سیارہ اور سیارچہ، گزارہ اور گزارا؛  وغیرہ۔  

لہٰذا جہاں کہیں کسی لفظ کے حوالے سے قضیے کی صورت پیدا ہو، وہاں پہلا اقدام تو ایسے لفظ کی اصل کو سمجھنا ہے۔ پھر، یہ کہ اپنی اصل زبان میں اس کے ہجے کیا ہیں، اس کی صوتیت کیا ہے، ترکیب اور ساخت کیا ہے، معانی کیا ہیں؛ جس زبان میں وہ لفظ وارد ہوا ہے آیا اُس کا رسم الخط اصل زبان سے منطبق ہے یا رسوم الخط کے اسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں؛ ہر دو زبانوں میں اس لفظ کی املاء میں کون سی تبدیلی ناگزیر تھی؛ کیا وہ لفظ اپنی اصلی صوتیت اور معانی کے ساتھ رائج ہے، یا اس میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے؛ اگر ہوئی ہے تو کس حد تک؛ وغیرہ۔ اس وقت کا سوال نون یا نون غنہ کے ہندی الاصل الفاظ کے اندر واقع ہونے سے متعلق ہے۔ املاء اور تلفظ کی کچھ مثالیں دیکھئے: بھینْس (بھَے ںس)، پھانْک (پھا ں ک)، گونْج (گُو ں ج)، مُنْہ (مُ ں ہ)، مینْہ (مے ں ہ)، کھنْڈر (کھَ ں ڈَر)، پہنْچ (پَ ہُ ں چْ)، ہنْسی (ہَ ں سی)، دانْت (دا ں ت)، سانْسیں (ساں سے ں)، چھٹانْک (چھ ٹاں ک)؛ وغیرہ میں نون غنہ ہے۔ وہ الگ بات کہ ہم ہر نون غنہ پر علامتِ غنہ نہیں بناتے یوں وہ بظاہر نون دکھائی دیتا ہے: بھینس، پھانک، گونج، منہ، مینہ، کھنڈر، پہنچ، ہنسی، دانت ، سانسیں، چھٹانک۔ یہ عمل اِعراب (زبر، زیر، پیش وغیرہ) نہ لگانے کے متماثل ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایسے الفاظ بھی کثیر تعداد میں ہیں جن میں نون ناطق ہے، مثلاً: مندر (مَنْ دِر)، سُندر (سُنْ دَر)، بھلے مانَس (بھ لے مانَس)، اچانک (اچا نَک)۔

سامنے کی بات یہ نکلتی ہے کہ کسی لفظ کے محض ہجوں (حروف کی ترتیب اور اِعراب) سے یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اس میں شامل نون غنہ ہے یا ناطق۔ سند وہی ہے کہ اہل زبان اس کو لکھتے کیسے ہیں اور بولتے کیسے ہیں۔ نون غنہ کے لئے دیوناگری یا گرمکھی میں بِندی اور اردو رسم الخط میں علامتِ غنہ پہلے مذکور ہو چکیں۔

ہمارے پاس اساتذہ کا شعری اور نثری کلام ہے تو اعتبار یہی ہے کہ کسی لفظ کو اردو کے اساتذہ نے کیسے لکھا، پڑھا اور بولا ہے۔ کوئی شخص اگر یہ کہہ دے کہ: ’’اساتذہ نے ایسا کر دیا تو کیا ہم اُن کے کہے کے پابند ہیں؟ یا کیا ہم اُس کو تبدیل نہیں کر سکتے؟‘‘ اساتذہ نے خود تو سارے لفظ وضع نہیں کئے! میرے نزدیک ایسی بات زبانوں کی پیدائش اور ترویج کے فطری اصولوں کی نفی کرنے کے مترادف ہے، اور مجھے ایسے شخص سے کچھ نہیں لینا دینا۔ کچھ اسی طرح کی بات ایک اور شخص کہتا ہے، کہ ’’ہماری اردو کا تو رسم الخط ہی ناقص ہے!‘‘ تو یہ اس کی اپنی کم علمی اور کج فہمی کا حاصل ہے۔

میری قبیل کے لاکھوں لوگوں کے نزدیک زبان صرف اصوات و حروف کا نام نہیں پوری تہذیب کا نام ہے اور ہماری نظر میں تو اُردُو کو یہی رسم الخط جچتا ہے، کہ اس کے پیچھے ہمارا کم و بیش ایک ہزار سال کا تہذیبی سفر ہے۔ جسے کسی کی انفرادی سوچ کے لئے بہ یک جنبشِ قلم رد نہیں کیا جا سکتا۔
......


محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔ 23 جون 2018ء


ہفتہ، 29 ستمبر، 2018

اِسرار ۔ اَسرار ۔ اِصرار









اِسرار ۔۔ اَسرار ۔۔ اِصرار 



گزشتہ دنوں ان اَلفاظ پر بات ہو رہی تھی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اِصرار کا معنی ہے کسی امر پر بضد ہونا، تقاضا کرتے رہنا اور اَسرار جمع ہے سِرّ کی یعنی راز، بھید وغیرہ۔ سوال یہ آیا تھا کہ اِسرار کے معانی کیا ہوئے؟ پھر بات اسمائے عَلَم کی طرف مُڑ گئی؛ اِفعال اور اَفعال کی توضیح باقی رہ گئی۔ اس کے لئے ہمیں تھوڑا سا تفصیل میں جانا ہو گا۔

ثلاثی مزید فیہ  باب اِفعال میں فعل لازم سے فعل متعدی بنتا ہے۔ مثلاً: اِقرار (ق ر ر) قائم رکھنا، مان لینا، تسلیم کر لینا؛ اِنکار (ن ک ر) اِقرار کا متضاد ہے؛ اِشکال (ش ک ل) دو یا زیادہ چیزوں میں باہم شک ڈال دینا؛ اِقدام (ق د م) قدم اٹھانا، عملی طور پر کچھ کرنا؛ اِحسان (ح س ن) نیکی کرنا؛ اِیصال (و ص ل) دو یا زیادہ امور، اشخاص، اَفعال، اَلفاظ وغیرہ کو ملانا؛ اِدغام (د غ م) دو یا زیادہ باتوں کو ایک دوسرے میں ملا دینا؛ اِصرار (ص ر ر) کسی امر پر بضد ہونا؛ اِعجاز (ع ج ز) عاجز کر دینا؛ وغیرہ۔ اس نہج پر اِسرار (س ر ر) بھی ممکن ہے یعنی کسی بات کو راز بنا دینا یا بنا لینا (تاہم یہ لفظ میرے محدود سے علم میں نہیں، اور میرے علم میں نہ ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ لفظ ہو ہی نہیں سکتا)؛ اِسراع (س ر ع) رفتار وغیرہ کو تیز کرنا؛ اِنعام (ن ع م) نعمت سے نوازنا، اِنعام دینا؛ اِخلاق (عادت بنانا: عام طور پر اچھے معانی میں آتا ہے)؛و غیرہ، وغیرہ۔

یاد رہے کہ کلمات کے اردو میں مروج معانی عربی سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں؛ منقولہ بالا زیادہ تر اَلفاظ اردو میں فعل یا مصدر کی بجائے اسم کے معانی میں آتے ہیں۔ دوسری طرف جمع مکسر کا ایک وزن اَفعال ہے: اَنوار، اَطراف، اَنواع، اَمراض، اَخلاق، اَشکال، اَقدام، اَنعام، اَسرار؛ یہ بھی طویل فہرست ہے۔

اس فہرست میں شامل درجِ ذیل الفاظ (کلمات) پر غور فرمائیے:
۔۔ اِخلاق عادات کے معانی میں ہے اور اَخلاق جمع ہے خُلق کی؛ معانی بہت قریب قریب ہیں۔
۔۔ اِشکال وہ صورتِ حال ہے جہاں کچھ امور میں تفریق مشکل ہو جائے؛ اَشکال جمع ہے شَکل کی۔ یہاں ایک اور لفظ توجہ طلب ہے: مُشَکَّل (تشکیل سے اسمِ مفعول) جسے کوئی شکل دے دی گئی ہو۔
۔۔ اِقدام اُردو میں بہت مانوس ہے، عملی طور پر کچھ کرنا، اور اَقدام جمع ہے قدم کی۔
۔۔ اِنعام اردو میں بہت مانوس ہے، وہ نعمت اعزازیہ وغیرہ جو کسی نمایاں کام پر دیا جاتا ہے، اور اَنعام کا معنی ہے پالتو جانور جن سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے۔
و علیٰ ہٰذا القیاس۔

یہ موضوع اتنا مختصر نہیں جتنی یہ بحث مختصر ہے۔ حاصل اس کا یہ ہے کہ (مثلًا:) اِفعال، اَفعال والے الفاظ میں شروع کے الف کی حرکت (زبر، زیر) معانی کے تعین میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ جہاں تک زبان کے علم کا تعلق ہے، تو میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ صاحبو! ڈکشنری حِفظ کرنے کی چیز نہیں ہے، الفاظ یا تو پڑھنے (مطالعہ) سے یاد رہ جاتے ہیں یا پھر لکھنے (اپنی تحریر) سے۔

فقط ۔۔۔ محمد یعقوب آسیؔ  (ٹیکسلا) پاکستان (ہفتہ: 29 ستمبر 2018ء)۔


ہفتہ، 8 ستمبر، 2018

خوب سمجھ گیا





خوب سمجھ گیا


استاد بسمل بزمی ایک معروف سماجی شخصیت ہیں، اور سنا ہے کہ اوپر تک رسائی رکھتے ہیں؛ ایک مشہور اخبار کے ادبی صفحے کے انچارج بھی ہیں اور اپنا ایک سیاسی سماجی پرچہ بھی نکالتے ہیں۔ پرچے میں چند صفحات ادب کے نام پر بھی شامل کر رکھے ہیں۔ ان صفحات میں صرف چوٹی کے اہلِ فن کو جگہ ملتی ہے۔ چوٹی بھی تو ظاہر ہے، اوپر ہی ہوا کرتی ہے! پروانہؔ یزدانی کی تازہ کتاب آئی تو انہوں نےچوٹی کے اور با رسوخ شعراء کو اعزازی کاپیوں سے نوازا۔ استاد کو بھلا کیسے نظر انداز کیا جا سکتا تھا!
انہی دنوں استاد سے ایک محفل میں ملاقات ہو گئی۔ کہنے لگے: ”پروانہؔ کی تازہ کتاب ہے تمہارے پاس؟“۔
عرض کیا: ”نہیں“۔
بولے: ”میرے پاس ہے، مجھے بھجوائی ہے انہوں نے“۔
کہا: ”چلئے اچھا ہے“۔
بولے: ”کتاب یقیناً اچھی ہو گی، پڑھو“۔
عرض کیا: ”مجھے بھی بھجوا دیتے تو پڑھ لیتا“۔
کہنے لگے: ”تمہیں پتہ ہے وہ ہما شما کو کتاب نہیں بھیجتے، خرید کر پڑھ لو“۔
عرض کیا: ”آپ کو بھی پتہ ہے کہ میں ہما شما کی کتاب خریدنے کا قائل نہیں ہوں“۔
بولے: ”پروانہؔ ہما شما نہیں ہے۔ تم ادب کے قاری ہو، تمہیں چاہئے کہ کتاب خرید کر پڑھو“۔
کہا: ”مگر آپ کے پروانہؔ صاحب کے قاری تو صرف وی آئی پی ہیں، مثلاً آپ جنہیں کتاب مل گئی“۔
ارشاد ہوا: ”تم وی آئی پی نہیں ہو نا،  ادب کے قاری تو ہو! قاری کی بھی کچھ ذمہ داری ہوتی ہے، ادب کو پروموٹ کرے۔۔۔“۔
ہم نے ہاتھ کھڑا کر دیا: ”بس کیجئے استاد! پروانہؔ اچھی طرح جانتا ہے کہ آپ ادب کے قاری نہیں،نہ سہی! بڑے لوگوں کا زینہ ضرور ہیں“۔
تنک کر بولے: ”میں ایک اخبار کے ادبی صفحے کا انچارج ہوں، اپنا پرچہ نکالتا ہوں اس میں ادب کے لئے صفحات رکھے ہیں! تم نے کیسے کہہ دیا کہ میں اد ب کا قاری نہیں ہوں؟“۔
عرض کیا: ”آپ ہی نے تو کہا کہ کتاب یقیناً اچھی ہو گی۔ پڑھی ہوتی تو کہتے کہ اچھی ہے!“۔
استاد نے چیں بہ جبیں ہو کر بات بدل دی اور ہم نے بھی مزید کچھ نہ کہنے میں عافیت جانی۔

کچھ ہی دنوں بعد ہماری ایک تازہ کتاب آ گئی۔ حسبِ دستور اپنے خاص خاص دوستوں کو اس کی کاپیاں بھجوا دیں، ایک کاپی استاد بسمل بزمی کو بھی پیش کر دی۔ کہنے لگے: ”پروانہؔ  یزدانی کو کتاب بھیجی ہے؟“۔
کہا: ”نہیں“۔
فرمایا: ”کیوں؟“۔
کہا: ”انہیں پڑھنی ہو گی تو خرید کر پڑھ لیں گے، نہیں تو نہیں خریدیں گے“۔
بولے: ”تم ادیب ہو؟“۔
عرض کیا: ”ہوں تو سہی، مگر ذرا کم درجے کا۔ چوٹی کا بھی نہیں، زینہ بھی نہیں! ہوتا تو آپ کے پرچے میں مجھ پر کئی آرٹیکل چھپ چکے ہوتے“۔
ہماری طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے استاد بسمل بزمی فرمانے لگے: ”دیکھو، تم ادیب ہو، تم یقیناً چاہو گے کہ تمہارا لکھا ہوا دوسروں تک پہنچے۔ چاہو گے نا؟“۔
کہا: ”یہ تو ہے“۔
بولے: ”تو پھر اپنی کتاب اپنے قاری تک پہنچاؤ!“۔
عرض کیا: ”پہنچا تو دی ہے! قاری بھی تھوڑی سی زحمت کرے نا، خرید کر پڑھ لے؛ آپ سے عاریتاً لے کر پڑھ لے“۔
ارشاد ہوا: ”قاری تمہاری کتاب خریدنے کا پابند نہیں ہے، اس تک کتاب پہنچانا تمہارا کام ہے! سمجھ گئے؟“۔
ہم نے استاد بسمل بزمی کے چہرے پر نگاہیں گاڑ کر کہا:”جی سمجھ گیا! خوب سمجھ گیا“۔ انہوں نے نظریں چرا لیں، ہم بھی چپکے ہو رہے۔


تحریر: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
ہفتہ: 8 ستمبر 2018ء

ہفتہ، 25 اگست، 2018

میں کاٹ دی




میں کاٹ دی




          ابو خاصے پریشان تھے کہ اب کی بار قربانی کا کیا ہو گا۔ منڈی میں کام کا جانور شاذ و نادر دکھائی دیتا تھا۔ کوئی اچھا بکرا دکھائی دے جاتا تو بیچنے والا ستر ہزار، اسی ہزار مانگ لیتا۔ ابو کہتے تھے: ایسا نہ ہو کہ اچھے جانور اور مہنگائی کے چکر میں قربانی ہی جاتی رہے، محلے میں کسی کے ساتھ گائے میں حصہ رکھوا لو، چھوٹا جانور اچھا بن گیا تو وہ بھی لے لیں گے، نہ بنا تو کم از کم عیدِ قربان خالی تو نہیں جائے گی۔ عید ہو اور ہمارے ہاں قربانی نہ ہو؟ پچھلے چالیس برس میں ایسا نہیں ہوا، الحمد للہ۔ ابو کو یہی دھڑکا لگا تھا کہ اب کی بار کہیں ایسا ہو ہی نہ جائے۔ اس گھر کی تو روایت تھی کہ عیدالفطر کے قریب قریب کبھی رمضان کے اواخر میں کبھی شوال کے شروع میں ایک دو جانور خرید لاتے، دو مہینے ان کی خوب ”ٹہل سیوا“ ہوتی ، چارہ، دانہ، چَرائی، نہلانا دھلانا یوں ہوتا کہ جانوروں کے لئے کبھی بچوں کو اور کبھی امی کو بھی جھاڑ پلا دی جاتی کہ یہاں صفائی کیوں نہیں ہوئی، یہ جگہ گیلی کیوں ہے؛ وغیرہ۔

          ابو دفتر سے آتے تو جانوروں کی خدمت میں جُت جاتے۔ انہیں باہر گراؤنڈ میں لے جاتے،گھاس چَراتے، درختوں کی نرم شاخیں توڑ توڑ کر تازہ پتے کھلاتے۔ کپڑوں پر جانوروں کا پیشاب مینگنیاں لگتی ہیں تو لگتی رہیں، کوئی پروا نہیں۔ امی کہتیں: ”اپنے کپڑوں کا تو خیال کر لیا کرو، نماز پڑھنے جوگے بھی نہیں رہتے“۔ تنک کر کہتے: ”تو پھر دھو دو، اِن کو؛ صبح تک سوکھ جائیں گے۔ دانہ وَنڈا مجھے دو، ان کو کھِلا لوں، پھر بدل لوں گا کپڑے بھی!“۔ روزانہ دفتر جانے سے پہلے ایک طویل ہدایت نامہ جاری کرتے کہ ان کو پانی ایسے نہیں پلانا، ایسے پلانا ہے، جگالی نہ کریں تو مجھے فون کر دینا، بارش کا موسم ہے ان کو برآمدے میں باندھ لو؛ وغیرہ وغیرہ۔

          امی اُن سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتیں: ”اے لڑکیو! اِ بے زبانوں کو کچھ کھانے کو دیا ہے؟ نہیں دیا نا؟ کھیل میں مگن ہو؟ اے میں کہتی ہوں، تمہارے باپ نے ان کو لا کے باندھ تو دیا ہے، بھوکے پیاسے رکھنے کو! اے لو، میری بھی مت ماری گئی، سبز چارہ تو وہ خرید کر دے گئے جاتے ہوئے، دانہ گھر میں پڑا ہے۔ اٹھو نکمیو! کھیلنا ہے تو اِن کے ساتھ کھیلو، قربانی کے جانور ہیں، لاڈ پیار تو اِن کا حق بنتا ہے“۔

          عید کے دن، نماز پڑھتے ہی گھر کو بھاگتے، کسی ساتھی کی مدد سے جانور کو ذبح کرتے، کھال اتارتے میں خراب کر بیٹھتے تو شرمندہ بھی ہوتے۔ امی کہتیں کسی قصائی کو بلا لیا کرو، تو کہتے: ”نہیں، ابھی ہاتھ ٹھیک نہیں پڑتا، پڑنے لگے گا۔ قصائی والی بات دل کو نہیں لگتی، اور پھر کون اس کا انتظار کرتا رہے! سچی بات ہے خود اپنی تسلی نہیں ہوتی“۔ ہوتے ہوتے ابو کا ہاتھ گھل گیا۔ اب بھی اکثر کہا کرتے ہیں: اپنا کام اپنے ہاتھوں کرنے کا لطف بھی اپنا ہے۔ اور ان کی یہ بات صرف کہنے کی نہیں، کرتے بھی خود ہیں؛ اگرچہ اب ان کی توانائیاں ویسی نہیں رہیں۔ ریٹائر ہوئے دس برس سے اوپر ہو گئے۔ اب بیٹوں سے کہتے ہیں کہ خود سنبھالو سارا کچھ۔ کہنے کو کہہ دیتے ہیں مگر ساتھ لگے رہتے ہیں، ہر بات پر ٹوکتے ہیں، ایسے کرو، ایسے نہ کرو، تم نے نہیں ہو گا، لاؤ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ چھری پکرٹے ہیں، ایک دو ہاتھ چلاتے ہیں اور ہانپنے لگتے ہیں: لو بھئی، اپنی جان ساتھ نہیں دیتی۔ تمہارا کام ہے، کرو۔ میں چلا اپنے کمرے میں! یہاں رہوں گا تو تمہیں ٹوکتا رہوں گا۔ تب ابو کا زیادہ وقت گھر سے باہر گزرا کرتا تھا۔ امی کی وفات کے بعد پورا پورا دن گھر میں پڑے رہتے۔ کوئی ملنے کو آ گیا تو آ گیا، اپنا کہیں آنا جانا ”بہت ضروری“ تک محدود ہو گیا۔ اپنے کمرے سے بھی حسبِ ضرورت نکلا کرتے، اور جب نکلتے تو ان کی آنکھیں اور ناک سرخ ہوتیں اور چہرے پر سجی مسکراہٹ میں تصنع جھلکتا۔ کوئی پوچھتا تو زکام کا بہانہ کر دیتے۔ وہ طنطنہ جو اُن کے لہجے کا خاصہ ہوا کرتا تھا، جاتا رہا۔ تاہم مزاج میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی۔

          بات ہو رہی تھی اس عیدالاضحی کی۔ ہفتہ پہلے خالدی (بیٹے) کو پچاس ہزار دے دئے، اور کہہ دیا اچھا جانور لے کر آنا ہے۔ ایک بکرا آتا ہے تو ایک لے آؤ، دو آتے ہیں تو دو لے آؤ۔ خالدی صاحب، سارا دن گزار کر خالی لوٹ آئے، اگلے دن پھر لوٹ آئے کہ منڈی قابو میں نہیں ہے۔کہا: ”کل پھر جاؤ، پیسے اور چاہئیں تو لے جاؤ، کوئی جانور لاؤ، نہیں ملتا تو یہاں کسی کے ساتھ گائے وغیرہ میں شامل ہو جاؤ، وقت ضائع نہ کرو“۔ پھر بجھے ہوئے لہجے میں بولے: ”پانچ دن میں کوئی کیا سیوا کر لے گا، جانور دیکھ کر لانا یار، بیمار وغیرہ نہ ہو۔ ایک دو مہینے ہوں تو دوا دارو بھی ہو جاتا ہے، پانچ دن میں تو کچھ نہیں ہو سکتا“۔

          خالدی صاحب غروبِ آفتاب کے بعد پلٹے۔ کسی بکرے کا بھاؤ نہیں بنا تھا، سو وہ ایک بچھڑا لے آئے۔ بچھڑا مناسب ہی تھا۔ ایک رات تو اسے پڑوس میں دودھ والوں کے ہاں باندھا، اگلے دن فیصلہ ہوا کہ جب اپنے صحن میں کچی جگہ بھی ہے، درخت بھی ہیں، دھوپ بھی ہے سایہ بھی ہے تو پڑوسیوں کے ہاں باندھنے کی کیا ضرورت ہے، اسے گھر پر ہی رکھا جائے۔چھوٹے بچوں کی تو گویا اسی دن عید ہو گئی۔ اڑوس پڑوس سے اپنے ہم عمر بچوں کو لا رہے ہیں، دکھا رہے ہیں، ہم اس کو عید پر ذبح کریں گے؛ وغیرہ وغیرہ۔ سب سے چھوٹی ڈھائی برس کی عیشہ جانوروں کے قریب نہیں جاتی، دور سے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ اس کی لغت میں بکرا بھی ”میں“ ہے اور بچھڑا بھی ”میں“ ہے۔ دو دن بعد دو بکرے بھی آ گئے، ایک اپنے لئے اور ایک اپنے عزیزوں کا۔ بکرا اکیلا ہو تو شور بہت مچاتا ہے، دو ہوں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر چپ رہتے ہیں۔ دانے چارے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ابو کے حکم نامے گھر کے سارے افراد (خالدی، اس کی بیوی، دوسرا بیٹا، بیٹی )کے لئے پھر سےجاری ہونے لگے۔ 

          عید کا دن آ گیا۔ مرد عورتیں عید کی نماز سے واپس ہوئے۔ تو پہلے عزیز میاں کا بکرا ذبح کیا گیا، پھر اپنا۔ گوشت تیارہو گیا تو گھر والوں کو حکم دیا کہ اس کو تقسیم کریں، پکائیں، محلے کے ان گھروں میں بھیج دیں جن کی قربانی نہیں ہے۔ دن کے دو بجے کے قریب بچھڑے کی باری آئی۔پڑوس میں ایک ساتھی کا گائے ذبح کرنے اور کھال اتارنے کا تجربہ کار، اپنے بھائی کے ساتھ آ گیا تو جانور کو رسیوں وغیرہ سے باندھ کر گرایا گیا۔ چھوٹے بچے، اپنے بھی اور کچھ پڑوسیوں کے بھی، جمع تھے اور ابو اُن سب کو لے کر برآمدے میں چارپائی پر بیٹھے تھے۔ بچے معصومانہ سوال کرتے، ابو کا جواب دیتے اور ہر آدھے منٹ بعد بچوں کو یاد دلاتے کہ جانور کے قریب نہیں جانا، چوٹ بھی لگ سکتی ہے؛ وغیرہ۔

          خالدی صاحب نے بچھڑے کا سر مضبوطی سے پکڑ کر زمین سے چپکایا ہوا تھا، کہنے لگا: ”ابو، وہ ذبح والی چھری دیجئے ذرا“۔ ابو اٹھے خالدی چھری پکڑائی اور چارپائی پر آ گئے۔ انہوں نے دیکھا عیشہ ایک دم پریشان ہو گئی اور اس کا چہرہ دھواں دھواں ہوگیا، اس نے منہ بسورا اور پھر رونے لگی: ”نہیں نہیں نہیں“!۔ تب تک بچھڑے کی گردن پر چھری پھر چکی تھی۔بچی ایک دم دھاڑیں مار کر رونے لگی: ”میں کاٹ دی، میری میں کاٹ دی“۔ اس کا رونا خون دیکھ کر یا ڈر کی وجہ سے نہیں تھا، بچھڑے سے لگاؤ کی وجہ سے تھا۔وہ یوں بلک بلک کر رو رہی تھی کہ اس کا درد صرف محسوس کیا جا سکتا تھا، بیان نہ ہو پاتا۔ ابو اسے اٹھا کر اند لے گئے، وہ ہچکیوں میں کہہ رہی تھی : ”پھوپھو! بابا میں کاٹ دی! ماما! بابا میں کاٹ دی“۔ ”بیٹا! وہ تو ہم لائے ہی کاٹنے کے لئے تھے! میں اللہ کےپاس گئی“ مگر بچی تھی کہ روئے جا رہی تھی: ”بابا، میں کاٹ دی۔ بابا اچھے نہیں“۔ ابو سے زیادہ شاید ہی کوئی اس بچی کا مزاج آشنا ہو گا۔ وہ شدید بے چینی کے عالم میں کبھی برآمدے میں چلے جاتے کبھی اپنے کمرے میں۔ بچی کا کرب ان کے چہرے پر عیاں تھا؛ پھر انہوں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ بچی رو رہی تھی، اسے کوئی کھلونا دیتے تو پھینک دیتی، ماں بلاتی تو کہتی : میں بولتی نہیں۔ خالدی صاحب اندر آئے عیشہ کو مخاطب کیا تو کہنے لگی: ”میں بولتی نہیں، بابا اچھے نہیں، میں کاٹ دی“۔ بڑوں کے پیار، چمکار کے اثر سے کوئی گھنٹہ بھربعد بچی پر سکون ہو گئی اور پھر سو گئی۔ ابو کمرے سے باہر نکلے تو سب نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ اے کاش ہماری میں  بھی کسی طور کاٹی جا سکے! قربانی تو اُس کی ہے جس نے یہ میں کاٹ دی۔


تحریر: محمد یعقوب آسیؔ
ہفتہ      25 اگست 2018ء
  



ہفتہ، 28 جولائی، 2018

تائے فارسی، دالِ فارسی





فارسی کے علماء سے ایک طالب علمانہ استفسار
تائے فارسی، دالِ فارسی




فارسی مصادر میں،جہاں علامتِ مصدر ”تن“ سے پہلے دو حرف ساکن واقع ہوتے ہیں، فعل ماضی کا پہلا صیغہ (مثال کے طور پر): فروختن سے فروخت، اندوختن سے اندوخت، شناختن سے شناخت، آویختن سے آویخت، کاشتن سے کاشت، تافتن سے تافت، برخاستن سے برخاست، گزاشتن سے گزاشت ؛ و علیٰ ہٰذا القیاس؛ ان کے آخر میں تین ساکن حروف ہیں؛ پہلا حرفِ علت (ا، و، ی) دوسراحرف (ف، س، ش، خ) تیسرا حرف (ت): فروخت، اندوخت، شناخت، آویخت، کاشت، تافت، گزاشت ۔ یہ صورتیں اردو میں بھی عام مستعمل ہیں اور ان میں کبھی کوئی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوا، نہ شعر میں نہ نثر میں۔ شعر میں اتنا ہوا کہ تیسرا ساکن حرف ت تقطیع سے گر گیا۔ میں نے اپنی سہولت کے لئے اس کو تائے فارسی کا نام دے لیا ہے۔

گزاشتن اور گزشتن کے ہجوں پر دو رائیں پائی جاتی ہیں۔ اول یہ کہ ان میں ”ذال“ ہے نہ کہ ”زے“۔ اقبال نے گذشت، گذر وغیرہ لکھا ہے؛ اردو میں ”پذیرائی“ معرف ہے اور یہ کہ اس کا مصدر ”پذیرفتن“ ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ فارسی میں ذال (حرفِ ہجاء) سرے سے موجود ہی نہیں؛ کوئی کلمہ کہاں سے بنے گا! علمائے فارسی یہ بھی کہتے ہیں کہ گذاشتن (مضارع: گذارَد) کا معنی ہے: ترک کر دینا، چھوڑ دینا، گزر جانا، ماضی کا حصہ بن جانا؛ مثلاً بگزار (چھوڑ دے) بگزر (نکل جا)، گزشت، گزشتہ، گزارہ، گزران۔ہمارے ہاں مصدر گزاشتن (مضارع: گزارد) سے ایک متوازی معنی ”پیش کرنا، ادا کرنا“ بھی لیا جاتا ہے جیسے: عبادت گزار، تہجد گزار، گزارش (بمعنی درخواست)، عرض گزار۔ ایک بحث میں ایک صاحب کا کہنا یہ بھی تھا کہ نماز گزار (نماز کا تارک) ہے اور نماز گذار (پکا نمازی) ہے۔ اس طرح تو بات خاصی الجھ جاتی ہے۔

اہلِ قواعد کا کہنا یہ بھی ہے کہ عبادت گذار، گذارش کا اصل مصدر گذاشتن نہیں گذاردن ہے؛ بمعنی پیش کرنا (مضارِع: گُذارَد)۔ دورانِ مطالعہ ایک مصدر گُزِیردَن (چارہ کرنا، کوشش کرنا گزارہ کرنا) نظر سے گزرا (مضارع: گُزِیرَد)، (گزیر: جس سے نکلا جا سکے، جس کے بغیر کام چل جائے)؛ اس سے ترکیب نافیہ ”ناگزیر “ اردو میں بہت معروف ہے معنی: جس کے بغیر گزارہ نہ ہو۔

یہاں مجھ جیسے کم علم کو یہاں (ذال، زے سے قطع نظر) ایک نیا مسئلہ درپیش ہے۔ یہ تو ویسی ہی صورت بن گئی جیسے شروع میں پیش کئے گئے مصادر کے ساتھ ہے: تیسرا ساکن ”ت“، جسے اس فقیر نے اپنی سہولت کے لئے تائے فارسی کہہ لیا۔ اِن دونوں مصادر میں فعل ماضی کیا ہیں؟ قاعدے کے مطابق: گزاردن سے گزارد (ا، ر، د: تینوں ساکن)؟ اور گزیردن سے گزیرد (ی، ر، د: تینوں ساکن)؟ ۔ تو کیا تائے فارسی سے ملتا جلتا کوئی ”دالِ فارسی“ بھی موجود یا ممکن ہے؟ یا ماضی میں کبھی موجود رہا ہو، پھر متروک ہو گیا؟

اس گزارش کے ساتھ کہ ممکن ہے میں ایک سے زیادہ مغالطوں کا شکار ہوں؛ اہلِ علم سے ہمدردانہ راہنمائی کا طالب ہوں۔

فقط: محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
ہفتہ 28 جولائی 2018ء