تھا
وہ اک یعقوب آسی
حرف اللہ کریم کا بہت ہی خاص کرم ہے وہ جسے نواز دے اور عظیم ذمہ داری بھی ہے
جسے وہ شعور اور اہلیت عطا فرمائے۔ این سعادت بہ زورِ بازو نیست۔ میرا تجربہ بھی
ہے اور مشاہدہ بھی جو اِس ذمہ داری کو سنجیدگی اور دیانت سے نبھانے کی سعی کرتا ہے
اللہ کریم اس کو توقیر سے بھی نوازتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’پڑھئے اور آپ
کا رب سب سے زیادہ اِکرام والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا‘‘۔ بہت پہلے،
بہت پہلے، کہ اس وقت کا علم اللہ ہی کو ہے،
قلم کو حکم ہوا کہ لکھ؛ وہ لکھتا رہا، لکھتا رہا یہاں تک کہ لکھنے کے حکم
کی تعمیل ہو گئی۔ پھر روشنائی خشک ہو گئی یعنی جو کچھ لکھا گیا پکا ہو گیا ۔
احباب جانتے ہیں کہ حرف سے میرا تعلق سنِ شعور سے پہلے قائم ہو چکا تھا۔ سکول
کے زمانے میں اور اس کے ایک عرصہ بعد تک کچھ غیر سنجیدہ قسم کی کوششیں بھی کیں، جو
ظاہر ہے اس قابل نہ تھیں کہ ان کو سنبھال کر رکھا جاتا۔ ہاں بیچ میں دو تین کاوشیں
جو اس وقت کے معروف ادبی پرچوں میں شائع ہو گئیں وہ محفوظ ہو گئیں۔ بقیہ کئی نسیاً
منسیاً ہو گئیں اورکچھ کہیں ڈائریوں میں
لکھی رکھی ہیں۔ جہاں کہیں ’’ایاز قدرِ خود
را بشناس‘‘ کی ضرورت محسوس ہو، اُن کو نکال کر پڑھنے لگتا ہوں کہ وہ ایسا
پرانا آئینہ ہیں جس کا زنگار اترنے والا
نہیں۔ساہی وال میں ملازمت کے چار سال کے دوران چند ایک ادیبوں سے شناسائی ہوئی
ضرور مگر انہوں نے میری ان تحریروں کو غور
سے دیکھا بھی نہیں کہ وہ شاید اسی قابل رہی ہوں۔ جو کچھ بھی ہیں، وہ کاوشیں میرے
تو آئینے ہیں، ٹوٹ بھی جائیں تو کیا ہے، آئینے ہی رہیں گے۔ پتھر بھی تو پتھر رہتا
ہے چاہے کرچی کرچی ہو جائے۔
ہم نے انا کے بت کو
توڑا بھی پر اس کو کیا کہئے
ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھی
پتھر تو پتھر رہتا ہے
کرچی کرچی ہونے کا
دکھ اپنی جگہ
پتھر جو برسے کس سے
منسوب کروں
خار زارِ حرف میں باضابطہ طور پر
اترنے کا سانحہ تو بہت بعد کا ہے، وہ بھی اپنی ایک خارج از وزن غزل نما اور ایک
تازہ شعر کے ساتھ۔ ویسے واقعہ ہے دل چسپ ،
سو آپ بھی شامل ہوجئے۔ یہاں ٹیکسلا میں مئی 1984 میں حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کی
داغ بیل ڈالی گئی۔ مقبول کاوش مرحوم (شعری مجموعہ ’’گلاب زخموں کے‘‘ ) صدر بنے۔
اُسی برس ستمبر اکتوبر کی بات ہے، ایک صاحب (مبشر احمد خورشید) نے مجھ سے رابطہ
کیا اور حلقے کے اجلاسوں میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ اگلے ہی بدھ کو اُن کے بتائے
ہوئے وقت پر مقررہ مقام (ایچ ایف ایف بوائز سکول) پر پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہیں
تھا۔ ڈیوٹی پر موجود سیکیورٹی گارڈ نے بتایا کہ وہ لوگ تو غروبِ آفتاب کے بعد آئیں
گے اور پھر تا دیر بیٹھیں گے۔ وقت گزاری کے لئے ایک چائے خانے میں جا بیٹھا، وہاں
سے اٹھا تو دیکھا کہ قریب ہی ایک کھلے میدان میں کوئی جلسہ ہو رہا ہے۔ شاید لوکل
کونسلوں کے انتخابات تھے، شامیانے کے نیچے چالیس پچاس کرسیاں رکھی تھیں جن پر
پندرہ بیس لوگ بیٹھے تھے اور ایک لیڈر صاحب تقریر فرما رہے تھے۔ کچھ دیر تک بیٹھا
اُن صاحب کے ناقابلِ عمل وعدوں اور ناقابلِ یقین دعووں کو سنتا رہا۔ اور اس عالم
میں ایک شعر سرزد ہو گیا، جو آج تک فرد ہے:
میرا لہو مجھی کو
بیچا، مجھ سے دام بٹور لئے
واہ رے لاشوں کے
بیوپاری، مجھ کو بیچا میرے ہاتھ
سکول پہنچا تو کچھ لوگ موجود تھے، سب اجنبی چہرے؛ ایک چہرہ البتہ جانا پہچانا
تھا؛ وہی اختر شادؔ، جن کا ذکر ’’مجھے اک نظم کہنی تھی‘‘ کے دیباچے میں آ چکا ہے۔ میری
ان کی اولین ملاقات 1979 میں ہوئی تھی، وہ بھی غمِ نانِ جویں سے نبرد آزمائی کے
سلسلے میں۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ صاحب شاعری بھی کرتے ہیں۔ اُس دن کے اجلاس کی
نظامت بھی انہوں نے کی اور پتہ نہیں کس بنیاد پر انہوں نے مجھے صدارت کی کرسی پر
بٹھا دیا۔ اجلاس شروع ہوا، حاضر شعرائے کرام کلام سناتے گئے اور میں خود کو کہیں
گہرائی میں اترتا محسوس کرتا رہا۔ صدرِ اجلاس ہونے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مجھے
سننے اور سوچنے کو تھوڑا سا وقت میسر آ گیا۔ میری باری آئی تو ۔۔ کچھ نہ پوچھئے!سوچا
کچھ بات کرتے ہیں اس سے سنبھالا ملے گا۔ کہنا چاہا کہ اتنے سینئر شعراء میں صدارت
کی کرسی پر ایک نوآموز ۔۔ منہ سے ’’نو آمیز‘‘ نکلا۔ اس دوران اپنی اس ’’شاہکار غزل‘‘ کو میں پہلے ہی
(اس کے مضامین کی یکسانیت کی بنا پر) نظم تسلیم کرکے اسے ایک عنوان بھی دے چکا
تھا: ’’ابنِ آدم‘‘، مگر اشعار جیسے تھے
ویسے ہی پیش کرنے پڑے۔احباب کے چیں بہ
جبیں ہونے کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی تھی کہ موصوف (یعنی ہم) ۱۹۷۲ سے شاعری
فرما رہے ہیں اور بارہ سال کے عرصے میں اوزان کا ادراک نہیں کر پائے۔ انہیں کیا
معلوم کہ وہ بارہ برس کیسے تھے! ’’بارھیں برسیں کھٹن گیا تے کھٹ کے لیاندا ٹھُوٹھا‘‘۔
بہر حال اس ایک تازہ شعر نے بھرم رکھ لیا کہ آسیؔ جی اگرچہ ابھی تک وزن سے خارج شاعری فرماتے ہیں
تاہم ان میں صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس اعتبار سے حلقے میں میری پہلی حاضری ہی مجھے
خود تنقیدی کی راہ پر ڈال گئی۔
حلقے کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے جانے لگا، کچھ نیا لکھنے کہنے کا موقع بھی
ملا، کچھ وزن میں اور کچھ ’’خلائی‘‘ شاعری، تاہم ہوتے ہوتے اوزان کا ادراک بہتر ہوتا
گیا۔ معمول کی ادبی محفل کے بعد ایچ ایم سی مارکیٹ میں واقع عباسی ہوٹل میں چائے
کی پیالی پر غیر رسمی نشست ہوا کرتی، ان نشستوں میں بہت کچھ سیکھا۔ اس وقت میرے
سینئرز میں اختر شاد اور مقبول کاوش کے علاوہ رؤف امیر، صدیق ثانی، اور واہ سے
تعلق رکھنے والے کئی دوست تھے۔ پھر ایک مرحلے پر مجھے حلقے کا سکریٹری بنا دیا گیا
، روداد نویسی تو ظاہر ہے کرنی ہی تھی۔ ہر بدھ کو مجھے گزشتہ اجلاس کی روداد پیش
کرنی ہوتی، اس میں غلطیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی جاتی۔ حلقے میں اس وقت تک
باضابطہ تنقیدی نشستوں کا رواج نہیں تھا مگر میری لکھی ہوئی روداد پر بہر حال
تنقیدی انداز کی گفتگو ہوا کرتی۔ بھائی لوگوں کے اعتراضات اور نکتہ آفرینیوں سے
بچنے کے لئے میں ہر بار کوشش کرتا کہ روداد پچھلے ہفتے سے بہتر ہو۔
کچھ احوال ان بارہ برسوں کا تو پہلے بیان ہو چکا۔ قومی شناختی کارڈ کے محکمے
کی کلرکی سے میرے بہت سارے افکار تو رفع ہوئے کہ ہر مہینے لگی بندھی تنخواہ مل
جاتی تھی۔ گھر میں اماں تھیں، عائشہ تھی اور دونوں بڑی بیٹیاں جن کے لئے کچھ ڈھنگ
سُر کی ہنڈیا پک جاتی تھی۔ میں نے ساہی وال میں ایک چھَڑا ہاؤس میں شمولیت اختیار
کر لی تھی اور ہفتہ وار چھٹی پر گھر جایا
کرتا۔
چھڑا ہاؤس عرفِ عام میں اس جگہ کو کہا جاتا تھا جو مختلف اداروں کے کچھ ملازم
مل کر کرائے پر لے لیتے۔ ایسی جگہوں پر کوئی اپنے بیوی بچوں کو ساتھ رکھنے سے تو
رہا، سو، وہاں کنوارے بیاہے سب چھڑے (تنہا) ہوتے۔ اپنے اولین و آخرین چھڑا ہاؤس سے
بہت دل چسپ اور رنگا رنگ یادیں بھی وابستہ ہیں اور زندگی کے ایسے تجربات بھی جو
کسی بیت المجردین ہی میں ہو سکتے ہیں۔ 191۔زیڈ، فرید ٹاؤن ساہی وال چار کمروں اور
دو کمریوں کے علاوہ ایک کھلے صحن اور اس کے کونے میں واقع واحد واش روم پر مشتمل تھا۔ کرایہ کا تناسب
کمروں اور شراکت داروں کے حساب سے متعین تھا جس میں کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں
ہوا۔ گیس تھی نہیں، بلی کا بل سارے برابر برابر ادا کرتے۔ مالک مکان ایک بزرگ آدمی
تھے جو ماہ بہ ماہ صرف کرایہ اور بل وصول کرنے آیا کرتے تھے۔ کچھ لوگ اپنا کھانا خود پکاتے تھے، کچھ ہوٹل سے
کھاتے اور دو بابو ایسے تھے جو کھانے کے لئے ایک اور چھڑا ہاؤس جایا کرتے کہ وہاں
ان کے دفتروں کے ساتھی رہتے تھے۔
یہاں میرا ہانڈی وال (کھانے کا ساتھی) دیپال پور کے ایک نواحی گاؤں ’’جسو کے
دھَون‘‘ کا رہنے والا، میرے دفتر کا ایک ساتھی حشمت جاوید بھٹی تھا۔ وہ چپاتیاں
اچھی بنا لیتا تھا اور میں سالن اچھا پکا لیتا؛ سو اندھے اور لنگڑے کی سی بن آئی
تھی۔ حشمت ایک خوش طبع شخص تھا، ادب سے کچھ کچھ لگاؤ اسے بھی تھا، مگروہ صرف پڑھتا
تھا، لکھتا نہیں تھا اور میں الٹی سیدھی سطریں لکھ کر بالجبر اس کے کانوں میں
انڈیلا کرتا اور وہ حسرت زدہ ادا سے کہا کرتا: ’’اے کاش میں تجھ سے اس ظلم کا بدلہ
لے سکتا۔ اچھا، آج روٹی کچی کھلاؤں گا، جیسے تیرے شعر کچے ہیں!‘‘ دوسرے اس نے بی
اے کر رکھا تھا اور مجھ سے دو سکیل سینئر تھا۔ اس کے والد شیر محمد بھٹی زمیندار
تھے اور پولیس سے تھانے دار ریٹائر ہوئے تھے۔ حشمت کبھی کبھی کہہ بھی دیتا کہ :
’’ابا جی جب سے ریٹائر ہوئے ہیں، ہمارا گھر تھانہ بنا ہوا ہے‘‘۔ میں نے پوچھا:
’’یار، ابا تیرا زمیندار، تھانیدار، اور تو یہاں اپنے ہاتھ جلا کر روٹی پکاتا
ہے‘‘۔ بولا: ’’تجھے سچی بات بتاؤں، میں
گھر پر بھی پڑا رہ سکتا ہوں ، مگر میں رہ نہیں سکتا! میں تو پہلے ہی خاصا نکما ہوں
اور زنگ لگ جائے گا۔ اور یار شادی بھی تو کرنی ہے! اگلے پوچھتے ہیں کہ لڑکا کرتا
کیا ہے‘‘۔ اس پر یا ایسے ہی کسی غیر اہم موضوع پر بھی ہماری نوک جھونک چل نکلتی تو
گھنٹوں تک چلتی۔ اس نے میرا نام ہی ’’مسٹر بحثیئر‘‘ رکھ دیا تھا۔ شام کو کھانا
وغیرہ کھا کر ہم فرید ٹاؤن والی بڑی سڑک سے ہوتے ہوئے گورنمنٹ کالج کے وسیع و عریض
لان ناپا کرتے اور تھک جاتے تو واپس آ جاتے۔ بعد ازاں محکمے نے اوکاڑا میں دفتر
کھولا تو حشمت جاوید کی بھی ادھر ٹرانسفر ہو گئی۔ ایک بار اس کے نئے دفتر میں
ملاقات ہوئی بس، پھر خبر ملی کہ اس نے 25 سال نوکری کر کے ریٹائرمنٹ لے لی اور
گاؤں چھوڑ کر لاہور شہر میں جا بسا۔
یہ تو خبر ہے، کہ آپ کبھی بے وزن شاعری بھی کرتے رہے ہیں ــــــــــــــــــ شاید اُس وقت آپ کا وزن ویسے کم ہو گا ــــــــــ اس لیے :)
جواب دیںحذف کریںبہت خوب سلسلہ جاری ہے سرــــــــــــــ