جمعرات، 9 جولائی، 2015

کتا مر گیا ۔۔



 
کتا مر گیا

وڈیرا سائیں دو تین سال جاگیر سے باہر رہ کر واپس آئے۔ اُن کے دیرینہ خادم’’ مرادُو‘‘ نے جاگیر کے باہر زمینوں میں اُن کا استقبال کیا، وڈیرا سائیں نے پوچھا: ’’سنا، مرادُو! جاگیر پر کیسا ہے سب کچھ؟‘‘
’’سب ٹھیک ہے سرکار۔ سب کچھ ٹھیک ہے، بس آپ کا کتا  مر گیا ہے۔‘‘
’’ڈبو مر گیا؟ اس کو کیا ہوا تھا، مرادُو؟‘‘
’’کچھ بھی تو نہیں ہوا، سائیں!اُس کے گلے میں ہڈی پھنس گئی تھی‘‘
’’ہڈی؟ کیسی ہڈی؟‘‘
’’وہ آپ کی ڈاچی کی ہڈی پھنس گئی تھی اُس بے زبان کے گلے میں۔‘‘
’’میری ڈاچی مر گئی کیا؟ اُسے کیا ہوا تھا، نامرادا!‘‘
’’اینٹیں ڈھوتے ڈھوتے مر گئی، سائیں! ہوا تو کچھ بھی نہیں‘‘
وڈیرا سائیں تقریباً چیخ کر بولے: ’’اوئے مرادُو، نامرادا! اینٹیں کون ڈھوتا رہا، کہاں ڈھوتا رہا، کیوں ڈھوتا رہا؟‘‘
’’مقبرہ بنانا تھا سائیں!‘‘
’’مقبرہ؟ کس کا مقبرہ بد بخت مرادُو؟ کون ایسا مر گیا جس کا مقبرہ بنانے کو تو نے میری ڈاچی مار ڈالی؟‘‘
’’کیا کرتا سائیں، یہ مرادُو غریب! بڑی سائین کو اللہ سائیں نے جو بلا لیا تھا!‘‘
’’بڑی سائین؟‘‘ وڈیرہ سائیں تقریباً دھاڑ کر بولے۔ ’’اماں مر گئی، کیا؟‘‘
’’ہاں سائیں، اللہ سائیں کو ایسا ہی منظور تھا، سائیں!‘‘
وڈیرا سائیں ماں کی وفات کا سن کر تقریباً رو دئے: ’’کچھ بتا بے مرادیا! میری ماں کیسے مر گئی!!!‘‘
’’حوصلہ کریں سائیں، ہوا تو کچھ نہیں تھا بڑی سائین کو، بھلی چنگی تھیں، رات کو سوئیں تو سویرے اٹھنا نصیب نہ ہوا، بلاوا جو آ گیا تھا، سرکار!‘‘
’’مجھے صاف سیدھا بتا اماں کو ہوا کیا تھا، تو کہاں مرا ہوا تھا‘‘
’’مرادُو غریب تو اپنی کھولی میں تھا سائیں، سویرے جو حویلی میں گیا تو دیکھا سنا‘‘
’’کچھ بک بھی آگے، کہ کہانی گھڑتا رہے گا! اماں مری کیسے، دوا دارو کرنے والے بھی سب مر گئے تھے؟ ‘‘
’’کوئی کچھ نہیں کر سکتا تھا سائیں‘‘ مرادُو روتے ہوئے بولا: ’’ رات کو حویلی گر گئی، اور بڑی سائین ملبے تلے دب گئیں‘‘
وڈیرا سائیں کی نیچے کی سانس نیچے اور اوپر کی اوپر رہ گئی۔ تؤقف کے بعد بولے: ’’اچھا، پھر؟‘‘
’’پھر، سرکار! آپ کے نمک خواروں نے ملبہ ہٹایا تو بڑی سائین کی سانسیں پوری ہو چکی تھیں‘‘
’’اور؟ کچھ رہ گیا ہے تو وہ بھی بتا دے، بدبختا!‘‘
’’کچھ بھی نہیں سائیں، دل بہت دکھا ہوا ہے اِس غریبڑے مرادُو کا‘‘
’’تیرا دل؟ کیا ہوا تیرے دل کو؟ کالی زبان والے!‘‘
’’کچھ بھی تو نہیں ہوا سائیں! بس آپ کا کتا مر گیا‘‘
’’تجھے کتے کے مرنے کا بہت دکھ ہوا ہے؟‘‘
’’ہاں سائیں!  دکھ تو اپنے جیسوں کا ہوتا ہے سرکار‘‘
اور ۔۔۔ وڈیرا سائیں حیرت سے مرادُو کا منہ دیکھتے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔

17 جون 2013ء

یہ افسانہ جناب عابد علی بیگ کی آواز میں : ریڈیو پروگرام "ہانگ کانگ کی شام" سے۔


2 تبصرے:

  1. اہنے جیسوں کے مرنے کا دکھ تو ہوتا ہے


    زبردست

    کہانی جہاں سے شروع ہوئ وہیں ختم ہو جاتی ہے ...... بہت خوبصورت ...

    جواب دیںحذف کریں
  2. حوصلہ افزائی پر ممنون ہوں۔
    مرادو جیسے غریبڑوں کی کہانی ہوتی ہی اتنی سی ہے۔ وہ اپنے جیسوں کے دکھ میں مر جاتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں