جمعرات، 23 جولائی، 2015

قرآنِ کریم ۔ ایک زندہء جاوید معجزہ

قرآنِ کریم ۔ ایک زندہء جاوید معجزہ

اللہ کریم کا ارشاد ہے ۔ "انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحٰفظون"۔
بے شک یہ ذکر (قرآن) خود ہم نے بہ تدریج نازل کیا ہے ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برمنگھم یونیورسٹی سے دریافت ہونے والا قرآن شریف کا نسخہ 22 جولائی 2015ء خبروں میں نمایاں ہے۔ ان لوگوں کی تحقیق کے مطابق یہ نسخہ 1370 برس پرانا ہے۔ یعنی اندازاً 645 عیسوی کا۔
کیلنڈروں کے موازنے اور تاریخ کے اوراق سے اس فقیر نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ نسخہ سال 24ھ یا 25ھ (645ء) کا ہے یعنی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور کا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت 23 تا 35 ہجری (بمطابق 644 تا 656 عیسوی) ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 تصاویر میں دکھایا گیا حصہ (اس تحریر کے آخر میں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
طاق صفحہ
شروع صفحہ میں سورہ مریم کا آخری حصہ ہے۔ 
أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا [19:91]
۔۔۔۔ سے لے کر ۔۔۔۔۔
وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا [19:98]
اس کے بعد لہرئیے دار لکیریں اور بسم اللہ شریف ہے۔ پھر سورۃ طٰہٰ کی پہلی 12 آیات ہیں۔ شروع سورۃ سے یہاں تک ۔۔۔۔
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى [20:12]
سامنے کا (جفت) صفحہ سورۃ الکہف کا ہے۔
آیت نمبر 23 کا آخری حصہ نہیں پڑھا جا رہا۔ وہ جگہ بھُر گئی ہے
إِلَّا أَن يَشَاء اللَّهُ وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَى أَن يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَذَا رَشَدًا [18:24]
۔۔۔۔ سے لے کر ۔۔۔۔۔
أُوْلَئِكَ لَهُمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَهَبٍ وَيَلْبَسُونَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّن سُندُسٍ وَإِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِئِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرَائِكِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا [18:31]
تاہم آیت نمبر 31 پوری نہیں پڑھی جا رہی۔ متعدد جگہ بھی بھُر گئی ہے۔

اس فقیر نے قرآن شریف متعلقہ صفحات (آج کی لکھائی میں) منسلک کر دئیے ہیں۔
۔۔۔۔ و ما توفیقی الا باللہ۔


For the convenience of my Non-Urdu Friends:

THE EVERLASTING HOLY MESSAGE OF ALLAH

The scripture of the Holy Quran discovered at Birmingham University is in leading news since 22nd July 2015. They say it is 1370 years old scripture (pertains to 645AD approximately), claimed to the oldest one discovered so far. 
After consulting the history and comparing the calendars, I conclude that this scripture pertains to year 24AH or 25AH (645AD) viz. the Caliphate of Hazrat Usman bin Affan RAA (that was 23AH to 35AH – 644AD to 656AD). Keeping in view the modern imprint of the Holy Quran and the said scripture face to face, one can easily observe that:
(a) ODD page of the frame in front of eye contains the following Quranic Text:
Surah Maryam –Verse 91 to Verse 98 (end of the Chapter) 
Surah Ta-Ha – Verse 01 (start) to Verse 12
The waved lines indicate the start of the new Chapter.
(b) EVEN page – fronting (a) - is from Surah Kahf (The Cave) Verse 24 to Verse 31 
A part of Verse 23 and also a part of Verse 31 are illegible (damaged sheet) yet they can be safely pointed out.
The text of the Verses referred to in the preceding notes is added in Urdu description. The Pictures are also added for clearer reading and instant referencing.
Pray thanks to Almighty ALLAH. 





پس نوشت ۔ 25 جولائی 2015ء : (فیس بک سے)

جناب فلک شیر، جناب سید متین احمد ۔۔۔ 
نقل از: سید فضل الرحمٰن محمود (بہ حوالہ : مولانا سلمان ندیم)
برمنھگم یونی ورسٹی کے قرآنی مخطوط پر چند تحفظات :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے ایک حالیہ اعلامیے میں برطانیہ کی برمنگهم یونیورسٹی کی جانب سے انکی لائبریری میں سو سال سے موجود ایک مخطوطے کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم کا قدیم ترین نسخہ ہوسکتا ہے لیکن اس نسخے کی جو تصویر اور ویڈیو منسلک ہے اس سے یہ خبر کلی طور سے مطابقت نہیں رکهتی جسکی مکمل تحقیق تو ماہرین فن ہی پیش کر سکتے ہیں تاہم فی الوقت چند طالبعلمانہ نکات پیش خدمت ہیں .
1- اس نسخے میں نقطے موجود ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق عہد عثمانی کے آخر تک قرآنی رسم الخط میں نقطے نہیں تهے ،نقطوں کی ابتداء میری ناقص معلومات کے مطابق بظاہر حضرت معاویہ رضى الله عنه کے دور میں ذیاد بن ابیہ حاکم بصرہ کے حکم سے ابوالاسود الدؤلى نے کی یا عبدالملک بن مروان کے دور میں انکے شاگرد نصر بن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوانی نے کی لهذا یہ نسخہ بظاہر عهد نبوی سے بعد کا ہے جب رسم الخط قدرے ترقی کر چکا تها -
2- اس نسخے میں دو سورتوں کے درمیان نیز آیات کے درمیان فاصلہ بیان کرنے کیلئے سہ نقطی اور چهار نقطی علامات موجود ہیں جبکہ ابتدائی دور میں یہ طریقہ متداول نہیں تها ، نیز سرخ روشنائی کا استعمال برتا گیا ہے جوکہ قدیم طرز میں نہیں تها بلکہ دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کی ابتدا میں رائج ہوا
3- انکی ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ نسخہ عیسوی تقویم کے سن 568 سے سن 645 کے درمیان کا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایک قول کے مطابق 568 اور راجح قول کے مطابق 571 ہے اور نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی ہے تو وحی کی ابتدا 608 اور 611 کے درمیان ہوگی اور تئیس سال تک وحی نازل ہوتی رہی اس اعتبار سے مکمل نسخہ 631 اور 634 کے درمیان ہی وجود میں آسکتا ہے اس سے پہلے نہیں، جبکہ دیگر علامات سے اس کا کم از کم دوسری صدی کے اواخر کا ہونا ثابت ہوتا ہے
4- یہ رسم الخط توپ قاپی میں محفوظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نسخے سے ذیادہ ترقی یافتہ بهی ہے لهذا توپ قاپی میں محفوظ نسخہ قدیم تر ہے اور موجودہ رائج قرآن کے مطابق بهی اور حال ہی میں وہ نسخہ اب من وعن چهپ چکا ہے اور موجودہ رسم الخط کا صفحہ اس کے بالمقابل اس کے ساته چهاپا گیا ہے ،
ا 5- ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے اگر اس کی کهال کا زمانہ عهد نبوی فرض کر بهی لیا جائے تب بهی اس سے نسخے کا عهد نبوی میں تحریر کیا جانا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کہ قدیم کهال پر بعد کے زمانے میں تحریر کی گئی ہو جیسا کہ یہ طریقہ نادر نہیں ہے ،
6- قرآن کا واحد اور قدیم ترین نسخہ وہی ہے جو اہل علم کے سینوں میں روز اول سے تا قیامت عزیز وحکیم ذات کی تائید سے محفوظ ہے اور رہے گا .
7- اسلامی اصول تحقیق کی رو سے کوئی تحریر اس وقت تک معتبر قرار نہیں پاتی جب تک اس کے کاتب کا تعین نہ ہو اور وقت تحریر سے وقت دریافت تک ہر دور میں اس کی حفاظت کی یقینی تفصیل اس پر مذکور نہ ہو -
8- قرآن کا ثبوت تواتر کی یقینی اور قوی ترین قسم تواتر طبقہ سے ہے جو اپنی ابتدا سے تا قیامت نسل در نسل سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا لہذا ہر نئی تحریر اور مخطوطہ اپنے معتبر ہونے میں اس قرآن کی مطابقت کی محتاج ہے لیکن قرآن اپنے معتبر ہونے میں کسی مخطوطے کے مطابق ہونے کا محتاج نہیں .
ان امور کو مد نظر رکهتے ہوئے محض ان ماہرین کی تحقیق پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے درایت کے اصولوں کی کسوٹی پر بهی پرکهنا مطلوب ہے.
(از قلم : مولانا سلمان ندیم )



۔۔۔۔۔
اس فقیر کی گزارشات  ۔۔۔۔۔۔۔۔ 24 جولائی 2015ء  ۔
۔0۔ السلام علیکم جناب چیمہ صاحب۔
آج تقریباً سحری کے وقت کچھ گزارشات میں نے آپ کے ان باکس میں کی تھیں۔ مناسب ہو گا کہ ان کو یہاں نقل کر دیں۔ سینہ بہ سینہ والی بات میں صرف وہاں نہیں کئی اور مقامات پر بھی کی ہے۔
۔1۔ یہ بات طے ہے کہ ہمیں جب ہم نے اپنے اسلام کی گواہی دے دی تو ہمیں کسی مادی شہادتوں کی ضرورت نہیں۔ اللہ کریم ہمارے ایمان کو سلامتی عطا فرمائے۔ ایسی مادی شہادتوں کا ایک پہلو البتہ یہ ہے کہ معترضین کے بہت سارے اعتراضات از خود مر جاتے ہیں۔
۔2۔ جیسا مولانا صاحب نے رسوم الخط کے تجزیوں کے بعد فرمایا۔ اگر وہ درست فرما رہے ہیں تو پھر ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی غلطی ہے، جو کچھ ایسی بعید از قیاس بھی نہیں۔ اس کو درست کیا جا سکتا ہے۔
-3- پیرا 3 میں مولانا سے سنین کے حساب میں ایک فروگزاشت ہو گئی۔ قمری سال اوسطاً 355 دن کا ہوتا ہے اور شمسی سال اوسطاً 365 دن کا؛ مزید ہر 1 صدی شمسی (لیپ کے 25 سال) پر 25 دن قمری کیلنڈر کے اور گزر جاتے ہیں۔
۔4۔ اپریل 571ء سنِ ہجری کے اجرا سے تقریبا 52 قمری سال پہلے واقع ہوتی ہے، اور اپریل 611، سن ہجری سے 11 قمری سال پہلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش (معروف) اگر 11 اپریل 571ء ہے تو آپ کی عمر مبارک شمسی کیلنڈر کے مطابق آپ کی عمر مبارک اپریل 610ء میں چالیس سال ہوتی ہے کہ تب عرب میں تو قمری کیلنڈر رائج تھا۔ حسابات میں ایک سال کا فرق تو یہاں تک واقع ہو گیا۔ 2015 تک چلے آئیے۔ اور دیکھ لیجئے۔
۔5۔ میرا مدعا یہ ہرگز نہیں کہ آپ اس نسخے کی انہیں تاریخوں پر ایمان لائیں جو گوروں نے بتائی ہیں۔ یہ نسخہ سیدنا عثمان غنی کے دور کا نہ سہی، اموی دور کا سہی۔ اس میں غیر مسلموں کے لئے ایک ایسی مادی گواہی مل جاتی ہے جسے وہ خود بھی نظر انداز نہیں کر سکتے (ہٹ دھرمی اور بات ہے)۔ کہ قرآن شریف جیسا تب پڑھا اور لکھا جاتا تھا، ویسا ہی حرف بہ حرف اب بھی پڑھا جاتا ہے۔ رسم الخط وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتا چلا گیا، تو اس کو "فرق" قرار دینا جہالت ہے۔
۔6۔ بارِ دگر گزارش ہے کہ قرآن شریف کے اللہ کی کتاب ہونے پر میرا ایمان اور آپ کا ایمان اس حالیہ مادی گواہی سے مشروط نہیں تھا، نہ ہے۔ ایک مفید بات اگر سامنے آ گئی ہے تو اس کو رد کر دینا بھی تو ضروری نہیں۔
۔7۔ ایک اور رپورٹ میں ایک جملہ یہ بھی تھا:۔
" اس ٹیسٹ سے اس نسخے کے قدیم ہونے کا اندازے کے مطابق یہ 568 اور 645 کے درمیان کا نسخہ ہے۔ برمنگھم یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ اس تاریخ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے چند سال بعد کا نسخہ ہے۔ "
اس میں 568 تو خارچ از بحث ہے۔ کہ شمسی کیلنڈر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 571ء کی ہے۔ 645 وہی آتا ہے 24ھ سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت۔
۔8۔ ایک اور خبر دیکھئے ۔۔۔۔
"ماہرین کا کہنا ہے کہ برمنگھم یورنیورسٹی میں قدیم قرآنی نسخے کی دریافت کی وجہ سے قرآن کے الہامی کتاب ہونے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی کے پروگرام سیربین میں مہ پارہ صفدر نے برمنگھم کی مرکزی مسجد کے امام سید محمد طلحہ بخاری اور اسی مسجد کے منتظم محمد علی کے علاوہ اسلامک سڈیز کے محققین، کیمبریج یورنیورسٹی سےفارخ التحصیل علی خان محمودآباد، اور لاہور یورنیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسسز کے استاد ڈاکٹر علی عثمان قاسمی سے گفتگو کی۔"
میرا سوال یہ ہے کہ کون سی نئی بحث کا آغاز ہو سکتا ہے؟ اور میں نے تو ایک جگہ اس کے جواب میں لکھ دیا ہے:
ظاہر ہے، وہ مل کر سوچیں گے یا لوگوں کو سجھائیں گے کہ ۔۔
۔۔ "یارو! اتنی بڑی گواہی مل گئی ہے، کہ قرآن شریف آج بھی عین مین وہی ہے، کوئی نئی تشکیک ابھارو یار! نہیں تو یہ گواہی تو ہمیں (یہود و نصارٰی کو) لے بیٹھے گی" ۔۔
۔9۔ فاعبروا یا اولی الابصار 
۔۔۔۔ ہمارے علمائے کرام کو اپنا موجودہ اندازِ فکر و نظر بدلنا ہو گا۔
۔10۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کو خاص طور پر اور غیر مسلموں کو عام طور پر بتایا جائے کہ دیکھو! اللہ کریم کے کلام کے اصل ہونے کی مادی گواہی آج کس دور میں ہو رہی ہے! جب دنیا فساد گاہ بنی ہوئی ہے، اسلامی فکر پر ہر طرف سے یلغار ہو رہی ہے۔ مادی گواہیوں پر یقین رکھنے والے بھی جان لیں کہ سچ یہی ہے جو ساڑھے چودہ سو سال سے حرف بحرف دہرایا جا رہا ہے۔ اب شاید مزید مہلت نہیں ملے گی۔
۔11۔ یہ سارا کچھ ملحمۃ الکبرٰی کی خبر دے رہا ہے، جس میں اب کوئی دیر نہیں رہ گئی۔
۔12۔ چیمہ صاحب کے ان باکس میں میرا اظہارِ غم ۔۔
تہ نہیں اس کو اتفاق کہا جائے گا یا اللہ کی طرف سے اوراق کی ترتیب کچھ ایسی ہونی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو دو ورق اس وقت سامنے ہیں۔
پہلے صفحے پر سورہ کہف کا کچھ حصہ ہے۔ ہمیں تاکید کی گئی کہ جمعے کے دن سورہ کہف اہتماماً پڑھیں، یہ دجال سے بچاؤ کا سبب بنے گی (معنوی مباحث کسی اور موقع کے لئے رکھتے ہیں)۔
دوسرے صفحے پر سورہ مریم کی آخری آیات ہیں۔ نجاشی کے دربار کا منظر اور وہاں ہونے والا مکالمہ اور سورہ مریم کی تلاوت ایک عیسائی حکمران کا اس سے مکمل متفق ہونے کا اظہار۔
پھر سورہ طٰہٰ کی ابتدائی آیات جن میں اللہ کی قدرتِ کاملہ اور کائنات کی عظیم نشانیوں پر اللہ کے تسلط کا ذکر ہے۔ اور یہ کہ تم اعلانیہ کچھ کہو یا خفیہ وہ سب جانتا ہے۔ آگے ہدایتِ ربانی کا وہ مظہر کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو آگ دیکھ کر آئے تھے کہ میں آگ لے کر آتا ہوں، وہاں کوئی ہو گا تو اس سے راستہ پوچھوں گا۔ وہاں آپ کو نبوت کا منصب جلیلہ عطا ہو جاتا ہے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے؟ عیسائیوں، یہودیوں اور دجال کا ذکر ایک جگہ جمع ہو گیا؟ زمانہ کون سا جا رہا ہے؟ ان تینوں موضوعات کی اس وقت کی اہمیت ماضی سے کئی گنا زیادہ نہیں ہو گئی کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو سوچ رہا ہوں۔ کوئی ہے؟ جو اس سوچ میں میرا ساتھ دے؟
سورہ کہف کا جو حصہ اس وقت سامنے ہے، آئیے وقتی طور پر صرف اس کو دیکھتے ہیں۔
۔1۔ بھول چوک ہو جائے تو اللہ سے مدد طلب کیجئے۔
۔2۔ غار والے 309 برس تک سوتے رہے۔ اصل علم اللہ کے پاس ہے۔
۔3۔ اللہ کا کہا تبدیل نہیں ہوا کرتا۔ اس کے سوا جانا کہاں ہے
۔4۔ اللہ کی طرف دعوت دینے والوں کا ساتھ دیجئے۔ ظاہری مال و منال کو نہ دیکھئے۔ جس کو اللہ نے غفلت میں ڈال دیا اور جس نے مال و دولت کو سب کچھ جان لیا وہ حد سے نکل گیا۔
۔5۔ اللہ کی طرف سے حق آ چکا، جس کا جی چاہے مان لے جس کا نہ چاہے نہ مانے مگر یار دکھے کہ ان کو آگ گھیر لے گی۔ پینے کو کچھ ملے کا بھی تو اس سے منہ جھلس جائے گا۔
۔6۔ مسلمانوں کے نیک اعمال ضائع نہیں ہوں گے۔ ان کے لئے فلاں فلاں فلاں انعامات ہیں۔ اور کیسی پر راحت زندگی ملنے والی ہے۔

محمد یعقوب آسی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمسی سال اور قمری سال کے حساب میں بسا اوقات پڑھے لکھے دوست بھی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک مختصر سا تقابل چارٹ کی صورت میں منسلک کر رہا ہوں۔ امید ہے مفید ہو گا۔




بدھ، 22 جولائی، 2015

قاضی طاہر کے دَس سوال ۔ زبان کے حوالے سے

قاضی طاہر کے دَس سوال

*ایک* زبان ذریعہ اظہار ہے یا وجہ اظہار؟
سوال واضح نہیں ہے، تاہم میں اس کو ذریعۂ اظہار یا وسیلۂ اظہار سمجھتا ہوں اور یہ عمل انسانوں کے ساتھ خاص ہے (جنات اور ملائکہ اس وقت زیرِ بحث نہیں)۔ انسان کو یہ جو ’حیوانِ ناطق‘ کہا گیا ہے اسی لئے کہ اس کے پاس زبان (language) ہے۔ ایک دوسرا تصور ’معاشرتی حیوان‘ کا ساتھ ملا لیجئے تو یہ کھلتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے بغیر اولاً تو رہ ہی نہیں سکتا، اور اگر کہیں ایسا ہوتا بھی ہے تو وہاں چونکہ اس کا مخاطب کوئی بھی نہیں سو، اسے کسی لفظی اظہار کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔ یوں کہہ لیجئے کہ زبان کا وجود انسان کی ذاتی نہیں معاشرتی ضرورت ہے۔

*دو* زبان لکھنے والے کو بناتی ہے یا لکھنے والا زبان کو؟
اس میں بولنے والا بھی شامل کر لیں۔ یہ دو طرفہ عمل ہے، اس کی ابتداء انسان کو پیدا کرنے والے نے کی، کہ اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا (سورۃ الرحمٰن)۔ بولنے کے لئے الفاظ کا پہلے سے موجود ہونا ایک منطقی ضرورت ہے۔ گویا فاطر نے زبان کا ایک مکمل سیٹ اور اس کا نطق اور اس کا لکھنا بھی انسان کی فطرت میں رکھ دیا؛ اس نے انسان کو قلم سے علم سکھایا (سورۃ القلم) ۔ سوال یہ بھی تو ہے کہ آدم و حوا کو ایک زبان سکھائی گئی تو پھر آج زبانوں کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں کیوں ہے؟ زبانوں کی تشکیل کا عمل تو زمانہ قبل از تاریخ سے جاری ہے لہٰذاکسی نتیجے تک پہنچنے کے لئے ہمیں قوت متخیلہ سے بھی کام لینا ہو گا۔ ابوالبشر کی اولاد کو بھی اولاً ایک زبان آتی تھی، جوں جوں وہ تعداد میں زیادہ ہوتے گئے کرہ زمین پر پھیلتے گئے اور نئے نئے مظاہرِ فطرت اور اشیاہ سے متعارف ہوئے جن کے لئے انہوں نے غیر محسوس طور پر نئے اسماء، افعال اور دیگر الفاظ وضع کر لئے۔ (ایسے موضوعہ اسماء و افعال کا پہلے سے مانوس اسماء و افعال سے کوئی نہ کوئی تعلق لازماً رہا ہو گا)۔ یوں ہوتے ہوتے زبانوں کے نئے نئے سیٹ بنتے گئے، جن میں اشتراک کا تناسب بھی دھیرے دھیرے کم ہوتا چلا گیا۔ یہ عمل انسانی حیات کے اس عمل سے ملتا جلتا ہے جس کے تحت ایک ہی جوڑے کی اولاد میں نسلی گروہ (سیاہ فام، سفید فام، سرخ فام، زرد فام) اور خدوخال کا فرق آتا گیا۔ اس عمل کی دوسری بڑی شہادت مختلف زمانوں میں مختلف معاشروں میں رائج ہونے والے رسوم الخط بھی ہیں۔ یوں ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اولاً ایک ہونے کے باوجود لکھنے اور بولنے والوں کے طرزِ حیات، معاشرتی اور فطری مظاہر کی بدولت زبان میں تبدیلی آتی ہے۔ تاہم یاد رہے کہ تبدیلی کا یہ عمل اجماع اور تسلسل کا متقاضی ہے اور ان تبدیلیوں کے نمایاں ہونے کو بسا اوقات صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ ایک چھوٹا کا واقعہ یاد آیا: دوست ہوٹل میں چائے پر جمع تھے، بات زبان پر چل نکلی، ایک صاحب گویا ہوئے: ’اگر ابھی سارے لوگ کپ کو ایش ٹرے اور ایش ٹرے کو کپ کہنے لگیں تو ہم سگرٹ کپ میں جھاڑیں گے اور چائے ایش ٹرے میں پئیں گے‘۔ ایک دوسرے صاحب نے کہا: ’ایسی تبدیلیاں چائے کے کپ پر واقع نہیں ہوتیں،ہے تو محال مگر یہی کوئی دو سو سال بعد شاید آپ کار پہن کر سوٹ پر سوار ہو کے کہیں جا سکیں‘۔

*تین* زبان سازی کے اصول زبان مرتب کرتے ہیں یا زبان کے بنانے والے ؟ اور اگر زبان کے بنانے والے تو کیا ایسے اصولوں کو دائمی قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہاں سب سے پہلا وضاحت طلب لفظ ’اصول‘ ہے۔ اصول اصول کیسے بنتا ہے، یہ بات تو کوئی ماہرِ عمرانیات بہتر طور پر بتا سکتا ہے۔ جب ایک عمل، بات، طریقے، منطق کو اصول تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس کی پاسداری اور اتباع لازم قرار پاتی ہے، انحراف کا رویہ بہر حال موجود ہے اور عین ممکن ہے کہ انحراف اتنا مضبوط اور مربوط ہو کہ وہ بذاتِ خود ایک اصول کی حیثیت حاصل کر لے۔ اصول کی ایک حیثیت اور بھی ہے ’اصل‘ (بنیاد)؛ یہ زبان میں الفاظ سازی کے عمل کو مربوط رکھنے کا عمل بھی ہو سکتا ہے۔ زبان بنانے والے؛ یہ لفظ کسی ایک گروہ یا فرد پر دلالت نہیں کرتا، اور پھر زبان کی تشکیل فطرت کا مظہر ہے جس کے پیچھے طویل تہذیبی سفر ہوتا ہے، وہی ایش ٹرے اور کپ والی بات ہے۔ دوام کا مفہوم یہاں طویل مدت ہے؟ یا کسی تہذیب کا عرصۂ حیات؟ اصول کو اصول کی حیثیت ملنے پر جتنا تہذیبی سفر درکار ہوتا ہے، اس کے پیش نظر اسے دائمی (جب تک وہ تہذیب زندہ ہے) بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

*چار* قائم شدہ اصولوں سے ان کے قائم کرنے والوں کی ذات کو جدا کرنا ممکن ہے؟ یا کیا اس کا تعین بھی ہو سکتا ہے؟
بات وہی ہے کہ اصول کوئی فرد قائم نہیں کرتا، بلکہ یہ کسی معاشرے اور تہذیب کی دیرپا اور عمومی طور پر تسلیم شدہ اقدار ہی ہوتی ہیں جن کی پاس داری کی جاتی ہے۔ اگر کوئی ایک فرد، ادارہ یا گروہ ایسی اقدار کو ایک منضبط تحریری صورت میں منظر عام پر لے آئے یا ان کی بنیاد پر کوئی سفارشات مرتب کر دے (جن کو قبولیت بھی مل جائے) تو ایسے فرد، ادارے یا گروہ کو اصول قائم کرنے والا نہیں کہا جا سکتا۔ ادب میں اس کی مثال ضرب المثل، روزمرہ اور محاورہ بھی ہے۔ یہ چیزیں کیسے پیدا ہوئیں اور ضرب المثل یا محاورہ کی حیثیت کیسے حاصل کر گئیں، یہ جاننا گویا جوئے شیر لانا ہے۔ 

*پانچ* زبان کے ارتقاء کا معاملہ کیا ہے اور زبان کیسے ترقی کرتی ہے؟
زبان کے ارتقاء کی بات جزوی طور پر اوپر ہو چکی۔ معاشرہ جیسے جیسے نئے حالات سے دو چار ہوتا رہا، اور فطرت کے نئے مناظر کی بدولت طرزِ زندگی میں تبدیلیاں ہوتی رہیں، ویسے ویسے نئے نئے افکار جنم لیتے رہے اور ان جملہ عناصر کی نسبت سے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ اور تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں۔ اسی عمل کو زبان کی ترقی کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔ ایک بڑا عنصر مذہب اور سرکار دربار بھی ہے، کہ حاکموں کی زبان عوامی سطح تک اثر انداز ہوتی ہے۔ بر صغیر میں مسلمانوں کے توسط سے عربی آئی، حملہ آور یہاں پرتگالی، چینی، ترکی، اور دیگر زبانیں لائے، مغلوں کا دور خاصا طویل ہے، جس میں فارسی آئی۔ انگریز آئے تو انگریزی کے ساتھ فرانسیسی بھی آئی۔ صوفیاء اور مشائخ اس کے علاوہ ہیں۔ یوں ان زبانوں کے مقامی زبانوں سے ملاپ نے ایک نئی زبان کو جنم دیا، جسے ہم آج اردو کے نام سے جانتے ہیں۔ کوئی معاشرہ اور تہذیب جس قدر توانا ہو گی اسی قدر اس کی زبان توانا ہو گی۔ تجارت اور معیشت کا کردار بھی اہم ہے، اور اس کا اثر آج کے دور میں سب سے نمایاں ہے۔ انگریزی زبان کے پوری دنیا پر پھیلاؤ کی بنیادی وجہ عالمی سیاست اور معیشت پر انگریزی بولنے والی اقوام کی وجہ سے ہے، بذاتِ خود زبان کی وجہ سے نہیں۔ یہ بحث خاصی طویل ہے اور فیس بک پر یہ موضوع چند ماہ پہلے تک چلتا رہا ہے، جس میں اس فقیر نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لیا۔ 

*چھ* تلازمے پہلے سے موجود تھے یا انہیں ایک وجود بخشا گیا اور انہیں وجود بخشنے والے کون تھے؟
تلازمہ جہاں تک میں سمجھا ہوں کلام کی ضرورت اور اس کی اثر پذیری کا ایک حربہ ہے، اور اس کا انحصار بہت حد تک لکھنے والے کے مزاج ، مشاہدے اور قابلیت پر ہے۔ موضوعِ گفتگو یا براہ راست شاعری کا موضوع بدلتا ہے تو تلازمے بھی بدل جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے وجود بخشا جاتا، اس کے عناصر زبان میں موجود ہوتے ہیں، لکھاری ان کو حسب موقع یک جا کرتا ہے۔

*سات* کیا یہ وجود حتمی ہے اور اس میں کسی رد و بدل کی گنجائش نہیں؟
رو و بدل اور حتمیت پر بھی جزوی بات ہو چکی ہے۔ ضرب الامثال، تلمیحات، اشارہ، کنایہ، محاورہ، کہاوت اپنی اپنی جگہ پر اپنے تلازمے رکھتے ہیں، اور یہ تب تک قائم رہتے ہیں یا رہیں گے جب تک زبان اپنی ایک نہج پر رواں رہتی ہے، اور لکھنے اور پڑھنے والے یا وسیع تر تناظر میں بولنے اور سننے والے ان عناصر سے شناسا رہتے ہیں۔ محاورہ جو ایک بار بن جائے وہ آسانی سے یا یک دم ختم نہیں ہوتا، کسی جملے میں الفاظ کی نشست جو ایک بار قائم ہو جائے وہ نہج بن جاتی ہے اور ہم اس سے ہٹ کر بات کریں گے تو ہو سکتا ہے ہمارا مفہوم سامع تک پہنچ ہی نہ پائے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ (اگر ہم اردو کی بات کریں تو) سارے محاورے، ساری ضرب الامثال، سب تلمیحات، سب کہاوتیں دفعتاً وجود میں نہیں آ گئیں، وقت کے ساتھ ساتھ نئے محاورے وغیرہ وجود میں آتے رہے ہیں اور کچھ نہ کچھ متروک بھی ہوئے ہیں۔ روز مرہ اور عمومی الفاظ میں بھی یہی رویہ ہے۔ مثال کے طور پر آج ہم میں شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہو گا، جو سبھو، کسو، سوں، کوں کے الفاظ لکھتا ہو۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان عناصر میں تبادل کا عمل بھی ان کے نفوذ کی طرح طویل عرصہ میں ہوتا ہے، اور ایسے میں کئی کئی نسلیں گزر جاتی ہیں۔

*آٹھ* خالص زبان کسے کہتے ہیں اور اس کی تشریح کون کرے گا؟
میرے نزدیک اس سوال نامے کا یہ سب سے مشکل سوال ہے۔ زبانیں ہمیشہ ایک دوسرے کا اثر قبول کرتی ہیں۔ آج کے دور میں ذرائع ابلاغ جتنے تیز اور مؤثر ہیں زبانوں کا ایک دوسرے سے اختلاط اسی قدر تیز اور مؤثر ہے۔ اس اثر پذیری سے صرف وہی زبان محفوظ رہ سکتی ہے جس کے بولنے والے پوری دنیا سے کٹے ہوئے ہوں۔ ایک عام بیان تو یہ ہے کہ معاشرے کے عام لوگوں کی ( بعض کے نزدیک گھروں میں بولی جانے والی )زبان خالص ہوتی ہے۔ یہ سوال زیر بحث آنا چاہئے، اور اہل علم کو چاہئے کہ وہ ہم جیسے طالبانِ علم کی راہنمائی کریں۔ 

*نو* اس کی تشریح کرنے والا زبان کو اس کے بولنے والوں کی نظر سے دیکھے گا یا پھر قدیم لغت سے اخذ کردہ معروضات پر اکتفاء کرے گا؟
قدیم لغت کو کلی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا، وقت کے ساتھ ساتھ جو الفاظ (اسم فعل حرف مصدر وغیرہ کی تخصیص سے قطع نظر) متروک ہو گئے وہ ہو گئے، جو چل رہے ہیں اور جو نئے الفاظ کسی زبان میں آ گئے ہیں وہ بھی چل رہے ہیں، لہٰذا یہاں لفظ قدیم یا جدید کی چنداں اہمیت نہیں رہتی۔ اہمیت اس امر کی ہے زبان کے موجودہ اور رواں ذخیرہ الفاظ میں کیا کچھ شامل ہے۔

*دس* ایسا کرنے سے کیا زبان ترقی کرے گی یا اپنے سفر کے ابتدائی مراحل کی طرف واپسی کا سفر اختیار کرے گی؟ ابتدا تک پہنچنے کے بعد کیا ہو گا؟ پیچھے جانا ممکن نہیں اور آگے کہاں جانا ہے؟
زبان کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے اور ہونی چاہئے کہ مختلف مواقع کے مطابق کوئی لکھنے بولنے والااپنے مافی ضمیر اور تاثرات کو ممکنہ طور پر مختصر الفاظ میں، قطعیت سے ادا کر سکے، یہ بات ذخیرہ الفاظ اور متبادل یا متماثل الفاظ اور تراکیب کی مرہون ہے۔ نفوذ پذیری کے حوالے سے بات یہ ہے کہ زبان کی اپنی شناخت اور امتیازی حیثیت مجروح نہ ہو۔ جہاں تک ابتدائی مراحل کی طرف واپسی کی بات ہے یہ عملاً ممکن نہیں لگتا، جیسا کہ آپ نے کہا پیچھے جانا ممکن نہیں۔ اس سے بڑا ایک اور عنصر زبانوں کا ایک دوسرے میں ضم ہونا ہے اور یہ عمل فی زمانہ خاصا تیز ہو چکا ہے۔ جلد یا بدیر ایک ایسی زبان بھی وجود میں آ سکتی ہے جو پورے کرہ ارض پر لکھی پڑھی بولی اور سمجھی جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ موجود زبانوں میں کوئی زبان ابھر کر سامنے آئے اور بتدریج کرہ ارض پر محیط ہو جائے۔ تاہم اس زبان کے پیچھے کسی ایسے معاشرے اور تہذیب کا وجود لازمی ہے جو ہم عصر تہذیبوں پر حاوی ہو سکے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسی زبان میں وہ خواص بھی ہونے چاہئیں کہ وہ تمام تہذیبوں کی لسانی ضروریات کو پورا کر سکے۔ ساختیات کے اعتبار سے میرے نزدیک عربی زبان میں یہ خاصیت ہے، مگر یہ زبان بولنے والی اقوام کا موجود بظاہر کچھ ایسا نہیں کہ وہ دنیا پر اپنے تہذیبی اثرات مرتب کر سکے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔

جوابات از: محمد یعقوب آسی، ٹیکسلا (پاکستان)
۲۱؍ دسمبر ۲۰۱۰ء


مکئی دا دانہ

مکئی دا دانہ

پروفیسر انور مسعود ہوراں دی کتاب ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ بارے اک لیکھ ۔۔ 
(مطبوعہ ماہنامہ کاوش ٹیکسلا مئی ۱۹۹۹ء)




سُنیا اے انور مسعود ہوری کسے مشاعرے وچہ اپنی مشہور نظم ’’انار کلی دیاں شاناں‘‘ پڑھ رہے سن۔ اونہاں نے نظم دیاں آخری سطراں پڑھیاں:
بہتیاں مینوں آندیاں کوئی نہیں، اِکو گل مکاناں
توں کیہ جانیں بھولئے مَجھّے، نار کلی دیا شاناں

سُنن والیاں چوں کسے نے اُچی ساری آکھیا: ’لَو! حالے ایہنوں بہتیاں نہیں جے آندیاں!‘ ایس گل تے ہسّیا وی جا سکدا اے تے ایہ گل بڑی ڈوہنگی وی اے۔ میری نگہ وچہ ایہ جملہ نظم دی تعریف دا اک معیاراے ٹانچ نہیں۔ بولی ٹھولی دا سواد، بازار دی نقشہ کشی، مٹھی مٹھی پیڑ تے نال ہاسے، طنز، مخول، سچجے اکھان تے کیہ کجھ نہیں، ایس نظم وچہ! تے اجے وی شاعر نوں ایہ احساس اے پئی ’بہتیاں مینوں آندیاں کوئی نہیں‘ ... میں سمجھنا آں ایہ بڑی وڈّی گل اے۔

سن اٹھاہٹھ اُنہَتّر وچہ، جدوں ’’میلہ اکھیاں دا‘‘ چھپوان دیاں تیاریاں ہوندیاں پئیاں ہون گیاں، میں دَسوِیں پاس کر کے سکولوں نکلیا ساں۔ اونہاں دناں وچہ ’اج کیہ پکائیے‘ دا زنانہ ورشن بڑا مقبول سی:
رحمتے، ہزار ہون مزیدار بھنڈیاں
ہوندیاں نیں کجھ ذرا لیس دار بھنڈیاں
دفع کرو بی بی جی کوئی سبزیاں دی تھوڑ اے
سانوں ایہ لسوڑیاں پکان دی کیہ لوڑ اے

’’میرے نزدیک عوامی لب و لہجہ ای وضاحت دا اصل معیار اے‘‘ ایہ گل میری نہیں آپ انور مسعود ہوراں دی آکھی ہوئی اے۔ اَوکڑ اودوں ہوندی اے جدوں عام بولی ٹھولی دے لفظ شاعری ورگے نازک کم لئی بھارے بھارے تے کوہجے لگن۔انور مسعود ہوراں دی سلکھن اے جے اونہاں نے اوکھے تے ٹھیٹھ لفظاں نوں شاعری وچہ انج لیاندا اے پئی اوہ ذرا وی کوہجے نہیں لگدے۔
چھڈ دے کھانے کھلاں وڑیویں، ہُن ناں چبّیں چھولے
چھڈ دے پینے گُڑ دے شربت، پی ہُن کوکے کولے
بوتل دے نال مونہہ ناں لائیں، مونہہ وچہ پا لئیں کاناں
توں کیہ جانیں بھولئے مجّھے، نار کلی دیاں شاناں
(انار کلی دیاں شاناں)

بھانویں کِڈی سُجّی ہوئی، آئی ہوئی اکھ ہووے
لالیاں تے چوبھاں دی ستائی ہوئی اکھ ہووے
دھند ہووے، جالا ہووے بھانویں ہون کّکرے
اکھیاں چوں پانی وگے، نالے اکھ رَڑکے
چن دا وی چانناں جے اکھیاں نہیں سہندیاں
اٹھدیاں بہندیاں تراٹاں ہون پیندیاں
پیڑ مُک جاندی اے تے سوج لہہ جاندی اے
اکو ای سلائی نال ٹھنڈ پئے جاندی اے
(جہلم دے پُل تے)

سنیاں نہیں ساہی، چھَنڈ کے لائیں، کَنّاں اگے جھَپّے نیں؟
ساری تَون ونجائی، ماسی! ایہ کیہ گوگے تھَپّے نیں؟
میں سنیا اے نی چوری ہو گیا، زیور کجھ سرداراں دا
پچھلی راتیں کھول کے لے گیا، کھوتا کوئی گھمیاراں دا
(تندور)

انور مسعود ہوراں دی شاعری دا اچیچ پُناں ایہ وے پئی اوہ اپنے اگے پچھے وسّن والے لوکاں نوں کہانی دا کردار بناندے نیں تے واقعات اوہ لیاندے نیں جہڑے ساڈے اگے پچھے ہر روز تے ہر تھاں ہوندے نیں پر روز دیاں گلاں ہون پاروں کسے دا دھیان اُنج اودھر نہیں جاندا جیویں انور مسعود ہوریں اینہاں روز ویتیاں توں ویہندے نیں۔ روز ہانڈی پکان دا رپھّڑ، وڈے وڈے شہراں وچہ تہذیب دا وگاڑ تے قدراں دی موت، کُڑیاں چڑیاں دے چاء مل تے سدھراں، پنڈاں دے مُنڈے کھُنڈے اونہاں دے پواڑے تے پنچائتاں، نونہہ سَس دا جھگڑا، زنانیاں دے طعنے میہنے، اَنکھاں دیاں گلاں، بسّاں گڈیاں وچہ پھیری والے تے شہراں وچہ رکشیاں والے تے اونہاں دی اپنی بولی، ایہ سب کچھ ویکھن لئی تے پھر اوہنوں شعراں وچہ ڈھالن لئی کوئی انور مسعود ای چاہی دا سی۔ کجھ سیانے انور مسعود نوں پنجابی دا نظیرؔ اکبر آبادی کہندے نیں، میں کہنا آں: انور مسعود پنجابی دا انور مسعود اے۔ اوہدی بولی دا خمیر پنجابی رہتل وچوں اٹھدا اے۔ اوہدیاں نظماں وچہ پنجاں دریاواں دے پانی دی سلھاب اے۔ اوہدے کردار پورے ماحول تے وسیب نوں نال لے کے ٹُردے نیں۔
کہن لگی سوہنیا، وے پُتّر بشیریا
میرا اک کم وی توں کریں اج، ہیریا
روٹی میرے اکرمے دی لئی جا مدرسے
اج فیر ٹُر گیا اے میرے نال رُس کے
... ... ...
چھیتی نال جائیں بیبا، دیریاں ناں لائیں بیبا
اوہدیاں تے لُوسدیاں ہون گیاں آندراں
بھکھا بھاناں اج اوہ سکولے ٹُر گیا اے
(امبڑی)

ایہ سطراں پڑھن والے نوں کجھ وی دَسّن دی لوڑ نہیں، شاعر کتھوں بول رہیا اے۔ صاف دِسدا اے پئی ایہ اکھر پِنڈ دی مٹی وچہ اُگرے نیں۔ ماں دے پیار دی مہک ہر لفظ وچوں پھُٹدی اے پئی۔ ’اج کیہ پکائیے‘ دا’’ رحماں‘‘ اک ماڈل کردار اے تے اپنے طبقے دا نمائندہ! لاریاں وچہ پھیری لان والیاں دیاں کجھ آوازاں تے اوہناں دا لہجہ ویکھو:
میرے ولّوں سارے بھین بھائیاں نوں سلام ہووے
جاتکاں بزرگاں تے مائیاں نوں سلام ہووے
لاری والا اجے کجھ دیر کھلووے گا
سَپّاں والا بابا تساں سنیا تے ہووے گا
بچہ بچہ اج اوس بابے نوں سہاندا اے
سرمہ میں ویچنآں جگ سارا جاندا اے
... ... ...
میرے کول دارُو اے جی دنداں دی مشین دا
چکّی جے خراب ہووے مزا کیہ اے پیہن دا
دوستو عزیزو، میری گل ذرا تولناں
کلمے دی مار وگے جھوٹھ جے میں بولنآں
... ... ...
سال نواں چڑھیا اے تے جنتری وی نویں اے
ایسے گلے وِکدی ایہ اج رواں رویں اے
کھل گیا اے پل بھانویں ہل پئیاں لاریاں
چھڈ کے ناں جان گیاں پُلے تے سواریاں
(جہلم دے پل تے)
رکھو جی اٹیچی کیس، چلئے جی، باؤ جی
کہڑے پاسے جاؤ گے؟ بدامی باغ جاناں جے؟
پِنڈی وَلّوں آئے او؟
اوتھے دی سناؤ کوئی، ایتھے دی ناں پُچھّیا جے
توبہ توبہ
پرسوں دی لہور وچہ اگ پئی وَسدی
(رکشے والا)

انور مسعود نے زبان دے سُنھپ نوں قائم رکھیا اے۔ تشبیہاں تے استعارے زبان دیاں لوڑاں دے عین مطابق نیں۔ ترکیباں سوہنیاں تے نَوِیاں نیں۔ سچی گل تاں ایہ وے پئی پروفیسر صاحب نے لوک بولی نوں ادب دی زبان بنا کے زبان دا مان ودھایا اے۔ مُڈھ رِیت دے نال جڑواں نواں پن ویکھو (اختصار واسطے میں کئی تھائیں کلے کلے مصرعے لکھے نیں):
تُمّے دیاں گولیاں کریلیاں توں پِھکیاں
اینہاں نالوں چاڑھ لؤ، کونین دیاں ٹِکّیاں
کالیاں دے نال کاہنوں مارئیے اڈاریاں
ساڈیاں تے ہین امریکا نال یاریاں
(اج کیہ پکائیے)

تیرے ہتھاں دے وچہ ہالیا ... میرے سوہنے دیس دی لج
رہے بھردی تیری کاڑھنی ... تیرے کلے بَجّھی مَجھ
سدا رہن دھمالاں پاؤندے ... تیرے دانے چھَٹدے چھَج
(ہالیا)

ع:  کھڑکے ڈھول مدھانی والا، میں وچہ بھنگڑے پاواں
ع:  پئے گئی ایں نی مائی بَگّو! میرے مگر دھگانے
ع:  کَجّی رہو نی! کُجّے اندر، تینوں کیہ تکلیفاں
ع : اپنی ذات کڑتّن ہووے مصری نال نہ لڑئیے
ع:  سَکّی جیہی متریئی ہوندی چنگے ہون جے ماپے
ع : سانبھی رہو نی! چینک بیگم! ٹھَپّی رکھ وڈیائیاں
(لَسّی تے چاہ)
ع:  ٹُٹّے ہوئے چھتّر وانگوں بہتا ای ودھدا جاندا اے
ع:  کَکھّوں ہَولا کر چھڈیا اے سانوں ایس نمانے نے
ع:  دُھوں دِتّا اے ناسِیں اینھے ودھ کے جِنّاں بھوتاں توں
(تندور)

نک ساڈی جِند آئی روز دیاں رَٹّیاں نے سانوں ڈاہڈا پَٹّیا اے
مُنڈیاں توں چِڑ کے تے تساں لڑ بھڑ کے تے پِنڈ بھَنڈ سَٹّیا اے
لوکی ایہو سمجھدے گواہنڈیاں دے پنڈ وچہ جِن بھوت نچدا اے
شاہ ویلے، بھَتّے ویلے، ڈیگری تے شام ویلے روز جنگ مچدا اے
کِڈّے تُسی ڈِگ پئے او، شرم ای نہیں رہی اُکا وَڈّیاں دی پگ دی
کسر کیہڑی رہی اے کچہریاں تے تھانیاں تے روز بھِیڑ لگدی
لَبّھا کیہ جے، دَسّو مینوں، پیشیاں پوا کے، وکیلاں کول جا کے
مال ڈنگر، زمیں بھانڈا، دانا دُکا، لیف جُلّا، سبھّے بندھے پا کے
(حال اوئے پاہریا)

انور مسعود ہوراں دے شعراں وچہ جتھے عام بولی ٹھولی دا نواں چسکا ملدا اے اوتھے زبان دی اچیچ روانی وی اے۔ کوئی نظم پڑھن لگ پؤ، پہلے حرف توں اخیرلے حرف تیکر، لفظ مصرعے، شعرتے نال نال معنے انج کھبویں نیں پئی جی کردا اے بندا اکو ساہے پوری نظم پڑھ جائے۔ عالم گیر حقیقتاں تے سوچن جوگ بیان ، انور مسعود ہوری گلاں گلاں وچہ ایس طرح کہہ جاندے نیں جیویں کوئی گل ای نہ ہووے۔ پڑھن والے نوں جدوں ایس گل دا احساس ہوندا اے تے اوہ سوچیں پے جاندا اے یا پھر ہکا بکا جیہا رہ جاندا اے۔ انشائیے طرحاں اوہ ٹریاں جاندیاں راہ وچہ چوبھاں تے رَڑکاں کھلاردے جاندے نیں۔ زبان دی روانی دیاں سر کڈھویاں مثالاں لئی ایس کتاب وچہ آئیاں نظماں ’تسلّیاں‘ تے ’وگوچہ‘ دا ناں لیناں کافی ہووے گا۔ اجوکی دنیا دے دُکھاں دا بھرواں دَکھ ’دِینا‘ ’ورہیاں دے پینڈے‘ تے ’اخبار‘ وچہ خوب مِلدا اے۔ دوجیاں نظماں وی ایس دَکھ توں وانجھیاں نہیں:
اکھاں وچہ نہیں شرم دا کجلا، مونہاں تے نہیں پَلّے
اُچّا اچا ویکھن سارے کوئی نہ ویکھے تھَلّے
(انار کلی دیاں شاناں)
ع:  اکھ جیہا کیمرہ تے لکھ نوں نہیں لبھدا
ع : رب جہڑے موتی دتے سَٹنے نہیں چاہی دے
(جہلم دے پل تے)
کیہ دسّاں کیہڑا چنگا اے کیہ دَسّاں کیہڑا مندا اے
ایہ مکدی گل مقدّر تے، ایہ لیکھاں والا دھندا اے
ایہ میریاں گلاں سن سن کے کجھ اثر نہ ہویا بالاں نوں
کیہ جانن اوہ تکلیفاں نوں، کیہ سمجھن اوہ جنجالاں نوں
(ریجھاں)
انج لگدا اے دنیا دے ہُن دِن ہو گئے نیں پورے نی
بندے رہن زمیں دے اُتّے، چن تے جان کتورے نی
(تندور)

انور مسعود ہوراں دے ڈوہنگے مشاہدے دے نال نال اک ڈوہنگی پیڑ دا ثبوت پوری کتاب وچہ تھاں تھاں ملدا اے۔ کہن نوں اَن پڑھاں دی بولی لکھن والا ایہ شاعر دراصل بڑیاں ڈوہنگیاں گلاں کردا اے تے ایہ وی سچ اے پئی جیویں ایہ گلاں اوہ پنجابی وچہ کر گیا اے، کسے ہور زبان وچہ شاید ہو ای نہیں سی سکدیاں۔ ’وارداتریا‘ ’مزاح نگار‘ ’داری دارا .. دو کنجوس‘ ’وگوچہ‘ ’دِینا‘ ’ورہیاں دے پَینڈے‘ ’ریجھاں‘ ’تسلّیاں‘ ’بدّل‘ ایہ اوہ نظماں نیں جنہاں وچہ دوہرے دوہرے چھڈ کے تیہرے چَوہرے مضمون ملدے نیں جیہڑے پروفیسر صاحب دی فلاسفی دا مڈھ بنھدے نیں۔اونہاں نال اک وڈی زیادتی اونہاں دے چاہن والیاں نے کیتی اے۔ اونہاں تے مزاح نگار دا ٹھَپّہ لا چھڈیا اے۔

میرا مقصد اونہاں دی مزاح نگاری نوں نِندناں نہیں۔ میں ایہ کہنا چاہندآں پئی اونہاں دی شاعری، جنی کو میں پڑھی اے، اوہدے وچہ میری ملاقات اک ہور انور مسعود نال ہوئی اے جیہدا قد کاٹھ لوکاں دے انور مسعود نالوں کسے طرحاں وی گھٹ نہیں۔ حضرت میاں محمد بخش (صاحبِ سیف الملوک) دی خدمت وچہ اوہ سوالی بن کے جو کجھ منگدے نیں تے جیویں منگدے نیں، اوہ گل ای وکھری اے:
عشق دا لمبو بالے جیہڑی جہی تجلّی ہووے
جھلّی جیہی طبیعت میری ہور وی جھلّی ہووے
ڈاہڈی بھکھ جے لگی ہووے منگنوں کوئی نہیں سنگدا
مینوں درد محبت بخشو، میں نہیں دارُو منگدا
انج سوال کریساں جیونکر اڑیاں کرے ایاناں
اس درگاہوں حضرت صاحب، میں نہیں خالی جاناں
(حضرت میاں محمد بخش دی خدمت وچہ)

پیار دی پیڑ اوہناں نوں رج کے ملی اے۔ اوہ جگ ورتی نوں ہڈ ورتی طرحاں سہاندے نیں۔ مثال دے طور تے:
کنج اسیں پرچائیاں بھکھاں کون ایہ ورقے تھُلّے
ہانڈی دے وچہ پتھر پا کے ہانڈی چاہڑی چُلھّے
خورے کد تک راج کریسن لَم سلَمّے کُلّے
انورؔ ایہ کیہ بدَّل بنیا اے، نہ وَسّے نہ کھُلّے
(بدّل)

کون سنے لفظاں دیاں چیکاں کون پڑھے اخباراں
مانواں دے کئی بال ایانے، چک کھڑے خرکاراں
اونہاں دا کوئی پتہ نشانی دھرتی تے نہیں باقی
رہ گئیاں اخبار دے اتے ڈنگ پھڑنگیاں لیکاں
میرے جیہا نہ مُورکھ کوئی پڑھیا لکھیا بندا
دکھاں دی میں پنڈ خریدی پلیوں پیسے دے کے
(اخبار)

آ وڑیا ایں ڈنگر مالا، توں اج کیہڑے پاسے
پیسے دے نیں پُتّر سارے ایس گلی دے واسے
مھاتڑ ایتھے خالی آوندے خالی کھَڑدے کاسے
پیسے جے کر پلے ہوون دُلھ ڈُلھ پیندے ہاسے
بہتیاں مینوں آندیاں کوئی نہیں اکو گل مکانآں
توں کیہ جانیں بھولئے مجھے نار کلی دیاں شاناں
(انار کلی دیاں شاناں)

جو کچھ اوہناں نے سن ستر توں پہلوں آکھیا سی اج وی اونا ای سچا اے، منہ دٹاندرے توں وکھ کیہ ہوئیا اے؟ خاص کر اک نظم دا حوالہ ضرور دیاں گا ..’وگوچہ‘.. بڑی نازک نظم اے۔ عقلاں والیاں لئی اک کھلے بجھارت اے تے اکھاں والیاں لئی اک تتی چننگ۔ ایس نظم دیاں آخری سطراں:
ویلے دا جو پاس نہ کرسی
ویلے نوں پچھتاوے گا
دونہہ دونہہ ہتھیں تاوے گا
’’اک کُڑی دی چیز گواچی، بھلکے چیتا آوے گا‘‘

جے سمجھ آ جاوے پئی اوہ گواچی ہوئی شے کیہ اے تے اک سیک جیہا لگدا اے۔ میرا خیال اے ایہو سیک اے جنھے انور مسعودتوں مزاح لکھوایا اے۔ اوہ تتی ریت دا سیکا کھا کے مکئی دا پھُلّا بن گیا اے، جہدا سارا وجود چمڑی توں باہر ہوندا اے۔ ایہ سیک اوہ اے جہڑا کسے ماں نوں اپنی اولاد دا ہوندا اے۔ ماں دی محبت پُتّاں تے کپُتّاں لئی اتھاہ ہوندی اے، جہڑے کہندے نیں اکو جیہی ہوندی اے اوہ غلط کہندے نیں۔ کسے پَڑ پاٹے کھُوہ دی ڈوہنگیائی کدے کسے نے مِنی اے؟ نہیں! تے پھر، ماں دے پیار دی پیمائش وی نہیں ہو سکدی! ’امبڑی‘ ایس کتاب دی پہلی نظم اے۔ میں ایہ نظم نہیں پڑھ سکدا، کیوں جے میرے اندر ایناں سیکا سہن جوگا ساہ نہیں۔’مزاح نگار‘ ناں دی پوری نظم نقل کر رہیآں:
ہس ہس جردے
تتیاں ریتاں
دھن مکئی دے دانے
جیوں جیوں بھانبڑ
مچدا جاوے
بن دے جان مکھانے

ایہ ساری بحث ایس اک گل تے مُک جاندی اے۔ ’’ہر بندہ تے مکئی دا دانہ نہیں ہوندا ناں!‘‘


محمد یعقوب آسی