شفاف
’’کیسے ہو؟ پہلے تو دیر سے فون اٹھایا، پھر بولے اور بھی دیر سے؟ خیریت سے تو ہو؟‘‘ میرے اس سوال کے جواب میں قدرے شدید کھانسی کی آواز آئی۔ فون اٹھاتے ہوئے بھی وہ پہلے کھانسا تھا اور اس نے خلافِ معمول ’’جی السلام علیکم‘‘ کی بجائے ’’ہیلو‘‘ سے جواب دیا تھا۔ میں نے پھر پوچھا ’’خیریت تو ہے؟‘‘۔
. ’’ہاں‘‘ اس کی آواز جیسے کسی کنویں سے آ رہی تھی۔ ’’مجھے سانپ نے ڈس لیا تھا، بچ گیا ہوں، مگر لگتا ہے کہیں زہر پھیل گیا ہے ۔‘‘ وہ پھر کھانسا اور کال کٹ گئی یا اس نے کاٹ دی۔ کوئی دس منٹ بعد، میں اس کے ڈرائنگ روم میں تھا۔ ’’اب کہو، فون پہ کیا بک رہے تھے تم‘‘۔ اپنے لہجے کی تلخی خود مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
’’ میں سچ کہہ رہا ہوں، یار۔ وہ دھاری دار سفید رنگ کا کلغی والا سانپ تھا، خاصا بڑا۔ اس نے مجھے تقریباً ڈس ہی لیا تھا، مگر میں لڑکھڑاگیا، شاید گھبراہٹ میں اور مجھے صرف اتھلی سی خراش لگی۔ اُس کا تھوک تھا یا زہر تھا یا کیا تھا، مجھے نہیں پتہ وہ کیا تھا، اس کی پچکاری کہہ لو، وہ ساتھ دیوار پرپڑی ساری!‘‘ اس نے کھانسی کے وقفوں کے درمیان اپنی بات مکمل کی۔ میں نے پوچھا: ’’تم نے خود دیکھی کیا؟ اور سانپ نے تم پہ حملہ کیوں کیا‘‘ مجھے اپنے لہجے میں بے تابی اور تجسس کا نمایاں اثر محسوس ہو۱۔
’’ہاں تو! نہ دیکھی ہوتی تو میں تمہاری کال سننے کو زندہ نہ ہوتا۔ اس نامراد کا خوف ہوتا ہی ایسا ہے‘‘ وہ سانس لینے کو رکا اور ہلکا سا کھنکار کر بولا؛ ’’بالکل شفاف سی شے تھی وہ‘‘۔ اُس کا لہجہ یک دم تبدیل ہو گیا: ’’یہ کیوں کیا کا جواب مجھ سے کیا پوچھ رہے ہو، وہ تو پتھر اور مٹی کے ایک ڈھیر میں روپوش ہو گیا، میں کیا کہہ سکتا ہوں!۔ اس کے زہر کو مارنے کی دوائیاں زہر مار کر رہا ہوں‘‘۔ اس بار مجھے اس کے لہجے کی تلخی نہیں بھائی، سو میں نے سوال برائے سوال کے طور پر کہا: ’’اس کے بعد تم نے دیوار پہ اس پچکاری کو دیکھا؟‘‘
’’نہیں، میں نے نہیں دیکھا مگر سنا ہے کہ اُس جگہ دیوار شفاف ہو چکی ہے، اتنی کہ اس کے آر پار دکھائی دیتا ہے!‘‘ یہ کہہ کر وہ کھانسنے لگا اور میں دیدے پھاڑے اُس کی طرف دیکھنے لگا، دھاری دار، سفید رنگ کے کلغی والے سانپ کی طرح۔
**********
محمد یعقوب آسی ۔۔۔ 15 اکتوبر 2010ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں