بدھ، 15 جون، 2016

نیلا کالا آسمان





نیلا کالا آسمان


بسمل بزمی کے چہرے پر خوف اور پریشانی کے سائے لہراتے دیکھ کر ہمارا فکرمند ہو جانا عین فطری عمل تھا۔ یہ حضرت تو ہر بات کو چٹکی میں اڑا دیا کرتے ہیں، آج کیا ہوا۔ ہمارے استفسار پر کہنے لگے: "مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، اور پھر وہیں مر مُک جاؤں گا۔ میری مدد کرو یار بدرِ احمر۔" پوچھا: پتہ بھی تو چلے آخر کون سا آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔ بولے: "تمہیں پتہ ہے لغویات برداشت کرنا میرے بس میں نہیں۔" یہ کہا اور سوچ کے بحرِ مردار میں ڈوب گئے۔ جیسے بھی بن پڑا ہم انہیں کھینچ کھانچ کے لالہ مصری خان کے ہاں لے گئے۔

خان لالہ کے بارے میں یہ جو کہتے ہیں کہ ان کے سامنے مجسمہء آزادی میں پنہاں عشتار دیوی کی بے لباس روح بھی فرفر بولنے لگے، کچھ ایسا غلط نہیں ہے۔ بزمی صاحب جو وہی اپنا کہا دہرائے جا رہے تھے: "مجھے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے گا، اور پھر وہیں مر مُک جاؤں گا"۔ لالہ کی ایک دھاڑ پر پانی ہو گئے اور لگے گھگیانے، نیلے آسمان، چیتے اور گدھے کی کہانی سنا ڈالی۔ وہ کہانی آپ کو نہیں پتہ؟ چلئے اس کا خلاصہ سن لیجئے۔

گدھا کہتا تھا "آسمان کالا ہے"، چیتا کہتا تھا "نہیں! نیلا ہے"۔ بات بڑھی تو شاہِ بیاباں تک پہنچی، دونوں کی طلبی ہو گئی، مؤقف سنا گیا۔ حکم جاری ہوا کہ "چیتے کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔"چیتا پریشان کہ مؤقف بھی میرا درست اور سزا بھی مجھی کو؟ وہ بے وقوف صاف بچ نکلا؟ عرض کیا: "بادشاہ سلامت! ایسا کیوں، کیا میں نے غلط کہا؟" حاکم گَرجا: "نہیں! تو نے سچ کہا اور تجھے سزا سچ کہنے کی نہیں ملی۔ تجھے سزا ملی ہے اس بات کی کہ تو نے گدھے سے بحث کیوں کی؟"

لالہ مصری خان نے کہا تو  کچھ نہیں، چیتے کی سی خشونت بھری نظروں سے بسمل بزمی کو گھورا؛ پھر ان کا بلند بانگ قہقہہ دیر تک فضا میں دھاڑتا رہا۔ ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ خان لالہ کے قہقہے میں ڈھیچوں ڈھیچوں کا تاثر کیوں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بدرِ احمر بدھ 15 جون 2016ء