’’کیا بک رہے ہو، بدرُو!!‘‘ لالہ مصری خان کی دھاڑ ہمارے لئے قطعی
طور پر غیر متوقع تھی۔ مزید پریشانی ہمیں اُن کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ کر ہوئی،
وہ کہہ رہے تھے: ’’تمہیں پتہ بھی ہے؟ کہ تم کہہ کیا رہے ہو!!!‘‘
ہم نے تو یوں ہی سرسری انداز میں بات کی تھی کہ: ’خاکوانی میاں ہم
سے یا ہماری علمیت سے دبتے ہیں‘۔ ہمارے لہجے میں البتہ سرخوشی کی لہر ضرور تھی۔
دیکھئے نا، کوئی آپ سے مرعوب ہو تو ایک انجانا سا سرور تو ہوتا ہے۔ اس پر لالہ جی
کا یوں آگ بگولا ہونا ہماری سمجھ سے باہر تھا۔ ہمارے پاس سوائے چند الٹے سیدھے
لفظوں کے اور ایسی کوئی شے تو ہے نہیں (اور اچھا ہی ہے کہ نہیں ہے) جس کے بل پر ہم
کسی پر رعب جھاڑ سکیں۔ نہ پاؤ کروڑ کی کار، نہ ہزار گز کا شاہانہ بنگلہ، نہ مل، نہ
جاگیر، نہ نوکروں چاکروں کی فوج، نہ جیالے، نہ متوالے۔ ایک یہ دو حرف ہی تو ہیں
اپنے پاس! اور خان لالہ اس پر بھی تین حرف بھیج چکے؟!۔
ڈرتے ڈرتے عرض کیا: ’’لالہ جی! ہم نے کون سا کسی امارت وزارت کا
رعب ڈالا ہے، علم کا رعب ایسا برا بھی نہیں کہ ...‘‘ ۔ خان لالہ کا دایاں ہاتھ فضا
میں بلند ہوا، ہم سمجھے کہ آیا ایک جھانبڑ بھی۔ جھانبڑ تو خیر نہیں پڑا، ایک اور
دھاڑ سنائی دی جو پہلی سے کہیں زیادہ بلند اور تلخ تھی: ’’نائیں! تمہیں کچھ علم
نہیں ہے! جاہل ہو تم، گنوار ہو!‘‘۔ یہ کہا اور صوفے پر یوں ڈھے گئے جیسے ہزار میٹر
کی دوڑ ہار کر آئے ہوں۔ کچھ گہری سانسیں لیں اور بے دم سا ہو کر آنکھیں موند لیں،
چند منٹ کی خاموشی کے بعد بولے: ’’سنو! بدرِ احمر!‘‘ہمیں لالہ کی آواز کسی کنویں
سے آتی محسوس ہوئی۔ اُن کا چہرہ جو ابھی کچھ دیر پہلے غصے سے لال بھبوکا ہو رہا
تھا، وہ بھی اتر چکا تھا، لہجہ اور الفاظ دونوں گویا زخمی ہو چکے تھے، وہ کہہ رہے
تھے: ’’کاش تمہیں کچھ علم ہوتا! تمہیں علم ہوتا کہ ... علم دوسروں کو مرعوب کرنے
کے لئے نہیں ہوتا، برخوردار! علم انکسار سکھاتا ہے، تکبر نہیں ... علم حِلم ہے اور
عالم کو تو حلیم الطبع ہونا چاہئے! کیسے عالم ہو تم؟ کہ چاہتے ہو دوسرے تم سے ڈریں،
خوف کھائیں؟ مرعوب ہوں! اس سے تو کہیں بہتر تھا کہ تمہیں کچھ بھی علم نہ ہوتا‘‘۔
لالہ جی اور بھی بہت کچھ کہتے رہے مگر ہمارے سنسناتے ہوئے کانوں میں لفظ نہیں اتر
رہے تھے، صرف کرب اتر رہا تھا۔ اپنی بے وقعتی کا کرب، اپنا تنک سا ظرف کہ ایک
حرف سے لبریز ہو گیا! اور دوسرا طغیانی بن گیا!؟ ’’کتنے چھوٹے ہو تم! بدرِ احمر!‘‘
یہ خان لالہ کی نہیں، ہماری اپنی آواز تھی۔
ہم نے بمشکل سر اٹھایا۔ سامنے صوفے پر دھُند سی پھیلی ہوئی تھی اور
اس میں ایک چہرہ بھیگ رہا تھا۔ دھند چھٹی تو ہمیں وہ چہرہ جگمگاتا ہوا لگا۔ لالہ
مصری خان کے ہونٹ، آنکھیں اور گال تو کیا، کانوں کی لَویں تک مسکرا رہی تھیں۔ ہمیں
اپنے گالوں پر سرکتے قطروں کا احساس ہوا تو ہم نے لالہ کی آنکھوں میں دھند سی اتری
دیکھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھے، ہمارے قریب آئے، ہمارے چہرے کو اپنے مضبوط چوڑے چکلے
ہاتھوں میں تھامتے ہوئے بولے: ’’مجھے معاف کر دینا، میرے چھوٹے بھائی! غصے نے مجھے
بے قابو کر دیا تھا، میں پتہ نہیں کیا کچھ کہہ گیا۔ ہاں، ایک بات جو تمہارے علم
میں ہو گی، یاد دلا دوں ... عالم وہ ہے جس کے آگے لوگ اپنے دل چیر کر رکھ دیں، کجا
آں کہ اسے دیکھ کر دبکتے پھریں‘‘۔ لالہ جی کے لہجے کا ٹھہراؤ اور احساس کا نشتر
اتنا گہرا تھا، کہ ہمیں اپنی انا چِرتی ہوئی محسوس ہوئی، ایک ایک لمحہ جانئے ایک
ایک صدی بن گیا۔
نہ جانے کب! وہ کیفیت فرو ہوئی تو پتہ چلا کہ ہم اکیلے ہیں۔ لالہ
مصری خان اگر وہاں تھے بھی تو کب کے جا چکے تھے۔
بدرِ احمر کے قلم سے ... بدھ
۱۸؍ فروری ۲۰۱۵ء
واہ ۔۔۔ چھا گئے ہیں بہت خوب
جواب دیںحذف کریںکون؟ لالہ مصری خان؟ ارے بی بی خان لالہ تو دوستی بھی جبراً کرتے ہیں!
جواب دیںحذف کریںسبحان اللہ
جواب دیںحذف کریںمیرے جیسے نوجوانوں کے لئے اہم تحریر جو تھوڑے سا علم حاصل کرنے کے بعد آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اور اترائے پھرتے ہیں۔