بدھ، 20 ستمبر، 2017

اِک ذرا سی بات پر



اِک ذرا سی بات پر


قیامِ پاکستان کا اعلان ’’پاکستان براڈکاسٹنگ سروس‘‘ لاہور سے ہوا تھا (’’ریڈیو پاکستان‘‘ کا نام بعد میں اختیار کیا گیا)۔ کمپنی کے ڈائریکٹر جنرل غالباً زیڈ اے بخاری تھے؛ المعروف ’’بڑے شاہ جی‘‘۔ ان کو دورانِ کار کہیں ذرا فرصت ہوتی تو سٹاف روم میں آ کر بیٹھ جاتے۔ عملے کے وہ افراد جو اپنے وقت (نشریات) کے منتظر ہوتے یا، کر چکے ہوتے؛ وہاں گپ شپ لگا رہے ہوتے۔ بڑے شاہ جی کسی بھی غیرنمایاں جگہ پر بیٹھ جاتے، کوئی انہیں دیکھے تو سمجھے کہ اونگھ رہے ہیں۔ عملے کا کوئی فرد اس گپ شپ میں بھی کوئی لفظ یا جملہ غلط بول جاتا یا زبان کی کوئی غلطی کر جاتا تو شاہ جی اُسے فوراً ٹوک دیا کرتے۔ ایک دن کسی نے کہہ دیا: ’’شاہ جی ہم یہاں کون سی نشریات جاری کر رہے ہوتے ہیں، یہ تو محض گپ شپ ہے‘‘۔ بڑے شاہ جی کے جواب کا مفہوم تھا کہ آپ لوگ نشریات کے لوگ ہیں، آپ کی زبان، ہر قسم کی غلطیوں سے پاک ہونی چاہئے۔ یہ غلطیاں جنہیں آپ گپ شپ میں کر جاتے ہیں، یہ آپ کی عادت بھی بن سکتی ہیں۔ نشریے میں ایک لفظ غلط ادا ہو گیا، منہ سے نکلا آسمان کو پہنچا، بعد میں اُس پر جیسی بھی سر زنش ہوتی رہے نشریہ تو متاثر ہو چکا۔
بڑے شاہ جی کی یہ بات ہمارے اہلِ قلم کے لئے ضابطے کی حیثیت رکھتی ہے۔ فیس بک اور اس نوع کے دوسرے میڈیا کو لے لیجئے؛ ہم چاہے معمول کا تبصرہ ہی کیوں نہ کر رہے ہوں، ہمیں اپنے الفاظ اور جملوں کی صحت اور معیار کے ساتھ ساتھ لہجے کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ ہم بول کر ایک بات کرتے ہیں تو ہمارے سامع کو علم نہیں ہوتا کہ ہمارے ذہن میں فلاں لفظ کے ہجے کیا ہیں، مگر جب ہم وہی بات لکھ کر کرتے ہیں تو ہماری لکھی ہوئی عبارت (املاء، ہجے، اعراب سمیت) ہمارے قاری کے سامنے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک لفظ بولتا ہوں ’’بِل کُل‘‘؛ میرا سامع مطمئن ہے کہ میں نے درست بولا؛ میں اسی لفظ کو لکھتے میں ’’بالکل‘‘ کی بجائے ’’بلکل‘‘ لکھ دوں تو میرا باشعور قاری کسی ردِ عمل کا اظہار کرے یا نہ کرے؛ بد دل ضرور ہو گا۔’’اتفاقاً، مثلاً، یقیناً‘‘ بولنے میں نون (تنوین) بولا جائے گا اور یہ جو الف آخر دکھائی دے رہی ہے (جس پر دوزبر کی علامت ہے) یہ الف صوت میں نہیں ہو گا۔ میں ان کو ’’اتفاقن، مثلن، یقینن‘‘ لکھوں گا تو لازماً غلط مانا جائے گا۔ نظیر اور نذیر بولنے میں ہم کوئی فرق نہیں کر پاتے (یہ ہمارے کلے کی ساخت کی بات ہے)، ہم ان کی املاء باہم تبدیل کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ذرا، ذرّہ میں ذال کی جگہ ز، ض، ظ نہیں لے سکتا۔ زِرہ، زَری، زَر میں ذ، ض، ظ نہیں چلے گا؛ لفظ یا تو بے معنی ہو جائے گا، یا وہ کوئی اور لفظ ہو گا : نظیر (مثال) نذیر (ڈرانے والا) علم (پرچم) الم (دکھ) قلب (دل) کلب (کتا)۔ الفاظ کی ساخت اور ان میں مختلف حروف تہجی کا واقع ہونا ایک پوری تہذیب کا عکس ہوتا ہے، یہ محض آوازیں نہیں ہوا کرتیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہجے وہی، صوت بھی وہی مگر الفاظ مختلف! جون (شمسی سال کا چھٹا مہینہ)، جون (نسل) ؛ جوں (جیسے)، جوں (ایک خون آشام کیڑا)؛ پر (حرفِ جار)، پر (پنکھ)؛ وغیرہ۔
اکثر معاملات میں عام سوجھ بوجھ کافی ہوتی ہے، تاہم مسلسل مطالعہ بہت ضروری ہے۔ اردو میں صدہا الفاظ ایسے ہیں ، یہاں کیا کچھ نقل کیا جائے۔ ادب سے تعلق رکھنے والا شخص کتابوں اور مطالعے سے بے گانہ نہیں رہ سکتا، اس کے پاس اور کچھ بھی نہ ہو، دو چار اچھی ڈکشنریاں ضرور ہونی چاہئیں۔ فی زمانہ انٹرنیٹ پر بے شمار کتابیں مفت ڈاؤن لوڈ کے لئے بھی دستیاب ہیں۔ جسے علم کی پیاس ہو گی، وہ اِن کتابوں کو تلاش بھی کر لے گا۔ املاء کی غلطیوں کے رواج پانے کا سب سے بڑا عنصر محنت سے جی چرانے اور مطالعے سے فرار کا رویہ ہے۔ ہمارے بہت سے اہلِ قلم نے بھی انٹرنیٹ پر میسر یونی کوڈ اور خودکار املاء کو کافی و شافی جان لیا، حالانکہ وہ ابھی اپنے تعمیری مراحل میں ہے اور اس کی تکمیل میں ابھی اچھا خاصا وقت لگے گا۔ کمپیوٹر سے ملنے والی املاء اور ہجوں کو غیر مشروط طور پر سند مان لینا (اہلِ ادب کے لئے خاص طور پر) درست رویہ نہیں۔ 
علم فی نفسہٖ بہت وسیع مفاہیم رکھتا ہے۔ بات اردو زبان میں املاء و اصوات کی ہو رہی ہے۔ پڑھے لکھے مسلمان معاشرے میں قیام اللیل اور اقیمواالصلوٰۃ جیسی تراکیب اجنبی نہیں ہیں۔ قیام اللیل میں میم کے بعد کا الف اور ایک لام بولتا نہیں ہے، دوسرا لام مشدد ہے۔ آوازوں کو کافی سمجھنے کی غلطی ہمیں کسی ایسی املاء تک بھی لے جا سکتی ہے: ’قیاملّیل‘‘ ؛اقیمواالصلوٰۃ میں میم کے بعد ایک واو، دو الف، ایل لام بولنے میں نہیں آتے۔ املاء کو اصوات تک محدود کرنے کی غلطی اس کو ’’اقیمُصّلات‘‘ بنا دے گی؛ چہ عجب! ہمیں اصوات اور تہذیبی عناصر کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ ’’املاء صرف اصوات تک‘‘ کا فارمولا زیادہ سے زیادہ وہاں لاگو ہو سکتا ہے (اور وہ بھی نامکمل) جہاں ہم کسی قطعی مختلف رسم الخط کی حامل زبان (مثلاً انگریزی، فرانسیسی، چینی، روسی، جاپانی، کورین؛ وغیرہ) کا تلفظ اپنے خط میں لکھنے کی کوشش کریں۔ اس شعبے میں بھی اہلِ علم نے کچھ ضوابط اپنا رکھے ہیں، جن کا احاطہ کرنا ایک الگ علمی شعبہ ہے، جو آگے کئی شعبوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہاں اس کا خاکہ پیش کرنا بھی محال ہے۔ اردو کا گرمکھی، ہندی، دیوناگری رسوم الخط سے فرق بھی حقیقت ہے؛ بہت سی آوازیں تک ایک دوسری تحریر میں مختلف ہیں۔ تاہم یہ فاصلہ تہذیبی قرب اور صدیوں کے معاشرتی اشتراک کی بدولت بڑی حد تک پٹ جاتا ہے، اور ہمیں بہت زیادہ اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔ بہ این ہمہ یہ بات کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ اردو کے لئے فارسی رسم الخط ہی موزوں ہے، جیسا (عربی اور فارسی پر کچھ اضافی حروف کے ساتھ) اس وقت رائج ہے۔
ایک بے بنیاد اور بے ڈھب طعنہ جو اردو کو دیا جاتا ہے کہ: ’’جی اس میں تو سارے الفاظ، اسم، فعل ، حرف دوسری زبانوں کے ہیں؛ اپنا کچھ بھی نہیں، اسی لئے تو اس کو لشکری کہتے ہیں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ ایک اندازے کے مطابق اردو میں دنیا کی ۳۰ زبانوں کے الفاظ ہیں۔ انگریزی کی ایک بہت معتبر لغت چیمبرز انگلش ڈکشنری کے ۱۹۷۶ء ایڈیشن میں ۷۹ زبانوں کے ناموں کی فہرست شامل ہے جن کے الفاظ انگریزی زبان میں شامل ہیں۔ ایسا صرف انگریزی یا اردو سے خاص نہیں۔ ماسوائے اس زبان کے جو حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کریم نے عطا کی تھی، دنیا کی ہر زبان اپنے لوگوں کے مکمل تہذیبی پس منظر میں شامل ان تمام زبانوں سے مستفیض ہوتی ہے جو کسی نہ کسی انداز میں ان لوگوں میں رائج رہی ہوں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ دنیا میں مختلف وقتوں میں رائج تمام زبانوں کا منبع وہی حضرت آدم علیہ السلام والی زبان ہے۔ یہ تو ایک فطری عمل ہے، اور فطرت سے فرار ممکن نہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہماری اردو اس وقت کہاں کھڑی ہے، اس کا لسانی سرمایہ کتنا ہے، اس کے متداول قواعد کیا ہیں؛ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اردو کے بیٹے ہونے کے دعویدار اپنے دعوے میں کتنے مخلص اور سچے ہیں۔
ہمیں زبان کی صورت میں جو کچھ اپنے بزرگوں سے ملا ہے، اس کی قدر لازم ہے۔ اس میں کہیں کوئی فروگزاشت ہے تو اس کا قابلِ عمل اور قابلِ قبول حل پیش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ عربی، فارسی، پنجابی، ہندی اور دیگر مقامی زبانیں اردو کے خمیر میں شامل ہیں؛ آپ ان کو نکال نہیں سکتے۔ اس لئے غیرضروری تعصبات سے بچے رہئے، اور زبان کی روایات کو رواں رکھئے۔ املاء، تلفظ، ہجاء، جملے کی ساخت، محاورہ، روزمرہ، ضرب الامثال، تشبیہات، علامات، رعایات، رموز، استعارے، ترکیب سازی کے ضابطے؛ ان کا اکرام کیجئے۔ اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے آگے بڑھئے، نہیں تو آپ دوسروں سے الگ ہو جائیں گے۔
یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ عالمی سطح پر زبان کا درجہ اس کے خط، حروف ہجاء کی تعداد، قواعد وغیرہ کی بنیاد پر متعین نہیں ہوا کرتا، اس بات پر ہوتا ہے کہ اس زبان کو بولنے والے کتنے مؤثر ہیں اور کہاں کہاں! دنیا میں مقابلہ لفظوں سے نہیں،قومی کارناموں اور اثرپذیری سے ہوا کرتا ہے۔ آپ کے جسم میں جان نہ ہو تو آپ کی چیخ پکار بھی کوئی نہیں سنے گا، کسی پر حکم جاری کرنا تو دور کی بات ہے۔
دورِ حاضر میں ایک اور طرزِ فکر کو ہوا دی جا رہی ہے: ’’زبان مذہب سے بالا تر ہوتی ہے، یا زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا‘‘۔ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہو گا، زبان لکھنے، بولنے پڑھنے والے کا تو کوئی نہ کوئی مذہب ضرور ہوتا ہے (لامذہبیت بھی تو ایک مذہب ہے!)۔ کوئی حمد کہتا ہے، نعت، منقبت، سلام، کہتا ہے؛ کوئی بھجن لکھتا ہے؛ کوئی اپنے دیوتاؤں کے قصیدے لکھتا ہے؛کوئی ناگ دیوتا کی مدح سرائی کرتا ہے؛ کوئی جو کچھ بھی لکھتا ہے وہ زبان کا حصہ ہے تو پھر زبان کا مذہب بھی ہے۔ ہر زبان کا مذہب ہوتا ہے! وہی جو اس کے لکھنے والے کا ہوتا ہے۔ لکھنے والا لادین ہے تو اس کی زبان بھی لادین ہے۔ یہاں کتنے لوگ ایسے ہیں؟ اردولکھنے والے پاکستانی، تقریباً سو فی صد مسلمان ہیں؛ ہندوستان کا مجھے نہیں پتہ، آدھے تو رہے ہوں گے۔ اردو ادب میں منبر و محراب کی گونج صاف سنائی دیتی ہے، مصنف چاہے ہندو ہو، پارسی ہو، سکھ ہو، بدھ ہو، جین ہو، کوئی ہو، اردو کا اسلوب اپنا ایک مجموعی رنگ رکھتا ہے۔ انگریزی ادب کو دیکھ لیجئے، وہاں کسی نہ کسی انداز میں صلیب بول رہی ہے۔ چین کی لوک داستانوں سے جدید ترین موویز تک ڈریگن کا راج ہے۔ اگرایک طبقہ زبان کو سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے لادینیت پھیلانا چاہتا ہے تو وہ اس کا مشن ہے، چاہے کسی نے سونپا ہو۔ اس پر بحث کا فائدہ کچھ نہیں۔
کہتے ہیں انگریز سرکار نے اپنے کسی مجسٹریٹ کو مرزا غالب کے پاس بھیجا کہ ان سے ہندوستانیوں کی زبان سیکھے تاکہ اپنے روز مرہ کے امور میں ان لوگوں کی باتیں سمجھ سکے۔ مرزا نے کہا: ’’جاؤ میاں، کسی گھسیارے سے سیکھو، میں تو قلعے کی زبان بولتا ہوں‘‘۔ مرزا کے اس قول کے متعدد پہلو ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ زبان کے بھی طبقات ہوتے ہیں۔ ایک مبتذل ہے تو ایک بازاری ہے، ایک بازار کا ہے، ایک عامیانہ ہے تو ایک عوامی ہے، ایک اشرافیہ کا لہجہ ہے تو ایک اہلِ ادب کا ہے، ایک خواتین کا ہے تو ایک اڈے کوٹھے کا ہے۔ ہر لہجے کی اپنی اپنی افادیت ہے، اپنی اپنی لفظیات ہے اور اپنا اپنا انداز ہے؛ کسی پر گرفت کرنا مقصود نہیں۔ ایک دوست نے بہت اچھی مثال دی: ’’بیٹھ، بیٹھو یار، بیٹھئے، تشریف رکھئے، تشریف فرمائیے، نشست منتظر ہے‘‘۔ زبان میں شائستگی اور شستگی جوں جوں بڑھتی جائے گی زبان کی لذت بڑھتی جائے گی۔ زبان میں جتنا جمالیاتی عنصر شامل ہو گا زبان اتنی ہی ادبی ہوتی چلی جائے گی۔ زبان میں معنی آفرینی کی سطح سے اس کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ زبان زندگی کے جتنی قریب ہو گی، اتنی اس کی اثر پذیری بڑھے گی۔ زبان اور مٹی کا رشتہ اٹوٹ رشتہ ہے، یہ اپنی مٹی سے کٹی تو مر گئی، لوگ اپنی مٹی سے کٹ گئے تو بھی زبان مر گئی۔ لوگوں میں جان نہ رہی تو زبان ادھ موئی ہو گئی۔لوگوں نے اپنی قدروں اور قدر و منزلت کا جتنا تحفظ کیا، اور دوسروں پر جس حد تک اثر انداز ہوئے، زبان میں بھی اتنی ہی وسعت اور ہمہ گیری آتی گئی۔ گویا زبان کے یہ چار عناصر ہوئے :مٹی، خون، فکر، اور گویائی۔
بات یہاں پہنچی کہ اگر مجھے اور آپ کو ادب تخلیق کرنا ہے، پڑھنا ہے اور ادب میں اچھی روایات قائم رکھتے ہوئے، نئی طرحیں ڈالنی ہیں تو مجھے اور آپ کو (بلا استثناء) مطالعے اور محنت کی ضرورت ہے، اور رہے گی۔مطالعہ اور محنت سے ہل من مزید کا تقاضا تیز تر ہوتاہے۔ اور علم میں وسعت آتی ہے۔


محمد یعقوب آسیؔ (ٹیکسلا) پاکستان
بدھ: ۲۰؍ ستمبر ۲۰۱۷ء

جمعہ، 8 ستمبر، 2017

خس کم جہاں پاک



خس کم جہاں پاک


’’اختر کو جانتے ہو؟‘‘
’’ہاں، جانتا ہوں۔ کیوں؟‘‘
’’کتنا جانتے ہو؟‘‘
’’تقریباً آدھی عمر سے۔ اور وہ بھی مجھے جانتا ہے۔‘‘
’’کتنا جانتا ہے؟‘‘
’’میں تمہارے سوال کو نہیں سمجھ پایا۔‘‘
’’یہ تو مجھے پتہ ہے، وہ تمہیں کیا، تمہاری نفسیات تک کو جانتا ہے۔ ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’اچھا تمہاری کتابیں شائع ہوئے کتنا عرصہ ہوا؟‘‘
’’یہی کوئی سوا سال، ڈیڑھ سال۔‘‘
’’کتابیں تم نے اختر کو دیں؟ تینوں؟‘‘
’’کمال ہے! یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ تمہیں کوئی شک ہے؟‘‘
’’نہیں، مجھے یقین ہے۔‘‘
’’تو، پوچھتے کیوں ہو؟‘‘
’’اُس کی رائے کیا ہے، تمہاری شاعری کے بارے میں؟‘‘
’’اچھی رائے ہے۔‘‘
’’تمہیں کس نے بتایا کہ اچھی رائے ہے؟ اُس کا کوئی مضمون؟‘‘
’’کتاب میں شامل ہے۔‘‘
’’وہ تو مجھے بھی پتہ ہے۔ اُس کے بعد؟‘‘
’’اُس کے بعد؟ نہیں کوئی خاص نہیں۔‘‘
’’تمہاری اُس سے بات ہوئی؟‘‘
’’ہاں، ہوئی۔‘‘
’’تو پھر، یوں کرو کہ ... اپنی کتابیں ردی میں بیچ دو۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘
’’صاف ظاہر ہے، وہ ہیں ہی اس قابل۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’جو تین کتابیں مل کر اختر سے ایک مضمون نہ لکھوا سکیں ، انہیں ردی نہ کہوں تو کیا کہوں؟‘‘
’’دیکھو، دیکھو، تم زیادتی کر رہے ہو۔‘‘
’’میں زیادتی نہیں کر رہا۔ ہر کوئی یہی کہے گا!‘‘
’’کہے گا، تو میں کیا کروں؟‘‘
’’کچھ نہیں، اپنی کتابیں ردی میں بیچ دو، خس کم جہاں پاک۔‘‘
*****


تحریر: بسمل بزمی (المعروف: استاد چٹکی) ... منگل 23؍ اگست 2016ء

پیر، 4 ستمبر، 2017

عقل ہی جاتی رہی



عقل ہی جاتی رہی

تفصیل اِس اجمال کی کچھ یوں ہے۔

ایک مریضِ بحرِ عریض و بسیط کو غوطہ زنی کا شوق ایسا چرایا کہ نئے ابحار تلاشیں اور ان پر ستم فرمائی کریں۔ ابحار والا کام تو آن جناب کے بس کا نہیں تھا، بلکہ غوطے کا سوچ کر ہی ان کی سانس غبارہ اور پھر غبار ہو گئی۔ انہوں نے ابحار کو بدل کر بحور کر لیا۔ اور نظر انداز شدہ بحر تلاش کر لی۔ یہ "تلاش کر لی" بھی ہمارا حُسنِ ظن ہے، ان کا معاملہ شاید بٹیر ہاتھ لگ جانے والا رہا ہو۔ انہوں نے اس  بحرِ کوبیدہ کا کچھ نام بھی ارشاد فرمایا تھا جو ہمارے سر سے خاصی محفوظ بلندی سے گزر گیا۔ اتنی بلندی پر سے کہ ہمارا پلہ بھی بچا رہا۔  خیر گزشت، اور ہم یہ داستانِ غمِ عَلَم سنانے کو محفوظ رہ گئے۔ اس بحر کا زحاف گزیدہ نام خود بحر کی ضخامت سے بڑا رہا ہو گا، سو، ہم اسے بحرِ عریض و بسیط کا نام عطا کرتے ہیں۔ غواص مذکور کے مطابق بحر کے ارکان ہیں: فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن ۔

ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم آن جناب کے لئے اردو میں مروج جملہ بحور کا رجسٹر تیار کر کے آن جناب کی خدمت میں زبر زیر پیش کریں اور تنوین منصوب کے طورپر یہ بھی وضاحت کریں کہ اردو کے شعرا کے ذوق پر کون سا مرض طاری ہو گیا ہے، جس سے ان کا ذوقِ گہرہائے نیلی فام ہم کنارِ مرگِ ناگہان ہوا۔ تحقیقِ عمیق کے بعد جان کی امان یقینی بناتے ہوئے عرض کیا: اردو شعر کا مزاج اس بحر کے شایانِ شان نہیں ہے۔ عربی اور فارسی میں بھی ہم ابیات تو نہیں ڈھونڈ پائے البتہ کچھ گیت میسر ہوئے ہیں، جن کے سارے ابحار دیپک راگ کی تپش کا شکار ہو کر ہوا ہو گئے۔ دیپک راگ کے نام کی خاصیت تھی یا کیا تھا، یہ تو ہمارے محدود علم میں نہیں، ہم نے موصوف کے رُخِ  "دِیپا" کو متغیر اور پھر  سرخ مثلِ بوزنہ ہو تے دیکھا تو پتلی گلی میں سے ہو کر نکل گئے۔

مگر کہاں تک! اگلے دن ہمیں پا بہ جولان کر کے جنابِ مریض کے حضور پیش کر دیا گیا۔ انہوں نے ہمارے جرم سے کہیں زیادہ کڑی اور بے رحم سزا کے طور پر اپنے کچھ ارشادات کی ضرباتِ شدیدہ میں مبتلا کیا، اور پھر کمال غضب و لطف مخلوط کے ساتھ ارشاد فرمایا: سنا تم نے؟ اردو شعراء کا مزاج فی الواقع اس بحرِ ذخار کے شایان نہیں۔ ہم نے اس میں یہ غزل فرما کر اردو کو اس گوہرِ گراں مایہ سے سرفراز کیا ہے۔ اردو والوں کو ہمارا ممنون و مقروض رہنا چاہئے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ضربات میں شدت اتنی تھی کہ ہم ایک کو چار گنتے رہے۔ ہمارے حساب سے گنتی اسی (80) تک پہنچ کر رک گئی۔ اسی کوڑوں کی سزا سے مماثلت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن میں یہ رنج بھی متواتر سسکاریاں لیتا رہا کہ کاش وہ یہاں بے چاری  غزل کی حرمت کو پامال نہ کرتے! ہزل بھی وہ نہیں رہی ہو گی (اس کی ضربات ہزل نما ہرگز نہیں تھیں)۔ یوں بھی ہم اس کو ہزل قرار دے دیتے تو پتہ نہیں غزل کے نام کیا کچھ ایسا سننا پڑتا کہ ہماری حالت غزال پسِ زندانِ آہنی جیسی ہو جاتی۔ اتنی کہ شاعر لوگ ہمارے نالہ و شیونِ آہوانہ کو غزلِ حقیقی کا نام دے دیتے۔

ہم جناب مریض عروضانی سے کیا انتقام لیتے، مرے نوں مارے شاہ مدار کے مصداق اپنا غصہ بھی اس صنفِ مقہور پر نکالا اور اپنے تئیں اسی بحرِ عریض و بسیط میں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد (انگوٹھوں سمیت) کی رعایت سے پورے دس مصرعے کہہ دیے۔ یہ تو ہمارے مہربانوں کا حسنِ نظر اور حسنِ ظن ہے کہ ہماری اس انتقامی کاروائی کو غزل کا مقام دینے میں بھی متامل نہیں۔ ہمارا دوسرا دکھ بے چاری بحرِ رمل مثمن محذوف سے وابستہ ہے۔ وہ بے چاری ہماری بے بسی کے اس ٹھڈے کا شکار ہو گئی جو ہم نے خیالوں حضور شاعر کی طرف اور عملاً ہوا میں چلایا تھا۔ اس کی ضرب سیدھی بے چاری کی کمر میں پڑی اور پورا ایک مہرہ (سببِ خفیف) ایک لمحے میں عالمِ غیاب میں چلا گیا۔ اب کے چلتی ہے تو چل نہیں پاتی۔

اپنے ارشد عزیز نے تو خیر ہماری اس غزل کی درگت بنتے دیکھی ہے۔ چال کی لڑکھڑاہٹ نہ تو اپنے روشن دماغ جناب منیر انور سے چھپی رہی، نہ اپنے شہزاد عادل کی زیرک نگاہی سے۔ اپنے ابوذر نے تو سارا نزلہ ہی ہم پر ڈال دیا کہ اس بے چاری کمر نہ توڑنے میں کیا حرج تھا؟اپنے ان عزیز دوستوں کو حرج اور ہرج کے ہجوں اور معانی میں الجھا چھوڑ کر ہم آپ کو پتے کی ایک بات بتاتے ہیں۔

اس انحطاط زدہ اور رو بہ زوالِ مزید زمانے میں کوئی شاید ہمیں یوں بھی یاد رکھ لے کہ تھا وہ اک یعقوب آسیؔ جس نے ایک غیرمانوس بحر میں پورے پانچ شعر کہے۔ تاہم یہ خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے کہ جو بھی ان دس مصرعوں کا ذکر کرے گا، خود ہماری مندرجہ بالا گزارشات بلکہ تلخ نوائی کو کیسے بھول جائے گا؟ جہاں ہم نے چالیس ہم وزن سطروں کو برداشت کر لیا، وہاں آپ بھی ان دس سطروں کو برداشت کر ہی لیں گے، کہ ان پر اشعار کا شائبہ تو ہو سکتا ہے۔

ہم سے بچھڑے آپ کیا، ہر خوشی جاتی رہی
زندگی، تیرہ شبی! چاندنی جاتی رہی

حیف خود بینی مری، کھا گئی میری شناخت
خود نمائی رہ گئی، بے خودی جاتی رہی

درد کی پہنائیاں، زیست کا ساماں جو تھیں
وہ متاعِ جاں جو تھی، لٹ چکی، جاتی رہی

خود کو اس کے ہاتھ میں دے دیا اچھا کیا
دل پہ جس کا بوجھ تھا، بے کلی جاتی رہی

ہاں مگر اک بات ہے، زیست کرنا آ گیا
ہو کے پیوندِ زمیں، سر کشی جاتی رہی

ایک گزارش ہے!شہزاد عادل والی نہ چلائیے گا کہ "عقل ہی جاتی رہی"۔



محمد یعقوب آسیؔ ۔۔۔۔۔  سوموار: 4 ستمبر 2017ء ۔