اتوار، 20 ستمبر، 2015

ایک وہ حرفِ مدعا



ایک وہ حرفِ مدعا

محمد ابن الحسن سید کی کتاب ’’جوئے تشنہ‘‘ پر ایک نظر 

یہ مضمون ۲۹؍ اگست ۱۹۸۸ء کو لکھا گیا اور  ۱۰؍ ستمبر ۱۹۸۸ء کو پاکستان یوتھ لیگ واہ کینٹ کے زیرِ اہتمام ہونے والی تقریب میں پڑھا گیا۔ صاحبِ محفل جناب ابن الحسن سید تھے۔

رشتوں کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ملت و مذہب، ملک و قوم، رنگ و نسل، زبان و بیان وغیرہ۔ یہاں اس پلیٹ فارم پر میں جس رشتے کا ذکر کرنے والا ہوں وہ حرف و معنی اور قرطاس و قلم کا رشتہ ہے، یہی رشتہ ہے مجھ سے جناب ابن الحسن سید کا۔ سچی بات یہ ہے کہ میں ذاتی حوالے سے محترم ابن الحسن سید سے شناسا نہیں تھا۔ اللہ بھلا کرے پاشا راز کا، کہ انہوں نے میری ملاقات جوئے تشنہ کے شاعر  سے کروائی۔ اس کتاب میں مجھے جو سید ابن الحسن ملے ان کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرتا ہوں۔

کتاب کا نام جوئے تشنہ ایک سوال ہے۔ وہ ندی جو خود پیاسی ہے، کیا ہے؟ وہ شخص جو عطا کرنا جانتا ہے، کون ہے؟ وہ زمین جو سب کچھ مہیا کرتی ہے، کیا وہ خود محرومِ دُوُل ہے؟ اگر وقعی ایسا ہے تو کیوں؟ اس سوال کا جواب سید صاحب کی زبانی:
حوالہ ہے مرا سنت نبی کی
مجھے اک بوریا بھی شہ نشیں ہے

سید صاحب نے اپنے احساسات کی تمام دولت بانٹ دی اور اپنے پاس صرف ایک چیز رکھی ہے، اس میں بھی اپنے قارئین کو شامل کر لیا ہے۔ وہ ہے ایک نامکمل سی آسودگی۔ کتاب کا انتساب اپنی شریکِ حیات کے نام ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جو سب سے پہلے انسانوں کے درمیان قائم ہوا۔ یٰآدمُ اسْکنْ انتَ و زوجُک الجنَّہ۔ حصہ نظم کی ابتدا ایک اور اہم رشتے سے ہوتی ہے۔ اس رشتے کا نام ہے ’’میرا پاکستان‘‘۔ اس پاک سرزمین کے حوالے سے ہمارا رشتہ صرف ہم وطنی کا رشتہ نہیں، اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے۔ یہ وطن رنگ، نسل اور وطنیت کے محدود تصور سے بالاتر ایک مقدس تحریک کا حاصل ہے۔ وہ تحریک جو اللہ کا دین ہے، جو سب کے لئے ہے، سب رشتوں سے بالاتر اسلامی مواخات کا رشتہ، یہ میرا رشتہ اور وطن عزیز کا رشتہ ہے، جو میرے لئے سب کچھ ہے۔
روزِ ازل کا پیماں ہے یہ
حرفِ خودی کا عرفاں ہے یہ
مجھے میں پیدا پنہاں ہے یہ
میری کل پہچان .... میرا پاکستان

سید صاحب نے شاعری کو شکر کا مقام قرار دیا ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’شاعری اصل میں ایک خود کلامی ہے، زبان و بیان کا ایک ایسا وسیلہ ہے جس سے فرد کو اپنی اور اپنے اطراف و جوانب کی پہچان حاصل ہوتی ہے، ایک حسی اور معنوی پہچان۔ دوسرے لفظوں میں شاعری اس عمل کا نام ہے جس کے ذریعے فرد محسوسات سے معنویت کی طرف سفر کرتا ہے اور منزل پر دونوں کو یک جان پاتا ہے۔‘‘ سید صاحب کے اس فن کا جو معیار مقرر کیا ہے وہ یہ ہے کہ:
اپنا چہرہ ہو ہر اک تصویر میں
فن یہی ہے اور یہی معراجِ فن

فن، فن کار کی ذات کا حصہ ہوتا ہے۔ فن کار، بطورِ خاص قرطاس و قلم کا وارث اگر خلوص اور سلیقہ رکھتا ہے تو وہ اپنی بات، اپنے فن اور اپنی ذات کو منوا لیتا ہے:
ڈھنگ کی بات لوگ سن لیں گے
شور و غوغا کے باوجود حسنؔ

شاعر کا ادراک عامۃ الناس کے ادراک سے آگے ہوتا ہے، وہ احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنا سکتا ہے اور معنی پیدا کر سکتا ہے جب کہ عام آدمی ایسا نہیں کر سکتا۔ شاعر اپنی ذات سے ماورائے ذات کی آگہی حاصل کرتا ہے:
..... مری شاعری کوئی لفظوں کی آوارہ گردی نہیں ہے
..... مری شاعری دل دہی، ہم کلامی، دعا ہے
..... مری شاعری آپ اپنی جزا ہے
..... یہ دیروز و امروز و فردا سے باہر کا اک راستہ ہے
..... یہ اک نامکمل سی آسودگی ہے

اور یہی وہ دولت ہے جو سید صاحب اپنے قارئین میں بانٹ رہے ہیں۔ یہ نامکمل سی آسودگی زندگی ہے جس میں امیدیں، ارادے، خدشات، واہمات، اسباب، علل، ابتلاء، مسرت، خوف، تأسف سب کچھ ہے۔ یہی زندگی ہے۔
اٹھا لیں راہ سے افتادگاں کو
یہاں ایسے بہت کم دیکھتا ہوں

جتنی آنکھیں ہیں اتنے نظارے
جتنے نظارے اتنی حیرانی

آنکھ رکھتے ہو دیکھنا ہو گا
وقت جو کچھ بھی تم کو دکھائے

یہ وہ حقیقت پسندانہ رویہ ہے جو بہت کم لوگوں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ یہ رویہ اس خاص احساس کا آئینہ دار ہے جو زندگی کی علامت اور دلیل ہے:
زندگی نام اسی کا ہوگا
یہ جو احساسِ زیاں ہوتا ہے

جو بھی آیا خدا ہی بن بیٹھا
اس سفینے کو ناخدا نہ ملا

احساسِ زیاں نعمت ہے اگر وہ مہمیز کا کام کرے اور ابتلاء ہے اگر وہ یاسیت کی طرف لے جائے۔ سید صاحب ان دونوں صورتوں سے آشنا ہیں، وہ احساسِ زیاں کی مہمیز سے انسانی کی قوتِ تعمیر کو ہانکتے ہیں اور ایک نئی دنیا کی تخلیق کی رغبت دلاتے ہیں:
ایک اپنی کائنات سی تعمیر کیجئے
سارے جہاں سے دور یہیں سب کے درمیاں

بہائے جو لئے جاتی ہیں تجھ کو تند خو موجیں
یہی موجیں سفینہ ہیں انہی موجوں کو ساحل کر

امید اور آرزوؤں کے سہارے آگے بڑھتے انسان کو خطرات سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ وہ کبھی خوشی سے سرشار ہوتا ہے تو کبھی غم سے دو چار ہوتا ہے، کبھی خدشات و واہمات کی زد پر ہوتا ہے تو کبھی یقین و ایمان کی حفاظت میں ہوتا ہے کہ انسان کا زندگی سے رشتہ ہی ایسا ہے:
..... تو اب تو یہی ہے
..... یہ بے اختیاری کھٹکتی بہت ہے، مزا بھی بڑا ہے

اپنے ارد گرد پھیلی اور پھیلتی کائنات کے اندر انسان کا سفر جاری ہے۔ وہ جا رہا ہے، دنیا کو دیکھ رہا ہے، زندگی کو پرکھ رہا ہے اور ایک مسلسل جستجو میں ہے:
ایک یہ شام و سحر کا سلسلہ
ایک تیری جستجو کرتے ہیں ہم
..... ایک ذرے میں ہیں ساتوں آسماں
..... ایک قطرہ اشک کا
..... بحرِ ناپیدا کنار

اس جستجو کا حاصل چاند پر انسان کے قدموں کے نشان ہیں اور اب وہ مریخ و مشتری کو بھی سر کرنے نکلا  ہے۔ سید صاحب پرواز کے اس عمل کو سراہتے ہیں، تاہم وہ قدرے متامل بھی ہیں کہ انسان مریخ و مشتری پر پہنچ تو جائے گا ... مگر!
..... کس کو معلوم وہاں
..... دردِ ہستی کی دوا ہے کہ نہیں
..... اور اکسیرِ بقا ہے کہ نہیں
..... پھر بھی اک جرأتِ پرواز تو ہے!

وہ تمناؤں کو ابھارتے ہیں اور تمنائی کو اس منزل کی طرف کھینچے لئے جاتے ہیں جہاں بقا ہی بقا ہے:
یہ کارواں نمود کا
یہ سلسلہ وجود کا
جو کچھ بھی نزد و دور ہے
شجر حجر
یہ بحر و بر
خبر، نظر، ہر ایک شے
ہر ایک شے میں ایک ہی وجود کی نمود ہے
بس ایک ہی وجود ہے
نہ ابتدا نہ انتہا
فقط بقا!!

تری کبیدہ خاطری ہے بے محل
یہ بے بسی یہ عاجزی ہے بے محل
کہ زندگی ہے جاوداں
مثالِ آبجو رواں
یہاں وہاں جو پھولتے ہیں بلبلے
تو اِن کے واسطے نہیں یہ امتیازِ ما و تو
کہ امتیازِ ما و تو میں قید و بند ذات ہے
کہ ذات بے ثبات ہے
اسیرِ حادثات ہے
ہمارے درد کی دوا
سپردگیء و بے خودی
سپردگیء و بے خودی ثبات ہے نجات ہے
خدا کا اس پہ ہاتھ ہے

وہ انسان کا مطالعہ کرتے ہیں تو احسنِ تقویم اور اسفل سافلین کی حقیقت سے شناسا ہوتے ہیں:
اس میں بلندیاں تمام، اس میں تمام پستیاں
یعنی یہ آدمی جو ہے، اس میں کوئی کمی نہیں

سید صاحب کی اسلام اور عالمِ اسلام سے محبت ان کے اشعار اور نظموں میں جا بجا عیاں ہے اور ایسا لگتا ہے یہ کسی ارادی کوشش کا نتیجہ نہیں بلکہ دل سے اٹھتی ہوئی آواز اور رشتوں کی پکار ہے:
لے کے آیا ہوں تری دہلیز پر
جان و تن، عرضِ ہنر، نقد سخن

سر انتہائے کمال پر مری ابتدائے زوال ہے
مجھے احتیاط محال ہے مجھے خود ہی آ کے سنبھالئے

کوئی آہٹ تھی رگِ جان کے قریب
تیرے ہونے کا گماں ہوتا ہے

یہ وارفتگی کا وہ عالم ہے جہاں سید صاحب کی شاعرانہ حسیات پوری طرح بیدار ہوتی ہیں اور وہ ایسے خوب صورت اشعار تخلیق کرتے ہیں:
اچھا ہے تعلق میں کشاکش کا تاثر
مردہ کبھی جذبات ہمارے نہیں ہوتے

حسنؔ بربادیء دل کی کہانی
پرانی بھی، نئی بھی، عام بھی ہے

کار و بارِ روز و شب کے ساتھ ساتھ
راستہ دیکھیں گے تیرا عمر بھر

زہے نصیب طبیعت میں بے نیازی ہے
تمہاری دل کو طلب تو ہے بے حساب نہیں

دیکھئے چٹکی ہوئی ہے چاندنی
آئیے جادو جگانے بام پر

ان کی نظمیں: ’’کیا یہ ممکن نہیں؟‘‘، ’’تکاثر‘‘، ’’مری کی ایک صبح‘‘، ’’ڈھاکہ کی ایک دوپہر‘‘، ’’شام‘‘؛ ایسی خوبصورت نظمیں ہیں، جن کو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے ان پر کچھ کہنا ان کا مقام کم کرنا ہے۔

عمرِ رواں کو روکنا کسی طور بھی ممکن نہیں تاہم یاد وہ تعلق ہے جو حال کے رواں دواں لمحوں کو ماضی کے تھمے ہوئے لمحات سے ہم آہنگ کر دیتا ہے۔
یاد سی اک رہ گئی ہے دل کے پاس
ہم بھی ہیں باقی کہ جب تک یاد ہے

اس سب کچھ کے باوجود محمد ابن الحسن سید کبھی اپنے فن سے مطمئن نہیں ہوتے۔ ایک عمر کارزارِ حرف و معنی میں گزار کر بھی انہیں یہ احساس متواتر رہتا ہے کہ جو کہنا تھا وہ کہہ نہیں پائے۔
تھکن ہے حوصلے ہیں پا شکستہ
مسافر پر ورودِ شام بھی ہے

یہ احساس ایک تحریک بھی ہے، مزید کہنے پر اکساتا ہے۔ شاید! کہ حرفِ مدعا اپنے مکمل معانی کے ساتھ نوکِ زبان اور نوکِ قلم پر آ سکے:
عمر بھر جوڑتے رہے الفاظ
ایک وہ حرفِ مدعا نہ ملا


محمد یعقوب آسیؔ ۲۹؍ اگست ۱۹۸۸ء

چیرہ نگاہی اس کی



چیرہ نگاہی اس کی
یہ مضمون سلمان باسط کی کتاب خاکی خاکے کی تقریبِ پذیرائی (منعقدہ ۷؍ جون ۱۹۹۹ء ) میں پڑھا گیا اور بعد ازاں ماہنامہ کاوش ٹیکسلا (اگست ۱۹۹۹ء) میں شائع ہوا


مزاح لکھنا بلاشبہ ایک مشکل کام ہے اور اس وقت یہ مشکل تر ہو جاتا ہے جب آپ کسی کا شخصی خاکہ لکھ رہے ہوں۔ شخصی حوالے سے لکھی گئی ہلکی پھلکی تحریر  دراصل اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ خاکہ نگار نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی! بات ذرا سی اِدھر سے اُدھر ہو گئی تو ساری چابک دستی جانئے دھری کی دھری رہ گئی اور گناہ لازم ٹھہرا۔ اس طرح سلمان باسط نے اپنے معاصر ادیبوں کے شخصی خاکے لکھنے کا  جو خطرناک کام اپنے ذمہ لیا تھا، وہ اگر بخیر و خوبی انجام کو پہنچا ہے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ فاضل خاکہ نگار چابک دست ہے، بلکہ کہیں کہیں تو چابک بدست نظر آتا ہے۔

مزاح کے حربوں کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر انور مسعود نے ایک بار کہا تھا کہ ایک حربہ مبالغہ ہے: کہ ایسی چیزوں کو جو اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہیں، نمایاں کیا جائے، جیسے کارٹون ہے۔ خاکی خاکے میں شامل مضامین میں سلمان باسط نے برش سے نہیں بلکہ لفظوں سے کارٹون بنائے ہیں اور اس خوبی سے بنائے ہیں کہ جس کا کارٹون  بنایا ہے وہ بھی رنجیدہ نہیں ہوتا بلکہ لطف لیتا ہے۔ بظاہر معمول کی باتوں کو ہمارے فاضل خاکہ نگار کی چیرہ نگاہی نے کیا روپ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیے:

* جب وہ بولتا ہے تو صرف وہی بولتا ہے۔ دوسرے تمام لوگ آواز اور عِلم کے آہنگ میں کمزور ساز کی طرح گھٹ کر رہ جاتے ہیں۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ ایسے میں وہ بعض اوقات اس ریلوے انجن کی طرح دکھائی دیتا ہے جو بے مقصد ریلوے پٹڑیوں پر اِدھر سے اُدھر شنٹنگ کرتا رہتا ہے اور اس بات سے قطعاً لاتعلق ہوتا ہے کہ پیچھے کم از کم ایک آدھ بوگی ہی لگا لے۔ 
(کالا چٹا پہاڑ: ص ۵۶)

* موصوف اتنی دھیمی آواز میں گفتگو کرتے ہیں کہ ان کے انتہائی قریب  بیٹھے ہوئے شخص کو بھی انہیں سننے کے لئے آلۂ سماعت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ غالباً انہیں صرف بات کرنا مقصود ہوتا ہے، سنانا نہیں۔ 
(بھائی جان: ص ۶۵)

* بات اتنی آہستگی سے کرتا ہے جیسے کوئی راز کہہ رہا ہو چاہے وہ صرف یہی کہنا چاہ رہا ہو کہ وہ سرسید کالج راولپنڈی میں پروفیسر ہے، لیکن لہجے کا دھیماپن اور گفتگو کا ٹھہراؤ اس بات کو بھی سربستہ راز بنا دے گا اور یوں لگے گا جیسے وہ ایٹم بم بنانے کا فارمولا بتا رہا ہے۔ 
(جنابِ عالی: ص ۴۲)

* ۱س کی شخصیت اور گفتگو میں عجیب سا ڈھیلاپن پایا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو سے سردیوں کے موسم میں اونگھتی دوپہر کا احساس ہوتا ہے۔ شاید علمِ عروض کا اثر اس کے بات کرنے کے انداز پر بھی پڑا ہے لہٰذا وہ ایک مخصوص بحر میں بات کرتا ہے اور اس کا یہ گفتگو کا انداز اتنا ڈھیلا  ہوتا ہے کہ سننے والے کو جمائیاں آنے لگتی ہیں۔ 
(عروضیا: ص ۱۰۳)

سلمان باسط ایک اچھے شاعر ہیں، اچھے کالم نگار ہیں، ڈرامہ لکھتے بھی ہیں (کرتے بھی ہیں)۔ گویا ادب کی ہر صنف میں بقول اپنے ’’ٹھیک ٹھاک منہ مارتے ہیں‘‘۔ ان ہمہ جہت تجربوں نے ان کے خاکوں کو متنوع بنا دیا ہے۔ ان میں بیک وقت طنز و مزاح بھی ہے، انشاء پردازی بھی اور شاعرانہ اندازِ اظہار بھی۔ انشاء پردازی کی ایک مثال دیکھئے:

* خیر سے اس مرحلے سے گزرے تو اس نومولود کی مناسب دیکھ بھال کے لئے  ذوقؔ ، غالبؔ اور میر انیسؔ کی کلیات نے آیا کے فرائض سنبھال لئے۔ کئی دفعہ آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے دِلّی کے لال قلعے اور کوچہ بَلّی ماراں میں بھی لے جایا گیا۔ ان پیچیدہ دلیلوں جیسی گلیوں سے گزرتے ہوئے کئی بار اس معصوم کی نگاہ رعائتِ لفظی اور مجاز مرسل پر پڑی مگر کم سنی کی وجہ سے آشنائی کے جرم سے باز رہا۔ یہ ننھا جب لڑکپن کی حدود سے گزر رہا تھا تو کئی بار تشبیہات و تراکیب سے آنکھ لڑی،  کلاسیکی ادب کے محمل میں بیٹھی لیلیٰ نے اس پر کئی بار نگاہِ غلط انداز ڈالی۔ عنفوانِ شباب کے تجربوں سے گزر کر جب یہ جوانِ رعنا بازارِ ادب میں نکلا تو اس کی مڈبھیڑ رؤف امیرؔ سے ہو گئی۔ بس پھر کیا تھا! عروض اور تقطیع کی بھٹی نے اس کا رنگ سنولانا شروع کر دیا۔ اساتذہ سے لے کر عہدِ حاضر تک کے شعراء رؤف امیرؔ اور مبارک شاہ کے سامنے دست بستہ کھڑے اصلاح لیتے پائے گئے۔ یہاں تک کہ غالبؔ کا اغلاط نامہ بھی تیار کیا گیا۔ 
(شاہِ جنات: ص ۸۳)

منظر نگاری سے ایک قدم گے جا کر فاضل خاکہ نگار نے منظر آفرینی کے ہنر سے کام لیا ہے۔ ایک مثال دیکھئے:

* کبھی کبھی تو وہ اپنے چہرے مہرے سے ایک بھرے پرے خاندان کی بے بے نظر آتا ہے جو گاؤں کے آبائی مکان کے صحن کے ایک کونے میں بنے ہوئے گرمائی باورچی خانے میں ہنڈیا کے پاس بیٹھ کر آنکھوں سے ممتا کی پھوار برسانے کے ساتھ ساتھ بچوں کو اور ان کے بچوں کو آلو گوشت رکابیوں میں ڈال ڈال کر دینے میں مصروف ہو۔ ہاں البتہ اس کی آنکھوں پر سجی عینک اسے تھوڑی دیر کے لئے دانشوری کا تڑکا لگا دیتی ہے۔ مگر عینک اتارنے کے بعد وہی شیخوپورے کا دیسی محمد منشا نکل آتا ہے جس کی آواز میں گھر کے دودھ سے نکلے ہوئے مکھن کی ملائمت ہے۔ (حسبِ منشا: ص ۹۶)

سلمان باسط کے خاکی خاکوں کی ایک بہت نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ آدمیت احترامِ آدمی ست کے بڑی سختی سے قائل بھی ہیں اور اس پر عامل بھی ہیں۔ اور جہاں رشتوں کی بات ہو وہاں بہت حساس بھی۔ کتاب میں شامل تمام خاکوں میں ’’فردِ خاکہ‘‘ کے لئے صیغہ واحد غائب استعمال کیا گیا ہے مگر عثمان خاور کے خاکے میں (جو فاضل خاکہ نگار کے بڑے بھائی ہیں) یہ صیغہ جمع غائب میں بدل گیا ہے۔ اور، مجھے یقین ہے کہ یہ احترام کے جذبے کا اثر ہے۔ دیگر خاکوں میں بھی یہ احترام پوری طرح رو بہ عمل دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً:

* یہ ٹھیک ہے کہ یعقوب کی قسمت میں آس کے دامن سے لپٹے رہنا ہی لکھا ہے لیکن وہ تو اپنی شخصیت کے حسن کے اعتبار سے یوسف ہے اور ماحول کے اعتبار سے یوسفِ بے کارواں۔ آج میں نے اس کے بے مثال حسن کی ایک جھلک اپنی انگلیاں کاٹ کر آپ کو دکھا دی ہے۔ اب انگلیاں کاٹنے کی باری آپ کی ہے۔ 
(عروضیا: ص ۱۰۴)

میں نے شروع میں کارٹون کی بات کی تھی۔ انور مسعود ہی کی کہی ہوئی ایک بات دہراتا ہوں کہ: شعر وہ ہے جو آپ کو چھیڑ دے، جس کے پیچھے ذہن یوں لپکے  جیسے بچہ تتلی کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اس چھیڑ کو مؤثر بنانے کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ  بات وقت کے حوالے سے کی جائے۔ اور مثالیں اور واقعات اس دور کے ہوں جس میں بات کی جا رہی ہے۔ یہاں زیرِ نظر کتاب سے کچھ ایسے اقتباسات پیش کروں گا جس میں فاضل خاکہ نگار انشائیے کے انداز میں موضوعات کو چھیڑتے ہوئے چلے جا رہے ہیں۔اور ملکی،  علاقائی اور بین الاقوامی حالات و واقعات کو اپنے خاکوں کے ساتھ منسلک بھی کرتے جاتے ہیں۔ لفظیات اور رعایاتِ لفظی و معنوی کی چاشنی اپنی جگہ اہم ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:

* آج کل کلنٹن تو اس طرح انٹرنیٹ پر چھایا ہوا ہے جس طرح امریکا پوری دنیا پر تسلط جمائے ہوئے ہے لیکن جس طرح امریکا دنیا بھر پر چھائے رہنے کے باوجود بدنام ہے اسی طرح کلنٹن بھی انٹرنیٹ پر ہر وقت موجود رہنے کے باوجود صرف اخلاق باختگی کا پیکر نظر آتا ہے۔ 
(جنابِ عالی: ص ۴۴)

* کسی خاتون کا خاکہ لکھنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ ایٹمی دھماکہ کرنا۔ ایٹمی دھماکہ کرنے سے پہلے جس طرح ہزار بار سوچنا پڑتا ہے، چاروں اطراف میں وفود بھیجنے پڑتے ہیں، رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے لے لئے جتن کرنے پڑتے  ہیں اور اس کے بعد جس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس طرح کے تابکاری  اثرات پھیلتے ہیں اور جس طرح تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے اس سے صرف دو شخصیات  واقف ہیں، اول الذکر میاں نواز شریف اور مؤخر الذکر یہ خاکسار۔ 
(آپی دھاپا: ص ۷۵)

* اس دوران آپ اسے سلام کر لیں، گالی دے لیں یا اس کے سامنے سے چپ چاپ گزر جائیں، وہ کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہیں کرے گا کیونکہ وہ اس وقت کسی قسم کا  ردِ عمل ظاہر کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہو گا۔ اور ایسا صرف اس لئے ہے کہ وہ اس  وقت ایسی کیفیت سے گزر رہا ہوتا ہے جس سے صرف ایک ماں، شاعر یا بھینس واقف ہیں۔ یہ  ماں شاعر اور بھینس کی مثلث میں نے ارادتاً بیان کی ہے کیونکہ ایک تو باپ، نثر نگار اور بھینسا بہر حال اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں اور فریقِ ثانی کی مذکورہ کیفیت کے دوران بھی مزے سے ڈکارتے رہتے ہیں، دوسرے بھینس انور مسعود کا محبوب استعارہ ہے۔ 
(مجمع باز: ص۳۵)

* سر تا سر مشکل ہی مشکل، سر بالخصوص مشکل، چہرے پر مشکل سی نیم متشرع داڑھی جو ہر مسلک اور ہر وضع کے لوگوں کو دھوکا دے جاتی ہے۔ شریعت، وضع داری اور دنیا داری کے اصولوں پر مرتّبہ یہ داڑھی اظہارالحق کے چہرے کا پہلا عکس ہے۔  داڑھی کے بعد آنے والی جزئیات اگرچہ زیادہ اسلام پسند نہیں مگر چونکہ ہمارے ہاں اسلام بتدریج نافذ ہو رہا ہے اس لئے پریشانی والی کوئی بات نہیں۔
(اظہار بھی مشکل ہے: ص۲۹)

سلمان باسط نے ہلکے پھلکے انداز میں مختلف شخصیات کا مطالعہ ایک انسان، ایک خاک کے پُتلے کے طور پر کیا ہے اور حتی الوسع فن کو نہیں چھیڑا۔ خاکہ  لکھتے ہوئے بھی وہ متانت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ انہوں نے انشائیہ کے انداز پر لفظیات بھی اپنی تراشی ہیں اور تشبیہات ایسی اختراع کی ہیں کہ وہ جہاں جمالیات کے روائتی تقاضوں کو پورا کرتی ہیں وہیں دورِ حاضر کے ادبی رویّوں کو بھی خوبی سے  اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں، اور سلمان باسط کی جدت طرازی کا مظہر ہیں۔ مثال کے طور پر: سردیوں کی اونگھتی ہوئی دوپہر، دو چار بے ترتیب زلفیں اور شعر پڑھنے کا لچکیلا  انداز، بورژوائی ترقی پسندی، خبردار قسم کی ناک، افسانوی قرضے، غلط العام الفاظ کا دلیرانہ درست استعمال، ایمان زدہ قلوب، شخصیت کا مقدور بھر تأثر، چنی سی انگریزی ... وغیرہ


خاکوں کے عنوانات کی معنویت اور ’’فردِ خاکہ‘‘ کے ساتھ اس کی مناسبت سلمان باسط کی قوّتِ مشاہدہ اور باریک بینی بلکہ چیرہ نگاہی کا بے مثل ثبوت ہیں۔ یہ کتاب چودہ افراد کے مطالعے کا ایسا مجموعہ ہے جو نہ صرف انشاء نگاری کی ایک خوبصورت مثال ہے، بلکہ خاکہ نگاری کی روائت میں ’’اگلا قدم‘‘ کہلانے کی بجا طور پر مستحق ہے۔ 

**********
محمد یعقوب آسیؔ   ۷؍ جون ۱۹۹۹ء 

بدھ، 16 ستمبر، 2015

اردو اور خوش گمانی (کالم)۔


اردو اور خوش گمانی

پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس  نے حکم جاری کر دیا  کہ اردو کو فوری طور پر تمام سرکاری اداروں اور دفاتر میں رائج کیا جائے اور آئین کی متعلقہ دفعات پر عمل درآمد کیا جائے۔ یہ بات  8 ستمبر 2015ء  کی ہے۔ اردو سے محبت کرنے والے دلوں میں خونِ تازہ دوڑا۔ معاشرے کے تقریباً ہر طبقے کی جانب سے چیف صاحب کے اس حکم کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا کہ چلئے، دیر آید درست آید۔ بعض حلقوں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا کہ چیف صاحب کا حکم نامہ بہر حال ایک تاریخی اقدام ہے۔ تاہم اس پر عمل درآمد ہو تو جانیں۔

اردو کے عشاق کے پاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ بات کچھ غلط بھی نہ تھی۔ اردو نے اسی سرزمین پر جنم لیا، اور پاؤں پاؤں چلنے سے لے کرسبک روی تک کی صلاحیت ایک ڈیڑھ صدی میں حاصل کر لی، یہ معمولی بات نہیں تھی۔ برِصغیر پاک و ہند میں بالعموم اور سرزمینِ وطن میں بالخصوص اردو کو ایسی پذیرائی ملی جس کی مثال ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ قیامِ پاکستان کا پہلا ریڈیائی اعلان اردو میں تھا۔ جس پر  اہلِ جذب کی آنکھیں اب بھی نم ہو جاتی ہیں، اگرچہ یہ تیسری  چوتھی نسل چل رہی ہے۔ ہمارے بزرگوں کی مسرتوں اور امیدوں کا کیا عالم رہا ہو گا!

مگر اس کو کیا کہئے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے تسلیم ہو گئے مگر ایک قومی زبان سے محروم رہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ اگر قدم بہ قدم بھی اردو کو اس کی قومی زبان کی حیثیت دی جاتی تو نقشہ بہت مختلف ہوتا۔ دونوں باباؤں کے اس دارِ فانی سے کوچ کر جانے کے بعد ہماری کیفیت ایسے بچوں کی تھی جن کا باپ مر جائے اور ان کے پاس رونے کے لئے بھی اپنی زبان نہ ہو۔ انگریز راج کا خاتمہ صرف چند عبارات تک محدود رہا، سرکاری اداروں میں خط و کتابت تک انگریزی ہی سے عبارت رہی۔ اس کے اثرات کہاں تک ہوتے ہیں یہ بہت بڑا موضوع ہے اور ایک محدود عریضے میں نہیں سمویا جا سکتا۔ اس یتیمانہ صورتِ حال کا ذمہ دار کون تھا کون نہیں تھا، یہ معاملہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ حاصل وہی سردمہری تھی  جس کا نوحہ ہم بیان کر رہے ہیں۔

ایک وقت آیا، برف  کچھ ٹوٹی اور 1973 کے آئین میں اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دے دیا گیا۔ اس کے باوجود پیش منظر میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں آئی۔ بارے ایک صدارتی فرمان جاری ہوا کہ "آج سے تمام سرکاری دفاتر میں اردو رائج کی جا رہی ہے" ولے، مذکورہ فرمان بجائے خود انگریزی زبان میں تھا۔

چیف صاحب کے  حکم نامے کے دن یعنی 8 ستمبر 2015ء کو کئی من چلوں نے "اردو کا دن" اور "قومی زبان کا دن" قرار دے دیا اور اس نعرے کو اپنا اپنا طغرہ بنا لیا (ان خوش گمانوں میں یہ فقیر بھی شامل ہے)۔ پڑھے لکھے لوگوں میں ایک بار پھر مباحث چل نکلے تاہم ماضی کی نسبت اب کی بار ان کا رُخ امید کی طرف غالب تھا۔  توقعات تھیں کہ وفاقی اور صوبائی سرکاریں اس معاملے میں پیش رفت کرتے ہوئے تفصیلی احکامات جاری کریں گی، اور اردو کے عملی نفاذ سے متعلقہ ذمہ داریاں تقسیم کی جائیں گی۔ بہت سارا کام جو پہلے سے ہو چکا ہے اس کو یک جا اور مرتب کیا جائے گا، اوربھی کتنے ہی کام ابھی کرنے کے ہیں۔

منگل 15 ستمبر 2015ء  کے اخبارات میں ایک وفاقی سرکاری ادارے (ایف بی آر) کی جانب سے ملازمتوں کا اشتہار شائع  ہوا ہے۔ اشتہار کے مندرجات کچھ انگریزی میں ہیں کچھ اردو میں۔  چلئے اس کے تو ہم عادی ہو چکے، اور رواں منظر نامے میں یہ کوئی ایسا سانحہ بھی نہیں سمجھا جا رہا جس پر شوروغوغا بپا ہو۔ اصل بات اس اشتہار میں مندرج کچھ چھوٹے درجے کی ملازمتیں، ان کے سکیل اور مطلوبہ تعلیمی اور فنی معیار ہے۔

ملازمتوں میں نمبر شمار (1)، (4)، (5) اور (6) خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں۔
نمبر شمار (1): سٹینو ٹائپسٹ۔ سکیل 14۔  مطلوبہ قابلیت: انٹرمیڈیٹ، شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کی رفتار بالترتیب 80 اور 40 لفظ فی منٹ،  کمپیوٹر خاص طور پر ایم ایس آفس میں کام کرنے کا اہل ہو۔
نمبر شمار (4): یو ڈی سی۔ سکیل 11۔  مطلوبہ قابلیت: انٹرمیڈیٹ، کمپیوٹر خاص طور پر ایم ایس آفس میں کام کرنے کا اہل ہو۔
نمبر شمار (5): ایل ڈی سی۔ سکیل 7۔  مطلوبہ قابلیت: میٹرک، ٹائپنگ سپید 30 لفظ فی منٹ
نمبر شمار (6): اردو ٹائپسٹ۔ سکیل 6۔  مطلوبہ قابلیت: انٹرمیڈیٹ، شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کی رفتار بالترتیب 80 اور 40 لفظ فی منٹ،  کمپیوٹر خاص طور پر ایم ایس آفس میں کام کرنے کا اہل ہو۔

ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ سٹینوٹائپسٹ (سکیل 14) اور اردو ٹائپسٹ (سکیل 6) کے لئے مطلوبہ قابلیت حرف بہ حرف برابر ہے (انٹرمیڈیٹ، ٹائپ، شارٹ ہینڈ، کمپیوٹر)، اور اس سے ایک سکیل زیادہ لوئر ڈویژن کلرک (سکیل 7) کے لئے مطلوبہ قابلیت محض میٹرک پاس اور 30 کی ٹائپ سپیڈ ہے۔  یہاں یہ یاد دلانا قطعاً غیر ضروری ہے کہ اردو شارٹ ہینڈ اور اردو ٹائپنگ انگریزی کی نسبت قدرے مشکل ہے۔ اس مشکل کے پیشِ نظر چاہئے تو یہ تھا کہ اگر آپ انگریزی کے سٹینو کو سکیل 14 دے رہے ہیں تو اردو کے سٹینو کو سکیل 15 تو دیں نا! پوسٹ کے نام میں بھی انگریزی والا سٹینو ٹائپسٹ اور اردو والا محض ٹائپسٹ!؟

اس رویے کو کیا نام دیجئے گا!؟ وفاقی سرکاری مشینری میں اردو کے ساتھ یہ امتیازی سلوک عوام الناس میں اردو کی محبت کو کتنا بڑھائے گا؟  یہی؟ کہ چھوڑو یار! انٹرمیڈیٹ کے بعد اردو ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھ کر سکیل 6 کی نوکری کی اہلیت بنتی ہے اور انگریزی میں یہی کچھ کر کے سکیل 14 کی۔  کیا کرو گے اردو سیکھ کر؟ ۔ اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک عام آدمی کی ترجیحات روٹی سے وابستہ ہوتی ہیں۔

سرکاری اداروں میں ملازمتوں کے قواعد سب جگہ یکساں ہوتے ہیں۔ وفاقی سرکاری ادارے اردو کے ساتھ ایسا غیرمنصفانہ رویہ روا رکھیں گے تو دوسروں سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں! افراد اور ادارے ہمیشہ سرکار کے پیچھے پیچھے چلا کرتے ہیں۔ یقین رہے کہ ہر باشعور پاکستانی اردو زبان سے جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔ تاہم اردو کو عملاً نافذ کرنے کا کام افراد کے بس کا روگ نہیں، یہ سرکار کے کرنے کا کام ہے۔ سرکار کو چاہئے کہ اردو کی ترویج کے لئے قواعد کو سازگار بنائے۔ ایسا ہو جائے تو عدالتِ عظمیٰ کے حکم کی تعمیل میں بھی آسانی ہو گی اور معاشی حوالے سے اردو کی طرف عوامی رجحان میں بھی اضافہ ہو گا

امید رکھنی چاہئے کہ اعلیٰ اختیاراتی سرکاری ادارے اردو کے حلقوم سے انگوٹھا ہٹانے میں ممد  و معاون ثابت ہوں گے اور عدالتِ عظمیٰ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے جملہ سرکاری اداروں کو ضروری ہدایت جاری کرے گی اور ملازمتوں کے قوانین میں فوری طور پر مؤثر تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ خوش گمانی بری چیز بھی تو نہیں!

منگل 8 ستمبر 2015ء: اردو کا دِن، قومی زبان کا دِن! پاکستان زندہ باد!


بدرِ احمر کے قلم سے  ۔۔۔ بدھ 16 ستمبر 2015ء